• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتابت ِ مصاحف اور علم الضبط

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭البتہ لیبی اورتونسی مصاحف بروایۃ قالون میں ’و‘ اور’ ی‘کی صورت اِدغام میں نون ساکنہ پر علامت سکون اور ’و‘ یا ’ی‘ پرتشدید بھی ڈالی گئی ہے یعنی ’مَنْ یَّقُوْلُ‘ اور ’مِنْ وَّالٍ‘ لکھا گیا ہے۔ یہی طریقہ صاحب الطرازنے الدانی رحمہ اللہ اور ابوداؤدرحمہ اللہ کا ’اختیار‘ قرار دیا ہے اور ٹھیک یہی طریقہ تمام پاکستانی مصاحف میں استعمال ہوتاہے اور اس لحاظ سے مصری اور سعودی مصاحف کا ضبط ناقص ہے۔ پاکستان کے ’تجویدی مصحف‘ میں ادغام مع الغنہ سے قاری کو بروقت متنبہ کرنے کے لیے نون پر مخصوص علامت سکون ( ) ڈالی گئی ہے اور یہ اس مصحف کی مزید خوبی ہے۔(دیکھئے اوپر حاشیہ ۸۹)
٭ساکن نون کے قبل از ’ب‘ ہونے کی وجہ سے اس کے اقلاب بمیم کی صورت میں ’ن‘ پر علامت سکون کی بجائے چھوٹی سی میم(م) لکھی جاتی ہے، مثلاً مصری سعودی اور افریقی مصاحف میں (دیکھئے ان کے ضمیمہ ہائے تعریفی)اور بعض اس ’م‘ کے اوپر علامت سکون ڈالتے ہیں،مثلاً پاکستانی تجویدی قرآن مجید میں (دیکھئے اس کامقدمہ ص۲۰) یعنی پہلی صورت میں’من بعدہ‘ لکھیں گے اور دوسری صورت میں یہ لفظ یوں لکھا جائے گا: ’’من بعدہ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣١) تشدید (شد):یہ دراصل ہم مخرج یا ہم جنس حروف کے سکون اور حرکت کا اِمتزاج ہے، جو کبھی ایک کلمہ میں واقع ہوتا ہے اور کبھی دو کلمات میں۔ ابوالاسودرحمہ اللہ نے خود تو نہیں مگر ان کے متبعین نے اس کے لیے ’ ‘ کی شکل تجویزکی تھی جو دال مقلوبہ سے ماخوذ تھی۔ (المحکم ص۴۹ ببعد،نیز الطرازورق ۲۶؍الف ببعد)پہلے اس کے لیے قوس کی شکل بھی ( یا یا ) اختیار کی گئی تھی۔ الخلیل رحمہ اللہ نے اس کے لیے موجودہ علامت ( ّ ) ایجاد کی، جو تشدید یاشدہ کے ’ش‘ سے ماخوذ ہے۔ اشکال کے معمولی فرق ، مثلاً یا کے ساتھ یہ نظام اب تک دنیائے اسلام کے مشرق و مغرب میں ہرجگہ مستعمل ہے، البتہ حرف مشدد مکسور کی حرکت کے موقع میں کہیں کہیں اختلاف ہے۔(غانم ص۵۹۰ ببعد ۱۰۱، المقنع ص ۱۲۷، المحکم ص۶۸)
(٣٢) تنوین: یہ دراصل حرف متحرک اور نون ساکنہ کا امتزاج ہے، جوکسی کلمہ کے آخر پرواقع ہوتا ہے۔ اس میں نون ملفوظی شکل میں موجود مگر مکتوبی شکل میں غائب ہوتا ہے۔الدانی رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق ابوالاسودرحمہ اللہ نے اس کے لیے دو نقطے تجویز کئے تھے، جو تنوین رفع کے لیے حرف کے سامنے (پیچھے)، تنوین نصب کے لیے حرف کے اوپراور تنوین جر کے لیے حرف کے نیچے لگائے جاتے تھے۔ کسی حرف حلقی سے ماقبل یہ نقطے متراکب (:) اور حروف اخفاء سے پہلے متتابع (..) ہوتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ الخلیل رحمہ اللہ کے ایجاد کردہ طریقے میں اسے دو دو حرکات سے ظاہر کیا جانے لگا اور اب تک کیا جاتا ہے۔
