• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وفات کے بعد دعوتوں کے اہتمام:
سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وفات کے بعد دعوتوں کے اہتمام کی وصیت کرنا بدعت اور عمل جاہلیت ہے۔ اگر وصیت نہ کی گئی ہو تو اہل میت کا از خود اس قسم کی دعوتوں کا انتظام کرنا بھی جائز نہیں ہے‘‘
سیّدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم دفن کے بعد اہل میت کے ہاں جمع ہونے اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ شمار کرتے تھے۔
(ابن ماجہ ۲۱۶۱.)
پھر یہ بات حکم شریعت کے خلاف بھی ہے کیونکہ شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ اہل میت کے لیے کھانا تیار کرکے ان کی دل جوئی کی جائے اس لیے کہ وہ مصیبت کی وجہ سے مشغول ہیں۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب جعفر بن ابی طالب کے غزوہ موتہ میں شہید ہونے کی خبر پہنچی تو آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا: ’’آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو ان لوگوں پر ایسی مصیبت آئی ہے جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔ ‘‘
(أبو داؤد: الجنائز، باب: صنعۃ الطعام لأہل المیت: ۲۳۱۳، ابن ماجہ: ۰۱۶۱۔ فتاوی اسلامیہ، جلد دوئم ص۸۸.)

ساتواں یا چالیسواں منانا:
الجنۃ الدائمۃ سعودی عرب کافتوی ہے کہ میت کے لیے اس کی وفات کے دن یا کسی معین مثلا ساتویں یا چالیسویں دن بکری، گائے، اونٹ یا پرندوں وغیرہ کو ذبح کر کے دعوت کا اہتمام کرنا بدعت ہے اسی طرح میت کی طرف سے صدقہ کر نے کے لیے دن یا رات کا معین کرنا مثلا جمعرات کا دن، جمعہ کا دن یا جمعہ کی رات وغیرہ تو یہ بھی بدعت ہے سلف صالحین میں اس طرح کا کوئی رواج نہ تھا۔ لہٰذا اس قسم کی بدعتوں کو ترک کر دینا واجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ)) ’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات شامل کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
(بخاری، الصلح، ۷۹۶۲، ومسلم، الاقضیۃ، باب نقض الاحکام الباطلۃ ورد محدثات الامور، ۸۱۷۱۔ فتاوی اسلامیہ ،جلد دوم ،ص۷۶.)
فتویٰ کمیٹی الجنۃ الدائمۃ سعودی عرب کا فتوی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین سے میت کے لیے کسی قسم کی محفل منعقد کرنا ہرگز ثابت نہیں۔ نہ وفات کے وقت نہ وفات کے بعد، ساتویں یا چالیسویں دن نہ ایک سال کے بعد بلکہ یہ بدعت اور بہت بری بدعت ہے۔ یہ قدیم مصریوں اور دیگر کافروں کی رسم ہے لہٰذا جو مسلمان اس قسم کی محفلیں منعقد کرتے ہیں انہیں سمجھانا اور اس سے منع کرنا ضروری ہے ہو سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کر کے ان بدعات اور کفار کی مشابہت سے اجتناب کر لیں۔
(فتاوی اسلامیہ، جلد دوئم ص۹۸.)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے ایک آدمی کو چھینک آئی تو اس نے ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ)) کہا یہ سن کر سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے ’’میں بھی ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ)) کہہ سکتا ہوں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ہمیں یہ تعلیم نہیں دی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ: "چھینک آنے پر ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ)) پڑھا جائے۔‘‘
(ترمذی، الادب، باب ما یقول العاطس اذا عطس، ۸۳۷۲۔ امام حاکم (۴/۵۶۲،۶۶۲) اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا۔
معلوم ہوا کہ دین میں اپنی طرف سے کسی قسم کی زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
چند ضعیف روایات

الحمد للہ نماز نبوی میں صرف احادیث صحیحہ سے استدلال کیا گیا ہے۔
درج ذیل روایات کو عصر حاضر کے عظیم محدث علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس لیے نماز نبوی میں ان روایات کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ روایات نماز کی بعض کتابوں میں موجود ہیں:
1- سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو اپنی انگوٹھی اتار دیتے۔‘‘
(أبو داود: ۹۱، ترمذی: ۶۴۷۱.)
یہ روایت ضعیف ہے اس میں ابن جریج مدلس ہے اور وہ عن سے روایت کرتا ہے ۔

2- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا عورت کرتے اور اوڑھنی میں نماز پڑھ لے جبکہ تہبند نہ ہو؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں! اگر کرتا لمبا ہے اور قدموں کی پشت کو ڈھانپتا ہے۔‘‘
(أبو داود: ۰۴۶.)
اس کی سند میں محمد بن زید بن قنفذ کی ماں ام حرام مجہول ہے، لہٰذا یہ حدیث مرفوع اور موقوف دونوں ضعیف ہیں۔

3- سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی نماز پڑھے تو اپنے سامنے کوئی چیز رکھے، اگر اس کے پاس (رکھنے کے لیے) عصا نہ ہو تو خط کھینچے پھر جو بھی اس کے آگے سے گزرے گا نقصان نہ دے گا۔‘‘
(أبو داود: ۹۸۶.)
یہ روایت ضعیف ہے اس میں ابو عمرو بن محمد بن حریث اور اس کا دادا دونوں مجہول ہیں۔

4- سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حائضہ اور جنبی قرآن مجید نہ پڑھیں۔‘‘
(ترمذی: ۱۳۱.)
یہ روایت ضعیف ہے۔ اسماعیل بن عیاش اہل حجاز سے منکر روایات بیان کرتا ہے، اس کا استاذ موسیٰ بن عقبہ حجازی ہے۔

5- سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر بال کے نیچے جنابت ہے پس بالوں کو دھوو اور بدن کو پاک کرو۔‘‘
(أبو داود: ۸۴۲.)
اس روایت میں حارث بن وجیہ ہے جو ضعیف ہے۔

6- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کلی کرنے کے لیے اور ناک میں پانی ڈالنے کے لیے الگ الگ پانی لیتے۔
(أبو داود: ۹۳۱.)
یہ روایت ضعیف ہے، اس میں لیث بن ابی سلیم حنیف مدلس ہے اور وہ عن سے روایت کرتا ہے۔

7- سیدنا عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ’’جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھا کر شہادتین پڑھا اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔‘‘
(أبو داود: ۰۷۱.)
نگاہ آسمان کی طرف اٹھانے والا اضافہ ضعیف ہے، کیونکہ ابو عقیل کا چچا زاد بھائی مجہول ہے۔ باقی حدیث صحیح سند سے (مسلم ۴۳۲) موجود ہے۔

8- سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ’’کوئی شخص وضو کے بغیر اذان نہ دے۔‘‘
(ترمذی: ۰۰۲، ۱۰۲.)
اس سلسلے کی دونوں روایات ضعیف ہیں، ایک روایت میں معاویہ بن یحییٰ الصدفی ہے جو ضعیف ہے اور دوسری روایت منقطع ہے، کیونکہ ابن شہاب زہری کی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماعت ثابت نہیں۔

9- سیّدنا زیاد بن حارث صدائی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اذان کہے وہی تکبیر کہے۔‘‘
(ترمذی: ۹۹۱، أبو داود: ۴۱۵.)
عبدالرحمن بن زیاد الأفریقی کے ضعف کے بنا پر یہ روایت ضعیف ہے۔

10- سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی جب ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’أقامہا اللّٰہ وأدامہا‘‘ کہا۔‘‘
(أبو داود: ۸۲۵.)
یہ روایت ضعیف ہے اس روایت میں ’’رجل من أہل الشام‘‘ مجہول ہے اور محمد بن ثابت ضعیف ہے۔

11- نماز پیمبر کے مصنف ڈاکٹر محمد الیاس فیصل نے اذان اور تکبیر کے مسئلہ میں اپنے فقہی مسلک کی پیروی میں انتہائی بے انصافی سے کام لیا۔
مسنون اذان کے کلمات کے ثبوت میں سیدنا عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت (أبو داؤد: ۹۹۴)، پیش کی لیکن آدھی حدیث کا ذکر کیا۔ روایت میں موجود اقامت کے الفاظ کا ذکر تک نہیں کیا کیونکہ تکبیر کے طاق کلمات ان کے فقہی مسلک میں جائز نہیں تھے۔
اسی طرح اقامت کے الفاظ کے لیے سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی روایت (ترمذی: ۲۹۱) پیش کی لیکن آدھی، حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے 19 کلمات اور تکبیر کے 17 کلمات سکھائے‘‘
(ترمذی: ۲۹۱.)
افسوس ڈاکٹر محمد الیاس صاحب نے فقہی تعصب کا ثبوت دیتے ہوئے اذان کے 19 کلمات کا ذکر تک نہیں کیا کیونکہ اذان میں ترجیع ان کے مسلک میں جائز نہیں ہے۔
ڈاکٹر موصوف نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ انتہائی بے انصافی کا ثبوت دیا، احادیث صحیحہ کو ذکر کرنے کے بجائے اپنے مسلک کو صحیح ثابت کرنے کے لیے جائز نا جائز طریقے اختیار کیے۔
ایک حوالہ ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا عبد اللہ بن عمر اورسیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم چار برد (84 کلو میٹر) کے لمبے سفر میں نماز قصر پڑھتے اور روزہ افطار کرتے اور چار برد سولہ فرسخ کے برابر ہوتے ہیں۔ (بخاری)
بخاری میں یہ روایت سند کے ساتھ موجود نہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں بلا سند اس روایت کا ذکر کیا۔ ان کو تعلیقات بخاری کہا جاتا ہے، بخاری کی صحیح روایت میں ان کا شمار نہیں ہوتا۔
یہ حوالہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
(تشہد میں پڑھتے ہوئے) جب ’’أشہد أن لا إلٰہ‘‘ پر پہنچے تو ہاتھ کی بڑی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنائے، شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے اور ’’إلا اللّٰہ‘‘ پر انگلی کو نیچے کرے۔ ص ۶۹۱.
دوران خطبہ سنتیں نہ پڑھے۔ ص ۴۴۲.
انہوں نے اپنی بات کی کوئی دلیل نقل نہیں کی، ایسا کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں۔ بلکہ یہ بات صحیح احادیث کے خلاف ہے۔

12- سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سنت یہ ہے کہ ہاتھ ناف کے نیچے رکھے جائیں۔‘‘
(ابو داؤد)
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ زیاد بن زید مجہول ہے اور عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی کو جمہور محدثین نے ضعیف کہا ہے۔

13- سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’نماز میں ہاتھ ناف سے نیچے رکھو۔‘‘
(أبو داود: ۸۵۷.)
اس روایت میں بھی عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی ہے جو ضعیف ہے۔
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نماز میں اپنی انگلیوں کو نہ چٹخاؤ۔‘‘
(ابن ماجہ: إقامۃ الصلاۃ، باب: ما یکرہ فی الصلاۃ: ۵۶۹.)
اس کی سند میں حارث بن عبد اللہ الاعور ہے اور وہ ضعیف ہے۔

14- سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص (والتین والزیتون) کی تلاوت کرتے ہوئے (ألیس اللّٰہ بأحکم الحاکمین) کہے تو اسے چاہیے کہ کہے ’’بلی وأنا علی ذلک من الشاہدین‘‘ اور جب سورۃ القیامۃ کی تلاوت کرتے ہوئے یہ آیت (ألیس ذلک بقادر علی أن یحی الموتی) پڑھے تو جواب میں کہے ’’بلی۔‘‘
(أبو داود: ۷۸۸، ترمذی: ۷۴۳۳.)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سننے والا اعرابی مجہول ہے، لہٰذا روایت ضعیف ہے۔

15- سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی رکوع میں تین بار ’’سبحان ربی العظیم‘‘ کہے تو اس کا رکوع پورا ہو گا اور یہ ادنی درجہ ہے اور جو کوئی سجدہ میں تین بار ’’سبحان ربی الأعلٰی‘‘ کہے تو اس کا سجدہ پورا ہو گیا اور یہ ادنی درجہ ہے۔‘‘
(ترمذی: ۱۶۲، أبو داود: ۶۸۸.)
روایت ضعیف ہے کیونکہ عون بن عبد اللہ کی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں، لہٰذا سند منقطع ہے اور اسحاق بن یزید مجہول ہے۔

16- سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنے اپنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے اور جب سجدہ سے اٹھتے تو ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے۔‘‘
(أبو داود: ۶۳۷، ۸۳۸، ۹۳۸، ترمذی: ۸۶۲.)
اس کی ایک سند میں عبدالجبار بن وائل ہے، جس نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا، دوسری سند میں شریک القاضی ہے جو ضعیف اور مدلس ہے اور عن سے روایت کرتا ہے۔

17- سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تشہد میں) اپنی انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔‘‘
(أبو داود: ۹۸۹.)
محمد بن عجلان مدلس ہے اور عن سے روایت کرتا ہے۔

18- سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد (تشہد میں) اس طرح بیٹھتے گویا کہ گرم پتھر پر بیٹھے ہوئے ہیں یہاں تک کہ کھڑے ہو جاتے۔‘‘
(أبو داود: ۵۹۹، ترمذی: ۶۶۳.)
اس کی سند منقطع ہے کیونکہ ابو عبیدہ نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا۔

19- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمہیں نماز میں شک ہو کہ تین پڑھی ہیں یا چار اور زیادہ گمان چار رکعت کا ہو تو سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرو پھر تشہد پڑھو پھر سلام پھیرو۔‘‘
(أبو داود: ۸۲۰۱.)
روایت ضعیف اور منقطع ہے، خصیف ضعیف ہے اور ابو عبیدہ نے اپنے باپ سے کچھ نہیں سنا۔

20- سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے چاہے نیک ہو یا بد اور چاہے وہ کبیرہ گناہ کرے۔‘‘
(أبو داود: ۴۹۵.)
روایت ضعیف ہے کیونکہ مکحول نے سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا۔

21- سیدنا سائب بن یزید سے روایت ہے کہ ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر بیٹھتے تو مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی۔‘‘
(أبو داود: ۸۸۰۱.)
اس روایت میں محمد بن اسحاق مدلس ہے اور عن سے روایت کرتا ہے، علاوہ ازیں یہ منبر کے پاس اذان دینے کی محفوظ روایت (طبرانی: ۷/۶۴۱) کے خلاف بھی ہے۔

22- سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جمعہ اس شخص پر فرض ہے جو جمعہ پڑھ کر رات کو واپس اپنے اہل وعیال میں آ سکے۔‘‘
(ترمذی: ۲۰۵.)
عبد اللہ بن سعید المقبری متروک، حجاج بن نصر اور معارک بن عباد ضعیف ہیں۔

23- سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’عید کے دن بارش تھی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز عید پڑھائی۔‘‘
(أبو داود: ۰۶۱۱.)
اس روایت میں عیسی بن عبدالاعلیٰ مجہول ہے۔

24- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کی تکبیرات یوں کہتے :
’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔‘‘(دار قطنی )
اس حدیث کو امام ذہبی نے سخت ضعیف بلکہ موضوع (من گھڑت) کہا ہے۔ لہٰذا ان الفاظ کو آپ کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے

25- سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وتر حق ہے جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں، آپ نے تین بار فرمایا۔‘‘(أبو داود: ۹۱۴۱.)
اس میں عبد اللہ بن عبد اللہ المنکی المروزی ضعیف ہے۔

26- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دو رکعت پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔‘‘
(نسائی: ۹۹۶۱.)
اس میں قتادہ مدلس ہے جو عن سے روایت کرتا ہے۔

27- سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ سے یا کسی انسان سے حاجت ہو تو وضو کرے پھر دو رکعت پڑھے اور پھر یہ دعا کریں۔‘‘(ترمذی: ۹۷۴، ابن ماجہ: ۴۸۳۱.)
اس میں فائد بن عبدالرحمن متروک ہے۔

28- سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے مردوں پر سورۃ یٰسین پڑھو۔‘‘
(أبو داود: ۱۲۱۳.)
ابو عثمان اور اس کا والد دونوں مجہول ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
"کھلے راز" پر تبصرہ

محترم جناب عامر انوری صاحب نے میری کتاب ’’نماز نبوی پر ایک جائزہ‘‘ شائع فرمایا ہے۔ میں سب سے پہلے محترم عامر انوری صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے نماز نبوی کا انتہائی گہرائی کے ساتھ مطالعہ فرمایا۔ اگر وہ محمد پبلشرز اسلام آباد اور دارالسلام کا اگست ۸۰۰۲ ایڈیشن بھی اس موازنہ میں شامل کر لیتے تو ’’کھلے راز‘‘ کے اوراق بھی زیادہ ہو جاتے اور مجھے کتاب کی اصلاح کا موقع ملتا۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توحید پر ایمان لانے، سنت پر عمل کرنے اور منہج صحابہ کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔
میں عامر انوری صاحب کے اٹھائے ہوئے بعض نکات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ ان کا بیان غلط فہمی اور میرا جواب ازالہ کے عنوان سے ملاحظہ فرمائیں۔

غلط فہمی، نماز نبوی دار السلام اور بیت السلام کا پس منظر :
ڈاکٹر شفیق الرحمن صاحب کی نماز نبوی دار السلام اور بیت السلام دو اداروں نے چھاپی ہے اس کا کیا پس منظر ہے؟

