أبو حازمٍ ، واسمه سلمة بن دينارٍ
سبعة أحاديث
408- مالكٌ عن أبي حازم بن دينارٍ عن سهل بن سعد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذهب إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم وجاءت الصلاة ، فجاء المؤذن إلى أبي بكرٍ فقال : أتصلي للناس فأقيم؟ فقال : نعم ، فصلى أبو بكرٍ ، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس في الصلاة فتخلص حتى وقف في الصف فصفق الناس وكان أبو بكرٍ لا يلتفت في صلاته ، فلما أكثر الناس التصفيق التفت فرأى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن امكث مكانك ، فرفع أبو بكرٍ يديه فحمد الله على ما أمره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك ثم استأخر حتى استوى في الصف وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى ، فلما انصرف قال : ( (يا أبا بكرٍ ، ما منعك أن تثبت إذ أمرتك؟) ) فقال أبو بكرٍ : ما كان لابن أبي قحافة أن يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (ما لي رأيتكم أكثرتم من التصفيق ، من نابه شيءٌ في صلاته فليسبح ، فإنه إذا سبح التفت إليه ، وإنما التصفيق للنساء) ) .
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمروبن عوف کی طرف صلح کرانے کے لئے گئے اور نماز کا وقت ہو گیا تو مؤذن نے آکر سیدنا ابوبکر ( الصدیق رضی اللہ عنہ) سے کہا: کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے تاکہ میں اقامت کہوں؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں ! پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانی شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور لوگ نماز میں تھے آپ چلتے ہوئے( اگلی صف میں) کھڑے ہوگئے تو لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کیں ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں پھر انہوں نے نگاہ کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو پھر سیدنا ابوبکر ( الصدیق رضی اللہ عنہ ) نے ( دعا کے لئے ) دونوں ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ نے فرمایا : اے ابوبکر ! جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا تو تم اپنی جگہ کیوں نہ ٹھہرے رہے ؟ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ابوقحافہ کے بیٹے کی ( یعنی میری) یہ طاقت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ( کھڑے ہوکر) نماز پڑھائے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا وجہ ہے کہ میں نے تمھیں دیکھا تم کثرت سے تالیاں بجا رہے تھے ؟ اگر نماز میں کوئی چیز پیش آئے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے کیونکہ سبحان اللہ کے بعد وہ ( امام) اس طرف متوجہ ہوگا اور تالیاں بجانا تو عورتوں کے لئے ہے ۔
سندہ صحیح
متفق عليه
«408- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 163/1 ، 164 ح 391 ، ك 9 ب 20 ح 61) التمهيد 100/21
و أخرجه البخاري (684) ومسلم (421) من حديث مالك به
وفي رواية يحي بن يحي : ” وحانت الصلاة“
وفي رواية يحي : ”فقال“ »
------------------
409- وبه : عن سهلٍ أنه قال : كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة ، قال أبو حازمٍ : ولا أعلم إلا أنه ينمي ذلك.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے ۔ ابوحازم رحمہ اللہ نے فرمایا : میں یہی جانتا ہوں کہ وہ اسے مرفوع بیان کرتے تھے ۔
سندہ صحیح
«409- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 159/1ح 377 ، ك 9 ب 15 ح 47) التمهيد 96/21 ، الاستذكار : 347
و أخرجه البخاري (740) من حديث مالك به»
------------------
410- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لا يزال الناس بخيرٍ ما عجلوا الفطر) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگ اس وقت تک خیر سے رہیں گے جب تک روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے ۔
سندہ صحیح
«410- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 288/1ح 645 ، ك 18 ب 3 ح 6) التمهيد 97/21 ، الاستذكار : 594
و أخرجه البخاري (1957) من حديث مالك به ، ومسلم (1098/48) من حديث ابي حازم به »
------------------
411- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءته امرأةٌ فقالت : يا رسول الله ، إني قد وهبت نفسي لك ؛ فقامت قياماً طويلاً ، فقام رجلٌ فقال : يا رسول الله ، زوجنيها إن لم تكن لك بها حاجةٌ ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (هل عندك من شيءٍ تصدقها إياه؟) ) قال : ما عندي إلا إزاري هذا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إن أعطيتها إزارك جلست لا إزار لك ، فالتمس شيئاً) ) قال : ما أجد شيئاً ، قال : ( (التمس ولو خاتم حديد) ) فالتمس فلم يجد شيئاً ، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (هل معك من القرآن شيءٌ) ) قال : نعم ، سورة كذا وسورة كذا لسورٍ سماها لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (قد زوجتكها بما معك من القرآن) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آکر عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں اپنی جان آپ کو ہبہ کرتی ہوں پھر وہ کافی دیر کھڑی رہی تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ ! اگر آپ کو ضرورت نہیں ہے تو اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو تم اسے حق مہر میں دے سکو؟ اس آدمی نے کہا: میرے پاس اس ازار کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم اسے اپنا ازار دے دو گے تو پھر تمہارے پاس کوئی ازار نہیں رہے گا ، جؤ اور کوئی چیز تلاش کرو انہوں نے کہا: میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا : تلاش کرو اگرچہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو اس آدمی نے تلاش کیا تو کچھ بھی نہ پایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: کیا قرآن میں سے کچھ تمھیں یاد ہے ؟ اس نے کہا: جی ہاں ! فلاں فلاں سورت یاد ہے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ سورتوں کے نام لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: میں نے اس عورت کا نکاح تمہارے ساتھ اس قرآن کے عوض کر دیا جو تمہیں یاد ہے ۔
سندہ صحیح
« 411- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 526/2 ح 1141 ، ك 28 ب 3 ح 8) التمهيد 109/21 ، الاستذكار : 1065
و أخرجه البخاري (5135) و الترمذي (1114) من حديث مالك به ، ورواه مسلم (1424) من حديث ابي حازم به »
------------------
412- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إن كان ففي الفرس والمرأة والمسكن ، يعني الشؤم) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو گھوڑے ، عورت اور مکان میں ہوتی ۔
سندہ صحیح
متفق عليه
«412- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 972/2 ح 1882 ، ك 54 ب 8 ح 21) التمهيد 97/21 ، الاستذكار : 1818
و أخرجه البخاري (2859) ومسلم (2226) من حديث مالك به »
------------------
413- وبه : أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بشرابٍ فشرب منه وعن يمينه غلامٌ وعن يساره الأشياخ ، فقال للغلام : ( (أتأذن لي أن أعطي هؤلاء) ) فقال : لا والله يا رسول الله ، لا أوثر بنصيبي منك أحداً ، قال : فتله رسول الله صلى الله عليه وسلم في يده.
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مشروب ( یعنی دودھ) لایا گیا تو آپ نے اس میں سے پیا آپ کی دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر کے لوگ تھے تو آپ نے لڑکے سے کہا: اگر تم مجھے اجازت دو تو ان ( بڑی عمر کے ) لوگوں کو یہ ( بچا ہوا حصہ) دے دوں؟ اس لڑکے نے کہا: نہیں ، یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! میں آپ کے جوٹھے پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔
سندہ صحیح
متفق عليه
«413- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 926/2 ، 927 ح 1788 ، ك 49 ب 9 ح 18) التمهيد 120/21 ، 121 ، الاستذكار : 867
و أخرجه البخاري (5260) ومسلم (2030) من حديث مالك به »
------------------
414- وعن أبي حازم بن دينارٍ عن أبي إدريس الخولاني أنه قال : دخلت مسجد دمشق فإذا فتىً براق الثنايا ، وإذا الناس معه إذا اختلفوا في شيءٍ أسندوه إليه وصدروا عن رأيه فسألت عنه فقيل هذا معاذ بن جبلٍ. فلما كان من الغد هجرت إليه فوجدته قد سبقني بالتهجير ووجدته يصلي قال : فانتظرته حتى قضى صلاته ثم جئته من قبل وجهه ، فسلمت عليه ثم قلت : والله إني لأحبك لله ، فقال : آلله؟ فقلت : والله ، فقال : آلله؟ فقلت : والله ، قال : فأخذ بحبوة ردائي فجبذني إليه وقال : أبشر ، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( (قال الله وجبت محبتي للمتحابين في والمتجالسين في والمتزاور ين في والمتباذلين في) ) .
ابوادریس الخوالانی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا تو چمکتے دانتوں والا ایک نوجواب دیکھا اور لوگ اس کے پاس ( جمع)تھے ، جب کسی چیز میں ان کا اختلاف ہوتا تو اس کی طرف رجوع کرتے اور اس کی رائے ( فیصلے ) کی طرف رجوع کرتے میں نے پوچھا: کہ یہ کون ہے ؟ تو کہا: گیا : یہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں پھر اگلی صبح میں جلدی آیا تو دیکھا کہ وہ مجھ سے بھی پہلے آکر نماز پڑھ رہے تھے میں نے ان کا انتظار کیا ، وہ جب نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے ان کے سامنے آکر انہیں سلام کیا پھر کہا: اللہ کی قسم ! میں آپ سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہوں انہوں نے کہا: کیا اللہ کی قسم سے ؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم سے ! انہوں نے کہا: کیا اللہ کی قسم سے ؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم سے ! تو انہوں نے میری چادر کا کنارہ ( پلو) پکڑ کی اپنی طرف کھینچا اور فرمایا : تمہارے لئے خوشخبری ہے ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ فرماتا ہے : میری محبت ان دو آدمیوں کے لئے واجب ہو گئی جو ایک دوسرے سے میری وجہ سے محبت کرتے ہیں اور مجلس میں میرے لئے بیٹھتے ہیں اور میرے لئے ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور میرے لئے ایک دوسرے پر مال خرچ کرتے ہیں ۔
سندہ صحیح
«414- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 953/2 ، 954ح 1843 ، ك 51 ب 5 ح 16) التمهيد 124/21 ، 125 ، الاستذكار : 1779
و أخرجه أحمد (233/5) وعبد بن حميد (125) من حديث مالك به وصححه ابن حبان (المورد : 2510) الحاكم (168/4-170) عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي »
------------------