• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم (یونیکوڈ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حديث سميٍ مولى أبي بكر بن عبد الرحمن عن أبي صالح

428- مالكٌ عن سمي مولى أبي بكرٍ عن أبي صالحٍ السمان عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح في الساعة الأولى فكأنما قرب بدنةً ، ومن راح في الساعة الثانية فكأنما قرب بقرةً ، ومن راح في الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشاً أقرن ، ومن راح في الساعة الرابعة فكأنما قرب دجاجةً ، ومن راح في الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضةً ، فإذا خرج الإمام سیدنا الملائكة يستمعون الذكر) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی جمعہ کے دن غسل جنابت کرے پھر پہلے وقت میں( نماز جمعہ کے لئے ) جائے تو گویا اس نے اونٹ کی قربانی پیش کی اور جو دوسرے وقت میں جائے تو گویا اس نے گائے کی قربانی پیش کی اور جو تیسرے وقت میں جائے تو گویا اس نے سینگوں والے مینڈھے کی قربانی پیش کی اور جو چوتھے وقت میں جائے تو گویا اس نے ایک مرغی قربان کی اور جو پانچویں وقت میں جائے تو گویا اس نے ایک انڈا بطورقربانی پیش کیا پھر جب امام ( خطبے کے لئے ) نکلتا ہے تو فرشتے ( رجسٹر بند کرکے خطبہ) ذکر سننے کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«428- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 101/1 ح 223 ، ك 5 ب 1 ح 1) التمهيد 21/22 ، 22 ، الاستذكار : 195
و أخرجه البخاري (881) ومسلم (850) من حديث مالك به»
------------------
429- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إذا قال الإمام : ”غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ“ ، فقولوا آمين ؛ فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب امام «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ» کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول سے مل جائے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔

سندہ صحیح

« 429- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 87/1 ح 192 ، ك 3 ب 11 ح 45) التمهيد 15/22 ، الاستذكار : 168
و أخرجه البخاري (782) من حديث مالك به»
------------------
430- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( ( إذا قال الإمام : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، فقولوا : اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب امام «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ »کہے تو تم سب «اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہو کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول سے مل جائے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«430- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 88/1 ح 194 ، ك 3 ب 11 ح 47) التمهيد 31/22 ، الاستذكار : 476/1 ح 169
و أخرجه البخاري (796) ومسلم (409) من حديث مالك به»
------------------
431- وبه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من قال : لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيءٍ قديرٌ في يومٍ مئة مرة ، كانت له عدل عشر رقابٍ وكتب الله له مئة حسنةٍ ومحيت عنه مئة سيئةٍ وكانت له حرزاً من الشيطان يومه ذلك ، حتى يمسي ولم يأت أحدٌ بأفضل مما جاء به إلا أحدٌ عمل أكثر من ذلك. ومن قال : سبحان الله وبحمده في يومٍ مئة مرةٍ ، حطت خطاياه وإن كانت مثل زبد البحر) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی دن میں سو دفعہ « لَاإِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ » کہے تو اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ، اللہ اس کے لئے سو نیکیاں لکھتا ہے اور اس کے سو گناہ ( معاف کرکے ) مٹا دئیے جاتے ہیں ۔ یہ ( کلمات) اس کے لئے اس دن شام تک شیطان سے بچاؤ کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور کوئی آدمی اس سے افضل عمل والا نہیں ہوتا سوائے اس شخص کے جو اس سے زیادہ عمل کرے ۔ اور جس شخص نے دن میں سو مرتبہ «سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ» پڑھا تو اس کے گناہ ختم ( معاف) کر دئیے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«431- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 209/1 ، 210 ح 490 ، ك 15 ب 7 ح 20) التمهيد 19/22 ، الاستذكار : 458
و أخرجه البخاري (3293) ومسلم (2691) من حديث مالك به»
------------------
432- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (العمرة إلى العمرة كفارةٌ لما بينهما والحج المبرور ليس له جزاءٌ إلا الجنة) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک عمرہ دوسرے عمرے تک ( صغیرہ گناہوں کا) کفارہ ہوتا ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«432- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 346/1 ح 783 ، ك 20 ب 21 ح 65) التمهيد 38/22 ، الاستذكار : 733
و أخرجه البخاري (1773) ومسلم (1349) من حديث مالك به»
------------------
433- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (بينما رجلٌ يمشي بطريقٍ إذ وجد غصن شوكٍ على الطريق فأخره ، فشكر الله له فغفر له. وقال : الشهداء خمسةٌ : المطعون والمبطون والغرق وصاحب الهدم والشهيد في سبيل الله. وقال : لو يعلم الناس ما في النداء والصف الأول ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا ، عليه لاستهموا ولو يعلمون ما في التهجير لاستبقوا إليه ولو يعلمون ما في العتمة والصبح لآتوهما ولو حبواً) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک آدمی ایک راستے پر چل رہا تھا کہ اس نے راستے پر کانٹوں والی ٹہنی دیکھی تو اسے راستے سے ہٹادیا ۔ اللہ نے اس کی قدردارنی کی اور اسے بخش دیا ۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پانچ قسم کے لوگ شہید ہیں : طاعون سے مرنے والا ، پیت کی بیماری سے مرنے والا ، ڈوب کر مرنے والا ، مکان گرنے سے مرنے والا اور اللہ کے راستے میں شہید ہونے والا ۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ اذان اور پہلی صف میں کیا ( ثواب) ہے ، پھر وہ قرعہ اندازی کے سوا کوئی چارہ نہ پاتے تو قرعہ اندازی کرتے ۔
اور اگر وہ جانتے کہ ظہر کی نماز کے لئے جلدی آنے میں کتنا ( ثواب) ہے تو ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور اگر وہ جانتے کہ عشاء اور صبح کی نماز میں کیا ( ثواب) ہے تو ضرور آتے اگرچہ انہیں گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آنا پڑتا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«433- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 131/1 ح 291 ، ك 8 ب 2 ح 6) التمهيد 11/22 ، الاستذكار : 260 ، 261
و أخرجه البخاري (652-654) ومسلم (1914 ، 437) من حديث مالك به ببعض الاختلاف»
------------------
434- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (بينما رجلٌ يمشي بطريقٍ اشتد عليه العطش فوجد بئراً فنزل فيها فشرب فخرج ، فإذا هو بكلبٍ يلهث يأكل الثرى من العطش ، فقال الرجل : لقد بلغ هذا الكلب من العطش مثل الذي بلغني ، فنزل البئر فملأ خفه ثم أمسكه بفيه حتى رقي فسقى الكلب فشكر الله له فغفر له) ) قال : ( (يا رسول الله ، إن لنا في البهائم لأجراً؟ فقال : في كل ذات كبدٍ رطبةٍ أجرٌ) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک آدمی ایک راستے پر چل رہا تھا کہ اسے شدید پیاس لگی پھر اس نے ایک کنواں دیکھا تو اس میں اتر کر پانی پیا پھر جب باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا زبان نکالے پیاس کی وجہ سے کیچڑ کھا رہا ہے ۔ اس آدمی نے کہا: جس طرح مجھے شدید پیاس لگی تھی اس کتے کو بھی پیاس لگی ہوئی ہے پھر کنویں میں اترا تو اپنے جوتے کو پانی سے بھر لیا پھر اسے اپنے منہ میں پکڑا حتیٰ کہ اوپر چڑھ آیا پھر کتے کو پانی پلایا تو اللہ نے اس کی قدردانی کی اور اسے بخش دیا ۔ لوگوں نے کہا: یا رسول الله ! کیا ہمیں جانوروں کے بارے میں بھی اجر ملے گا ؟ تو آپ نے فرمایا : ہر زندہ جگر والے کے بارے میں اجر ہے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«434- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 929/2 ، 930 ح 1793 ، ك 49 ب 10 ح 23) التمهيد 8/22 ، الاستذكار : 1726
و أخرجه البخاري (2363) ومسلم (2244/153) من حديث مالك به
من رواية يحي بن يحي»
------------------
435- وبه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (السفر قطعةٌ من العذاب يمنع أحدكم نومه وطعامه وشرابه فإذا قضى أحدكم نهمته من وجهه فليعجل إلى أهله) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے ، وہ آدمی کو اس کی نیند ، کھانے اور پینے سے روک دیتا ہے پس جو شخص ( سفر سے ) اپنا مقصد پورا کر لے تو اسے چاہئے کہ جلدی گھر واپس لوٹ آئے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«435- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 980/2 ح 1901 ، ك 54 ب 15 ح 39) التمهيد 33/22 ، الاستذكار : 1837
و أخرجه البخاري (1804) ومسلم (1927) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو بكر بن عبد الرحمن
ثلاثة أحاديث
436- وعن سمي مولى أبي بكر بن عبد الرحمن عن أبي بكر بن عبد الرحمن عن عائشة وأم سلمة زوجي النبي صلى الله عليه وسلم أنهما قالتا : إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصبح جنباً من جماعٍ غير احتلامٍ ثم يصوم.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیویوں عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احتلام کے بغیر جماع سے جنبی حالت میں صبح کرتے ، پھر روزہ رکھتے تھے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

