• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم (یونیکوڈ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
العلاء بن عبد الرحمن
وله عن أبيه ستة أحاديث

133- مالكٌ عن العلاء بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى المقبرة فقال : ”السلام عليكم دار قومٍ مؤمنين. وإنا إن شاء الله بكم لاحقون ، وددت أني رأيت إخواننا“ . فقالوا : يا رسول الله ألسنا إخوانك؟ فقال : ”بل أنتم أصحابي ، وإخواننا الذين لم يأتوا بعد ، وأنا فرطهم على الحوض .“ قالوا : يا رسول الله ، كيف تعرف من يأتي بعدك من أمتك؟ قال :”أرأيت لو كانت لرجلٍ خيل غر محجلةٌ في خيلٍ دهم بهمٍ ، ألا يعرف خيله؟“ قالوا : بلى. قال : ” فإنهم يأتون يوم القيامة غرّاً محجلين من الوضوء وأنا فرطهم على الحوض فليذادن رجالٌ عن حوضي كما يذاد البعير الضال ، أناديهم ألا هلم ، ألا هلم ، ألا هلم ثلاثاً. فيقال : إنهم قد بدلوا بعدك. فأقول : فسحقاً ، فسحقاً ، فسحقاً “ .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ( ایک دفعہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان کی طرف تشریف لے گئے اور فرمایا : السلام علیکم ( تم پر سلام ہو) اے ایمان والوں کا گھر ! اور ہم ان شاءاللہ تم سے ملنے والے ہیں ، میں چاہتا تھا کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھ لیتا ! صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ تو آپ نے فرمایا : بلکہ تم میرے صحابہ ہو اور میرے بھائی وہ ہیں جو ابھی تک ( دنیا میں) نہیں آئے اور میں حوض ( کوثر) پر ان سے پہلے موجود ہوں گا ۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ ! آپ اپنے ان امتیوں کو کس طرح پہچانیں گے جو آپ کے بعد ( دنیا میں) آئیں گے ؟ آپ نے فرمایا : تمہارا کیا خیا ل ہے اگر کسی آدمی کے گھوڑے ہوں جن میں سے بعض سفیش چہروں اور سفیش پاؤں والے ہوں اور وہ کالے سیاہ گھوڑوں کے درمیان ہوں تو وہ اپنے گھوڑوں کو پہچان نہیں لے گا؟ لوگوں نے جواب دیا : ضرور پہچان لے گا آپ نے فرمایا : یہ لوگ ( میرے امتی) قیامت کے دن اس حالت میں آئیں گے کہ ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں سفید چمک رہے ہوں گے اور میں حوض پر ان سے پہلے موجود ہوں گا پھر کچھ لوگوں کو میرے حوض سے ہٹایا جائے گا جیسا کہ گمشدہ اونٹ کو ہٹایا جاتا ہے پھر انہیں ( تین دفعہ) آواز دوں گا : ادھر آ جاؤ ، ادھر آ جاؤ ، ادھر آ جاؤ پھر ( مجھے ) کہا: جائے گا : انہوں نے آپ کے بعد ( آپ کی سنت اور دین اسلام کو)تبدیل کر دیا تھا پس میں کہوں گا : دور ہو جاؤ ، دور ہو جاؤ ، دور ہو جا ؤ۔

سندہ صحیح

«133- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 28/1-30 ح 57 ، ك 2 ب 6 ح 28) التمهيد 238/20 ، 239 ، الاستذكار : 51
و أخرجه مسلم (249) من حديث مالك به »
------------------
134- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (ألا أخبركم بما يمحو الله به الخطايا ويرفع به الدرجات؟ إسباغ الوضوء على المكاره ، وكثرة الخطا إلى المساجد ، وانتظار الصلاة بعد الصلاة ؛ فذلكم الرباط ، فذلك» م الرباط ، فذلكم الرباط) ) .

اور اس سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمھیں وہ عمل نہ بتا دوں جس کے ذریعے سے اللہ خطائیں مٹاتا ہے اور درجات بلند فرماتا ہے ؟ تکلیف کے وقت پورا وضو کرنا ، مسجدوں کی طرف قدموں کے ساتھ کثرت سے چلنا اور نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ، یہ رباط ( جہاد کی تیاری) ہے ، یہ رباط ہے ، یہ رباط ہے ۔
سندہ صحیح

« 134- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 161/1 ح 385 ، ك 9 ب 18 ح 55) التمهيد 222/20 ، الاستذكار : 355
و أخرجه مسلم (251) من حديث مالك به»
------------------
135- مالكٌ عن العلاء بن عبد الرحمن عن أبيه وإسحاق بن عبد الله أنهما سمعا أبا هريرة يقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :( (إذا ثوب بالصلاة فلا تأتوها وأنتم تسعون ، وأتوها وعليكم السكينة ، فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا ، فإن أحدكم في صلاةٍ ما كان يعمد إلى الصلاة) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب نماز کے لئے اقامت کہی جائے تو تم دوڑتے ہوئے نہ آ ؤ اور سکون کے ساتھ آو پھر ( نماز میں سے ) جو پاؤ پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے تو اسے ( بعد میں) پورا کر لو کیونکہ جو شخص نماز کا قصد ( ارادہ ) کرتا ہے تو وہ نماز میں ہی ہوتا ہے ۔

سندہ صحیح

«135- الموطأ ( رواية يحيٰ بن يحيٰ 68/1 ، 69 ح 147 ، ك 3 ب 1 ح 4) التمهيد 229/20 ، الاستذكار : 125
و أخرجه أحمد ( 460/2 ، ح 9932) و البخاري في جزء القرأة ( تحقيقي : 183 ، 184) من حديث مالك به ورواه مسلم ( 602) من حديث العلاء عن أبيه عن ابي هريره به »
------------------
136- مالكٌ عن العلاء بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى أن ينبذ في الدباء والمزفت.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء (کدو کے برتن) اور مزفت ( روغنی مرتبان) میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے ۔
سندہ صحیح

«136- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 843/2 ، 844 ح 1637 ، ك 42 ب 2 ح 6) التمهيد 237/20 ، الاستذكار : 1565
و أخرجه أحمد (514/2 ، ح 10677) من حديث مالك به
من رواية يحي بن يحي و سقط من الأصل»
------------------
137- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (قال الله : من عمل عملاً أشرك فيه غيري فهو له كله ، وأنا أغنى الشركاء عن الشرك) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جس نے ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ غیر کو شریک کیا تو یہ سارا عمل اسی کے لئے ہے اور میں شریکوں کے شرک سے بے نیاز ہوں ۔
صحيح

«137- و أخرجه الجوهري (623) وابن حبان في كتاب الصلاة (اتحاف المهرة 271/15 ح 19292) من حديث ابن وهب عن مالك عن العلاء عن أبيه عن أبي هريرة به ورواه مسلم (2985) من حديث العلاء عن ابيه عن أبي هريرة به »
------------------
138- وبه : عن أبيه أنه قال : سألت أبا سعيد الخدري عن الإزار فقال : أنا أخبرك بعلمٍ ، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( (إزرة المؤمن إلى أنصاف ساقيه ، لا جناح عليه فيما بينه وبين الكعبين ، ما أسفل من ذلك ففي النار) ) ، قال ذلك ثلاث مراتٍ ( (لا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر إزاره بطراً) ) .