تبصرہ:
میں نے جب حکیم محمد صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ کی کتاب ’’صلوٰۃ الرسول‘‘ پر شیخ عبد الرؤف سندھو فاضل مدینہ یونیورسٹی کی تحقیق و تخریج ’’القول المقبول فی تخریج صلاۃ الرسول‘‘ کا مطالعہ کیا تو میں نے فیصلہ کیا کہ اس کتاب سے استفادہ کر کے عامۃ المسلمین کے لیے نماز پر ایک مختصر کتاب لکھوں۔
نومبر ۶۹۹۱ میں دار السلام کے معاہدہ سے پہلے میں اس کے دو ایڈیشن شائع کر چکا تھا۔
دارالسلام نے اس کو شائع کرنا چاہا تو الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی موجودگی میں ہمارے درمیان جو معاہدہ ہوا اس کا عکس ملاحظہ فرمائیں۔
(عکس میرے پاس موجود نہیں۔۔ نعیم یونس)
اس معاہدہ کی رو سے جملہ حقوق مولف کے قرار پائے اور دارالسلام کے ساتھ مجھے بھی بلا مکان و زمان اشاعت کے حقوق حاصل ہوئے۔ دارالسلام نے مجھ سے نیا معاہدہ کئے بغیر کتاب کو شائع کرنے کی بجائے اس پر علماء کرام سے تحقیق و تخریج کروائی اور حواشی لگوائے۔ بلکہ اس ایڈیشن میں میری مرضی کے بغیر متن میں اضافہ کیا اور اگست 2008 کے ایڈیشن میں متن میں کافی تبدیلیاں کی گئیں۔ اس طرح دارالسلام کی شائع کردہ نماز نبوی اور میری شائع کردہ نماز نبوی کو مستقل الگ الگ کتب سمجھنا چاہیے۔ دارالسلام نے چونکہ اس کتاب پر علماء کرام سے تخریج و تحقیق کروائی اور حواشی لگوائے اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ جملہ حقوق انہیں حاصل ہو گئے ہیں جبکہ معاہدے کی رو سے جملہ حقوق بحق مؤلف ہیں اس لیے میں کتاب کے کئی ایڈیشن شائع کر چکا ہوں۔ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے دارالسلام کی شائع کردہ نماز نبوی کی احادیث کی تخریج و تحقیق کی ہے بلکہ آپ کے حوالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ایڈیشن میں بھی ان کی مکمل بات نہیں مانی گئی۔ جن روایات کو انہوں نے ضعیف کہا وہ کتاب میں درج ہیں اور اب دارالسلام اگست 2008 کے ایڈیشن میں کچھ اور روایات کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ وہ نماز نبوی میں اضافہ شدہ احادیث کی تصحیح کے ذمہ دار کیسے ہو سکتے ہیں؟
میں نے نماز نبوی کے اضافہ کے لئے شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی السلسلہ الصحیحہ، بیت الافکار الدولیہ سعودی عرب کی شائع کردہ کتب اربعہ اور علماء عرب کے فتاوی سے استفادہ کیا ہے۔ جن کی تصحیح کے ذمہ دار الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نہیں چونکہ اصل کتاب پر محنت انہوں نے کی ہے لہٰذا کوئی تحقیق و تخریج میں سے ان کا نام خارج نہیں کر سکتا۔ دارالسلام کے ایڈیشن سے تحقیق و تخریج اور علماء کرام کے بعض حواشی کو شامل کر کے میں نے سعودی عرب میں چوتھا ایڈیشن شائع کیا۔ جن عبارات کو آپ نے حذف شدہ عبارات کے عنوان سے بڑی محنت کے ساتھ تلاش کیا اسے میں نے اس ایڈیشن میں شامل نہیں کیا تھا۔ بیت السلام کی حیثیت تقسیم کنندہ کی ہے اور جملہ حقوق بحق مولف محفوظ ہیں جیسا کہ نماز نبوی کے دوسرے صفحہ پر درج ہے۔ بعض حواشی کی طرح چند روایات بھی میں نے اس میں شامل نہیں کیں۔ پاکستان میں محمد پبلشرز اسلام آباد نے جب نماز نبوی شائع کی تو اس کی کچھ مزید اصلاح ہو چکی تھی۔ اسے آپ پانچواں ایڈیشن کہہ لیں اور اب ان شاء اللہ چھٹا ایڈیشن آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ آپ نے مختلف ایڈیشنوں کے اختلاف کا مقابلہ کیا ہے۔ جملہ حقوق مولف کے پاس ہیں۔ یہ میرا حق ہے کہ میں اسے بہتر سے بہتر شکل دوں تا کہ میرے لیے صدقہ جاریہ بن سکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی:
صحابہ کرام کے ناموں سے پہلے حضرت کا لفظ بیت السلام کی کتاب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ناموں سے پہلے حضرت کا لفظ حذف کیا گیا ہے۔ یہ صحابہ کرام کی بے ادبی ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام سے لفظ حضرت کو ہٹا کر یہ واضح کر دیا کہ اس کا تعلق زیدیوں کے کس طبقہ سے ہے؟

ازالہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس امت کے بہترین افراد ہیں۔ جنگ بدر اور صلح حدیبیہ میں شامل ہونے والے صحابہ کرام کے لیے خوشخبری ہے کہ ان میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔ (مسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے منہج کو فرقہ ناجیہ کا شعار قرار دیا ہے۔ ان سے محبت ایمان کا حصہ ہے اور ایک منافق ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھتا ہے مگر محبت کے اظہار کے لیے یہ شرط کس نے مقرر کی کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام سے پہلے حضرت نہیں لگاتا وہ ان کا بے ادب ہے۔ اس اصول کو ذرا ائمہ اہل سنت سے ہی ثابت کر دیں کہ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ سمیت ہمارے کس امام نے صحابہ کرام کے نام کے ساتھ حضرت لگایا ہے۔ ائمہ حدیث نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایات نقل کیں کیا آپ نے حدیث کی کسی بھی کتاب میں کسی صحابی کے نام کے ساتھ حضرت کا لفظ دیکھا ہے؟ ایسے ہی ام المومنین ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے پہلے اگر کوئی امی کی بجائے ام المومنین کو ترجیع دیتا ہے تو اس کو بے ادب اور شیعہ زیدی کے نام سے ملانا انتہائی عجیب بات ہے۔ میں نے ص۲۶،۳۶ پر غسل کے بیان میں امی عائشہ کی بجائے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا لکھا اسے آپ انتہائی بے ادبی، گستاخی اور بد ذوقی قرار دیں تو آپ کی مرضی۔
البتہ عبد الجبار حفظہ اللہ کی عبارت میں سے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام حذف ہونا خطا ہے۔ ان شاء اللہ اس ایڈیشن میں اصلاح کر دی گئی ہے۔ اور اس نشاندہی پر اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ (آمین)
دارالسلام کی شائع کردہ نماز نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام کے ساتھ حضرت کا اضافہ ان کا میری کتاب کے متن میں اضافہ ہے۔ مجھے اطلاع دیئے بغیر اس اضافہ کا ان کے پاس اخلاقاً اور شرعاً کوئی حق نہیں۔ البتہ اگست 2008 میں حضرت کاٹ کر سیّدنا کا اضافہ کر دیا لیکن متن میں کچھ اور تبدیلیاں بھی کر دیں۔ اگر آپ ان باتوں کو جمع کرنے لگیں تو آپ کے کھلے راز کافی ضخیم ہو سکتے ہیں لیکن میں بہرحال ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ مشورہ دوں گا کہ اصل رد شرک و کفر کا ہونا چاہیے اور ہماری پوری توانائی اللہ اور اس کے رسول اور آخرت پر ایمان مضبوط کرنے اور کروانے میں صرف ہونی چاہیے۔ اگر آپ نماز نبوی کی بجائے میری کتاب ’’حب رسول کی آڑ میں مشرکانہ عقائد‘‘ کا جواب دیتے تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی:
غیر معصوم امتیوں کے اقوال کا تقلیدی سہارا
نماز نبوی میں 450 مقامات پر غیر معصوم امتیوں کے اقوال کا تقلیدی سہارا لے کر احادیث کو صحیح یا حسن کہا ہے۔

ازالہ:
ہمیں دین کو ویسے ہی سمجھنا اور عمل کرنا ہے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا اور عمل کیا۔ کیونکہ انہوں نے قرآن مجید کی تشریح و تفہیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست سیکھی لہٰذا وہ معیاری مسلمان تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے منہج اور فہم کو جماعت حقہ کی پہچان قرار دیا۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کہ میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔ سوائے ایک جماعت کے سب دوزخ میں جائیں گے۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول وہ کونسا گروہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا ما انا علیہ واصحابی۔’’ یہ وہ جماعت ہو گی جو اس راستے پر چلے گی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں‘‘ (ترمذی ۵۶۵۲.)
اس حدیث میں یہ اشارہ بھی ہے کہ سنت رسول کے ساتھ طریق صحابہ بھی قیامت تک محفوظ رہے گا کیونکہ جو چیز محفوظ نہ ہو وہ قیامت تک نجات پانے والے گروہ کی نشانی کیسے بن سکتی ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میرے بعد شدید اختلاف دیکھو گے۔ اس وقت تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا۔ اس پر مضبوطی سے جمے رہنا، دین میں نئے پیدا ہونے والے امور سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ ۷۴.)
گویا فتنوں کے ظہور کے وقت بچاؤ صرف اور صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین کی سنت کو اختیار کرنے میں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی اقتداء کرتے رہنا۔‘‘ (ابن ماجہ ۷۹.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے صحابہ کے طریقہ پر عمل کر کے میری سنت کی حفاظت کرو پھر تابعین اور تبع تابعین کے طریقہ پر چلو پھر اس کے بعد جھوٹ پھیل جائے گا۔‘‘ (ابن ماجہ کتاب الاحکام ۳۶۳۲.)
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری امت میں بہترین زمانہ میرا ہے۔ پھر اس کے بعد والا (تابعین کا) زمانہ پھر اس کے بعد والا (تبع تابعین کا) زمانہ پھر ایسی قومیں پیدا ہونگی جو بغیر مطالبے کے جھوٹی گواہیاں دیں گی اور خیانت کریں گی اس لیے انہیں امین نہیں بنایا جائے گا اور ان میں موٹاپا عام ہو جائے گا۔‘‘
(مسلم۵۳۵۲۔ ترمذی ۰۱۸۱.)
ان آیات و احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ فہم دین کے حوالے سے پہلے ابتدائی تین زمانوں میں جو کچھ سمجھا اور سمجھایا گیا وہ بالکل حق ہے۔ بعد والوں کو اب انہی کے پیچھے کھڑے ہونا ہے۔ قرآن و سنت کو محنت، ذہانت یا عربی زبان کی مدد سے سیکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ کتاب و سنت کے اس فہم کو جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے اسے سلف کے منہج پر پیش کیا جائے اور کتاب و سنت کی کسوٹی کو ہم اپنے فہم کی بجائے سلف کے فہم کے ساتھ قبول کریں۔ اس طرح ہم اس راستے پر چل سکیں گے جس کے درست ہونے کی ضمانت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے گویا ہمیں راستہ بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ سلف کے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے۔ سلف صالحین کے فہم کی پابندی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کسی کو کتاب و سنت سے کھیلنے کا موقعہ نہیں مل سکتا۔ آج امت کا ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ کوئی بھی شخص چند آیات اور چند احادیث کا ترجمہ پڑھ کر اور چند دلائل جمع کر کے اسلام کی ایک نئی تعبیر متعارف کروا سکتا ہے۔ پھر قرآن و حدیث سے جو بات اس کی سمجھ میں آجائے اسے وہ حق قرار دیتا ہے اور جنہوں نے اسے مختلف انداز میں سمجھا انہیں باطل اور گمراہ قرار دیتا ہے۔ کچھ لوگ اس کی دعوت کو کتاب و سنت سمجھ کر ساتھ مل جاتے ہیں اور باقی اس کی تعبیر کو رد کر دیتے ہیں وہ ساری زندگی لوگوں کو اپنی فکر کے ساتھ جوڑتا رہتا ہے اور اخلاص کے ساتھ امت کے اندر توڑ پھوڑ کا عمل جاری رکھتا ہے۔
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا، ان کو رسوا کرنے والا ان کو کوئی ضرر نہ پہنچائے گا تا آنکہ اللہ کا حکم آ جائے گا اور وہ اسی حالت میں ہوں گے۔‘‘(مسلم)
اور اسی طائفہ منصورہ کے علماء کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ ‘‘(ابو داؤد ۱۴۶۳.)
صحابہ کرام، تابعین عظام، ائمہ حدیث، فقہا کرام، امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، امام محمد بن عبدالوہاب اوران کے شاگردوں رحمھم اللہ سمیت بہت سے علماء کرام اسی طائفہ منصورہ کے وہ چمکتے ہوئے ستارے ہیں جن کو علماء حقہ اپنا امام مانتے ہیں، لہٰذا اس فہم کو بیان کرنا جو انہوں نے قرآن و سنت سے حاصل کیا اہل رائے کا طریقہ نہیں بلکہ اہل حدیث کا طریقہ ہے۔
دین کی وہ باتیں جن کے بارے میں سلف صالحین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اس کی از سر نو تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو کچھ سلف نے کیا وہی حق ہے اور اس کو ماننا واجب ہے اور جہاں ان کا اختلاف ہوا تو حق بھی ان کے اقوال میں سے کسی ایک میں ہوتا ہے۔ اختلاف کی جتنی گنجائش ہمارے سلف کے ہاں پائی گئی ہماری تحقیق کا دائرہ بھی اسی کے اندر رہے گا اور یہ کام بھی وہی کریں گے جو دین کے معاملے میں سلف کے پیروکار ہیں اور خود بھی دین کو خوب سمجھنے والے عالم ہوں۔ ایک طالبعلم کو منہج سلف ہی بیان کرنا چاہیے۔ ہم ان علماء کی وضاحت اس لیے بیان نہیں کرتے کہ ہم قرآن و سنت کو ناکافی سمجھتے ہیں بلکہ اس لیے بیان کرتے ہیں کہ قرآن و سنت کے اس مفہوم کو ہر دور میں طائفہ منصورہ کے علماء کرام نے بیان کیا ہے اور یہی بیان حق ہے۔
احادیث کو صحیح، حسن یا ضعیف کہنے کا حق فن حدیث کے ماہرین ہی کا ہے۔ وہی کسی حدیث کی صحت کے بارے میں کلام کر سکتے ہیں۔ ایک طالب علم انہی سے حدیث کی صحت کے بارے میں دریافت کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق ہے۔
(فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ) (النحل ۳۴)
’’اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے سوال کرو۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی:
امام تکبیریں اور سلام اونچی کہتا ہے اور مقتدی آہستہ، اس کی کیا دلیل ہے؟