« 436- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 291/1 ح 650 ، ك 18 ب 4 ح 12) التمهيد 46/22 ، الاستذكار : 600
و أخرجه البخاري (1925 ، 1926) ومسلم (1931 ، 1932) من حديث مالك به»
------------------
437- وعنه أنه سمع أبا بكر بن عبد الرحمن يقول : كنت أنا وأبي عند مروان ابن الحكم وهو أمير المدينة ، فذكر له أن أبا هريرة يقول : من أصبح جنباً أفطر ذلك اليوم ، فقال مروان : أقسمت عليك يا أبا عبد الرحمن ، لتذهبن إلى أمي المؤمنين عائشة وأم سلمة فلتسألنهما عن ذلك ، قال : فذهب عبد الرحمن وذهبت معه حتى دخلنا على عائشة ، فسلم عليها عبد الرحمن ثم قال : يا أم المؤمنين ، إنا كنا عند مروان بن الحكم ، فذكر له أن أبا هريرة يقول ، من أصبح جنباً أفطر ذلك اليوم ، فقالت عائشة : ليس كما قال أبو هريرة يا عبد الرحمن ، أترغب عما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع؟ ، فقال عبد الرحمن : لا والله ، فقالت : فاشهد على رسول الله صلى الله عليه وسلم أن كان ليصبح جنباً من جماعٍ غير احتلامٍ ثم يصوم ذلك اليوم ؛ قال : ثم خرجنا حتى دخلنا على أم سلمة فسألها ، فقالت كما قالت عائشة : قال : فخرجنا حتى جئنا مروان بن الحكم فذكر له عبد الرحمن ما قالتا ، فقال له مروان : أقسمت عليك يا أبا محمد ، لتركبن دابتي فإنها بالباب ، فلتذهبن إلى أبي هريرة فإنه بأرضه بالعقيق فلتخبرنه ذلك ، قال : فركب ، عبد الرحمن وركبت معه حتى أتينا أبا هريرة ، فتحدث معه عبد الرحمن ساعةً ثم ذكر ذلك له ، فقال أبو هريرة : لا علم لي بذلك ، إنما أخبرنيه مخبرٌ.

ابوبکر بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد دونوں مروان بن حکم کے پاس جن دنوں وہ مدینے کے امیر تھے ( بیٹھے ہوئے ) تھے ۔ مروان کو بتایا گیا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جو شخص حالت جنابت میں صبح کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ مروان نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن ! میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ ام المؤمنین عائشہ اور ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہن کے پاس جا کران سے مسئلہ پوچھیں ۔ پھر ( میرے والد) عبدالرحمٰن اور میں دونوں گئے حتیٰ کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے تو عبدالرحمٰن نے انہیں سلام کیا پھر کہا: اے ام المؤمنین ! ہم مروان بن حکم کے پاس تھے کہ اسے بتایا گیا کہ ابوہریرہ فرماتے ہیں : جو شخص حالت جنابت میں صبح کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اے عبدالرحمٰن ! ایسی بات نہیں ہے جیسی کہ ابوہریرہ نے کہی ہے ۔ کیا تم اس عمل سے منہ پھیرو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے ؟ عبدالرحمٰن نے کہا: اللہ کی قسم ! ہرگز نہیں تو انہوں نے فرمایا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتی ہوں کہ آپ احتلام کے بغیر حالت جنابت میں صبح کرتے تھے پھر اس دن کا روزہ رکھتے تھے ۔ پھر ہم وہاں سے نکل کر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا: تو انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تھا ۔ پھر ہم وہاں سے نکل کر مروان بن حکم کے پاس آئے تو عبدالرحمٰن نے انہیں بتایا کہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن نے یہ فرمایا ہے ۔ مروان نے کہا: اے ابومحمد ! تمہیں قسم دیتا ہوں کہ میرے اس جانور پر سوار ہو جاؤ جو دروازے کے باہر ( کھڑا) ہے ۔ پھر تم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاو¿ اور انہیں یہ بات بتاؤ ، وہ عقیق کے مقام پر اپنی زمین میں ( مصروف) ہیں ۔ پھر ( میرے والد) عبدالرحمٰن اور میں سوار ہو کر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو کچھ دیر عبدالرحمٰن ان کے ساتھ باتیں کرتے رہے پھر انہیں یہ بات بتائی توسیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ؛ مجھے ( بذات خود) اس کا کوئی علم نہیں ہے ، مجھے تو یہ بات ایک بتانے والے ( یعنی سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ ) نے بتائی تھی ۔

سندہ صحیح

«437- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 290/1 ، 291 ح 649 ، ك 18 ب 4 ح 11) التمهيد 39/22 ، 40 الاستذكار : 599
و أخرجه البخاري (1925 ، 1926) من حديث مالك به ورواه مسلم (1109/75) من حديث ابي بكر بن عبدالرحمٰن به »
------------------
438- وعن أبي بكر بن عبد الرحمن عن بعض أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر الناس في سفره عام الفتح بالفطر ، وقال : ( (تقووا لعدوكم) ) وصام رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال أبو بكرٍ : قال الذي حدثني : قد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعرج يصب على رأسه الماء من العطش أو من الحر ، ثم قيل : يا رسول الله إن طائفةً من الناس صاموا حين صمت فلما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم بالكديد دعا بقدح ماءٍ فشرب وأفطر الناس معه.
كمل حديث سمي وهو أحد عشر حديثاً.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے سال اپنے سفر میں لوگوں کو حکم دیا کہ روزے نہ رکھو ، اور فرمایا : دشمنوں کے مقابلے میں طاقت حاصل کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا ۔ ابوبکر ( بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ) نے کہا: جس نے مجھے یہ حدیث بیان کی ، اس نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرج کے مقام پر دیکھا کہ پیاس یا گرمی کی وجہ سے آپ کے سر پر پانی ڈالا جا رہا ہے ۔ پھر کہاگیا : یا رسول اللہ ! آپ نے روزہ رکھا ہے تو لوگوں میں سے ایک گروہ نے بھی روزہ رکھا ہے ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کدید کے مقام پر پہنچے تو پانی کا ایک پیالہ منگوایا پھر آپ نے پانی پیا اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ روزہ افطار کر لیا ۔
سُمی ( رحمہ اللہ) کی بیان کردہ حدیثیں مکمل ہوئیں اور وہ گیارہ حدیثیں ہیں ۔

