• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ امام اور علیہ السلام لکھنا شیعیت ہے ؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آپ کا بناء دلیل کے فرمایا ہوا مستند ہے؟؟؟؟؟؟


لیکن ہم جب اصح کتاب بعد کتاب اللہ کے آپ کے پیش کئے گئے ہی نسخے سے کچھ عرض کریں تو وہ غیر مستند !!
اس کو کہتے ہیں مضحکہ خیزی !!!
آپ نے فیس بک والے نسخے کا اصل لنک عنایت نہیں فرمایا مہربانی فرماکر یہ لنک عنایت فرمادیں تاکہ اس نسخے سے بھی کچھ عرض کرنے کی جسارت کی جائے شکریہ
میرے پاس یہ نسخے اور طبعات پہلے سے موجود ہیں ۔ اس لیے آپ کو دھاگہ فراہم نہیں کرسکتا۔ ہمت کریں اور خود ہی تلاش کریں ۔
اورآپ کی باتوں سے یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ اب بحث ’’ پانی میں مدھانی ‘‘ کی طرح بن چکی ہے ۔ لہذا اب میں یہاں سے رخصت ہونے کے لیے آپ کی اجازت یا آپ کو اطلاع دینے کا خود پابند نہیں سمجھوں گا ۔
بحث مزید بڑھانے کے لیے :
1۔ آپ نے جو دعوی کیا ہے ( بخاری ’’علیہ السلام‘‘ لکھتے ہیں ) اس کی کوئی مضبوط دلیل یا قرینہ ہے تو پیش فرمادیں اور ہاں یہ نسخوں کےعکس میرے خیال سےبہت ہوچکے صرف یہی پیش کرنے ہیں تو پھر بحث کو ختم ہی سمجھیے ہاں اگر بعد والے نکات کےساتھ ساتھ آپ اپنے مطالعہ نسخ بخاری کا اظہا رکرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ۔
2۔ امام بخاری کا موقف ’’ علیہ السلام ‘‘ لکھنے کے حوالے سے اس پر بحث کرنا چاہتیں تو بہت خوب ۔ مثلا صحیح بخاری ہے اور دیگران کی کتب ہیں ان میں انہوں نے بہت سارے مسائل بیان کیے ہیں تلاش کریں شاید آپ کو کہیں مل جائے کہ امام صاحب نے لکھا ہو کہ اہل بیت کا ذکر آئے تو کیا کہنا چاہیے ؟

میرے ذہن میں اس بحث کو مفید بنانے کےلیے یہی خیال ہے اگر آپ اس کو کوئی نئی جہت دے سکتے ہیں اور ’’ بحث برائے بحث ‘‘ کے زمرے سے نکال سکتے ہیں تو آپ کی سوچ و فکر کا خیر مقدم کیا جائے گا ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
شکریہ جو آپ نے توجہ دلائی کہ امام بخاری کا عقیدہ ان کی دیگر کتب سے فراہم کرنا ہے کہ امام بخاری نے اہل بیت علیہ السلام کے لئے علیہ السلام لکھنا جائز کہا ہو جب آپ اصح کتاب بعد کتاب اللہ کا لکھا ہوا نہیں مان رہے تو تو پھر دیگر کتب میں لکھا آپ نے کب ماننا ہے اور یہ کہہ کر انکار کرنا ہے کہ اس مسئلے میں امام بخاری سے خطاء ہوئی ہے اور یہ کہ ہم امام بخاری کے مقلد نہیں کہ ان کا ہر لکھا ہوا مانے
والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
کس نے ماننا ہے اور کس نے نہیں ؟ حقیقت پیچھے گزرچکی ہے ۔ اب ایک اور طرز سے اس بحث پر غور و فکر کرنے کے لیے صحیح بخاری کی ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں :
4793 - حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا عبد العزيز بن صهيب، عن أنس رضي الله عنه، قال: بني على النبي صلى الله عليه وسلم بزينب بنت جحش بخبز ولحم، فأرسلت على الطعام داعيا فيجيء قوم فيأكلون ويخرجون، ثم يجيء قوم فيأكلون ويخرجون، فدعوت حتى ما أجد أحدا أدعو، فقلت: يا نبي الله ما أجد أحدا أدعوه، قال: «ارفعوا طعامكم» وبقي ثلاثة رهط يتحدثون في البيت، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم فانطلق إلى حجرة عائشة فقال: «السلام عليكم أهل البيت ورحمة الله»، فقالت: وعليك السلام ورحمة الله، كيف وجدت أهلك بارك الله لك، فتقرى حجر نسائه كلهن، يقول لهن كما يقول لعائشة، ويقلن له كما قالت عائشة، ثم رجع النبي صلى الله عليه وسلم فإذا ثلاثة من رهط في البيت يتحدثون، وكان النبي صلى الله عليه وسلم شديد الحياء، فخرج منطلقا نحو حجرة عائشة فما أدري آخبرته أو أخبر أن القوم خرجوا فرجع، حتى إذا وضع رجله في أسكفة الباب داخلة، وأخرى خارجة أرخى الستر بيني وبينه، وأنزلت آية الحجاب
( صحیح البخاری رقم 4793 )
امام بخاری کی بیان کردہ اس حدیث میں بالکل صراحت کے ساتھ بغیر کسی ابہام کے ’’ امہات المؤمنین یعنی أزواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کو ’’ اہل بیت ‘‘ قرار دیا گیا ہے ۔
اگر امام بخاری علیہ الرحمہ کا ’’ اہل بیت ‘‘ کے بارے میں ’’ علیہ السلام ‘‘ لکھنے کے حوالے سے وہی موقف ہے جس پر آپ بغیر کسی دلیل و قرینہ کے زور دے رہے ہیں تو ذرا ایک دفعہ پھر صحیح بخاری کے طبعات و نسخ کو تلاش کریں اور کسی بھی ’’ ام المؤمنین ‘‘ کے ساتھ ’’ علیہ السلام ‘‘ لکھا ہوا دکھا دیں ۔
امام بخاری علیہ الرحمہ شیعہ تو نہیں تھے ۔۔۔ وہ اہل سنت والجماعت کے امام ہیں ۔ اگر ان کا موقف ’’ اہل بیت ‘‘ کےساتھ ’’ علیہ السلام ‘‘ لکھنا ہی ہے تو پھر امہات المؤمنین کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ملتا ؟
صحیح بخاری کے طبعات و نسخ کے اندر بعض جگہوں پر ’’ علیہ السلام ‘‘ موجود ہونا اور وہ بھی انہیں کے ناموں کے ساتھ کہ شیعہ حضرات کے نزدیک وہی ’’ اہل بیت ‘‘ ہیں کیا یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ نہیں کہ یہ کارستانئ مبتلائے مرض ِ تشیع ہے ؟
اگر واقعتا یہ کسی سنی کے تصرفات ہیں تو پھر امہات المؤمنین میں سے کسی کے ساتھ یہ ’’ علیہ السلام ‘‘ کیوں نہیں ملتا ؟ حالانکہ ان کےنزدیک تو ’’ امہات المؤمنین ‘‘ بھی ’’ اہل بیت میں شامل ہیں ۔

انتباہ : میں آپ کے اعتراف حق سے ناامید نہیں تو کوئی زیادہ پر امید بھی نہیں لیکن اتنا ضرور سمجھتا ہوں کے آئندہ بھی اگر آپ ’’ علیہ السلام ‘‘ دکھانے کا سلسلہ کسی ’’ سنی ‘‘ کی کتاب سے شروع کریں تو اس بنیادی نقطے کو ذہن میں رکھ کر بحث کا آغاز کیجیے گا ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105

کنگ سعود یونیورسٹی ریاض کی لائبریری میں موجود صحیح بخاری کا مخطوطہ جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ نسخہ 810 ھ کا لکھا ہوا ہے
http://www.siratulhuda.com/forums/showthread.php/3190-صحیح-البخاری-کے-مخطوطے?p=10163&viewfull=1#post10163

اس مخطوطے کے عکس میں ایک صفحہ پر کتاب الادب کا باب ، باب قول الرجل مرحبا کا ترجمہ باب جس حدیث سے باندھا ہے اس میں سیدہ فاطمہ کے لئے علیہا السلام لکھا گیا ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ جو صحیح بخاری کی سوفٹ ویئر میرے پاس ہے اس کا رتر جمہ داؤد راز صاحب نے کیا ہے اور اس میں بھی ایسی طرح درج ہے ملاحظہ فرمائیں
صحیح بخاری​
کتاب الادب​
باب: کسی شخص کا مرحبا کہنا​
وقالت عائشة قال النبي صلى الله عليه وسلم لفاطمة عليها السلام ‏"‏ مرحبا بابنتي ‏"‏‏.‏ وقالت أم هانئ جئت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ مرحبا بأم هانئ ‏"‏‏.
