• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم (یونیکوڈ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عبد ربه بن سعيدٍ
حديثان
395- مالكٌ عن عبد ربه بن سعيدٍ الأنصاري عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام عن عائشة وأم سلمة زوجي النبي صلى الله عليه وسلم أنهما قالتا : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبح جنباً من جماعٍ غير احتلامٍ في رمضان ، ثم يصوم.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیویوں عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں احتلام کے بغیر ، جماع سے حالت جنابت میں صبح کرتے پھر روزہ رکھتے تھے

سندہ صحیح

«395- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 289/1 ، 290 ح 648 ، ك 18 ب 4 ح 10) التمهيد 31/20 ، الاستذكار : 598
و أخرجه مسلم (1109/78) و أبوداود (2388) من حديث مالك به»
------------------
396- وعن عبد ربه بن سعيدٍ عن أبي سلمة بن عبد الرحمن أنه سأل عبد الله ابن عباسٍ وأبا هريرة عن المتوفى عنها زوجها وهي حاملٌ ، فقال ابن عباسٍ : آخر الأجلين. وقال أبو هريرة : إذا ولدت فقد حلت.
فدخل أبو سلمة بن عبد الرحمن على أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم فسألها عن ذلك ، فقالت : ولدت سبيعة الأسلمية بعد وفاة زوجها بنصف شهرٍ ، فخطبها رجلان أحدهما شابٌ والآخر كهلٌ ، فحطت إلى الشاب. فقال الكهل : لم تحلل ، وكان أهلها غيباً ، فرجا إذا جاء أهلها أن يؤثروه بها ، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( (قد حللت فانكحي من شئت) ) .

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس حاملہ عورت کے بارے میں پوچھا: جس کا خاوند فوت ہو جائے تو ابن عباس نے کہا: دونوں عدتوں ( وضع حمل اور چار مہینے دس دن) میں سے جو بعد میں ختم ہو اسے اختیار کرے اور ابوہریرہ نے کہا: جب بچے کو جنم دے گی تو حلال ہو جائے گی ۔
پھر ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو ان سے اس بارے میں پوچھا: تو انہوں نے فرمایا : سبیعہ الاسلمیہ رضی اللہ عنہ کے ہاں اپنے شوہر کی وفات کے پندرہ دن بعد بچہ پیدا ہوا تو دو آدمیوں نے انہیں شادی کا بیغام بھیجا ، ایک نوجوان تھا اور دوسرا بوڑھا تھا تو وہ نوجوان کی طرف مائل ہوئیں پھر بوڑھے نے کہا: اس کی عدت ختم نہیں ہوئی سبیعہ کے گھر والے ( اس وقت) غیر حاضر تھے اور بوڑھے کو یہ امید تھی جہ جب اس کے گھر والے آئیں گے تو وہ اسے اس نوجوان پر ترجیح دیں گے پھر وہ ( سبیعہ رضی اللہ عنہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیری عدت ختم ہوگئی ہے لہٰذا تو جس سے چاہے نکاح کرلے۔

سندہ صحیح

«396- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 589/2 ح 1686 ، ك 29 ب 30 ح 83) التمهيد 33/20 ، الاستذكار : 1286
و أخرجه النسائي (191/6 ، 192 ح 3540) من حديث ابن القاسم عن مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عبد الكريم
حديثٌ واحدٌ
397- مالكٌ عن عبد الكريم بن مالكٍ الجزري عن مجاهد عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن كعب بن عجرة أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فآذاه القمل في رأسه ، فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يحلق رأسه وقال : ( (صم ثلاثة أيامٍ ، أو أطعم ستة مساكين مدين مدين لكل إنسانٍ ، أو انسك بشاةٍ ، أي ذلك فعلت أجزأ عنك) ) .

سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ( حج کے دوران میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو انہیں ( کعب رضی اللہ عنہ کو ) سر میں جوئیں تکلیف دے رہی تھیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ سر منڈوالو اور فرمایا : تین دن روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ہر انسان کو دو دو مد یا ایک بکری کی قربانی دو ، ان میں سے جو بھی کرو گے وہ تمہاری طرف سے کافی ہے ۔

سندہ صحیح

«397- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 417/1 ح 965 ، ك 20 ب 78 ح 237 ولم یذکر مجاھداً ، ورواية ابن القاسم هو الصواب) التمهيد 62/20 ، الاستذكار : 906
و أخرجه أبوداود (1861) من حديث مالك به مختصراً ورواہ البخاری (1815) ومسلم (1201) من حدیث مجاهد عن عبدالرحمٰن بن ابي ليليٰ به »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عامر بن عبد الله
حديثان
398- مالكٌ عن عامر بن عبد الله بن الزبير عن عمرو بن سليمٍ الزرقي عن أبي قتادة الأنصاري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي وهو حاملٌ أمامة بنت زينب ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي لأبي العاص بن الربيع بن عبد شمسٍ فإذا سجد وضعها وإذا قام حملها قال مالكٌ وذلك في النوافل.

سیدنا ابوقتادہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی امامہ بنت زینت رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر نماز پڑھتے تھے ، یہ ابوالعاص بن الربیع بن عبدشمس کی بیٹی تھیں پھر جب سجدہ کرتے تو اسے ( زمین پر) بٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے ۔
( امام) مالک نے کہا: یہ عمل نوافل میں تھا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«398- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 170/1 ح 411 ، ك 9 ب 24 ح 81) التمهيد 93/20 ، الاستذكار : 381
و أخرجه البخاري (516) ومسلم (543) من حديث مالك به»
------------------
399- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إذا دخل أحدكم المسجد فليركع ركعتين قبل أن يجلس) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«399- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 162/1 ح 387 ، ك 9 ب 18 ح 57) التمهيد 99/20 ، 100 ، الاستذكار : 357
و أخرجه البخاري (444) و مسلم (714) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عمرو بن يحيى المازني
ثلاثة أحاديث
400- مالكٌ عن عمرو بن يحيى المازني عن أبي الحباب سعيدٍ بن يسارٍ عن ابن عمر أنه قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وهو على حمارٍ وهو موجهٌ إلى خيبر.

