------------------
إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة أربعة عشر حديثاً له عن أنس
تسعة أحاديث
114- مالكٌ عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة عن أنس بن مالكٍ قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وحانت صلاة العصر فالتمس الناس الوضوء فلم يجدوه ، فأتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بوضوءٍ ، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك الإناء يده وأمر الناس أن يتوضؤوا منه.
قال : فرأيت الماء ينبع من تحت أصابعه ، فتوضأ الناس حتى توضؤوا من عند آخرهم.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، عصر کی نماز کا وقت ہوا تو لوگوں نے وضو کا پانی تلاش کیا مگر پانی نہ ملا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا تھوڑا سا پانی لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا اور لوگوں کو اس سے وضو کرنے کاحکم دیا ۔ ( سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے دیکھا کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے پانی پھوٹ رہا تھا پھر ( لشکر کے) آخری آ دمی تک تمام لوگوں نے اس پانی سے وضو کر لیا
سندہ صحیح
متفق عليه
«114- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 32/1 ح 169 ، ك 2 ب 6 ح 32) التمهيد 217/1 ، الاستذكار : 55
و أخرجه البخاري (169) ومسلم (2279) من حديث مالك به »
------------------
115- وبه : عن أنسٍ أن جدته مليكة دعت رسول الله صلى الله عليه وسلم لطعامٍ صنعته له فأكل منه ، ثم قال : ( (قوموا فلأصلي لكم)) . قال أنس : فقمت إلى حصيرٍ لنا قد اسود من طول ما لبث ، فنضحته بماءٍ ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم وصففت أنا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا ، فصلى لنا ركعتين ثم انصرف.
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی دادی ملیکہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا پھر فرمایا : اٹھو ! میں تمھیں نماز پڑھا دوں انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اٹھ کر اپنی چٹائی کے پاس گیا جو طویل عرصے تک پڑی رہنے کی وجہ سے سیاہ ہو چکی تھی ، میں نے اس پر پانی چھڑکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے ایک یتیم اور میں نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنالی اور بڑھیا ہمارے پیچھے ( علیحدہ صف میں) تھیں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو ( نفل) رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیردیا
سندہ صحیح
متفق عليه
«115- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 153/1 ح 359 ، ك 9 ب 9 ح 31) التمهيد 263/1 ، الاستذكار : 329
و أخرجه البخاري (860) ومسلم (658) من حديث مالك به »
------------------
116- وبه قال : كان أبو طلحة أكثر الأنصار بالمدينة مالاً من نخل ، وكان أحب أمواله إليه بيرحاء وكانت مستقبلة المسجد ، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماءٍ فيها طيبٍ. قال أنسٌ : فلما أنزلت هذه الآية : ”لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون“قام أبو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله إن الله يقول في كتابه : ”لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون“ وإن أحب أموالي إلي بيرحاء ، وإنها صدقةٌ لله أرجو برها وذخرها عند الله ، فضعها يا رسول الله حيث شئت. قال : فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بخ ، ذلك مالٌ رابحٌ ، ذلك مالٌ رابحٌ قد سمعت ما قلت فيها ، وإني أرى أن تجعلها في الأقربين) ) . فقال أبو طلحة : أفعل يا رسول الله ، فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه.
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ ( سیدنا) انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : انصارِ مدینہ میں سے ( سیدنا) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ مالدار تھے کہ ان کے کھجور کے باغات تھے اور انھیں ان میں سے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پسند تھا جو مسجد کے سامنے تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (باغ) میں تشریف لے جاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب یہ آیت نازل ہوئی «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ» (آل عمران: 92) تم اس وقت نیکی ( کے درجے) تک نہیں پہنچ سکتے جب تک ( اس کے راستے میں) وہ نہ خرچ کردو جسے تم پسند کر تے ہو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے : «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ » (آل عمران: 92) اور مجھے اپنے اموال میں سے بیرحاء ( کا باغ) سب سے زیادہ پسند ہے اور یہ ( اب) اللہ کے لئے صدقہ ہے ، مجھے امید ہے کہ یہ اللہ کے دربار میں میرے لئے نیکی اور ذخیرہ ہوگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آ پ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے چاہیں اسے استعمال کریں انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : واہ ! یہ نفع بخش مال ہے یہ نفع بخش مال ہے ، میں نے تمھاری بات سنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرو ، تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اسی طرح کرتا ہوں ، پھر اسے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے رشتہ داروں اور اپنے چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا
سندہ صحیح
متفق عليه
«116- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 995/2 ، 996 ح 1940 ، ك 58 ب 1 ح 2) التمهيد 198/1 ، الاستذكار : 1877
و أخرجه البخاري (2752 ، 1461) ومسلم (998/42) من حديث مالك به»
------------------
117- وبه قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذهب إلى قباء يدخل على أم حرامٍ بنت ملحان فتطعمه. وكانت أم حرامٍ بنت ملحان تحت عبادة بن الصامت ، فدخل عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم يوماً فأطعمته وجلست تفلي رأسه ، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم استيقظ وهو يضحك قالت : فقلت له : ما يضحكك يا رسول الله؟ فقال : ناسٌ من أمتي عرضوا علي غزاةً في سبيل الله يركبون ثبج هذا البحر ملوكاً على الأسرة أو مثل الملوك على الأسرة يشك إسحاق. قالت : فقلت : يا رسول الله ، ادع الله أن يجعلني منهم فدعا لها ثم وضع رأسه فنام ثم استيقظ يضحك. قالت : فقلت : ما يضحكك يا رسول الله؟ قال : ناسٌ من أمتي عرضوا علي غزاةً في سبيل الله ، ملوكاً على الأسرة أو مثل الملوك على الأسرة) ) كما قال في الأولى. قالت : فقلت : يا رسول الله ، ادع الله أن يجعلني منهم. فقال : ( (أنت من الأولين) ) . قال : فركبت البحر في زمان معاوية بن أبي سفيان فصرعت عن دابتها حين خرجت من البحر فهلكت.