٭تنوین کے نون کے اِقلاب بمیم کو ظاہر کرنے کے لیے برصغیر اور چین کے مصاحف میں پوری تنوین لکھنے کے بعد اگلی ’ب‘ پر چھوٹی سی ’م‘لکھنے کا رواج رہا ہے، مثلاً أمداً بعیداً۔ ترکی اور ایران کے بیشترمصاحف میں یہ چھوٹی ’م‘لکھنے کا مطلقاً رواج نہیں ہے۔ معلوم نہیں وہ اس ’ن‘ کی آواز کوکس طرح ’م‘ میں بدلتے ہیں۔ بظاہر یہ نہایت ناقص ضبط ہے اور قاری کو صحیح تلفظ میں کوئی مدد نہیں دیتا ۔ عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں بصورتِ تنوین اس اقلاب کو ظاہر کرنے کے لیے تنوین کی صرف ایک حرکت لکھ کر ساتھ چھوٹی سی ’م‘ لکھ دی جاتی ہے۔ ( )تجویدی قرآن میں یہ چھوٹی ’م‘ پوری تنوین اخفاء کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ ( ) یہ طریقہ مصری مصحف سے ہی ماخوذ ہے، مگر ذرا ترمیم کے ساتھ جو کاتب مصحف کے لیے مشکل پیدا کرنے والی ہے، مگر قاری کے لیے نہایت مفید ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭تنوین کے نون ملفوظی اورمابعد کے مشدد یاساکن حرف کے اتصال کی علامت کے طورپرمشرقی ممالک، خصوصاً ترکی، ایران، برصغیر اور چین میں حرف منون کے بعد یا تنوین کے نیچے ایک چھوٹا سا ’ن‘لکھتے ہیں جو اکثر مکسور ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں برصغیر میں اس نون کو ’نون قطنی‘ بھی کہتے ہیں۔ تجویدی قرآن میں یہ نون تنوین کی دوسری حرکت کے بدل کے طور پر ایک سرے پرلکھا گیا ہے۔ ( ) یہ عجیب بات ہے کہ عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اس مقصد کے لیے کوئی علامت استعمال نہیں کی جاتی، حالانکہ اُصول تجوید میں اس نون اتصال یانون قطنی کے طریق اداء سے بحث کی جاتی ہے۔ (حق التلاوۃ ص۶۹، الکلاک ص۷۰)شاید اہل زبان خود بخود ایسے موقع پر نون اتصال کا تلفظ پیدا کرلیتے ہوں، مگر اہل مشرق کے لیے اس علامت کے بغیر اسے صحیح پڑھنا ناممکن ہے۔
(٣٣) حرکات طویلہ: یعنی الف ما قبل مفتوح یا’و‘ ما قبل مضموم یا ’ی‘ ما قبل مکسور، جسے دوسرے لفظوں میں مدطبیعی یا مد اصلی بھی کہتے ہیں۔ رسم عثمانی میں ان حرکات کے متعدد اور متنوع مظاہر پائے جاتے ہیں اور ان کے خلاف قیاس اور متباین کتابت نے علم الضبط کے لیے بھی کئی مسائل پیدا کردیئے ہیں۔ مد کی صورت میں یہ حروف مدہ یعنی ا، و،ی ہمیشہ ساکن ہی ہوتے ہیں اور اس وقت یہ حرف صامت کانہیں، بلکہ حرف صائت کاکام دیتے ہیں۔ ان حروف کے بعد ہمزہ یا حرف ساکن کے آنے سے مد کی زیادہ کھینچے جانے والی صورتیں یعنی مد فرعی اور اس کی اقسام پیدا ہوتی ہیں۔ اس صورت میں مقدار مد کی بنا پر حرف مد کے اوپر علامت مد ’ ٓ ‘ لکھی جاتی ہے۔ یہ علامت بھی الخلیل رحمہ اللہ کی ایجاد ہے۔ افریقی ملکوں میں اور بعض دفعہ خط بہار کے مصاحف میں یہ علامت اس صورت میں لکھی جاتی ہے:( ) یا ( )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭کتب تجوید میں مد کے طول اور قصر کی بنا پراس کی کئی اقسام مذکور ہوتی ہیں، تاہم عموماً تمام ملکوں میں ہرقسم کی مد کے لیے علامت ایک ہی استعمال ہوتی ہے۔ غالباً صرف برصغیر میں ہی مد متصل ( ٓ) اور مد منفصل ( ٓ) کی دو علامتیں مستعمل ہیں۔ بعض ایرانی نسخوں میں بھی مد کی یہ دو علامتیں یعنی چھوٹی مد( ٓ)اور بڑی مد ( ٓ)دیکھی گئی ہیں۔
٭الف تو ہمیشہ ما قبل مفتوح ہوتا ہے اور ممدود ہوتا ہے مگر ’و‘ اور ’ی‘ اگر ماقبل مفتوح ہوں تو اسے ’لین‘ کہتے ہیں اور اس میں صرف خاص شرائط کے ساتھ مد پیدا ہوتی ہے، جسے کتب تجوید میں مدُّ اللین کہتے ہیں، لیکن اس کے لیے کوئی علامت ضبط مقرر نہیں ہے۔ ’و‘ اور’ی‘ لینہ ہوں تو ان پرعلامت سکون ڈالنے کا رواج ہر جگہ ہے۔ مگر ’و‘ یا ’ی‘ مدہ پر علامت سکون ڈالنے کا رواج نہ افریقی ملکوں میں ہے، نہ بلاد عرب میں، بلکہ ترکی، ایران اور چین تک یہی طریقہ رائج ہے، البتہ صرف برصغیر میں واو مدہ اور یائے مدہ پربھی علامت سکون ڈالتے ہیں، مثلاً یُورِثُ اور مِیزَانٌ کو یُوْرِثُ اور مِیْزَانٌ لکھیں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ نحوی نقطہ نظر سے ، اور الف ماقبل مفتوح پرقیاس کرتے ہوئے شاید برصغیر کا یہ تعامل درست نہ سمجھا جائے، لیکن غالباً صوتیاتی اصولوں کے مطابق نہ زیادہ بہتر ہے، مثلاً اوّل تو عرب ممالک کے رائج طریقہ میں اُولئک، اُولُوالعزم اور اُولی الامر وغیرہ الفاظ میں پڑھنے والے کو التباس پیدا ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن ملکوں یا علاقوں میں حرف مد ( و یا ی) پر علامت سکون ڈالنے کا رواج نہیں ہے، وہاں قاری کو غلطی سے بچانے کے لیے مذکورہ قسم کے کلمات میں حرف مد پر حرف زائد کی علامت لکھتے ہیں، مثلاً أولئک،مثلاً مصری اور سعودی مصحف جہاںزائد کی علامت ’ ‘ کی بجائے ’ ‘ ڈالی گئی ہے۔ بعض جگہ حرف کے نیچے باریک قلم سے لفظ ’’قصر‘‘ (أولئک) لکھ دیتے ہیں اور بعض جگہ حرف کے نیچے لفظ ’بلااشباع‘ لکھتے ہیں،جبکہ ایران، مصر اور ترکی سے مطبوعہ ایسے مصاحف بھی ملتے ہیں، جن میں اس التباس کے دور کرنے کے لیے کوئی علامت وغیرہ نہیں دی گئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭دوسرے یہ کہ جب حرف مد کے بعد حرف ساکن آرہا ہو جس میں حرف ممدود کو آگے ملایاجاتا ہے تو اس صورت میں برصغیر میں حرف مد پرعلامت سکون نہیں