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر بیٹھے خیبر کی طرف رخ کئے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے ۔

سندہ صحیح

«400- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 150/1 ، 151 ح 352 ، ك 9 ب 7 ح 25) التمهيد 131/20 ، الاستذكار : 323
و أخرجه مسلم (700/35 ، دارالسلام : 1614) من حديث مالك به»
------------------
401- وبه : عن عمرو بن يحيى عن أبيه أنه قال لعبد الله بن زيد بن عاصمٍ وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو جد عمرو بن يحيى : هل تستطيع أن تريني كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضأ؟ فقال عبد الله بن زيدٍ : نعم ، فدعا بوضوءٍ فأفرغ على يديه فغسل يديه مرتين ، ثم مضمض واستنثر ثلاثاً ، ثم غسل وجهه ثلاثاً ، ثم غسل ذراعيه مرتين ، مرتين إلى المرفقين ، ثم مسح رأسه بيديه فأقبل بهما وأدبر ، بدأ بمقدم رأسه ثم ذهب بهما إلى قفاه ، ثم ردهما حتى رجع إلى المكان الذي بدأ منه ، ثم غسل رجليه.

یحییٰ بن عمارہ المازنی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے نانا عبداللہ بن زید بن عاصم سے پوچھا: جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے : کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو کرتے تھے ؟ تو سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جی ہاں ، پھر انہوں نے وضو کا پانی منگوایا تو اپنے ہاتھوں پر ڈال کر انہیں دو دفعہ دھویا پھر تین دفعہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر جھاڑا پھر اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دو دفعہ دھوئے پھر اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ سر کا مسح کیا آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لائے ، آپ نے سر کا مسح ابتدائی حصے سے شروع کیا پھر اسے گدی تک لے گئے پھروہاں سے اس مقام تک واپس لائے جہاں سے شروع کیا تھا پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

« 401- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 18/1 ح 31 ، ك 2 ب 1 ح 1) التمهيد 113/20 114
و أخرجه البخاري (185) ومسلم (235) من حديث مالك به»
------------------
402- وبه : عن أبيه قال : سمعت أبا سعيدٍ الخدري يقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (ليس فيما دون خمس ذودٍ صدقةٌ ، وليس فيما دون خمسٍ أواقٍ صدقةٌ ، وليس فيما دون خمسة أوسقٍ صدقةٌ) ) .

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پانچ اونٹوں سے کم پر کوئی صدقہ ( زکوٰة) نہیں ہے اور پانچ اوقیہ چاندی سے کم پر کوئی صدقہ نہیں ہے اور پانچ وسق ( غلے ) سے کم پر کوئی صدقہ ( عشر) نہیں ہے ۔

سندہ صحیح

« 402- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 244/1 ح 578 ، ك 17 ب 1 ح 1) التمهيد 133/20 وقال : ” هٰذا حديث صحيح الإسناد عند جميع أهل الحديث“ ، الاستذكار : 532
و أخرجه البخاري (1447) من حديث مالك به ورواه مسلم (979) من حديث عمرو بن يحي بن عمارة به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عمرو بن أبي عمرو
حديثٌ واحد
403- مالكٌ عن عمروٍ مولى المطلب عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم طلع له أحدٌ ، فقال : ( (هذا جبلٌ يحبنا ونحبه ، اللهم إن إبراهيم حرم مكة وأني أحرم ما بين لابتيها) )
.

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب احد ( پہاڑ) دیکھا تو فرمایا : یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں اے اللہ ! ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں ان دو کالی زمینوں کے درمیان ( مدینہ) کو حرم قرار دیتا ہوں ۔

سندہ صحیح

«403- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي889/2 ح 1710 ، ك 45 ب 3 ح 10) التمهيد 175/20 ، 176 ، الاستذكار : 1640
و أخرجه البخاري (3367) من حديث مالك به ورواه مسلم (1365) من حديث عمرو بن ابي عمرو به
سقط من الأصل واستدركته من صحيح البخاري »
------------------
علقمة بن أبي علقمة
حديثان
404- مالكٌ عن علقمة بن أبي علقمة عن أمه عن عائشة أم المؤمنين أنها قالت : أهدى أبو جهم بن حذيفة لرسول الله صلى الله عليه وسلم خميصةً شاميةً لها علمٌ ، فشهد فيها الصلاة ، فلما انصرف قال : ( (ردي هذه الخميصة إلى أبي جهمٍ ، فإني نظرت إلى علمها في الصلاة فكاد يفتنني) ) .

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شامی چادر ہدیہ کی جس پر نقوش تھے ، تو آپ اس میں نماز پڑھنے آئے پھر سلام کے بعد فرمایا : ابوجہم کو یہ چادر واپس کردو کیونکہ میں نے نماز میں اس کے نقوش کی طرف دیکھا تو قریب تھا کہ یہ مجھے خشوع سے ہٹا دیتی۔