العلاءکے والد ( عبدالرحمٰن بن یعقوب) سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے ازار کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا : میں تجھے علم کے ساتھ بتاتا ہوں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : مومن کا ازار آدھی پنڈلیوں تک ہوتا ہے ، اس سے لے کر ٹخنوں تک کوئی حرج نہیں ہے ، اس سے جو نیچے ہوگا تو وہ آگ میں ہے آپ نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی : جو شخص تکبر سے اپنا ازار گھسیٹے گا تو قیامت کے دن اللہ اسے ( نظر رحمت سے ) نہیں دیکھے گا ۔

سندہ صحیح

«138- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 914/2 ، 915 ح 1764 ، ك 48 ب 5 ح 12) التمهيد 225/20 ، الاستذكار : 1696
و أخرجه ابن حبان (الاحسان : 5423) من حديث مالك به و أبوداود (4093) من حديث العلاء به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو السائب مولى هشام بن زهرة
حديثٌ واحدٌ

139- مالكٌ عن العلاء بن عبد الرحمن أنه سمع أبا السائب مولى هشام بن زهرة يقول : سمعت أبا هريرة يقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (من صلى صلاةً لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداجٌ ، فهي خداجٌ ، فهي خداجٌ غير تمامٍ. ) ) فقلت : يا أبا هريرة ، إني أحياناً أكون وراء الإمام ، قال : فغمز ذراعي ، ثم قال : اقرأ بها يا فارسي في نفسك ، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( (قال الله : قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ، فنصفها لي ونصفها لعبدي ، ولعبدي ما سأل) ) . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (يقول العبد”الحمد لله رب العالمين“ يقول الله : حمدني عبدي ، يقول العبد : ”الرحمن الرحيم“ يقول الله : أثنى علي عبدي ، يقول العبد : ”مالك يوم الدين“ يقول الله : مجدني عبدي ، يقول العبد : ”إياك نعبد وإياك نستعين“ فهذه بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل ، يقول العبد : ”أهدنا الصراط المستقيم. صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين“ فهؤلاء لعبدي ولعبدي ما سأل) ) .

قال أبو الحسن : في هذا الحديث اضطراب ألفاظ بين رواتنا فأثبته على نص الدباغ : إلا ( فهذه) فإنها على لفظ عيسى والنسخة عند الدباغ ( فهذا) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے ایسی نماز پڑھی جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی تو یہ نماز ناقص ہے ناقص ہے ، ناقص ہے مکمل نہیں ہے ۔ ( راوی نے کہا) میں نے کہا: اے ابوہریرہ ! میں بعض اوقات امام کے پیچهے ہوتا ہوں؟ تو انہوں( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) نے میرا ہاتھ جھٹکا پھر فرمایا : اے فارسی ! اسے اپنے دل میں پڑھ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ نے فرمایا : میں نے اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نماز آدھوں آدھ تقسیم کر دی ہے پس آدھی میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے اور بندہ جو مانگے گا اسے ملے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ «لْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ»کہتا ہے ( تو) اللہ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری حمد بیان کی ، بندہ «الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» کہتا ہے ( تو ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ثناء بیان کی بندہ «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ» کہتا ہے ( تو ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری تمجید ( بزرگی) بیان کی بندہ کہتا ہے :« إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ» تو یہ بندے کے لئے ہے اور بندہ جو مانگے گا اسے ملے گا ۔
بندہ کہتا ہے
«اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ » تو یہ بندے کے لئے ہے اور بندہ جو مانگے گا اسے ملے گا ۔
( اس کتاب کے جامع امام) ابوالحسن ( القابسی) نے کہا: اس حدیث کے الفاظ میں ہمارے ( موطأکے ) راویوں نے اضطراب کیا ہے لہٰذا میں نے ( ابوالحسن علی بن محمد بن مسرور) الدباغ کے الفاظ درج کئے ہیں ، سوائے اس کے کہ یہ عیسیٰ ( بن مسکین) کے لفظ پر ہے اور نسخہ الدباغ کے پاس تھا ، پس یہ بات ہے

سندہ صحیح

«139- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 84/1 ، 85 ح 185 ، ك 3 ب 9 ح 39) التمهيد 187/20 ، الاستذكار : 161
و أخرجه مسلم (395/39) من حديث مالك به »
------------------
معبدٌ بن كعبٍ
حديثٌ واحدٌ
140- مالكٌ عن العلاء بن عبد الرحمن عن معبد بن كعبٍ السلمي عن أخيه عبد الله بن كعب بن مالكٍ عن أبي أمامة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من اقتطع حق مسلمٍ بيمينه حرم الله عليه الجنة وأوجب له النار) ) . قالوا : وإن كان شيئاً يسيراً يا رسول الله؟ ! قال : ( (وإن كان قضيباً من أراكٍ) ) . قالها ثلاثاً.

كمل حديث العلاء وهو تسعة أحاديث.

سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اپنی ( جھوٹی) قسم کے ساتھ کسی مسلمان کا حق کاٹ( کر قبضہ کر) لے تو اللہ نے اس شخص پر جنت حرام اور ( دوزخ کی) آگ واجب کر دی ہے ۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! اگرچہ تھوڑی سی چیز ہو؟ آپ نے فرمایا : اگرچہ اراک ( مسوا ک والے درخت) کی ایک ٹہنی ہی ہو آپ نے یہ بات تین دفعہ فرمائی ۔
علاء
( بن عبدالرحمٰن ) کی ( بیان کردہ) حدیثیں مکمل ہو گئیں اور یہ نو ( 9 ) حدیثیں ہیں

سندہ صحیح

«140- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 727/2 ح 1473 ، ك 36 ب 8 ح 11) التمهيد 263/20 ، الاستذكار : 1396
و أخرجه أحمد (456/5 ح 24723) من حديث مالك ، ومسلم (137/218) ، (ترقيم دارالسلام : 353) من حديث العلاء به »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
باب الثاء
واحدٌ
ثور بن زيد الديلي
حديثٌ واحدٌ
141- مالكٌ عن ثور بن زيد الديلي عن أبي الغيث سالمٍ مولى ابن مطيعٍ عن أبي هريرة قال : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام خيبر فلم نغنم ذهباً ولا ورقاً إلا الأموال المتاع والثياب ، قال : فأهدى رجلٌ من بني الضبب يقال له : رفاعة بن زيد لرسول الله صلى الله عليه وسلم غلاماً أسود يقال له مدعمٌ ، فوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى وادي القرى ، حتى إذا كنا بوادي القرى بينما مدعمٌ يحط رحل رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاءه سهمٌ عائرٌ فأصابه فقتله ، فقال الناس : هنيئاً له الجنة ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( (كلا والذي نفسي بيده إن الشملة التي أخذ يوم خيبر من المغانم لم تصبها المقاسم لتشتعل عليه ناراً) ) . فلما سمع الناس ذلك جاء رجلٌ بشراكٍ أو شراكين على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (شراكٌ أو شراكان من نارٍ)) .
تم الجزء الأول بعون الله وتأيده.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر والے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( جہاد کے لئے ) نکلے تو ہمیں مال غنیمت میں اموال ( زمینیں) ، اسباب اور کپڑوں کے سوا نہ سونا ملا اور نہ چاندی بنوضبب ( قبیلے ) کے ایک آدمی رفاعہ بن زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے میں ایک کالا غلام دیا جسے مدعم کہتے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وادی قریٰ کی طرف بھیجا جب ہم وادی قریٰ میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے مدعم کجاوہ اتار رہا تھا اتنے میں ایک بے نشان تیر آیا تو اسے آلگا اور وہ فوت ہوگیا لوگوں نے کہا: اسے جنت مبارک ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہرگز نہیں ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس نے خیبر والے دن مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے جو چادر ( چوری کرکے ) چھپائی ہے وہ آگ بن کر اسے لپٹی ہوئی ہے جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک آدمی ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک تسمہ یا دو تسمے آگ میں سے ہیں ۔
اللہ کی مدد اور تائید سے جزء اول مکمل ہوا

سندہ صحیح
متفق عليه
« 141- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 459/2 ح 1012 ، ك 21 ب 13 ح 25 وعنده : سهم عائر) التمهيد 3/2 ، الاستذكار : 949
و أخرجه البخاري (6707) و مسلم (115) من حديث مالك به
»
------------------
باب الجيم
واحدٌ
جعفر بن محمد بن علي بن الحسين
خمسة أحاديث

142- مالكٌ عن جعفر بن محمد بن علي عن أبيه عن جابر بن عبد الله أنه قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم رمل من الحجر الأسود حتى انتهى إليه ثلاثة أطوافٍ.

سیدنا جابر بن عبداللہ ( الانصاری رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ نے حجر اسود سے رمل کیا( دوڑتے ہوئے چلے ) حتیٰ کہ اس تک پہنچے آپ نے اس طرح تین چکر لگائے

سندہ صحیح

«142- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 364/1 ح 827 ، ك 20 ب 34 ح 107 ) التمهيد 68/2 ، الاستذكار : 775
و أخرجه مسلم (1263/235) من حديث مالك به
»
------------------
143- وبه أنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرج من المسجد وهو يريد الصفا وهو يقول : ( (نبدأ بما بدأ الله به) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد ( بیت اللہ الحرام)سے صفا جانے کے ارادے سے نکلے تو میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ہم وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے اللہ نے شروع کیا ہے

سندہ صحیح

«143- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 372/1 ح 846 ، ك 20 ب 41 ح 126 ) التمهيد 79/2 ، الاستذكار : 794
و أخرجه النسائي (239/5 ح 2972) من حديث ابن القاسم عن مالك به ورواه مسلم (1218) من حديث جعفر بن محمد به بلفظ آخر
»
------------------
144- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا وقف على الصفا يكبر ثلاثاً ويقول : ( (لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيءٍ قديرٌ) ) .
يصنع ذلك ثلاث مراتٍ ويدعو ، ويصنع على المروة مثل ذلك.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صفا پر کھڑے ہوتے تو تین دفعہ تکبیر ( اللہ اکبر) کہتے اور فرماتے : «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ. لَا شَرِيكَ لَهُ. لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ. » ایک اللہ کے سوا کوئی الہٰ ( معبود برحق) نہیں ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کی حمد و ثنا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے آپ یہ عمل تین دفعہ کرتے اور دعا فرماتے آپ مروہ ( کی پہاڑی) پر بھی اسی طرح کرتے تھے ۔

سندہ صحیح

«144- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 372/1 ح 847 ، ك 20 ب 41 ح 127) التمهيد 91/2 ، الاستذكار : 795
و أخرجه النسائي (240/5 ح 2975) من حديث ابن القاسم عن مالك به ورواه مسلم (1218) من حديث جعفر بن محمد به
»
------------------
145- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نحر بعض هديه بيده ونحر غيره بعضه.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قربانی کے جانوروں میں سے بعض خود اپنے ہاتھ سے ذبح کئے اور آپ کے بعض جانور دوسروں نے ذبح کئے

سندہ صحیح

«145- الموطأ (رواية ابی مصعب الزھری 534/1 ح 1381)
و أخرجه النسائي (231/7 ح 4424) من حدیث مالك به وجاء في رواية يحي بن يحي (394/1 ح 909) ” مالك عن جعفر عن ابيه عن علي بن ابي طالب“ وهو غلط ، انظر التمهيد (106/2) و الاستذكار : 849
»
------------------
146- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا نزل من الصفا مشى حتى إذا انصبت قدماه في بطن الوادي سعى حتى يخرج منه.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صفا ( کی پہاڑی) سے اترتے تو چلتے حتیٰ کہ جب آپ وادی کے درمیان پہنچتے تو دوڑتے یہاں تک کہ اس سے نکل جاتے ۔

سندہ صحیح

«146- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 374/1 ، 375 ح 851 ، ك 20 ب 42 ح 131 ) التمهيد 93/2 ، الاستذكار : 799
و أخرجه النسائي (243/5 ح 2984) من حديث عبدالرحمٰن بن القاسم عن مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
باب الحاء
اثنان
حميدٌ الطويل عن أنسٍ
ستة أحاديث لهما سبعة أحاديث
147- قال مالكٌ : حدثني حميد الطويل عن أنس بن مالك قال : سافرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان فلم يعب الصائم على المفطر ، ولا المفطر على الصائم.

