• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی ﷺ با دلائل

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
نماز کی بعض ضروری اصطلاحات

تکبیر تحریمہ:
اسے ’تکبیر اولیٰ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ نماز میں کھڑے ہوتے وقت اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا ہے۔
ثنا
دعائے استفتاح کا پڑھنا مثلاً سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک
قیام
تکبیر تحریمہ سے لے کر رکوع تک کا عمل
تعوذ
أعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم پڑھنا
تسمیہ
بسم اﷲ الرحمن الرحیم پڑھنا
قرا ء ت
قیام میں قرآنِ مجید پڑھنا
سکتہ
نماز میں تکبیر تحریمہ کے بعد اور سورہ فاتحہ کے بعد چند لمحے خاموش رہنا
رکوع
قیام کے بعد گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر جھکنا
رفع یدین
رکوع جاتے، رکوع سے اٹھتے ہوئے اور تیسری رکعت سے اُٹھ کر دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھانا
قومہ
رکوع کے بعد کھڑا ہونے کے بعد تھوڑی دیر ٹھہرنا
سجدہ
قومہ سے اس حالت میں چہرے کو زمین پر رکھنا کہ آدمی کی ٹیک سات اعضا پر ہو : دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے ،دونوں پاؤں اور چہرہ (ناک،پیشانی)
جلسہ
دو سجدوں کے درمیان تھوڑی دیر ٹھہرے رہنا
جلسہ استراحت
دوسرے سجدے کے بعد نئی رکعت کے لئے اٹھنے سے پہلے اتنی دیر بیٹھنا کہ جوڑ اپنی جگہ پر آجائیں۔
تشہد
نماز میں التحیات کے لئے بیٹھنا
قعدہ اولیٰ
چار رکعتوں والی نماز میں دوسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد تشہد کے لئے بیٹھنا
قعدہ اخیرہ
آخری رکعت میں سلام کے لیے بیٹھنا
فراش
قعدہ اولیٰ میں دایاں پاؤں کھڑا کرنا اوربائیں پاؤں کو دوہرا کرکے اوپر بیٹھنا
تورّک
آخری قعدہ میں دائیں پاؤں کو کھڑا کرنا اور بائیں پاؤںکو پنڈلی کے نیچے سے نکال کر سیرین پر بیٹھنا
اِرسال
ہاتھوں کو قومہ کے وقت سیدھا چھوڑ دینا
سلام ؍ تحلیل
السلام علیکم کہتے ہوئے نماز کے اختتام پر دائیں بائیں منہ پھیرنا
ذراع کہنی کے سرے سے درمیانی انگلی کے سرے تک کا مکمل ہاتھ
ساعد
کہنی سے ہتھیلی تک کا حصہ
جہری نماز
جس میں امام اونچی آواز سے قراء ت کرتا ہے مثلاًمغرب ،عشائ،فجر وغیرہ
سری نماز
وہ نماز جس میں امام اونچی آواز سے قراء ت نہیں کرتا مثلاًظہر ،عصر وغیرہ
الوسطیٰ
درمیانی انگلی
السبابۃ
انگشت ِشہادت
اِبھام
انگوٹھا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مختصر طریقہ نماز

