• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کلمہ گو مشرک کی دین اسلام سے غداری

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
عبدہ بھائی! میرے سوال کا اصل یہی ہے کہ ایک انسان قرآن کی واضح آیات کی موجودگی پر بھی اگر مشرک ہے تو کیا ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا؟۔ بھلے وہ کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو جہاں تک بات ہے اُن علماء اہلحدیث حضرات کی ان جیسے عقائد کے حاملین کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں تو یقینا اُن کے پاس اس زمرے میں کوئی دلیل ہوگی، اگر اُن کے پاس دلیل ہے تو سامنے کیوں نہیں لائی جاتی اور اگر نہیں ہے تو پھر خواہشات پر دین اور شریعت کی بنیاد رکھنا اس کی دلیل پیش کردیں اور اگر یہ بھی نہیں پیش کی جاسکتی تو پھر کلمہ گومسلمان مشرک کو" کافر" کہنے کی کوئی تیسری وجہ لازمی سامنے آنا چاہئے۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
ایک سوال میرا بھی ۔۔۔۔۔۔

خود کو سچا متبع سنت ، حسن خلق سے متصف اور متقی مسلمان بنانے کی کوششوں میں رات دن سرگرم رہنے کے بجائے ایک مخصوص طبقہ فکر کے جذباتی نوجوان ہر دم اس جستجو میں کیوں مشغول رہتے ہیں کہ فلاں فلاں کو مشرک اور کافر کیوں نہیں قرار دیا جاتا؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ایک سوال میرا بھی ۔۔۔۔۔۔

خود کو سچا متبع سنت ، حسن خلق سے متصف اور متقی مسلمان بنانے کی کوششوں میں رات دن سرگرم رہنے کے بجائے ایک مخصوص طبقہ فکر کے جذباتی نوجوان ہر دم اس جستجو میں کیوں مشغول رہتے ہیں کہ فلاں فلاں کو مشرک اور کافر کیوں نہیں قرار دیا جاتا؟
محترم بھائی اگرچہ آپ کا سوال موضوع سے متعلق نہیں پھر بھی جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں
آپ کے سوال کے مقصد میں دو احتمال مجھے نظر آ رہے ہیں دونوں کے تحت علیحدہ جواب بنتا ہے آپ کی جو نیت ہو اسکے مطابق جواب دیکھ لیں اور غلطی پر میری تصحیح کر دیں اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین
پہلا احتمال یہ ہے کہ کچھ مسلمانوں میں کچھ فروعی اور اجتہادی غلطیاں پائی جاتی ہیں اس کے پس منظر میں آپ نے یہ سوال کیا ہے تو محترم بھائی اسی بارے میں تو اپنے بھائیوں کی اصلاح کی کوشش اپنی سمجھ سے کرتا رہتا ہوں بلکہ اصلی اہل حدیث کون ایک تھریڈ میں بھی یہ بتایا ہوا ہے
دوسرا احتمال یہ ہے کہ کوئی بھی شرکیہ اور گمراہ عقیدے کا حامل مسلمان ہو تو ہم اسکو کافر کیوں قرار دینا چاہتے ہیں تو میرے بھائی ایسا کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور تیسرا ناقض بھی یہی ہے کہ جو ایسے مسلمان کو کافر نہیں سمجھتا تو خدانخواستہ اسکے اپنے کافر ہونے کے روشن چانس ہو جاتے ہیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی فرق کو واضح کرنے کے لئے مشرکین مکہ کو کہتے ہیں کہ تم میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی رکھ دو تو میں اس کام سے باز نہیں آؤں گا
آج کے دور میں بھی دیکھ لیں تو ہم سب اہل سنت مرزائیوں کو کافر قرار دینے میں کتنی لڑائیوں کرتے رہے ہیں وہاں کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا حالانکہ محترم مبشر ربانی حفظہ اللہ کی کتاب کلمہ گو مشرک میں یہ لکھا ہے کہ مرزائی تو پھر بھی توحید کا انکار نہیں کرتے بلکہ اللہ کے نبی کو آخری بنی بھی مانتے ہیں صرف مرزا کو بروزی نبی مانتے ہیں بلکہ لاہوری تو صرف مجدد مانتے ہیں تو وہ تو کم خطرناک ہوئے
پس مسئلہ کسی چیز کے سمجھ آ جانے کا ہے جس کو ان کا مشرک ہونا مانع تکفیر کی بحث کے باوجود بھی سمجھ آ جائے تو انکے ہاں تو یہ مرزائی سے بڑح کر کافر ہیں اور جنکو سمجھ نہ آئے تو یہ ایک خفی معاملہ ہو سکتا ہے جس پر ہم فتوی نہیں لگا سکتے واللہ اعلم
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
حیدرآبادی بھائی! ہم ایک اہم موضوع پر گفت وشنید کررہے ہیں اگر آپ کے پاس کوئی دلیل یا اس موقف سے حوالے سے تحفظات ہیں تو پیش کیجئے اور اگر نہیں تو ہم صرف درخواست ہی کرسکتے ہیں کہ مداخلت سے خود کو دور رکھیں۔
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
سیدھی سی مثال ہے اگر ہم کسی راستے پر چل رہے ہوں اور وہ راستہ مزید دو راستوں میں بٹ جائے جن کی کیفیت اس طرح ہو کہ ایک راستہ جس پر دہکتے آتش فشاں ہیں جن سے لپکتے شعلے درختوں اور پتھروں کو بھسم کررہے ہیں اور دوسرا راستہ جس میں کانٹے، سنگلاخ چٹانیں اور تپتا ہوا میدان ہے تو ایسی حالت میں عقل مند مسافر وہی ہوگا جو پہلے راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلے۔

