• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا قران میں زبرزیر بعد میں داخل کیا گیاہے؟

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
" تو میرے دماغ یہی بات آئ کہ وہ تو اعراب کے لکھے جانے کو ہی اپنے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں،
واقعی شیخ صاحب کی بات کو مکمل نہ پڑھنے والے کو یہ غلط فہمی ہی لگتی ہے اور ویسے زیادہ تر لوگوں کو یہی غلط فہمی ہوتی ہے جیسے آگے بہرام نے بھی اسی کو بنیاد بنایا ہے کہ جب پہلے لکھے نہیں گئے تھے تو بعد میں لکھنا بھی ایک بدعت ہو گئی بلکہ اس کے علاوہ وہ نحو صرف اسماء الرجال وغیرہ کو بھی اس سلسلے میں پیش کرتے ہیں
پس اس سلسلے میں محترم عبد اللہ حیدر بھائی نے مندرجہ ذیل وضاحت کی ہے
السلام علیکم،
ایک قاعدہ ہے جس کی درستگی پر سب علماء متفق ہیں:
ما لايتم الواجب إلا به فهو واجب
’’اگر کسی واجب کی تکمیل کے لیے کوئی عمل ضروری ہو جائےتو اس عمل کا بجا لانا بھی واجب ہے‘‘
پس اس کو دلیل بنایا جائے تو سب اعتراضات کو کفاہت کر جائے گی
اسکے لئے میں مختصرا مندرجہ ذیل طریقے سے سمجھانا چاہوں گا
بدعتیوں سے کہیں کہ ہم بدعت کو رد اللہ کے نبی کی حدیث من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد کے تحت کرتے ہیں اس حدیث کے مطابق دو شرائط بنتی ہیں
1-وہ کام دین سمجھ کر کیا جائے کیونکہ عمل سے مراد یہاں دین کا عمل ہے جیسے قرآن میں من یعمل مثقال ذرۃ---- میں عمل سے مراد دین کے لئے عمل ہے پس اس طرح اونٹ کی بجائے جہاز پر چڑھنا بدعت نہیں ہو گی
2- جس بات پر شریعت کا حکم موجود ہے اسکو بدعت نہیں کہتے چاہے یہ حکم واسطہ یا بلواسطہ ہو اسکے لئے ایک مثال دیکھتے ہیں کہ میں کسی کو کہتا ہوں کہ پانی پلاؤ مگر جو حکم دیا ہے اسکے علاوہ کوئی کام نہ کرنا- اب وہ شخص لازمی گلاس لے گا ٹوٹی کھولے گا پانی لے گا پھر چلے گا اور مجھے لا کر دے گا اب بتائیں کہ میں نے ٹوٹی کھولنے کا حکم دیا تھا یا چلنے کا حکم دیا تھا بلکہ میں نے تو باقی کام نہ کرنے کا حکم دیا تھا مگر پھر بھی باقی کام کرنا کوئی خلاف ورزی نہیں سمجھتا بلکہ حکم کے تحت ہی سمجھتا ہے اسی طرح شریعت نے جن کا حکم تو نہیں دیا مگر حکم تک پہنچنے کا ذریعہ اسکے بغیر نہیں تو وہ بلواسطہ حکم میں آتا ہے پس السماء الرجال کا علم ان جاءکم فاسق بنباء اور بلغوا عنی ولو ایۃ کے تحت آتا ہے اسی طرح نحو اور صرف کا حکم ولقد یسرنا القران لذکر--- کے تحت آتا ہے وغیرہ وغیرہ اور ایٹم بم بنانے کا حکم واعدوا لھم ماستطعتم کے تحت آئے گا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اسی طرح نحو اور صرف کا حکم ولقد یسرنا القران لذکر--- کے تحت آتا ہے وغیرہ وغیرہ اور ایٹم بم بنانے کا حکم واعدوا لھم ماستطعتم کے تحت آئے گا