نماز کے لیے قبلہ رخ کھڑے ہوں اور تکبیر کہ کر دونوں ہاتھ کندھوں یاکانوں تک اٹھائیں اور سینہ پر ہاتھ باندھ لیں۔
ثنا کے بعد سورہ فاتحہ پڑھیں اور تعوذ وتسمیہ کے بعد قرآن میں سے کچھ پڑھیں،سری نمازوں میں آہستہ اور جہری نمازوں میں امام اونچی آواز میں پڑھے۔
سورہ فاتحہ کے بعد تکبیر کہتے ہوئے رفع الیدین کریں اور رکوع میں چلے جائیں اور رکوع کی تسبیح بیان کریں۔
رکوع کے بعد سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے ہوئے اور رفع الیدین کرتے ہوئے قومہ میں آ جائیں۔
قومہ میں تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد تکبیر کہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں۔ سات اعضا(دونوں گھٹنے،دونوں ہاتھ،دونوں پنجے، ناک اور ماتھا) کی ٹیک پر سجدہ کرتے ہوئے تسبیحات واَدعیہ ماثورہ پڑھیں۔
تکبیر کہہ کر سجدے سے سر اٹھائیں اور بائیں پاؤں کو دہرا کر کے دائیں کو گاڑ کر بیٹھ جائیں اور دو سجدوں کے درمیانی جلسہ کی دعا پڑھیں۔
تکبیر کہہ کر سجد ے میں چلے جائیں اور پہلے سجدہ والی دعائیں دہرائیں۔
تکبیر کہہ کر سجدہ سے سر اٹھا لیں اور تھوڑی دیر کے لیے جلسہ اِستراحت کریں اور دوسری رکعت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت میں بھی وہی اُمور ملحوظ رکھیں اگر چار رکعت نماز ہے تو دوسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد تشہد بیٹھ جائیں اس کا طریقہ بھی جلسہ میں بیٹھنے کا ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا کریں اور بائیں پاؤں کوبچھا کر بیٹھ جائیں اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھیں کہ دائیں ہاتھ کی انگلیاں بند ہوں۔ درمیانی انگلی کے سرے کو انگوٹھے کی جڑ میں رکھ کر شہادت کی انگلی کوسونتتے ہوئے قبلہ کی طرف اشارہ کریں اور انگلی کو تھوڑا سا خمیدہ رکھیں۔
تشہد میں التحیات اور درودشریف پڑھیں۔
تیسری رکعت کے لیے تکبیر کہہ کر کھڑے ہو جائیں اور رفع الیدین کریں۔
باقی سارا عمل پہلی رکعت کی طرح ادا کریں اس طرح چوتھی رکعت میں تشہد میں تورّک کریں اور ہاتھوں کی پوزیشن قعدہ اولیٰ کی طرح رکھیں، لیکن اس میں درود کے بعد انگلی کا اشارہ مسلسل کرتے جائیں۔درود کے بعد دعائیں پڑھیں اور دائیں بائیں السلام علیکم ورحمۃ اﷲ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ کہتے ہوئے سلام پھیر دیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مفصل طریقہ نماز
تکبیر تحریمہ
رسول اللہﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو قبلہ (خانہ کعبہ) کی طرف رخ کرتے رفع الیدین کرتے اور فرماتے : اﷲ أکبر
دلیل: عن أبی حمید الساعدی قال: کان رسول اﷲ إذا قام إلی الصلاۃ استقبل القبلۃ،ورفع یدیہ وقال: )اﷲ أکبر) (ابن ماجہ:۸۰۳)
اور آپ(ﷺ) نے فرمایا: جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ۔
دلیل: قال رسول اﷲ! )إذا قمت إلی الصلاۃ فکبر)(صحیح بخاری:۷۵۷، صحیح مسلم: ۳۹۷)
ہاتھوں کے اٹھانے کی کیفیت
آپ اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے۔
دلیل:عن عبد اﷲ أنہ قال: رأیت رسول اﷲ إذا قام فی الصلاۃ رفع یدیہ حتی تکونا حذو منکبیہ (صحیح بخاری:۷۳۶، صحیح مسلم:۳۹۰)
یہ بھی ثابت ہے کہ آپ اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے۔
دلیل: عن مالک بن الحویرث: أن رسول اﷲ! کان إذا کبر رفع یدیہ حتی یحاذی بھما أذنیہ (صحیح مسلم:۳۹۱)
لہٰذا دونوں طرح جائز ہے، لیکن زیادہ حدیثوں میں کندھوں تک رفع الیدین کرنے کا ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ رفع الیدین کرتے وقت ہاتھوں کے ساتھ کانوں کا پکڑنا یا چھونا کسی دلیل سے ثابت نہیں۔مردوں کا ہمیشہ کانوں تک اورعورتوں کا کندھوں تک رفع یدین کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
آپ(انگلیاں) پھیلا کر رفع یدین کرتے تھے۔
دلیل:عن أبی ہریرۃ قال:کان رسول اﷲ إذا دخل فی الصلاۃ رفع یدیہ مدًا (ابوداود:۷۵۳)
تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھنا
آپ اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھتے تھے۔
دلیل:
(عن الھلب) قال:رأیت النبی! ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورأیتہ قال:یضع ھذہ علی صدرہ وصف یحیی الیمنی علی الیسری فوق المفصل (مسند احمد:۵؍۲۲۶)
لوگوں کو (رسول اللہﷺ کی طرف سے)یہ حکم دیا جاتاتھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ذراع پر رکھیں۔
عن سھل بن سعد قال: کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل یدہ الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلاۃ (صحیح بخاری:۷۴۰)
پھر آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کلائی اور ساعد پر رکھا۔
دلیل:
عن وائل بن حجر:ثم وضع یدہ الیمنی علی ظھرکفہ الیسری والرسغ والساعد (ابوداود:۷۲۷)
اگر ہاتھ پوری ذراع (ہتھیلی، کلائی اور ہتھیلی سے کہنی تک) پر رکھا جائے تو خود بخود ناف سے اوپر اور سینہ پر آجاتا ہے۔
مردوں کا ناف سے نیچے اور صرف عورتوں کا سینہ پر ہاتھ باندھنا (یہ تخصیص) کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
استفتاح
رسول اللہ(ﷺ) تکبیر (تحریمہ) اور قرأت کے درمیان درج ذیل دعا (سراً یعنی بغیر جہر کے) پڑھتے تھے۔
) اَللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اَللّٰھُمَّ نَقِّنِیْ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ،اَللّٰھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ ) (صحیح بخاری:۷۴۴،صحیح مسلم:۵۹۸)
’’اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان ایسی دوری بنا دے جیسی کہ مشرق و مغرب کے درمیان دوری ہے۔ اے اللہ! مجھے خطاؤں سے اس طرح (پاک) صاف کردے جیسا کہ سفید کپڑا میل سے (پاک) صا ف ہوجاتا ہے، اے اللہ! میری خطاؤں کو پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھو ڈال (اور صاف کردے)‘‘
درج ذیل دعا بھی آپ سے ثابت ہے۔
)سبحانک اللھم وبحمدک،وتبارک اسمک،وتعالیٰ جدک،ولا إلہ غیرک) (ابوداود:۷۷۵)
’’اے اللہ ! تو پاک ہے اور تیری تعریف کے ساتھ تیرا نام برکتوں والا ہے اور تیری شان بلند ہے تیرے سوا دوسرا کوئی الٰہ (معبود برحق) نہیں ہے۔‘‘
ان ثابت شدہ دعاؤں میں سے جو دعا بھی پڑھ لی جائے بہتر ہے۔
تعوذ
قراء ت سے پہلے آپ أعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم پڑھتے تھے۔
’’میں شیطان مردود (کے شر) سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
دلیل: عن سعید الخدری أن رسول اﷲ! کان یقول قبل القرأۃ: )أعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم) (مصنف عبدالرزاق :۲؍۸۵)
آپ سے درج ذیل دعا بھی ثابت ہے۔
أعوذ باﷲ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم من ھمزہ ونفخہ ونفثہ (ابوداود:۷۷۵)
’’میں شیطان مردود (کے شر) سے اس کے خطرے، اس کی پھونکوں اور اس کے وسوسوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑتا ہوں جو خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔‘‘
تسمیہ
آپ بسم اﷲ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے۔
دلیل: عن نعیم المجمر قال: صلیت وراء أبی ھریرۃ فقرأ )بسم اﷲ الرحمن الرحیم) ثم قرأ بأم القرآن۔۔۔قال (أبوھریرۃ) والذی نفسي بیدہ إنی لأ شبھکم صلاۃ برسول اﷲ (نسائی:۹۰۶)
’’نعیم المجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرۃ کے پیچھے نماز پڑی تو انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی۔ پھر سورہ فاتحہ پڑھی۔سلام پھیرنے کے بعد ابوہریرہ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کےقبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تم سب سے زیادہ میری نماز رسول اللہﷺ کی نماز سے مشابہت رکھتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراً پڑھنا بھی صحیح ہے، جیسا کہ سنن نسائی میں ہے۔
ابوہریرہ نے اونچی آواز میں پڑھیi اور سراً بھی درست ہے جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ اورابن حبان کی روایات سے ظاہر ہے۔
کثرت دلائل کی رو سے عام طور پر سراً پڑھنا بہتر ہے اس مسئلے میں سختی کرنا بہتر نہیں۔
سورۂ فاتحہ پڑھنا
تعوذ و تسمیہ کے بعد آپ سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ (دیکھئے سنن نسائی:۹۰۶)
سورۃ الفاتحہ کے الفاظ یہ ہیں:
{اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ٭ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ٭ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ٭ إیَّاکَ نَعْبُدُ وَإیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ٭ إھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ٭ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ}
’’سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، بہت بخشش کرنے والا بڑا مہربان ،بدلے کے دن (یعنی قیامت) کا مالک ہے،ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ،ہمیں سیدھی (اور سچی) راہ دکھا ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی۔‘‘
سورہ فاتحہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنی چاہئے آپ سورہ فاتحہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے اور ہر آیت پر وقف کرتے تھے۔
ام سلمہ نبی کی قراء ت کی کیفیت بیان کرتی ہیں کہ
قراء ۃ رسول اﷲ )بسم اﷲ الرحمن الرحیم،الحمد ﷲ رب العالمین٭ الرحمن الرحیم٭ ملک یوم الدین٭) یقطع قراء تہ آیۃ آیۃ
’’ آپ کی قراء ت بسم اللہ الرحمن الرحیم ، الحمد للہ رب العالمین۔۔۔ الخ کو ایک ایک آیت کا ٹکڑا بناتے۔‘‘(ابوداود:۴۰۰۱)
تنبیہ:سورہ فاتحہ نماز میں ضروری ہے آپ فرماتے ہیں:
)لاصلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب) (صحیح بخاری:۷۵۶)
’’جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘
اور فرماتے ہیں کہ
)کل صلوٰۃ لا یقرأ فیھا بفاتحۃ الکتاب فھی خداج فھی خداج)
’’ہر نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے،ناقص ہے۔‘‘(ابن ماجہ:۸۴۱)
آمین
سورہ فاتحہ کے بعد آپ ’آمین‘ اونچی آواز سے کہتے تھے۔
دلیل:
عن وائل بن حجر أنہ صلی مع رسول اﷲ قال: فوضع الید الیمنی علی الید الیسری، فلما قال:) ولا الضالین )قال:) آمین)
’’وائل بن حجر سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، پھر جب آپ نے ولاالضالین (جہراً) کہی تو آمین (جہراً) کہی۔‘‘ (صحیح ابن حبان:۱۸۰۲)
وائل بن حجر ہی سے دوسری روایت میں ہے۔
وخفض بھا صوتہ (مسند احمد:۴؍۳۱۶، رقم:۹۰۴۸)
’’اور آپ نے اس (آمین ) کے ساتھ اپنی آواز پست رکھی۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سری نماز میں آمین سراً کہنی چاہئے ۔سری نمازوں میں آمین سراً کہنے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
قرأت سے پہلے کیا پڑھے!
سورہ سے پہلے آپ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے۔
دلیل: انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دن ہم نبی کے پاس تھے کہ آپ نے سر اٹھایا تو ہنس رہے تھے ہم نے پوچھا کہ آپ کو کس چیز نے ہنسایا
قال رسول اﷲ )أنزلت علی سورۃ آنفا)فقرأ بسم اﷲ الرحمن الرحیم{إنَّا أعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِّرَبِّکَ وَانْحَرْ إنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الاَبْتَرُ}(صحیح مسلم:۴۰۰)
’’ آپ نے فرمایا: ابھی ابھی مجھ پر سورۃ نازل ہوئی ہے پھر آپ نے پڑھا بسم اللہ الرحمن الرحیم ، إنا أعطیناک الکوثر…الخ‘‘
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان نے ایک دفعہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھا تو مہاجرین و انصار سخت ناراض ہوئے تھے اس کے بعد معاویہ سورت سے پہلے بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے۔
روایت کے الفاظ یہ ہیں:
أن أنس بن مالک قال صلی معاویۃ بالمدینۃ صلوۃ فجھر فیھا بالقرأۃ فقرا فیھا بسم اﷲ الرحمن الرحیم لام القرآن ولم یقرأ بسم اﷲ الرحمن الرحیم للسورۃ التی بعدھا حتی قضی تلک القرأۃ فلما سلم ناداہ من سمع ذلک من المہاجرین والانصار من کل مکان یا معاویۃ اسرقت الصلوٰۃ أم نسیت فلما صلی بعد ذلک قرأ بسم اﷲ الرحمن الرحیم للسورۃ التی بعد أم القرآن (مستدرک حاکم:۱؍۲۳۳، الام للشافعی:۱؍۹۳)
قرأت قرآن
نبیﷺ نے فرمایا:)اقرأ بأم القرآن وبما شاء اﷲ أن تقرأ)
’’سورہ فاتحہ پڑھو اور (قرآن میں سے) جو اللہ چاہے پڑھو۔‘‘(ابوداود:۸۵۹)
آپ ﷺپہلی رکعت میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورۃ پڑھتے تھے۔
دلیل:
عن عبداﷲ بن أبی قتادۃ عن أبیہ قال:کان النبی یقرأ فی الرکعتین من الظھر والعصر بفاتحۃ الکتاب،وسورۃ سورۃ (صحیح بخاری:۷۶۲،صحیح مسلم ۴۵۱)
اور آخری دو رکعتوں میں (صرف) سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔
دلیل:
عن أبی قتادۃ أن النبی کان یقرأ في الظھر في الأولین بأم الکتاب وسورتین وفي الرکعتین الأخریین بأم الکتاب… الخ
(صحیح بخاری:۷۷۶،صحیح مسلم ۴۵۱)
سکتہ
آپ سورہ فاتحہ سے پہلے اور قرأت کے بعد رکوع سے پہلے سکتہ کرتے تھے۔
دلیل:
قال سمرۃ:حفظت سکتتین فی الصلاۃ سکتہ إذا کبر الامام حتی یقرأ،وسکتۃ إذا فرغ من فاتحۃ الکتاب وسورۃ عند الرکوعt (ابوداود:۷۷۷، ۷۷۸)
’’سمرہ بن جندب کہتے ہیں مجھے نماز میں دو سکتے یاد ہیں ایک سکتہ وہ جب امام اللہ اکبر کہتا ہے اور قراء ت سے پہلے اور دوسرا سکتہ وہ کہ جب امام سورہ فاتحہ اور سورۃ سے فارغ ہوتا ہے۔‘‘
رکوع
آپ رکوع جاتے ہوئے اللہ اکبر کہتے۔
دلیل:
عن أبی ہریرۃ یقول کان رسول اﷲ… ثم یکبر حین یرکع (صحیح بخاری:۷۸۹،صحیح مسلم:۳۹۲)
اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے۔
دلیل:
أن عبد اﷲ بن عمر قال: رأیت النبی افتتح التکبیر فی الصلوۃ فرفع یدیہ حین یکبر حتی یجعلھا حذو منکبیہ وإذا کبر للرکوع فعل مثلہ (صحیح بخاری:۷۳۸)
’’عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے نبی کو دیکھا کہ انہوں نے نماز کے شروع میں تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں مونڈھوں کے برابر اٹھائے اور جب رکوع کیا تو اس طرح کیا۔‘‘
’’آپ(عند الرکوع وبعدہ)رفع یدین کرتے پھر (اس کے بعد)تکبیر کہتے۔
دلیل:
أن ابن عمر قال: کان رسول اﷲ إذا قام للصلوٰۃ رفع یدیہ حتی تکونا بحذو منکبیہ ثم کبر،فإذا أراد أن یرکع فعل مثل ذلک
’’ عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ دونوں کندھوں تک اٹھاتے پھر تکبیر کہتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اسی طرح کرتے تھے۔‘‘(صحیح مسلم:۳۹۰)
ملحوظہ: اگر پہلے تکبیر اور بعد میں رفع یدین کرلیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔
ابوحمیدالساعدی کہتے ہیں کہ
’’ثم یکبر فیرفع یدیہ‘‘ (ابوداود:۷۳۰)
’’پھر آپ تکبیر کہتے اور پھر رفع یدین کرتے۔‘‘
رکوع کی کیفیت
آپ جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنے مضبوطی سے پکڑتے پھر اپنی کمر جھکاتے (اور برابر کرتے)
دلیل:
وإذا رکع أمکن یدیہ من رکبتیہ ثم ہصر ظھرہ(صحیح بخاری:۸۲۸)
’’آپ کا سرنہ تو (پیٹھ سے) اونچا ہوتا اور نہ نیچا (بلکہ برابر ہوتا تھا)
دلیل:
وکان إذا رکع لم یشخص رأسہ ولم یصوبہ (صحیح مسلم:۴۹۸)
آپ اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنوںپر رکھتے تھے پھراعتدال (سے رکوع) کرتے نہ تو سر (بہت) جھکاتے اور نہ اسے (بہت) بلند کرتے یعنی آپ کا سر مبارک آپ کی پیٹھ کی سیدھ میں بالکل برابر ہوتا تھا۔
دلیل:
ثم یرکع ویضع راحتیہ علی رکبتیہ ثم یعتدل فلا یصب رأسہ ولا یقنعv(ابوداود:۷۳۰)
آپ نے رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے گویا کہ آپ نے انہیں پکڑ رکھا ہو اور دونوں ہاتھ کمان کی ڈوری کی طرح تان کر اپنے پہلوؤں سے دور رکھے۔
دلیل:
ثم رکع فوضع یدیہ علی رکبتیہ کأنہ قابض علیھما،ووتر یدیہ فتجافی عن جنبیہ (ابوداود:۷۳۴)
رکوع کی دعا
آپ رکوع میں سبحان ربي العظیم کہتے (رہتے ) تھے۔
دلیل: اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:
ثم رکع فجعل یقول )سبحان ربي العظیم) (صحیح مسلم:۷۷۲)
آپ مذکورہ بالا دعا کا نماز میں پڑھنے کاحکم بھی کرتے۔
دلیل:
عن عقبۃ بن عامر قال:لما نزلت{فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْم} قال رسول اﷲ )إجعلوھا فی رکوعکم) x (ابوداود:۸۶۹)
اس کی تسبیح کی تعداد میں امام ذہبی نے اختلاف کیا ہے۔ میمون بن مہران (تابعی) اور زہری (تابعی) فرماتے ہیں کہ رکوع وسجود میں تین تسبیحات سے کم نہیں پڑھنا چاہئے (مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۲۵۰، رقم ۲۵۷۱)
اس کے علاوہ آپ سے درج ذیل دعائیں بھی ثابت ہیں۔
)سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ، اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيْ)
’’اے اللہ! جو ہمارا رب ہے، تو پاک ہے، ہم تیری تعریف کرتے ہیں الٰہی مجھے بخش دے۔‘‘ (صحیح بخاری:۷۹۴، ۸۱۷، صحیح مسلم: ۴ ۸ ۴ )
یہ دعا آپ کثرت سے پڑھتے تھے۔
)سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ،رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْحِ) (صحیح مسلم:۴۸۷)
’’وہ ہر عیب سے پاک ہے وہ فرشتوں اور جبریل کا رب ہے۔‘‘
)سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ،لَا إلہَ إلَّا أَنْتَ) (صحیح مسلم:۴۸۵)
’’اے اللہ تو پاک ہے اور تیری ہی تعریف ہے۔ نہیں ہے کوئی معبود(برحق) مگر تو ہی۔‘‘
)اَللّٰھُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ،خَشَعَ لَکَ سَمْعِيْ وَبَصَرِيْ وَمُخِّيْ وَعَظْمِيْ وَعَصَبِيْ) (صحیح مسلم:۷۷۱)
’’اے اللہ! میں نے تیرے لئے رکوع کیا تیرے لئے ہی ایمان لایا اور تیرے لئے ہی فرمانبردار ہوا میری سماعت،بصارت، ہڈی اور اس کی مخ اور پٹھے (سب کے سب) تجھ سے ڈر گئے۔‘‘
ان دعاؤں میں سے کوئی دعا بھی پڑھی جاسکتی ہے، ان دعاؤں کا ایک ہی رکوع یا سجدے میں جمع کرنا اور اکٹھا پڑھنا کسی صریح دلیل سے ثابت نہیں تاہم حالت تشہد میں)ثم لیتخیر من الدعاء أعجبہ إلیہ فیدعو)(صحیح بخاری:۸۳۵)کی عام دلیل سے ان دعاؤں کا جمع کرنا بھی جائز ہے۔ واﷲ أعلم
رفع الیدین بعد الرکوع
جب آپ رکوع سے سراٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور)سمع اﷲ لمن حمدہ،ربنا ولک الحمد)کہتے تھے۔
دلیل:
وإذا کبر للرکوع،وإذا رفع رأسہ من الرکوع رفعھما کذلک أیضا،وقال:)سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) (صحیح بخاری:۷۳۵، ۷۳۶)
امام،مقتدی اور منفرد سب کو سمع اﷲ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہنا چاہئے۔ربنا لک الحمد کہنا بھی صحیح اور ثابت ہے۔
جیسا کہ دوسری روایت میں وارد ہے:
ثم یکبر حین یرکع،ثم یقول )سمع اﷲ لمن حمدہ)حین یرفع صلبہ من الرکوع،ثم یقول وھو قائم:)ربنا لک الحمد)(صحیح بخاری:۷۸۹)
*بعض اوقات ربنا ولک الحمد جہراً کہنا بھی جائز ہے۔
دلیل: عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج سے روایت ہے کہ سمعت أبا ھریرۃ یرفع صوتہ باللھم ربنا ولک الحمدz(مصنف ابن ابی شیبہ:۱؍۲۴۸، رقم:۲۵۵۶)
’’میں نے ابوہریرہ کو اونچی آواز کے ساتھ اللھم ربنا ولک الحمد پڑھتے سنا۔‘‘
*اس کے علاوہ رکوع کے بعد درج ذیل دعائیں بھی ثابت ہیں۔
)é رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمٰوَاتِ وَمِلْئَ الاَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ أَھْلَ الثَّنَائِ وَالْمَجْدِ،أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ،وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ) (صحیح مسلم:۴۷۷)
’’اے ہمارے پروردگار! تیرے ہی لئے ہر طرح کی تعریف ہے۔آسمانوں اور زمین اور ہر اس چیز کے بھراؤ برابر (تیری تعریف ہے) جو تو چاہے بندے نے تیری حمد و ثنا بیان کی تو انہی کا حقدار ہے اور ہم سب تیرے بندے ہیں تو جو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روک دے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں اور سعادت مند کو اس کی سعادت مندی تیرے عذاب سے بچا نہیں سکی۔‘‘
* )رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیْرًَا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ) (صحیح بخاری:۷۹۹)
’’اے ہمارے پروردگار!آپ کے لئے ہی ساری تعریف ہے، بہت زیادہ، پاکیزہ اور بابرکت تعریف۔‘‘
رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنا
رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنے چاہئیں یا نہیں اس مسئلے میں صراحت سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے لہٰذا دونوں طرح عمل جائز ہے مگر بہتر یہی ہے کہ قیام میں ہاتھ نہ باندھے جائیں۔امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے چاہئیں یا چھوڑ دینے چاہئیں تو انہوں نے فرمایا: أرجو أن لا یضیق ذلک إن شاء اﷲ (مسائل احمد روایۃ صالح بن احمد بن حنبل:۶۱۵)
’’مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ اس میں کوئی تنگی نہیں ہے۔‘‘
سجدہ
پھر آپ تکبیر(اللہ اکبر) کہہ کر (یا کہتے ہوئے) سجدے کے لئے جھکتے۔
دلیل:ثم یقول )اﷲ أکبر) حین یہوی ساجدًا( بخاری:۸۰۳،مسلم:۳۲۹)
آپ نے فرمایا: )إذا سجد أحدکم فلا یبرک کما یبرک البعیر ولیضع یدیہ قبل رکبتیہ) (ابوداود:۸۴۰)
’’جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے (بلکہ) اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے (زمین پر) رکھے‘‘ اور آپ کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا۔‘‘
عبداللہ بن عمر اپنے گھٹنوں سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ(زمین پر)رکھتے تھے اور فرماتے کہ رسول اللہﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ä
جس روایت میں آیا ہے کہ نبی کریمﷺ سجدہ میں جاتے وقت پہلے گھٹنے اور پھر ہاتھ رکھتے تھے۔ (ابوداود:۸۳۸) شریک بن عبداللہ القاضی کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے اس کے تمام شواہد بھی ضعیف ہیں۔
*سجدہ سات اعضاء یعنی دونوں گھٹنوں دونوں ہاتھوں اور چہرے کے اعتماد سے کرنا چاہئے۔
دلیل:
آپ نے فرمایا:)أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم علی الجبھۃ) وأشار بیدہ علی أنفہ،)والیدین والرکبتین وأطراف القدمین )(صحیح بخاری:۸۱۲،صحیح مسلم:۴۹۰)
’’مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے (ان سب کی طرف) اشارہ کیا کہ پیشانی،ناک، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں قدموں کے پنجے۔‘‘
* آپ فرماتے تھے: )إذا سجد العبد سجد معہ سبعۃ أطراف: وجھہ وکفاہ ورکبتاہ وقدماہ) (صحیح مسلم:۴۹۱)
’’جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو سات اطراف (اعضائ) اس کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں چہرہ ، ہتھیلیاں، دو گھٹنے اور دو پاؤں۔‘‘
معلوم ہوا کہ سجدہ میں ناک پیشانی، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کا زمین پر لگانا ضروری (فرض ) ہے۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں:
)لا صلوۃ لمن لم یضع أنفہ علی الأرض) å(دارقطنی:۱؍۳۷۸، رقم:۱۳۰۳)
’’جو شخص (نماز میں) اپنی ناک، زمین پر نہ رکھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘
* آپ سجدے میں ناک اور پیشانی زمین پر (خوب) جما کر رکھتے، اپنے بازؤں کو اپنے پہلوؤں (بغلوں سے دور کرتے اور دونوں ہتھیلیاں کندھوں کے برابر زمین) پر رکھتے تھے۔‚ثم سجد فأمکن أنفہ وجبہتہ ونحی یدیہ عن جنبیہ (ابوداود:۷۳۴)
وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ :فلما سجد وضع رأسہ بذلک المنزل من بین یدیہ (ابو داود:۷۲۶)
’’آپ نے جب سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان اپنے سر کو رکھا۔‘‘
* سجدے میں آپ اپنے دونوں بازؤں کو اپنی بغلوں سے ہٹا کر رکھتے تھے۔
دلیل:
’’ثم یھوی إلی الارض فیجافی یدیہ عن جنبیہ‘‘„ (ابوداود:۷۳۰)
* آپ سجدے میں اپنے ہاتھ (زمین پر)رکھتے نہ تو انہیں بچھا دیتے اور نہ (بہت) سمیٹ لیتے اپنے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھتے۔
دلیل:
’’فإذا سجد وضع یدیہ غیر مفترش ولا قابضھما واستقبل باطراف أصابع رجلیہ القبلۃ‘‘ (صحیح بخاری:۸۲۸)
*سجدہ میں آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آجاتی تھی۔
دلیل:
’’عن عبد اﷲ بن مالک أن النبی کان إذا صلی فرج بین یدیہ حتی یبدو بیاض إبطیہ‘‘ (صحیح بخاری:۳۹۰،صحیح مسلم۴۹۵)
*سجدہ کرتے ہوئے بازؤں کو زمین پربچھانا نہیں چاہئے۔
دلیل:
آپ فرماتے تھے کہ)اعتدلوا فی السجود،ولا ینبسط أحدکم ذراعیہ انبساط الکلب )(صحیح بخاری:۸۲۲، صحیح مسلم:۴۹۳)
’’سجدے میں اعتدال کرو، کتے کی طرح بازو نہ بچھا دو۔‘‘

