• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ امام اور علیہ السلام لکھنا شیعیت ہے ؟

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
خلافت و ملوکیت تو بہت بعد کی بات ہے حرب بھائی ۔
یہ جس بخاری کے بار بار حوالے دے رہے ہیں اس پر بھی قائم نہیں رہیں گے ۔
یہ ساری بحث ان کے ساتھ تنازلا ہورہی ہے اصولی بنیادوں پر نہیں ۔
ہم بھی لگے ہوئے ہیں کہ ’’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ‘‘
بات سیدھی ہے جو ہر ممبر کو سمجھنی چاہئے۔۔۔
اور وہ یہ کہ ہم باطل عقیدے کا رد قرآن واحادیث سے پیش کرتے ہیں۔۔۔
چاہے وہ رافضی شیعہ ہو، حنفی بریلوی حضرات ہوں یا حنفی دیوبندی حضرات ہوں۔۔۔
چونکہ رافضی شیعوں کو تو خود اپنی کتابوں پر اعتماد نہیں لہذا!۔۔۔
اُن میں اتنی جرآت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے امام کے کسی قوم سے حجت قائم کرنے کی کوشش کریں۔۔۔
وجہ یہ ہے کہ یہ فرقہ نہ قرآن کو تسلیم کرتا ہے اور نہ احادیث کو۔۔۔ رہ گئے۔۔۔
گیارہ اماموں کی روایتیں تو اس میں بھی تقیہ شامل ہے۔۔۔
اگر ایک پوچھنے والا کسی مسلئے پر جواب طلب کرے تو پہلے والے کو کچھ جواب دیا جاتا ہے۔۔۔
دوسرا یہ ہی سوال پوچھے تو اسے اسی مسئلے پر دوسرا جواب دیا جاتا ہے۔۔۔ سائل پوچھتا ہے یہ کیا امام عالی مقام تو۔۔۔
امام صاحب فورا کہہ دیتے ہیں کہ میں تقیہ سے کام لے رہا تھا۔۔۔
اور پھر اپنے اس موقف پر زمین وآسمان کی قلابیں ملادی جاتی ہیں۔۔۔
تو اس لئے یہ فرقہ ہماری کتابوں پر اعتراض کر کے ہمیں مصروف رکھنا چاہتا ہے۔۔۔
حالانکہ اپنے دین کی الف بے ان کو پتہ تک نہیں۔۔۔ اور جہاں تک بہرام کی بات ہے۔۔۔
تو یہ بہرام عراق کے بہت بڑا عالم جو عقیدے میں مجسوسی تھا اس کے نام پر آڈی بنائی ہوئی ہے۔۔۔
دوسرے وہ ابوبصیر اُن کے نام کے تحقیق کریں۔۔۔
تو ایک شیعہ روای کے نام پر انہوں نے اپنا نام رکھا ہے۔۔۔

خلاصہ کلام!۔۔۔
شیعہ خود کو مسلمان ثابت کردیں اپنے عقائد کی بنیاد پر۔۔۔
سارا جھگڑا ہی ختم۔۔۔ اور اگر نہیں کرسکتے تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔
بقول خضر حیات بھائی کے وقت گذاری کے لئے نوک جھونک چلتی رہنی چاہئے۔۔۔
خون گرم رہتا ہے بقول اقبال!۔
لپٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلیٹنا​
ہے خوں گرم رکھنے کا ایک بہانہ​
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں​
کہ شاھیں بناتا نہیں آشیانا​
شعر پسند آئی تو ایک لائیک بنتا ہے۔۔۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہرام علی



اگر تصویریں نظر نہیں آرہیں تو یہاں اور یہاں تشریف لائیں ۔
یہ اسی حدیث کا اصل کتاب سے عکس ہے جو اوپر آپ نے مختلف ویب سائٹوں سے پیش کی ہے ۔
یہ جو اس اصل نسخے میں ٹیلی فون نمبر لکھے ہیں کیا یہ امام بخاری کے ٹیلی فون نمبر ہیں کیا امام بخاری اتنے غریب تھے کے وہموبائل فون نہیں رکھ سکتے تھے اور لینڈ لائن کے فون سے ہی کام چلا لیتے تھے
مسکراہٹ