ازالہ:
امت میں جن عقائد اور مسائل پر اجماع ہو گیا، اس کے صحیح ہو نے کی دلیل یہی اجماع ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی۔‘‘(ترمذی الفتن۶۶۱۲.)
لہٰذا نماز، روزہ ،حج اور زکوٰۃ کے ایسے تمام مسائل جس پر امت کے علماء کرام کا اجماع ہے وہ یقیناً حق ہیں۔

غلط فہمی:
دہرا معیار اور بدلتے پیمانے؟
زبیر علی زئی صاحب نے ابن خزیمہ اور ابن حبان رحمہ اللہ کی تقریباً 165 روایات کو اس لیے صحیح کہا کہ وہ صحیح ابن خزیمہ یا صحیح ابن حبان میں ہیں اور اسی حاشیہ نگار نے دوسری کتاب تسہیل الوصول میں ابن خزیمہ اور ابن حبان کی 19 روایات کو ضعیف کہا یہ دہرا معیار کیوں ہے اور بدلتے پیمانے کس لیے؟

ازالہ:
چند محدثین نے یہ دعوی کیا کہ وہ اپنی کتاب میں صرف صحیح احادیث درج کریں گے مثلاً:
(۱) امام بخاری (۲) امام مسلم (۳) امام حاکم (۴) امام ابن حبان (۵) امام ابن خزیمہ
بعد میں آنے والے محدثین (جو اس فن کے امام تھے ) نے اس بات کی گواہی دی کہ بخاری اور مسلم کی تمام روایات صحیح اور قطعی ہیں یہی وجہ ہے کہ امت میں ان دونوں کتب کو تلقی بالقبول کی حیثیت حاصل ہوئی۔
امام حاکم، امام ابن حبان اور امام خزیمہ رحمھم اللہ کی جمع کردہ کتب صحیحہ کو یہ مقام حاصل نہ ہو سکا۔ امام حاکم نے یہ دعوی کیا کہ میں اپنی کتاب میں ان احادیث کو جمع کر رہا ہوں جو امام بخاری اور امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح ہیں لیکن ان ائمہ نے اپنی کتب میں ان کو درج نہیں کیا۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے مستدرک حاکم کی تخریج کرتے ہوئے اس کی بعض روایات کو ضعیف قرار دیا۔ یہی معاملہ ابن خزیمہ اور ابن حبان رحمہ اللہ کی کتب کے ساتھ پیش آیا۔ بعد میں آنے والے حدیث کے فن کے ائمہ نے ان میں موجود بعض ضعیف روایات کی نشاندہی کی۔ لہٰذا حدیث کے فن کا عالم اگر کسی حدیث کو صحیح قرار دیتا ہے اور تائید میں ابن خزیمہ یا ابن حبان رحمہ اللہ کی تائید نقل کرتا ہے تو ایسا کرنا درست ہے اور دوسرے مقام پر اگر وہ ابن خزیمہ اور ابن حبان رحمہ اللہ کی کسی روایت کو ضعیف قرار دے تو یقیناً یہ کام اس سے قبل ائمہ حدیث کر چکے ہیں۔ یہ دہرا معیار اور بدلتے پیمانے نہیں کہلائے۔
فقہی مسائل ہوں یا حدیث کو صحیح اور ضعیف کہنے کا مسئلہ ہو۔ ہمارے ائمہ کرام کا یہی مسلک ہے۔ یہی اہل سنت کا مذہب ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر شخص کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی ہو سکتی ہے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ آپ چونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتے ہیں اس لیے بطور مثال میں آپ کو ان کا اور ان کے شاگردوں کا طریقہ کار پیش کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ اس کے بعد آپ اس طرز عمل کو دہرے معیار اور بدلتے پیمانوں کا عنوان نہیں دیں گے۔ بلکہ اسی کو اہل سنت کا مسلک یعنی سلف صالحین کا راستہ جانیں گے۔