اس حکم میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔ لہٰذا عورتوں کوبھی چاہئے کہ سجدے میں اپنے بازو نہ پھیلائیں۔
*آپ جب سجدہ کرتے تو اگر بکری کابچہ آپ کے بازؤں کے درمیان سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا تھا۔
دلیل: ’’عن میمونہ قالت: کان النبی إذا سجد لو شاء ت بھمۃ أن تمر بین یدیہ لمرت‘‘ (صحیح مسلم:۴۹۶)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے سینے اور پیٹ کو زمین سے بلند رکھتے تھے )صلوا کما رأیتمونی أصلی)کے عام حکم کے تحت عورتوں کیلئے بھی یہی حکم ہے۔
سجدے کی دعائیں
سجدے میں بندہ اپنے رب کے انتہائی قریب ہوتا ہے لہٰذا سجدے میں خوب دعا کرنی چاہئے۔ آپ نے فرمایا: )أقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد فأکثروا الدعائ) (صحیح مسلم:۴۸۲)
’’بندہ اپنے رب کے قریب ترین ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو پس دعا زیادہ سے زیادہ کیا کرو۔‘‘
سجدے میں درج ذیل دعائیں پڑھنا ثابت ہے۔
)aسُبْحَانَ رَبِّیَ الاَعْلیٰ) (صحیح مسلم:۷۷۲)
’’میرا بلند پروردگار(ہر عیب سے) پاک ہے۔‘‘
)bسُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ،اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِي) (صحیح بخاری:۷۹۴، ۸۱۷، صحیح مسلم: ۴۸۴)
’’اے ہمارے پروردگار! تو (ہرعیب سے) پاک ہے ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں۔ اے اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘
)cسُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ،لَا اِلَہَ إلَّا أَنْتَ) (صحیح مسلم:۴۸۷)
’’اے اللہ! تو (ہرعیب سے) پاک ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں تیرے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے۔‘‘
)dسُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْحِ) (صحیح مسلم:۴۸۷)
’’(الٰہی تو) نہایت پاک اور قدوس ہے، فرشتوں اور روح الامین (جبریل) کا پروردگار ہے۔‘‘
)اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِيْ کُلَّہٗ،دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ،وَأَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ،وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ )(صحیح مسلم:۴۸۳)
’’اے اللہ میرے تمام گناہوں کو بخش دے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں، ماضی کے ہوں اور آئندہ کے ہوں، علانیہ اور خفیہ ہوں۔‘‘
)اَللّٰھُمّ لَکَ سَجَدْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ،وَلَکَ أَسْلَمْتُ،سَجَدَ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَصَوَّرَہٗ،وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ،تَبَارَکَ اﷲُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ) (صحیح مسلم :۷۷۱)
’’اے اللہ! میں نے تیرے لئے سجدہ کیا میں تجھ پر ایمان لایا،تیرا فرمانبردار ہوا، میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے تخلیق کیا، اسے اچھی صورت دی، اس کے کان اور آنکھ کو کھولا بہترین تخلیق کرنے والا اللہ، بڑا ہی بابرکت ہے۔‘‘
یہ دعا بھی نبی سے ثابت ہے:
)اَللّٰھُمّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وِبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عَقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ،أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلـٰی نَفْسِکَ) (صحیح مسلم:۴۸۶)
’’ الٰہی میں غصے سے تیری رضا کی پناہ مانگتا ہوں اور تیری بخشش کی تیرے عذاب سے اور تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔مجھ میں طاقت نہیں کہ تعریف کر سکوں تو ایسا ہی ہے جیسی تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔‘‘
جو دعا باسند صحیح ثابت ہوجائے سجدے میں اس کا پڑھنا افضل ہے، رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنا منع ہے۔
*آپ سجدے کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کی ایڑھیاں ملادیتے تھے اور ان کی انگلیوں کا رخ قبلے کی طرف ہوتا تھا۔
دلیل:
’’قالت عائشۃ زوج النبی فقدت رسول اﷲ وکان معی علی فراش فوجدتہ ساجداً راصا عقبیہ مستقبلا باطراف أصابعہ القبلۃ‘‘… (معانی الآثار:۱؍۲۳۴، بیہقی :۲؍۱۱۶)
’’ آپ کی زوجہ محترمہ عائشہ فرماتی ہیں: میں نے ایک دن آپ کو گم پایا جب کہ آپ میرے بستر پر تھے ،پس میں نے آپ کو اس حالت میں پایا کہ آپسجدہ میں دونوں ایڑیوں کو اوپر اٹھائے ہوئے اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف کیے ہوئے تھے۔‘‘
*سجدے میں آپ اپنے دونوں قدم کھڑے رکھتے تھے۔
دلیل:
عن عائشۃ قالت فقدت رسول اﷲ ﷺ لیلۃ من الفراش فالتمستہ فوقعت یدی علی بطن قدمہ،وہو فی المسجد وہما منصوبتان (صحیح مسلم:۴۸۶)
’’ عائشہ سے روایت ہے کہتی ہیں میں نے ایک رات آپ کو بستے سے غائب پایا تو ٹٹولنے پر میرا ہاتھ آپ کے دونوں قدموں کے تلووں کو لگا آپ اس وقت سجدہ میں تھے اور آپ کے دونوں پاؤں گڑے ہوئے تھے۔‘‘
* آپ تکبیر (اللہ اکبر) کہہ کر سجدے سے اٹھتے۔
دلیل: ’’ ثم یکبر حین یرفع رأسہ‘‘ (صحیح بخاری:۷۸۹، صحیح مسلم :۳۹۲)
*آپ اللہ اکبر کہہ کر سجدے سے سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں بچھا کر اس پربیٹھ جاتے۔
دلیل: ’’ثم یسجد ثم یقول )اﷲ أکبر) ویرفع رأسہ ویثنی رجلہ الیسری فیقعد علیھا‘‘ †(ابوداود:۷۳۰)
* عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ ’’إنما سنۃ الصلاۃ أن تنصب رجلک الیمنی وتثنی الیسری‘‘ (صحیح بخاری:۸۲۷)
’’نماز میں (نبی) کی سنت یہ ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا کرکے بایاں پاؤں بچھا دے۔‘‘
*آپ سجدے سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
دلیل: افتتح التکبیر فی الصلاۃ فرفع یدیہ… وإذا کبر للرکو ع فعل مثلہ وإذا قال )سمع اللہ لمن حمدہ) ولا یفعل ذلک حین یسجد ولا حین یرفع رأسہ من السجود (صحیح بخاری:۷۳۸)
’’ نماز کے شروع میں تکبیر کہتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے… اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تو ایسا ہی کرتے اور جب سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے تو اسی طرح کرتے اور سجدے اور سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے ایسا نہ کرتے۔‘‘
جلسہ
آپ سجدے سے اٹھ کر (جلسے میں) تھوڑی دیر بیٹھتے۔
دلیل: ’’ثم رفع راسہ ھنیۃ‘‘ (صحیح بخاری:۸۱۸)
* آپ اتنی دیر تک بیٹھتے کہ کوئی سمجھتا کہ آپ بھول گئے ہیں۔
دلیل: إذا رفع رأسہ من الرکوع قام حتی یقول القائل: قد نسي وبین السجدتین حتی یقول القائل قد نسي (صحیح بخاری:۸۲۱، صحیح مسلم:۴۷۲)
* آپ جلسہ میں یہ دعا پڑھتے تھے:
(رَبِّ اغْفِرْلِيْ،رَبِّ اغْفِرْلِي) ‡(ابوداود:۸۷۴)
جلسہ میں تشہد کی طرح اشارہ کرنا ثابت نہیں۔ˆ
* آپ تکبیر (اللہ اکبر) کہہ کر (دوسرا) سجدہ کرتے ۔
دلیل:
(ثم یکبر حین یسجد ) (صحیح بخاری:۷۸۹، صحیح مسلم:۳۹۲)
* آپ جب طاق (پہلی یا تیسری) رکعت میں دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے تو بیٹھ جاتے تھے۔
دلیل:
فإذا کان فی وتر من صلاتہ لم ینھض حتی یستوي قاعدًا‘‘
’’پس جب آپ نماز کی طاق رکعت میں ہوتے تواچھی طرح بیٹھے بغیر نہ اٹھتے تھے۔‘‘(صحیح بخاری:۸۲۳)
* دوسرے سجدے سے آپ جب اٹھتے تو بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آجاتی۔
دلیل:
ثم یسجد ثم یقول: (اﷲ أکبر) ویرفع رأسہ ویثنی رجلہ الیسری فیقعد علیھا حتی یرجع کل عظم إلی موضعہ‰ (ابوداود:۷۳۰)
*اور اس کے علاوہ نبی کا حکم بھی اسی عمل ہی کا ہے۔
آپ ایک آدمی کو نماز سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں: (ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا ثم ارفع حتی تطمئن جالسا )(صحیح بخاری:۶۲۵۳)
’’ پھر تو سجدہ کر حتی کہ اچھی طرح سجدہ کر لے پھر سر اٹھا حتی کہ اطمینان سے بیٹھ جائے۔‘‘
ملحوظہ: سجدہ کرتے وقت، سجدے سے سراٹھاتے وقت اور سجدوں کے درمیان رفع یدین کرنا ثابت نہیں۔
ایک رکعت مکمل ہوگئی اب آپ وتر پڑھ رہے ہیں تو پھر تشہد درود اور دعائیں (جن کا ذکر آگے آرہا ہے) پڑھ کر سلام پھیر لیں۔
دوسری رکعت
* آپ زمین پر (دونوں ہاتھ رکھ کر) اعتماد کرتے ہوئے (دوسری رکعت کے لئے) اٹھ کھڑے ہوتے۔
دلیل:
عن أیوب عن أبی قلابۃ قال: جاء نا مالک بن الحویرث فصلی بنا فی مسجدنا ہذا فقال:إنی لأصلی بکم وما أرید الصلاۃ التی أرید أن أریکم کیف رأیت رسول اﷲ یصلی قال أیوب فقلت لأبی قلابۃ:وکیف کانت صلاتہ؟ قال:مثل صلاۃ شیخنا ھذا یعنی: عمرو بن سلمۃ قال أیوب: وکان ذلک الشیخ یتم التکبیر وإذا رفع رأسہ عن السجدۃ الثانیۃ جلس واعتمد علی الارض ثم قام
’’ ایوب سے روایت ہے کہ ابی قلابہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس مالک بن حویرث تشریف لائے۔انہوں نے اس مسجد میں ہمیںنماز پڑھائی اور فرمانے لگے کہ میرا ارادہ نماز پڑھنے کا نہیں تھا،لیکن صرف اس خاطر کہ تمہیں دکھاؤں کہ میں نے کس طرح نبی کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ایوب کہتے ہیں میں نے ابوقلابہ سے کہا ان(مالک بن حویرث)کی نماز کی کیا حالت تھی۔ ابوقلابہ کہنے لگے ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ کی نماز کی طرح ایوب سنتے ہیں وہ شیخ تکبیر مکمل کرتے اور جب دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو بیٹھتے اور زمین پر(ہاتھوں کی) ٹیک لگاتے پھر کھڑے ہوتے۔‘‘(صحیح بخاری:۸۲۴)
* ابن عمر کا عمل بھی اسی پر تھا۔
ازرق بن قیس سے روایت ہے کہ میں نے (عبداللہ) بن عمر کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں پراعتماد کرکے کھڑے ہوئے۔‹(مصنف ابن ابی شیبہ:۱؍۳۹۵، رقم:۳۹۹۶)
* آپ جب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے تو الحمدللہ رب العالمین سے قرأت شروع کرتے اور سکتہ نہ کرتے تھے۔
دلیل:
إذا نھض من الرکعۃ الثانیۃ استفتح القراء ۃ بـ {الحمد ﷲ رب العالمین}ولم یسکت(صحیح مسلم:۵۹۹)
سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ذکر گزر چکا۔
{فَإذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاْسَتِعْذْ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ} (النحل:۹۸) کی رو سے بسم اللہ سے پہلے أعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم پڑھنا بھی جائز ہے بلکہ بہتر ہے۔ باقی تفصیل پہلی رکعت کے بیان میں گزر چکی ہے۔
آخری تشہد میں ہاتھوں کی حالت
* دوسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد (تشہد کے لئے) بیٹھ جانے کے بعد آپ اپنا دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھتے تھے۔
دلیل:
إذا قعد فی الصلاۃ …وضع یدہ الیسریٰ علی رکبتہ الیسریٰ ووضع یدہ الیمنی علی فخذہ الیمنی (صحیح مسلم:۵۷۹)
* آپ اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ترپن کا عدد (یعنی حلقہ) بناتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔ (یعنی اشارہ کرتے ہوئے دعا کرتے)
دلیل:
وعقد ثلاثۃ وخمسین وأشار بالسبابۃ (صحیح مسلم:۵۸۰)
ïیہ بھی ثابت ہے کہ آپ اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھتے اور انگوٹھے کو درمیانی انگلی سے ملاتے (یعنی حلقہ بناتے) اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔
دلیل: وأشار بإصبعہ السبابۃ ووضع إبھامہ علی أصبعہ الوسطی(صحیح مسلم:۵۷۹) لہٰذا دونوں طرح عمل جائز ہے۔
*آپ اپنی دائیں کہنی کو دائیں ران پر رکھتے تھے۔
دلیل:
وحد مرفقہ الأیمن علی فخذہ الیمنی(ابوداود:۷۲۶)
* آپ اپنی دونوں ذراعیںñاپنی رانوں پر رکھتے تھے۔
دلیل:
وضع ذراعیہ علی فخذیہò(نسائی :۱۲۶۵)
* آپ جب تشہد کے لئے بیٹھتے تو شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔
دلیل:
کان إذا قعد فی التشہد … وأشار بالسبابۃ (صحیح مسلم:۵۸۰)
* آپ انگلی اٹھا دیتے اس کے ساتھ تشہد میںدعا کرتے تھے۔
دلیل:
قد حلق الابھام والوسطی،ورفع التي تلیھما یدعو بھا في التشھد(ابن ماجہ:۹۱۲)
* آپ شہادت والی انگلی کو تھوڑا ساجھکا دیتے۔
دلیل: عن نمیر الخزاعي قال:رأیت النبی واضعاً ذراعہ الیمنی علی فخذہ الیمنی رافعا اصبعہ السبابۃ قد حناھا شیئا(ابوداود:۹۹۱)
’’ نمیز خزاعی کہتے ہیں میں نے نبی کو (ـتشہد میں) دیکھا کہ آپ اپنی دائیں بازو کو دائیں ران پر رکھا ہوا تھا او راس ہاتھ کی شہادت والی انگلی کو تھوڑا سا خمیدہ کر کے اٹھایا ہوا تھا۔‘‘
* آپ اپنی شہادت والی انگلی کو حرکت(دیتے) رہتے تھے۔
دلیل: ثم رفعہ اصبعہ فرأیتہ یحرکھا یدعوبھا‘(نسائی:۱۲۶۹)
٭ آپ اپنی شہادت کی انگلی کو قبلہ رخ کرتے اور اسی کی طرف دیکھتے رہتے تھے۔
دلیل: وأشار بأصبعہ التي تلي الإبھام فی القبلۃ ورمی ببصرہ إلیھا أونحوھا ثم قال:ہکذا رأیت رسول اﷲ ! ’ (نسائی:۱۱۶۱)
*آپ دو رکعتوں کے بعد والے (یعنی پہلے) تشہد اور چار رکعتوں کے بعد والے (یعنی آخری) تشہد دونوں تشہدوں میں یہ اشارہ کرتے تھے۔
دلیل: کان رسول اﷲ إذا جلس فی الثنتین أو في الأربع یضع یدیہ علی رکبتیہ ثم أشار بأصبعہ“ (نسائی:۱۱۶۲)
لا الہ پر انگلی اٹھانا اور الاﷲ پررکھ دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، بلکہ احادیث کے عموم سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ شروع سے آخر تک حلقہ بنا کر شہادت والی انگلی اٹھائی جائے۔ جیسا کہ ترمذی” اور نسائی• کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ نے ایک شخص کو دیکھا جو (تشہد میں) دو انگلیوں سے اشارہ کررہا تھا تو آپ نے فرمایا: ’’أحّد أحّد‘‘ یعنی صرف ایک انگلی سے اشارہ کرو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ شروع تشہد سے لے کر آخر تک شہادت والی انگلی اٹھائی رکھنی چاہئے۔
* آپ تشہد میں درج ذیل دعا (التحیات) سکھاتے تھے۔
اَلتَّحِیَّاتُ ﷲِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ–اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِیْنَ، أشْھَدُ أنْ لَّا إلٰہَ إلاَّ اﷲُ وَأَشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ(صحیح بخاری:۱۲۰۲)
’’قولی، بدنی اور مالی عبادات صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں۔ اے نبی آپ پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی، اس کی رحمت اور برکتیں نازل ہوں اور ہم پر بھی اور اللہ کے دوسرے نیک بندوں پر بھی سلامتی نازل ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
* پھر آپ درود پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحمد وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إبْرَاھِیْمَ إنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إبْرَاھِیْمَ إنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ (صحیح بخاری:۳۳۷۰)
’’یااللہ! رحمت نازل فرما محمد پر اور اُن کی آل پر جس طرح تو نے رحمت فرمائی ابراہیم ؑ اور اُن کی آل پر۔ بے شک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! برکت فرما محمد اور ان کی آل پر جس طرح تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم ؑ اور ان کی آل پر۔ بلا شبہ تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔‘‘
* دو رکعتیں مکمل ہوگئیں، اب اگر دو رکعتوں والی نماز (مثلاً صلوٰۃ الفجر) ہے تو دعا پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دیں اگر تین یا چار رکعتوں والی نماز ہے تو تکبیر کہہ کر کھڑے ہوجائیں۔
پہلے تشہد میں درود پڑھنا انتہائی بہتر اور موجب ثواب ہے، عام دلائل میں قولوا کے ساتھ اس کا حکم آیا ہے کہ ’درود پڑھو‘ اس حکم میں آخری تشہد کی کوئی تخصیص نہیں ہے، تاہم اگر کوئی شخص پہلے تشہد میں درود نہ پڑھے اور صرف التحیات پڑھ کر ہی کھڑا ہوجائے تو یہ بھی جائز ہے جیسا کہ مسند احمد—کی روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے التحیات (عبدہ ورسولہ تک)سکھا کر فرمایا:’’پھر اگر نماز کے درمیان (یعنی اول تشہد) میں ہو تو (اٹھ) کھڑا ہوجائے۔‘‘ اگر دوسری رکعت پر سلام پھیرا جا رہا ہے تو تورک کرنا بہتر ہے اور نہ کرنا بھی جائز ہے۔
* پھر جب آپ دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو (اٹھتے وقت) تکبیر(اللہ اکبر) کہتے۔
دلیل: ویکبر حین یقوم من الثنتین بعد الجلوس (صحیح بخاری:۷۸۹، ۸۰۳، صحیح مسلم:۸۶۸)
* اور رفع یدین کرتے۔
دلیل: وإذا قام من الرکعتین رفع یدیہ ورفع ذلک ابن عمر إلی النبی(صحیح بخاری:۷۳۹)
’’ ابن عمر جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو اپنے دو نوں ہاتھ اٹھاتے آپ نے اس طریقہ کو مرفوعا بیان کیا ہے۔‘‘
* تیسری رکعت بھی دوسری رکعت کی طرح پڑھنی چاہئے سوائے یہ کہ تیسری اور چوتھی (آخری دونوں) رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئے اس کے ساتھ کوئی سورت وغیرہ نہیں ملانی چاہئے جیسا کہ ابوقتادہ کی بیان کردہ حدیث سے ثابت ہے۔ (صحیح بخاری:۷۷۶)
* اگر تین رکعتوں والی نماز (مثلاً صلوٰۃ المغرب) ہے تو تیسری رکعت مکمل کرنے کے بعد دوسری رکعت کی طرح تشہد اور درود پڑھ لیا جائے اور دعا (جس کا ذکر آگے آرہا ہے) پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دیا جائے۔ (صحیح بخاری :۱۰۹۲)
* اگر چار رکعتوں والی نماز ہے تو پھر دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر چوتھی رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے۔ ( صحیح بخاری:۸۲۳)
* چوتھی رکعت بھی تیسری رکعت کی طرح پڑھے یعنی صرف سورۃ فاتحہ ہی پڑھے تاہم تیسری اور چوتھی رکعتوں میںسورہ فاتحہ کے علاوہ سورت وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔
دلیل: صحیح مسلم میں سعید خدری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ
’’کنا نحزر قیام رسول اﷲ فی الظھر والعصر، فحزرنا قیامہ فی الرکعتین الأولیین من الظھر قدر قراء ۃ {الٓمّ تَنْزِیْل} السجدۃ وحزرنا قیامہ فی الاخریین قدر النصف من ذلک وحزرنا قیامہ فی الرکعتین الأولیین من العصر علی قدر قیامہ من الأخریین من الظھر، وفي الأخریین من العصر علی النصف من ذلک‘‘
’’ہم ظہر اور عصر کی نماز میں رسول اللہﷺ کے قیام کا اندازہ لگاتے، ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں آپ کے قیام کااندازہ الم تنزیل السجدہ (تین آیات) جتنا ہوتا اور آخری دو رکعتوں میں آپ کے قیام کے متعلق ہمارا اندازہ اس سورہ سے نصف پر، اسی طرح عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کانصف اور آخری دو رکعتوں میں عصر کی پہلی دو کا نصف۔‘‘(صحیح مسلم:۴۵۲)
*آپ چوتھی رکعت میں ’تورک‘ کرتے تھے۔
دلیل: وإذا جلس فيٍ الرکعۃ الآخرۃ قدم رجلہ الیسری ونصب الأخری وقعد علی مقعدتہ (صحیح بخاری:۸۲۸)
’’ اور جب آپ آخری رکعت میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو (دائیں پنڈلی کے نیچے سے) نکال لیتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کر لیتے اور اپنی مقعد پر بیٹھ جاتے۔‘‘
* چوتھی رکعت مکمل کرنے کے بعد التحیات اور درود پڑھے جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
* پھر اس کے بعد جو دعا پسند ہو (عربی زبان میں) پڑھ لے۔
دلیل: آپ نے فرمایا:
(ثم لیتخیر من الدعاء أعجبہ إلیہ فیدعو )(صحیح بخاری:۸۳۵)
چند دعائیں درج ذیل ہیں جنہیں رسول اللہ پڑھتے یا حکم دیتے تھے۔
اَللّٰھُمَّ إنِّیْ أعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ،وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ،وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ (صحیح بخاری:۱۳۷۷، صحیح مسلم:۵۸۸)
’’یا اللہ! میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں اور آگ کے عذاب سے اور موت و حیات کے فتنہ سے اور مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
رسول اللہﷺ اس دعا کا حکم دیتے تھے۔ (دیکھئے: صحیح مسلم ۵۹۰) لہٰذا یہ دعا تشہد میں ساری دعاؤں سے بہتر ہے طاؤس (تابعی) سے مروی ہے کہ وہ اس دعا کے بغیر نماز کے اعادے کا حکم دیتے تھے۔ (دیکھئے: مسلم: ۵۹۰)
(اَللّٰھُمَّ إنِّیْ أعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَأعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَفِتْنَۃِ الْمَمَاتِ، اَللّٰھُمَّ إنِّی أعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَأثَمِ وَالْمَغْرَمِ )(صحیح بخاری: ۸۳۲)
’’یا اللہ! میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں۔الٰہی! میں تجھ سے مسیح دجال کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں اور میں تجھ سے موت و حیات کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں اے اللہ! میں تجھ سے گناہوں اور قرض (کے بوجھ) سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
(اَللّٰھُمَّ إنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إلَّا أنْتَ، فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ، وَارْحَمْنِیْ إنَّکَ أنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ )
’’یا اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا ہے اور تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں لہٰذا تو اپنی جناب سے مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما کیونکہ تو ہی بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے۔‘‘(صحیح بخاری:۸۳۴)
(اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا أخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ ،وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُوَخِّرُ لَا اِلٰہَ إلاَّ أَنْتَ ) (صحیح مسلم:۷۷۱)
’’ الٰہی میرے اگلے پچھلے،خفیہ اور ظاہر گناہ معاف فرما دے اور جو میں زیادتی کر بیٹھا اور وہ گناہ جن کو تو جانتا ہے معاف فرما دے تو ہی(عزت میں) آگے کرنے والا اور پیچھے ہٹانے والا ہے تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔‘‘
ان کے علاوہ جو دعائیں ثابت ہیں ان کا پڑھنا جائز اور موجب ثواب ہے مثلاً آپ یہ دعا بکثرت پڑھتے تھے۔
(اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ )(صحیح بخاری:۴۵۲۲)
’’اے اللہ! اے ہمارے رب ہماری دنیا وآخرت اچھی بنا دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے۔‘‘
سلام
* دعا کے بعد آپ دائیں اور بائیں سلام پھیر دیتے تھے۔(صحیح مسلم:۵۸۲)
* سلام پھیرتے ہوئے آپ کی گالوں کی سفیدی دائیں بائیں کے مقتدیوں کو نظر آتی اور سلام کے یہ الفاظ ہوتے۔
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ،السلام علیکم ورحمۃ اﷲ
دلیل :روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
عن عبداﷲ (قال) أن النبی کان یسلم عن یمینہ وعن شمالہ حتی یری بیاض خدہ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ،السلام علیکم ورحمۃ اﷲ˜(ابوداود:۹۹۶)
* سلام کے یہ الفاظ بھی نبی سے ثابت ہیں۔
دائیں طرف السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ اور بائیں طرف السلام علیکم ورحمۃ اﷲ™(ابوداود:۹۹۷)
اگر امام نماز پڑھا رہا ہوتو جب وہ سلام پھیر دے تو سلام پھیرنا چاہئے۔ عتبان بن مالک فرماتے ہیں کہ’’صیلنا مع النبيٍﷺ فسلمنا حین سلم‘‘
’’ہم نے نبی کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیرا۔‘‘ (صحیح بخاری:۸۳۸)
* عبداللہ بن عمر پسند کرتے تھے کہ جب امام سلام پھیرلے تو (پھر) مقتدی سلام پھیریںé لہٰذا بہتر یہی ہے کہ امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد ہی مقتدی سلام پھیرے، اگر امام کے ساتھ ساتھ، پیچھے پیچھے بھی سلام پھیر لیا جائے تو جائز ہے۔š
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
نماز کے بعد کے اذکار

* عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ
’’کنت أعرف انقضاء صلوٰۃ النبی بالتکبیر‘‘(بخاری:۸۴۲)
’’میں نبی کی نماز کا اختتام تکبیر (اللہ اکبر) سے پہچان لیتا تھا۔‘‘
* ایک روایت میں ہے کہ
’’ما کنا نعرف انقضاء صلوٰۃ رسول اﷲ إلا بالتکبیر‘‘›
’’ہمیں رسول اللہ کی نماز کا ختم ہونا معلوم نہیں ہوتا تھامگر تکبیر(اللہ اکبر سننے)کے ساتھ ۔‘‘ (صحیح مسلم:۵۸۳)
* آپ نماز (پوری کرکے) ختم کرنے کے بعد تین دفعہ استغفار کرتے (أسْتَغْفِرُاﷲَ، أسْتَغْفِرُاﷲَ،أسْتَغْفِرُاﷲََ) اور فرماتے( اَللّٰھُمَّ أنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالإکْرَامِ) (صحیح مسلم:۵۹۱)
’’یاالٰہی! تو السلام ہے اور تیری ہی طرف سے سلامتی ہیـ۔ اے جلال اور اکرام والے! تو بڑا ہی بابرکت ہے۔‘‘
* آپ درج ذیل دعائیں بھی پڑھتے تھے:
(لَا اِلٰہَ إلاَّ اﷲُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، اَللّٰھُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ،وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ) (صحیح بخاری:۸۴۴، صحیح مسلم:۵۹۳)
’’اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی کی بادشاہت ہے اور ساری تعریف اسی کے لئے ہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یااللہ! جس کو تو دے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے تو روک دے اسے کوئی دے نہیں سکتا کسی بزرگی والے کو اس کی بزرگی تیرے عذاب سے بچا نںیے سکتی۔‘‘
*آپ نے معاذ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے معاذ! ہرنما زکے بعد یہ ذکر کرنانہ چھوڑنا۔
(اَللّٰھُمَّ !أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) (ابوداود:۱۵۲۲)
’’اے ہمارے رب! اپنے ذکر ،شکر اور اچھی عبادت کے لئے میری مدد فرما۔‘‘
* آپ نے فرمایا:جو شخص ہر نماز کے بعد تینتیس (۳۳)دفعہ تسبیح (سبحان اللہ) تینتیس(۳۳) دفعہ حمد (الحمدللہ) اور تینتیس (۳۳) دفعہ تکبیر (اللہ اکبر) پڑھے اور آخری دفعہ ’’لَا اِلٰہَ إلَّا اﷲُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ‘‘ پڑھے تو اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اگرچہ وہ (گناہ) سمندر کی جھاگ کے برابر (یعنی بہت زیادہ) ہوں۔(صحیح مسلم:۵۹۷)
چونتیس (۳۴)دفعہ’ اللہ اکبر‘ کہنا بھی ثابت ہے۔ (صحیح مسلم:۵۹۶)
* آپ نے عقبہ بن عامر کو حکم فرمایا کہ ہر نماز کے بعد معوذات (وہ سورتیں جو قل أعوذ سے شروع ہوتی ہیں) پڑھیں۔
دلیل : عن عقبۃ بن عامر قال:’’أمرنی رسول اللہ أن أقرأ بالمعوذات دبر کل صلاۃ‘‘÷(ابوداود:۱۵۲۳)
اور وہ معوذات یہ ہیں:
{قُلْ ھُوَ اﷲُ أحَدٌ اَﷲُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًا أحَدٌ} ’’آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے، اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔‘‘
{قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إذَا وَقَبَ وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِیْ الْعُقَدِ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إذَا حَسَدَ}
’’آپ کہہ دیجئے کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے جو اس نے پیدا کی ہے اور اندھیری رات کی برائی سے جب اس کا اندھیرا پھیل جائے اور گرہ لگا کر ان میں پھونکنے والیوں کی برائی سے (بھی) اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وہ حسد کرے۔‘‘
{قُلْ أعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ إلٰہِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ}
’’آپ کہہ دیجئے کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں لوگوں کے مالک کی (اور) لوگوں کے معبود کی (پناہ میں) وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے کی برائی سے جو لوگوں کے سینوں میںوسوسہ ڈالتا ہے خواہ وہ جن ہو یا انسانــ۔‘‘
*آپ نے فرمایا: (من قرأ آیۃ الکرسی فی دبر کل صلوٰۃ مکتوبۃ، لم یمنعہ من دخول الجنۃ إلا أن یموت)
’’جس نے ہر فرض نماز کے آخر میں (سلام کے بعد) آیت الکرسی پڑھی وہ شخص مرتے ہی جنت میں داخل ہوجائے گا۔‘‘
آیۃ الکرسی کے الفاظ یہ ہیں:
{اَﷲُ لَا إلٰہَ إلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لَاتَاْخُذُہُ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ لَہُ مَا فِیْ السَّمٰوٰاتِ وَمَا فِیْ الاَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہُ إلَّا بِإذْنِہِ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَئٍ مِّنْ عِلْمِہِ إلَّا بِمَا شَائَ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰاتِ وَالاَرْضِ وَلاَ یَؤُدُہُ حِفْظُھُمَا وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ}
’’اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے جسے نہ اونگھ آئے نہ نیند اس کی ملکیت میں زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہیں کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیںکرسکتے مگر جتنا وہ چاہے اس کی کرسی کی وسعت نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہے وہ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت سے تھکتا اور نہ اکتاتا ہے وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔‘‘
* ابن زبیر کہتے ہیں کہ نبی ہرنما زکے بعد یہ پڑھتے تھے:
لَا إلٰہَ إلَّا اﷲُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إلَّا بِاﷲِ، لَا إلٰہَ إلَّا اﷲُ وَلَا نَعْبُدُ إلَّا إیَّاہُ ، لَہُ النِّعْمَۃُ وَلَہُ الْفُضْلُ وَلَہُ الثَّنَائُ الْحَسَنُ لَا إلٰہَ إلاَّ اﷲُ مُخْلَصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ (صحیح مسلم:۵۹۴)
’’کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں مگر اللہ ، اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے لئے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ گناہ سے بچنے کی طاقت نہ عبادت کرنے کی قوت ہے مگراللہ کی توفیق سے، نہیں ہے کوئی معبود (برحق) مگر اللہ، ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیںاور احسان بزرگی اور اچھی تعریف اسی کے لئے ہے، نہیں ہے کوئی معبود(برحق) مگر اللہ، ہم دین میں اس کے لئے خالص ہیں اگرچہ کافر لوگ اسے برا کیوں نہ سمجھیں۔‘‘
* ان کے علاوہ جو دعائیں قرآن حدیث سے ثابت ہیں ان کا پڑھنا افضل ہے چونکہ نماز اب مکمل ہوچکی ہے۔ لہٰذا اپنی زبان میں دعا مانگی جاسکتی ہے۔
نماز کے بعد اجتماعی دعا کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔الادب المفرد میں ہے کہ عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر دعا کرتے تھے اور آخر میں اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے چہرے پرپھیر لیتے تھے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
نمازکی بعض عام کوتاہیاں


