• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم (یونیکوڈ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
محمد الثقفي
حديثٌ واحدٌ
100- مالكٌ عن محمد بن أبي بكرٍ الثقفي : أنه سأل أنس بن مالكٍ وهما غاديان من منىً إلى عرفة : كيف كنتم تصنعون في مثل هذا اليوم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال : كان يهل المهل منا فلا ينكر عليه ، ويكبر المكبر فلا ينكر عليه.

محمد بن ابی بکر الثقفی رحمہ اللہ نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس وقت پوچھا جب وہ دونوں صبح کے وقت منیٰ سے عرفات جا رہے تھے : آپ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کرتے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا ؛ ہم میں سے بعض لوگ لبیک کہتے تھے تو اس کا انکار نہیں کیا جاتا تھا اور بعض لوگ تکبیر کہتے تھے تو اس کا انکار نہیں کیا جاتا تھا

سندہ صحیح
متفق عليه
«100- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 337/1 ح 760 ، ك 20 ب 13 ح 43) التمهيد 73/13 وقال : هذا حديث صحيح ، الاستذكار : 710
و أخرجه البخاري (1659) ومسلم (1285) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
محمد بن عمرو بن حلحلة
حديثان
101- مالكٌ عن محمد بن عمرو بن حلحلة عن معبد بن كعب بن مالكٍ عن أبي قتادة بن ربعي أنه كان يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر عليه بجنازةٍ فقال : ( (مستريحٌ ومستراحٌ منه) ) . فقالوا : يا رسول الله ، ما المستريح والمستراح منه؟ قال : ( (العبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا وأذاها إلى رحمة الله ، والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب) ) .


سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مستریح ( پر سکون و پُر آ رام) یا مسترح منه ( لوگ جس سے سکون و آرام میں ہوں) ہے صحابہ نے پوچھا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مستریح اور مستراح منه کسے کہتے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مومن بندہ دنیا کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت کی طرف سکون وآرام حا صل کرتا ہے اور جاطر ( گناہ گار) بندے سے بندوں ، شہروں درختوں اور جانوروں کو آ رام و سکون حاصل ہو تا ہے

سندہ صحیح
متفق عليه

«101- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 241 ، 242/1 ح 574 ، ك 16 ب 16 ح 54) التمهيد 61/13 ، الاستذكار : 528
و أخرجه البخاري (6512) ومسلم (950) من حديث مالك به»
------------------
102- وعن محمد بن عمرو بن حلحلة الديلي عن محمد بن عمران الأنصاري عن أبيه أنه قال : عدل إلي عبد الله بن عمر وأنا نازلٌ تحت شجرةٍ بطريق مكة ، فقال : ما أنزلك تحت هذه الشجرة؟. فقلت : أنزلني ظلها ، فقال : هل غير ذلك؟ فقلت : لا ، ما أنزلني غير ذلك. فقال عبد الله بن عمر : قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إذا كنت بين الأخشبين من منى -ونفخ بيده نحو المشرق- فإن هنالك وادياً يقال له السرر ، به سرحةٌ سر تحتها سبعون نبياً) ) . قال مالكٌ : سر يعني : قطعت سررهم حين ولدوا.

عمران الانصاری سے روایت ہے کہ میں مکہ کے راستے میں ایک درخت کے نیچے تھا تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے میری طرف متوجہ ہو کر پوچھا: تجھے کس نے اس لمبے درخت کے نیچے اتارا ہے ؟میں نے کہا: میں اس کے سائے کے لئے یہاں اترا ہوں انہوں نے پوچھا: اس کے علاوہ اور کوئی وجہ تو نہیں ہے ؟ میں نے کہا: نہیں ، مجھے کسی اور چیز نے یہاں نہیں اتارا پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم منیٰ کی دو پہاڑوں کے درمیان پہنچو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کیا تو وہاں ایک وادی ہے جسے سُرر کہتے ہیں ، اس میں ایک درخت ہے جس کے نیچے ستر نبیوں کی پیدائش ہوئی ( یا انہیں نبوت ملی) ، ( امام) مالک نے کہا: سُرّ سے مراد یہ کہ ان کی پیدائش کے وقت ان کی نال کاٹی گئی

سندہ ضعیف

«102- (سنده ضعیف) الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 423/1 ، 424 ح 978 ، ك 20 ب 81 ح 249) التمهيد 64/13 ، الاستذكار : 918
و أخرجه النسائي (248/5 ، 249 ح 2998) من حديث مالك به و صححه ابن حبان (الاحسان 6244/6211 ، الموارد : 1029) وله شاهد ضعيف في مسند ابي يعليٰ (87/10 ح 5723) »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
محمد بن عمرو بن علقمة
حديثٌ واحدٌ وفي اتصاله شيءٌ
103- مالكٌ عن محمد بن عمرو بن علقمة عن أبيه عن بلال بن الحارث المزني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إن الرجل ليتكلم بالكلمة من رضوان الله ما كان يظن أن تبلغ ما بلغت يكتب الله له بها رضوانه إلى يوم يلقاه ، وإن الرجل ليتكلم بالكلمة من سخط الله ما كان يظن أن تبلغ ما بلغت يكتب الله له بها سخطه إلى يوم يلقاه) )
.

سیدنا بلال بن الحارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آ دمی اللہ کی رضا مندی کی ایک بات کر تا ہے جس کے بارے میں وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا کہنا اجر ہے ؟ اس بات کے بدلے اللہ اس کے لئے ( قیامت کے دن) ملاقات کے وقت تک رضا مند ی لکھ دیتا ہے اور آ دمی اللہ کی ناراضی کی ایک بات کر دیتا ہے جس کے بارے میں وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا کتنا گناہ ہے ؟ اس بات کے بدلے اللہ اس کے لئے ( قیامت کے دن) ملاقات کے وقت تک ناراضی لکھ دیتا ہے

حسن
«103- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 985/2 ح 1914 ، ك 56 ب 2 ح 5) التمهيد 49/13 ، الاستذكار : 1850
و أخرجه النسائي فی الکبریٰ تحفتة الاشراف : 2028)
والحاكم (46/1 ح 141) من حديث مالك به والاصل الحديث شواهد عندالبخاري (6478) ومسلم(2988) وللحديث لون آخر عند الترمذي (2319) وابن حبان (1576) وسنده حسن »
------------------

أبو الزبير واسمه محمد بن مسلمٍ
ثمانية أحاديث له عن جابر أربعة أحاديث
104- مالكٌ عن أبي الزبير عن جابر بن عبد الله السلمي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى أن يأكل الرجل بشماله ، أو يمشي في نعلٍ واحدةٍ ، أو أن يشتمل الصماء ، أو أن يحتبي في ثوبٍ واحدٍ كاشفاً عن فرجه.