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا تو ہم میں سے روزہ رکھنے والا روزہ نہ رکھنے والے کو برا نہیں سمجھتا تھا اور روزہ نہ رکھنے والا روزہ رکھنے والے پر کوئی عیب نہیں لگاتا تھا

صحيح
«147- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 295/1 ح 661 ، ك 18 ب 7 ح 23 ) التمهيد 169/2 ، وقال : ” هذا حديث متصل صحيح“ الاستذكار : 611
و أخرجه البخاري (1947) من حديث مالك به ورواه مسلم (118/99) من حديث حميد الطويل به صرح بالسماع عنده »
------------------
148- وبه قال : خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان فقال : ( (إني أريت هذه الليلة حتى تلاحى رجلان فرفعت ، فالتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا : مجھے آج رات ( لیلتہ القدر) دکھائی گئی تھی حتیٰ کہ دو آدمی جھگڑ پڑے تو اسے اٹھا لیا گیا لہٰذا اسے نویں ، ساتویں اور پانچویں ( راتوں)میں تلاش کرو

صحيح
« 148- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 320/1 ح 713 ، ك 19 ب 6 ح 13) التمهيد 200/2 ، الاستذكار : 662
و أخرجه النسائي في السنن الكبريٰ (3396) من حديث مالك به ورواه البخاري (2023) من حديث حميد الطويل حدثني أنس عن عبادة بن الصامت به و سنده صحيح »
------------------
149- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرج إلى خيبر أتاها ليلاً وكان إذا أتى قوماً بليلٍ لم يغر حتى يصبح. فأصبح ، فخرجت يهود بمساحيهم ومكاتلهم ، فلما رأوه قالوا : محمدٌ والله محمدٌ والخميس. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (الله أكبر ، خربت خيبر ، إنا إذا نزلنا بساحة قومٍ فساء صباح المنذرين) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر ( فتح کرنے ) کے لئے ( مدینے سے ) نکلے تو وہاں رات کے وقت داخل ہوئے ، آپ جب کسی ( اسلام دشمن) قوم پر حملہ کرنا چاہتے تو صبح سے پہلے حملہ نہیں کرتے تھے پھر جب صبح ہوئی تو یہودی اپنی کدالیں اور ٹوکریاں لے کر نکلے جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ، اللہ کی قسم ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ( ان کا ) لشکر ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ اکبر ، خراب ہواخیبر ، جب ہم کسی قوم کے پاس پہنچتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جنہیں ( جہنم اور عذاب سے ) ڈرایا گیا ہے ۔

صحيح
«149- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 468/2 ، 469 ح 1035 ، ك 21 ب 19 ح 48 ، وعنده : لم يُفِرْ ) التمهيد 215/2 ، الاستذكار : 972
و أخرجه البخاري (2945) من حديث مالك به وصرح حميد الطويل بالسماع عند البخاري (2943) »
------------------
150- وبه : أن عبد الرحمن بن عوف جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وبه أثر صفرةٍ ، فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره أنه تزوج امرأةً من الأنصار ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (كم سقت إليها؟) ) فقال : زنة نواةٍ من ذهبٍ ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (أولم ولو بشاةٍ) ) .

اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان پر زردی کا نشان تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ( یہ کیا ہے ؟) انہوں ( عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ) نے بتایا کہ انہوں نے انصار کی ایک عورت سے شادی کر لی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے اسے ( حق مہر میں) کیا دیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : کھجور کی ایک گٹھلی کے برابر سونا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو ۔

صحيح
«150- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 545/2 ح 1184 ، ك 28 ب 21 ح 47) التمهيد 178/2 ، الاستذكار : 1104
و أخرجه البخاري (5153) من حديث مالك به ورواه مسلم (1427/81) من حديث حميد الطويل به وصرح حميد بالسماع عند البخاري(5072) »
------------------
151- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى تزهي. فقيل له : يا رسول الله وما تزهي؟ قال ( (حين تحمر) ) . وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أرأيت إذا منع الله الثمرة فبم يأخذ أحدكم مال أخيه؟.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ن پھلوں کے پکنے سے پہلے انھیں بیچنے سے منع فرمایاہے پوچھا گیا : یارسول اللہ ! پکنے سے کیا مراد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سرخ ہو جانا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بھلابتاؤ اگر اللہ پھل روک لے تو پھر تم کس وجہ سے اپنے بھائی کا مال لو گے ؟

صحیح
متفق عليه
«151- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 618/2 ح 1341 ، ك 31 ب 8 ح 11) التمهيد 190/2 ، الاستذكار : 1261
و أخرجه البخاري (1488 ، 2198) ومسلم (1555/15) من حديث مالك به وصرح حميد بالسماع عند البخاري (2197) »
------------------
152- وبه أنه قال : حجم رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو طيبة ، فأمر له رسول الله صلى الله عليه وسلم بصاعٍ من تمرٍ ، وأمر أهله أن يخففوا عنه من خراجه.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ ابوطیبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنے لگائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے ( مزدوری میں) کھجوروں کا ایک صاع دیا جائے اور آپ نے اس کے مالکوں کو حکم دیا کہ وہ اس پر خرج ( مقررکردہ رقم) میں کمی کر دیں

صحيح
« 152- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 974/2 ح 1887 ، ك 54 ب 10 ح 26 نحو المعنیٰ ) التمهيد 224/2 ، الاستذكار : 1823
و أخرجه البخاري (2102 ، 2110) من حديث مالك ، ومسلم (1577) من حديث حمید الطّویل بہ وصرح حميد بالسماع عند مسلم(1577/64) »
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حميد بن قيسٍ المكي
حديثٌ واحدٌ
153- مالكٌ عن حميد بن قيسٍ المكي عن مجاهدٍ أنه قال : كنت مع عبد الله بن عمر فجاءه صائغٌ فقال له : يا أبا عبد الرحمن ، إني أصوغ الذهب ثم أبيع الشيء من ذلك بأكثر من وزنه فأستفضل في ذلك قدر عمل يدي ، فنهاه عبد الله بن عمر عن ذلك ، فجعل الصائغ يردد عليه المسألة وعبد الله ينهاه حتى انتهى إلى باب المسجد أو إلى دابته يريد أن يركبها ، ثم قال عبد الله بن عمر : الدينار بالدينار والدرهم بالدرهم لا فضل بينهما ، هذا عهد نبينا إلينا وعهدنا إليكم.