اسلامی عبادات میں یہ پہلا رکن بلکہ رکن عظیم ہے جس کی ادائیگی امیر و غریب، بوڑھے و جوان، مرد و عورت اور بیمار و تندرست سب پر یکساں فرض ہے۔ ایسی عبادت کہ جس کا حکم کسی بھی حالت میں ساقط نہیں ہوتا۔ ایمان لانے کے بعد مسلمان سے اولین مطالبہ ہی یہ ہے کہ وہ نماز قائم کرے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ
’’بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میری ہی بندگی کرو اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔‘‘(سورۃ طہٰ:۱۴)
ہرنبی کی تعلیم میں اور ہر آسمانی شریعت میں ایمان لانے کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی لئے شریعت ِاسلامیہ جو کہ آخری شریعت ہے، میں نماز کی شروط و اَرکان، سنن و آداب اور مفسدات ومکروہات کی وضاحت کا اس قدر اہتمام کیا گیاہے کہ اتنا التزام اور کسی عبادت میں نہیں۔چنانچہ صرف قرآن حکیم ہی میں نماز کا ذکر اکانوے دفعہ کیا گیا ہے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی نماز کا بیان شروع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’معلوم ہو کہ نماز اپنی عظمت ِشان اور مقتضائے عقل و فطرت ہونے کے لحاظ سے تمام عبادات میں خاص امتیاز رکھتی ہے اور خدا شناس انسانوں میں سب سے زیادہ معروف اور نفس کے تزکیہ وتربیت کے لئے سب سے زیادہ نافع ہے اور اسی لئے شریعت نے اس کی فضیلت، اس کے اوقات کی تعیین و تحدید، شروط وارکان، آداب و نوافل اور رخصتوں کے بیان کا وہ اہتمام کیا ہے کہ جو عبادات کی کسی دوسری قسم کے لئے نہیں کیا گیا اور انہیں خصوصیات و امتیازات کی بنا پر نماز کودین کا عظیم ترین شعار اور امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ :قسم دوم ، ص ۳۳۹)
علاوہ ازیں نماز کی افضلیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کی آخری وصیت بھی نماز اور غلاموں کے متعلق تھی۔ (الرحیق المختوم از شیخ صفی الرحمن مبارکپوری: ص ۶۱۸)
ترکِ نماز :نماز کا ترک کرنا یا اس کے ادا کرنے میں غفلت برتنا بلاشبہ کبیرہ گناہوںسے ہے۔ اہل بصیرت سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ دین اسلام میں نماز کی ادائیگی کی کس قدر تاکید و تلقین کی گئی ہے اور صرف اسی پر اکتفا کرنے کی بجائے قرآن پاک نے اس ہولناک انجام اور زبردست رسوائی کا بھی خوف دلایا ہے کہ جس سے تارکین نماز دوچار ہوں گے۔چنانچہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:
’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے مگر دا ہنی طرف والے (نیک لوگ) کہ وہ باغ ہائے بہشت میں ہوں گے اور پوچھتے ہوں گے (آگ میں جلنے والے گناہگاروں سے) کہ تم دوزخ میںکیوں پڑے؟ وہ کہیں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے۔‘‘ (المدثر: ۳۸ تا۴۳)
اس کے علاوہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(بین العبد وبین الکفر ترک الصلوٰۃ) (صحیح ابوداود:۳۹۱۲)
’’بندے اور کفر کے درمیان (حد ِفاصل) نماز کا ترک کرنا ہے۔‘‘
ترکِ نماز کے متعلق اس قدر شدید تہدید و تخویف ہی کی بنا پرامام مالک اور امام شافعی کے نزدیک تارکِ صلوٰۃ کو قتل کردینا چاہئے۔ امام ابوحنیفہ اور اہل کوفہ میں سے ایک جماعت اور امام مزنی کے نزدیک تارکِ صلوٰۃ کافر تو نہیں، لیکن قابل تعزیر ضرور ہے کہ اسے قید کردیا جائے یہاں تک کہ وہ نماز پڑھنے لگے۔(التمہید لابن عبدالبر: ۴؍۲۳۵تا۲۴۰،نیل الاوطار : ۱؍۳۱۵،۳۱۶)
اسلام دین فطرت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ کام جو دین اسلام کے مطابق اور سنت ِنبوی سے ہم آہنگ ہے، وہی فطرت کے عین مطابق ہے اور جو کام دین کے خلاف ، سنت ِنبوی سے متضاد ہے وہ فطرت کے خلاف ہے۔اس لئے کوئی کام خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، لیکن ہے سنت کے خلاف، تو اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں، لیکن اگر کوئی کام خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، البتہ ہے سنت کے مطابق تو اللہ کے ہاں وہ عمل پہاڑ سے زیادہ بھاری ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہمارا ہر عمل سنت کے سانچے میں ڈھلاہو۔ نماز کی اہمیت کے پیش نظر یہاں ہم ان چند کوتاہیوں کا تذکرہ کریں گے۔

نماز کے لیے بھاگ کر آنا

بعض لوگ نماز کے لیے مسجد کی طرف بھاگ کر آتے ہیں حالانکہ شریعت ِاسلامیہ میں ا س کی ممانعت ہے اور اسلام نے یہ سہولت دی ہے کہ جتنی نماز مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے، اسے پورا کرلو۔ ابوہریرہ سے روایت ہے :
قال رسول اللہ! (إذا أقیمت الصلوٰۃ فلا تأتوھا وأنتم تسعون ولکن ایتوھا وأنتم تمشون وعلیکم السکینۃ فما أدرکتم فصلوا وما فاتکم فأتموا)(صحیح بخاری:۹۰۸،صحیح ترمذی:۳۲۷)
’’آپﷺنے فرمایا کہ جب اقامت ہوجائے تو تم نماز کی طرف دوڑتے ہوئے نہ آئو بلکہ چلتے ہوئے (باوقار طریقے سے) آئو اور تم پراطمینان لازم ہے۔ سو جو ملے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے اسے (امام کے سلام پھیرنے کے بعد) مکمل کرلو۔‘‘
اس حدیث میں نماز کی طرف دوڑ کر آنے کی ممانعت کا حکم عا م ہے اور وہ شخص بھی اس میں شامل ہے جسے تکبیر اولیٰ کے گزر جانے کا خوف ہو، لہٰذا کسی بھی حالت میں دوڑ کر نماز کے لیے مسجدکی طرف آنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ امام ابن عبدالبر نے بھی اسی مسلک کواختیار کیا ہے۔ (التمہید: ۲۰؍۲۳۳)