سیدنا جابر بن عبداللہ السلمی ( الانصاری رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ آ دمی بائیں ہاتھ سے کھائے یا ایک جوتی میں چلے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشتمال صمائ ( سر سے پاوں تک ایک کپڑا لپیٹنے ) سے یا ایک کپڑے سے گوٹھ مارنا جس سے شرمگاہ ننگی رہے منع فرمایا ہے

صحيح
«104- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 922/2 ح 776 ، ك 49 ب 4 ح 5) التمهيد 165/12 ، الاستذكار : 1708
و أخرجه مسلم (2099/70) من حديث مالك ورواه (2099/72) من حديث الليث بن سعد عن ابي الزبير به »
------------------
105- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن أكل لحوم الضحايا بعد ثلاثٍ ، ثم قال بعد : ( (كلوا وتصدقوا وتزودوا وادخروا) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا جابر بن عبداللہ السلمی رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( قربانی کے ) تین دن بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا پھر اس کے بعد فرمایا : کھاؤ صدقہ کرو ، زادِ راہ بناؤ اور ذخیرہ کرلو

صحيح
«105- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 484/2 ح 1065 ، ك 23 ب 4 ح 6) التمهيد 163/12 ، الاستذكار : 999
و أخرجه مسلم (1972/29) من حديث مالك ورواه عطاء بن ابي رباح عن جابر به نحو المعني وابولزبير بالسماع عند أحمد (378/3 ح 15042) »
------------------
106- وبه : عن جابر بن عبد الله أنه قال : نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحديبية البدنة عن سبعةٍ والبقرة عن سبعةٍ.

اور اسی ( سند) کے ساتھ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا : ہم نے حدیبیہ والے سال ، ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات آ دمیوں کے طرف سے اونٹ اور سات آ دمیوں کی طرف سے گائے ( بطورِ قربانی ) ذبح کی

صحيح
«106- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 486/2 ح 1068 ، ك 23 ب 5 ح 9) التمهيد 147/12 ، وقال : ”هذا حديث صحيح عند أهل لعلم“ ، الاستذكار : 1002
و أخرجه مسلم (1318/350) من حديث مالك به وصرح ابوالزبير بالسماع عند أحمد (378/3 ح 15043) »
------------------
107- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (أغلقوا الباب ، وأوكوا السقاء ، وأكفئوا الإناء ، وأطفئوا المصباح. فإن الشيطان لا يفتح غلقاً ، ولا يحل وكاءً ، ولا يكشف إناءً ، وإن الفويسقة تضرم على الناس بيتهم) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دروازہ بند کرو اور مشکیزے کا منہ باندھ لو برتن کو الٹا رکھو یا اس کو ڈھانپ لو اور چراغ بجھا دو کیونکہ شیطان یقینا بند دروازے نہیں کھولتا اور نہ تسمہ کھولتا ہے ، وہ ڈھانپے ہوئے برتن سے پردہ نہیں ہٹاتا اور چوہیا لوگوں کے گھر جلا دیتی ہے

صحيح
«107- الموطأ ( رواية يحيٰ بن يحيٰ 928/2 ، 929 ح 1791 ، ك 49 ب 10 ح 21) التمهيد 173/12 ، الاستذكار : 1724
و أخرجه مسلم ( 2012) من حديث مالك به ورواہ لیث بن سعد عن ابي الزيبر به عند مسلم ( 2012/96) »
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو الطفيل
" حديثٌ واحدٌ"
108- مالكٌ عن أبي الزبير المكي عن أبي الطفيل عامر بن واثلة أن معاذ بن جبلٍ أخبره أنهم خرجوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام تبوك، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء. قال: فأخر الصلاة يوماً ثم خرج فصلى الظهر والعصر جميعاً، ثم دخل ثم خرج فصلى المغرب والعشاء جميعاً. ثم قال: ( (إنكم ستأتون غداً إن شاء الله عين تبوك، وإنكم لن تأتوها حتى يضحى النهار، فمن جاءها فلا يمس من مائها شيئاً حتى آتي) ) . قال: فجئناها وقد سبق إليها رجلان والعين مثل الشراك تبض بشيءٍ من ماءٍ، فسألهما رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (هل مسستما من مائها شيئاً؟) ) فقالا: نعم. فسبهما وقال لهما ما شاء الله أن يقول، ثم غرفوا من العين بأيديهم قليلاً قليلاً حتى اجتمع في شيءٍ ثم غسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه وجهه ويديه ثم أعاده فيها فجرت العين بماءٍ كثيرٍ، فاستقى الناس، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (يوشك يا معاذ إن طالت بك حياةً أن ترى ما ههنا قد ملئ جناناً)) .

