• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم (یونیکوڈ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
61 حمزة وسالم " حديثٌ واحدٌ"
61- مالكٌ عن ابن شهاب عن حمزة وسالمٍ ابني عبد الله بن عمر عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( (الشؤم في الدار والمرأة والفرس) ) .

سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نحوست ( اگر ہے تو ) تین چیزوں میں ہے ۔ گھر ، عورت اور گھوڑا

صحيح
متفق عليه
« 61- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 972/2 ح 1883 ، ك 54 ب 8 ح 22) التمهيد 278/9 ، الاستذكار : 1819
و أخرجه البخاري (5093) ومسلم (2225) من حديث مالك به»
------------------
62 أبو بكرٍ بن عبيد الله " حديثٌ واحدٌ. وفي اتصاله بعض النظر"
62- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن أبي بكر بن عبيد الله بن عبد الله بن عمر عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( (إذا أكل أحدكم فليأكل بيمينه وليشرب بيمينه، فإن الشيطان يأكل بشماله ويشرب بشماله) ) .

سیدنا عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میںسے کوئی شخص کھائے تو دائیں ہاتھ سے کھائے اور ( پئے تو ) اپنے دائیں ہاتھ سے پئے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور بائیں ہاتھ سے پیتاہے ۔

صحيح
«62- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 922/2 ، 923 ح 1777 ، ك 49 ب 4 ح 6) التمهيد 109/11 ، الاستذكار : 1709
و أخرجه مسلم (2020) من حديث مالك به»
------------------
63 عبد الحميد بن عبد الرحمن " حديثٌ واحدٌ
63- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب عن عبد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل عن عبد الله بن عباسٍ: أن عمر بن الخطاب خرج إلى الشام حتى إذا كان بسرغ لقيه أمراء الأجناد أبو عبيدة ابن الجراح وأصحابه فأخبروه أن الوباء قد وقع بالشام.
قال ابن عباسٍ: فقال عمر: ادع لي المهاجرين الأولين، فدعاهم فاستشارهم وأخبرهم أن الوباء قد وقع بالشام فاختلفوا، فقال بعضهم: قد خرجت لأمرٍ ولا نرى أن ترجع عنه، وقال بعضهم: معك بقية الناس وأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى أن تقدمهم على هذا الوباء. فقال: ارتفعوا عني،
ثم قال: ادع لي الأنصار، فدعوهم له فاستشارهم فسلكوا سبيل المهاجرين واختلفوا كاختلافهم، فقال: ارتفعوا عني.
ثم قال: ادع لي من كان ههنا من مشيخة قريشٍ من مهاجرة الفتح، فدعوهم فلم يختلف عليه منهم رجلان، فقالوا: نرى أن ترجع بالناس ولا تقدمهم على هذا الوباء.
فنادى عمر في الناس: إني مصبحٌ على ظهرٍ فأصبحوا عليه، فقال أبو عبيدة ابن الجراح: أفراراً من قدر الله؟ فقال عمر: لو غيرك قالها يا أبا عبيدة، نعم نفر من قدر الله إلى قدر الله، أرأيت لو كانت لك إبلٌ فهبطت وادياً له عدوتان إحداهما خصبةٌ والأخرى جدبةٌ، أليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله وإن رعيت الجدبة رعيتها بقدر الله.
قال: فجاء عبد الرحمن بن عوفٍ وكان متغيباً في بعض حاجته، فقال: إن عندي من هذا علماً. سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ( (إذا سمعتم به بأرضٍ فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرضٍ وأنتم بها فلا تخرجوا فراراً منه) ) .قال: فحمد الله عمر ثم انصرف."

سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف جہاد کے لیے نکلے “ جب آپ سَرغ ( وادی تبوک کے قریب ایک مقام ) پہنچے تو آپ کے فوجی امراء ( جوکہ اردن “ حمص“ دمشق “ فلسطین اور قنسرین پر مقر ر تھے ) ابوعبیدبن الجراح رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آپ کے پاس آئے اور بتایا کہ شام میں ( طاعون کی ) وبا پھیلی ہوئی ہے ۔ ابن عباس نے کہا: کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میرے پاس مہاجرین اولین کو بلاﺅ ۔ آپ نے انھیں بلا کر ان سے مشورہ کیا اور بتایا کہ شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو ان کے درمیان اختلاف ہوگیا ۔ بعض نے کہا: آپ ایک کام کے لیے گھر سے نکلے ہیں اور ہمارے خیال میں آپ کو اسے چھوڑ کر واپس نہیں جانا چاہیے ۔ بعض نے کہا: آپکے ساتھ السابقون الاولون باقی رہنے والے صحابہ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہ ہیں اور ہمارا یہ خیال ہے کہ آپ انھیں وبا والے علاقے میں لے کر نہ جائیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ میرے پاس سے اٹھ جائیں ۔ پھر آپ نے کہا: میرے پاس انصاریوں کو بلاﺅ ۔ پھر آپ نے ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی مہاجرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی طرح آپس میں اختلاف کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے بھی کہا: آپ میرے پاس سے اٹھ جائیں ۔ پھر انہوں نے فرمایا : میرے پاس مہاجرین فتح مکہ کے بوڑھے قریشیوں کو لاﺅ ۔ پھر انھیں بلایا گیا تو ان میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کے ساتھ واپس لوٹ جائیں اور انھیں وبا والے علاقے میں لے کر نہ جائیں ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کیا : میں صبح ( واپسی کے لیے ) سواری کی پیٹھ پرہوں گا اور تم بھی اپنی سواریوں پر سوار ہو جانا ۔ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا آپ اﷲ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے ابوعبید ! اگر تمھارے علاوہ کوئی اور یہ کہتا تو جی ہاں ! ہم اﷲ کی تقدیر سے اﷲ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں ۔ تمھارا کیا خیال ہے ؟ اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں پھر تم دو وادیوں کے پاس جاؤ ، ایک سرسبز وشاداب ہو اور دوسری خشک وخراب ہو تو تم کہاں جاؤ گے ؟ اگر تم اونٹوں کو سرسبز وشاداب وادی میں چراتے ہو تو اﷲ کی تقدیر سے چراتے ہو اور اگر خشک وخراب وادی میں چراتے ہو تو اﷲ کی تقدیر سے چراتے ہو ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جو اپنے کسی کام سے لشکر سے غیر حاضر تھے تشریف لائے تو صحابہ کا اختلاف معلوم ہونے کے بعد انہوں نے فرمایا : میرے پاس اس کے بارے میں علم موجود ہے ۔ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم اس وبا کے بارے میں سنو کہ کسی علاقے میں پھیلی ہوئی ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر کسی ایسے علاقے میں وبا پھیل جائے جہاں تم موجود ہو تو وہاں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے نہ نکلو ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تو عمر رضی اللہ عنہ نے اﷲ کی حمد وثنا بیان فرمائی اور واپس لوٹ گئے ۔