بھائی جان ادھر ادھر کی نہیں صحیح بخاری کے اصل نسخے کا عکس پیش کرنے کی درخواست کی گئی تھی اور وہ یقینا قلمی نسخہ ہی ہوگا اور آپ نے پرنٹ پریس پر چھپے نسخے کا عکس پیش فرما دیا کوئی تو کام ڈھنگ سے فرمالیا کریں

ان ویب سائٹوں کے سحر سے نکلیں ذرا تحقیقی دنیا کی طرف آئیں اور صحیح بخاری کا ایک نسخہ ملاحظہ فرمائیں :


حرف اعتذار : فن تصویر میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے ’’ الجامع الصحیح ‘‘ صحیح طرح سے نہیں آسکا ۔ اگر ذہن میں کوئی شک یا وسوسہ ہوا تو تصویر دوبارہ پیش کی جاسکتی ہے ۔
بہت ہی خوب ہے یہ اصل نسخہ کہ بجائے ایسے قلمی ہونے کے یہ پرنٹینگ پریس پر چھپا ہوا ہے !!!!

آپ بھی ان جیسے نسخوں کے سحر سے نکلیں اور امام بخاری کے دور کے نسخے کا عکس پیش فرمائیں !!!

اور اس بات کا بھی ثبوت فراہم فرمائیں کہ جن ویب سائٹ کا میں نے حوالہ دیا ہے ان کی کمپوزنگ اہل تشیع کمپوزر نے کی ہے کیونکہ یہ ویب سائٹ وہابی ویب سائٹ ہیں اور آپ کا یہ ماننا ہے کہ اہل بیت علیہ السلام کے لئے علیہ السلام جو صحیح بخاری میں درج ہے وہ شیعہ کابتوں کی چیرہ دستی ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
باقی دوستوں سے معذرت پہلے ایک بھائی سے بات چیت مکمل ہوجائے پھر آپ کی بھی باری آئے گی کیونکہ مجھے یہ لگ رہا ہے کہ یہ بھائی صیاد کے جال میں الجھ چکے ہیں (یہ میری خام خیالی بھی ہوسکتی ہے ) اس لئے دوسرے بھائی الٹی سیدھی شاعری فرمارہے ہیں تاکہ اس موضوع سے توجہ ہٹ جائے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یہ جو اس اصل نسخے میں ٹیلی فون نمبر لکھے ہیں کیا یہ امام بخاری کے ٹیلی فون نمبر ہیں کیا امام بخاری اتنے غریب تھے کے وہموبائل فون نہیں رکھ سکتے تھے اور لینڈ لائن کے فون سے ہی کام چلا لیتے تھے
مسکراہٹ


بھائی جان ادھر ادھر کی نہیں صحیح بخاری کے اصل نسخے کا عکس پیش کرنے کی درخواست کی گئی تھی اور وہ یقینا قلمی نسخہ ہی ہوگا اور آپ نے پرنٹ پریس پر چھپے نسخے کا عکس پیش فرما دیا کوئی تو کام ڈھنگ سے فرمالیا کریں



بہت ہی خوب ہے یہ اصل نسخہ کہ بجائے ایسے قلمی ہونے کے یہ پرنٹینگ پریس پر چھپا ہوا ہے !!!!

آپ بھی ان جیسے نسخوں کے سحر سے نکلیں اور امام بخاری کے دور کے نسخے کا عکس پیش فرمائیں !!!