مجاہد ( بن جبر رحمہ اللہ تا بعی) سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر کے ساتھ تھا کہ ایک زرگر آیا اور ان سے پوچھا اے ابوعبدرالرحمن ! میں سونا ڈھال کر زیور بناتا ہوں پھر اسے اس کے وزن سے زیادہ قیمت پر بیچتا ہوں ، میں اپنے کام کے بدلے یہ اضافہ لیتا ہوں؟ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس سے منع کیا زرگر بار بار دہراتا تھا اور عبداللہ رضی اللہ عنہ اسے منع کرتے تھے حتیٰ کہ آپ مسجد کے دروازے یا اپنی سواری کے پاس پہنچ گئے اور اس پر سوار ہونے کا ارادہ کیا پھر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دینا ر دینار کے بدلے اور درہم درہم کے بدلے میں ہے ، ان دونوں کے درمیان کوئی زیادتی نہیں ہے ہمارے نبی کی ہمیں یہی وصیت ہے اور ہم تمہیں یہی وصیت کرتے ہیں

سندہ صحیح

«153- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 633/2 ح 1362 ، ك 31 ب 16 ح 31 ) التمهيد 242/2 ، الاستذكار : 1282
و أخرجه الامام الشافعی في الرسالة (ص 277 ح 760) من حديث مالك به مختصراً وللحديث لون آخر مختصر عند النسائي (278/7 ح 4572) ! »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
باب الخاء
واحدٌ
خبيب بن عبد الرحمن
له حديثان
154- مالكٌ عن خبيب بن عبد الرحمن عن حفص بن عاصمٍ عن أبي هريرة أو عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (ما بين بيتي ومنبري روضةٌ من رياض الجنة ، ومنبري على حوضي) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے گھراور میرے منبر کے درمیان ( کی زمین) جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے

صحيح
«154- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 197/1 ح 464 ، ك 14 ب 5 ح 10 ) التمهيد 285/2 ، الاستذكار : 433
و أخرجه أحمد (465/2 ، 533) من حديث مالك به نحوه ورواه البخاري (7335) من حديث مالك به عن ابي هريرة رضي الله عنه فقط بدون شك »
------------------
155- وبه : عن حفص بن عاصمٍ عن أبي سعيدٍ الخدري أو عن أبي هريرة أنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (سبعةٌ يظلهم الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله : إمامٌ عادلٌ ، وشابٌ نشأ في عبادة الله ، ورجلٌ قلبه معلقُ بالمسجد إذا خرج منه حتى يعود إليه ، ورجلان تحابا في الله اجتمعا على ذلك وتفرقا ، ورجلٌ ذكر الله خالياً ففاضت عيناه ، ورجلٌ دعته ذات حسبٍ وجمالٍ فقال : إني أخاف الله رب العالمين ، ورجلٌ تصدق بصدقةٍ فأخفاها حتى لا تعلم شماله ما تنفق يمينه) ) .

اسی سند کے ساتھ ابوسعید الخدری یا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سات لوگوں کو اللہ اپنے ( عرش کے ) سائے میں رکھے گا جس دن اُس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا : عادل حکمران ، وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پلا ( جوان ہوا) ہو ، وہ آدمی جس کا دل مسجد سے نکلنے کے بعد واپس آنے تک مسجد میں اٹکا رہتا ہے ، دو آدمی جو ایک دوسرے سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں اسی پر جمع ہوتے ہیں ااور اسی پر جدا ہوتے ہیں ، وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، وہ آدمی جسے حسب نسب والی ایک خوبصورت عورت نے ( گناہ کی) دعوت دی تو اس نے کہا: میں اللہ رب العلمین سے ڈرتا ہوں ، اور وہ آدمی جو صدقہ کرے تواسے اتنا خفیہ رکھے کہ ( گویا) اس کے بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے کہ اس کو دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے

صحيح
«155- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ952/2 ، 953 ح 1841 ، ك 51 ب 5 ح 14) التمهيد 279/2 ، الاستذكار : 1777
و أخرجه مسلم (1031) من حديث مالك به ، والبخاري (6806) من حديث خبيب بن عبدالرحمٰن الانصاري عن حفص بن هاشم به »
------------------
باب الدال
واحدٌ
داود بن الحصين
له ثلاثة أحاديث
156- مالكٌ عن داود بن الحصين عن أبي سفيان مولى ابن أبي أحمد قال : سمعت أبا هريرة يقول : صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم العصر فسلم في ركعتين ، فقام ذو اليدين فقال : أقصرت الصلاة يا رسول الله أم نسيت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كل ذلك لم يكن. فقال : قد كان بعض ذلك يا رسول الله. فأقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس فقال : ( (أصدق ذو اليدين؟)) فقالوا : نعم. فأتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بقي من الصلاة ثم سجد سجدتين وهو جالسٌ بعد السلام..

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی تو دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا پھر زوالیدین رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آ پ بھول گئے ہیں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( میرے خیال کے مطابق ) ان دونوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہوئی ۔ زوالیدین نے کہا: یا رسول اللہ ! ان دونوں میں سے ایک بات ضرور ہوئی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف رُ خ کر کے پوچھا: کیا زوالیدین نے سچ کہا: ہے ؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی رہ جانے والی نماز پوری کی پھر سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے

سندہ صحیح

15 «6- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 94/1 ح 207 ، ك 3 ب 15 ح 59 ) التمهيد 311/2 ، الاستذكار : 179 , 182
و أخرجه مسلم (1573/99) من حديث مالك به
من رواية يحيٰ بن يحيٰ وجاء في الأصل : حميد »
------------------
157- وبه : عن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أرخص في بيع العرايا بخرصها فيما دون خمسة أوسقٍ ؛ أو في خمسة أوسقٍ شك داود في خمسةٍ أو دون خمسةٍ.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عَریہّ والے کو درختوں پر لگی ہوئی کھجوروں یا انگوروں کو اندازے سے ( اُکّا) بیچنے کی اجازت دی بشرطیکہ یہ پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم ہوں ، پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم میں داود ( بن الحصین راوی) کو شک ہے

سندہ صحیح
متفق عليه
«157- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 620/2 ح 1345 ، ك 31 ب 9ح 14/2 ) التمهيد 323/2 ، الاستذكار : 1267
و أخرجه البخاري (2190) ومسلم (541/71) من حديث مالك به

------------------
158- وبه : عن أبي سفيان عن أبي سعيدٍ الخدري : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة والمحاقلة.»
والمزابنة : اشتراء الثمر بالتمر في رؤوس النخل ، والمحاقلة : كراء الأرض بالحنطة.

