- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
جنبی کے قرآن پڑھنے کی کراہیت
حالت جنابت میں قرآن حکیم کی تلاوت کے ممنوع ہونے کے بارے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھنے سے جنابت کے سوا اور کوئی چیز نہیں روکتی تھی۔"
[سنن ابی داود، الطھارۃ، باب فی الجنب یقرا القرآن، حدیث:229، وھو حدیث حسن، وجامع الترمذی، الطھارۃ، باب ما جاء فی الرجل یقرا القرآن علی کل حال۔۔۔۔، حدیث:146
حافظ ابن حجر نے فرمایا:
"حق یہ ہے کہ یہ حدیث حسن کی قسم سے ہے اور دلیل بننے کے لائق ہے"
[فتح الباری:408/1 ، تحت الحدیث:305]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنبی کے لیے قرآن پڑھنا جائز نہیں ہے چونکہ جنابت عموما ایک اختیاری حالت ہے جس کا ازالہ بھی اختیاری ہے، یعنی غسل کرکے یا 'کسی وجہ سے غسل نہ کرسکنے کی صورت میں' تیمم کرکے انسان اس حالت کو دور کرسکتا ہے، لہذا جنبی شخص کے لیے قرآن کریم کی تلاوت جائز نہیں ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے موقوفا بھی حسن سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ
قرآن مجید اس وقت تک پڑھو جب تک جنبی نہ ہوجاو اور اگر جنابت لاحق ہوجائے تو پھر ایک حرف بھی نہ پڑھو۔
[سنن الدار قطنی:118/1، حدیث:419 وقال:"ھو صحیح عن علی" وسندہ حسن]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کررہے تھے کی وہاں سے ایک آدمی گزرا تو اس نے آپ کو سلام کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب نہیں دیا۔
[صحیح مسلم، الحیض، باب التیمم، حدیث:370 معلوم ہوا کہ پیشاب کی حالت میں نہ تو کسی کو سلام کرنا چاہیے اور نہ کسی کے سلام کا جواب دینا چاہیے۔]
جب حدث اصغر کی حالت میں سلام کا جواب دینا مکروہ ہوا تو جنبی کا قرآن کی تلاوت کرنا بالاولٰی مکروہ ہوا،
البتہ باقی اذکار کی بابت امام نووی فرماتے ہیں:
جنبی کے لیے تسبیح، تحمید، تکبیر اور دیگر دعائیں اور اذکار بالاجماع جائز ہیں۔
[المجموع:164/2]
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔
[صحیح مسلم، الحیض، باب ذکراللہ تعالی فی حال الجنابۃ وغیرھا، حدیث:373]
حالت جنابت میں قرآن حکیم کی تلاوت کے ممنوع ہونے کے بارے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھنے سے جنابت کے سوا اور کوئی چیز نہیں روکتی تھی۔"
[سنن ابی داود، الطھارۃ، باب فی الجنب یقرا القرآن، حدیث:229، وھو حدیث حسن، وجامع الترمذی، الطھارۃ، باب ما جاء فی الرجل یقرا القرآن علی کل حال۔۔۔۔، حدیث:146
حافظ ابن حجر نے فرمایا:
"حق یہ ہے کہ یہ حدیث حسن کی قسم سے ہے اور دلیل بننے کے لائق ہے"
[فتح الباری:408/1 ، تحت الحدیث:305]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنبی کے لیے قرآن پڑھنا جائز نہیں ہے چونکہ جنابت عموما ایک اختیاری حالت ہے جس کا ازالہ بھی اختیاری ہے، یعنی غسل کرکے یا 'کسی وجہ سے غسل نہ کرسکنے کی صورت میں' تیمم کرکے انسان اس حالت کو دور کرسکتا ہے، لہذا جنبی شخص کے لیے قرآن کریم کی تلاوت جائز نہیں ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے موقوفا بھی حسن سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ
قرآن مجید اس وقت تک پڑھو جب تک جنبی نہ ہوجاو اور اگر جنابت لاحق ہوجائے تو پھر ایک حرف بھی نہ پڑھو۔
[سنن الدار قطنی:118/1، حدیث:419 وقال:"ھو صحیح عن علی" وسندہ حسن]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کررہے تھے کی وہاں سے ایک آدمی گزرا تو اس نے آپ کو سلام کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب نہیں دیا۔
[صحیح مسلم، الحیض، باب التیمم، حدیث:370 معلوم ہوا کہ پیشاب کی حالت میں نہ تو کسی کو سلام کرنا چاہیے اور نہ کسی کے سلام کا جواب دینا چاہیے۔]
جب حدث اصغر کی حالت میں سلام کا جواب دینا مکروہ ہوا تو جنبی کا قرآن کی تلاوت کرنا بالاولٰی مکروہ ہوا،
البتہ باقی اذکار کی بابت امام نووی فرماتے ہیں:
جنبی کے لیے تسبیح، تحمید، تکبیر اور دیگر دعائیں اور اذکار بالاجماع جائز ہیں۔
[المجموع:164/2]
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔
[صحیح مسلم، الحیض، باب ذکراللہ تعالی فی حال الجنابۃ وغیرھا، حدیث:373]