سندہ صحیح

«438- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 294/1 ح 660 ، ك 18 ب 7 ح 22) التمهيد 47/22 الاستذكار : 610
و أخرجه أبوداود (2365) و أحمد (475/3) من حديث مالك به وصححه ابن عبدالبر في التمهيد (47/22) ولبعض الحديث شاهد في صحيح مسلم (1114) »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حديث سهيل بن أبي صالحٍ
وهو تسعة أحاديث
439- مالكٌ عن سهيل بن أبي صالحٍ عن أبيه عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إذا توضأ العبد المسلم أو المؤمن فغسل وجهه خرجت من وجهه خرجت من وجهه كل خطيئةٍ نظر إليها بعينيه مع الماء أو مع آخر قطر الماء أو نحو هذا ، فإذا غسل يديه خرجت من يديه كل خطيئة بطشتها يداه مع الماء أو مع آخر قطر الماء ، فإذا غسل رجليه خرجت كل خطيئةٍ مشتها رجلاه مع الماء أو مع آخر قطر الماء ، حتى يخرج نقياً من الذنوب) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب مسلمان یا مؤمن بندہ وضو کرتا ہے تو اس کی آنکھوں کے ذریعے سے ( دیکھنے کی صورت میں) جو گناہ سرزد ہوئے وہ چہرے سے پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطروں کے ساتھ نکل جاتے ہیں یا اسی طرح آپ نے فرمایا ۔ پھر جب دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھوں سے اس نے جو گناہ کئے تھے وہ پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطروں کے ساتھ نکل جاتے ہیں ۔ پھر جب وہ دونوں پاؤں دھوتا ہے تو پاؤں سے اس نے جو گناہ کئے تھے وہ پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطروں کے ساتھ نکل جاتے ہیں حتیٰ کہ وہ گناہوں سے با لکل پاک صاف ہو کر نکلتا ہے ۔

سندہ صحیح

«439- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 32/1 ح 60 ، ك 2 ب 6 ح 31) التمهيد 260/21 ، الاستذكار : 54
و أخرجه مسلم (244) من حديث مالك به
وفي رواية يحي بن يحي : ” بِعَيْنَيْهِ“ ۔ »
------------------
440- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من حلف بيمين فرأى خيراً منها فليكفر عن يمينه وليفعل) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی کسی بات کی قسم کھائے پھر دیکھے کہ دوسری بات بہتر ہے تو وہ اپنی قسم کا کفارہ دے کر دوسری بات کرے ۔

سندہ صحیح

«440- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 478/2 ح 1052 ، ك 22 ب 7 ح 11 ، ولفظه : ( (من حلف بيمين فرأي غيرها خيراً منها فليكفّر عن يمينه وليفعل الذي هو خير) ) ) التمهيد 243/21 ، الاستذكار : 987
و أخرجه مسلم (1650/12) من حديث مالك به»
------------------
441- وبه : عن أبي هريرة : أن سعد بن عبادة قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم : أرأيت إن وجدت مع امرأتي رجلاً أمهله حتى آتي بأربعةٍ؟ قال : ( (نعم) ) .

اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو دیکھوں تو چار گواہ لانے تک اسے مہلت دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں !

سندہ صحیح

«441- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 737/2 ح 1485 ، ك 36 ب 19 ح 17 ، 823/2 ح 1598 ، ك 41 ب 1 ح 7) التمهيد 253/21 ، الاستذكار : 1409
و أخرجه مسلم (1498/15) من حديث مالك به»
------------------
442- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إذا سمعت الرجل يقول : هلك الناس ، فهو أهلكهم) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم کسی آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ لوگ ہلاک ہو گئے تو وہ خود سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے ۔

سندہ صحیح

«442- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 984/2 ح 1911 ، ك 56 ب 1 ح 2) التمهيد 242/21 ، الاستذكار : 1847
و أخرجه مسلم (2623) من حديث مالك به»
------------------
443- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (تفتح أبواب ا لجنة يوم الاثنين ويوم الخميس ، فيغفر لكل عبدٍ لا يشرك بالله شيئاً إلا رجلاً كانت بينه وبين أخيه شحناء ، فيقال : أنظروا هذين حتى يصطلحا) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت کے دروازے پیر اور جمعرات کو کھولے جاتے ہیں پھر ہر اس ( مسلمان) بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی چیز میں شرک نہیں کرتا تھا سوائے اس آدمی کے جو اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان دشمنی رکھتا ہے ۔ پھر کہا جاتا ہے : ان دونوں کو پیچھے ہٹاؤ ( مہلت دو) حتیٰ کہ یہ صلح کر لیں ۔

سندہ صحیح

«443- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 908/2 ح 1751 ، ك 47 ب 4 ح 17) التمهيد 262/21 ، الاستذكار : 1683
و أخرجه مسلم (2565) من حديث مالك به»
------------------
444- وبه : أن رجلاً من أسلم قال : ما نمت هذه الليلة ، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (من أي شيءٍ؟) ) فقال : لدغتني عقربٌ ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (أما إنك لو قلت حين أمسيت : أعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق ، لم تضرك إن شاء الله) ) .

اسلم ( قبیلے ) کے ایک آدمی سے روایت ہے کہ ایک رات میں سو نہ سکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کس وجہ سے ؟ اس نے کہا: مجھے بچھونے کاٹا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم شام کے وقت «أَمَا إِنَّكَ لَوْ قُلْتَ حِينَ أَمْسَيْتَ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، لَمْ تَضُرَّكَ» میں اللہ کے پورے کلمات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں اس کے شر سے جو اس نے پیدا کیا ۔ پڑھتے تو ان شاءاللہ تجھے کوئی نقصان نہ ہوتا ۔

سندہ صحیح

« 444- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 951/2 ح 1838 ، ك 51 ب 4 ح 11) التمهيد 241/21 ، الاستذكار : 1774
و أخرجه أحمد (375/2) والبخاري في خلق افعال العباد (58) والنسائي ( السنن الكبريٰ : 10425 ، عمل اليوم والليلة : 589) من حديث مالك به ورواه مسلم (2709/55) من حديث ابي صالح به نحو المعنيٰ »
------------------
445- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أضاف ضيفاً كافراً ، فأمر له رسول الله صلى الله عليه وسلم بشاةٍ فحلبت فشرب حلابها ، ثم أخرى فشربه ثم أخرى فشربه حتى شرب حلاب سبع شياهٍ. ثم إنه أصبح فأسلم ، فأمر له رسول الله صلى الله عليه وسلم بشاةٍ فحلبت فشرب حلابها ، ثم أمر له بأخرى فلم يستتمها ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إن المؤمن يشرب في معىً واحدٍ ، والكافر يشرب في سبعة أمعاءٍ) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کافر کی میزبانی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ، ایک بکری کا دودھ دوھا گیا تو اس ( کافر) نے ( سارا) دودھ پی لیا پھر دوسری کو دوھا گیا تو اس نے ( سارا) پی لیا پھر تیسری کو دوھا گیا تو اس نے پی لیا ۔ حتیٰ کہ سات بکریوں کا دودھ اس نے پی لیا پھر جب صبح ہوئی تو وہ مسلمان ہو گیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ایک بکری کا دودھ نکالا گیا تو اس نے پی لیا پھر دوسری کا دودھ لایا گیا تو وہ پی نہ سکا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں پیتا ہے ۔

سندہ صحیح

«445- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي924/2 ح 1781 ، ك 49 ب 6 ح 10) التمهيد 263/21 ، الاستذكار : 1713
و أخرجه مسلم (2063) من حديث مالك به
من رواية يحي بن يحي وجاء في الأصل : ” يَسْتَمِتَّهَا“ ۔ »
------------------
446- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إذا أحب الله العبد قال : يا جبريل ، قد أحببت فلاناً فأحبه ، فيحبه جبريل ، ثم ينادي في أهل السماء : ألا ، إن الله قد أحب فلاناً فأحبوه ، فيحبه أهل السماء ، ثم يوضع له القبول في الأرض. وإذا أبغض العبد) ) قال مالكٌ : لا أحسبه إلا قال في البغض مثل ذلك.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو کہتا ہے : اے جبریل ! میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو تو جبریل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں پھر وہ آسمان والوں میں منادی کرتے ہیں کہ سنو ! بے شک اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے اس شخص سے محبت کرتے ہیں پھر اسے زمین میں ( اہل ایمان کے نزدیک) مقبولیت حاصل ہوتی ہے ۔ اور جب ( اللہ) کسی شخص سے بغض کرتا ہے تو ۔ ۔ ۔
امام مالک نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ اسی طرح کی بات بغض کے بارے میں بھی ہے ۔ یعنی اللہ اس سے بغض کرتا ہے ۔ إلخ