ابوالزبیر ( محمد بن تدرس) المکی سے روایت ہے ، وہ سیدنا ابولطفیل عامر بن واثلہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہیں ( سیدنا ) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ غزوہ تبوک والے سال ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( جہاد کے لئے ) نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر کی اور مغرب و عشاء کی ( نمازیں) جمع کر تے تھے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایک دن آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مؤخر کی پھر ( خیمے سے ) باہر آکر ظہر و عصر کی دونوں نمازیں پڑھائیں پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے پھر ( بعد میں) باہرآ کر مغرب و عشاء کی دونوں نمازیں اکٹھی پڑھائیں پھر فرمایا : تم سب ان شاء اللہ کل تبوک کے چشمے پر پہنچو گے اور تم دن چڑھنے سے پہلے نہیں پہنچ سکو گے پس تم میں سے جو بھی چشمے پر پہنچے تو میرے آنے سے پہلے اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر جب ہم وہاں پہنچے تو دو آ دمی ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے اور چشمہ ( تھوڑے سے ) پانی کے ساتھ چمک رہا تھا گویا کہ ایک تسمہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا: کیا تم نے اس چشمے کے پانی میں سے کچھ چھوا ہے ؟انہوں نے کہا: جی ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ڈانٹا اور جواللہ چاہتا تھا وہ فرمایا پھر لوگوں نے چشمے میں سے اپنے ہاتھوں کے ساتھ تھوڑے تھوڑے چُلّو بھرکے پانی لیا حتیٰ کہ وہ کسی چیز ( برتن) میں اکٹھا ہو گیا پھر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اپنا چہرا ( رُخ انور) اور ہاتھ دھوئے پھر اس پانی کو چشمے میں ڈال دیا تو اس چشمے سے بہت زیادہ پانی بہنے لگا لوگوں نے پانی پیا اور پلایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے معاذ رضی اللہ عنہ ! اگر تمہارے زندگی لمبی ہوئی تو عنقریب دیکھو گے کہ یہ علاقہ باغوں سے بھرا ہوگا

صحيح
«108- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 143/1 ، 144 ح 326 ، ك 9 ب 1 ح 2) التمهيد 193/12 ، 194 وقال : ”هذا حديث صحيح ثابت“ ، الاستذكار : 296
و أخرجه مسلم (706/10 بعد ح 2281) من حديث مالك به وصرح ابوالزبير بالسماع عند احمد (229/5) وابن خزيمه (966) »
------------------
سعيد بن جبيرٍ
" حديثٌ واحدٌ"
109- مالكٌ عن أبي الزبير المكي عن سعيد بن جبيرٍ عن عبد الله بن عباسٍ أنه قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر والعصر جميعاً والمغرب والعشاء جميعاً في غير خوفٍ ولا سفرٍ.

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف اور سفر کے بغیر ظہر و عصر کی دونوں نمازیں اور مغرب و عشاء کی دونوں نمازیں جمع کرکے پڑھیں

صحيح
«109- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 144/1 ح 328 ، ك 9 ب 1 ح 4) التمهيد 209/12 وقال : ”هذا حديث صحيح إسناده ثابت“ ، الاستذكار :301
و أخرجه مسلم (705) من حديث مالك به به وصرح ابوالزبير بالسماع عند (705/51) »
------------------
طاوس
" حديثان"
110- مالكٌ عن أبي الزبير عن طاوسٍ اليماني عن عبد الله بن عباسٍ: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعلمهم هذا الدعاء كما يعلمهم السورة من القرآن. يقول: ( (اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات) ) .

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں یہ دعا اس طرح سکھاتے تھے جیسے قرآن کی سورت سکھاتے تھے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے : اے میرے اللہ ! میں جہنم کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں مسیحِ دجال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں

صحيح
«110- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 215/1 ح 502 ، ك 15 ب 8 ح 33) التمهيد 185/12 ، الاستذكار : 471
و أخرجه مسلم (590) من حديث مالك به ورواه عبدالله بن طاؤس عن أبيه مختصراً»
------------------
111- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قام إلى الصلاة من جوف الليل يقول: ( (اللهم لك الحمد أنت نور السموات والأرض ولك الحمد أنت قيوم السموات والأرض، ولك الحمد أنت رب السموات والأرض ومن فيهن. أنت الحق، وقولك الحق، ووعدك الحق، ولقاؤك حق، والجنة حق، والنار حق، والساعة حق. اللهم لك أسلمت، وبك آمنت، وعليك توكلت، وإليك أنبت، وبك خاصمت، وإليك حاكمت، فاغفر لي ما قدمت وما أخرت، وأسررت وأعلنت، أنت إلهي لا إله إلا أنت) ) .
كمل حديث أبي الزبير بحمد الله وعونه، وهو آخر حديث المحمدين.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ جب ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری تہائی حصے میں نماز ے لئے کھڑے ہوتے تو کہتے : اے میرے اللہ ! حمد و ثنا تیری ہی ہے اور تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ( منور کر نے والا) ہے حمدو ثنا تیری ہی ہے اور تو ہی زمین و آسمان کا قائم کر نے والا ہے حمد و ثنا تیری ہی ہے اور تو ہی زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب کا رب ہے تو حق ہے اور تیرا کلام حق ہے تیرا وعدہ حق ہے اور تیری ملاقات حق ہے جنت حق ہے اور ( جہنم کی) آ گ حق ہے قیامت حق ہے اے میرے اللہ ! میں تیرے لئے مطیع و فرماں بردار ہوا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھی پر توکل کیا میں تیری طرف دلی رجوع کرتا ہوں اور تیری مدد اور تائید سے دشمنوں سے مقابلہ کر تا ہوں اور تیرے حضور ہی مقدمہ پیش کرتا ہوں میری اگلی پچھلی سب باتیں چاہے خفیہ ہوں یا علانیہ درگزر فرما دے تو میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی الہٰ ( معبود برحق ) نہیں ہے ۔
اللہ کی مدد سے ابولزبیر کی حدیث مکمل ہوگئی والحمد للہ اور یہ محمد نام والوں کی آخری حدیث ہے

صحيح

« 111- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 215/1 ، 216 ح 503 ، ك 15 ب 8 ح 34) التمهيد 189/12 ، الاستذكار : 477
و أخرجه مسلم (769) من حديث مالك به ورواه سليمان الاحول عن طاوس به عند مسلم وهٰذا و متابعته والحدللّٰه»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حديثٌ واحدٌ
112- مالكٌ عن إسماعيل بن محمد بن سعد بن أبي وقاصٍ عن مولى لعمرو بن العاص أو لعبد الله بن عمرو عن عبد الله بن عمرو بن العاص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (صلاة أحدكم وهو قاعدٌ مثل نصف صلاته وهو قائمٌ) )
.