ڈالتے، جس سے قاری کو پتہ چل جاتا ہے کہ مدبلکہ حرف مد کا تلفظ ہی ختم ہوگیا، لیکن عرب ممالک کے ضبط کے مطابق قاری پہلے تو بادی النظر میں ایسے حرف مد کو بصورت مد پڑھے گا، پھر اسے پتہ چلے گا کہ اسے تو آگے ملانا ہے، مثلاً لفظ ’اُوْتُوا‘ برصغیر سے باہر ’اُوتُوْا‘ لکھا جاتا ہے، اس کے بعد مثلاً ’الْعِلْم‘ لکھا جائے تو یہ ہمارے ہاں ’اُوْتُوا‘ لکھا جائے گا، مگر دوسرے ملکوں میں یہ ’أُوتُوْا الْعِلْم‘ لکھا جاتاہے۔ یہاں ’تُوا‘ کو ’ل‘میں ملانے کا پتہ قاری کو’تُو‘ یعنی ’تُو‘ پڑھ چکنے کے بعد چلتا ہے، مگر برصغیر کا قاری ’ت‘ اور ’ل‘ کے درمیانی حروف کو علامت سے خالی دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ ان کا تلفظ ہی نہیں ہوگا۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب ھُوَ اور ھِیَ میں ’و‘ یا ’ی‘ پرعلامت حرکت لگ سکتی ہے، تو ھُو یاھِی میں علامت سکون کیوں نہ لگے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣٤) مد کے ہی مسائل میں محذوف (مگر ملفوظ) حرف مد کے ضبط کا مسئلہ آتا ہے۔عموماً تو یہ محذوف ’الف‘ ہوتاہے، مثلاً ’رحمن‘‘میں ’م‘ اور ’ن‘ کے درمیان الف محذوف ہے اور قرآن کریم میں اس کی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں۔ کبھی کبھار یہ محذوف ’و‘‘یا ’ی‘بھی ہوتی ہے ،مثلاً ’داوٗد‘ میں ایک ’و‘اور ’أُمِّیِین‘ میں ایک ’ی‘‘محذوف ہے۔ قلمی دور میں یہ محذوف (ا،و،ی) سرخی سے باریک قلم کے ساتھ لکھ دی جاتی تھی اور اسے ماقبل کی حرکت کے مطابق پڑھ لیا جاتاتھا۔ دور طباعت میں عرب اورافریقی ممالک میں یہ محذوف (ا،و، ی) باریک قلم کے ساتھ متن کی ہی سیاہی سے لکھ دیئے جاتے ہیں اور ماقبل کی حرکت فتحہ، ضمہ یاکسرہ بھی لکھتے ہیں، مثلاً الرَّحمٰن ، داوٗد اور ’أُمِّیـن‘ لکھیں گے، مگر برصغیر میں ’ ‘ کی جگہ ’ ‘ ،’ ‘ کی جگہ ’ ‘ اور ’ ‘ کی جگہ ’ ‘لکھا جاتا ہے اور اس طرح یہ لفظ الرحمٰن، داوٗد اور ’أُمِّیــن‘ لکھے جاتے ہیں۔ عرب ممالک کے مصاحف میں سے صرف مصحف الحلبی میں ان مشرقی علامات کو اختیار کیا گیا ہے۔ (مصحف الحلبیص۵۲۳، ص ۵۲۵، بیان علامات (التعریف) ترکی اور ایران میں کھڑی زبر ’ ٰ ‘اور کھڑی زیر’ ٖ‘ کا استعمال کہیں کہیں ملتا ہے، مگر ضمہ معکوس یا الٹی پیش ’ ٗ ‘ کااستعمال ان ملکوں میں مفقود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣٥) اور اسی قسم کی مد (بحذف حرف مد) کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ اسم جلالت کی لام کے اشباع (مد اصلی) کا طریقہ کتابت ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ تمام عرب اور افریقی ممالک بلکہ ترکی اورایران میں بھی اسم جلالہ یوں لکھا جاتاہے: ’اللَّہ‘ حالانکہ تلفظ میں یہ لفظ’الّٰہ‘ہیں، بلکہ ’الاَّہ‘ ہے، بلکہ لام کے اشباع (مد) کے علاوہ اس لام کی تفخیم اور ترقیق علم تجوید کا ایک اہم قاعدہ ہے۔ (حق التلاوۃ ص۶۸ والکلاک ص۶۹ و ص ۱۰۴)