انبیاء علیہ السلام کی نگاہ میں عقیدے کو لیکر جو سب سے بڑا خطرہ جس پر وہ قدغن لگانا ضروری سمجھتے تھے وہ شرک اور مظاہر شرک کے خطرات تھے وہ جانتے تھے کہ اس فساد کے آگے دنیا کا ہر فساد ہیچ ہے اسی لئے تمام انبیاء علیہ السلام نے اپنی دعوت کا آغاز اور اصلاح عقیدہ، شرک اور مظاہر شرک کے خلاف محاذ آرائی سے کیا۔

دوسری طرف اگر ہم آسمانی کلام کو دیکھیں تب۔
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّـهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ
دراصل لوگ ایک ہی گروه تھے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے واﻻ بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے۔

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ ۖ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
اور ہم پیغمبروں کو صرف اس واسطے بھیجا کرتے ہیں کہ وه بشارت دیں اور ڈرائیں پھر جو ایمان لے آئے اور درستی کرلے سو ان لوگوں پر کوئی اندیشہ نہیں اور نہ وه مغموم ہوں گے۔

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ
ہم تو اپنے رسولوں کو صرف اس لئے بھیجتے ہیں کہ وه خوشخبریاں سنا دیں اور ڈرا دیں۔

رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ
ہم نے انہیں رسول بنایا ہے، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاه کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر ره نہ جائے۔

وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
سنو رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے۔

وَإِن تُكَذِّبُوا فَقَدْ كَذَّبَ أُمَمٌ مِّن قَبْلِكُمْ ۖ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
اور اگر تم جھٹلاؤ تو تم سے پہلے کی امتوں نے بھی جھٹلایا ہے، رسول کے ذمہ تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہی ہے۔

اللہ کے نبیﷺ کا فرمان ہے۔
ولا احد احب علیہ العذر من اللہ ومن اجل ذلک بعث المبشرین والمنذرین (رواہ البخاری، کتاب التوحید، باب قول النبی لاشخص اغیر من اللہ، حدیث ٧٤١٦، رواہ مسلم، ٢\١١٣٦، مسند احمد ٤\٢٣٨، دارمی حدیث ٢٢٣٣)۔
کوئی اللہ سے زیادہ کسی عذر کا موقع باقی رکھنا پسند نہیں کرتا اسی نے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا۔