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے بیٹھ کر ( نفلی) نماز پڑھنے والے کو کھڑے ہوکر ( نفلی) نماز پڑھنے والے کی نسبت آ دھا ثواب ملتا ہے

صحيح
«112- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 136/1 ح 305 ، ك 8 ب 6 ح 19) التمهيد 131/1 ، الاستذكار : 375
و أخرجه الجوھری فی مسند الموطأ (271) من حديث مالك به وفیه علة وللحديث شاهد صحيح في صحيح مسلم (735) وبه صح الحديث والحمدللہ »
------------------
حديثٌ واحدٌ
113- مالكٌ عن إسماعيل بن أبي حكيمٍ عن عبيدة بن سفيان الحضرمي عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (أكل كل ذي نابٍ من السباع حرامٌ) ) .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کچلی والے تما م درندوں کا کھانا حرام ہے

سندہ صحیح

« 113- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 496/2 ح 1097 ، وقال مالك : ”وهو الأمر عندنا“ ك 25 ب 4 ح 14) التمهيد 139/1 ، وقال : ”وهذا حديث ثابت صحيح مجتمع عليٰ صحته“ ، الاستذكار : 1029
و أخرجه مسلم (1933/15) من حديث مالك به
من رواية يحي بن يحي وجاء في الأصل : ”سِتّيْنَ“ !»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة أربعة عشر حديثاً له عن أنس
تسعة أحاديث
114- مالكٌ عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة عن أنس بن مالكٍ قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وحانت صلاة العصر فالتمس الناس الوضوء فلم يجدوه ، فأتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بوضوءٍ ، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك الإناء يده وأمر الناس أن يتوضؤوا منه.
قال : فرأيت الماء ينبع من تحت أصابعه ، فتوضأ الناس حتى توضؤوا من عند آخرهم.

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، عصر کی نماز کا وقت ہوا تو لوگوں نے وضو کا پانی تلاش کیا مگر پانی نہ ملا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا تھوڑا سا پانی لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا اور لوگوں کو اس سے وضو کرنے کاحکم دیا ۔ ( سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے دیکھا کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے پانی پھوٹ رہا تھا پھر ( لشکر کے) آخری آ دمی تک تمام لوگوں نے اس پانی سے وضو کر لیا

سندہ صحیح
متفق عليه

«114- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 32/1 ح 169 ، ك 2 ب 6 ح 32) التمهيد 217/1 ، الاستذكار : 55
و أخرجه البخاري (169) ومسلم (2279) من حديث مالك به »
------------------
115- وبه : عن أنسٍ أن جدته مليكة دعت رسول الله صلى الله عليه وسلم لطعامٍ صنعته له فأكل منه ، ثم قال : ( (قوموا فلأصلي لكم)) . قال أنس : فقمت إلى حصيرٍ لنا قد اسود من طول ما لبث ، فنضحته بماءٍ ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم وصففت أنا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا ، فصلى لنا ركعتين ثم انصرف.

اور اسی سند کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی دادی ملیکہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا پھر فرمایا : اٹھو ! میں تمھیں نماز پڑھا دوں انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اٹھ کر اپنی چٹائی کے پاس گیا جو طویل عرصے تک پڑی رہنے کی وجہ سے سیاہ ہو چکی تھی ، میں نے اس پر پانی چھڑکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے ایک یتیم اور میں نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنالی اور بڑھیا ہمارے پیچھے ( علیحدہ صف میں) تھیں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو ( نفل) رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیردیا

سندہ صحیح
متفق عليه

«115- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 153/1 ح 359 ، ك 9 ب 9 ح 31) التمهيد 263/1 ، الاستذكار : 329
و أخرجه البخاري (860) ومسلم (658) من حديث مالك به »
------------------

116- وبه قال : كان أبو طلحة أكثر الأنصار بالمدينة مالاً من نخل ، وكان أحب أمواله إليه بيرحاء وكانت مستقبلة المسجد ، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماءٍ فيها طيبٍ. قال أنسٌ : فلما أنزلت هذه الآية : ”لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون“قام أبو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله إن الله يقول في كتابه : ”لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون“ وإن أحب أموالي إلي بيرحاء ، وإنها صدقةٌ لله أرجو برها وذخرها عند الله ، فضعها يا رسول الله حيث شئت. قال : فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بخ ، ذلك مالٌ رابحٌ ، ذلك مالٌ رابحٌ قد سمعت ما قلت فيها ، وإني أرى أن تجعلها في الأقربين) ) . فقال أبو طلحة : أفعل يا رسول الله ، فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه.

اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ ( سیدنا) انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : انصارِ مدینہ میں سے ( سیدنا) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ مالدار تھے کہ ان کے کھجور کے باغات تھے اور انھیں ان میں سے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پسند تھا جو مسجد کے سامنے تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (باغ) میں تشریف لے جاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب یہ آیت نازل ہوئی «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ» (آل عمران: 92) تم اس وقت نیکی ( کے درجے) تک نہیں پہنچ سکتے جب تک ( اس کے راستے میں) وہ نہ خرچ کردو جسے تم پسند کر تے ہو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے : «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ » (آل عمران: 92) اور مجھے اپنے اموال میں سے بیرحاء ( کا باغ) سب سے زیادہ پسند ہے اور یہ ( اب) اللہ کے لئے صدقہ ہے ، مجھے امید ہے کہ یہ اللہ کے دربار میں میرے لئے نیکی اور ذخیرہ ہوگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آ پ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے چاہیں اسے استعمال کریں انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : واہ ! یہ نفع بخش مال ہے یہ نفع بخش مال ہے ، میں نے تمھاری بات سنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرو ، تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اسی طرح کرتا ہوں ، پھر اسے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے رشتہ داروں اور اپنے چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا

سندہ صحیح
متفق عليه

«116- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 995/2 ، 996 ح 1940 ، ك 58 ب 1 ح 2) التمهيد 198/1 ، الاستذكار : 1877
و أخرجه البخاري (2752 ، 1461) ومسلم (998/42) من حديث مالك به»
------------------
117- وبه قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذهب إلى قباء يدخل على أم حرامٍ بنت ملحان فتطعمه. وكانت أم حرامٍ بنت ملحان تحت عبادة بن الصامت ، فدخل عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم يوماً فأطعمته وجلست تفلي رأسه ، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم استيقظ وهو يضحك قالت : فقلت له : ما يضحكك يا رسول الله؟ فقال : ناسٌ من أمتي عرضوا علي غزاةً في سبيل الله يركبون ثبج هذا البحر ملوكاً على الأسرة أو مثل الملوك على الأسرة يشك إسحاق. قالت : فقلت : يا رسول الله ، ادع الله أن يجعلني منهم فدعا لها ثم وضع رأسه فنام ثم استيقظ يضحك. قالت : فقلت : ما يضحكك يا رسول الله؟ قال : ناسٌ من أمتي عرضوا علي غزاةً في سبيل الله ، ملوكاً على الأسرة أو مثل الملوك على الأسرة) ) كما قال في الأولى. قالت : فقلت : يا رسول الله ، ادع الله أن يجعلني منهم. فقال : ( (أنت من الأولين) ) . قال : فركبت البحر في زمان معاوية بن أبي سفيان فصرعت عن دابتها حين خرجت من البحر فهلكت.

اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ ( سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے) فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قباءجاتے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے جاتے وہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتی تھیں ام حرام بنت ملحان ( سیدنا) عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں پس اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلایا اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر ( کے بالوں) میں ٹٹولنے لگیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے پھر جب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بے دار ہوئے تو ہنس رہے تھے ام حرام نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں ہنس رہے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے (نیند میں) میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو اس سمندر کے درمیان اللہ کے راستے میں جہاد کر رہے تھے گویا کہ وہ تختوں پر بادشاہ بیٹھے ہیں انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا : یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے دعا کریں کہ اللہ مجھے ان میں شامل کرتے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی پھر سر رکھ کر سوگئے پھر جب نیند سے اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے ام حرام نے کہا: کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کس وجہ سے ہنس رہے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے کچھ لوگ مجھے ( نیند میں) دکھائے جو تخت نشین بادشاہوں کی طرح بیٹھے اللہ کی راستے میں جہاد کر رہے ہیں جیسا کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دفعہ فرمایا تھا تو ام حرام نے کہا: کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کر یں کہ وہ مجھے ان میں شامل کرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم پہلے گروہ میں ہو ۔ ( سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے ) فرمایا : پھر وہ یے سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ( کے دور امارت) کے زمانے میں سمندری جہاد میں شامل ہوئیں پھر جب وہ سمندر سے باہر تشرف لائیں تو سواری سے گر کر فوت ہو گئیں
سندہ صحیح
متفق عليه

«117- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 464/2 ، 465 ح 1026 ، ك 21 ب 18 ح 39) التمهيد 225/1 ، الاستذكار : 963
و أخرجه البخاري (2788 ، 2789) ومسلم (1912/160) من حديث مالك به»
------------------
118- وبه أنه قال : كنت أسقي أبا عبيدة بن الجراح وأبا طلحة الأنصاري وأبي بن كعب شراباً من فضيخ تمرٍ ، فجاءهم آتٍ فقال لهم : إن الخمر قد حرمت. فقال أبو طلحة : يا أنس ، قم إلى هذه الجرار فاكسرها. قال : فقمت إلى مهراسٍ لنا فضربتها بأسفلها حتى تكسرت.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں ( شراب کی حرمت سے پہلے ) ابوعبیدہ بن الجراح ، ابوطلحہ الانصاری اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو کھجور اور چھوہاروں کی شراب پلا رہا تھا کہ ایک شخص نے آ کر انھیں بتایا : بے شک شراب حرام ہو گئی ہے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے انس ! اٹھ اور ان مٹکوں کو توڑ دے پھر میں نے ایک پتھر ( موسل) لے کر ان مٹکوں کو مارا حتیٰ کہ وہ ٹکڑے ٹکڑ ے ہو گئے

سندہ صحیح
متفق عليه

« 118- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 446/2 ، 447 ح 1644 ، ك 42 ب 5 ح 13) التمهيد 242/1 ، الاستذكار : 1572
و أخرجه البخاري (5582) ومسلم (1980/9 بعد ح 1981) من حديث مالك به»
------------------
119- وبه : أنه سمع أنس بن مالك يقول : قال أبو طلحة لأم سليمٍ : لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفاً أعرف فيه الجوع ، هل عندك من شيءٍ؟ فقالت : نعم. فأخرجت أقراصاً من شعيرٍ ، ثم أخذت خماراً لها فلفت الخبز ببعضه ، ثم دسته تحت يدي وردتني ببعضه ، ثم أرسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم.
قال : فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم جالساً في المسجد ومعه الناس فقمت عليهم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (آرسلك أبو طلحة؟) ) فقلت : نعم. فقال : ( (لطعامٍ؟) ) فقلت : نعم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن معه : ( (قوموا) ) . قال : فانطلق وانطلقت بين أيديهم حتى جئت أبا طلحة فأخبرته. فقال أبو طلحة : يا أم سليمٍ ، قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس وليس عندنا من الطعام ما نطعمهم. فقالت : الله ورسوله أعلم. قال : فانطلق أبو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو طلحة حتى دخلا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (هلم يا أم سليمٍ ما عندك)) . فأتت بذلك الخبز. قال : فأمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ففت ، وعصرت عليه أم سليم عكة لها فآدمته ، ثم قال فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله أن يقول. ثم قال : ( (إئذن لعشرةٍ) ) فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم قال : ( (إئذن لعشرةٍ) )فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا. ثم قال : ( (إئذن لعشرةٍ) ) فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا. ثم أذن لعشرةٍ حتى أكل القوم كلهم وشبعوا ، والقوم سبعون رجلاً أو ثمانون رجلاً.

اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ انہوں ( اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ) نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کر فرماتے ہوئے سنا : ابوطلحہ نے( اپنی بیوی) ام سلیم سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آ واز کمزور سنی ہے اس میں بھوک کا اثر محسوس کر تا ہوں ، کیا تمھارے پاس ( کھانے کے لئے ) کوئی چیز ہے ؟ تو انہوں نے کہا: ہاں ! پھر انہوں نے جوَ کی کچھ روٹیاں نکالیں پھر اپنا ایک دوپٹہ لے کر اس میں روٹیاں اوپر نیچے ڈھانپ دیں پھر انھیں میری بغل میں دبا دیا اور بعض حصے کو میری چادر بنا دیا پھر مجھے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا گیا تو دیکیھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی گرد لوگ بیٹھے ہیں ، میں ان کے قریب کھڑا ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تجھے ابوطلحہ نے بھیجا ہے ؟ میں نے کہا: جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا کھانے کے لئے ؟ میں نے کہا: جی ہاں ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اٹھو ( انس رضی اللہ عنہ نے ) کہا: ! پس آ پ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اور میں آگے آگے چلا حتی ٰ کہ جاکر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بتایا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ام سلیم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس انھیں کھلانے کے لئے کھانا نہیں ہے اُمِ سلیم نے فرمایا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ جانتے ہیں ، پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ دونوں تشریف لائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اُم سلیم ! جو کچھ تمھاری پاس ہے لے آ و تو وہ روٹیاں لائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان روٹیوں کے ٹکڑے کرکے چُوری بنائی گئی اور اُم سلیم نے اس پرایک برتن سے گھی نچوڑا تو یہ چُوری نما سالن بن گیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دعا پڑھی جو اللہ نے چاہی پھرآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دس آدمیوں کو لے آؤ ۔ دس آ دمی بلائے گئے حتیٰ کہ انہوں نے خوب سیر ہوکر کھانا کھایا اور باہر چلے گیے پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! دس آ دمیوں کو بلاؤ دس آ دمی بلائے گئے تو انہوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور باہرچلے گئے ، پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دس آ دمیوں کو بلاو دس آ دمی بلائے گئے تو انہوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور باہر چلے گئے پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آ دمی بلائے حتیٰ کہ سارے آ دمیوں نے جو ستر یا اسی تھے خوب پیٹ پھر کر سیر ہو کر کھانا کھایا

سندہ صحیح
متفق عليه

«119- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 927/2 ، 928 ح 1789 ، ك 49 ب 10 ح 19) التمهيد 288/1 ، 289 ، الاستذكار : 1722
و أخرجه البخاري (5381) ومسلم (2040) من حديث مالك به
من رواية يحي بن يحي
من رواية يحي جاء في الأصل : ” هَلُمَّ“ »

------------------
120- وبه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (اللهم بارك لهم في مكيالهم وبارك لهم في صاعهم وفي مدهم) ) يعني أهل المدينة.

اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے میرے اللہ ! ان یعنی مدینے والوں کے اوزان میں برکت ڈال اور ان کے صاع و مد ( تولنے کے پیمانوں) میں برکت ڈال

سندہ صحیح
متفق عليه

«120- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 884/2 ، 885 ح 1701 ، ك 45 ب 1 ح 1) التمهيد 278/1 ، الاستذكار : 1631
و أخرجه البخاري (2130) ومسلم (1368) من حديث مالك به»
------------------
121- وبه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (الرؤيا الحسنة من الرجل الصالح جزءٌ من ستةٍ وأربعين جزءاً من النبوة) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نیک آ دمی کا اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے

سندہ صحیح

«121- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 956/2 ح 1845 ، ك 52 ب 1 ح 1) التمهيد 279/1 ، الاستذكار : 1781
و أخرجه البخاري (6983) من حديث مالك به»
------------------
122-
وبه : عن أنسٍ أنه قال : كنا نصلي العصر ثم يخرج الإنسان إلى بني عمرو بن عوف فيجدهم يصلون العصر.

اور اسی سند کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عصر کی نماز پڑھتے پھر آ دمی بنو عمرو بن عوف کی طرف جاتا تو انھیں عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پاتا تھا

سندہ صحیح
متفق عليه

« 122- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 8/1 ح 9 ، ك 1 ب 1 ح 10) التمهيد 295/1 ، الاستذكار : 8
و أخرجه البخاري (548) ومسلم (621/194) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
حميدة بنت عبيدٍ
حديثٌ واحدٌ
123- مالكٌ عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة عن حميدة بنت عبيد ابن رفاعة عن كبشة بنت كعب بن مالكٍ -وكانت تحت ابن أبي قتادة- أن أبا قتادة دحل عليها فسكبت له وضوءاً ، فجاءت هرةٌ تشرب منه ، فأصغى لها أبو قتادة الإناء حتى شربت ، فقالت كبشة : فرآني أنظر ، فقال : أتعجبين يا ابنة أخي؟ ، فقالت : قلت : نعم ، فقال : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إنها ليست بنجسٍ ، إنما هي من الطوافين عليكم أو الطوافات) ) .

ابن ابی قتادہ کی بیوی اور سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی بیٹی کبثہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے ان کے لئے وضو کا پانی ( برتن میں) ڈالا پھر ایک بلی آئی ( اور ) اس میں سے پینے لگی تو ابوقتادہ نے اس کے لئے برتن جھکا دیا حتیٰ کہ بلی نے پی لیا کبثہ نے کہا: جب آ پ نے مجھے اپنی طرف دیکھتے ہو ئے دیکھا تو کہا: اے بھتیجی ! کیا تو تعجب کرتی ہے ؟ میں نے کہا: ہاں ! تو انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ نجس نہیں ہے ، یہ تو تمہارے پاس ( گھروں میں) بار بار چکر لگانے والی ہے

سندہ صحیح

« 123- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 22/1 ، 23 ح 41 ، ك 2 ب 3 ح 13) التمهيد 318/1 ، الاستذكار : 44
و أخرجه أبوداود (75) و الترمذي (92 وقال : حسن صحيح) و ابن ماجه (367) و النسائي ( 55/1 ح 68) كلهم من حديث مالك به و صححه ابن خزيمة (104) وابن حبان (121) والحاكم (160/1) ووافقه الذهبي »
------------------
رافع بن إسحاق
حديثان
124- مالكٌ عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة -عن رافع بن إسحاق مولى لآل الشفاء- وكان يقال له مولى أبي طلحة أنه سمع أبا أيوب صاحب النبي صلى الله عليه وسلم يقول ، وهو بمصر : والله ما أدري كيف أصنع بهذه الكرابيس. وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إذا ذهب أحدكم لغائطٍ أو لبولٍ فلا يستقبل القبلة ولا يستدبرها بفرجه) ) .