صحيح
متفق عليه
«63- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 894/2 - 896 ح 1720ك 45 ب 7 ح 22 ، وعنده : فدعوتهم بدل فدعوهم ) التمهيد 361/8-363 ، الاستذكار : 1652
و أخرجه البخاري (5729) مسلم (2219) من حديث مالك به»
------------------
64 عبد الله والحسن ابنا محمد " حديثٌ واحدٌ"
64- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن عبد الله والحسن ابني محمد بن علي عن أبيهما عن علي بن أبي طالبٍ رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن متعة النساء يوم خيبر وعن أكل لحوم الحمر الإنسية.

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر والے دن عورتوں کے متعہ اور گدھوں کے گوشت سے منع کر دیا ۔

صحيح
متفق عليه
«64- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 542/2 ح 1178 ، ك 28 ب 18 ح 41) التمهيد 94/10 ، الاستذكار : 1098
و أخرجه البخاري (4216 ، 5523) ومسلم (1407/29) من حديث مالك به»
------------------
65 علي بن الحسين حديثٌ واحدٌ
65- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن علي بن حسين بن علي بن أبي طالب عن عمرو بن عثمان بن عفان عن أسامة بن زيدٍ: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( (لا يرث المسلم الكافر) ) .

سیدنا اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمان کا فر کا وارث نہیں ہوتا ۔

صحيح
«65- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 519/2 ح 1127 ، ك 27 ب 13 ح 10 ، وعنده : ”عمر بن عثمان“ وهو وهم والصواب ”عمرو بن عثمان بن عفان “)التمهيد 160/9 ، الاستذكار : 1051
أخرجه النسائي في الكبريٰ (81/4 حديث 6372 - 6375) من حديث مالك به ورواه البخاري (6764) ومسلم (1614) من حديث ابن شهاب الزهري به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
66 - عيسى بن طلحة - حديثٌ واحدٌ -
66- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن عيسى بن طلحة بن عبيد الله عن عبد الله ابن عمرو بن العاص أنه قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع بمنى للناس فجاؤوا يسألونه فجاء رجلٌ فقال: يا رسول الله، لم أشعر فحلقت قبل أن أذبح، فقال: ( (اذبح ولا حرج) ) . فجاء رجلٌ آخر فقال: يا رسول الله، لم أشعر فنحرت قبل أن أرمي. فقال له: ( (ارم ولا حرج) ) . قال: فما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شيءٍ قدم ولا أخر إلا قال: ( (افعل ولا حرج) ) . -

سیدنا عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم منٰی میں لوگوں کے لیے کھڑے ہوئے تو لوگ آپ کے پاس مسائل پوچھنے آئے ایک آدمی نے آ کر کہا: یا رسول اﷲ ! مجھے پتا نہیں تھا، میں نے قربانی ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوالیا تو آپ نے فرمایا : قربانی ذبح کر لے اور کوئی حرج نہیں ہے پھر دوسرا آدمی آیا اور کہا: یا رسول اﷲ ! مجھے پتا نہیں تھا ، میں نے جمعرات کو کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی ذبح کر لی تو آپ نے فرمایا : کنکریاں مارلے اور کوئی حرج نہیں ہے عبداﷲ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس دن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کے بارے میں پوچھا: گیاجس میں تقدیم وتاخیر ہوگئی تھی تو آپ نے یہی جواب دیا کہ کر لو اور کوئی حرج نہیں ہے ۔

صحيح
متفق عليه

«66- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 421/1 ح 970 ، ک 20 ب 81 ح 242) التمهيد 264/7 وقال : ”هٰذا حديث صحيح “ الاستذكار : 911
و أخرجه البخاري (83 ، 1736) ومسلم من حديث مالك به»
------------------
67 - محمد بن عبد الله بن الحارث - حديثٌ واحدٌ
67- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن محمد بن عبد الله بن الحارث بن نوفل بن عبد المطلب، أنه حدثه أنه سمع سعد بن أبي وقاص والضحاك بن قيسٍ عام حج معاوية بن أبي سفيان وهما يذكران التمتع بالعمرة إلى الحج، فقال الضحاك: لا يصنع ذلك إلا من جهل أمر الله تعالى. فقال سعدٌ: بئس ما قلت يا ابن أخي، قال الضحاك: إن عمر بن الخطاب قد نهى عن ذلك. فقال: قد صنعها رسول الله صلى الله عليه وسلم وصنعناها معه.