سندہ صحیح

«404- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي97/1 ، 98 ح 216 ، ك 3 ب 18 ح 67) التمهيد 108/20 ، الاستذكار : 189
و أخرجه أحمد (177/6) من حديث مالك به وصححه ابن حبان (الموارد : 2332) قالو ا : سقط قوله ” أمه“ من السند في رواية يحي وهو موجود في نسخننا من الموطأ ( رواية يحي) والله اعلم »
------------------
405- وعن أمه أنها سمعت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم تقول : قام رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلةٍ فلبس ثيابه ثم خرج ، قالت : فأمرت جاريتي بريرة تتبعه فتبعته حتى جاء البقيع ، فوقف في أدناه ما شاء الله أن يقف ثم انصرف ، فسبقته بريرة فأخبرتني ، فلم أذكر له شيئاً حتى أصبحت ، ثم ذكرت له ذلك فقال : ( (إني بعثت إلى أهل البقيع لأصلي عليهم) ) .
كمل حديث باب العين فجميعهم مئة حديثٍ وثمانيةٌ وعشرون حديثاً.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھ کر اپنے کپڑے پہنے پھر باہر تشریف لے گئے میں نے اپنی ( آزاد کردہ) لونڈی بریرہ کو حکم دیا تو وہ آپ کے پیچھے بقیع ( کے قبرستان) تک گئیں جتنی دیر اللہ نے چاہا آپ وہاں کھڑے رہے پھر واپس تشریف لائے تو آپ سے پہلے بریرہ رضی اللہ عنہ نے آکر مجھے بتا دیا میں نے صبح تک اس سلسلے میں آپ سے کوئی بات نہ کی پھر آپ کو بتایا تو آپ نے فرمایا : مجھے بقیع والوں کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ میں ان کے لئے دعا مانگوں ۔
باب عین کی حدیثیں مکمل ہوئیں جو کل ایک سواٹھائیس ( ۱۲۸) حدیثیں نہیں

سندہ صحیح

« 405- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي242/1 ح 576 ، ك 16 ب 16 ح 55) التمهيد 110/20 ، الاستذكار : 530
و أخرجه النسائي (93/4 ح 2040) من حديث ابن القاسم عن مالك به وصححه ابن خزيمة (اتحاف المهرة 800/17 ح 23254) وابن حبان(الاحسان : 3740) والحاكم (488/1) ووافقه الذهبي ولم أرلمضعفه حجة
وفي رواية يحي بن يحي : ” فَلَمْ“ »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
باب القاف
واحدٌ
قطن بن وهبٍ
حديثٌ واحدٌ
406- مالكٌ عن قطن بن وهبٍ عن عويمر بن الأجدع أن يحنس مولى الزبير أخبره أنه كان جالساً عند عبد الله بن عمر في الفتنة ، فأتته مولاةٌ له تسلم عليه ، فقالت : إني أردت الخروج يا أبا عبد الرحمن ، اشتد علينا الزمان ، فقال لها عبد الله بن عمر : اقعدي لكاعٍ ، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( (لا يصبر على لأوائها وشدتها أحدٌ إلا كنت له شهيداً أو شفيعاً يوم القيامة) ) .
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے غلام یحنس رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس فتنے ( مسلمانوں کی باہمی جنگ)کے دور میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی ایک لونڈی سلام کرنے کے لئے آئی تو کہا: اے ابوعبدالرحمٰن ! میں ( مدینے سے ) نکل جانا چاہتی ہوں ، ہم پر زمانہ بہت سخت ہے تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اری بیوقوف بیٹھ ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مدینے کی مصیبتوں اور سختیوں پر جو بھی صبر کرے گا تو میں قیامت کے دن اس پر گواہ یا اس کا سفارشی ہوں گا ۔

سندہ صحیح

« 406- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 885/2 ، 886 ح 1703 ، ك 45 ب 2 ح 3) التمهيد 22/21 ، 23 ، الاستذكار : 1633
و أخرجه مسلم (1377/482) من حديث مالك به
من كتب الرجال وجاء في الأصل : ” قَطَنْ بْنُ وَاحِدٍ“ وهو خطأ
من رواية يحي بن يحي ، وجاء في الأصل : ” عَنْ“ وهو خطأ»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
باب السين
ستةٌ لجميعهم أحدٌ وأربعون حديثاً
سعد بن إسحاق
حديثٌ واحدٌ
407- مالكٌ عن سعد بن إسحاق بن كعب بن عجرة عن عمته زينب بنت كعب بن عجرة أن الفريعة بنت مالك بن سنان وهي أخت أبي سعيدٍ الخدري أخبرتها أنها جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم تسأله أن ترجع إلى أهلها في بني خدرة ، فإن زوجها خرج في طلب أعبدٍ له أبقوا ، حتى إذا كانوا بطرف القدوم لحقهم فقتلوه. قالت : فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أرجع إلى أهلي بني خدرة ، فإن زوجي لم يتركني في مسكنٍ يملكه ولا نفقةٍ. قالت : فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (نعم) ) قالت : فخرجت حتى إذا كنت في الحجرة أو في المسجد دعاني أو أمر بي فدعيت له ، فقال : ( (كيف قلت؟) ) قالت : فرددت عليه القصة التي ذكرت له من شأن زوجي ، فقال : ( (امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله) ) قالت : فاعتددت فيه أربعة أشهرٍ وعشراً. قالت : فلما كان عثمان بن عفان أرسل إلي فسألني عن ذلك فأخبرته ، فاتبعه وقضى به.

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی بہن فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ پوچھنے کے لئے آئیں کہ کیا وہ بنو خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا سکتی ہیں کیونکہ ان کے خاوند اپنے بھاگے ہوئے غلاموں کی تلاش میں نکلے اور جب قدوم کے مقام پر ان کے پاس پہنچ گئے تو ان غلاموں نے انہیں قتل کر دیا۔ فریعہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا میں بنو خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا سکتی ہوں کیونکہ میرے خاوند نے میرے لئے اپنی ملکیت میں نہ کوئی گھر چھوڑا ہے اور نہ نان نفقہ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جی ہاں ، پھر میں وہاں سے نکل کر حجرے یا مسجد تک پہنچی تو آپ نے مجھے بلوایا یا بلوانے کا حکم دیا پھر فرمایا : تو نے کیسے کہا تھا؟ میں نے اپنے خاوند کے بارے میں سارا قصہ آپ کی خدمت میں بیان کر دیا تو آپ نے فرمایا : اپنے گھر میں ہی ٹھہری رہو حتیٰ کہ عدت گزاری پھر جب سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا اور اس بارے میں پوچھا: تو میں نے آپ کو بتا دیا اور انہوں نے اسی کے مطابق فیصلہ کیا ۔