صف بندی نہ کرنا

اکثر لوگ نماز کے دوران صف میں آگے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں یعنی صف بالکل سیدھی نہیں ہوتی۔یہ بہت قبیح حرکت ہے اور آپ ﷺ نے اس کے متعلق بہت شدید وعید فرمائی ہے ۔چنانچہ نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں:
کان رسول اﷲ! یسوی صفوفنا حتی کأنما یسوی بھا القداح حتی رأی أنا قد عقلنا عنہ ثم خرج یوما فقام حتی کاد یکبر فرأی رجلا بادیا صدرہ من الصف فقال: ) عباد اﷲ لتسون صفوفکم أو لیخالفن اﷲ بین وجوہکم( (صحیح مسلم:۴۳۶)
’’ آپ ﷺ ہماری صفیں اس طرح سے برابر (سیدھی) کیا کرتے تھے کہ گویا تیر بھی ان صفوں سے سیدھا کیا جاسکتا تھا۔ یہاں تک کہ ہم بھی آپ ﷺ سے (صفوں کے برابر کرنے کی اہمیت) سمجھ گئے۔ ایک دن آپ ﷺ (اپنے حجرہ سے) تشریف لائے اورنماز کے لئے کھڑے ہوگئے اور قریب تھے کہ تکبیر تحریمہ کہتے کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے کچھ نکلا ہوا آپ ﷺ نے دیکھ لیا۔ یہ دیکھ کر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: اے اللہ کے بندو! اپنی صفیں سیدھی کرلو وگرنہ اللہ تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔‘‘
اکثر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کرنہیں کھڑے ہوتے جس کی وجہ سے درمیان میں خلا پیدا ہوجاتا ہے اور ا س خلا کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا ہے:
(رصوا صفوفکم وقاربوا بینھا وحاذوا بالأعناق فوالذی نفسی بیدہ إنی لأری الشیطان یدخل من خلل الصف کأنہا الحذف) (صحیح ابو داود:۶۲۱)
’’اپنی صفیں ملی ہوئی رکھو( آپس میں خوب مل کرکھڑے ہو) اور صفوں کوقریب رکھو (یعنی دو صفوں کے درمیان اس قدر فاصلہ نہ ہو کہ ایک صف اور آجائے) نیز اپنی گردنیں برابر رکھو (یعنی صف میںتم میں سے کوئی بلند جگہ پر کھڑا نہ ہو بلکہ ہموار جگہ پر کھڑا ہو)۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں شیطان کو بکری کے کالے بچے کی طرح تمہاری صفوں کی کشادگی میں گھستے دیکھتاہوں۔‘‘

نیت کا زبان سے کرنا

جملہ اعمال کاانحصار نیت پر ہے جس کی تائید آپ 1 کی اس حدیث سے ہوتی ہے:
( إنما الأعمال بالنیات وإنما لکل امرئ ما نوی) (صحیح بخاری:۱)
’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہرمرد (وعورت) کے لئے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔‘‘
اس لئے تمام اعمال میں اور بالخصوص نماز میں نیت کرنا ضروری ہے اس بات کی تعیین کے ساتھ کہ نماز ظہر کی ہے یا عصر کی یا کوئی اور، لیکن اکثر لوگ نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرتے ہیں جیسے ’’ا س امام کے پیچھے میں نماز پڑھ رہا ہوں، اتنی اتنی رکعات فلاں نماز کی وغیرہ‘‘ یہ طریقہ درست نہیں،کیونکہ نیت دل سے ارادہ کرنے کا نام ہے۔(کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ: ۱؍۲۰۹) اسی بناپر اکثر علما نے زبان کے ساتھ نیت کرنے کو بدعت شمار کیا ہے کیونکہ اس کا کرنا نبی اقدس1 اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں اور نہ ہی تابعین و ائمہ اربعہ نے اسے مستحب قرار دیاہے جیسا کہ ملا علی قاری حنفی نے حافظ ابن قیم کے حوالہ سے بیان کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
نماز میں ٹخنے ڈھانپنا

دورانِ نماز دونوں ٹخنوں پر کپڑا لٹکانایعنی ٹخنوں کا چھپ جانا ایسا معاملہ ہے کہ جسے ہم روزمرہ زندگی میں عام دیکھتے رہتے ہیں۔ نمازیوں کی اکثریت اس بات کا التزام نہیں کرتی کہ نماز میں ٹخنوں پر سے کپڑا ہٹا ہوا ہونا چاہئے۔اگرچہ بالخصوص دورانِ نماز ٹخنوں کے ننگے کرنے کے متعلق کوئی صحیح روایت وارد نہیں ہوئی، لیکن عام زندگی میںٹخنوں کو چھپانے کے متعلق آپ1 نے بہت شدت سے وعید فرمائی ہے۔ ابوہریرہ سے روایت ہے:
قال النبی!: (ما أسفل من الکعبین من الإزار ففی النار)
’’آپ 1 نے فرمایا جو کپڑا ٹخنے سے نیچے ہوگا، وہ (اپنے پہننے والے کو ) دوزخ میں لے جائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری:۵۷۸۷)
جب عام زندگی میں اس قدر سخت تنبیہ ہے تو نماز میں تو بدرجہ اولیٰ ا س کاخیال رکھنا چاہیے۔ بہرکیف اس کی نماز ہوجائے گی، یہی مسلک سعودی عرب کے مفتی ا عظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
صلاۃ المسبل صحیحۃ ولکنہ آثم (مجموعہ فتاویٰ : ۲؍۱۹۳)
’’نماز میں کپڑا لٹکانے والے کی نماز تو ہوجائے گی لیکن وہ گناہ گار ہوگا۔‘‘(صفۃ صلاۃ النبی 1 از البانی : ص ۸۹)

آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنا

قرآن حکیم میں صرف نماز کی فرضیت وغیرہ کا بیان ہے، احکام کا تذکرہ نہیں۔ لہٰذانماز کی ادائیگی کے لئے ہم سو فیصدی حدیث ِنبوی کے محتاج ہیں۔ اس لئے جو بات آپ ﷺ سے ثابت نہیں،اس سے ہمیں بھی احتیاط لازم ہے۔انہی امور میں آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنا بھی شامل ہے۔ معلوم نہیںا س سے لوگ کون سے خشوع کے حصول کو ممکن بناتے ہیں حالانکہ آپﷺ سے بڑھ کر کون خشوع کرنے والا ہوگا؟ جب نبی ﷺہی سے ایسا کرنا ثابت نہیں تو اس سے لازماً پرہیز کرنا چاہئے۔
البتہ ان حالات میں فقہا نے آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے جب نمازی کے پاس غیر ضروری حرکات و سکنات ا س کی نماز میں خلل انداز ہوں۔ یہ خیال کہ نماز میں آنکھیںبند کرنے کا سبب خیالات و وساوس کا آنا ہے، بے بنیاد ہے کیونکہ اگر خیالات غیر اختیاری ہوں تو ان پر اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی مؤاخذہ نہیں۔ اس لئے وہ نماز جو آنکھیں کھول کر اتباعِ سنت میں پڑھی جارہی ہے اور اس میں غیر اختیاری خیالات بھی آرہے ہیں، اس نماز سے بدرجہا افضل ہے جو آنکھیں بند کرکے پڑھی جارہی ہے اور اس میں خیالات نہیں آرہے۔ اس لئے کہ پہلی نماز نبی کریم ﷺ کی اتباع میں اد کی جارہی ہے جب کہ دوسری نماز اتباعِ رسول ﷺ میں نہیں ہے۔صفۃ صلاۃ النبی ﷺ از البانی : ص ۸۹)
مولانا محمد تقی عثمانی کا میلان بھی اسی جانب ہے۔ (دیکھئے ’بدعت؛ ایک سنگین گناہ‘ :ص ۲۳ تا۲۶)
نماز باجماعت کے ہوتے ہوئے نوافل و سنن کی ادائیگی
اس مسئلے سے اکثر لوگوں کو واسطہ پڑتا ہے، اسی لئے ہم مساجد میں کثرت سے اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ نماز کی اقامت ہوچکی ہوتی ہے، اس کے باوجود لوگ نوافل و سنن بالخصوص فجر کی دو سنتوں میں مشغول ہوتے ہیں۔ ا س مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر فقہا نے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ہم مختصراً اسے بیان کرتے ہیں۔ اقامت کے بعد نوافل و سنن کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں :
وہ لوگ جو نوافل و سنن (سنتیں چاہے فجر کی ہوں یا عصر کی ) پڑھ رہے ہوں اور نماز باجماعت کی اقامت کہہ دی جائے تو اس صورت میں نمازی جس حالت (قیام، رکوع یا سجدہ) میں ہو، فورا ً اپنی نماز کوسلام پھیر کر ختم کرے اور امام کے ساتھ نماز باجماعت میں شامل ہو۔ اس کی دلیل نبی اکرم ﷺکی یہ حدیث ہے: عن أبی ہریرۃ قال: قال رسول اللہ!: (إذا أقیمت الصلوٰۃ فلا صلاۃ إلا المکتوبۃ)’’ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ جب (فرض) نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو پھراس کے سوا اور کوئی نماز نہیں۔‘‘ صحیح مسلم :۷۱۰)
شیخ ابن باز اور مولانا عبیداللہ رحمانی کا یہی مسلک ہے۔(فتاویٰ : ۴؍۳۷۶ و مرعاۃ المفاتیح: ۳؍۵۰۱)
وہ لوگ جوفجر کی پہلی دو سنتیں نہ پڑھ سکے ہوں اور جب وہ مسجد میں داخل ہوں تو نماز کی اقامت کہی جاچکی ہو، ایسی حالت میں بھی وہ امام کے ساتھ جماعت میں شریک ہوں۔ اس کی دلیل بھی مندرجہ بالا سطور میں ذکر کی گئی حدیث ہی ہے اور نمازِفجر کی ادائیگی کے بعد اگر وہ سنتوں کی قضا کرنا چاہیں تو انہیں فرائض کے فوراً بعد پڑھ لیں اور اگر ممکن نہ ہو تو طلوعِ آفتاب کے بعد پڑھ لیں۔ امام شافعی، ابن حزم اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔
عمر بن خطاب سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ اس شخص کو مارتے تھے جو اپنی انفرادی نماز میں مشغول ہوتا تھا اور اقامت ہوچکی ہوتی تھی۔(مرعاۃ المفاتیح: ۳؍۴۹۵)

سگریٹ نوشی کے بعد مسجدمیں آنا

اسلام نے اشیائِ خوردونوش میں سے ہر اس چیز کے استعمال کی ممانعت کی ہے جس کے اثرات نوعِ انسانی کے لئے مفید نہ ہوں۔ چنانچہ اسلام کی حرام کردہ اشیاے خوردونوش میں موجود نقصانات کی تحقیق بخوبی ہوچکی ہے جس کا تفصیلی ذکر علامہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے اپنی کتاب الحلال والحرام في الاسلام میں کیا ہے۔ بلاشک و شبہ انہی ممنوع اشیا میں عصر حاضر کی ایک نئی ایجاد ’سگریٹ‘ ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق یہ کینسر کا باعث ہونے کے علاوہ ایک سگریٹ پینا گیارہ منٹ زندگی کو کم کردیتا ہے۔ یہ اور ان جیسی دوسری وجوہات ہی کی بنا پر علماے عرب کا اس کی حرمت پراتفاق ہے، جن میں شیخ عبدالعزیز بن باز (سابق مفتی اعظم سعودی عرب) اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی وغیرہ شامل ہیں۔ مسلمانوں کا اس نقصان دہ شے کو بے دریغ استعمال کرنا ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔
اس کے استعمال پر مستزاد یہ کہ لوگ سگریٹ نوشی کے فوراً بعد مسجد میں نماز کے لئے آجاتے ہیں اور ان کے منہ سے ان کی بدبو خارج ہورہی ہوتی ہے۔ عبداللہ بن عمر سے روایت ہے :
أن النبی! قال فی غزوۃ خیبر: (من أکل من ھذہ الشجرۃ یعنی الثوم فلا یقربن مسجدنا) (صحیح بخاری:۸۵۳)
’’آپ ﷺ نے غزوئہ خیبر میں فرمایا کہ جو شخص اس درخت یعنی لہسن میں سے کھائے وہ ہماری مسجد کے پاس نہ آئے۔‘‘
دوسری حدیث جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ
أن النبی ! قال: (من أکل ثوما أوبصلا فلیعتزلنا أو فلیعتزل مسجدنا ولیقعد فی بیتہ) (صحیح بخاری:۷۳۵۹)
’’نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ جو شخص لہسن یا پیاز کھائے، وہ ہم سے یا ہماری مسجد سے الگ رہے اور اپنے گھر بیٹھا رہے۔‘‘ (وہیں نماز پڑھ لے)
درحقیقت مندرجہ بالا احادیث سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کی و جہ سے نمازیوں اور مسجد میں موجود فرشتوں کو تکلیف پہنچتی ہو، کھاکر مسجد میں آنا منع ہے۔
اگر مبالغے پرمحمول نہ کیا جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ (کچے) لہسن اور پیاز کی بدبو سگریٹ کی بدبو سے کئی گنا کم ہے۔ لہسن اور پیاز کی بدبو تو وقتی ہوتی ہے جبکہ سگریٹ کی بدبو مستقل ہوتی ہے جس کا تجربہ کسی سگریٹ نوش کے پاس بیٹھنے والے کو بآسانی ہوسکتا ہے جبکہ اسے سگریٹ پئے کافی گھنٹے گزر چکے ہوں۔ چنانچہ اوّل تو ہر شخص سگریٹ پینے سے بچے، وگرنہ مسجد میں آتے وقت ایسا انتظام کرے کہ اس کا منہ سگریٹ کی بدبو سے بالکل پاک ہو۔ معروف سعودی مفتی ڈاکٹر صالح بن غانم سدلان کی بھی یہی رائے ہے۔ (صلاۃ الجماعۃ: ص ۳۸ )
لہسن اور پیاز کے متعلق مندرجہ بالااحادیث سے کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ ان کا کھانا حرام ہے ۔ یہ بالکل حلال ہیں، ہاں چند مخصوص حالات میں ان کے کھانے کی ممانعت ہے یعنی مسجد جانے سے قبل جیساکہ ذکر ہوا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
دیگر نمازیں