محمد بن عبد اﷲ بن الحارث بن نوفل بن عبد المطلب رحمہ اﷲ سے روایت ہے کہ جس سال معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے حج کیا تو انہوں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کو حج تمتع کا ذکر کرتے ہوئے سنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ حج تمتع وہی کرتا ہے جو اﷲ تعالی کے حکم کے بارے میں جاہل ہے تو سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے بھتیجے ! تم نے غلط بات کہی ہے ضحاک نے کہا : بے شک عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کیا ہے تو انہوں سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہے اجازت دی ہے اور ہم نے آپ کے ساتھ یہ حج تمتع کیاہے

سندہ حسن والحدیث صحیح
«67- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 344/1 ح 778 ، ك 20 ب 19 ح 60) التمهيد 341/8 ، 342 ، الاستذكار : 728
و أخرجه الترمذي (823) والنسائي (152/5 ح 2735) من حديث مالك به وقال الترمذي : ” هٰذا حديث حسن صحيح “ »
------------------
68 - عامر بن سعدٍ - " حديثٌ واحدٌ"
68- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن عامر بن سعد بن أبي وقاصٍ عن أبيه سعد بن أبي وقاص أنه قال: جاءني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني عام حجة الوداع من وجعٍ اشتد بي، فقلت: يا رسول الله، قد بلغ بي من الوجع ما ترى وأنا ذو مالٍ ولا يرثني إلا ابنةٌ لي، أفأتصدق بثلثي مالي؟ فقال: ( (لا) ) فقلت: فالشطر؟ فقال: ( (لا) ) ، ثم قال: ( (الثلث والثلث كثيرٌ أو كبيرٌ. إنك أن تذر ورثتك أغنياء خيرٌ من أن تذرهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقةً تبتغي بها وجه الله. إلا أجرت بها، حتى ما تجعل في فيِّ امرأتك) ) .

قال: فقلت: يا رسول الله، أأخلف بعد أصحابي؟ فقال: ( (إنك لن تخلف فتعمل عملاً صالحاً إلا ازددت به درجةً ورفعةً، ولعلك أن تخلف حتى ينتفع بك أقوامٌ ويضر بك آخرون، اللهم أمض لأصحابي هجرتهم ولا تردهم على أعقابهم. لكن البائس سعد بن خولة) ) يرثي له رسول الله صلى الله عليه وسلم أن مات بمكة."

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجتہ الوداع والے سال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس میری شدید بیماری کی وجہ سے میری بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے تو میں نے کہا: رسول اﷲ ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ مجھے کتنا شدید درد بیماری ہے میںمالدار آدمی ہوں اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ تو آپ نے فرمایا : نہیں میں نے کہا: کیا آدھا مال صدقہ کر دوں؟ تو آپ نے فرمایا : نہیں ، پھر آپ نے فرمایا : تیسرا حصہ صدقہ کر لواور تیسرا حصہ بھی بہت زیادہ ہے اگر تم اپنے وارثوں کو اس حالت میں چھوڑ جاﺅ کہ وہ امیر ہوں تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حالت میں چھوڑ جاﺅ کہ وہ غریب ہوں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں تم اﷲ کی رضا مندی کے لیے جو کچھ خرچ کرتے ہو اس کا تمہیں اجر ملے گا حتی کہ تم اپنی بیوی کو جونوالہ کھلاتے ہو توا س کا بھی اجر ملے گا ۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کہا: یا رسول اﷲ ! میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاﺅں گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اپنے ساتھیوں سے پیچھے نہیں رہو گے پھر تم جو بھی نیک عمل کرو گے تو تمہار ا درجہ بلند ہو گا اور عزت ملے گی اور ہو سکتا ہے کہ تم میری وفات کے بعد پیچھے زندہ رہو حتی کہ تمہاری وجہ سے ایک قوم مسلمانوں کا فائدہ پہنچے گا اور دوسروں کفار کو نقصان ہو گا اے میرے اﷲ ! میرے صحابہ کی ہجرت پوری فرما اور انہیں الٹے پاﺅں واپس نہ پھیر لیکن مصیبت زدہ تو سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے متعلق غم اور فسوس کرتے تھے کیونکہ وہ مکہ میں فوت ہوگئے تھے -

صحيح
«68- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 763/2 ح 1533 ، ك 17 ب 3 ح 4) التمهيد 374/8 ، 375 ، الاستذكار : 1462
و أخرجه البخاري (1295) من حديث مالك به ورواه مسلم (1628) من حديث الزهري به
من رواية يحييٰ بن يحييٰ»
------------------
69 - محمد بن جبيرٍ - " حديثٌ واحدٌ"
69- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن محمد بن جبير بن مطعم عن أبيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ بالطور في المغرب.

سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کونماز مغرب میں سورہ طور پڑھتے ہوئے سنا

صحيح
متفق عليه -
«69- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 78/1 ح 168 ، ك 3 ب 5 ح 23) التمهيد 145/9 ، الاستذكار : 148
و أخرجه البخاري (765) ومسلم (463) من حديث مالك به »
------------------
70 - أبو أمامة - " حديثٌ واحدٌ"
70- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن أبي أمامة بن سهل بن حنيفٍ عن عبد الله بن عباسٍ عن خالد بن الوليد بن المغيرة المخزومي: أنه دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت ميمونة، قال: فأتي بضبٍ محنوذٍ فأهوى إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، فقال بعض النسوة اللاتي في بيت ميمونة: أخبروا رسول الله صلى الله عليه وسلم بما يريد أن يأكل منه. فقيل: هو ضبٌ يا رسول الله. فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، قال: فقلت: أحرامٌ هو يا رسول الله؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (لا، ولكنه لم يكن بأرض قومي فأجدني أعافه) ) . قال خالدٌ: فاجتررته فأكلته ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر.

خالد بن ولید بن مغیرہ المخرومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ روہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہوئے تو بھنا ہو اایک سو سمار ( سمسار ، ضب) آپ کے پاس لایا گیا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں بعض عورتوں میں سے کسی نے کہا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جسے کھانا چاہتے ہیں اس کے بارے میں آپ کو بتادو کہا گیا : یار سول اﷲ ! یہ سمسار ضب ہے تو رسو ل اﷲ ! کیا یہ حرام ہے ؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں لیکن یہ ہماری قوم کے علاقے میں نہیں ہوتی ، پس اس لیے میری طبیعت اس سے انکارکرتی ہے۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے اسے اپنی طرف کھینچا ، پھر کھا لیا او ررسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھ رہے تھے

صحيح
«70- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 968/2 ح 1871 ، ك 54 ب 4 ح 10) التمهيد 247/6 ، الاستذكار : 1807
و أخرجه البخاري (5537) من حديث مالك به ورواه مسلم (1944/44) من حديث الزهري به»
------------------
71 - عباد بن تميمٍ - " حديثٌ واحدٌ"
71- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن عباد بن تميم عن عمه أنه رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم مستلقياً في المسجد واضعاً إحدى رجليه على الأخرى. -