سندہ صحیح

«407- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 591/2 ح 1290 ، ك 29 ب 31 ح 87 وقال سعيد بن اسحاق/والصواب : سعد بن اسحاق) التمهيد 27/21 ، الاستذكار : 1209
و أخرجه أبوداود (2300) و الترمذي (1204 ، وقال : ”حسن صحيح“ ) من حديث مالك به و صححه ابن حبان (الاحسان : 4278/4292)
وفي رواية يحي بن يحي : ” يملكه“»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو حازمٍ ، واسمه سلمة بن دينارٍ
سبعة أحاديث
408- مالكٌ عن أبي حازم بن دينارٍ عن سهل بن سعد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذهب إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم وجاءت الصلاة ، فجاء المؤذن إلى أبي بكرٍ فقال : أتصلي للناس فأقيم؟ فقال : نعم ، فصلى أبو بكرٍ ، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس في الصلاة فتخلص حتى وقف في الصف فصفق الناس وكان أبو بكرٍ لا يلتفت في صلاته ، فلما أكثر الناس التصفيق التفت فرأى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن امكث مكانك ، فرفع أبو بكرٍ يديه فحمد الله على ما أمره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك ثم استأخر حتى استوى في الصف وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى ، فلما انصرف قال : ( (يا أبا بكرٍ ، ما منعك أن تثبت إذ أمرتك؟) ) فقال أبو بكرٍ : ما كان لابن أبي قحافة أن يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (ما لي رأيتكم أكثرتم من التصفيق ، من نابه شيءٌ في صلاته فليسبح ، فإنه إذا سبح التفت إليه ، وإنما التصفيق للنساء) ) .

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمروبن عوف کی طرف صلح کرانے کے لئے گئے اور نماز کا وقت ہو گیا تو مؤذن نے آکر سیدنا ابوبکر ( الصدیق رضی اللہ عنہ) سے کہا: کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے تاکہ میں اقامت کہوں؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں ! پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانی شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور لوگ نماز میں تھے آپ چلتے ہوئے( اگلی صف میں) کھڑے ہوگئے تو لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کیں ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں پھر انہوں نے نگاہ کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو پھر سیدنا ابوبکر ( الصدیق رضی اللہ عنہ ) نے ( دعا کے لئے ) دونوں ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ نے فرمایا : اے ابوبکر ! جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا تو تم اپنی جگہ کیوں نہ ٹھہرے رہے ؟ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ابوقحافہ کے بیٹے کی ( یعنی میری) یہ طاقت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ( کھڑے ہوکر) نماز پڑھائے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا وجہ ہے کہ میں نے تمھیں دیکھا تم کثرت سے تالیاں بجا رہے تھے ؟ اگر نماز میں کوئی چیز پیش آئے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے کیونکہ سبحان اللہ کے بعد وہ ( امام) اس طرف متوجہ ہوگا اور تالیاں بجانا تو عورتوں کے لئے ہے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«408- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 163/1 ، 164 ح 391 ، ك 9 ب 20 ح 61) التمهيد 100/21
و أخرجه البخاري (684) ومسلم (421) من حديث مالك به
وفي رواية يحي بن يحي : ” وحانت الصلاة“
وفي رواية يحي : ”فقال“ »
------------------
409- وبه : عن سهلٍ أنه قال : كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة ، قال أبو حازمٍ : ولا أعلم إلا أنه ينمي ذلك.

اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے ۔ ابوحازم رحمہ اللہ نے فرمایا : میں یہی جانتا ہوں کہ وہ اسے مرفوع بیان کرتے تھے ۔

سندہ صحیح

«409- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 159/1ح 377 ، ك 9 ب 15 ح 47) التمهيد 96/21 ، الاستذكار : 347
و أخرجه البخاري (740) من حديث مالك به»
------------------
410- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لا يزال الناس بخيرٍ ما عجلوا الفطر) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگ اس وقت تک خیر سے رہیں گے جب تک روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے ۔

سندہ صحیح

«410- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 288/1ح 645 ، ك 18 ب 3 ح 6) التمهيد 97/21 ، الاستذكار : 594
و أخرجه البخاري (1957) من حديث مالك به ، ومسلم (1098/48) من حديث ابي حازم به »
------------------
411- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءته امرأةٌ فقالت : يا رسول الله ، إني قد وهبت نفسي لك ؛ فقامت قياماً طويلاً ، فقام رجلٌ فقال : يا رسول الله ، زوجنيها إن لم تكن لك بها حاجةٌ ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (هل عندك من شيءٍ تصدقها إياه؟) ) قال : ما عندي إلا إزاري هذا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إن أعطيتها إزارك جلست لا إزار لك ، فالتمس شيئاً) ) قال : ما أجد شيئاً ، قال : ( (التمس ولو خاتم حديد) ) فالتمس فلم يجد شيئاً ، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (هل معك من القرآن شيءٌ) ) قال : نعم ، سورة كذا وسورة كذا لسورٍ سماها لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (قد زوجتكها بما معك من القرآن) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آکر عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں اپنی جان آپ کو ہبہ کرتی ہوں پھر وہ کافی دیر کھڑی رہی تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ ! اگر آپ کو ضرورت نہیں ہے تو اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو تم اسے حق مہر میں دے سکو؟ اس آدمی نے کہا: میرے پاس اس ازار کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم اسے اپنا ازار دے دو گے تو پھر تمہارے پاس کوئی ازار نہیں رہے گا ، جؤ اور کوئی چیز تلاش کرو انہوں نے کہا: میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا : تلاش کرو اگرچہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو اس آدمی نے تلاش کیا تو کچھ بھی نہ پایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: کیا قرآن میں سے کچھ تمھیں یاد ہے ؟ اس نے کہا: جی ہاں ! فلاں فلاں سورت یاد ہے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ سورتوں کے نام لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: میں نے اس عورت کا نکاح تمہارے ساتھ اس قرآن کے عوض کر دیا جو تمہیں یاد ہے ۔