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا ابوایوب ( الانصاری رضی اللہ عنہ ) جب مصر میں تھے تو انہوں نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ میں ان ( قبلہ رخ) لیڑینوں کے ساتھ کیا کروں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : جب تم میں سے کوئی آدمی پاخانہ یا پیشاب کرنے کے لئے جائے تو نہ قبلے کی طرف رخ کر ے اور نہ اپنی شر مگاہ کے ساتھ قبلے کی طرف پیٹھ کرے

سندہ صحیح

«124- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 193/1 ح 455 ، ك 14 ب 1 ح 1) التمهيد 303/1 ، وقال ”حديث متصل صحيح“ ، الاستذكار : 424
و أخرجه النسائي (21/1 ، ح 20) من حديث ابن القاسم عن الإمام مالك به وللحديث طرق عند البخاري (144) ومسلم (264) وغيرهما »
------------------

125- وبه : أن رافع بن إسحاق مولى الشفاء أخبره ، قال : دخلت أنا وعبد الله بن أبي طلحة على أبي سعيد الخدري نعوده ، فقال لنا أبو سعيدٍ : أخبرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (أن الملائكة لا تدخل بيتاً فيه تماثيل أو صورٌ) ) ، شك إسحاق لا يدري أيتهما قال أبو سعيد الخدري.

رافع بن اسحاق سے روایت ہے کہ میں اور عبداللہ بن ابی طلحہ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لئے گئے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا : بے شک جس گھر میں مجسمے یا تصاویر ہوں تو وہاں ( رحمت کے ) فرشتے داخل نہیں ہوتے اسحق کو شک ہوا ، انھیں واضح طور پر معلوم نہ تھا کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے ان میں سے کون سا کلمہ کہا؟

سندہ صحیح

« 125- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 965/2 ، 966 ح 1867 ، ك 54 ب 3 ح 6) التمهيد 300/1 ، الاستذكار : 1803
و أخرجه الترمذي (2805) من حديث مالك به وقال : ” حسن صحيح“ وصححه ابن حبان (1486) »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو مرة
حديثٌ واحدٌ
126- مالكٌ عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة أن أبا مرة مولى عقيل ابن أبي طالبٍ أخبره عن أبي واقدٍ الليثي : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو جالسٌ في المسجد والناس معه إذ أقبل نفرٌ ثلاثةٌ ، فأقبل اثنان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وذهب واحدٌ. قال : فلما وقفا على رسول الله صلى الله عليه وسلم سلما. فأما أحدهما فرأى فرجةً في الحلقة فجلس فيها ، وأما الأخر فجلس خلفهم ، وأما الثالث فأدبر ذاهباً. فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (ألا أخبركم عن النفر الثلاثة؟ أما أحدهم فأوى إلى الله فآواه الله وأما الآخر فاستحيى فاستحيى الله منه ، وأما الآخر فأعرض فأعرض الله عنه) ) .

سیدنا ابوواقد اللیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ آپ کے پاس تھے کہ اتنے میں تین آدمیوں کا ایک گروہ آیا ان میں سے دو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ایک واپس چلا گیا جب وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو دونوں نے سلام کیا پھر ایک نے حلقے میں تھوڑی سی جگہ دیکھی تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا لوگوں کے آخر میں بیٹھ گیا اور تیسرا پیٹھ پھیر کر چلا گیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( خطبے یا درس سے ) فارغ ہوئے تو فرمایا : کیا میں تمہیں تین آدمیوں کی بات نہ بتاؤں؟ ایک نے اللہ سے جگہ مانگی تو اللہ نے اسے جگہ دے دی ، دوسرے نے حیا کی تو اللہ نے اس سے حیا کی اور تیسرے نے منہ پھیرا تو اللہ نے اس سے اعراض فرمایا

سندہ صحیح
متفق عليه
«126- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 960/2 ، 961 ح 1857 ، ك 53 ب 3 ح 4) التمهيد 315/1 ، وقال : ” حديث متصل صحيح“ ، الاستذكار : 1793
و أخرجه البخاري (66) ومسلم (2176) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
زفر بن صعصعة
حديثٌ واحدٌ
127- مالكٌ عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة عن زفر بن صعصة بن مالكٍ عن أبيه عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا انصرف من صلاة الغداة قال : ( (هل رأى أحدٌ منكم الليلة رؤيا؟) ) ويقول : ( (إنه ليس يبقى بعدي من النبوة إلا الرؤيا الصالحة) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر سے سلام پھیرتے تو فرماتے : کیا تم میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ اور فرماتے : میرے بعد نبوت میں سے سوائے اچھے خوابوں کے کچھ باقی نہیں رہا ہے

سندہ صحیح

«127- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 956/2 ، 957 ح 1847 ، ك 52 ب 1 ح 2) التمهيد 313/1 ، الاستذكار : 1783
و أخرجه أبوداود (5017) من حديث مالك به و صححه الحاكم (390/4 ، 391) ووافقه الذهبي»
------------------
أيوب بن أبي تميمة السختياني
ثلاثة أحاديث

128- قال مالكٌ : حدثني أيوب بن أبي تميمة عن محمد بن سيرين عن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من اثنتين ، فقال له ذو اليدين : أقصرت الصلاة أم نسيت يا رسول الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (أصدق ذو اليدين؟) ) فقال الناس : نعم. فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى اثنتين أخرين ثم سلم ثم كبر فسجد مثل سجوده أو أطول ، ثم رفع ثم كبر فسجد مثل سجوده أو أطول ، ثم رفع.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا تو ( ایک صحابی) ذولیدین رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا: یا رسول اللہ ! کیانماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( لوگوں سے) کہا: کیا ذولیدین نے سچ کہا ہے ؟ تو لوگوں نے کہا: جی ہاں ! پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور ( ظہر یا عصر کی) آخری دو رکعتیں پڑھائیں پھر آپ نے سلام پھیرا پھر تکبیر کہی تو اپنے سجدوں کی طرح یا اس سے طویل سجدہ کیا پھر ( تکبیر کہہ کر) سر اٹھایا پھر تکبیر کہی تو اپنے سجدوں کی طرح یا اس سے طویل سجدہ کیا

سندہ صحیح

«128- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 93/1 ح 206 ، ك 3 ب 15 ح 58) التمهيد 341/1 ، الاستذكار : 178
و أخرجه البخاري (1228) من حديث مالك به ورواه مسلم (573/97) من حديث أيوب السخنياني به »
------------------
129- وبه عن محمدٍ بن سيرين عن أم عطية الأنصارية أنها قالت : دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم حين توفيت ابنته فقال : اغسلنها ثلاثاً أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك بماءٍ وسدرٍ ، واجعلن في الآخرة كافوراً أو شيئاً من كافورٍ فإذا فرغتن فآذنني. قالت : فلما فرغنا آذناه فأعطانا حقوه ، فقال : أشعرنها إياه تعني إزاره.

