• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کامیابی آپ کے ہاتھ میں

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اس میں کوئی شک نہیں انس بھائی کہ اللہ جسے چاہتا ہے کشادہ رزق عطا فرماتا ہے وہ رب العالیمن ہے اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں پر اللہ نے یہ دنیا اسباب کے ذریعے رواں دواں رکھی ہے اور اسی کا فرمان ہے کہ
"اوریہ کہ انسان کے لےبس وہی کچھ ہے جس کی اس نے سعی کی"(سورۃ النجم:39)
جی میری بہن! مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ یہ دُنیا اللہ تعالیٰ نے اسباب کے ذریعے رواں دواں رکھی ہے، اور کسی کو گھر بیٹھ روٹیاں توڑنے اور ہاتھ ہلائے بغیر توکّل کرنے سے منع فرمایا ہے۔

لیکن ۔۔۔

اس بارے لوگ افراط وتفریط کا شکار ہیں!

تفریط یہ ہے کہ اسباب اختیار کرنے کی کوئی حیثیت نہیں، بس سارا اعتماد اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہئے، ایسے ’کاہل‘ لوگ در اصل اپنی کاہلی کیلئے شریعت سے جواز تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔
جامع ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ میں اونٹ کو باندھوں اور توکل کروں یا کھلا چھوڑ کر توکل کروں، نبی کریمﷺ نے فرمایا:
« اعقلها وتوكل » ۔۔۔ صحيح الترمذي للألباني: 2517
کہ اسے باندھو اور اللہ پر توکل رکھو۔

تَوکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر اس کی تیزی کو مقدّر کے حوالے کر

اس کے بارے میں افراط یہ ہے سب کچھ اسباب کو ہی سمجھ لیا جائے اور اللہ پر اعتماد نہ کیا جائے تو یہ ایک دوسری انتہا ہے (جیسے آج کل دہریوں اور اہل مغرب کا خیال ہے)

حق ان دونوں کے درمیان ہے۔
انسان کو حتی الوسع اپنی پوری کوشش کرنی ہے، اور اس کوشش کا انجام سو فیصد اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا ہے، اور بہتر نتیجے کی اللہ سے دُعا کرنی ہے۔
یہ عین ممکن ہے کہ دو لوگ بالکل ایک جیسے اسباب اختیار کریں لیکن نتیجہ میں زمین وآسمان کا فرق ہو، اور اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔

ہمیں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے، جب سیدنا یعقوب﷤ نے اپنے بیٹوں کو سیدنا یوسف ﷤ کے پاس مصر غلّہ لینے کیلئے بھیجا تو چونکہ وہ سارے خوبصورت وتوانا جوان تھے تو نظرِ بد سے بچنے کیلئے انہیں یہ تدبیر بتائی کہ شہر میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا، لیکن ساتھ ہی وضاحت کر دی کہ یہ میری تدبیر ہے، آخری حکم تو اللہ کا ہی ہے، میرا اصل اعتماد اور توکل تو اللہ پر ہی ہے:
﴿ وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّ‌قَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ٦٧ ﴾ ۔۔۔ سورة يوسف

اللہ تعالیٰ نے سیدنا اسرائیل﷤ کے اس توکل کی بہت تعریف فرمائی کہ وہ علم والے تھے اور یہ علم (توکل والا ودیگر) انہیں ہم نے سیکھایا تھا:
﴿ وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَ‌هُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ٦٨

جہاں تک آپ نے سورہ نجم کی جس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے "اور یہ کہ انسان کے لےبس وہی کچھ ہے جس کی اس نے سعی کی" (سورۃ النجم:39)
تو یہ آیت کریمہ نیک اعمال سے متعلق ہے کہ روزِ آخرت انسان کو اگر جہنم سے نجات ملے گی تو دنیا میں کیے گئے اپنے نیک اعمال کی بناء پر! کسی دوسرے کے نیک عمل کا فائدہ اسے نہیں پہنچے گا، اگر سیاق وسباق مد نظر رکھیں تو یہ مفہوم بالکل واضح ہے اور تمام مفسرین نے اس کا یہی مفہوم بیان فرمایا ہے::
﴿ أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَىٰ ٣٦ وَإِبْرَ‌اهِيمَ الَّذِي وَفَّىٰ ٣٧ أَلَّا تَزِرُ‌ وَازِرَ‌ةٌ وِزْرَ‌ أُخْرَ‌ىٰ ٣٨ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ٣٩ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَ‌ىٰ ٤٠ ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم
پہلے برے اعمال کے متعلق بتایا کہ کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا، پھر نیک اعمال کی متعلق وضاحت فرمائی کہ کسی کو دوسرے کے نیک اعمال کا صلہ نہیں مل سکتا، اس کیلئے بذاتِ خود نیک اعمال کرنے ہوں گے۔ اور آیت نمبر 40، 41 تو معاملے کو بالکل واضح کر دیتی ہیں کہ یہ روزِ محشر کو ہوگا۔

