quote="حیدرآبادی, post: 183501, member: 2940"]محترم کہیں آپ خلط مبحث تو نہیں ہو جا رہے؟[/quote]
محترم بھائی بالکل ایسا ممکن ہے کیونکہ میں معصوم عن الخطا نہیں ہوں مگر اس خلط مبحث کو آپ سمجھا کر دور کر سکتے ہیں اللہ آپ کو اس پر جزائے خیر دے امین
مشرکین مکہ کو "مشرک" کا خطاب ، کتاب اللہ میں ہے اور زبان رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وسم) سے بھی دیا گیا تھا ، پھر وہ لوگ کلمہ گو بھی نہیں تھے۔ لہذا اس حدیث (ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند) کی مثال آپ آج کے مسلمانوں پر کیسے اور کیونکر فٹ کر سکتے ہیں؟
محترم بھائی آپ میرا خلط مبحث ایسے دور کر سکتے ہیں کہ مجھے یہ بتا دیں کہ کیا مشرکین کا جو خطاب قرآن یا حدیث میں ہے وہ کسی علم کی وجہ سے ہے یا پھر وہ کسی صفت کی وجہ سے ہے
اگر شریعت میں مشرک کی اصطلاح صرف ایک خاص قوم یا قبیلہ کے لئے (بغیر انکے اعمال دیکھے) استعمال کی گئی ہے تو پھر واقعی مجھ سے خلط مبحث ہو گیا ہے اور ایسی صورت میں ہم انڈیا کے ہندوؤں کو بھی پھر مشرک نہیں کہ سکتے واللہ اعلم
اگر شریعت میں مشرک کی اصطلاح کچھ صفات یعنی شرکیہ اعمال کی وجہ سے انسانوں پر لگائی جاتی ہے تو پھر میرا اشکال برقرار رہتا ہے کہ وہ صفات کیا آج کے مسلمان میں ہو سکتی ہیں کہ نہیں آپ ذرا وضاحت کر دیں
ایں ؟ کیا واقعی آپ تجاہل عارفانہ دکھانا چاہ رہے ہیں؟
محترم بھائی معذرت کہ شاید میری غلطی کہ میں آپ کو سمجھا نہیں سکا اور آپ کو لگا کہ میں یہودیوں کی طرح جانتے بوجھتے جہالت کا مظاہرہ کر رہا ہوں
حضور ! تب تو پھر یہ اس ناچیز کا ہی قصور ہے کہ جو آج تک یہ سمجھتا رہا کہ قادیانیوں کو امت کے تمام فرقوں نے اجماعی طور سے کافر قرار دیا ہے۔ کیا آپ کو اس میں کوئی شک ہے؟
محترم بھائی مجھے اس میں کوئی شک نہیں اصل میں مجھے لگتا ہے کہ آپ نے مندرجہ ذیل دو باتوں کو ایک سمجھ لیا ہے
1-کسی انسان کا متفق علیہ کافر یا مشرک ہونا اور دوسرے کا غیر متفق علیہ کافر یا مشرک ہونا
2-کسی انسان کا کفر توحید کے نظریے میں غلطی (شرک) کی وجہ سے ہونا اور دوسرے انسان کا کفر رسالت کے نظریے میں غلطی کی وجہ سے ہونا
پس یہاں بات پہلی والی نہیں ہو رہی بلکہ دوسری والی ہو رہی ہے کہ کس کا کفر بلحاظ ذات خطرناک ہے اور یہ بات میں نے نہیں کہی بلکہ میں نے تو محترم مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کی کتاب کلہ گو مشرک کے حوالے سے یہ بتایا تھا
جہاں تک پہلی قسم کی بات ہے تو میرے نزدیک پہلی قسم کے کافر (متفق علیہ کافر) کو تو سب کو کافر کہنا لازم ہے اگر کوئی نہ کہے تو پھر اس پر تیسرے ناقض کا اطلاق ہو سکتا ہے یعنی اسکو کافر نہ کہنے کی وجہ سے وہ کافر ہو جائے گا
البتہ دوسری قسم کے کافر کو وہ لوگ تو کافر ہی سمجھیں گے اور کافر والا ہی برتاؤ کریں گے جن کے پاس اسکے کافر ہونے کے ٹھوس دلائل ہیں البتہ اگر کوئی کسی تاویل کی وجہ سے انکو کافر نہیں سمجھتا تو اس پر تیسرے ناقض کا اطلاق نہیں کریں گے واللہ اعلم
کہیں آپ کا موقف یہ تو نہیں کہ جو متفق علیہ کافر نہیں وہ کافر ہو ہی نہیں سکتا
اگر ایسا ہے تو براہ مہبانی بتا دیں تاکہ بات اس نقطہ نظر سے آپ سے سمجھی جا سکے جزاک اللہ خیرا