سیدہ ام عطیہ الانصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی (سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا) فوت ہوئیں تو آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اسے تین فعہ یا اگر مناسب سمجھو تو زیادہ دفعہ پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دینا اور آخر میں اس میں کافور یا کافور کا کچھ حصہ ڈالنا ، پھر جب فارغ ہو جاو تو مجھے اطلاع دینا ۔ ام عطیہ نے کہا: جب ہم فارغ ہوئیں تو آپ کو اطلاع دی ، پھر آپ نے ہمیں اپنے ازاروالی چادر دی اور فرمایا : اس کے بدن کو اس ( چادر) میں لپیٹ دو

سندہ صحیح
متفق عليه

«129- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 222/1 ح 521 ، ك 16 ب 1 ح 2) التمهيد 371/1 ، الاستذكار : 482
و أخرجه البخاري (1253) و مسلم (939/38) من حديث مالك به »
------------------
130- وبه : عن محمد بن سيرين أن رجلاً أخبره عن عبد الله بن عباسٍ أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ، إن أمي عجوزٌ كبيرةٌ لا تستطيع أن نركبها على البعير ولا تستمسك ، وإن ربطتها خفت أن تموت ، أفأحج عنها؟ قال : ((نعم) ) .

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: یا رسول اللہ ! میری ماں بہت زیادہ بوڑھی ہیں ، ہم انہیں اونٹ پر سوار نہیں کر سکتے اور نہ وہ ٹکتی ہیں ، اگر میں انہیں ، سواری پر باندھ لوں تو مجھے ڈر ہے کہ وہ مر جائیں گی ، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جی ہاں !

صحيح
«130- الموطأ (رواية الجوهري : 302) التمهيد 382/1 ، والرجل الخبر لابن سيرين هو يحي بن ابي إسحاق رواه عن سليمان بن يسار عن ابن عباس به
واللحديث شاهد قوي عنه الطحاوي في مشكل الآثار ( الطبعة القديمه 220/3) و به صح الحديث وانظر التمهيد (384/1) »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أيوب بن حبيبٍ
حديثٌ واحدٌ
131- مالكٌ عن أيوب بن حبيبٍ مولى سعد بن أبي وقاصٍ عن أبي المثنى الجهني أنه قال : كنت عند مروان بن الحكم فدخل عليه أبو سعيدٍ الخدري ، فقال له مروان بن الحكم : أسمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن النفخ في الشراب؟ فقال له أبو سعيدٍ : نعم ، فقال له رجلٌ : يا رسول الله ، إني لا أروى من نفسٍ واحدٍ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (فأبن القدح عن فيك ثم تنفس) ) . قال : فإني أرى القذاة ، فيه قال : ( (فأهرقها) ) .

ابوالمثنیٰ الجہنی سے روایت ہے کہ میں مروان بن حکم کے پاس موجود تھا جب سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ اس کے پاس تشریف لائے تو مروان بن حکم نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ انہوں نے مشروب ( پانی وغیرہ) میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے ؟ تو ابوسعید ( الخدری رضی اللہ عنہ ) نے اسے کہا: جی ہاں ! پھر ایک آدمی نے کہا تھا : یا رسول اللہ ! میں ایک سانس میں سیر نہیں ہوتا ( پیاسا رہتا ہوں) ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پیالے کو اپنے منہ سے دور کرو پھر سانس لو اس نے کہا: میں اس ( مشروب) میں تنکا دیکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا : پھر اسے بہا دو

سندہ صحیح

«131- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 925/2 ح 1783 ، ك 49 ب 7 ح 12) التمهيد 391/1 ، الاستذكار : 1715
و أخرجه الترمذي (1887 وقال : حسن صحيح) و ابن حبان (الموارد : 1367) والحاكم (139/4) كلهم من حديث مالك به »
------------------
العلاء بن عبد الرحمن
له عن أنسٍ حديثٌ واحدٌ
132- مالكٌ عن العلاء بن عبد الرحمن أنه قال : دخلنا على أنس بن مالكٍ بعد الظهر فقام يصلي العصر ، فلما فرغ من صلاته ذكرنا تعجيل الصلاة -أو ذكرها- فقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( (تلك صلاة المنافقين ، تلك صلاة المنافقين ، تلك صلاة المنافقين ، يجلس أحدهم حتى إذا اصفرت الشمس وكانت بين قرني الشيطان أو على قرني الشيطان قام فنقر أربعاً لا يذكر الله فيها إلا قليلاً) ) .

العلاءبن عبدالرحمٰن ( بن یعقوب) سے روایت ہے کہ ہم ظہر ( کی نماز) کے بعد سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو وہ کھڑے ہو کر عصر کی نماز پڑھنے لگے پھر جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے یا انہوں نے خود ہی نماز کی جلدی کا ذکر کیا پھر انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ منافقوں کی نماز ہے ، وہ منافقوں کی نماز ہے ، وہ منافقوں کی نماز ہے ، ان میں سے ہر آدمی بیٹھا رہتا ہے حتی کہ جب سورج پیلا زرد ہو جاتا ہے اور شیطان کے دو سینگوں کے پاس پہنچ جاتا ہے تو یہ کھڑا ہو کر چار ٹھونگے لگا تا ہے جن میں اللہ کو بہت تھوڑا یاد کرتا ہے

سندہ صحیح

«132- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 220/1 ح 515 ، ك 15 ب 10 ح 46) التمهيد 184/20 ، 185 ، الاستذكار : 28
و أخرجه أبوداود (413) من حديث مالك به ورواه مسلم (622) من حديث العلاء بن عبدالرحمٰن به»
------------------
 
Top