عباد بن تمیم رحمه الله کے چچا سیدنا عبد اﷲ بن زید بن عاصم المازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں لیٹے ہوئے دیکھا اور آپ ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھے ہوئے تھے ۔

صحيح
متفق عليه
-
«71- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 172/1 ح 417 ، ک 9 ب 24 ح 87) التمهيد 203/9 ، الاستذكار : 387
و أخرجه البخاري (475) ومسلم (210) من حديث مالك به»
------------------
72 - عبد الرحمن بن كعب بن مالكٍ - حديثٌ واحدٌ
72- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن عبد الرحمن بن كعب بن مالكٍ الأنصاري أنه أخبره أن أباه كعب بن مالكٍ كان يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( (إنما نسمة المؤمن طائرٌ يعلق في شجر الجنة حتى يرجعه الله إلى جسده يوم يبعثه) ) .

سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مومن کی روح ایک پرندے کی صورت میں جنت کے درختوں سے لٹکی رہتی ہے حتی کہ اﷲ اسے قیامت کے دن اس کے جسم کی طرف بھیج دے گا ۔

سندہ صحیح
«72- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 240/1 ح 569 ، ک 16 ب 16 ح 49) التمهيد 56/11 ، الاستذكار : 523
و أخرجه النسائي (108/4 ح 2075) من حديث مالك به وسندہ صحیح و فیہ غیر قادحة والحديث صححه الترمذي (1641) وابن حبان(734) وله شواهد عند أحمد (424/6 ، 425) وغيره»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو عبيدٍ مولى ابن أزهر
حديثان
73- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن أبي عبيدٍ مولى ابن أزهر أنه قال : شهدت العيد مع عمر بن الخطاب فجاء فصلى ثم انصرف فخطب الناس ، ثم قال : إن هذين يومان نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيامهما : يوم فطركم من صيامكم والآخر يوم تأكلون منه من نسككم.
قال أبو عبيدٍ : ثم شهدت العيد مع عثمان بن عفان فجاء فصلى ثم انصرف فخطب فقال لهم : إنه قد اجتمع لكم في يومكم هذا عيدان ، فمن أحب من أهل العالية أن ينتظر الجمعة فلينتظرها ، ومن أحب أن يرجع فليرجع فقد أذنت له. قال أبو عبيدٍ : ثم شهدت العيد مع علي بن أبي طالبٍ وعثمان محصورٌ فجاء فصلى ثم انصرف فخطب.

ابوعبید مولیٰ ابن ازہر سے روایت ہے : میں سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید میں حاضر ہوا آپ تشریف لائے تو نماز پڑھائی پھر نماز سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں کا خطبہ دیا پھر فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے ان دو دنوں کے روزوں سے منع فرمایاہے : (۱) جس دن تم اپنے روزوں سے افطار کرتے ہو یعنی عید الفطر (۲) اور دوسرا دن جب تم اپنی قربانیوں میں سے کھاتے ہو یعنی عید الاضحی ۔ ابوعبید نے کہا: پھر میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید پڑھی آپ تشریف لائے تو نماز پڑھائی پھر فارغ ہو کر خطبہ دیا اور لوگوں سے فرمایا : آج تمہارے لئے دو عیدیں اکٹھی ہوگئی ہیں نماز عید اور جمعہ کا دن نواحی بستیوں والوں میں سے اگر کوئی جمعہ کا انتظار کرنا چاہے تو کر لے اور جو اپنے گھر واپس جاناچاہے تو چلا جائے ، میں نے اسے اجازت دے دی ہے ۔ ابوعبید نے کہا: پھر میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی نماز پڑھی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ محاصرے میں تھے انہوں (علی رضی اللہ عنہ) نے آکر نماز پڑھائی پھر فارغ ہو کر خطبہ دیا

صحيح
متفق عليه
«73- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 178/1 ح 431 ، ك 10 ب 2 ح 5) التمهيد (239/10) الاستذكار : 401
و أخرجه البخاري (1990) ومسلم (1137) من حديث مالك به»
------------------
74- وبه : عن أبي عبيدٍ عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (يستجاب لأحدكم ما لم يعجل فيقول : قد دعوت فلم يستجب لي) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک جلد بازی نہ کرے ، یعنی یہ نہ کہے کہ میں نے دعا کی ہے لیکن قبول نہیں ہوئی ۔

صحيح
متفق عليه
«74- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 213/1 ح 498 ، ك 15 ب 8 ح 29) التمهيد 296/10 ، الاستذكار : 467
و أخرجه البخاري (6340) ومسلم (2735) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو إدريس الخولاني
حديثان
75- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن أبي إدريس الخولاني عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من توضأ فليستنثر ، ومن استجمر فليوتر) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص وضوکرے تو ناک چھنک کر صاف کرے اور جو ڈھیلے سے استنجا کرے تو طاق عدد یعنی تین پانچ ڈھیلے استعمال کرے

صحيح
«75- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 19/1 ح 33 ، ك 2 ب 1 ح 3 ) التمهيد 12/11 ، الاستذكار : 37
و أخرجه مسلم (237) من حديث مالك به ورواه البخاري (161) من حديث ابن شهاب الزهري به»
------------------
76- وبه : عن أبي إدريس الخولاني عن أبي ثعلبة الخشني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن أكل كل ذي نابٍ من السباع.

سیدنا ابوثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے تمام درندوں کے کھانے سے منع فرمایا ہے

صحيح
متفق عليه
«76- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 496/2 ح 1096 بلفظ : ”كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ حَرَامٌ“ ك 25 ب 4 ح 13) التمهيد 6/11 ، الاستذكار : 1028
و أخرجه البخاري (5530) ومسلم (132/14) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عطاء بن يزيد الليثي
ثلاثة أحاديث
77- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن عطاء بن يزيد الليثي عن أبي سعيدٍ الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن) ) .