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( دو سَودوں) مزابنہ اور محقلہ سے منع فرمایاہے مزابنہ یہ ہے کہ درختوں پر تازہ کھجوروں کو چھو ہاروں کے بدلے خریدا جائے اور محاقلہ ( مقر) گندم کے بدلے میںزمیں کو کرائے پر دینے کو کہتے ہیں

سندہ صحیح
متفق عليه
« 158- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 625/2 ح 1355 ، ك 31 ب 13 ح 24 ) التمهيد 313/2 ، الاستذكار : 1275
و أخرجه البخاري (2186) ومسلم (1546/105) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
باب الراء
واحدٌ
ربيعة بن أبي عبد الرحمن
له خمسة أحاديث له عن أنسحديثٌ واحدٌ

159- مالكٌ عن ربيعة بن أبي عبد الرحمن عن أنس بن مالكٍ أنه سمعه يقول : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس بالطويل البائن ولا بالقصير ، وليس بالأبيض الأمهق وليس بالآدم ، وليس بالجعد القطط ولا بالسبط بعثه الله على رأس أربعين سنةً ، فأقام بمكة عشر سنين وبالمدينة عشر سنين ، وتوفاه الله على رأس ستين سنةً ، وليس في رأسه ولحيته عشرون شعرةً بيضاء صلى الله عليه وسلم.
قال مالكٌ : الأمهق : الأبيض. قال أبو الحسن : يريد الشديد البياض.

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے قد کے تھے ، آپ نہ بالکل سیدھے تھے ، چالیس سال کی عمر میں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث فرمایا ( نبی بنایا) آپ مکہ میں دس ( اور تین) سال رہے اور مدینہ میں دس سال رہے اللہ نے آپ کو ساٹھ ( اور تین) سال کی عمر میں وفات دی آ پکے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے
مالک نے کہا: «الا مہق» سفید کو کہتے ہیں ۔
ابوالحسن ( القابسی) نے کہا: اس سے مراد بہت زیادہ سفید ہونا ہے

سندہ صحیح
متفق عليه

«159- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 919/2 ح 1772 ، ك 49 ب 1 ح 1 ) التمهيد 7/3 ، الاستذكار : 1704
و أخرجه البخاري (3548) ومسلم (2347) من حديث مالك به»
------------------
القاسم بن محمدٍ
حديثٌ واحدٌ
160- مالكٌ عن ربيعة عن القاسم بن محمدٍ عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت : كان في بريرة ثلاث سننٍ ، فكانت إحدى السنن الثلاث أنها أعتقت فخيرت في زوجها. وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (الولاء لمن أعتق) ) ، ودخل رسول الله صلى الله عليه وسلم والبرمة تفور بلحمٍ فقرب إليه خبزٌ وأدمٌ من أدم البيت ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (ألم أر برمة فيها لحمٌ؟)) فقالوا : بلى يا رسول الله ، ولكن ذلك لحمٌ تصدق به على بريرة ، وأنت لا تأكل الصدقة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (وهو عليها صدقةٌ وهو لنا هديةٌ) ) .

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : بریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں تین سنتیں ہیں ( ۱) ان تین میں سے ایک سنت یہ ہے کہ جب وہ آ زاد کی گئیں تو انھیں اپنے خاوند کے بارے میں اختیار دیا گیا ( جو کہ غلام تھے ) ( ۲) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رشتہَ ولاءاسی کا ہے جوآ زاد کرے ( ۳) اور ( ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( گھر میں ) ہانڈی گوشت کے ساتھ ابل رہی تھی جب آپ کی خدمت میں روٹی اور گھر کا سالن پیش کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں نے وہ ہانڈی نہیں دیکھی تھی جس میں گوشت تھا؟ (گھر والوں نے ) کہا: جی ہاں یا رسول اللہ ! لیکن یہ وہ گوشت ہے جو بریرہ کو صدقے میں دیا گیا ہے اور آپ صدقہ نہیں کھاتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ اس ( بریرہ ) کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ ہے

سندہ صحیح
متفق عليه

«160- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 562/2 ح 1223 ، ك 29 ب 10 ح 25 ) التمهيد 48/3 ، الاستذكار : 1143
و أخرجه البخاري (5279) ومسلم (1504/14) من حديث مالك به»
------------------
محمد بن يحيى بن حبان الأنصاري
حديثٌ واحدٌ
161- قال مالكٌ : حدثني ربيعة عن محمد بن يحيى بن حبان عن ابن محيريز أنه قال : دخلت المسجد فرأيت أبا سعيد الخدري فجلست إليه فسألته عن العزل ، فقال أبو سعيدٍ الخدري : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة بني المصطلق ، فأصبنا سبياً من سبي العرب ، فاشتهينا النساء واشتدت علينا العزبة وأحببنا الفداء ، فأردنا أن نعزل ، فقلنا : نعزل ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين أظهرنا قبل أن نسأله عن ذلك؟. فسألناه عن ذلك فقال : ( (ما عليكم أن لا تفعلوا ، ما من نسمةٍ كائنةً إلى يوم القيامة إلا وهي كائنةٌ) ) .