سندہ صحیح
متفق عليه

«446- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 953/2 ح 1842 ، ك 51 ب 5 ح 15) التمهيد 237/21 ، الاستذكار : 1778
و أخرجه مسلم (2637/157) من حديث مالك به ورواه البخاري (7485) من حديث ابي صالح به ۔ »
------------------
447- وبه : قال كان الناس إذا رأوا أول الثمر جاؤوا به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فإذا أخذه رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( ( اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي ثَمَرِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَنَبِيُّكَ، وَإِنِّي عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ، وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَإِنِّي أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ بِهِ لِمَكَّةَ، وَمِثْلَهُ مَعَهُ) ) قال : ثم يدعو أصغر وليدٍ يراه فيعطيه ذلك الثمر.
كمل حديث سهيلٍ وهو تسعة أحاديث.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ لوگ جب پہلا پھل دیکھتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لیتے تو فرماتے : «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي ثَمَرِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَنَبِيُّكَ، وَإِنِّي عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ، وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَإِنِّي أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ بِهِ لِمَكَّةَ، وَمِثْلَهُ مَعَهُ» اے اللہ ! ہمارے لئے پھلوں میں برکت ڈال ، اور ہمارے لئے ہمارے مدینے میں برکت ڈال ، اور ہمارے صاع میں برکت ڈال اور ہمارے مد میں برکت ڈال ۔ اے اللہ ! تیرے بندے ، خلیل اور نبی ابراہیم علیہ السلام نے مکے کے لئے دعا کی اور میں تیرا بندہ اور نبی مدینے کے لئے اسی طرح دعا کرتا ہوں جیسے انہوں نے مکے کے لئے اور اس جیسی دعا کی ۔ پھر آپ سب سے چھوٹا بچہ بلاتے اور اسے یہ پھل دے دیتے تھے ۔
سہیل ( بن ابی صالح) کی ( بیان کردہ) حدیثیں مکمل ہوئیں اور وہ نو ( ۹) حدیثیں ہیں ۔

سندہ صحیح

«447- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 885/2 ح 1702 ، ك 45 ب 1 ح 2) التمهيد 266/21 ، 267 ، الاستذكار : 1631
و أخرجه مسلم (1373) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
باب الشين
واحدٌ
شريكٌ
حديثٌ واحدٌ
حديثٌ واحدٌ
448- مالكٌ عن شريك بن عبد الله بن أبي نمرٍ عن أنس بن مالك قال : جاء رجلٌ إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله هلكت المواشي وانقطعت السبل فادع الله ، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : فمطرنا من الجمعة إلى الجمعة ، قال : فجاء رجلٌ إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ، تهدمت البيوت وانقطعت السبل وهلكت المواشي ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( (اللهم على رؤوس الجبال والآكام وبطون الأودية ومنابت الشجر) ) قال : فانجابت عن المدينة انجياب الثوب.

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ ! مویشی ہلاک ہوگئے اور راستے بند ہوگئے لہٰذا آپ دعا فرمائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ پھر جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک ( مسلسل) بارش جاری رہی ۔ پھر اس آدمی نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ ! گھر گر گئے ، راستے بند ہوگئے اور مویشی ہلاک ہو گئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا : اے اللہ ! اسے پہاڑوں کی چوٹیوں ، ٹیلوں ، وادیوں کے درمیان اور درختوں کے اگنے کی جگہ پر برسا ۔ پھر مدینے سے بادل اس طرح چھٹ گئے جس طرح کپڑا پھٹ جاتا ہے ۔

سندہ صحیح

« 448- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 191/1 ح 451 ، ك 13 ب 2 ح 3) التمهيد 61/22 ، الاستذكار : 420
و أخرجه البخاري (1016 ، 1017) من حديث مالك به »
------------------
حديث هشام بن عروة
ثلاثةٌ لجميعهم ستةٌ وثلاثون حديثاً
449- مالكٌ عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا اغتسل من الجنابة ، بدأ فغسل يديه ، ثم توضأ كما يتوضأ للصلاة ، ثم يدخل أصابعه في الماء فيخلل بها أصول شعره ، ثم يصب على رأسه ثلاث غرفاتٍ بيديه ثم يفيض الماء على جلده كله.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت فرماتے تو ابتدا میں دونوں ہاتھ دھوتے پھر نماز جیسا وضو کرتے پھر اپنی انگلیاں پانی میں داخل کرکے بالوں کی جڑوں تک خلال کرتے پھر اپنے ہاتھ کے ساتھ سر پر تین دفعہ پانی ڈالتے پھر سارے جسم پر پانی بہاتے تھے ۔

سندہ صحیح

« 449- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 44/1 ح 96 ، ك 2 ب 17 ح 67) التمهيد 92/22 ، الاستذكار : 83
و أخرجه البخاري (248) من حديث مالك به ورواه مسلم (316) من طريق آخر عن هشام بن عروه به وصرح بالسماع عنده وهو بري من التدليس والحمد للہ »
------------------
450- وبه : أنها كانت تقول : كنت اغتسل أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناءٍ واحدٍ.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ) روایت ہے کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن سے غسل کرتے تھے ۔

سندہ صحیح

«450- الموطأ (رواية ابي مصعب : 145)
و أخرجه النسائي (128/1 ح 233 ، 201/1 ح 411) والجوهري في مسند الموطأ (740) من حديث مالك به ورواه البخاري (7339) من حديث هشام بن عروه به نحو المعني بالفاظ أخريٰ ۔ وصرح هشام بالسماع عند أحمد (193/6 ح 25608) وهو بري من التدليس كما تقدم في الحديث السابق : 449»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
451- وبه : أنها قالت : قالت فاطمة ابنة أبي حبيشٍ لرسول الله صلى الله عليه وسلم : إني لا أطهر ، أفأدع الصلاة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إنما ذلك عرقٌ وليس بالحيضة ، فإذا أقبلت الحيضة فاتركي الصلاة ، فإذا ذهب قدرها فاغسلي الدم عنك وصلي) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں پاک ہی نہیں ہوتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ رگ ( کا خون) ہے حیض نہیں ہے ۔ جب حیض ( کا وقت) آئے تو نماز چھوڑ دو پھر جب اس کے حساب سے دن گزر جائیں تو اپنے سے خون دھوکر نماز پڑھو ۔

سندہ صحیح

« 451- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 61/1 ح 132 ، ك 2 ب 29 ح 104) التمهيد 102/22 ، 103 الاستذكار : 111
و أخرجه البخاري (306) من حديث مالك به
وفي رواية يحي بن يحي : ” لَيْسَتْ“ ۔ »
------------------
452- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إذا نعس أحدكم في الصلاة فليرقد حتى يذهب عنه النوم ، فإن أحدكم إذا صلى وهو ناعسٌ لعله يذهب يستغفر فيسب نفسه) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو نماز میں اونگھ آنے لگے تو سو جائے تاکہ اس سے نیند کا اثر ختم ہو جائے کیونکہ اگر کوئی شخص اونگھ کی حالت میں نماز پڑھے گا تو ہو سکتا ہے کہ وہ استغفار کے بجائے اپنے آپ کو بد دعائیں دینا شروع کر دے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«452- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 118/1 ح 256 ، ك 7 ب 1 ح 3) التمهيد 117/22 ، الاستذكار : 227
و أخرجه البخاري (212) ومسلم (786) من حديث مالك به»
------------------
453- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (مروا أبا بكرٍ فليصل للناس ) ) فقالت عائشة : يا رسول الله ، إن أبا بكرٍ إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء ، فأمر عمر فليصل للناس ، فقال : ( (مروا أبا بكرٍ فليصل للناس) ) . فقالت عائشة : فقلت لحفصة : قولي له : إن أبا بكرٍ إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء ، فأمر عمر فليصل للناس ، ففعلت حفصة ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (مه إنكن لأنتن صواحبات يوسف ، مروا أبا بكر فليصل بالناس) ) فقالت حفصة لعائشة : ما كنت لأصيب منك خيراً.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنی آخری بیماری میں) فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ ! یقینا جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو آواز نہیں سنا سکیں گے آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو آپ نے فرمایا : ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ انہیں کہیں کہ اگر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو آواز نہیں سنا سکیں گے لہٰذا آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایسی باتیں نہ کرو ، تم ان عورتوں کی طرح ہو جو یوسف علیہ السلام کے بارے میں اکٹھی ہوئی تھیں ، ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو سیدہ حفصہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ کی طرف سے مجھے کبھی خیر نہیں پہنچی ۔