اور اس بات کا بھی ثبوت فراہم فرمائیں کہ جن ویب سائٹ کا میں نے حوالہ دیا ہے ان کی کمپوزنگ اہل تشیع کمپوزر نے کی ہے کیونکہ یہ ویب سائٹ وہابی ویب سائٹ ہیں اور آپ کا یہ ماننا ہے کہ اہل بیت علیہ السلام کے لئے علیہ السلام جو صحیح بخاری میں درج ہے وہ شیعہ کابتوں کی چیرہ دستی ہے
بہرام صاحب !
یار اس قدر بچکانہ باتیں شروع کردی ہیں آپ نے ۔
میں نے آپ سے شروع میں کہا تھا کہ کسی مصنف کی کسی کتاب میں اس طرح کی باریکیوں کو ( مثلا کسی حرف کا رسم الخط کیا ہے ؟ صلی اللہ علیہ وسلم ، علیہ السلام ، رضی اللہ عنہ ) حتمی طور پر مصنف کی طرف طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ اس طرح کی کمی بیشی کاتب ، ناسخ ،طابع وغیرہ سے ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے یہ باتیں کئی نسخوں میں ملتی ہیں کئی میں نہیں ہوتیں اسی طرح کئی طبعات میں ہوتی ہیں کئی میں نہیں ہوتیں ۔
لہذا اس طرح کی کوئی بات مصنف کی طرف منسوب کرنے کے لیے کوئی قوی دلیل یا قرینہ ہونا چاہیے کہ واقعتا مصنف نے اس کو ایسے ہی لکھا ہے ۔
اب اس طرح کی کوئی چیز تو آپ کے پاس ہے نہیں اور نہ ہی دور دور کوئی امکانات نظر آرہے ہیں ۔
البتہ آپ نے یہ ضد شروع کردی ہے کہ جناب فلاں جگہ بخاری میں یہ لکھا ہوا فلاں ویب سائٹ پر یوں ہے ۔
میں نے آپ کے اصول پر ہی آپ کی ویب سائٹ والی دلیل سے قوی دلیل مطبوع کتاب کی تصویر پیش کی ہے ۔ کہ اگر ویب سائٹ امام بخاری کے اس حدیث میں ’’ علیہ السلام ‘‘ لکھنے کی دلیل بن سکتی ہے تو پھر ایک مطبوع کتاب ’’ نہ لکھنے کی دلیل ‘‘ کیوں نہیں بن سکتی ؟
لیکن آپ نے وہی بچوں والی باتیں کرنا شروع کردی ہیں ۔
شیعہ کاتبین کی چیزہ دستیاں اس لیے کہا تھا کہ یہ کام ( علیہ السلام صرف اہل بیت کے بعض افراد کے ساتھ لکھنا ) امام بخاری کے عقیدہ و منہج سے مطابقت نہیں رکھتا اس لیے اس پر کسی شیعہ یا متأثرین شیعہ کو ہی متہم کیا جاسکتا ہے ۔
اب یہاں دو مسئلے ہیں :
1۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں چند خاص جگہوں پر ’’ علیہ السلام ‘‘ لکھا ہے ۔ یہ دعوی آپ کا ہے اور اس کی دلیل آپ کے ذمہ ہے ۔ اگر آپ دلیل پیش نہ کرسکیں تو پھر آپ کا دعوی مردود ہے ۔
2۔ اگر امام بخاری نے نہیں لکھا تو پھر کس نے لکھا ؟ اس میں میرا دعوی یہ ہے کہ یہ شیعہ یا متأثرین شیعہ کی چیرہ دستیاں ہیں ۔۔۔ اس کو ثابت کرنا میری ذمہ داری ہے ۔
آپ پہلے اپنے دعوی کو دلیل سے مزین کریں پھر مجھ سے مطالبہ کرتے بھی اچھے لگیں گے ۔
اگر آپ اپنے دعوے کو چھوڑ کر میرے دعوی پر بحث شروع کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے دعوی سے دستبردار ہوگئے ہیں ۔
انتباہ : اگر آپ بات سمجھنا سمجھانا چاہتے ہیں توپھر افہام و تفہیم والا انداز اپنائیں ۔ ورنہ آپ کی ہر ’’ شراکت ‘‘ کا جواب میں ضروری نہیں سمجھوں گا ۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