فائدہ کی غرض سے واضح کر دوں کہ چونکہ یہ صحف ابراہیمی اور موسوی کے حوالے سے بات ہو رہی ہے کہ اس لئے سیدنا ابن عباس﷜ وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ یہ پہلی شریعتوں میں تھا لیکن ہماری شریعت میں منسوخ ہے اور ہماری شریعت میں بعض اوقات مؤمنوں کو دوسروں کے اعمال کا فائدہ بھی پہنچ جاتا ہے، انہوں نے اس فرمانِ باری سے استدلال کیا ہے:
﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّ‌يَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّ‌يَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِ‌ئٍ بِمَا كَسَبَ رَ‌هِينٌ ٢١ ﴾ ۔۔۔ سورة الطور
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے، ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے (21)

گویا مؤمن ماں باپ کی مؤمن اولاد کا عمل اگر ماں باپ سے کم بھی ہوگا تو جنت میں انہیں کسی کا عمل کم کیے بغیر اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ایک بلند درجے میں اکٹھا کر دیں گے۔

لیکن یہ صرف مؤمنوں کیلئے ہے، ایک مؤمن (خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو) اس کا فائدہ اس کی کافر اولاد کو نہیں پہنچ سکتا۔

جبکہ دیگر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ امتِ محمدیہ کیلئے بھی ہے۔ اور ہر شخص کو اُسی کے نیک اعمال کا فائدہ ہوگا سوائے ایسے خاص اعمال کے، جن کے متعلّق شریعت میں صراحت ہو، مثلاً صدقہ وخیرات اور حج وغیرہ میت کی طرف سے کیا جا سکتا ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جی ہاں اس دنیا میں کافر کامیاب نھی کامیاب ترین ہے آخرت میں خسارے میں ہونگے
ایک غل مچاہواہے کہ مسلم ہے خستہ حال
پوچھوذرا سا کہ مسلمان ہے کہاں
مجھے آپ سے اتفاق نہیں۔ اسے کامیابی نہیں کہا جا سکتا۔

نبی کریمﷺ کے دور میں بھی مسلمان ظاہری طور پر خستہ حال تھے اور قیصر وکسریٰ کے پاس ہر قسم کی دولت تھی۔ اسی لئے حدیث مبارکہ میں ہے کہ سیدنا عمر﷜ نے جب نبی کریمﷺ کو سادہ چٹائی سے لیٹے دیکھا اور یہ دیکھا چٹائی کی سختی کے اثرات آپ کے جسم مبارکہ پر ہیں تو روپڑے ۔۔۔

لیکن کامیاب کون تھا؟

کیا کہا جا سکتا ہے کہ قیصر وکسریٰ دنیا میں کامیاب ترین تھے اور مسلمان ناکام؟

مثال کے طور پر مسلمان کو نماز پڑھنے اور ذکر میں جو ٹھنڈک اور اطمینانِ قلبی نصیب ہوتا ہے، وہ اصل کامیابی نہیں؟؟

جعلت قرة عيني في الصلاة
﴿ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ‌ اللَّـهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ‌ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ٢٨ ﴾ ۔۔۔ سورة الرعد

دین پر عمل کرنے میں دنیا وآخرت دونوں کی کامیابی ہے۔

اسی لئے ہمیں یہ دعا سکھائی گئی:
ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار

فرماِنِ باری ہے:
﴿ وَالَّذِينَ هَاجَرُ‌وا فِي اللَّـهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ‌ الْآخِرَ‌ةِ أَكْبَرُ‌ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ٤١ الَّذِينَ صَبَرُ‌وا وَعَلَىٰ رَ‌بِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ٤٢ ﴾ ۔۔۔ سورة النحل
جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راه میں ترک وطن کیا ہے ہم انہیں بہتر سے بہتر ٹھکانا دنیا میں عطا فرمائیں گے اور آخرت كا ثواب تو بہت ہی بڑا ہے، کاش کہ لوگ اس سے واقف ہوتے (41) وه جنہوں نے دامن صبر نہ چھوڑا اور اپنے پالنے والے ہی پر بھروسہ کرتے رہے (42)

جب اللہ تعالیٰ سیدنا یوسف﷤ کو مصر میں اقتدار دیا تو فرمایا:
﴿ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْ‌ضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ۚ نُصِيبُ بِرَ‌حْمَتِنَا مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ‌ الْمُحْسِنِينَ ٥٦ وَلَأَجْرُ‌ الْآخِرَ‌ةِ خَيْرٌ‌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ٥٧ ﴾ ۔۔۔ سورة يوسف