ابن محیریز ( تابعی) سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو سیدنا اب سعید الخدری رضی اللہ عنہ کو دیکھا پھر میں ان پاس بیٹھ گیا اور عزل کے بارے میں پوچھا: تو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم غزوہَ نبی المصطق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( جہاد کے لئے ) نکلے تو وہاں عرب ( کے کافروں) کی عورتیں ہماری لونڈیاں بنیں ، ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور عورتوں کے بغیر رہنا ہمیں سخت گراں گزرا اور ہم ( ان عورتوں کو بیچ کر) فدیہ بھی چاہتے تھے پس ہم نے عزل کرنے کا ارادہ کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں ، کیا ہم ان سے پوچھنے سے پہلے عزل کر سکتے ہیں؟ پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو آپ نے فرمایا : تم پر عزل نہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ، قیامت تک جس روح نے پیدا ہونا ہے وہ پیدا ہو کر رہے گی

سندہ صحیح

« 161- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 594/2 ح 1300 ، ك 29 ب 34 ح 95 ) التمهيد 130/3 ، 131 ، الاستذكار : 1218
و أخرجه البخاري (2542) ومسلم (1438/125) من حديث ربيعه بن أبى عبدالرحمن به »
------------------
حنظلة بن قيسٍ الزرقي
حديثٌ واحدٌ
162- مالكٌ عن ربيعة بن أبي عبد الرحمن عن حنظلة بن قيسٍ الزرقي أنه سأل رافع بن خديجٍ عن كراء الأرض ، فقال رافعٌ : نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عنها ، قال : فقلت : بالذهب والورق؟ فقال رافعٌ : أما بالذهب والورق فلا بأس به.

حنظہ بن قیس الزرقی ( رحمہ اللہ ) نے سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کے کرائے کے بارے میں پوچھا تو رافع نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے انہوں نے پوچھا: سونے اور چاندی کے بدلے ؟ تو رافع رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سونے اور چاندی کے بدلے میں کوئی حرج نہیں ہے

سندہ صحیح

«162- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 711/2 ح 1452 ، ك 34 ب 1 ح 1 ) التمهيد 32/3 ، الاستذكار : 1375
و أخرجه مسلم (1574/115 بعد 1548) من حديث مالك مثله و رواه البخاري (2346 ، 2347) من حديث ربيعة به»
------------------
يزيد مولى المنبعث
حديثٌ واحدٌ
163- مالكٌ عن ربيعة عن يزيد مولى المنبعث عن زيد بن خالدٍ الجهني أنه قال : جاء رجلٌ إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسأله عن اللقطة ، فقال : ( (اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنةً ، فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها) ) . قال : فضالة الغنم؟ قال : لك أو لأخيك أو للذئب. قال : فضالة الإبل؟ قال : ( (ما لك ولها ، معها سقاؤها وحذاؤها ، ترد الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها) ) .

سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آ دمی آیا اور لقطے ( گمشدہ چیز) کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : اس کی تھیلی وغیرہ اور اس کے بندھے ہوئے دھاگے کو ( اچھی طرح) پہچان لو پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرو پھر جب اس کا مالک آ جائے تو دے دو ورنہ اسے خود استعمال کر لو ۔ اس نے پوچھا: اگر گمشدہ بکری مل جائے تو؟ آپ نے فرمایا : وہ تیرے لئے اور تیرے بھائی کے لئے ہے یا پھر اسے بھیڑیا کھا جائے گا اس نے پوچھا: اگر گمشدہ اونٹ مل جائے تو؟ آپ نے فرمایا : اس کے بارے میں تجھے کیا ہے ؟ اس کا پانی اور چلنے والے جوتے اس کے پاس ہیں ، وہ پانی پئے گا اور درختوں سے کھائے گا حتیٰ کہ اس کا مالک اسے مل جائے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
« 163- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 757/2 ح 1520 ، ك 36 ب 38 ح 46 ) التمهيد 106/3 ، 107 ، الاستذكار : 1449
و أخرجه البخاري (2429) ومسلم (1722) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
باب الزاي
ثلاثةٌ لجميعهم أربعةٌ وعشرون حديثاً
حديث زيد بن أسلم
عن عبد الله بن عمر حديثان
164- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن عبد الله بن عمر قال : قدم رجلان من المشرق فخطبا فعجب الناس لبيانهما ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إن من البيان لسحراً ، أو إن من بعض البيان لسحراً) ) .

سیدنا عبدللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روائت ہے کہ مشرق کی طرف سے دو آ دمی آئے تو انہوں نے خطبہ دیا لوگوں کو ان کے بیان پر تعجب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بعض بیان ( خطبے و تقاریر ) جادو ہوتا ہے

سندہ صحیح

«164- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 986/2 ح 1916 ، ك 56 ب 3 ح 7 وعنده : لسحرٌ ) التمهيد 169/5 ، الاستذكار : 1852
و أخرجه البخاري (5767) من حديث مالك به »
------------------
165- وعن نافعٍ وعبد الله بن دينارٍ وزيد بن أسلم ، كلهم يخبره عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر ثوبه بطراً) ) .

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ قیامت کے دن اس شخص کو ( نظرِ رحمت سے )نہیں دیکھے گا جو اپنا کپڑا تکبر سے گھسیٹ کے چلتا ہے

سندہ صحیح
متفق عليه
«165- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 914/2 ح 1763 ، ك 48 ب 5 ح 11 ، نحوالمعني ) التمهيد 244/3 ، الاستذكار : 1695
و أخرجه البخاري (5783 ، 5791) ومسلم (2085/42) من حديث مالك به »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
جابر بن عبد الله
حديثٌ واحدٌ
166- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن جابر بن عبد الله السلمي أنه قال : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة بني أنمار قال جابرٌ : فبينا أنا نازلٌ تحت شجرةٍ إذا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : فقلت : يا رسول الله ، هلم إلى الظل ، قال : فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال جابرٌ : فقمت إلى غرارة لنا فالتمست فيها فوجدت فيها جرو قثاءٍ ، فكسرته ثم قربته إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : ( (من أين لكم هذا؟) ) قال : فقلت : خرجنا به يا رسول الله من المدينة.

قال جابرٌ : وعندنا صاحبٌ لنا نجهزه يذهب يرعى ظهرنا قال : فجهزته ثم أدبر يذهب في الظهر وعليه بردان له قد خلقا ، قال : فنظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( (أما له ثوبان غير هذين؟) ) قال : فقلت : بلى يا رسول الله ، له ثوبان في العيبة كسوته إياهما ، قال : ( (فادعه فمره يلبسهما ) ) ؛ قال : فدعوته فلبسهما ثم ولى يذهب ، قال : فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (ما له ، ضرب الله عنقه ، أليس هذا خيراً له؟) ) قال : فسمعه الرجل فقال : يا رسول الله في سبيل الله. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (في سبيل الله)) . قال : فقتل الرجل في سبيل الله.