باقی دوستوں سے معذرت پہلے ایک بھائی سے بات چیت مکمل ہوجائے پھر آپ کی بھی باری آئے گی کیونکہ مجھے یہ لگ رہا ہے کہ یہ بھائی صیاد کے جال میں الجھ چکے ہیں (یہ میری خام خیالی بھی ہوسکتی ہے ) اس لئے دوسرے بھائی الٹی سیدھی شاعری فرمارہے ہیں تاکہ اس موضوع سے توجہ ہٹ جائے
بہت اچھے جناب۔۔۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
لہذا اس طرح کی کوئی بات مصنف کی طرف منسوب کرنے کے لیے کوئی قوی دلیل یا قرینہ ہونا چاہیے کہ واقعتا مصنف نے اس کو ایسے ہی لکھا ہے ۔
لیکن واقعتا یہ علیہ السلام لکھا مصنف کی جانب سے ہی لکھا گیا ہے ایسی لئے وہابی ویب سائٹز نے ایسے برقرار رکھا ہے اگر یہ مصنف کی طرف نہیں لکھا گیا تو اس کے لئے تو قوی تر دلیل چاہئے جس کا مطالبہ میں امام بخاری کے دور کے قلمی نسخے کا کرچکا ہوں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اب یہاں دو مسئلے ہیں :
1۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں چند خاص جگہوں پر ’’ علیہ السلام ‘‘ لکھا ہے ۔ یہ دعوی آپ کا ہے اور اس کی دلیل آپ کے ذمہ ہے ۔ اگر آپ دلیل پیش نہ کرسکیں تو پھر آپ کا دعوی مردود ہے ۔
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہی ہے علیہ السلام کو وہابی ویب سائٹز نے برقرار رکھا ہوا ہے اور آج کے دور میں جو صحیح بخاری سوفٹ ویئر وہابی بنارہے ہیں ان میں بھی علیہ السلام کو برقرار رکھا گیا جبکہ اہل بیت اطہار کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا وہابی مذہب کے خلاف ہے یہ وہ دلیل ہے جو میں پہلے بھی عرض کرچکا لیکن آپ اس پر توجہ نہیں فرمارہے اور تغافل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں
2۔ اگر امام بخاری نے نہیں لکھا تو پھر کس نے لکھا ؟ اس میں میرا دعوی یہ ہے کہ یہ شیعہ یا متأثرین شیعہ کی چیرہ دستیاں ہیں ۔۔۔ اس کو ثابت کرنا میری ذمہ داری ہے ۔
میں تو اپنے دعویٰ کی دلیل عرض کرچکا اب آپ یہ ثابت فرمادیں کہ پیش کی گئی ویب سائٹز اور سوفٹ ویئر صحیح بخاری کی کمپوزنگ یعنی کتابت کسی شیعہ نے کی ہے اور ان ویب سائٹ اور سوفٹ ویئر میں علیہ السلام لکھنا کسی شیعہ کمپوزر یعنی کابت کی چیرہ دستی ہے ایک بات اور آپ سے عرض کردوں کہ تو صرف صحیح بخاری کے حوالے سے ہی بات ہورہی ورنہ تو البانی صاحب نے جو احادیث کی کتب مرتب کی ہیں اہل بیت کے لئے علیہ السلام البانی صاحب کی کتب میں موجود ہے اب 15 ویں صدی ہجری میں بھی جو احادیث کی کتب مرتب کی جارہی ہیں ان میں بھی یہ سب کچھ موجود ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ ان کتب حدیث کو مرتب کرنے والے کا تعلق بھی وہابی مذہب سے ہے اس کے باوجود وہ ان کتب میں اہل بیت اطہار کے لئے علیہ السلام لکھنے کو روا رکھتے ہیں

