تنبیہات
کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے لیے الگ الک پانی لینے کا ذکر جس حدیث میں ہے اسے امام ابوداود نے حدیث:139 میں، امام نووی نے المجموع:360/1 میں اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہم نے التلخیص الحبیر:78/1 میں ضعیف کہا ہے۔ امام نووی اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ چلو سے آدھا پانی منہ میں اور آدھا ناک میں ڈالنا ہے۔
[المجموع:397/1، وزاد المعاد، فصل فی ھدیہ فی الوضوء:192/1]
کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے لیے الگ الک پانی لینے کا ثبوت بھی ایک اور حدیث میں ہے۔ شقیق بن سلمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے علی اور عثمان رضی اللہ عنہما کو دیکھا، انھوں نے وضو کیا، تین تین دفعہ 'اعضاء کو دھوتے ہوئے' پھر دونوں نے فرمایا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح وضو کیا تھا، اور'شقیق نے' بیان کیا کہ ان دونوں نے کلی اور ناک کے لیے الگ الگ پانی لیا تھا۔
[التاریخ الکبیر لابن ابی خیشمۃ، ص:588، حدیث:1410 وسند حسن لذاتہ۔]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کانوں کا تعلق سر سے ہے۔"
[صحیح سنن الدار قطنی:98/1 حدیث:327۔ وسندہ قوی، ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس روایت کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھیے التحقیق فی اختلاف الحدیث لابن الجوزی:94,95/1، حدیث:153۔]
اس کا مطلب یہ ہے کہ کانوں کے لیے نئے پانی کی ضرورت نہیں۔
[اور یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ کانوں کا حکم چہرے والا نہیں کہ انھیں دھویا جائے بلکہ ان کا حکم سر والا ہے، یعنی ان کا مسح کیا جائے۔ واللہ اعلم۔ ع۔ر
کانوں کے مسح کے لیے نیا پانی لینے والی روایت کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بلوغ المرام، حدیث:37 میں شاذ قرار دیا ہے۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
'گدی کے نیچے' گردن کے 'الگ' مسح کے بارے میں قطعا کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔
گردن کے مسح کی روایت کے متعلق امام نووی فرماتے ہیں:
یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔
[۱۔زاد المعاد، فصل فی ھدیہ فی الوضوء:195/1۔
سر اور کانوں کے مسح کے بعد اُلٹے ہاتھوں کے ساتھ گردن کا مسح کسی صحیح و مقبول حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ ز-ع]