سندہ صحیح

« 411- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 526/2 ح 1141 ، ك 28 ب 3 ح 8) التمهيد 109/21 ، الاستذكار : 1065
و أخرجه البخاري (5135) و الترمذي (1114) من حديث مالك به ، ورواه مسلم (1424) من حديث ابي حازم به »
------------------
412- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إن كان ففي الفرس والمرأة والمسكن ، يعني الشؤم) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو گھوڑے ، عورت اور مکان میں ہوتی ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«412- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 972/2 ح 1882 ، ك 54 ب 8 ح 21) التمهيد 97/21 ، الاستذكار : 1818
و أخرجه البخاري (2859) ومسلم (2226) من حديث مالك به »
------------------
413- وبه : أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بشرابٍ فشرب منه وعن يمينه غلامٌ وعن يساره الأشياخ ، فقال للغلام : ( (أتأذن لي أن أعطي هؤلاء) ) فقال : لا والله يا رسول الله ، لا أوثر بنصيبي منك أحداً ، قال : فتله رسول الله صلى الله عليه وسلم في يده.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مشروب ( یعنی دودھ) لایا گیا تو آپ نے اس میں سے پیا آپ کی دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر کے لوگ تھے تو آپ نے لڑکے سے کہا: اگر تم مجھے اجازت دو تو ان ( بڑی عمر کے ) لوگوں کو یہ ( بچا ہوا حصہ) دے دوں؟ اس لڑکے نے کہا: نہیں ، یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! میں آپ کے جوٹھے پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«413- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 926/2 ، 927 ح 1788 ، ك 49 ب 9 ح 18) التمهيد 120/21 ، 121 ، الاستذكار : 867
و أخرجه البخاري (5260) ومسلم (2030) من حديث مالك به »
------------------
414- وعن أبي حازم بن دينارٍ عن أبي إدريس الخولاني أنه قال : دخلت مسجد دمشق فإذا فتىً براق الثنايا ، وإذا الناس معه إذا اختلفوا في شيءٍ أسندوه إليه وصدروا عن رأيه فسألت عنه فقيل هذا معاذ بن جبلٍ. فلما كان من الغد هجرت إليه فوجدته قد سبقني بالتهجير ووجدته يصلي قال : فانتظرته حتى قضى صلاته ثم جئته من قبل وجهه ، فسلمت عليه ثم قلت : والله إني لأحبك لله ، فقال : آلله؟ فقلت : والله ، فقال : آلله؟ فقلت : والله ، قال : فأخذ بحبوة ردائي فجبذني إليه وقال : أبشر ، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( (قال الله وجبت محبتي للمتحابين في والمتجالسين في والمتزاور ين في والمتباذلين في) ) .

ابوادریس الخوالانی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا تو چمکتے دانتوں والا ایک نوجواب دیکھا اور لوگ اس کے پاس ( جمع)تھے ، جب کسی چیز میں ان کا اختلاف ہوتا تو اس کی طرف رجوع کرتے اور اس کی رائے ( فیصلے ) کی طرف رجوع کرتے میں نے پوچھا: کہ یہ کون ہے ؟ تو کہا: گیا : یہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں پھر اگلی صبح میں جلدی آیا تو دیکھا کہ وہ مجھ سے بھی پہلے آکر نماز پڑھ رہے تھے میں نے ان کا انتظار کیا ، وہ جب نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے ان کے سامنے آکر انہیں سلام کیا پھر کہا: اللہ کی قسم ! میں آپ سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہوں انہوں نے کہا: کیا اللہ کی قسم سے ؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم سے ! انہوں نے کہا: کیا اللہ کی قسم سے ؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم سے ! تو انہوں نے میری چادر کا کنارہ ( پلو) پکڑ کی اپنی طرف کھینچا اور فرمایا : تمہارے لئے خوشخبری ہے ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ فرماتا ہے : میری محبت ان دو آدمیوں کے لئے واجب ہو گئی جو ایک دوسرے سے میری وجہ سے محبت کرتے ہیں اور مجلس میں میرے لئے بیٹھتے ہیں اور میرے لئے ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور میرے لئے ایک دوسرے پر مال خرچ کرتے ہیں ۔

سندہ صحیح

«414- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 953/2 ، 954ح 1843 ، ك 51 ب 5 ح 16) التمهيد 124/21 ، 125 ، الاستذكار : 1779
و أخرجه أحمد (233/5) وعبد بن حميد (125) من حديث مالك به وصححه ابن حبان (المورد : 2510) الحاكم (168/4-170) عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي
»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سعيد بن أبي سعيدٍ
خمسة أحاديث له عن أبي هريرة حديثٌ واحدٌ
415- مالكٌ عن سعيد بن أبي سعيدٍ المقبري عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( ( لا يحل لامرأةٍ تؤمن بالله واليوم الآخر تسير مسيرة يومٍ وليلةٍ إلا مع ذي محرمٍ منها) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی عورت کے لئے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہے ، محرم کے بغیر دن اور رات کا سفر کرنا جائز نہیں ہے

سندہ صحیح

«415- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 979/2 ح 1899 ، ك 54 ب 14 ح 37) التمهيد 49/21 ، الاستذكار : 1835
و أخرجه مسلم (1339/421) من حديث مالك به وعلقه البخاري (1088)
وفي رواية يحي بن يحي : ” تُسَافِرُ“»
------------------
أبو شريحٍ الكعبي
حديثٌ واحدٌ
416- وعن سعيد بن أبي سعيدٍ المقبري عن أبي شريحٍ الكعبي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيراً أو ليصمت ، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم جاره ، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته يوماً وليلةً ، والضيافة ثلاثة أيامٍ ، فما كان بعد ذلك فهو صدقةٌ ، ولا يحل له أن يثوي عنده حتى يحرجه) ) .