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ علیہاالسلام سے فرمایا تھا مرحبا میری بیٹی۔ اورام ہانی رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا، مرحبا، ام ہانی۔​
ہے نہ کمال کی بات کہ داؤد راز صاحب نے بھی فاطمۃ علیھا السلام کا ترجمہ فاطمہ علیہا السلام ہی کیا ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
کس نے ماننا ہے اور کس نے نہیں ؟ حقیقت پیچھے گزرچکی ہے ۔ اب ایک اور طرز سے اس بحث پر غور و فکر کرنے کے لیے صحیح بخاری کی ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں :
4793 - حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا عبد العزيز بن صهيب، عن أنس رضي الله عنه، قال: بني على النبي صلى الله عليه وسلم بزينب بنت جحش بخبز ولحم، فأرسلت على الطعام داعيا فيجيء قوم فيأكلون ويخرجون، ثم يجيء قوم فيأكلون ويخرجون، فدعوت حتى ما أجد أحدا أدعو، فقلت: يا نبي الله ما أجد أحدا أدعوه، قال: «ارفعوا طعامكم» وبقي ثلاثة رهط يتحدثون في البيت، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم فانطلق إلى حجرة عائشة فقال: «السلام عليكم أهل البيت ورحمة الله»، فقالت: وعليك السلام ورحمة الله، كيف وجدت أهلك بارك الله لك، فتقرى حجر نسائه كلهن، يقول لهن كما يقول لعائشة، ويقلن له كما قالت عائشة، ثم رجع النبي صلى الله عليه وسلم فإذا ثلاثة من رهط في البيت يتحدثون، وكان النبي صلى الله عليه وسلم شديد الحياء، فخرج منطلقا نحو حجرة عائشة فما أدري آخبرته أو أخبر أن القوم خرجوا فرجع، حتى إذا وضع رجله في أسكفة الباب داخلة، وأخرى خارجة أرخى الستر بيني وبينه، وأنزلت آية الحجاب
( صحیح البخاری رقم 4793 )
امام بخاری کی بیان کردہ اس حدیث میں بالکل صراحت کے ساتھ بغیر کسی ابہام کے ’’ امہات المؤمنین یعنی أزواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کو ’’ اہل بیت ‘‘ قرار دیا گیا ہے ۔
اگر امام بخاری علیہ الرحمہ کا ’’ اہل بیت ‘‘ کے بارے میں ’’ علیہ السلام ‘‘ لکھنے کے حوالے سے وہی موقف ہے جس پر آپ بغیر کسی دلیل و قرینہ کے زور دے رہے ہیں تو ذرا ایک دفعہ پھر صحیح بخاری کے طبعات و نسخ کو تلاش کریں اور کسی بھی ’’ ام المؤمنین ‘‘ کے ساتھ ’’ علیہ السلام ‘‘ لکھا ہوا دکھا دیں ۔
امام بخاری علیہ الرحمہ شیعہ تو نہیں تھے ۔۔۔ وہ اہل سنت والجماعت کے امام ہیں ۔ اگر ان کا موقف ’’ اہل بیت ‘‘ کےساتھ ’’ علیہ السلام ‘‘ لکھنا ہی ہے تو پھر امہات المؤمنین کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ملتا ؟
صحیح بخاری کے طبعات و نسخ کے اندر بعض جگہوں پر ’’ علیہ السلام ‘‘ موجود ہونا اور وہ بھی انہیں کے ناموں کے ساتھ کہ شیعہ حضرات کے نزدیک وہی ’’ اہل بیت ‘‘ ہیں کیا یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ نہیں کہ یہ کارستانئ مبتلائے مرض ِ تشیع ہے ؟