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ ( سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے) فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قباءجاتے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے جاتے وہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتی تھیں ام حرام بنت ملحان ( سیدنا) عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں پس اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلایا اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر ( کے بالوں) میں ٹٹولنے لگیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے پھر جب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بے دار ہوئے تو ہنس رہے تھے ام حرام نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں ہنس رہے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے (نیند میں) میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو اس سمندر کے درمیان اللہ کے راستے میں جہاد کر رہے تھے گویا کہ وہ تختوں پر بادشاہ بیٹھے ہیں انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا : یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے دعا کریں کہ اللہ مجھے ان میں شامل کرتے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی پھر سر رکھ کر سوگئے پھر جب نیند سے اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے ام حرام نے کہا: کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کس وجہ سے ہنس رہے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے کچھ لوگ مجھے ( نیند میں) دکھائے جو تخت نشین بادشاہوں کی طرح بیٹھے اللہ کی راستے میں جہاد کر رہے ہیں جیسا کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دفعہ فرمایا تھا تو ام حرام نے کہا: کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کر یں کہ وہ مجھے ان میں شامل کرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم پہلے گروہ میں ہو ۔ ( سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے ) فرمایا : پھر وہ یے سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ( کے دور امارت) کے زمانے میں سمندری جہاد میں شامل ہوئیں پھر جب وہ سمندر سے باہر تشرف لائیں تو سواری سے گر کر فوت ہو گئیں
سندہ صحیح
متفق عليه
«117- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 464/2 ، 465 ح 1026 ، ك 21 ب 18 ح 39) التمهيد 225/1 ، الاستذكار : 963
و أخرجه البخاري (2788 ، 2789) ومسلم (1912/160) من حديث مالك به»
------------------
118- وبه أنه قال : كنت أسقي أبا عبيدة بن الجراح وأبا طلحة الأنصاري وأبي بن كعب شراباً من فضيخ تمرٍ ، فجاءهم آتٍ فقال لهم : إن الخمر قد حرمت. فقال أبو طلحة : يا أنس ، قم إلى هذه الجرار فاكسرها. قال : فقمت إلى مهراسٍ لنا فضربتها بأسفلها حتى تكسرت.
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں ( شراب کی حرمت سے پہلے ) ابوعبیدہ بن الجراح ، ابوطلحہ الانصاری اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو کھجور اور چھوہاروں کی شراب پلا رہا تھا کہ ایک شخص نے آ کر انھیں بتایا : بے شک شراب حرام ہو گئی ہے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے انس ! اٹھ اور ان مٹکوں کو توڑ دے پھر میں نے ایک پتھر ( موسل) لے کر ان مٹکوں کو مارا حتیٰ کہ وہ ٹکڑے ٹکڑ ے ہو گئے
سندہ صحیح
متفق عليه
« 118- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 446/2 ، 447 ح 1644 ، ك 42 ب 5 ح 13) التمهيد 242/1 ، الاستذكار : 1572
و أخرجه البخاري (5582) ومسلم (1980/9 بعد ح 1981) من حديث مالك به»
------------------
119- وبه : أنه سمع أنس بن مالك يقول : قال أبو طلحة لأم سليمٍ : لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفاً أعرف فيه الجوع ، هل عندك من شيءٍ؟ فقالت : نعم. فأخرجت أقراصاً من شعيرٍ ، ثم أخذت خماراً لها فلفت الخبز ببعضه ، ثم دسته تحت يدي وردتني ببعضه ، ثم أرسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم.