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم ( اذان کی) آواز سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے

صحيح
متفق عليه
«77- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 67/1 ح 145 ، ك 3 ب 1 ح 2) التمهيد 134/10 ، الاستذكار : 124
و أخرجه البخاري (611) ومسلم (383) من حديث مالك به»
------------------
78- وبه : عن أبي سعيدٍ الخدري أن ناساً من الأنصار سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأعطاهم ثم سألوه فأعطاهم ، ثلاثاً ، حتى نفد ما عنده ، ثم قال : ( (ما يكون عندي من خيرٍ فلن أدخره عنكم ، ومن يستعفف يعفه الله ، ومن يستغن يغنه الله ، ومن يتصبر يصبره الله. وما أعطي أحد عطاءً هو خيرٌ وأوسع من الصبر) ) .
سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین دفعہ ( مال) مانگا تو آپ نے انھیں ( تین دفعہ) عطا فرمایا حتی کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہوگیا پھر آپ نے فرمایا : میرے پاس جو بھی خیر ہوگی ( بہترین مال ہوگا )تو میں اسے تم سے ( روک کر) ہرگز ذخیرہ نہیں کروں گا ( بلکہ تمھیں دے دوں گا) اور جو شخص مانگنے سے بچے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو بے نیازی اختیار کرے گا تو اللہ اسے بے نیاز کردے گا جو شخص صبر کرے گا تو اللہ اسے صابر و شاکر بنا دے گا اور صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی چیز ( لوگوں کو) عطا نہیں کی گئی ہے
صحيح
متفق عليه
« 78- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 997/2 ح 1945 ، ك 58 ب 2 ح 7) التمهيد 131/10 ، الاستذكار : 1882
و أخرجه البخاري (1469) ومسلم (1053) من حديث مالك به»
------------------
79- وبه : عن عطاء بن يزيد الليثي عن أبي أيوب الأنصاري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لا يحل لمسلمٍ أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليالٍ ، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا ، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام) ) .

سیدنا ابوایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی مسلمان کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ تین راتوں سے زیادہ اپنے بھائی سے بائیکاٹ کرے ( ایسا نہ ہو کہ) جب ان کی ملاقات ہو تو ایک بھائی دوسرے سے منہ پھیر لے اور دوسرا اس سے منہ پھیر لے ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو دوسرے کو پہلے سلام کرے

صحيح
متفق عليه
«79- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 906/2 ، 907 ح 1747 ، ك 47 ب 4 ح 13) التمهيد 145/10 ، الاستذكار : 1679
و أخرجه البخاري (6077) ومسلم (2560) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
ابن أكيمة الليثي
حديثٌ واحدٌ
80- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن ابن أكيمة الليثي عن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاةٍ جهر فيها بالقراءة فقال : هل قرأ معي أحدٌ منكم آنفاً؟ فقال رجلٌ : نعم أنا يا رسول الله. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إني أقول ، مالي أنازع القرآن. قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلاة حين سمعوا ذلك منه.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے فارغ ہوئے ، جس میں آپ نے جہری قرأت فرمائی تھی تو آپ نے پوچھا: میرے ساتھ تم میں سے کسی نے ابھی پڑھا ہے ؟ ایک آدمی نے جواب دیا : جی ہاں یا رسول اللہ ! میں نے پڑھا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں کہتا ہوں میرے ساتھ قرآن میں کیوں منازعت ( چھینا چھینی) ہو رہی ہے ؟ ( زہری نے ) کہا: پس لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس نماز میں آپ جہری قرأت کرتے تھے ، یہ سننے کے بعد قرأت کرنے سے رک گئے

صحيح
صرح الزھری بالسماع عند الحمیدی (بتحقیقی : 959)
«80- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 86/1 ح 190 ، ك 3 ب 10 ح 44) التمهيد 23/11 ، الاستذكار : 166
و أخرجه أبوداود (862) و الترمذي (312 : وقال حسن) و النسائي (140/2 ، 141 ح 920) من حديث مالك به و صححه ابن حبان (الموارد : 454) »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عبد الرحمن الأعرج
ثلاثة أحاديث
81- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن عبد الرحمن الأعرج عن عبد الله بن بحينة أنه قال : صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه. فلما قضى صلاته وانتظرنا تسليمه كبر ، فسجد سجدتين وهو جالسٌ قبل السلام ، ثم سلم.

سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ( ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر آپ کھڑے ہوگئے ( اور تشہد کے لئے ) نہ بیٹھے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے جب آپ نے نماز مکمل کی اور ہم آپ کے سلام کا انتظار کرنے لگے تو آپ نے تکبیر کہی اور دو سجدے سلام سے پہلے بیٹھے ہوئے کئے پھر آپ نے سلام پھیرا

صحيح
متفق عليه
«81- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 96/1 ح 214 ، ك 3 ب 17 ح 65) التمهيد 183/10 ، الاستذكار : 184 ، 185
و أخرجه البخاري (1224) ومسلم (570) من حديث مالك به»
------------------
82- وبه : عن الأعرج عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لا يمنع أحدكم جاره أن يغرز خشبةً في جداره) ) . قال : ثم يقول أبو هريرة : مالي أراكم عنها معرضين ، والله لأرمين بها بين أكتافكم.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی آدمی بھی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار پر لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے ( عبدالرحمٰن بن ہرمز الاعرج نے ) کہا: پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے : کیا وجہ ہے کہ میں تمھیں اس سے منہ پھیرے ہوئے دیکھتا ہوں؟ اللہ کی قسم ! میں اسے تمھارے کندھوں کے درمیان ضرور پھینکوں گا یعنی میں اسے تمھارے درمیان مشہور کروں گا