اگر واقعتا یہ کسی سنی کے تصرفات ہیں تو پھر امہات المؤمنین میں سے کسی کے ساتھ یہ ’’ علیہ السلام ‘‘ کیوں نہیں ملتا ؟ حالانکہ ان کےنزدیک تو ’’ امہات المؤمنین ‘‘ بھی ’’ اہل بیت میں شامل ہیں ۔

انتباہ : میں آپ کے اعتراف حق سے ناامید نہیں تو کوئی زیادہ پر امید بھی نہیں لیکن اتنا ضرور سمجھتا ہوں کے آئندہ بھی اگر آپ ’’ علیہ السلام ‘‘ دکھانے کا سلسلہ کسی ’’ سنی ‘‘ کی کتاب سے شروع کریں تو اس بنیادی نقطے کو ذہن میں رکھ کر بحث کا آغاز کیجیے گا ۔
معاف کیجئے گا یہ اس دھاگہ کا موضوع نہیں کہ اہل بیت کون ہیں بلکہ اس دھاگہ کا موضوع ہے کہ حضرت سیدناعلی ، حضرت سیدتنا فاطمہ ، اور حسنین کریمین کے لئے علیہ السلام کے دعائیہ کلمات کہنا کیسا ہے اور میں نے اب صحیح بخاری کے مطبوعہ اور قلمی نسخوں کے عکس پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں ان حضرات کے لئے علیہم السلام درج ہے اور جواب میں صرف اب تک کوئی بھی ایسی دلیل نہیں دی گئی جس سے ثابت ہو کہ ایسا لکھنا ناجائز ہے سوائے ادھر ادھر کی باتوں کے اگر کوئی دلیل نہیں تو ایسے عقیدے سے توبہ کرلیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
معاف کیجئے گا یہ اس دھاگہ کا موضوع نہیں کہ اہل بیت کون ہیں بلکہ اس دھاگہ کا موضوع ہے کہ حضرت سیدناعلی ، حضرت سیدتنا فاطمہ ، اور حسنین کریمین کے لئے علیہ السلام کے دعائیہ کلمات کہنا کیسا ہے اور میں نے اب صحیح بخاری کے مطبوعہ اور قلمی نسخوں کے عکس پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں ان حضرات کے لئے علیہم السلام درج ہے اور جواب میں صرف اب تک کوئی بھی ایسی دلیل نہیں دی گئی جس سے ثابت ہو کہ ایسا لکھنا ناجائز ہے سوائے ادھر ادھر کی باتوں کے اگر کوئی دلیل نہیں تو ایسے عقیدے سے توبہ کرلیں ۔
اتنے دنوں کے بعد آپ آئے ہیں تو کیا نیا لے کر آئے ہیں ؟ وہی پرانی رٹ جس کا جواب بارہا مرتبہ دیاجاچکا ہے ۔ شاید آپ چند دن کی چھٹی اس لیے کرتے ہیں تاکہ ذرا وقت گزرنے کے بعد وہی پرانی باتیں کریں تو نئی محسوس ہوں ۔ حالانکہ جس ’’ شراکت ‘‘ کا آپ نے اقتباس لیا ہے اس میں آپ کی باتوں کا جواب وضاحت کے ساتھ موجود ہے :
اگر امام بخاری علیہ الرحمہ کا '' اہل بیت '' کے بارے میں '' علیہ السلام '' لکھنے کے حوالے سے وہی موقف ہے جس پر آپ بغیر کسی دلیل و قرینہ کے زور دے رہے ہیں تو ذرا ایک دفعہ پھر صحیح بخاری کے طبعات و نسخ کو تلاش کریں اور کسی بھی '' ام المؤمنین '' کے ساتھ '' علیہ السلام '' لکھا ہوا دکھا دیں ۔