سیدنا ابوشریح الکعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام ( عزت) کرے مہمان کی بہترین دعوت ایک دن اور رات ہے اور ضیافت تین دن ہے اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ میزبان کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرا رہے کہ میزبان تنگ ہو جائے

سندہ صحیح

«416- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 929/2 ح 1792 ، ك 49 ب 10 ح 22 مطولاً) التمهيد 35/21 ، الاستذكار : 1762
و أخرجه البخاري (6135) من حديث مالك به ومسلم (148 بعد ح 1762) من حديث سعيد المقبري به»
------------------
أبو سلمة بن عبد الرحمن
حديثٌ واحدٌ
417- وعن سعيد بن أبي سعيدٍ عن أبي سلمة بن عبد الرحمن أنه أخبره أنه سأل عائشة أم المؤمنين : كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ فقالت : ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعةً يصلي أربعاً فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ، ثم يصلي أربعاً فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ، ثم يصلي ثلاثاً ، قالت عائشة : فقلت : يا رسول الله أتنام قبل أن توتر؟ فقال : ( (يا عائشة ، إن عيني تنامان ولا ينام قلبي) ) .

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کیسی تھی؟ تو انہوں نے فرمایا : رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے چار رکعتیں پڑھتے تھے مگر ان کی خوبصورتی اور لمبائی کے بارے میں نہ پوچھو پھر چار پڑھتے مگر ان کی خوبصورتی اور طوالت کے بارے میں نہ پوچھو ، پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: یا رسول اللہ ! کیا آپ وتر سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا : اے عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں مگر میرا دل نہیں سوتا

سندہ صحیح
متفق عليه

«417- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 120/1 ح 462 ، ك 7 ب 2 ح 9) التمهيد 69/21 ، الاستذكار : 233
و أخرجه البخاري (2013) ومسلم (738) من حديث مالك به»
------------------
عبيد بن جريجٍ
حديثٌ واحدٌ
418- وعن سعيد بن أبي سعيدٍ عن عبيد بن جريجٍ أنه قال لعبد الله بن عمر : يا أبا عبد الرحمن ، رأيتك تصنع أربعاً لم أر أحداً من أصحابك يصنعها ، قال : وما هي يا ابن جريجٍ؟ قال : رأيتك لا تمس من الأركان إلا اليمانين ، ورأيتك تلبس النعال السبتية ، ورأيتك تصبغ بالصفرة ، ورأيتك إذا كنت بمكة أهل الناس إذا رأوا الهلال ولم تهل أنت حتى كان يوم التروية ، قال عبد الله بن عمر : أما الأركان فإني لم أر رسول الله صلى الله عليه وسلم يمس من الأركان إلا اليمانين ، وأما النعال السبتية فإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس النعال التي ليس فيها شعرٌ ويتوضأ فيها ، فأنا أحب أن ألبسها ، وأما الصفرة فإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبغ بها ، فأنا أحب أن أصبغ بها ، وأما الإهلال فإني لم أر رسول الله صلى الله عليه وسلم يهل حتى تنبعث به راحلته.

عبید بن جریج ( رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن ! میں نے اپ کو چار ایسی چیزیں کرتے ہوئے دیکھا ہے جو کہ آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی نہیں کرتا . انہوں نے پوچھا: اے ابن جریج ! یہ کون سی چیزیں ہیں ؟ میں نے کہا: آپ ( طواف کے دوران میں ) صرف دو یمنی رکنوں ( کعبہ کی دو دیواریں جو یمن کی طرف ہیں ) کو چھوتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ بغیر بالوں والے جوتے پہنتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ زرد خضاب لگاتے ہیں اور جب آپ مکہ میں ہوتے ہیں ( اور ) لوگ( ذوالحجہ کا ) چاند دیکھتے ہی لبیک کہنا شروع کرتے ہیں جبکہ آپ ترویہ کے دن ( ۸ ذولحجہ ) سے پہلے لبیک نہیں کہتے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : رہا مسئلہ ارکان کا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو یمنی ارکان چھونے کے علاوہ نہیں دیکھا کہ اپ نے کسی رکن کو چھوا ہو رہے بغیر بالوں والے جوتے تو میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر بالوں والے جوتے پہنتے اور ان میں وضو کرتے تھے اور میں پسند کرتا ہوں کہ انہیں پہنوں رہا زرد خضاب تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خضاب لگاتے ہوئے دیکھا ہے اور میں اس وجہ سے یہ خضاب لگانا پسند کرتا ہوں ، رہا لبیک کہنا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( منیٰ کی طرف ۸ ذوالحجہ کو ) سواری روانہ کرنے سے پہلے لبیک کہتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا

سندہ صحیح
متفق عليه

«418- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 333/1 ح 784 ، ك 20 ب 9 ح 31) التمهيد 74/21 ، الاستذكار : 700
و أخرجه البخاري (166) ومسلم (1187) من حديث مالك به
سقط من الأصل واستدركته من رواية يحي بن يحي»
------------------
سعيدٌ عن أبيه
419- وعن سعيدٍ المقبري عن أبيه عن أبي هريرة قال : خمسٌ من الفطرة : تقليم الأظفار ، وقص الشارب ، ونتف الإبط ، وحلق العانة ، والاختتان.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں : ناخن تراشنا ، مونچھیں کٹوانا ، بغلوں کے بال نوچنا ، زیرناف شرمگاہ کے بال مونڈنا اور ختنہ کرنا

سندہ صحیح موقوف

«419- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 921/2 ح 1774 ، ك 49 ب 3 ح 3) التمهيد 56/21 ، الاستذكار : 1706
و أخرجه البخاري فی الادب المفرد (1294) من حديث مالك به وللحدیث لون آخر عند النسائي (129/8 ح 5047) ورواه البخاري(5859) ومسلم (257) من حديث سعيد بن المسيب عن ابي هريرة به مرفوعاً والحديثان صحيحان والحمد للہ»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حديث أبي النضر ، واسمه سالمٌ
ثمانية أحاديث وله عن سليمان بن يسارٍ حديثٌ واحدٌ وفي اتصاله نظرٌ
420- مالكٌ عن أبي النضر مولى عمر بن عبيد الله عن سليمان بن يسارٍ عن المقداد بن الأسود أن علي بن أبي طالبٍ أمره أن يسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل إذا دنا من أهله فخرج منه المذي ، ماذا عليه؟ قال عليٌ : فإن عندي ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم فأنا أستحي أن أسأله ، قال المقداد : فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك فقال : ( (إذا وجد ذلك أحدكم فلينضح فرجه بالماء وليتوضأ وضوءه للصلاة) )
.

سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھیں جو اپنی بیوی کے پاس جب جاتا ہے تو اس سے مذی خارج ہوتی ہے ، اس آدمی پر کیا ضروری ہے ؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی میری بیوی ہے لہٰذا آپ سے یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے ۔ سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ نے کہا: پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا: تو آپ نے فرمایا : اگر تم میں سے کسی کے ساتھ ایسی حالت پیش آئے تو اسے چاہئے کہ اپنی شرمگاہ پانی سے دھوئے اور نماز کے لئے وضو کرے ۔

صحيح
«420- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 40/1 ح 213 ، ك 2 ب 13 ح 53) التمهيد 202/21 وقال ”هذا إسناد ليس بمتصل“ ، الاستذكار : 186
و أخرجه أبوداود (207) و ابن ماجه (505) و النسائي (97/1 ح 156 ، 125/1 ح 441) من حديث مالك به ورواه مسلم (303/19) من حديث سليمان بن يسار عن ابن عباس به وبه صح الحديث والحمد للہ »
------------------
أبو مرة
حديثٌ واحدٌ
421- وعن أبي النضر أن أبا مرة مولى أم هانئٍ ابنة أبي طالبٍ أخبره أنه سمع أم هانئٍ ابنة أبي طالبٍ تقول : ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح فوجدته يغتسل ، وفاطمة ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم تستره بثوبٍ ، قالت : فسلمت فقال : ( (من هذه؟) ) فقلت : أنا أم هانئٍ ابنة أبي طالبٍ ، فقال : ( (مرحباً بأم هانئٍ) ) فلما فرغ من غسله قام فصلى ثمان ركعاتٍ ملتحفاً في ثوبٍ واحدٍ ثم انصرف ، فقلت : يا رسول الله زعم ابن أمي أنه قاتلٌ رجلاً أجرته فلان بن هبيرة ، فقال : ( (قد أجرنا من أجرت يا أم هانئٍ) )قالت أم هانئٍ : وذلك ضحى.

سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ( مکہ کی) فتح والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی تو دیکھا کہ آپ غسل فرما رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے کپڑے سے آپ کا پردہ کر رکھا تھا تو میں نے سلام کیا ۔ آپ نے فرمایا : یہ کون ہے ؟ میں نے کہا: میں ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں تو آپ نے فرمایا : ام ہانی کو خوش آمدید ۔ پھر جب آپ اپنے غسل سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے آپ نے آٹھ رکعات پڑھیں پھر فارغ ہوئے تو میں نے کہا: یا رسول اللہ ! میری ماں کے بیٹے ( سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس آدمی فلاں بن ہبیرہ کو قتل کریں گے جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ام ہانی ! جسے تم نے پناہ دی ہے ہم اسے پناہ دیتے ہیں ۔ ام ہانی نے فرمایا : اور یہ چاشت کا وقت تھا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«421- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 152/1 ح 356 ، ك 9 ب 8 ح 28) التمهيد 186/21 ، الاستذكار : 329
و أخرجه البخاري (357) ومسلم (336/82 بعد ح 819) من حديث مالك به»
------------------
بسر بن سعيدٍ
حديثٌ واحدٌ
422- وعن أبي النضر عن بسر بن سعيد أن زيد بن خالد الجهني أرسله إلى أبي جهيمٍ يسأله ماذا سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم في المار بين يدي المصلي؟ فقال أبو جهيمٍ : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه ، لكان أن يقف أربعين خيراً له من أن يمر بين يديه) ) قال أبو النضر : لا أدري قال : أربعين يوماً أم شهراً أم سنة.

بسر بن سعید رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ نے انہیں سیدنا ابوجہیم رضی اللہ عنہ کی طرف یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟ تو سیدنا ابوجہیم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر نمازی کے سامنے گزرنے والے کو یہ معلوم ہوتا کہ اس پر کیا ( گناہ) ہے تو اس کے لئے چالیس ( ؟)کھڑے رہنا بہتر تھا ، اس سے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرے ۔
ابوالنضر
( رحمہ اللہ ، راوی) نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے چالیس دن فرمایا تھا یا چالیس مہینے یا چالیس سال؟
سندہ صحیح
متفق عليه

«422- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 154/1 ح 362 ، ك 9 ب 10 ح 34) التمهيد 146/21 ، الاستذكار : 332
و أخرجه البخاري (510) ومسلم (507) من حديث مالك به»
------------------
أبو سلمة
حديثان
423- وعن أبي النضر مولى عمر بن عبيد الله عن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت : كنت أنام بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجلاي في قبلته ، فإذا سجد غمزني فقبضت رجلي ، فإذا قام بسطتهما ؛ قالت : والبيوت يومئذٍ ليس فيها مصابيح.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سوئی ہوتی تھی اور میرے پاؤں آپ کے قبلے کی طرف ہوتے تھے پھر جب آپ سجدہ کرتے تو میرے پاؤں کو ہاتھ سے دباتے ، میں اپنے پاؤں کھینچ لیتی پھر جب آپ کھڑے ہوتے تو میں پاؤں پھیلا لیتی ۔ ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے ۔
سندہ صحیح
متفق عليه

« 423- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 117/1 ح 255 ، ك 7 ب 1 ح 2) التمهيد 166/21 ، الاستذكار : 226
و أخرجه البخاري (382) ومسلم (512/272) من حديث مالك به »
------------------
424- وبه : أنها قالت : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول لا يفطر ، ويفطر حتى نقول لا يصوم ؛ وما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهرٍ قط إلا رمضان ، وما رأيته في شهرٍ أكثر صياماً منه في شعبان.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنا شروع کرتے حتیٰ کہ ہم کہتے کہ آپ ( اب) افطار نہیں کریں گے اور افطار کرنا شروع کرتے حتیٰ کہ ہم کہتے آپ ( اب) روزے نہیں رکھیں گے ۔ میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں سب سے زیادہ روزے رکھے ہوں ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