صحيح
متفق عليه
«82- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 745/2 ح 1501 ، ك 36 ب 26 ح 32) التمهيد 215/10 ، الاستذكار : 1425
و أخرجه البخاري (2463) ومسلم (1609/136) من حديث مالك به»
------------------
83- وبه : عن أبي هريرة أنه كان يقول : شر الطعام طعام الوليمة يدعى لها الأغنياء ويترك المساكين. ومن لم يأت الدعوة فقد عصى الله ورسوله.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ( لوگوں کا) سب سے برا کھانا اس ولیمے کا کھانا ہے جس میں امیروں کو دعوت دی جاتی ہے اور مسکینوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور جس نے ( بغیر شرعی عذر کے ) دعوت قبول نہ کی تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی

صحيح
متفق عليه
«83- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 546/2 ح 1187 ، ك 28 ب 21 ح 50) التمهيد 175/10 ، الاستذكار : 1107
و أخرجه البخاري (5177) ومسلم (1432/107) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
رجلٌ من آل خالد بن أسيدٍ
حديثٌ واحدٌ
84- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن رجلٍ من آل خالد بن أسيدٍ أنه سأل عبد الله ابن عمر فقال : يا أبا عبد الرحمن ، إنا نجد صلاة الخوف وصلاة الحضر في القرآن ولا نجد صلاة السفر ، فقال عبد الله بن عمر : يا ابن أخي ، إن الله تعالى بعث إلينا محمداً صلى الله عليه وسلم ولا نعلم شيئاً ، فإنما نفعل كما رأيناه يفعل.
كمل حديث الزهري وهو خمسةٌ وثمانون حديثاً.
آل خالد بن اسید کے ایک آدمی ( امیہ بن عبداللہ بن خالد) سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اے ابوعبدالرحمٰن ! ہم قرآن میں نماز خوف اور نماز حضر کا ذکر پاتے ہیں اور نماز سفر کا ذکر نہیں پاتے ؟ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے بھتیجے ! اللہ نے ہمارے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور ہم کچھ بھی نہیں جانتے تھے لہٰذا ہم تو اسی طرح عمل کرتے ہیں جیسے ہم نے آپ کو کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
زہری کی حدیثیں مکمل ہو گئیں ، یہ پچاسی ( 85 ) حدیثیں ہیں

صحيح

«84- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 145/1 ، 146ح 332 ، ك 9 ب 2 ح 7) التمهيد 161/11 ، الاستذكار : 303
و أخرجه الحاكم الكبير فى عوالي مالك (209) من حديث مالك به ورواه محمد بن عبدالله الشعيثي عن اميه بن عبدالله بن خالد بن اسيدانه قال لا بن عمر به ، أخرجه النسائي (226/1 ح 458) وسنده حسن ، وصرح الزهري بالسماع من عبدالملك بن ابي بكر بن عبدالرحمٰن عند البيهقي (136/3) ويعقوب بن سفيان الفارسي في المعرفة والتاريخ (372/1) وللحديث طريق آخر عند ابي داود (457)والنسائي (1435) وابن ماجه (1066) وسنده حسن وصححه ابن خزيمة (946) وابن حبان (الموارد : 101) والحاكم (258/1) ووافقه الذهبي»
------------------
محمد بن المنكدر
ثلاثة أحاديث ورابعٌ لم أذكره في هذا الباب

85- مالكٌ عن محمد بن المنكدر عن جابر بن عبد الله : أن أعرابياً بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على الإسلام ، فأصاب الأعرابي وعكٌ بالمدينة ، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ، أقلني بيعتي. فأبى النبي صلى الله عليه وسلم ثم جاءه فقال : أقلني بيعتي. فأبى ثم جاءه فقال : أقلني بيعتي ، فأبى فخرج الأعرابي فقال النبي صلى الله عليه وسلم : ( (إنما المدينة كالكير تنفي خبثها وينصع طيبها) ) .

سیدنا جابر بن عبداللہ ( الانصاری رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے اسلام پر ( مدینہ میں قائم رہنے پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی پھر اس عرابی کو مدینے میں بخار ہوگیا تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا: یا رسول اللہ ! میری بیعت فسخ کر دیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا تو اس نے دوبارہ آکر کہا: میری بیعت فسخ کر دیں آپ نے انکار کیا تو اس نے تیسری بار آکر کہا: میری بیعت فسخ کر دیں آپ نے انکار کر دیا پھر وہ اعرابی ( مدینے سے ) نکل کر چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مدینہ تو زرگر کی بھٹی کی طرح ہے ، زنگار اور میل کو نکال دیتا ہے اور عمدہ کو نکھارتا اور چمکاتا ہے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«85- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 886/2 ح 1704 ، ك 45 ب 2 ح 4) التمهيد 223/12 ، الاستذكار : 1634
و أخرجه البخاري (7211) ومسلم (1383) من حديث مالك به»
------------------
86- مالكٌ عن محمد بن المنكدر عن سعيد بن جبيرٍ عن رجلٍ عنده رضاً أنه أخبره أن عائشة أم المؤمنين أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (ما من امرئٍ تكون له صلاةٌ بليلٍ يغلبه عليها نومٌ إلا كتب الله له أجر صلاته ، وكان نومه صدقةً عليه) ) .

سعید بن جبیر رحمه الله اپنے نزدیک پسندیدہ آدمی ( اسود بن یذید رحمہ اللہ) سے روایت کرتے ہیں کہ انھیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی رات کو ( ہمیشہ نفل) نماز پڑھتا ہے اگر اس پر نیند غالب آجائے ( اور وہ سو جائے ، نماز نہ پڑھ سکے ) تو اس کے لئے نماز کا اجر لکھا جاتا ہے اور اس کی نیند اس پر اللہ کی طرف سے صدقہ ہو جاتی ہے۔

صحيح

« 86- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 117/1 ح 254 ، ك 7 ب 1 ح 1) التمهيد 261/12 ، الاستذكار : 225
و أخرجه أبوداود (1314) والنسائي (257/3 ح 1785) من حديث مالك به
الرجل المرضي هوالأسود بن يزيد وللحديث شواهد »
------------------
87- مالكٌ عن محمد بن المنكدر وأبي النضر مولى عمر بن عبيد الله عن عامر بن سعد بن أبي وقاصٍ عن أبيه أنه سمعه يسأل أسامة بن زيدٍ : ماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في الطاعون؟ فقال أسامة بن زيدٍ : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ((الطاعون رجزٌ أرسل على طائفةٍ من بني إسرائيل أو على من كان قبلكم. فإذا سمعتم به بأرضٍ فلا تدخلوا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فراراً منه) ) .
قال مالكٌ : قال أبو النضر : لا يخرجكم إلا فراراً منه.