امام بخاری علیہ الرحمہ شیعہ تو نہیں تھے ۔۔۔ وہ اہل سنت والجماعت کے امام ہیں ۔ اگر ان کا موقف '' اہل بیت '' کےساتھ '' علیہ السلام '' لکھنا ہی ہے تو پھر امہات المؤمنین کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ملتا ؟
صحیح بخاری کے طبعات و نسخ کے اندر بعض جگہوں پر '' علیہ السلام '' موجود ہونا اور وہ بھی انہیں کے ناموں کے ساتھ کہ شیعہ حضرات کے نزدیک وہی '' اہل بیت '' ہیں کیا یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ نہیں کہ یہ کارستانئ مبتلائے مرض ِ تشیع ہے ؟
اگر واقعتا یہ کسی سنی کے تصرفات ہیں تو پھر امہات المؤمنین میں سے کسی کے ساتھ یہ '' علیہ السلام '' کیوں نہیں ملتا ؟ حالانکہ ان کےنزدیک تو '' امہات المؤمنین '' بھی '' اہل بیت میں شامل ہیں ۔
لہذا آپ سےگزارش ہے کہ یا تو ان باتوں کاجواب دیں یا پھر اس دھاگہ کو چھوڑ کر کسی اور جگہ نیا مسئلہ شروع کرکے یہ کام کرلیں ۔
ایک بات ذہن میں رکھیں یہ ’’ لڑی ‘‘ شروع سے لے کر آخر تک گواہ ہے کہ آپ کو اپنی بات کے حق میں دلائل پیش کرنے کے لیے بہت موقعہ دیا گیا ہے جوکہ آپ پیش نہیں کرسکے اور جو آپ نے پیش کیا اس کا جواب آپ کو دے دیا گیا ۔ لہذا اب
آپ اس موضوع میں کوئی مزید نئی بات کریں گے تو باقی رہے گی ورنہ ختم کردی جائے گی ۔
یہ مسئلہ ’’ کلمات سلام و ترضی وغیرہ لکھنا ‘‘ اس پر آپ کسی اورجگہ بات نہیں کرسکیں گے ۔ بلکہ اگر آپ کو کبھی کوئی دلیل یاد آگئی تو یہیں آکر لکھیں ۔ لیکن پہلی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ورنہ وہی باتیں گھما پھرا کر کی گئیں تو آپ کی محنت یہاں بھی رائیگاں جائیگی ۔
امید ہے منتظمین حضرات شاکر بھائی ، کلیم حیدر بھائی اتفاق فرمائیں گے ۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
ویسے یہ علیھا السلام حاشیے میں کیا کر رہا ہے ؟؟؟متن میں کیوں نہیں ہے ؟؟؟
اور کیا بہرام صاحب یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے علاوہ بھی کوئی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی تھی؟؟؟
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
دیکھیے بات یہ ہے کہ اس باب میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے کوئی ایسی صریح نص نہیں ملتی کہ انبیاے کرام علیھم السلام یا صحابۂ کرامؓ کے اسماے گرامی کے ساتھ التزاماً کیا الفاظ لکھے جائیں؟نبی اکرم ﷺ کے اسم گرامی کے ساتھ درود لکھا جاتا ہے جب کہ دیگر انبیا کے ناموں کے ساتھ محض سلام پر اکتفا کیا جاتا ہے حالاں کہ غالباً مسلم شریف میں واقعۂ معراج کے ضمن میں موسی ﷺ بھی آیا ہے؛اب اسے بھی کاتب کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے!
دوسری بات یہ ہے کہ علیہ السلام کا انبیا کے ساتھ مختص ہونا کوئی صریح اجماعی مسئلہ بھی نہیں کہ غیر انبیا کے لیے اس کا استعمال ممنوع ٹھیرایا جائے!