سیدنا جابر بن عبدللہ السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ بنی انمار ( غزوۂ غطفان ) میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے پھر ( ایک دفعہ) میں ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے تو میں نے کہا: یا رسول اللہ ! سائے میں تشریف لے آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اترے جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر میں نے اپنے تھیلے کو اُ ٹھایا اور اس میں تلاش کیا تو مجھے ایک ککڑی ملی جسے توڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت پیش کیا آ پ نے پوچھا: یہ تمہارے پاس کہاں سے آئی ہے ؟ میں نے کہا: یا رسول اللہ ! مدینے سے لے کر آیا ہوں جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہمارا ایک ساتھی تھا جس کا زادِ سفر ہم نے تیار کیا تھا اور وہ ہمارے سواری کے جانور چراتا تھا میں نے اس کا زادِ سفر تیا ر کیا پھر وہ پیٹھ پھیر کر جانور چرانے کے لئے چلا اور اس پر دو پرانی پھٹی ہوئی چادریں تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو پوچھا: کیا اس کے پاس ان دو چادروں کے سوا کوئی کپڑے نہیں ہیں؟ میں نے کہا: یا رسول اللہ ! کیوں نہیں ، میں نے اسے دو کپڑے دئیے ہیں جو گٹھڑی میں بندھے ہوئے ہیں آ پ نے فرمایا : اسے بلاؤ اور حکم دو کہ وہ انھیں پہن لے میں نے اسے بلایا تو اس نے وہ دو کپڑے پہن لئے پھر جب وہ جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے کیا ہے ، اللہ اس کی گردن مارے ، کیا یہ اس کے لئے بہتر نہیں تھا ؟ تو اس آ دمی نے یہ سن کر کہا: یا رسول اللہ ! اللہ کے راستے میں ( اس کی گردن ماری جائے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے راستے میں پھر وہ آ دمی اللہ کے راستے میں شہید ہوگیا

صحيح
«166- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 910/2 ، 911 ح 1753 ، ك 48 ب 1 ح 1 ) التمهيد 251/3 ، 252 ، الاستذكار : 1685
و أخرجه ابن حبان (الاحسان 5418/5394) من حديث مالك به ورواه البزار (كشف الاستار : 2962) والحاكم (183/4 ح 7369) من حديث هشام بن سعد عن زيد بن اسلم عن عطاء بن يسار عن جابر بن عبدالله به وسنده حسن و صححه الحاكم عليٰ شرط مسلم»
------------------
166moatta.jpg

 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أسلم مولى عمر بن الخطاب
حديثان
167- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسير في بعض أسفاره ، وعمر بن الخطاب يسير معه ليلا فسأله عمر بن الخطاب عن شيءٍ فلم يجبه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ثم سأله فلم يجبه ، ثم سأله فلم يجبه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال عمر بن الخطاب : ثكلتك أمك عمر ، نزرت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مراتٍ ، كل ذلك لا يجيبك ، قال : قال عمر فحركت بعيري حتى تقدمت أمام الناس وخشيت أن ينزل في قرآنٌ ، فما نشبت أن سمعت صارخاً يصرخ ، فقلت : لقد خشيت أن يكون نزل في قرآنٌ ، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه ، فقال : ( (لقد أنزلت علي الليلة سورةٌ لهي أحب إلي مما طلعت عليه الشمس) ) ، ثم قرأ : ”إنا فتحنا لك فتحاً مبيناً“.
قال أبو الحسن : قوله : قال : ( (فحركت بعيري) ) إلى آخره ، يبين أن أسلم عن عمر رواه.

اسلم (تابعی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی سفر میں جا رہے تھے اور سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی رات کے وقت آپ کے ساتھ سفر کر رہے تھے پھر عمر بن خطاب نے آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا پھر ( دوبارہ) پوچھا تو آپ نے جواب نہیں دیاپھر ( سہ بار) پوچھا: تو آپ نے کوئی جواب نہیں دیا عمر بن خطاب نے ( اپنے آپ سے ) کہا: اے عمر ! تجھے تیری ماں گم پائے ، تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین دفعہ اصرار کر کے سوالات کئے اور ہر دفعہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اپنے اونٹ کو حرکت دی حتیٰ کہ میں لوگوں کے سامنے پہنچ گیا اور مجھے ڈر لگا کے میرے بارے میں قرآن نازل ہو جائے گا تھوڑی ہی دیر بعد میں نے ایک آواز دینے والے کی اونچی آواز سنی تو میں نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ میرے بارے میں قر آن نازل ہو گیا ہے پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ کو سلام کیا آپ نے فرمایا : آ ج رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے ہر اس چیز سے زیادہ پیاری جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے ، پھر آپ نے ، «إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا»ہم نے آ پ کوفتح مبین عطا فرمائی ( سورة فتح) کی تلا وت فرمائی .
ابوالحسن ( القابسی) نے کہا: راوی کا قول ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے اونٹ کو حرکت دی ...الخ یہ واضح کر تا ہے کہ اس روایت کو اسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے

صحيح
« 167- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 203/1, 204 ح 478 ، ك 15 ب 4 ح 9 ) التمهيد 263/3 ، الاستذكار : 447
و أخرجه البخاري (4177) من حديث مالك به »
------------------
168- وبه : أنه قال : سمعت عمر بن الخطاب يقول : حملت على فرسٍ في سبيل الله فأضاعه الذي كان عنده ، فأردت أن أبتاعه منه وظننت أنه بائعه برخصٍ فسألت عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( (لا تشتره وإن أعطاكه بدرهمٍ ، فإن العائد في صدقته كالكلب يعود في قيئه) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( اسلم ) سے روایت ہے کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے اللہ کے راستے میں ایک گھوڑا صدقہ کیا تو جس کے پاس یہ گھوڑا تھا اس نے ( کمزور کرکے ) ضائع کر دیا پھر میں نے یہ ارادہ کیا کہ اسے اس سے خرید لوں کیونکہ میرا یہ خیال تھا کہ وہ اسے سستا بیچے گا پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو آپ نے فرمایا : اسے نہ خریدو اگرچہ وہ تمھیں ایک درہم کا ہی کیو ں نہ دے ، کیونکہ اپنا صدقہ واپس لینے والا کتے کی مانند ہے جو اپنی قے ( اُلٹی) کو چاٹ لیتا ہے

سندہ صحیح
متفق عليه
«168- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 282/1 ح 629 ، ك 17 ب 26 ح 49) التمهيد 257/3 ، الاستذكار : 580
و أخرجه البخاري (1490) ومسلم (1620) من حديث مالك به»
------------------
 
Top