عامر بن سعد بن ابی وقاص رحمہ اللہ نے اپنے ابا ( سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ) کو سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہوئے سنا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : طاعون ایک عذاب ( بیماری) ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا تھا پس اگر تمھیں کسی علاقے میں اس ( طاعون) کی خبر ملے تو وہاں نہ جانا اور اگر وہ ( طاعون) تمہارے علاقے میں آ جائے تو راہ فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے باہر نہ نکلو
مالک نے کہا: ابوالنضر نے ( عامر سے روایت میں) کہا: یہ تمہیں راہ فرار پر مجبور کرکے نکال نہ دے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«87- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 896/2 ، ح 1721 ، ك 45 ب 7 ح 23) التمهيد 249/12 ، الاستذكار : 1653
و أخرجه البخاري (3473) ومسلم (2218) من حديث مالك به »
------------------
أبو الأسود
أربعة أحاديث

88- مالكٌ عن أبي الأسود محمد بن عبد الرحمن بن نوفلٍ ، وكان يتيماً في حجر عروة بن الزبير ، عن عروة بن الزبير عن عائشة أم المؤمنين : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أفرد الحج.

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا تھا

سندہ صحیح لا شك فيه
متفق عليه
«88- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 235/1 ، ح 755 ، ك 20 ب 11 ح 38) التمهيد 98/13 ، الاستذكار : 705
و أخرجه البخاري (1562) ومسلم (1211/118) وابن ماجه (2925) من حديث مالك به »
------------------
89- وبه : أنها قالت : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع فمنا من أهل بعمرةٍ ، ومنا من أهل بحجٍ وعمرةٍ ، ومنا من أهل بالحج ، فأهل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج. فأما من أهل بعمرةٍ فحل ، وأما من أهل بالحج أو جمع الحج والعمرة فلم يحلوا حتى كان يوم النحر.

ام المؤمنین عائشہرضی اللہ عنہما سے روایت کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجتہ الوداع والے سال ( مدینہ طیبہ سے ) نکلے ہم میں سے کوئی عمرے کی لبیک کہہ رہا تھا اور کوئی حج اور عمرے ( دونوں) کی اور کوئی ( صرف) حج کی لبیک کہہ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی لبیک کہی جس نے ( صرف ) عمرے کی لبیک کہی تھی تو وہ ( عمرہ کرکے ) حلال ہوگیا یعنی اس نے احرام کھول دیا اور جس نے حج کی یا حج اور عمرے دونوں کی لبیک کہی تھی تو وہ قربانی والے دن تک حالت احرام میں رہا ( اس نے قربانی کے بعد احرام کھولا)

سندہ صحیح
متفق عليه
« 89- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 335/1 ، ح 753 ، ك 20 ب 11 ح 36) التمهيد 95/13 ، الاستذكار : 703
و أخرجه البخاري (1562) ومسلم (1211/118) من حديث مالك به والحديث مختصر منه»
------------------
90- وبه : عن عائشة أم المؤمنين عن جدامة بنت وهبٍ الأسدية أنها قالت : أخبرتني أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( (لقد هممت أن أنهى عن الغيلة حتى ذكرت الروم وفارس يصنعون ذلك فلا يضر أولادهم شيئاً) ) .

سیدہ جدامہ بنت وہب الاسدیہ ( رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے ارادہ کیا تھا کہ غیلہ ( حاملہ یا مرضعہ بیوی سے جماع) سے منع کردوں لیکن مجھے یاد آیا کہ رومی اور فارسی لوگ ایسا کرتے ہیں تو ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا

سندہ صحیح

«90- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 607/2 ، 608 ح 1329 ، ك 30 ب 3 ح 16) التمهيد 90/13 وقال : ”وهذا حديث صحيح ثابت“ ، الاستذكار : 1249
و أخرجه مسلم (1442) من حديث مالك به»
------------------
91- وبه : عن عروة بن الزبير عن زينب بنت أبي سلمة عن أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت : شكوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أني أشتكي فقال : ( (طوفي من وراء الناس وأنت راكبةً) ) . قالت : فطفت ورسول الله صلى الله عليه وسلم حينئذٍ يصلي إلى جنب البيت وهو يقرأ بـ (الطور) .

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی کہ میں بیمار ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگوں سے پیچھے ہٹ کر سواری کی حالت میں ہی طواف کرو ۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے طواف کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے آپ سورہ طور «وَالطُّورِ ﴿١﴾ وَكِتَابٍ مَّسْطُورٍ» اور قسم ہے طور کی اور لکھی ہوئی کتاب کی ، پڑھ رہے تھے

سندہ صحیح
متفق عليه
«91- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 370/1 ، 371 ح 843 ، ك 20 ب 40 ح 123) التمهيد 99/13 ، الاستذكار : 791
و أخرجه البخاري (464) و أخرجه مسلم (1276) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
محمد بن عبد الله بن أبي صعصعة
حديثان
92- مالكٌ عن محمد بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي صعصعة المازني عن أبيه عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (ليس فيما دون خمسة أوسق من التمر صدقةٌ ، وليس فيما دون خمس أواقٍ من الورق صدقةٌ ، وليس فيما دون خمس ذودٍ من الإبل صدقةٌ) )
.