قال : فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم جالساً في المسجد ومعه الناس فقمت عليهم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (آرسلك أبو طلحة؟) ) فقلت : نعم. فقال : ( (لطعامٍ؟) ) فقلت : نعم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن معه : ( (قوموا) ) . قال : فانطلق وانطلقت بين أيديهم حتى جئت أبا طلحة فأخبرته. فقال أبو طلحة : يا أم سليمٍ ، قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس وليس عندنا من الطعام ما نطعمهم. فقالت : الله ورسوله أعلم. قال : فانطلق أبو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو طلحة حتى دخلا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (هلم يا أم سليمٍ ما عندك)) . فأتت بذلك الخبز. قال : فأمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ففت ، وعصرت عليه أم سليم عكة لها فآدمته ، ثم قال فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله أن يقول. ثم قال : ( (إئذن لعشرةٍ) ) فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم قال : ( (إئذن لعشرةٍ) )فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا. ثم قال : ( (إئذن لعشرةٍ) ) فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا. ثم أذن لعشرةٍ حتى أكل القوم كلهم وشبعوا ، والقوم سبعون رجلاً أو ثمانون رجلاً.
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ انہوں ( اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ) نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کر فرماتے ہوئے سنا : ابوطلحہ نے( اپنی بیوی) ام سلیم سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آ واز کمزور سنی ہے اس میں بھوک کا اثر محسوس کر تا ہوں ، کیا تمھارے پاس ( کھانے کے لئے ) کوئی چیز ہے ؟ تو انہوں نے کہا: ہاں ! پھر انہوں نے جوَ کی کچھ روٹیاں نکالیں پھر اپنا ایک دوپٹہ لے کر اس میں روٹیاں اوپر نیچے ڈھانپ دیں پھر انھیں میری بغل میں دبا دیا اور بعض حصے کو میری چادر بنا دیا پھر مجھے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا گیا تو دیکیھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی گرد لوگ بیٹھے ہیں ، میں ان کے قریب کھڑا ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تجھے ابوطلحہ نے بھیجا ہے ؟ میں نے کہا: جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا کھانے کے لئے ؟ میں نے کہا: جی ہاں ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اٹھو ( انس رضی اللہ عنہ نے ) کہا: ! پس آ پ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اور میں آگے آگے چلا حتی ٰ کہ جاکر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بتایا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ام سلیم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس انھیں کھلانے کے لئے کھانا نہیں ہے اُمِ سلیم نے فرمایا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ جانتے ہیں ، پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ دونوں تشریف لائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اُم سلیم ! جو کچھ تمھاری پاس ہے لے آ و تو وہ روٹیاں لائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان روٹیوں کے ٹکڑے کرکے چُوری بنائی گئی اور اُم سلیم نے اس پرایک برتن سے گھی نچوڑا تو یہ چُوری نما سالن بن گیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دعا پڑھی جو اللہ نے چاہی پھرآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دس آدمیوں کو لے آؤ ۔ دس آ دمی بلائے گئے حتیٰ کہ انہوں نے خوب سیر ہوکر کھانا کھایا اور باہر چلے گیے پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! دس آ دمیوں کو بلاؤ دس آ دمی بلائے گئے تو انہوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور باہرچلے گئے ، پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دس آ دمیوں کو بلاو دس آ دمی بلائے گئے تو انہوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور باہر چلے گئے پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آ دمی بلائے حتیٰ کہ سارے آ دمیوں نے جو ستر یا اسی تھے خوب پیٹ پھر کر سیر ہو کر کھانا کھایا
سندہ صحیح
متفق عليه
«119- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 927/2 ، 928 ح 1789 ، ك 49 ب 10 ح 19) التمهيد 288/1 ، 289 ، الاستذكار : 1722
و أخرجه البخاري (5381) ومسلم (2040) من حديث مالك به
من رواية يحي بن يحي
من رواية يحي جاء في الأصل : ” هَلُمَّ“ »
------------------
120- وبه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (اللهم بارك لهم في مكيالهم وبارك لهم في صاعهم وفي مدهم) ) يعني أهل المدينة.
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے میرے اللہ ! ان یعنی مدینے والوں کے اوزان میں برکت ڈال اور ان کے صاع و مد ( تولنے کے پیمانوں) میں برکت ڈال
سندہ صحیح
متفق عليه
«120- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 884/2 ، 885 ح 1701 ، ك 45 ب 1 ح 1) التمهيد 278/1 ، الاستذكار : 1631
و أخرجه البخاري (2130) ومسلم (1368) من حديث مالك به»
------------------
121- وبه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (الرؤيا الحسنة من الرجل الصالح جزءٌ من ستةٍ وأربعين جزءاً من النبوة) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نیک آ دمی کا اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے
سندہ صحیح
«121- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 956/2 ح 1845 ، ك 52 ب 1 ح 1) التمهيد 279/1 ، الاستذكار : 1781
و أخرجه البخاري (6983) من حديث مالك به»
------------------
122- وبه : عن أنسٍ أنه قال : كنا نصلي العصر ثم يخرج الإنسان إلى بني عمرو بن عوف فيجدهم يصلون العصر.
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عصر کی نماز پڑھتے پھر آ دمی بنو عمرو بن عوف کی طرف جاتا تو انھیں عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پاتا تھا
سندہ صحیح
متفق عليه
« 122- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 8/1 ح 9 ، ك 1 ب 1 ح 10) التمهيد 295/1 ، الاستذكار : 8
و أخرجه البخاري (548) ومسلم (621/194) من حديث مالك به»
------------------