سندہ صحیح

«453- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 170/1 ، 171 ح 413 ، ك 9 ب 24 ح 83) التمهيد 123/22 ، الاستذكار : 383
و أخرجه البخاري (679) من حديث مالك به
وفي رواية يحي بن يحي : ” فَمُرْ“ ۔ »
------------------
454- وبه : أنها قالت : صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيته وهو شاكٍ ، فصلى جالساً وصلى وراءه قومٌ قياماً ، فأشار إليهم أن اجلسوا ، فلما انصرف قال : ( (إنما جعل الإمام ليؤتم به ، فإذا ركع فاركعوا ، وإذا رفع فارفعوا ، وإذا صلى جالساً فصلوا جلوساً) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور آپ بیمار تھے ۔ لوگوں نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنی شروع کر دی تو آپ نے اشارے سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ ۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ، جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو ، جب وہ ( رکوع سے) سر اٹھائے تو تم سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم ( بھی) بیٹھ کر نماز پڑھو ۔

سندہ صحیح

« 454- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 135/1 ح 303 ، ك 8 ب 5 ح 17) التمهيد 121/22 ، الاستذكار : 272
و أخرجه البخاري (688) من حديث مالك به»
------------------
455- وبه : أنها أخبرته أنها لم تر رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلاة الليل قاعداً قط حتى أسن ، فكان يقرأ قاعداً ، حتى إذا أراد أن يركع قام فقرأ نحواً من ثلاثين أو أربعين آية ، ثم ركع.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی نماز کبھی بیٹھ کر پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا حتیٰ کہ جب آپ بڑی عمر کے ہوئے تو آپ بیٹھ کر قرأت کرتے ، پھر جب آپ رکوع کا رادہ کرتے تو کھڑے ہو کر تیس یا چالیس کے قریب آیتیں پڑھتے پھر رکوع کرتے تھے ۔

سندہ صحیح

«455- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 137/1 ح 308 ، ك 8 ب 7 ح 22) التمهيد 121/22 ، الاستذكار : 278
و أخرجه البخاري (1118) من حديث مالك به»
------------------
456- وبه : أنها قالت : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالليل ثلاث عشرة ركعةً ، ثم يصلي إذا سمع النداء بالصبح ركعتين خفيفتين.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے پھر جب صبح کی اذان ہوتی تو دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے ۔

سندہ صحیح

«456- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 121/1 ح 263 ، ك 7 ب 2 ح 10) التمهيد 119/22 ، الاستذكار : 234
و أخرجه البخاري (1170) من حديث مالك به»
------------------
457- وبه : أنها قالت : كان أحب العمل إلى رسول الله الذي يدوم عليه صاحبه.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہوتا تھا جس پر عمل کرنے والا مداومت ( ہمیشگی) کرے ۔

سندہ صحیح

«457- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 174/1 ح 421 ، ك 9 ب 24 ح 90) التمهيد 120/22 ، الاستذكار : 391
و أخرجه البخاري (6462) من حديث مالك به»
------------------
458- وبه : عن عائشة أم المؤمنين أن الحارث بن هشامٍ سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ، كيف يأتيك الوحي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أحياناً يأتيني مثل صلصلة الجرس وهو أشده علي ، فيفصم عني وقد وعيت ما قال ، وأحياناً يتمثل لي الملك رجلاً فيكلمني فأعي ما يقول. قالت عائشة : ولقد رأيته ينزل عليه في اليوم الشديد البرد فيفصم عنه وإن جبينه ليتفصد عرقاً.

اور اسی سند کے ساتھ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ ! آپ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بعض اوقات گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے اور یہ مجھ پر سخت ہوتی ہے پھر یہ ختم ہوتی ہے تو میں اسے یاد کر چکا ہوتا ہوں اور بعض اوقات فرشتہ ایک آدمی کی شکل میں آکر مجھ سے کلام کرتا ہے تو میں وہ یاد کر لیتا ہوں جو وہ بیان کرتا ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں نے سخت ٹھنڈے دن میں آپ پر وحی کا نزول دیکھا ہے پھر جب یہ وحی ختم ہوتی تو آپ کی پیشانی پر پسینہ پھوٹ رہا ہوتا تھا ۔

سندہ صحیح

«458- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 202/1 , 203 ح 476 ، ك 15 ب 4 ح 7) التمهيد 112/22 ، 113 الاستذكار : 445
و أخرجه البخاري (2) من حديث مالك به»
------------------
459- وبه : أنها قالت : خسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس فقام ، فأطال القيام ، ثم ركع فأطال الركوع ، ثم قام فأطال القيام وهو دون وهو دون القيام الأول ، ثم ركع فأطال الركوع وهو دون الركوع الأول ، ثم رفع فسجد ثم فعل في الركعة الأخرى مثل ذلك ، ثم انصرف وقد تجلت الشمس ، فخطب الناس فحمد الله وأثنى عليه ثم قال : ( (إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله ، لا يخسفان لموت أحدٍ ولا لحياته ، فإذا رأيتم ذلك فادعوا الله وكبروا وتصدقوا) ) وقال : ( (يا أمة محمدٍ ، والله ما من أحدٍ أغير من الله أن يزني عبده أو تزني أمته يا أمة محمدٍ ، والله لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلاً ولبكيتم كثيراً) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو لمبا قیام کیا پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا پھر کھڑے ہوئے ، لمبا قیام کیا اور یہ پہلے قیام سے چھوٹا تھا ۔ پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا ۔ پھر رکوع سے سر اٹھایا تو سجدہ کیا پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا ۔ جب سلام پھیرا تو سورج روشن ہو چکا تھا ، لوگوں کو خطبہ دیا ۔ اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا : سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، کسی کی موت یا زندگی کہ وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا ۔ اگر تم یہ نشانیاں دیکھو تو اللہ سے دعا مانگو ، تکبیر کہو اور صدقہ کرو ۔ پھر فرمایا : اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت ! اگر اللہ کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے تو اس پر اللہ کو سب سے زیادہ غیرت آتی ہے ۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت ! اللہ کی قسم ! جو میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«459- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 186/1 ح 445 ، ك 12 ب 1 ح 1) التمهيد 115/22 ، الاستذكار : 414
و أخرجه البخاري (1044) ومسلم (901) من حديث مالك به»
------------------
460- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى في جدار القبلة بصاقاً أو مخاطاً أو نخامةً فحكه.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ دیوار پر تھوک یا بلغم دیکھا تو اسے کھرچ ( کر صاف کر) دیا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«460- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 195/1 ح 459 ، ك 14 ب 3 ح 5) التمهيد 136/22 ، الاستذكار : 428
و أخرجه البخاري (407) ومسلم (549) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
461- وبه : أنها قالت : أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بصبي فبال على ثوبه ، فدعا بماءٍ فأتبعه إياه.
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لایا گیا تو اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا ۔ پھر آپ نے پانی منگوایا اور اس ( کپڑے ) پر پانی ڈال دیا ۔

سندہ صحیح

«461- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 64/1 ح 137 ، ك 2 ب 30 ح 109) التمهيد 108/9 ، الاستذكار : 116
و أخرجه البخاري (222) من حديث مالك به»
------------------
462- وعن هشام بن عروة عن أبيه وعن ابن شهابٍ عن عروة عن عائشة أنها قالت : كنت أرجل رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا حائضٌ.
قال أبو الحسن : هكذا نص إسناد هذا الحديث في كتاب الصلاة من رواية الدباغ ، ومثله في النسخة. وفي كتاب عيسى : هشامٌ عن أبيه وعن ابن شهاب ، عن عائشة .. .. الحديث.