اب ان دو گروہوں میں جب تبلیغ ہوئی تو نیک کار لوگوں کو خوشخبری اور بُروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجنے سے کیا مراد ہے؟۔

دوسری بات کلمہ گو مشرک کی اصطلاح کس کی ایجاد ہے، کیونکہ قرآن میں اللہ نے واضح طور پر ہدایت کو گمراہی سے علیحدہ کرنے کی بات کو واشگاف طور پر بیان کردیا یعنی دو گروہوں میں منقسم ہونے کے بعد پہلا گروہ ہدایت کی راہ پر چل پڑا اور جس نے ہدایت کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا یعنی انبیاء علیہ السلام کی دعوت کو ماننے سے انکار کیا وہ گمراہ کہلایا، اب گمراہ کو ہم کیا کلمہ گو گمراہ کی اصطلاح سے مخاطب کرسکتے ہیں؟۔
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
پس مسئلہ کسی چیز کے سمجھ آ جانے کا ہے جس کو ان کا مشرک ہونا مانع تکفیر کی بحث کے باوجود بھی سمجھ آ جائے تو انکے ہاں تو یہ مرزائی سے بڑح کر کافر ہیں اور جنکو سمجھ نہ آئے تو یہ ایک خفی معاملہ ہو سکتا ہے جس پر ہم فتوی نہیں لگا سکتے واللہ اعلم
عبدہ بھائی! خفی معاملہ پر میں آپ کا موقف جاننا چاہوں گا اور جہاں تک بات ہے ہم فتوٰی نہیں لگاسکتے تو بھائی کسی بھی عمل پر فتوٰی دلیل کی موجودگی میں لگایا جاسکتا ہے لیکن یہ کہیں کہ ہم مکلف نہیں یہ علماء کا کام ہے، اب آئیں ہم علماء کی بات کرتے ہیں علماء میں بھی بڑی دلچسپ اصطلاح ہم استعمال کرتے ہیں علماء حق اور علماء سوُ تو جب ہم لفظ "سوُ" استعمال کررہے ہیں تو وہ علماء کے زمرے میں کیسے آسکتا ہے؟۔ کیونکہ اللہ کا فرمان ہے کہ ہم نے ہدایت کو گمراہی اور علم کو جہالت سے علیحدہ کردیا ہے۔