ایک گذارش ہے کہ آپ نے صحیح بخاری کا مطبوعہ صفحہ شیئر کیا ہے اگر اس کا لنک بھی شیئر فرمادیں تو نوازش ہوگی شکریہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
لیکن واقعتا یہ علیہ السلام لکھا مصنف کی جانب سے ہی لکھا گیا ہے ایسی لئے وہابی ویب سائٹز نے ایسے برقرار رکھا ہے اگر یہ مصنف کی طرف نہیں لکھا گیا تو اس کے لئے تو قوی تر دلیل چاہئے جس کا مطالبہ میں امام بخاری کے دور کے قلمی نسخے کا کرچکا ہوں
اچھا آپ کو یہ وہابی ویب سائٹیں تو نظر آرہی ہیں اور اوپر جو آپ کو کتاب کی تصویر پیش کی ہیں وہ نظر کیوں نہیں آرہی ؟
آپ صرف بحث برائے بحث کرنے کا شوق رکھتے ہیں اگر آپ '' بحث برائے فائدہ '' پر حریص ہوتے تو اس بات پر ضرور کچھ نہ کچھ ارشاد فرماتے ہیں میں نے کہا تھا :
اگر ویب سائٹ امام بخاری کے اس حدیث میں '' علیہ السلام '' لکھنے کی دلیل بن سکتی ہے تو پھر ایک مطبوع کتاب '' نہ لکھنے کی دلیل '' کیوں نہیں بن سکتی ؟
برائے مہربانی کوئی نئی بات کریں وہی '' دھاک کے تین پات '' کی رٹ نہ لگائیں ۔
ایک دفعہ پھر غور کرلیں :
میں نے آپ سے شروع میں کہا تھا کہ کسی مصنف کی کسی کتاب میں اس طرح کی باریکیوں کو ( مثلا کسی حرف کا رسم الخط کیا ہے ؟ صلی اللہ علیہ وسلم ، علیہ السلام ، رضی اللہ عنہ ) حتمی طور پر مصنف کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ اس طرح کی کمی بیشی کاتب ، ناسخ ،طابع وغیرہ سے ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے یہ باتیں کئی نسخوں میں ملتی ہیں کئی میں نہیں ہوتیں اسی طرح کئی طبعات میں ہوتی ہیں کئی میں نہیں ہوتیں ۔
لہذا اس طرح کی کوئی بات مصنف کی طرف منسوب کرنے کے لیے کوئی قوی دلیل یا قرینہ ہونا چاہیے کہ واقعتا مصنف نے اس کو ایسے ہی لکھا ہے ۔
آپ کو اس بات سے کیا اختلاف ہے؟
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہی ہے علیہ السلام کو وہابی ویب سائٹز نے برقرار رکھا ہوا ہے اور آج کے دور میں جو صحیح بخاری سوفٹ ویئر وہابی بنارہے ہیں ان میں بھی علیہ السلام کو برقرار رکھا گیا جبکہ اہل بیت اطہار کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا وہابی مذہب کے خلاف ہے یہ وہ دلیل ہے جو میں پہلے بھی عرض کرچکا لیکن آپ اس پر توجہ نہیں فرمارہے اور تغافل عارفانہ سے کام لے رہے ہی
چلو اصول نما بے اصولی پر ہی بات کرلیتے ہیں ۔
صحیح بخاری میں جو کچھ موجود ہے ان وہابی ویب سائٹوں پر ان سب کی نسبت امام بخاری کی طرف کی جاسکتی ہے ؟
اگر جواب ’’ نہیں ‘‘ میں ہے تو ذرا کوئی قاعدہ بیان فرمادیں کہ امام صاحب کی طرف نسبت کرنے کا قاعدہ کیا ہے ؟ کون سی بات منسوب کی جاسکتی ہیں اور کون سی نہیں کیجاسکتیں ؟