تو مسلمانوں نیک اعمال کی بناء پر دنیا میں بھی نعمتیں ملتی ہیں اور آخرت میں بھی۔
جبکہ کافر کیلئے آخرت میں تو کچھ نہیں اور اگر اسے دُنیا میں کچھ ملتا ہے تو وہ اس کیلئے کامیابی اور نعمت نہیں، بلکہ ڈھیل اور استدراج ہے۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ‌ لِّأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ١٧٨ ﴾ ۔۔۔ سورة آل عمران
کافر لوگ ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، یہ مہلت تو اس لئے ہے کہ وه گناہوں میں اور بڑھ جائیں، ان ہی کے لئے ذلیل کرنے واﻻ عذاب ہے (178)

والله تعالیٰ اعلم!!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اگر یہ کہنا صحیح ہو کہ جن کفار کے ساتھ بہت دولت ہے وہ انہوں نے اپنی محنت سے کمائی ہے۔
تب پھر قارون میں خرابی کیا تھی، وہ بھی یہی کہا کرتا تھا کہ یہ سارا مال میں نے اپنے علم اور صلاحیتوں سے حاصل کیا ہے؟؟؟
﴿ قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي ۚ أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُ‌ونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ‌ جَمْعًا ۚ وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِ‌مُونَ ٧٨ ﴾ ۔۔۔ سورة القصص
قارون نے کہا یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے، کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں کو غارت کر دیا جو اس سے بہت زیاده قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے۔ اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی (78)
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
زینب کے فیس بک پر کتاب کا ٹایٹل دیکھ کر بھت اچھا لگا آپ کو بھت بھت مبارک ہو اور اللہ تعالی آپ کو مزید توفیق عطاء فرماے اللھم زد فزد میری بھن تمیمہ نے اسلام آباد انٹر نیشنل یونیورسٹی میں آپ سے پڑھا ہے محدث فورم پر آپ کی آمد سے بھت خوشی ہویی
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
توکل اسباب کے منافی نہیں جب تک کہ دلی بھروسہ سبب پر نا ہو۔ اسباب پردہ ہیں۔ کرنے والی ذات اللہ کی ہے۔ قدرت سبب میں نہیں بلکہ قدرت اللہ کی ذات میں ہے۔ توکل اسباب چھوڑنا نہیں بلکہ اسباب سے ہونے کے چھوڑنے کا نام ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
تمام نعمتیں اور رحمتیں اللہ کی طرف سے ہوتی ہیں، ان کی نسبت صرف اور صرف عمل، علم، ہنر یا محنت وغیرہ کی طرف کرنا صحیح نہیں!
فرمانِ باری ہے:
﴿ فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ‌ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌هُمْ لَا يَعْلَمُونَ ٤٩ قَدْ قَالَهَا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ ٥٠ فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا ۚ وَالَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ هَـٰؤُلَاءِ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَمَا هُم بِمُعْجِزِينَ ٥١ أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَبْسُطُ الرِّ‌زْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ‌ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ٥٢ ﴾ ۔۔۔ سورة الزمر

انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرمادیں تو کہنے لگتا ہے کہ اسے تو میں محض اپنے علم کی وجہ سے دیا گیا ہوں، بلکہ یہ آزمائش ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ بے علم ہیں (49) ان سے اگلے بھی یہی بات کہہ چکے ہیں پس ان کی کارروائی ان کے کچھ کام نہ آئی (50) پھر ان کی تمام برائیاں ان پر آ پڑیں، اوران میں سے بھی جو گناه گار ہیں ان کی کی ہوئی برائیاں بھی اب ان پر آ پڑیں گی، یہ (ہمیں) ہرا دینے والے نہیں (51) کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے روزی کشاده کر دیتا ہے اور تنگ (بھی)، ایمان ﻻنے والوں کے لیے اس میں (بڑی بڑی) نشانیاں ہیں (52)
 

زینب

مبتدی
شمولیت
اپریل 19، 2012
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
170
پوائنٹ
24
مجھے بھی ارسل فرماے ایک نسخہ میں اس کا ھدیہ ارسل کرونگی ان شاء اللہ باجی
ضرور ان شاء اللہ مجھے اپنا پتہ اور بھیجدے میں ارسال کرونگی کیونکہ مس ابھی قصور کی دورے پر ہے اور گیارہ میی کو ان کی دبی کا ٹکٹ کنفرم ہے محدث فورم پر بھی آپ مجھے ذاتی پیغام بھیج سکتی ھو ان شاء اللہ میں ارسال کرونگی میں مس جی کی شاگردہ ہو
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاک اللہ خیرا نس نضر بھائی
سبحان اللہ،کیا بات ہے
اللہ آپ کو دنیا و آخرت میں کامیابی عطا فرمائے آمین۔
وایاکم اجمعین!!
آمین یا رب العٰلمین!!
 
Top