نبیٖﷺ کی بعثت کا مقصد کلمۃ توحید ہی تھا نا یا کچھ اور؟۔ تو اگر مقصد کو ہی ہم مصلحت پسندی کی نظر سے دیکھیں تو پھر جو چاہیں کرتے پھریں۔ اس لئے مشرک کے ساتھ کلمہ گو لگانا میں نہیں سمجھتا کہ درست ہے، اور جب مشرک کے ساتھ کلمہ کا لفظ نہیں ہوگا تو باقی بچتا ہی کیا ہے؟۔ یعنی پھر فتوٰی کی ضرورت ہے؟۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
دوسرا احتمال یہ ہے کہ کوئی بھی شرکیہ اور گمراہ عقیدے کا حامل مسلمان ہو تو ہم اسکو کافر کیوں قرار دینا چاہتے ہیں تو میرے بھائی ایسا کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور تیسرا ناقض بھی یہی ہے کہ جو ایسے مسلمان کو کافر نہیں سمجھتا تو خدانخواستہ اسکے اپنے کافر ہونے کے روشن چانس ہو جاتے ہیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی فرق کو واضح کرنے کے لئے مشرکین مکہ کو کہتے ہیں کہ تم میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی رکھ دو تو میں اس کام سے باز نہیں آؤں گا
محترم کہیں آپ خلط مبحث تو نہیں ہو جا رہے؟
مشرکین مکہ کو "مشرک" کا خطاب ، کتاب اللہ میں ہے اور زبان رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وسم) سے بھی دیا گیا تھا ، پھر وہ لوگ کلمہ گو بھی نہیں تھے۔ لہذا اس حدیث (ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند) کی مثال آپ آج کے مسلمانوں پر کیسے اور کیونکر فٹ کر سکتے ہیں؟
آج کے دور میں بھی دیکھ لیں تو ہم سب اہل سنت مرزائیوں کو کافر قرار دینے میں کتنی لڑائیوں کرتے رہے ہیں وہاں کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا
ایں ؟ کیا واقعی آپ تجاہل عارفانہ دکھانا چاہ رہے ہیں؟
حضور ! تب تو پھر یہ اس ناچیز کا ہی قصور ہے کہ جو آج تک یہ سمجھتا رہا کہ قادیانیوں کو امت کے تمام فرقوں نے اجماعی طور سے کافر قرار دیا ہے۔ کیا آپ کو اس میں کوئی شک ہے؟
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
حیدرآبادی بھائی! صلاح حدیبیہ کے موقع پر جب معاہدہ لکھا جارہا تھا تو مشرکین کا اعتراض کیا تھا؟۔ کعبۃ اللہ کا طواف تو مشرک بھی کرتے ہی تھے بس ننگے ہوکر وجوہات کی بحث میں، میں پڑنا نہیں چاہتا۔ میرا اعتراض بس اس بات پر ہے مشرک کو ہم کلمہ گو کس دلیل کی بنیاد پر کہتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ شرک کا مرتکب ہے۔
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
حضور ! تب تو پھر یہ اس ناچیز کا ہی قصور ہے کہ جو آج تک یہ سمجھتا رہا کہ قادیانیوں کو امت کے تمام فرقوں نے اجماعی طور سے کافر قرار دیا ہے۔ کیا آپ کو اس میں کوئی شک ہے؟
حیدرآبادی
موضوع سے ہٹ کر ایک بات کہنا چاہ رہا تھا کہ اُمت کے وہ تمام فرقے کون سے ہیں جنہوں نے اجمالی طور پر قادیانیوں کو کافر قرار دیا؟۔ کیا ان فرقوں میں حضرات بریلی اور حضرات دیوبند اور اہل تشیع فرقہ بھی شامل ہے لیکن اس تحریک کے روح رواں کون تھے؟۔ لیکن کیا کبھی آپ نے ان ہی فرقوں کے اُن فتاوٰی پر نظر کرم عنایت فرمائی جس کو بنیاد بنا کر ولی کی اجازت کے بغیر شادی کے مسئلے پر اہلحدیث اور ان کے درمیان اختلاف ہے؟۔ اور پاکستان میں رائج فقہ حنفی فرقے کی زیر اثر جو شرعی عدالتیں اس قسم کے نکاح کے عقد کروا رہی ہیں اُس بارے میں آپ کیا کہنا پسند فرمائیں گے؟۔ اور اہل تشیع فرقہ جو متعہ کو تسلیم کرتا ہے اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، کہنے کو یہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ اور وہ لوگ جو حلالے کروا رہے ہیں وہ کون سا حکم شرعی انجام دے رہے ہیں؟۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
quote="حیدرآبادی, post: 183501, member: 2940"]محترم کہیں آپ خلط مبحث تو نہیں ہو جا رہے؟[/quote]
محترم بھائی بالکل ایسا ممکن ہے کیونکہ میں معصوم عن الخطا نہیں ہوں مگر اس خلط مبحث کو آپ سمجھا کر دور کر سکتے ہیں اللہ آپ کو اس پر جزائے خیر دے امین