میں تو اپنے دعویٰ کی دلیل عرض کرچکا اب آپ یہ ثابت فرمادیں کہ پیش کی گئی ویب سائٹز اور سوفٹ ویئر صحیح بخاری کی کمپوزنگ یعنی کتابت کسی شیعہ نے کی ہے اور ان ویب سائٹ اور سوفٹ ویئر میں علیہ السلام لکھنا کسی شیعہ کمپوزر یعنی کابت کی چیرہ دستی ہے
مجھےآپ پہلے یہ ہی بتادیں کہ ویب سائٹیں کب سے معتبر ہونے لگ گئی ہیں آپ کے نزدیک ؟
اگر آپ بحث کرنا چاہتے ہیں تو صحیح بخاری کا کوئی مطبوعہ نسخہ پیش کریں ۔ جس کی تحقیق بھی کی جاسکتی ہو ۔ اب ویب سائٹوں کے بارے میں کیسے تحقیق کی جاسکتی ہے ؟
تعجب تو یہ ہے کہ دعوی آپ کے اتنے بڑے ہیں اوردلیل کی تلاش کے لیے سوائے ’’ گوگل ‘‘ کے کچھ ہے نہیں ۔ ذرا محنت کرکے کسی کتاب کا عکس ہی پیش کردیں ۔
فی الوقت تو میں نے مطبوع کتاب کا عکس پیش کیا ہے ۔ جب آپ بھی اپنے حق میں مطبوع کتاب تلاش کرلیں گے پھر آگے بات چلے گی ۔
( یہ سارا کچھ آپ کی کج بحثی کی وجہ سے کرنا پڑا ہے ۔ اگر آپ علمی بحث کرتے رہتے تو میں آپ سے اس طرح کے مطالبے نہ کرتا )
ایک بات اور آپ سے عرض کردوں کہ تو صرف صحیح بخاری کے حوالے سے ہی بات ہورہی
آپ کی عرض میں نے سن لی اب میری گزارش بھی غور سے سماعت فرمالیں کہ میں بھی ابھی تک آپ کی پیش کردہ حدیث کے حوالے سے گفتگو کر رہا ہوں ۔ ورنہ یہ سب جانتے ہیں کہ صحیح بخاری میں حضر ت علی ، فاطمہ ، حسن ، حسین رضی اللہ عنہم وعن سائر الصحابۃ اجمعین کا نام صرف ایک دو دفعہ نہیں آیا ۔ آپ صحیح بخاری کا کوئی نسخہ تلاش کرنےمیں تو کامیاب ہوجائیں پھر میں آپ کو دکھاؤں گا کہ صحیح بخاری میں کیا کیا لکھا ہے ۔
ورنہ تو البانی صاحب نے جو احادیث کی کتب مرتب کی ہیں اہل بیت کے لئے علیہ السلام البانی صاحب کی کتب میں موجود ہے اب 15 ویں صدی ہجری میں بھی جو احادیث کی کتب مرتب کی جارہی ہیں ان میں بھی یہ سب کچھ موجود ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ ان کتب حدیث کو مرتب کرنے والے کا تعلق بھی وہابی مذہب سے ہے اس کے باوجود وہ ان کتب میں اہل بیت اطہار کے لئے علیہ السلام لکھنے کو روا رکھتے ہی
پہلے بخاری کا اچھی طرح مطالعہ کرلیں پھر ان شاء اللہ البانی کا بھی تعارف کرلیں گے ۔ ان شاء اللہ ۔
صحیح بخاری کے جس مطبوعہ نسخے کا میں نے حوالہ پیش کیا ہے ۔ اس کا صفحہ اول بھی ساتھ ہی ہے اس پر سب تفصیلات موجود ہیں تلاش کرلیں ۔ دھاگہ میرے علم میں نہیں ہے ۔
میرے پاس پہلے سے موجود تھا انٹرنیٹ سے حاصل نہیں کیا ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
چلیں پھر جب آپ کوان ویب سائٹ پر اعتماد نہیں تو آپ کی طرف سے پیش کیا گیا جوصحیح بخاری کا عکس ہے ایسی مطبوعہ کتاب کی جلد 3 ، کتاب مغازی (باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان )

کی ایک روایت کو دیکھ لیتے ہیں کہ آیا اس میں فاطمہ علیہا السلام بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے علیہا السلام لکھا ہوا ہے کہ نہیں آئیں دیکھتے ہیں


امید ہے اب آپ یہ نہیں فرمائیں گے کہ یہ حوالہ بھی قابل اعتماد نہیں اور یہ مان لیں گے کہ وہابیوں کا یہ کہنا غلط ہے کہ اہل بیت اطہار کے ساتھ علیہ السلام لکھنا جائز نہیں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اہلحدیث کا اس سلسلے میں کیا عقیدہ وہ پہلے کئی جگہ پربیان ہوچکا ہے اور بعد میں مزید وضاحت کی ضرورت ہوئی تو کرلیں گے ۔
فی الوقت ہم آپ کے اس دعوی کا جائزہ لے رہے ہیں کہ امام بخاری ’’ اہل بیت ‘‘ کےساتھ ’’ علیہ السلام ‘‘ لکھتے ہیں کہ نہیں ۔
اس سلسلے میں حسب سابق آپ کوئی پختہ دلیل تو نہیں دے پائے لیکن کم ازکم ایک نسخے کا عکس لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔
آپ کو چاہیے تھا جس حدیث سے آپ نے بحث شروع کی اسی حدیث کا عکس پیش کرتے لیکن چونکہ وہ جگہ تو میں پہلے پیش کرچکا ہوں اور وہ آپ کے خلاف دلیل ہے اس لیے آپ نے ایک اور جگہ کا سہارا لیا ہے ۔ اور یہ بہتر ہے کہ آپ کسی بہانے صحیح بخاری کی ورق گردانی کرنے پر تو آمادہ ہوئے ۔ جوں جوں آپ کی پکڑ کی جائے گی آپ مزید ورق گردانی پر مجبور ہوں گے اور آخر میں خود آپ کو محسوس ہوجائے گا کہ صحیح بخاری کے کسی ایک نسخے یا مختلف نسخوں میں جو چیز آپ کی دلیل بنتی ہے وہ بکثرت موجود ہے یا ایسے مواضع بکثرت پائے جاتے ہیں جن میں آپ کے ذوق کی تسکین کی کوئی گنجائش نہیں ۔
آپ جتنی احادیث پیش کرتے جائیں گے میں بھی ان شاء اللہ حسب توفیق کوشش کروں گا کہ دیگر نسخوں سے اس کی حقیقت واضح کرتا جاؤں
اور آخرکار آپ شاید اقرار تو نہیں کریں گے البتہ علم ضرور ہوجائے گا کہ جو بات ہم نے شروع بحث میں کی تھی وہ بالکل درست ہے
چنانچہ پہلی حدیث کے حوالے سے تو یہ ثابت ہوگیا کہ ’’ علیہ السلام ‘‘ بعض نسخوں میں موجود ہے اور بعض میں نہیں اب دوسری حدیث کا جو آپ نے عکس پیش کیا ہے اس حوالے سے ایک اور نسخے کا عکس ملاحظہ فرمائیں :
1
https://www.dropbox.com/s/dyyvmx11f351o8r/عكس حديث من صحيح البخاري 1.jpg
2
https://www.dropbox.com/s/y2mbl98hbraknk2/عكس حديث من صحيح البخاري 2.jpg
3
https://www.dropbox.com/s/ckjmrb07hurnu00/عكس حديث من صحيح البخاري.jpgع
عکس ملاحظہ کیجیے اور میرے گذشتہ اقتباس کو بھی ملاحظہ کرلیجیے اور اپنے دعوی کی کوئی درست دلیل ڈھونڈنے کی سوچیے :
میں نے آپ سے شروع میں کہا تھا کہ کسی مصنف کی کسی کتاب میں اس طرح کی باریکیوں کو ( مثلا کسی حرف کا رسم الخط کیا ہے ؟ صلی اللہ علیہ وسلم ، علیہ السلام ، رضی اللہ عنہ ) حتمی طور پر مصنف کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ اس طرح کی کمی بیشی کاتب ، ناسخ ،طابع وغیرہ سے ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے یہ باتیں کئی نسخوں میں ملتی ہیں کئی میں نہیں ہوتیں اسی طرح کئی طبعات میں ہوتی ہیں کئی میں نہیں ہوتیں ۔
لہذا اس طرح کی کوئی بات مصنف کی طرف منسوب کرنے کے لیے کوئی قوی دلیل یا قرینہ ہونا چاہیے کہ واقعتا مصنف نے اس کو ایسے ہی لکھا ہے ۔
 
Top