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں حیض کی حالت میں ( بھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر میں کنگھی کرتی تھی ۔
ابوالحسن
( القابسی) نے کہا: دباغ کی روایت سے کتاب الصلاة میں اس حدیث کی سند اسی طرح ہے اور اسی طرح ایک نسخے میں ہے اور عیسیٰ ( بن مسکین) کی کتاب میں عن ہشام عن ابیہ اور عن ابن شہاب عن عائشہ ہے ۔

سندہ صحیح

«462- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 60/1 ح 130 ، ك 2 ب 28 ح 102) التمهيد 136/22 ، الاستذكار : 109
و أخرجه البخاري (295) من حديث مالك به ، ومسلم (297) من حديث هشام بن عروة به
سقط من الأصل والسياق يقتضيه ۔ »
------------------
463- وعن هشامٍ عن أبيه عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كفن في ثلاثة أثوابٍ بيضٍ سحوليةٍ ، ليس فيها قميصٌ ولا عمامةٌ.

سیدہ عائشہ ( صدیقہ رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید یمنی کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا جن میں نہ قمیص تھی اور نہ عمامہ ۔

سندہ صحیح

«463- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 223/1 ح 524 ، ك 16 ب 2 ح 5) التمهيد 140/22 ، الاستذكار : 485
و أخرجه البخاري (1273) من حديث مالك به»
------------------
464- وبه : أنها كانت تقول : إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليقبل بعض أزواجه وهو صائمٌ ، ثم تضحك.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی بیویوں میں سے کسی بیوی کا بوسہ لے لیا کرتے تھے ۔ پھر آپ ( عائشہ رضی اللہ عنہا ) ہنس پڑتی تھیں ۔

سندہ صحیح

«464- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 292/1 ح 652 ، ك 18 ب 5 ح 14) التمهيد 139/22 ، الاستذكار : 602
و أخرجه البخاري (1928) من حديث مالك به»
------------------
465- وبه : عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن حمزة بن عمرو الأسلمي قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم : أأصوم في السفر؟ وكان كثير الصيام ، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم : ( (إن شئت فصم ، وإن شئت فأفطر) ) .

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو الاسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں روزے رکھتا ہوں ۔ کیا میں سفر میں بھی روزے رکھوں؟ وہ کثرت سے روزے رکھتے تھے ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا : اگر تم چاہو تو روزے رکھو اور چاہو تو افطار کرو ۔

سندہ صحیح

«465- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 295/1 ح 662 ، ك 18 ب 7 ح 24 ولم يذكر عائشة رضي الله عنها في السند ! ) التمهيد 146/22 ، الاستذكار : 612
و أخرجه البخاري (1943) من حديث مالك به ورواه مسلم (1121) من حديث هشام بن عروة به »
------------------
466- وبه : أنها قالت : كان يوم عاشوراء يوماً تصومه قريشٌ في الجاهلية ، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه في الجاهلية ، فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة صامه وأمر بصيامه ، فلما فرض رمضان كان هو الفريضة وترك يوم عاشوراء ، فمن شاء صامه ومن شاء تركه.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ) روایت ہے کہ جاہلیت میں قریش عاشوراءکے ایک دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعثت سے پہلے اسے رکھا کرتے تھے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہ روزہ خود بھی رکھا اور اسے رکھنے کا حکم بھی دیا ۔ پھر جب رمضان فرض ہوا تو اسی کے روزے فرض قرار پائے اور عاشوراءکا روزہ ترک کر دیا گیا ، پس جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے اسے ترک کر دے یعنی نہ رکھے ۔

سندہ صحیح

«466- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 299/1 ح 671 ، ك 18 ب 11 ح 33) التمهيد 148/22 ، الاستذكار : 621
و أخرجه البخاري (2002) من حديث مالك به»
------------------
467- وبه قال : قلت لعائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم وأنا يومئذٍ حديث السن ، أرأيت قول الله تبارك وتعالى : ”إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما“ فما أرى على أحدٍ شيئاً أن لا يطوف بهما ، فقالت عائشة : كلا : لو كانت كما تقول كانت : فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما ، إنما أنزلت هذه الآية في الأنصار ، كانوا يهلون لمناة ، وكانت مناة حذو قديدٍ ، وكانوا يتحرجون أن يطوفوا بين الصفا والمروة فلما جاء الإسلام سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك ، فأنزل الله تبارك وتعالى : ”إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما“.

اور اسی سند کے ساتھ عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے (اپنی خالہ اور ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اور اس وقت میں چھوٹا بچہ تھا : آپ کا اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا» ” بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ، پس جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ صفا و مروہ کا طواف ( یعنی سعی) کرے “ ۔ (البقرة : 158)
ميرا خيال ہے کہ اگر کوئی شخص ان کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ہرگز نہیں ، اگر یہ بات ہوتی تو آیت اس طرح ہوتی کہ کہ جو طواف نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ یہ آیت تو انصاریوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو ( اسلام سے پہلے ) منات ( دیوی) کے لئے لبیک کہتے تھے اور اور منات قُدید ( مقام) کے قریب تھی ، وہ صفا اور مروہ کی سعی میں حرج سمجھتے تھے پھر جب اسلام آگیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
«إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا» ۔

سندہ صحیح

«467- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 373/1 ح 849 ، ك 20 ب 42 ح 129) التمهيد 150/22 ، الاستذكار : 797
و أخرجه البخاري (1790) من حديث مالك به
من رواية يحي بن يحي وجاء في الأصل : ” هالَتْ“ وهو خطأ»
------------------
468- وبه : عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم ذكر صفية بنت حي فقيل له : قد حاضت ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (لعلها حابستنا؟ فقالوا له : إنها قد طافت ، قال صلى الله عليه وسلم : فلا إذاً) ) . قال عروة : قالت عائشة : ونحن نذكر ذلك فلم تقدم الناس بنسائهم إذا كان ذلك لا ينفعهن ولو كان الذي يقولون لأصبح بمنى أكثر من ستة آلاف امرأةٍ حائضٍ ، كلهن قد أفاض.

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو عرض کیا گیا : انہیں حیض کی بیماری لاحق ہو گئی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شاید وہ ہمیں ( سفر سے ) روکنے والی ہیں؟ لوگوں نے کہا: انہوں نے ( افاضے و زیارت والا) طواف کر لیا ہے تو آپ نے فرمایا : پھر کوئی بات نہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اور ہم اس بات کاذکر کیا کرتے تھے کہ اگر عورتوں کو پہلے بھیجنا مفید نہیں ہے تو لوگ اپنی عورتوں کو کیوں بھیج دیتے ہیں؟ اگر وہی بات ہے جو یہ کہتے ہیں ( کہ طواف و داع کے لئے ٹھہرنا ضروری ہے ) تو منیٰ میں چھ ہزار سے زیادہ عورتیں ( طواف وداع کے انتظار میں) حالت حیض میں پڑھی ہوتیں جو سب طواب افاضہ کر چکی ہیں ۔

سندہ صحیح

«468- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 413/1 ح 957 ، ك 20 ب 75 ح 228) التمهيد 152/22 ، 153 ، الاستذكار : 895
و أخرجه أبوداود (2003) من حديث مالك به وصححه ابن خزيمة (3002) وأصله عند البخاري (1786) ومسلم (1211) بغير هذا للفط
من رواية يحي بن يحي
وفي رواية يحي : ” قَدْ أفَاضَتْ“ ۔ »