تیسری بات یہ ہے کہ سیدنا علی،جناب فاطمہ اور حضرات حسنین علیھم السلام میں سے ہر ایک کے لیے علیہ السلام یا علیھاالسلام کا اندراج محض صحیح بخاری شریف ہی میں نہیں ہے بل کہ دیگر بے شمار ائمہ محدثین کے یہاں بھی ملتا ہے؛مثلاً امام احمد،حافظ ابن حزم اور امام ابو اسحاق الشیرازی وغیرھم رحمھم اللہ ؛یہ محض یادداشت سے لکھ دیے ہیں اور بھی بہت سے نام ہیں ؛اس لیے اسے کاتبوں کے ذمے لگا کر بات کو اڑا دینا کوئی ٹھوس علمی دلیل نہیں ہے بل کہ ایک احتمال ہے جب تک کہ خود کسی کاتب یا اس مصنف کی صراحت نہ ہو؛اس طرح تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی کے لیے امام ،شیخ الاسلام اور دیگر القاب بھی کاتبوں کی خوش اعتقادی کا نتیجہ ہیں !!اصل یہ ہے کہ انھیں مصنف ہی کی جانب سے خیال کیا جائے گا۔
میں اس باب میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ اصل میں کسی مصنف کے ذوق اور میلان طبع پر منحصر ہے کہ وہ کسی برگزیدہ ہستی کے لیے کیا دعائیہ کلمہ پسند کرتا ہے؟پس ہر ایک اپنے رجحان طبع کے مطابق دعائیہ کلمہ لکھ دیتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ ہر امام یا محدث کے یہاں اس کا استعمال نہیں ملتا بل کہ جس نے لکھا ہے اسی کی کتابوں میں ملتا ہے؛جس نے یہ کلمہ استعمال نہیں کیا ،اس کی کتابوں میں یہ مذکور نہیں ۔
اس ضمن میں یہ تحقیق بھی کی جانی چاہیے کہ جس امام نے غیر انبیا کے لیے علیہ السلام لکھا ہے،اس کی مختلف کتابوں میں دیکھا جائے کہ کیا ہر کتاب میں ان کا یہی اسلوب ہے یا ایک آدھ ہی میں ہے؟اگر تو زیادہ یا اکثر کتابوں میں یہ پایا جائے تو بالیقین انھی کا لکھا ہوگا اور اگر ایک آدھ کتاب یا نسخے ہی میں ہو تو پھر یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ شاید کاتب کا تصرف ہو؛گو،حتمی پھر بھی نہیں کہا جا سکتا۔
اور آخری گزارش یہ ہے کہ اس پر اتنا حساس ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ہر صحابیؓ کا اپنا مقام ہے؛ہر کوئی صدیق یا فاروق نہیں ؛اسی طرح کرم اللہ وجہہ صرف حضرت علیؓ کے لیے بولا اور لکھا جاتاہے؛ تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ اہل بیت کے اسماے گرامی کے ساتھ علیہ السلام تحریر کیا جائے۔
ایک بات جاتے جاتے اور ذہن میں آ گئی کہ مختلف علاقوں کا بھی اپنا عرف اور انداز تعظیم و توقیر ہوتا ہے؛مثلاً ہمارے یہاں صحابہؓ اور علما کے لیے حضرت کا استعمال عام ہے جب کہ عربوں میں ایسا نہیں ؛اسی طرح یہاں مولانا بہ کثرت مستعمل ہے کہ جب کہ وہاں الشیخ زیادہ رائج ہے ؛تو ان باتوں پر چیں بہ جبیں نہیں ہونا چاہیے اور ہر ایک کو اپنے میلان طبع کے مطابق بولنے اور لکھنے کی آزادی ہونا چاہیے الا یہ کہ اس میں کسی واضح نص یا اجماع کی خلاف ورزی ہو؛ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب و علمہ اتم و احکم
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
علی بھرام شیعہ آن لائن لائبریری کے لکھنے والے شیعہ ہیں انہون نے یہ حدیث اس طرح لکھی ہے ظاہر ہے انہیں اسی طرح نسخہ میں ملی ہوگی۔۔ یہاں پر ان علیا ہی لکھا ہوا ہے ۔۔ انہیں علیہ السلام لکھنے سے کس نے منع کیا تھا

10247 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

http://shiaonlinelibrary.com/الكتب/1717_صحيح-البخاري-البخاري-ج-٣/الصفحة_12#top
اللہ نے جو آنکهوں کی نعمت آپکو دی هے اسکا حق ادا کردیا ۔ اب سامنے والے کے پاس سوائے فرار کے کوئی راستہ نہ بچا ۔
اللہ آپ سے راضی هو دل سے دعاء نکل رہی هے ۔
 
Top