« 424- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 309/1 ح 495 ، ك 18 ب 22 ح 56) التمهيد 164/21 ، الاستذكار : 644
و أخرجه البخاري (1969) ومسلم (1156/175) من حديث مالك به»
------------------
عميرٌ مولى ابن عباسٍ
حديثٌ واحدٌ
425- وعن أبي النضر عن عميرٍ مولى ابن عباسٍ عن أم الفضل بنت الحارث : أن ناساً تماروا عندها يوم عرفة في صيام رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال بعضهم : هو صائمٌ ، وقال بعضهم ليس بصائمٍ. فأرسلت إليه أم الفضل بقدح لبنٍ وهو واقفٌ على بعيره بعرفة فشربه.

سیدہ ام الفضل بنت الحارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرفات کے دن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے بارے میں اختلاف کیا ۔ بعض نے کہا: آپ روزے سے ہیں اور بعض نے کہا: آپ روزے سے نہیں ہیں ۔ پھر ام الفضل رضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ بھیجا اور آپ عرفات میں اونٹ پر کھڑے تھے تو آپ نے اسے نوش فرما لیا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

« 425- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 375/1 ح 852 ، ك 20 ب 43 ح 132) التمهيد 157/21 ، الاستذكار : 800
و أخرجه البخاري (1661) ومسلم (1123) من حديث مالك به»
------------------
نافعٌ مولى أبي قتادة
حديثٌ واحدٌ
426- وعن أبي النضر عن نافعٍ مولى أبي قتادة الأنصاري عن أبي قتادة : أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كنا ببعض طريق مكة تخلف مع أصحابٍ له محرمين وهو غير محرمٍ. فرأى حماراً وحشياً فاستوى على فرسه ، ثم سأل أصحابه أن يناولوه سوطه فأبوا ، فسألهم رمحه فأبوا ، فأخذ ، ثم شد على الحمار فقتله ، فأكل بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وأبى بعضهم ، فلما أدركوا رسول الله صلى الله عليه وسلم سألوه عن ذلك ، فقال : ( (إنما هي طعمةٌ أطعمكموها الله) ) .

سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ ابوقتادہ الانصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: جب ہم مکے کے بعض راستے میں تھے تو وہ بعض ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے اور انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا ۔ پھر انہوں نے ایک گورخر ( جنگلی حلال جانور) دیکھا تو اپنے گھوڑے پر چڑھ گئے پھر اپنے ساتھیوں سے کہا: کہ وہ انہیں ان کا کوڑا دے دیں مگر ساتھیوں نے انکار کر دیا ۔ پھر انہوں نے کہا: کہ ان کا نیزہ انہیں دے دیں مگر ساتھیوں نے ( اس سے بھی) انکار کر دیا تو انہوں نے خود پکڑ لیا پھر گورخر پر حملہ کرکے اسے شکار کر لیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے اس گورخر کے گوشت میں سے کھایا اوربعض نے کھانے سے انکار کر دیا پھر جب ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ سے اس ( شکار ) کے بارے میں پوچھا: تو آپ نے فرمایا : یہ ( حلال) کھانا ہے جو تمہیں اللہ نے کھلایا ہے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«426- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 350/1 ح 794 ، ك 20 ب 24 ح 76) التمهيد 151/21 ، الاستذكار : 744
و أخرجه البخاري (2914) ومسلم (1196/57) من حديث مالك به»
------------------
عبيد الله بن عبد الله
حديثٌ واحدٌ
427- وعن أبي النضر عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعودٍ أنه دخل على أبي طلحة الأنصاري يعوده ، قال : فوجدنا عنده سهل بن حنيفٍ ، قال : فدعا أبو طلحة إنساناً فنزع نمطاً ، تحته فقال له سهل بن حنيفٍ : لم تنزعه؟ فقال : لأن فيه تصاوير وقد قال فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قد علمت ، فقال سهلٌ : ألم يقل : ( (إلا ما كان رقماً في ثوبٍ) ) فقال : بلى ، ولكنه أطيب لنفسي.

كمل حديث أبي النضر وهو ثمانيةٌ ، وتقدم له مع محمد بن المنكدر في الطاعون ، وحديثٌ آخر مع عبد الله بن يزيد مولى الأسود في صلاة الجالس.

عبیداللہ (بن عبداللہ) بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ وہ سیدنا ابوطلحہ الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بیمار پرسی کے لئے گئے تو وہاں سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ۔ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو بلایا پھر اپنے نیچے سے بستر کی چادر نکالی تو سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ نے اسے کیوں نکال دیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : کیونکہ اس میں تصویریں ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے آپ جانتے ہیں ، تو سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ سوائے وہ نقش جو کپڑے پر ہو تو انہوں نے کہا: کیوں نہیں ! لیکن یہ ( کپڑا ہٹانا) میرے دل میں زیادہ پسندیدہ ہے ۔
ابوالنضر کی
( بیان کردہ) حدیثیں مکمل ہوئیں اور یہ آٹھ حدیثیں ہیں ۔ ان کی ایک حدیث محمد بن المنکدر ( کی سند) کے ساتھ طاعون کے بارے میں گزرچکی ہے ( دیکھئے ح ۸۷) اور دوسری حدیث عبداللہ بن یزید ( کی سند) کے ساتھ بیٹھنی والے کی نماز کے بارے میں گزرچکی ہے ۔ ( دیکھئے ح۳۷۸)

سندہ صحیح

«427- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 8966/2 ح 1868 ، ك 54 ب 3 ح 7) التمهيد 191/21 ، الاستذكار : 1804
و أخرجه الترمذي (1750 ، وقال : ”حسن صحيح“) و النسائي (212/8 ح 5351) من حديث مالك به»
------------------
 
Last edited:
Top