نمازِ جمعہ
جمعہ کی نماز کی فرضیت اسی طرح ہے جس طرح کہ نماز پنجگانہ کی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إذَا نُوْدِیَ لِلصَّلـٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إلـٰی ذِکْرِاﷲِ وَذَرُوْا الْبَیْعَ ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ إنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ} (الجمعۃ:۶۲)
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن تمہیں (جمعہ کے لئے) پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور کاروبار چھوڑدو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو۔‘‘
آپ نے فرمایا:
(لینتہین أقوام عن ودعھم الجمعات أو لیختمن اﷲ علی قلوبہم ثم لیکونن من الغافلین ) (صحیح مسلم:۸۶۵)
’’لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آجائیں یا پھر اللہ تعالیٰ ضرور ان کے دلوں پرمہر لگا دے گا پھر وہ غافلین میں سے ہوجائیں گے۔‘‘
طریقہ
جمعہ کی نماز دو رکعت ہے اور اس سے پہلے کھڑے ہوکر دوخطبے اور ان کے درمیان میں خطیب تھوڑی دیر کے لئے بیٹھتا ہے اور ان دونوں خطبوں میں وعظ و نصیحت کی جاتی ہے۔
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے ، کہتے ہیں : کان النبی! یخطب خطبتین یقعد بینھما (صحیح بخاری :۹۲۸)
’’آپ دو خطبے دیتے اور ان کے درمیان (تھوڑی دیر کے لئے) بیٹھ جاتے۔‘‘
دوسرے خطبے کے بعد دو رکعت فرض پڑھے جاتے ہیں اور یہ نماز ظہر کے قائم مقام ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
نماز تسبیح
یہ نماز کم از کم زندگی میں ایک مرتبہ ضرور پڑھنی چاہئے:
عباس کو نبی نے فرمایا:
(إن استطعت أن تصلیھا فی کل یوم مرۃ فافعل فإن لم تفعل ففي کل جمعۃ مرۃ فإن لم تفعل ففي کل شھر مرۃ فإن لم تفعل ففي کل سنۃ مرۃ فإن لم تفعل ففي عمرک مرۃ)
’’اگر تو روزانہ ایک دفعہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہے تو ایسا کر، اگر ایسا نہیں کرسکتا تو جمعہ میں ایک مرتبہ پڑھ لے اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو مہینہ میں ایک دفعہ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو سال میں ایک مرتبہ اور اگر اس کی ہمت بھی نہ ہو تو زندگی میں ایک مرتبہ ضرور پڑھ۔‘‘ (صحیح ابوداود:۱۱۵۲)
طریقہ نماز
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ آپ نے عباس سے فرمایا:
(یا عباس یا عماہ ألا أعطیک ألا أمنحک ألا أحبوک ألا أفعل بک عشر خصال إذا أنت فعلت ذلک غفراﷲ لک ذنبک أولہ وآخرہ قدیمہ وحدیثہ خطأہ وعمدہ صغیرہ وکبیرہ سرہ وعلانیتہ عشر خصال أن تصلی أربع رکعات تقرأ فی کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ فإذا فرغت من القراء ۃ فی أول رکعۃ وأنت قائم قلت: سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلَاإِلـٰہَ إلَّا اﷲُ وَاﷲُ أکْبَرُ خمس عشرۃ مرۃ ثم ترکع فتقولھا وأنت راکع عشرا ثم ترفع رأسک من الرکوع فتقولھا عشرا ثم تھوی ساجدا فتقولھا وأنت ساجد عشرا ثم ترفع رأسک من السجود فتقولھا عشرا ثم تسجد فتقولھا عشرا ثم ترفع رأسک فتقولھا عشرا فذلک خمس وسبعون فی کل رکعۃ تفعل ذلک فی أربع رکعات (صحیح ابو داود:۱۱۵۲)
’’اے (میرے چچا)عباس !میں آپ کو کچھ عطا نہ کروں؟ کیا میں آپ کو کچھ ہدیہ نہ کروں؟ میں آپ کو دس خصلتوں والا نہ کردوں کہ جب آپ یہ عمل کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے پچھلے پرانے اور نئے غلطی سے یا عمداً ، چھوٹے یا بڑے پوشیدہ اور ظاہر گناہ معاف فرما دے تو آپ چار رکعات اس طرح پڑھیں کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی سورۃ تلاوت کریں اور جب آپ قراء ت سے فارغ ہوں تو قیام کی حالت میں ہی یہ کلمات پندرہ مرتبہ ادا کریں سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلَاإِلہَ إلَّا اﷲُ وَاﷲُ أکْبَرُ پھر آپ رکوع میں چلے جائیں اور رکوع کی حالت میں دس مرتبہ یہی کلمات کہیں پھر اپنا سر رکوع سے اٹھائیں اور دس مرتبہ یہی کلمات دہرائیں پھر سجدہ میں جائیں اور اس میں یہی کلمات دس مرتبہ ادا کریں پھر سجدہ سے سراٹھائیں اور (جلسہ میں) دس مرتبہ یہ کلمات دہرائیں پھرسجدہ میں جائیں اور دس مرتبہ یہ کلمات دہرائیں پھر سر اٹھائیں اور دس مرتبہ پھر یہ کلمات دہرائیں ہر رکعت میں، ان تسبیحات کی تعداد ۷۵ ہوگی ہر رکعت میں آپ اسی طرح کریںاس طرح یہ چار رکعات ہیں۔‘‘
اور اس کا وقت چاشت کا وقت ہے عبداللہ بن بسر لوگوں کے ساتھ نماز عیدالفطر یا اضحی کے لئے نکلے اور امام کے تاخیر کرنے کو اجنبی جانا اور فرمایا :
إنا کنا قد فرغنا ساعتنا ھذہ ’’ہم اس وقت تو نماز سے فارغ ہوجاتے تھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ یہ وقت چاشت کا وقت تھا۔ (صحیح ابوداود:۱۰۰۵)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
نماز عیدین
عیدکی نماز آبادی سے نکل کر پڑھنی چاہئے۔ ابوسعید خدری سے روایت ہے : کان النبی یخرج یوم الفطر والاضحی إلی المصلی(صحیح بخاری:۹۵۶)
’’ نبی نماز عید الفطر اور اضحی کے لیے عید گاہ (آبادی سے باہر) کی طرف نکلتے تھے۔‘‘
عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نماز کا ایک ہی طریقہ ہے۔ ان دونوں نمازوں کے لئے اذان اور اقامت نہیں ہوتی۔
جابر بن سمرۃ کہتے ہیں: صلیت مع رسول اﷲ! العیدین غیر مرۃ ولا مرتین بغیر أذان ولا إقامۃ (صحیح مسلم:۸۸۷)
’’میں نے نبی کے ساتھ کئی مرتبہ نماز عید بغیر اذان اور اقامت کے پڑھی۔‘‘
عبداللہ بن عباس اور جابر کہتے ہیں: لم یکن یؤذن یوم الفطر ولا یوم الاضحی (صحیح مسلم:۸۸۶)
’’یوم الفطر اورالا ضحی کی نماز کے لئے اذان نہیں کہی جاتی تھی۔‘‘
نماز عید دو رکعتیں ہیں اور یہ رکعتیں خطبہ سے پہلے ادا کی جاتی ہیں۔
جابر بن عبد اللہ سے روایت کہ: إن النبی قام یوم الفطر فصلی فبدأ بالصلاۃ قبل الخطبۃ (صحیح مسلم:۸۸۵)
’’آپ عیدالفطر کے دن کھڑے ہوئے اور خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی ۔‘‘
پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ تکبیریںہیں۔
عائشہ فرماتی ہیں : أن رسول اﷲ کان یکبر فی الفطر والأضحی فی الأولی سبع تکبیرات وفی الثانیۃ خمسا
’’آپ عیدالفطر اور الضحیٰ میں پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے۔‘‘(صحیح ابوداود:۱۰۱۸)
ہر تکبیر پر رفع الیدین کرنا چاہئے۔
عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں: ویرفعھما فی کل رکعۃ وتکبیرۃ کبرہا قبل الرکوع (مسنداحمد:۲؍۱۳۴)
’’آپ رکوع سے پہلے ہر رکعت میں تکبیر کہتے اور ہاتھ اٹھاتے۔‘‘
عیدین کی نماز میں مسنون قراء ت یہ ہے۔
عمر بن خطاب کہتے ہیں: کان یقرأ فیہا بق والقرآن المجید واقتربت الساعۃ وانشق القمر(صحیح مسلم:۸۹۱)
’’ آپ اس میں ق ٓوالقرآن المجید اور اقتربت الساعۃ وانشق القمر کی تلاوت کرتے تھے۔‘‘
نعمان بن بشیر سے روایت ہے :کان رسول اﷲ ﷺیقرأ فی العیدان وفيٍ الجمعۃ بسبح اسم ربک الأعلی وہل أتاک حدیث الغاشیۃ
’’ آپ عیدین اور جمعہ میں سبح اسم ربک الاعلی اورہل أتاک حدیث الغاشیۃ کی تلاوت فرماتے تھے۔‘‘(صحیح مسلم:۸۷۸)
دو رکعت سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں۔
عبداللہ بن عباس کہتے ہیں: أن النبی! خرج یوم الفطر فصلی رکعتین لم یصل قبلھا ولا بعدھا (صحیح بخاری:۹۸۹)
’’نبی عیدالفطر کے دن نکلے پس انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اس سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہ پڑھی۔‘‘
نماز کے بعد کھڑے ہوکر ایک ہی خطبہ دیا جاتا ہے جس میں وعظ و نصیحت کی جاتی ہے ۔ ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آپ نماز سے فارغ ہوتے :
ثم ینصرف فیقوم مقابل الناس،والناس جلوس علی صفوفھم فیعظہم ویوصیھم ویأمرھم (صحیح بخاری:۹۵۶)
’’پھر لوگوں کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجاتے جبکہ لوگ اپنی صفوں میںبیٹھے رہتے اور آپ ان کو نصیحت و وصیت اور احکام فرماتے۔‘‘
ملحوظہ: عذر کی بنا پر نماز عیدین مسجد وغیرہ میں پڑھی جاسکتی ہے ۔ عبداللہ بن عامر کہتے ہیں کہ عمر کے زمانہ میں بارش ہوئی اور لوگ عیدگاہ جانے سے رُک گئے تو عمر نے لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور نماز عید پڑھائی پھرمنبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا:
یایھا الناس أن رسول اﷲ کان یخرج بالناس إلی المصلی یصلی بھم لأنہ أرفق بھم وأوسع علیھم وأن المسجد کان لا یسعھم قال فإذا کان ھذا المطر فالمسجد أرفق
’’ اے لوگو! بے شک رسول اللہ لوگوں کو عیدگاہ کی طرف نکالتے اور انہیں نماز پڑھاتے، کیونکہ یہ ان کے لئے مناسب اور آسان تھا اور مسجد اتنی وسعت نہیں رکھتی تھی اور جب بارش ہو تو مسجد زیادہ مناسب ہے۔‘‘(بیہقی:۳؍۳۱۰)
اگر عید کا دن جمعہ کا ہو تو جمعہ پڑھنے میں رخصت ہے۔ معاویہ نے زید بن ارقم سے دو عیدوں کے جمع ہونے کے وقت نماز کے فعل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : صلی العید ثم رخص فی الجمعۃ فقال: (من شاء أن یصلی فلیصل)’’عید کی نماز پڑھی اور جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا جو نماز پڑھنا چاہے پڑھ لے۔‘‘ (صحیح ابوداود:۹۴۵)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
نماز کسوف وخسوف (سورج و چاند گرہن کے وقت کی نماز)

یہ نماز سورج یا چاند گرہن کے وقت پڑھی جاتی ہے۔
ابومسعود سے روایت ہے کہ : قال النبی: (إن الشمس والقمر لا ینکسفان لموت أحد من الناس ولکنھما آیتان من آیات اﷲ فإذا رائیتموھا فقوموا فصلوا) (صحیح بخاری:۱۰۴۱)
’’بے شک سورج اور چاند لوگوں میں سے کسی کی موت کی وجہ سے گرہن میں نہیں آتے وہ دونوں تو اللہ کی نشانیوں میں دو نشانیاں ہیں پس جب تم اس کو دیکھو تو نماز کی طرف بڑھو۔‘‘
طریقہ
عبداللہ بن عباس کہتے ہیں:
انخسفت الشمس علی عہد النبی ! فصلی رسول اﷲ ! فقام قیاما طویلا نحوا من قراء ۃ سورۃ البقرۃ ثم رکع رکوعا طویلا ثم رفع فقام قیاما طویلا وھو دون القیام الاول ثم رکع رکوعا طویلا وھو دون الرکوع الاول ثم سجد ثم قام قیاما طویلا وھو دون القیام الاول ثم رکع رکوعا طویلا وھو دون الرکوع الاول ثم رفع فقام قیاما طویلا وھو دون القیام الاول ثم رکع رکوعا طویلا وھو دون الرکوع الاول ثم سجد ثم انصرف وقد تجلت الشمس
’’ نبی کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا آپ نے (باجماعت) دو رکعت نماز ادا کی آپ نے سورہ بقرہ کی تلاوت جتنا لمبا قیام کیا پھر لمبا رکوع کیا پھر اٹھے اور لمبا قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے ذرا کم تھا پھر لمبا رکوع کیا اور وہ پہلے رکوع سے ذرا کم تھا پھر سجدہ کیا پھر کھڑے ہوگئے اور لمبا قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے ذرا کم تھا پھر لمبا رکوع کیا اوروہ پہلے رکوع سے ذرا کم تھا پھر اٹھے اور لمبا قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے ذرا کم تھا پھر لمبا رکوع کیا اور وہ پہلے رکوع سے ذرا کم تھا پھر سجدہ کیا اور پھر (سلام پھیر کر) کھڑے ہوئے تو سورج صاف ہوچکا تھا۔‘‘(صحیح بخاری:۱۰۵۲ )
نماز استسقاء