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پانچ وسق سے کم کھجوروں میں کوئی صدقہ ( عشر)نہیں ہے اور پانچ اوقیوں سے کم چاندی میں کوئی صدقہ ( زکوة) نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں کوئی صدقہ ( زکوة) نہیں ہے

سندہ صحیح

«92- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 244/1 ، 245 ح 579 ، ك 17 ب 1 ح 2) التمهيد 113/13 ، الاستذكار : 533
و أخرجه البخاري (1459) من حديث مالك به»
------------------
93- مالكٌ عن محمدٍ -يعني ابن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي صعصعة- أنه قال : سمعت سعيد بن يسارٍ أبا الحباب يقول : سمعت أبا هريرة يقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (من يرد الله به خيراً يصب منه) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جسکے ساتھ اللہ خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اس ( کی صحت یا مال میں) سے کچھ لے لیتا ہے

سندہ صحیح

«93- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 941/2 ح 1816 ، ك 50 ب 3 ح 7) التمهيد 119/13 ، وقال : ” هذا حديث صحيح“ ، الاستذكار : 1751
و أخرجه البخاري (5645) من حديث مالك به»
------------------
محمد بن أبي بكرٍ
حديثٌ واحدٌ
94- مالكٌ عن محمد بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزمٍ عن أبيه عن أبي النضر السلمي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ((لا يموت لأحدٍ من المسلمين ثلاثةٌ من الولد فيحتسبهم إلا كانوا له جنةً من النار) ) . فقالت : امرأةٌ عند رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا رسول الله ، أو اثنان. قال : ( (أو اثنان) ) .

سیدنا ابوالنضر السمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر مسلمانوں میں سے جس کے بھی تین بچے فوت ہو جائیں اور وہ صبر کرے اور اللہ سے اجر کی امید رکھے تو یہ بچے اس کے لئے جہنم سے ڈھال یعنی رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔ ایک عورت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی ، کہنے لگی : یا رسول اللہ ! یا دو ( بچے فوت ہو جائیں) ؟ تو آپ نے فرمایا : یا دو ( بچے فوت ہو جائیں تو وہ بھی جہنم سے ڈھال بن جاتے ہیں)

صحیح

«94- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 235/1 ح 558 ، ك 16 ب 13 ح 39 وعنده ”عن ابي النضر“ وهوالصواب) التمهيد 86/13 ، 87 ، الاستذكار : 512
و أخرجه ابولقاسم الجوهري في مسند الموطأ (245/262) من حديث مالك به
وللحديث شواهد عند البخاري (101) و مسلم (2633) وغيرهما والحديث بها صحيح»
------------------
محمد بن عمارة
حديثٌ واحدٌ
95- مالكٌ عن محمد بن عمارة عن محمد بن إبراهيم عن أم ولد لإبراهيم ابن عبد الرحمن بن عوفٍ أنها سألت أم سلمة أم المؤمنين فقالت : إني امرأةٌ أطيل ذيلي وأمشي في المكان القذر. فقالت أم سلمة : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (يطهره ما بعده) ) .

ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف کی اولاد کی ماں یعنی ان کو لونڈی سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: میں ایسی عورت ہوں کہ اپنی چولی لمبی رکھتی ہوں اور میں ( بعض اوقات ) کسی ناپاک جگہ سے گزرتی ہوں؟ تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے ( زمین کا وہ حصہ) پاک کر دیتا ہے جو بعد میں ( آتا ) ہے
صحیح

«95- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 24/1 ح 44 ، ك 2 ب 4 ح 16) التمهيد 103/13 ، الاستذكار : 47
و أخرجه أبوداود (383) و الترمذي (143) و ابن ماجه (531) من حديث مالك به وصححه ابن الجارود (95) وسنده حسن وللحديث شواهد عند ابي داود (384) وغيره وهو حديث صحيح واُم ولد لإبراهيم وثقها ابن الجارود العقيلي بقوله : ” هذا إسناده صالح جيد“ ( كتاب الضعفاء للعقيلي 257/2) »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
محمد بن يحيى بن حبان
أربعة أحاديث
96- مالكٌ عن محمد بن يحيى بن حبان عن الأعرج عن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس ، وعن الصلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد ، سورج کے غروب ہونے تک ( نفل) نما ز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور صبح ( کی نماز) کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک ( نفل) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے

سندہ صحیح

«96- الموطأ (221/1 ح 517 ، ک 15 ب 10 ح 48) التمهيد 30/13 ، الاستذكار : 30
و أخرجه مسلم (825) من حديث مالك به »
------------------
97- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لا يخطب أحدكم على خطبة أخيه) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی نہ کرے

سندہ صحیح

«97- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 523/2 ح 1134 ، ك 28 ب 1 ح 1) التمهيد 19/13 ، وقال : ھذا حدیث صحیح ثابت ، الاستذكار : 1058
و أخرجه النسائي (73/6 ح 3242) من حدیث عبدالرحمٰن بن القاسم عن مالک به ورواه البخاري (5143) من حديث الاعرج به مطولاً ، ورواه مالك عن ابي الزناد عن الاعرج عن ابي هريره به كما سيأتي : 351»
------------------
98- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن صيام يومين : يوم الفطر ويوم الأضحى.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں : عیدالفطر اور عیدالاضحی کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے

سندہ صحیح

«98- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 300/1 ح 674 ، ك 18 ب 12 ح 36 ، 376/1 ح 756 ، ك 20 ب 24 ، ح 136) التمهيد 26/13 ، الاستذكار : 624
و أخرجه مسلم (1138) من حديث مالك به »
------------------
99- وعن محمد بن يحيى بن حبان عن أبي الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الملامسة والمنابذة.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملامسہ اور منابذہ ( دو قسم کے سودوں) سے منع فرمایا ہے

صحیح

« 99- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 666/2 ح 1408 ، ك 31 ب 35 ح 76 ، بسند مختلف) التمهيد 8/13 ، 176/18 ، الاستذكار : 1329
و أخرجه البغوي في شرح السنة (129/8 ح 2101) من حديث مالك به
من رواية يحيٰ بن يحيٰ
ورواه البخاري (2146) من حديث مالك عن محمد بن يحيٰ عن ابي الزناد عن الاعرج عن ابي هريرة به ورواه مسلم (1511) من حديث مالك عن محمد بن يحي عن الاعراج عن ابي هريريرة به و أخرجه البخاري (5821) من حديث مالك عن ابي الزناد ( الخ) و مسلم(1511) من حديث ابي الزناد عن الاعرج عن ابي هريرة به»
------------------
 
Top