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہ اللہ کا اختلاف:
امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’کتاب الآثار‘‘ میں ایک حدیث لائے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
محمد، ابو حنیفہ، حماد، ابراہیم علقمہ بن قیس اور اسود بن یزید سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم دونوں سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس تھے جب نماز کا وقت آیا تو وہ نمازپڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ہم دونوں ان کے پیچھے کھڑے ہو ئے تو انہوں نے ہم میں سے ایک کو اپنے دائیں جانب اور ایک کو بائیں جانب کھڑا کیا پھر وہ خود ہم دونوں کے درمیان کھڑے ہو ئے۔ جب فارغ ہوئے تو فرمایا ’’جب تم تین آدمی ہو تو اسی طرح کرو‘‘ اور جب رکوع کرتے تو تطبیق کرتے (دونوں ہاتھ گھٹنوں کے درمیان رکھتے)۔اور بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھی اور کہا کہ ہمارے اردگرد کے لوگوں کی تکبیر کافی ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم ان کے قول پر عمل نہیں کرتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ جب تین آدمی ہوں تو امام آگے بڑھ جائے اور باقی دو آدمی اس کے پیچھے نماز پڑھیں اور ہم تطبیق کے متعلق بھی ان کے قول پر عمل نہیں کرتے یہ کہ جب رکوع کرے تو دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھے بلکہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ مرد اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھے ۔۔۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ (کتاب الآثار۔۲۹.)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ سورۃ ص میں سجدہ نہیں کرتے تھے۔ امام محمد رحمہ اللہ نے کہا لیکن ہم اس میں سجدہ ضروری خیال کرتے ہیں اور ہم اس حدیث کو لیتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (بروایت سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما) منقول ہے ۔۔۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ (کتاب الآثار۔۶۰۲.)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہ اللہ کی نظر میں جو مقام ہے وہ یقیناً آپ سے پو شیدہ نہیں ہو گا۔ آپ خود کتاب الآثار میں وہ روایات گن سکتے ہیں جو امام محمد رحمہ اللہ نے ان سے روایت کر کے ان پر عمل کیا اور پھر بتائیں کیا یہ ہمارے سلف صالحین کا طرز عمل ہے یا نعوذبا للہ دہرا معیار اور بدلتا پیمانہ ہے؟

سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اختلاف:
محمد، ابو حنیفہ، حماد، ابراہیم، سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ یوم عرفہ کی فجر کی نماز سے تشریق کے آخری دن (یعنی 9 تا 13 ذوالحجہ) کی عصر تک تکبیرات کہتے تھے۔ امام محمد رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم اسی کو لیتے ہیں لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کو نہیں لیتے وہ سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کو لیتے ہیں اور یوم عرفہ کی فجر سے یوم نحر کی عصر تک (9، 10 ذوالحجہ) تکبیرات کہتے پھر چھوڑ دیتے تھے۔ (کتاب الآثار۔۵۰۲.)

امام محمد رحمہ اللہ سیّدنا علی اور سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا غلام کی آزادی سے متعلق قول نقل کر کے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ان سے مختلف قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کا قول ہمارے اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک سیّدنا علی اور سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے قول سے بہت بہتر ہے، اسی کو ہم لیتے ہیں۔ (کتاب الآثار۔۳۶۶.)
یہ ہمارے ائمہ کا طرز عمل ہے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا ایک اعلیٰ مقام ہو نے کے باوجود ہمارے ائمہ ان کا قول لیتے بھی ہیں اور چھوڑتے بھی۔ ان کی بات کو چھوڑنے سے ان کی توہین نہیں ہوتی اور نہ یہ بدلتے ہوئے پیمانے ہیں بلکہ صحابہ کرام اور سلف صالحین کے اختلاف کی صورت میں جو قول بھی اقرب الی السنہ نظر آئے گا اسے تسلیم کرنا اس فرقہ ناجیہ کی نشانی ہے جس کے بارے میں فرمایا ’’ما انا علیہ و اصحابی‘‘وہ اس راستہ پر ہے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ البتہ کوئی ایسا نظریہ پیش کرنا جو سلف صالحین سے منقول نہیں تو وہ یقیناً گمراہی ہے۔

سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف:
محمد، ابو حنیفہ، عبد اللہ بن اؤد، منذر سے روایت کرتے ہیں کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک لشکر کے ساتھ مصر کی طرف بھیجا ان کو غنیمت ہاتھ لگی تو سوار کو دو حصے اور پیدل کو ایک حصہ دیا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس سے خوش ہوئے اور یہی قول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے لیکن ہم اس کو نہیں لیتے اور ہماری رائے یہ ہے کہ سوار کو تین حصے دئے جائیں۔ ایک حصہ اس کا اور دو حصے اس کے گھوڑے کے۔(کتاب الآثار۔۴۴۸.)
امام محمد رحمہ اللہ اس مطلقہ عورت کا حکم بیان کرتے ہیں جس سے اس کے شوہر نے رجوع کر لیا تھا لیکن اسے خبر نہ تھی اور اس نے دوسرے شوہر سے شادی کر لی۔ امام محمد رحمہ اللہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ نقل کرتے ہیں کہ اگر اس کے دوسرے خاوند نے اس سے صحبت کر لی تو وہ اسی کی عورت ہے۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف نقل کرتے ہیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہے اس کے اور اس کے دوسرے خاوند کے درمیان جدائی کی جائے گی اور وہ پہلے خاوند کی عورت ہے اور پھر فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول کے مقابلے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قول کو لیتے ہیں اور وہ ہمارے نزدیک بہت پسند ہے اور یہی قول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔ (کتاب الآثار۔۰۷۴،۱۷۴.)
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مقام آپ کو خوب معلوم ہے لیکن دیگر صحابہ سے اختلاف کی صورت میں امام صاحب نے بہت سے مقام پر ان کے فیصلے کو اختیار کیا اور بعض مواقع پر ان سے اختلاف بھی کیا۔ یہ بدلتے پیمانے نہیں ہیں بلکہ فرقہ ناجیہ کا طرز عمل یہی ہے۔

امام محمد رحمہ اللہ کا ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اختلاف:
امام محمد رحمہ اللہ اگرچہ حنفی تھے لیکن انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بھی وہی طرز عمل اختیار کیا جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اختیار کیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ کوئی شخص جمعہ کے دن مسجد میں آئے اور امام تشھد میں بیٹھا ہو تو وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد دو رکعتیں ادا کرے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے لیکن امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اس پر عمل نہیں کرتے جب امام تشہد میں بیٹھا ہو تو اس وقت نماز میں شامل ہو نے والا چار رکعتیں (ظہر کی) ادا کرے گا۔(کتاب الآثار۔۵۲۱.)
۲۔ امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا کہ خاوند کو زکوٰۃ دینا درست نہیں لیکن ہمارے نزدیک درست ہے۔ (کتاب الآثار۔۲۹۲.)
۳۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے گھوڑے کے گوشت کو مکروہ کہا ہے۔ اور یہی قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے لیکن امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم گھوڑے کے گوشت میں کوئی حرج نہیں دیکھتے۔ اس کے حلال ہونے میں بہت احادیث آئی ہیں۔ (کتاب الآثار۔۱۰۸. )
محترم عامر انوری صاحب ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی بعض روایات کو قبول کرنے اور بعض کو ضعیف کہنے کی بنیاد پر آپ نے اسے دہرے معیار اور بدلتے پیمانے کہا۔ میں نے کتاب الآثار میں سے چند حوالے بیان کئے جو مسئلہ کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔ اگر فقہ حنفی میں سے ہی یہ بدلتے پیمانے جمع کئے جائیں تو ایک بڑی کتاب بن جائے گی۔ لہٰذا آپ اسے بدلتا پیمانہ نہ سمجھئے۔اسے ہمارے سلف صالحین کا طرز عمل جانئے۔ ہمارے علماء کرام اب بھی اس کا درس دیتے ہیں۔
علماء عرب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی تقلید کرتے ہیں۔ لیکن ذرا رئیس دارالافتاء سعودی عرب شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتوی ملاحظہ فرمائیں:
’’اہل علم کی ایک جماعت کا یہ قول ہے کہ اقامت جمعہ کے لیے چالیس آدمیوں کا ہونا شرط ہے ۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ لیکن راجح قول یہ ہے کہ چالیس آدمیوں سے کم کے ساتھ بھی جمعہ پڑھنا جائز ہے اور کم از کم تعداد تین ہے۔ (فتاوی اسلامیہ، جلد اول، ص۵۴۵.)
اس سلسلہ میں شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کی بات حق ہے کہ
’’بے شک ایک مسلمان کا مقصود و مطلوب حق ہے۔ وہ جب بھی حق کو پاتا ہے اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔ ائمہ اربعہ نے کسی کو بھی اس بات کا پابند نہیں کیا کہ وہ ہر چیز میں ان کی تقلید کریں انہوں نے صرف یہ بتایا ہے کہ ان کے نزدیک پسندیدہ اور قابل ترجیح قول کون سا ہے اور دوسروں کو انہوں نے یہ حکم دیا ہے کہ اگر دوسروں کے قول میں انہیں حق مل جائے تو اسے لے لیں لہٰذا کوئی شخص بھی کسی ایک امام کے قول کا پابند نہیں ہے کہ وہ ہر چیز میں اس کی تقلید کرے۔ اسی طرح کسی کے لیے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ تخفیف یا خواہش نفس کی پیروی میں رخصتوں یا علماء کی لغزشوں یا ان کی غلطیوں کو ڈھونڈتا پھرے۔ (فتاوی اسلامیہ،جلد اول ، ص۴۴۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کلمہ اختتام

پیارے بھائیو اور بہنو!
اللہ تعالیٰ قیامت کے روز صرف وہی نماز قبول کرے گا جو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے نمونے کے مطابق ہو گی۔ اس کتاب میں آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا پیارا نمونہ دیکھ لیا ہے۔ ہماری نہایت خلوص سے یہ درخواست ہے کہ آپ اپنی نمازیں اپنے پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کی روشنی میں ادا کریں تاکہ ان نمازوں کو اللہ کے پاس قبولیت حاصل ہو۔ اگر آپ کی نماز پر کوئی نکتہ چینی کرے یا احادیث رسول کے مقابلے میں کسی کا قول پیش کرے تو اس کی نادانی سے اجتناب کرتے ہوئے عمل بالحدیث پر کاربند رہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، سنت اور طریقہ ہی کامیابی کا راستہ ہے۔ اور ان کی پیروی نہ کرنا میدان محشر میں باعث ندامت ہو گا۔ فرمایا:
(وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یَالَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا) (الفرقان: ۷۲)
’’روز محشر گنہگار اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین رحمھم اللہ کے منہج پر چل کر قرآن و سنت کی اتباع کی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ ہماری لغزشوں کو معاف کرے۔ آمین۔
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِیْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْراً کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَۃَ لَنَا بِہِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ
 
Top