------------------
469- وبه : أنها قالت : جاء عمي من الرضاعة فاستأذن علي فأبيت أن آذن له حتى أسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قالت : فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم. قالت : فسألته عن ذلك فقال : ( (إنه عمك فأذني له) ) قالت : فقلت : يا رسول الله ، إنما أرضعتني المرأة ولم يرضعني الرجل ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إنه عمك فليلج عليك ) ) قالت عائشة : وذلك بعد أن ضرب علينا الحجاب ، وقالت عائشة : يحرم من الرضاع ما يحرم من الولادة.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ) روایت ہے کہ میرے رضاعی چچا آئے اور مجھ سے ( گھر میں) آنے کی اجازت مانگی تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا تاکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لوں ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے اس بارے میں آپ سے پوچھا: تو آپ نے فرمایا : وہ تمہارا چچا ہے ، اسے اجازت دے دیا کرو ۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ ! مجھے تو عورت نے دودھ پلایا تھا مرد نے تو دودھ نہیں پلایا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تمہارا چچا ہے تمہارے پاس آ سکتا ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : یہ بات ہم پر پردہ فرض ہونے کے بعد کی ہے ۔ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہو جاتے ہیں ۔

سندہ صحیح

«469- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 601/2 ، 602 ح 1314 ، ك 30 ب 2 ح 2) التمهيد 154/22 ، 155 ، الاستذكار : 1234
و أخرجه البخاري (5239) من حديث مالك به ورواه مسلم (1445/7) من حديث هشام بن عروة به
من رواية يحي بن يحي ، وجاء في الأصل : ” أُرْسِلَ“ ! ! »
------------------
470- وبه : أنها قالت : جاءت بريرة فقالت : إني كاتبت أهلي على تسع أواقٍ ، في كل عامٍ أوقيةٌ ، فأعينيني ؛ فقالت عائشة : إن أحب أهلك أن أعدها لهم ويكون لي ولاؤك فعلت فذهبت بريرة إلى أهلها فقالت لهم ذلك ، فأبوا عليها ، فجاءت من عند أهلها ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالسٌ ، فقالت : إني قد عرضت ذلك عليهم فأبوا علي إلا أن يكون الولاء لهم. فسمع ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألها فأخبرته عائشة ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( (خذيها واشترطي الولاء لهم فإنما الولاء لمن أعتق) ) ففعلت عائشة. ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس فحمد الله واثنى عليه ثم قال : ( (أما بعد فما بال قومٍ يشترطون شروطاً ليست في كتاب الله ما كان من شرطٍ ليس في كتاب الله فهو باطلٌ وإن كان مئة شرطٍ ، قضاء الله أحق ، وشرط الله أوثق ، وإنما الولاء لمن أعتق) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ) روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہ آئی تو کہا: میں نے اپنی آزادی کے لئے اپنے مالکوں سے نو ( 9) اوقیہ چاندی پر تحریری معاہدہ کر لیا ہے ، میں انہیں ہر سال ایک اوقیہ دوں گی ، آپ اس سلسلے میں میری امداد کریں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اگر تمہارے مالک اس پر راضی ہوں تو میں انہیں نقد ادا کر دوں لیکن رشتہ ولاء میرا ہوگا ۔ بریرہ اپنے مالکوں کے پاس گئی تو انہیں یہ بات بتائی ۔ انہوں نے انکار کر دیا تو وہ اپنے مالکوں سے ( عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس) آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( بھی وہاں) بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس نے کہا: میں نے انہیں یہ بات کہی ہے مگر انہوں نے انکار کر دیا ہے ( اور کہا) کہ رشتہ ولایت انھی کا ہوگا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو پوچھا: ( کیا بات ہے ؟) پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے لے لو اور ان کا رشتہ ولایت مان لو کیونکہ رشتہ ولایت تو اسی کا ہوگا جو آزاد کرتا ہے ۔ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی طرح کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہو گئے تو حمد و ثنا کے بعد فرمایا : اما بعد ، کیا وجہ ہے کہ لوگ ایسی شرطیں مقرر کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں ، جو شرط کتاب اللہ میں نہیں ہے وہ باطل ہے اگرچہ وہ ایک سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں ۔ اللہ کا فیصلہ سب سے زیادہ برحق ہے اور اللہ کی شرط سب سے زیادہ قوی ہے اور رشتہ ولاءتو اسی کا ہوتا ہے جو آزاد کرتا ہے ۔

سندہ صحیح

«470- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 780/2 ، 781 ح 1559 ، ك 38 ب 10 ح 17) التمهيد 160/22 ، 161 ، الاستذكار : 1488
و أخرجه البخاري (2168 ، 2729) من حديث مالك به ، ورواه مسلم (1445/7) من حديث هشام بن عروة به»
------------------
471- وبه : أن رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم : إن أمي افتلتت نفسها وأراها لو تكلمت تصدقت ، أفأتصدق عنها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (نعم ، فتصدق عنها) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ) روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو صدقہ کرتیں ، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! تو انہوں نے والدہ کی طرف سے صدقہ کر دیا کر۔

سندہ صحیح

« 471- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 760/2 ح 1528 ، ك 36 ب 41 ح 53) التمهيد 153/22 ، الاستذكار : 1457
و أخرجه البخاري (2760) من حديث مالك به ، ومسلم (1004/51 بعد ح 1630) من حديث هشام بن عروة به وصححه ابن خزيمة(2500) وابن حبان (المموارد : 857) »

------------------
472- وبه : أنها قالت : لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وعك أبو بكرٍ وبلالٌ ، قالت : فدخلت عليهما ، فقلت : يا أبت ، كيف تجدك؟ وبلال كيف تجدك؟ قالت : فكان أبو بكر إذا أخذته الحمى يقول :
كل امرئٍ مصبحٌ في أهله ... والموت أدنى من شراك نعله
وكان بلالٌ إذا أقلع عنه يرفع عقيرته ويقول :
ألا ليت شعري هل أبيتن ليلةً ... بوادٍ وحولي إذ خرٌ وجليل
وهل أردن يوماً مياه مجنةٍ ... وهل يبدون لي شامةٌ وطفيل
قالت عائشة : فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرته ، فقال : ( (اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة أو أشد ، وصححها ، وبارك لنا في صاعها ومدها ، وانقل حماها واجعلها بالجحفة) ) .


اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ) روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو بخار ہو گیا ۔ میں ان کے پاس گئی اور کہا: اے ابہا ! آپ کی صحت کیسی ہے ؟ اور اے بلال ! آپ کی صحت کیسی ہے ؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بخار جب ( تیز) ہوتا تو کہتے : ہر آدمی اپنے گھر میں صبح کرنے والا ہے اور موت اس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ قریب ہے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا جب بخارکم ہوتا تو اپنی بلند آوازمیں ( مکہ کو یاد کرتے ہوئے ) فرماتے : کاش میں جانتا کہ میں ایک رات وادی میں گزاروں گا اور میرے اردگرد اذخر اور جلیل کی گھاس ہوگی اور کیا میں کسی دن مجنہ کے پانی پر آسکوں گا؟ اور کیا کبھی میرے لئے شامہ اور طفیل ( کی پہاڑیاں) ظاہر ہوں گی؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا تو آپ نے فرمایا : اے اللہ ! جس طرح ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں اسی طرح یا اس سے زیادہ ہمارے لئے مدینہ کو محبوب بنا اور اسے صحیح کردے ، اس کے ( ماپ تول کے پیمانوں) صاع اور مد میں برکت ڈال دے اور اس کے بخار کو یہاں سے نکال کر جحفہ لے جا ۔

سندہ صحیح

«472- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 890/2 ، 891 ح 1714 ، ك 45 ب 4 ح 14) التمهيد 190/22 ، الاستذكار : 1644
و أخرجه البخاري (3926 ، 5677) من حديث مالك ، و مسلم (1376/480) من حديث هشام بن عروة به
من رواية يحي بن يحي»

------------------
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أسامة بن زيدٍ
حديثٌ واحدٌ
473- مالكٌ عن هشام بن عروة عن أبيه أنه قال : سئل أسامة بن زيدٍ وأنا جالسٌ معه : كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير في حجة الوداع حين دفع؟ قال : كان يسير العنق ، فإذا وجد فرجةً نص. قال هشامٌ : والنص فوق العنق.

عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں ( وہاں) بیٹھا ہوا تھا جب سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا: گیا کہ حجتہ الوداع میں ( عرفات سے ) واپسی کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے چلتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا : آپ تیز اور کشادہ قدموں سے چلتے پھر جب کھلا مقام پاتے تو مزید تیز رفتا ر سے چلتے ۔ ہشام ( بن عروہ راوی حدیث) نے کہا: عَنَق سے نص زیادہ ( تیز چلنا) ہوتا ہے ۔

سندہ صحیح

«473- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 392/1 ح 904 ، ك 20 ب 57 ح 176) التمهيد 201/22 ، الاستذكار : 844
و أخرجه البخاري (1666) من حديث مالك به »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
المسور بن مخرمة
حديثٌ واحدٌ
474- مالكٌ حدثني هشام بن عروة عن أبيه عن المسور بن مخرمة أن سبيعة الأسلمية نفست بعد وفاة زوجها بليالٍ ، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنته أن تنكح ، فأذن لها ، فنكحت.

سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ سبیعہ الاسلمیہ رضی اللہ عنہ کے ہاں ان کے خاوند کی وفات کے کچھ دنوں بعد بچہ پیدا ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوسری شادی کی اجازت لینے آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی ، چنانچہ انہوں نے نکاح کر لیا ۔

سندہ صحیح

«474- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 590/2 ح 1288 ، ك 29 ب 30 ح 85 بلفظ مختلف) التمهيد 208/22 ، الاستذكار : 1206
و أخرجه البخاري (5320) من حديث مالك به »
------------------
عمر بن أبي سلمة
حديثٌ واحدٌ
475- وعن هشام بن عروة عن أبيه عن عمر بن أبي سلمة أنه رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في ثوبٍ واحدٍ في بيت أم سلمة واضعاً طرفيه على عاتقيه.

سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ، آپ اس کے دونوں کناروں کو اپنے کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے ۔

سندہ صحیح

«475- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 140/1 ح 315 ، ك 8 ب 9 ح 29) التمهيد 209/22 ، الاستذكار : 285
و أخرجه النسائي (70/2 ح 765) من حديث مالك به ۔ رواه البخاري (354-356) ومسلم (517) من حديث هشام بن عروة به
من رواية يحي بن يحي ۔ وسقط من الأصل »
------------------
حمران مولى عثمان بن عفان
حديثٌ واحدٌ

476- مالكٌ عن هشام بن عروة عن أبيه عن حمران مولى عثمان بن عفان أن عثمان ابن عفان جلس على المقاعد ، فجاء المؤذن فآذنه لصلاة العصر فدعا بماءٍ فتوضأ ، ثم قال : والله ، لأحدثنكم حديثاً لولا آيةٌ في كتاب الله ما حدثتكموه ، ثم قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( (ما من امرئٍ يتوضأ فيحسن وضوءه ثم يصلي الصلاة إلا غفر له ما بينه وبين الصلاة ألأخرى حتى يصليها) ) .
قال مالكٌ : أراه يريد هذه الآية ”وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفاً من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين“ .

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حمران رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مقاعد ( بیٹھنے کی اونچی جگہ) پر بیٹھے تو مؤذن نے آکر نماز عصر کی اطلاع دی پھر آپ نے پانی منگوایا اور وضو کیا پھر فرمایا : اللہ کی قسم ! میں تمھیں ایک حدیث سناتا ہوں ، اگر کتاب اللہ کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمھیں وہ کبھی نہ سناتا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے تو اس نماز اور دوسری نماز کے درمیان ( سرزد ہونے والے گناہ) معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔
( امام) مالک نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ یہ آیت مراد ہے «وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ» ﴿ھود: ١١٤﴾ ”اور نماز قائم کرو دن کو دونوں کناروں میں اور رات کے ایک حصے میں ، بے شک نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں ، یہ نصیحت ہے ان لوگوں کے لئے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں“ (ھود : 114)

سندہ صحیح

«476- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 30/1 ، 31 ح 58 ، ك 2 ب 6 ح 29) التمهيد 210/22 ، 211 ، الاستذكار : 51
و أخرجه النسائي (90/1 ح 146) من حديث مالك به مختصراً»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
زينب ابنة أبي سلمة
حديثان
477- مالكٌ عن هشام بن عروة عن أبيه عن زينب ابنة أبي سلمة عن أم سلمة أم المؤمنين أنها قالت : جاءت أم سليمٍ امرأة أبي طلحة الأنصاري إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت : يا رسول الله إن الله لا يستحي من الحق هل على المرأة من غسل إذا هي احتلمت؟ فقال نعم إذا رأت الماء.

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوطلحہ الانصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا : یا رسول اللہ ! بے شک اللہ حق ( بات بیان) کرنے میں حیا نہیں کرتا ، اگر عورت کو احتلام ہو جائے تو کیا اس پر غسل ( ضروری) ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اگر وہ پانی دیکھے ۔

سندہ صحیح

«477- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 51/1 ، 52 ح 114 ، ك 2 ب 21 ح 85) التمهيد 214/22 ، الاستذكار : 96
و أخرجه البخاري (282) من حديث مالك به»
------------------
478- وبه : عن أم سلمة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : إنما أنا بشرٌ وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعضٍ فأقضي له على نحو ما أسمع منه فمن قضيت له بشيءٍ من حق أخيه فلا يأخذ منه شيئاً فإنما أقطع له قطعةً من النار.

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں تو ایک بشر ہوں اور تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو ، ہو سکتا ہے کہ بعض آدمی دوسرے کی بہ نسبت اچھے طریقے سے اپنی دلیل بیان کرنے والے ہوں تو میں جیسے سنوں اس کے مطابق ان کے حق میں فیصلہ کر دوں ۔ پس ( ایسی صورت میں اگر) میں نے جس شخص کے بارے میں اس کے بھائی کے حق میں سے فیصلہ کر دیا تو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے کیونکہ میں اس کے حوالے آگ کا ایک ٹکڑا کر رہا ہوں ۔

سندہ صحیح

«478- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 719/2 ح 1460 ، ك 36 ب 1 ح 1) التمهيد 215/22 ، الاستذكار : 1384
و أخرجه البخاري (2680) من حديث مالك ، ومسلم (1713/4) من حديث هشام بن عروة به »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عبد الله بن الزبير
حديثٌ واحدٌ
479- مالكٌ عن هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن سفيان بن أبي زهيرٍ قال : ( (سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : تفتح اليمن فيأتي قومٌ يبسون فيتحملون بأهليهم ومن أطاعهم ، والمدينة خيرٌ لهم لو كانوا يعلمون وتفتح العراق فيأتي قومٌ يبسون فيتحملون بأهليهم ومن أطاعهم ، والمدينة خيرٌ لهم لو كانوا يعلمون ، وتفتح الشام فيأتي قومٌ يبسون فيحتملون بأهليهم ومن أطاعهم ، والمدينة خيرٌ لهم لو كانوا يعلمون) ) .

سیدنا سفیان بن زہیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : یمن فتح ہوگا پھر ایک قوم آئے گی ( اور مدینے سے نکلے گی) وہ اپنے گھر والوں اور ماتحت لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے ہوتے ۔ عراق فتح ہوگا پھر ایک قوم آئے گی جو اپنے گھر والوں اور ماتحت لوگوں کو لے کر سفر کریں گے حالانکہ ان کے لئے مدینہ بہتر ہوگا اگر وہ جانتے ہوتے ۔ اور شام فتح ہوگا پھر ایک قوم آئے گی جو اپنے گھر والوں اور ماتحت لوگوں کو لے کر سفر کریں گے اور ان کے لئے مدینہ بہتر ہوگا اگر وہ جانتے ہوتے ۔ اور شام فتح ہوگا پھر ایک قوم آئے گی جو اپنے گھر والوں اور ماتحت لوگوں کو لے کرسفر کریں گے اور ان کے لئے مدینہ بہتر ہوگا اگر وہ جانتے ہوتے ۔

سندہ صحیح

«479- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 887/2 ، 888 ح 1708 ، ك 45 ب 2 ح 7) التمهيد 223/22 ، الاستذكار : 1637
و أخرجه البخاري (1875) من حديث مالك ، ومسلم (1388) من حديث هشام بن عروة به »
 
Top