٭حقیقت یہ ہے کہ عرب اور افریقی ممالک میں الف مدہ محذوفہ میں ماقبل کی فتحہ لکھے بغیر مد کا تصور ہی نہیں ہے، اس لیے وہ اسم جلالت کے لام پر شد اور فتحہ ڈالتے ہیں۔ اب اگر اس کے ساتھ مد کی خاطر الف محذوفہ کا اثبات بھی کیاجائے تو پھر اسے ’اللہ‘لکھنا پڑے گا،جو ان کے ضبط کے مطابق لکھے ہوئے ’اللّٰتَ‘ سے مشابہ ہی ہوجائے گا۔ا س لیے ان تمام ملکوں میں یہ لفظ جلالہ غلط علامت ضبط کے ساتھ لکھا جاتا ہے اور اس کا درست پڑھنا صرف شفوی تعلیم پر منحصر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭صرف برصغیر میں لام جلالت کی اس مد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے ’اللہ‘ لکھا جاتاہے یاپھر چین میں اسے ’اللہ‘ لکھا جاتاہے۔ تلفظ کے تقاضوں کے مطابق اس معاملے میں عرب اور افریقی ممالک یا ایران اور ترکی سب کا طریق ضبط ناقص ہے۔ برصغیر کی تازہ ترین ایجاد اس معاملے میں یہ ہے کہ اب تجویدی قرآن(مطبوعہ پاکستان) میں لام جلالت کی تفخیم یا ترقیق کے لیے دو الگ الگ علامات ضبط اختیار کی گئی ہیں۔ لفظ جلالت کے تمام تجویدی تقاضوں کے مطابق یہ اس کے لیے بہترین ضبط ہے۔
(٣٦) علم الضبط کے مسائل میں ’زیادۃ فی الہجاء‘ یا حروف زوائد کا مسئلہ بھی اہم ہے، یعنی وہ حروف جو رسم عثمانی کے مطابق لکھے جاتے ہیں مگر پڑھے نہیں جاتے، مثلاً مائۃ،جاء اور لشاء وغیرہ کا الف،: أولئک،أُولی یاأُولو وغیرہ کی واو اور نباء یا تلقاء وغیرہ کی ’یا‘ واو الجماعۃ کے بعد لکھا جانے والا الف، جسے الف الاطلاق کہتے ہیں۔ (ابن درستویہ ص۱۰۵ (حاشیہ ۴۶))اور ضمیر واحد متکلم (أنا) کے آخر پر آنے والا الف وغیرہ۔ (حروف زوائد کی تفصیل کے لیے دیکھئے: حق التلاوۃ ص۱۵۴ ببعد)عرب اور افریقی ممالک میں اس قسم کے زائد الف ’و‘ یا ’ی‘ پر ایک علامت زیادہ یا’عدم نطق‘ ڈالی جاتی ہے، جو عموماً ایک بیضوی شکل کا دائرہ (0)ہوتا ہے۔ ہجاء کے ان زوائد پر یہ علامت ڈالنے کا رواج بہت پرانا ہے۔ ’نقط المصاحف‘ کے طریقے میں بعض دفعہ اس مقصد کے لیے صر ف سرخ نقطہ بھی استعمال ہوتا تھا۔ الخلیل رحمہ اللہ نے اس کے لیے کوئی الگ علامت وضع نہیں کی تھی۔ اس لیے بعد میں بھی یہی سرخ گول دائرہ (دائرۃ حمراء) اس مقصد کے لیے مستعمل رہا۔ (المقنعص۱۴۰ ببعد نیز الطرازورق ۹۴؍ب ببعد)بلاد عرب اور افریقی ممالک کے اندر رائج طریقے پر مصحف میں حروف زوائد (محتاج دائرہ) کی تعداد سینکڑوں تک جاپہنچتی ہے، خصوصاً الف الاطلاق کو بھی شامل کرلینے کی بناء پر۔
 
Top