مشرکین مکہ کو "مشرک" کا خطاب ، کتاب اللہ میں ہے اور زبان رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وسم) سے بھی دیا گیا تھا ، پھر وہ لوگ کلمہ گو بھی نہیں تھے۔ لہذا اس حدیث (ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند) کی مثال آپ آج کے مسلمانوں پر کیسے اور کیونکر فٹ کر سکتے ہیں؟
محترم بھائی آپ میرا خلط مبحث ایسے دور کر سکتے ہیں کہ مجھے یہ بتا دیں کہ کیا مشرکین کا جو خطاب قرآن یا حدیث میں ہے وہ کسی علم کی وجہ سے ہے یا پھر وہ کسی صفت کی وجہ سے ہے
اگر شریعت میں مشرک کی اصطلاح صرف ایک خاص قوم یا قبیلہ کے لئے (بغیر انکے اعمال دیکھے) استعمال کی گئی ہے تو پھر واقعی مجھ سے خلط مبحث ہو گیا ہے اور ایسی صورت میں ہم انڈیا کے ہندوؤں کو بھی پھر مشرک نہیں کہ سکتے واللہ اعلم
اگر شریعت میں مشرک کی اصطلاح کچھ صفات یعنی شرکیہ اعمال کی وجہ سے انسانوں پر لگائی جاتی ہے تو پھر میرا اشکال برقرار رہتا ہے کہ وہ صفات کیا آج کے مسلمان میں ہو سکتی ہیں کہ نہیں آپ ذرا وضاحت کر دیں

ایں ؟ کیا واقعی آپ تجاہل عارفانہ دکھانا چاہ رہے ہیں؟
محترم بھائی معذرت کہ شاید میری غلطی کہ میں آپ کو سمجھا نہیں سکا اور آپ کو لگا کہ میں یہودیوں کی طرح جانتے بوجھتے جہالت کا مظاہرہ کر رہا ہوں

حضور ! تب تو پھر یہ اس ناچیز کا ہی قصور ہے کہ جو آج تک یہ سمجھتا رہا کہ قادیانیوں کو امت کے تمام فرقوں نے اجماعی طور سے کافر قرار دیا ہے۔ کیا آپ کو اس میں کوئی شک ہے؟
محترم بھائی مجھے اس میں کوئی شک نہیں اصل میں مجھے لگتا ہے کہ آپ نے مندرجہ ذیل دو باتوں کو ایک سمجھ لیا ہے

1-کسی انسان کا متفق علیہ کافر یا مشرک ہونا اور دوسرے کا غیر متفق علیہ کافر یا مشرک ہونا
2-کسی انسان کا کفر توحید کے نظریے میں غلطی (شرک) کی وجہ سے ہونا اور دوسرے انسان کا کفر رسالت کے نظریے میں غلطی کی وجہ سے ہونا

پس یہاں بات پہلی والی نہیں ہو رہی بلکہ دوسری والی ہو رہی ہے کہ کس کا کفر بلحاظ ذات خطرناک ہے اور یہ بات میں نے نہیں کہی بلکہ میں نے تو محترم مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کی کتاب کلہ گو مشرک کے حوالے سے یہ بتایا تھا

جہاں تک پہلی قسم کی بات ہے تو میرے نزدیک پہلی قسم کے کافر (متفق علیہ کافر) کو تو سب کو کافر کہنا لازم ہے اگر کوئی نہ کہے تو پھر اس پر تیسرے ناقض کا اطلاق ہو سکتا ہے یعنی اسکو کافر نہ کہنے کی وجہ سے وہ کافر ہو جائے گا
البتہ دوسری قسم کے کافر کو وہ لوگ تو کافر ہی سمجھیں گے اور کافر والا ہی برتاؤ کریں گے جن کے پاس اسکے کافر ہونے کے ٹھوس دلائل ہیں البتہ اگر کوئی کسی تاویل کی وجہ سے انکو کافر نہیں سمجھتا تو اس پر تیسرے ناقض کا اطلاق نہیں کریں گے واللہ اعلم


کہیں آپ کا موقف یہ تو نہیں کہ جو متفق علیہ کافر نہیں وہ کافر ہو ہی نہیں سکتا


اگر ایسا ہے تو براہ مہبانی بتا دیں تاکہ بات اس نقطہ نظر سے آپ سے سمجھی جا سکے جزاک اللہ خیرا
 
Top