خشک سالی اور بارش نہ ہونے کے وقت میں کھلے میدان میں یہ نماز ادا کی جاتی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ سے عاجزی وانکساری سے گڑگڑاتے ہوئے بارش طلب کی جائے۔اورنماز کے لئے نکلتے وقت پرانے کپڑے پہننے چاہئیں۔
عبداللہ بن عباس آپ کی اس نماز کے بارے میں کہتے ہیں:
خرج رسول اﷲ ! متبذلا متواضعا متضرعا حتی أتی المصلی
’’آپ پرانے کپڑے پہنے، آہستگی سے چلتے ہوئے اور گڑگڑاتے ہوئے نکلے اور نماز کی جگہ پر پہنچے۔‘‘(صحیح ابوداود:۱۰۳۲)
طریقہ
نماز استسقاء کا طریقہ عید کی نماز کی طرح کا ہے یعنی تکبیرات کے ساتھ، لیکن اس میں خطبہ نماز سے پہلے ہوتا ہے اور اس خطبہ میں زیادہ تر اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش اور عاجزی و انکساری سے گڑگڑاتے ہوئے بارش طلب کی جاتی ہے۔ خطبہ میں دعا کے دوران امام منبر پر ہی الٹے ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتا ہے اور پھر دعاؤں کے بعد اپنا رُخ قبلہ کی جانب کرلیتا ہے اور اپنی چادر کے دونوں کونے پیٹھ پر ہی دائیں بائیں پلٹ دیتا ہے ۔ اس عمل کے بعد امام منبر سے اتر کر دو رکعت نماز پڑھائے گا سورج جب نکل رہا ہو تو خطبہ شروع کیا جائے اور نماز سورج نکلنے پر ادا کی جائے۔ اب اس طریقہ کے متعلق روایات مندرجہ ذیل ہیں:
عائشہ بیان فرماتی ہیں:
شکا الناس إلی رسول اﷲ قحوط المطر فأمر بمنبر فوضع لہ فی المصلی ووعدالناس یوما یخرجون فیہ قالت عائشہ: فخرج رسول اﷲ حین بداحاجب الشمس فقعد علی المنبر فکبر ! وحمد اﷲ عزوجل ثم قال: (إنکم شکوتم جدب دیارکم واستئخار المطر عن إبان زمانہ عنکم وقد أمرکم اﷲ عزوجل أن تدعوہ ووعدکم أن یستجیب لکم) ثم قال{الحمد ﷲ رب العالمین٭ الرحمن الرحیم ٭ ملک یوم الدین۔ لا إلہ إلا اﷲ یفعل ما یرید اللھم أنت اﷲ لا إلہ إلا أنت الغنی ونحن الفقراء أنزل علینا الغیث واجعل ما أنزلت لنا قوۃ وبلاغا إلی حین) ثم رفع یدیہ فلم یزل في الرفع حتی بدا بیاض إبطیہ ثم حول إلی الناس ظھرہ وقلب أو حول رداء ہ وھو رافع یدیہ ثم أقبل علی الناس ونزل فصلی رکعتین فأنشأاﷲ سحابۃ فرعدت و برقت ثم أمطرت بإذن اﷲ (صحیح ابوداود:۱۰۴۰)
’’لوگوں نے آپ سے بارش نہ ہونے کی شکایت کی آپ نے عیدگاہ میں منبر بچھانے کا حکم دیاجو کہ رکھ دیا گیا آپ نے ایک دن مقرر کرلیا کہ وہ وہاں جمع ہوں اس دن جب سورج کا ایک کونہ نمودار ہوا تو آپ (گھر) سے نکلے آپ منبر پر بیٹھ گئے پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور حمد بیان کی اور فرمایا: تم نے اپنے علاقوں میں خشک سالی اور بروقت بارش نہ ہونے کی شکایت کی جبکہ اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہے کہ تم اس کو پکارو اور اس کا وعدہ ہے کہ وہ تمہاری دعا قبول کرے گا پھر فرمایا ’’سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے بہت رحم کرنے والا نہایت مہربان جزا کے دن کا مالک ہے جو چاہتا ہے کرتاہے، اے اللہ تو(برحق) معبود ہے تیرے سوا کوئی (برحق) معبود نہیں تو سخی اور بے پرواہ ہے اور ہم تیرے فقیر ہیں ہم پر بارش برسا اور اس بارش کو ہمارے لئے ایک مدت تک قوت اور (مقاصد تک) پہنچنے والی بنا۔ پھر نبی نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھانے شروع کئے حتیٰ کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی پھر آپ لوگوں کی جانب اپنی پشت کرکے کھڑے ہوگئے اور اپنی چادر کو پھیر کر پلٹایا آپ اس وقت اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے پھر لوگوں کی جانب منہ کرلیا اور منبر سے نیچے اتر آئے اور دو رکعت نماز پڑھائی اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آسمان پر بدلی پیدا کی وہ بدلی گرجی چمکی اور اللہ کے حکم سے برسنا شروع ہوگئی۔‘‘
انس بن مالک کہتے ہیں:
أن النبی! استسقی فأشار بظھر کفیہ إلی السماء (صحیح مسلم:۸۹۶)
’’نبی نے بارش کے لئے دعا فرمائی تو اپنے دونوں ہاتھ الٹے کر کے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔‘‘
یہ دو رکعتیں عید کی نماز کی طرح ہیں۔ عبداللہ بن عباس سے روایت ہے: ثم صلی رکعتین کما یصلي فی العید(صحیح ابوداود:۱۰۳۲)
’’پھر آپ نے دو رکعتیں عید کی نماز کی طرح پڑھائیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ نماز استسقاء کا طریقہ بالکل عید کی نماز کی طرح ہے یعنی یہ بھی نماز تکبیروں کے ساتھ پڑھی جائے۔واللہ اعلم
بارش کے لئے مندرجہ ذیل دعائیں آپ سے ثابت ہیں
(اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا غَیْثًا مُّغِیْثًا مَّرِیْئًا مَّرِیْعًا نَافِعًا غَیْرَ ضَارٍّ عَاجِلًا غَیْرَ آجِلٍ) (صحیح ابوداود:۱۰۳۶)
’’اے اللہ! ہمیں پانی پلا ایسا پانی کہ جو ہماری پیاس بجھا دے ہلکی پھواریں بن کر غلہ اُگانے والا، نفع دینے والا ہو نہ کہ نقصان پہنچانے والا جلد آنے والا ہو ناکہ دیر سے آنے والا۔‘‘
(اَللّٰھُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَھَائِمَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیْتَ) (صحیح ابوداود:۱۰۴۳)
’’اے اللہ! اپنے بندوں اور جانوروں کو پانی پلا اور اپنی رحمت کو پھیلا اور اپنے مردہ شہروں کو زندہ کردے۔‘‘
(اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا، اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا،اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا)(صحیح بخاری:۱۰۱۳)
’’اے اللہ! ہمیں پانی پلا، اے اللہ! ہمیں پانی پلا، اے اللہ! ہمیں پانی پلا۔‘‘

]نماز جنازہ

نماز جنازہ کسی مسلمان کے مرجانے کے بعد اس کی بخشش کے لئے پڑھی جاتی ہے اور اپنے اس مردہ بھائی کی بخشش کے لئے اس میں شامل ہونا ہر مسلمان پر حق ہے۔
ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: (حق المسلم علی المسلم خمس:رد السلام،وعیادۃ المریض،واتباع الجنائز، وإجابۃ الدعوۃ، وتشمیت العاطس) (صحیح بخاری:۱۲۴۰)
’’مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازہ کے لئے جانا، دعوت قبول کرنا، چھینک کا جواب دینا۔‘‘
اور یہ نماز میدان یا مسجد کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
طریقہ
نماز جنازہ پڑھنے کے لئے اگر میت مذکر ہو تو امام اس کے سر کے برابر کھڑا ہو اور اگر میت مونث ہو تو اس کے درمیان میں کھڑا ہوا جائے۔
ابوغالب کہتے ہیں:
صلیت مع أنس بن مالک علی جنازۃ رجل،فقام حیال رأسہ،ثم جاء وا بجنازۃ امرأۃ من قریش فقالوا: یا أباحمزۃ صل علیھا فقام حیال وسط السریر فقال لہ العلاء بن زیاد:ھکذا رأیت رسول اﷲ! قام علی الجنازۃ مقامک منھا ومن الرجل مقامک منہ؟ قال:نعم، فلما فرغ قال: احفظوا(صحیح ترمذی:۸۲۶)
’’میں نے انس بن مالک کے ساتھ ایک آدمی کی نماز جنازہ پڑھی آپ اس کے سر کے برابر کھڑے تھے پھر ایک قریشی عورت کا جنازہ لایا گیا لوگوں نے پھر انہیں کہا کہ ابوحمزہ اس کا جنازہ پڑھائیں،پس آپ اس کی چارپائی کے درمیان میںکھڑے ہوئے۔ علاء بن زیاد نے آپ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہﷺ کو آپ نے اسی طرح کرتے دیکھا ہے کہ وہ مذکر مونث کے لئے اس مقام پر کھڑے ہوتے جس پر آپ کھڑے ہوئے، انس فرمانے لگے جی ہاں اور جب وہ فارغ ہوگئے تو فرمایا اس طریقہ کو یاد رکھو۔‘‘
اس میں چار یا پانچ تکبیریں ہیں پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ اور کوئی سورت۔ دوسری تکبیر کے بعد درود شریف اسی طرح تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعائیں کی جائیں اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیا جائے۔
اس طریقہ کے متعلق ترتیب وار روایات پیش کی جاتی ہیں:
جابر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: أن النبی صلی علی اصحمۃ النجاشي فکبر أربعا (صحیح بخاری:۱۳۳۴)
’’آپ نے اصحمہ نجاشی کا جنازہ چار تکبیروں کے ساتھ پڑھا۔‘‘
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم جنازوں میں چار تکبیریں کہتے تھے اور ایک جنازہ پر پانچ تکبیریں کہیں میں نے اس کے متعلق سوال کیا تو کہنے لگے: کان رسول اﷲ یکبرھا (صحیح مسلم:۹۵۷) آپ (پانچ) تکبیریں بھی کہا کرتے تھے۔‘‘
ابوامامہ بن سہیل سے روایت ہے کہ : السنۃ فی الصلاۃ علی الجنائز أن یکبر ثم یقرأ بأم القرآن ثم یصلی علی النبی ثم یخلص الدعاء للمیت ولا یقرأ إلا فی التکبیرۃ الاولی ثم یسلم في نفسہ عن یمینہ (مصنف عبدالرزاق:۶۴۲۸)
’’نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ تکبیر کہو پھر سورہ فاتحہ پڑھو پھر نبی پردرود پڑھو پھر خاص طور پرمیت کے لئے دعا کرو ، قرأت صرف پہلی تکبیر میں کرو پھر اپنے دل میں دائیں طرف سلام پھیر دو۔‘‘
طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں: صلیت خلف ابن عباس علی جنازۃ فقرأ بفاتحۃ الکتاب وسورۃ،وجھرحتی أسمعنا،فلما فرغ أخذت بیدہ فسألتہ فقال: سنۃ وحق (صحیح نسائی:۱۸۷۹)
’’میں نے عبداللہ بن عباس کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی پس انہوں نے سورہ فاتحہ اور کوئی سورت جہراً پڑھی یہاں تک کہ ہمیں سنوایا پس جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کے متعلق سوال کیا، اُنہوں نے فرمایا: یہ سنت ہے اور حق ہے۔‘‘
عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:
ثلاث خلال کان رسول اﷲ1 یفعلن ترکھن الناس إحداھن التسلیم علی الجنازۃ مثل التسلیم في الصلاۃ (بیہقی:۴۳۱۴)
’’ تین خصلتیں جن کو رسول اللہ1 کرتے تھے لوگوں نے ان کو چھوڑ دیا ہے ان میں سے ایک جنازہ میں نماز کی طرح سلام پھیرنا ہے (یعنی دو طرف سلام)‘‘
مسنون دعائیں
نماز جنازہ کے متعلق مندرجہ ذیل دعائیں آپ سے ثابت ہیں جو آپ نے جنازہ میں پڑھیں:
(اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہٗ وَعَافِہِ وَاعْفُ عَنْہٗ وَأَکْرِمْ نُزُلَہٗ وَوَسِّعْ مُدْخَلَہٗ وَاغْسِلْہٗ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ،وَنَقِّہِ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْہٗ دَارًا خَیْرًا مِنْ دَارِہِ،وَأَھْلًا خَیْرًا مِنْ اَھْلِہِ، وَزَوْجًا خَیْرًا مِنْ زَوْجِہِ،وَأَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ وَأَعِذْہٗ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ[وَقِہِ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ] ) (صحیح مسلم:۹۶۳)
’’اے اللہ! اسے بخش دے اور اس پر رحم فرما، اسے عافیت میںرکھ اس سے درگزر فرما، اس کی بہترین مہمانی فرما، اس کی قبر کو کھول دے اور اس کے (گناہ) پانی اور اولوں اور برف سے دھو ڈال اور اس کی غلطیاں صاف فرما دے جس طرح تو سفید کپڑے کو میل سے صاف کرتا ہے اور اسے اس کے گھر سے بہتر گھر اور اہل سے بہتر اہل اور بیوی سے بہتر بیوی عطا فرما اور اسے جنت میں داخل فرما اور عذاب قبر آگ کے عذاب سے اسے بچالے۔‘‘
(اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا،وَشَاھدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا، وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا اَللّٰھُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَأَحْیِہِ عَلَی الِاسْلَامِ، وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مَنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الِایْمَانِ اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہٗ وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَہٗ)(صحیح ابن ماجہ:۱۲۱۷)
’’اے اللہ! ہمارے زندہ اور مردے، حاضر اور غائب، چھوٹے اور بڑے، مذکر و مونث کو بخش دے۔ اے اللہ! ہم میں سے جس کو تو زندہ رکھنا چاہتا ہے اس کو اسلام پر زندہ رکھ، اور جس کو تو فوت کرنا چاہتا ہے اس کو ایمان کی حالت پر مارنا۔ اے اللہ! ہمیں اس (میت) کے اجر سے محروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہمیں گمراہی میں نہ ڈالنا۔‘‘
(اَللّٰھُمَّ عَبْدُکَ وَابْنُ اَمَتِکَ،اِحْتَاجَ إلـٰی رَحْمَتِکَ،وَأَنْتَ غَنِیٌّ عَنْ عَذَابِہِ إنْ کَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِيْ اِحْسَانِہِ،وَإنْ کَانَ مُسِیْئًا فَتَجَاوَزْ عَنْہٗ) (مستدرک حاکم:۱؍۳۵۹)
’’اے اللہ! یہ تیرا بندہ اور تیری باندی کا بیٹا ، تیری رحمت کا فقیر ہے تو اس کے عذاب سے غنی ہے اگر یہ نیک تھا تو تو اس کی نیکی میں اضافہ کر اور اگر گناہ گار تھا تو درگزر فرما۔‘‘
 
Top