جلدی کی وجہ سے موضوع سے متعلق مثال کے ساتھ تھوڑی سی وضاحت رہ گئی تھی

اوپر جو پانی پلانے والی مثال میں نے دی ہے اب سمجھیں کہ میں نے ایک ملازم کو جب حکم دیا کہ پانی پلاؤ مگر اور کوئی کام نہیں کرنا تو اسکے سامنے گلاس میں پانی بھرا ہوا رکھا تھا اسنے اٹھا کر مجھے پلا دیا اسکو نہ نلکا کھولنا پڑا نہ چلنا پڑا نہ گلاس ڈھونڈنا پڑا
اب اگر میں کسی اور ملازم کو یہی حکم دوں لیکن وہاں گلاس نہ ہو تو میرے اس حکم کے تحت وہ پہلے گلاس ڈھونڈے گا پھر ٹوٹی کھولے گا پھر پانی چل کر پانی لائے گا حالانکہ میں نے اسکو باقی کاموں سے منع کیا تھا
اب انہیں دونوں ملازموں کو میں یہ نہیں کہ سکتا کہ انہوں نے میرے حکم کی کوئی خلاف ورزی کی ہے اگرچہ پہلے نے صرف میرے ڈائریکٹ حکم پر عمل کیا ہے اور دوسرے نے میرے ڈائریکٹ حکم کے علاوہ کچھ دوسرے اصل حکم تک پینچانے والے کام بھی کیے ہیں
اسی طرح جب شروع میں ولقد یسرنا القران کا حکم تھا تو صرف اور نحو کی ضرورت نہیں تھی لیکن آج جب ہم اصل حکم ولقد یسرنا القران پر عمل کریں گے تو ہمیں اعراب بھی لگانا پڑیں گے ان اعراب کے اصول بھی وضع کرنے پڑیں گے جن پر ثواب بھی ملے گا اور بدعت بھی نہیں ہو گی
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بدعت کی تعریف میں بندہ نے کافی پہلے ایک بحث کے دوران ایک اضافہ کیا تھا۔ اس کے بغیر کئی جگہوں پر مغالطہ لگتا ہے۔
"بدعت وہ فعل ہے جو شریعت میں ثابت نہ ہو اور اسے "بنفسہ" عبادت سمجھ کر کیا جائے۔"
بسا اوقات ہم بہت سے نئے کاموں کو ثواب سمجھتے ہیں جیسے تبلیغ دین کے لیے انٹر نیٹ استعمال کرنا وغیرہ لیکن انہیں کسی دوسری چیز یعنی تبلیغ وغیرہ کی وجہ سے ثواب سمجھتے ہیں نہ کہ فی نفسہ اس میں ثواب ہے۔
واللہ اعلم۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
بدعت کی تعریف میں بندہ نے کافی پہلے ایک بحث کے دوران ایک اضافہ کیا تھا۔ اس کے بغیر کئی جگہوں پر مغالطہ لگتا ہے۔
"بدعت وہ فعل ہے جو شریعت میں ثابت نہ ہو اور اسے "بنفسہ" عبادت سمجھ کر کیا جائے۔"
بسا اوقات ہم بہت سے نئے کاموں کو ثواب سمجھتے ہیں جیسے تبلیغ دین کے لیے انٹر نیٹ استعمال کرنا وغیرہ لیکن انہیں کسی دوسری چیز یعنی تبلیغ وغیرہ کی وجہ سے ثواب سمجھتے ہیں نہ کہ فی نفسہ اس میں ثواب ہے۔
واللہ اعلم۔
محترم بھائی میں نے اوپر جو بات کی اسکے مطابق مندرجہ ذیل تعریف بنتی ہے
"بدعت وہ فعل ہے جو شریعت میں بلا واسطہ یا بلواسطہ ثابت نہ ہو اور اسے عبادت سمجھ کر کیا جائے۔"
اب میں اسکی وضاحت کرتا ہوں
اصل میں بدعت کوئی چیز تب ہو گی جب دو شرطیں بیک وقت پوری ہوں یعنی عمل کا شریعت میں نہ ہونا اور عمل کا ثواب کے لئے ہونا-
پس کوئی چیز بدعت تب ہو گی جب یہ دونوں شرطیں overlap کریں گی یعنی آپس میں مکس ہو جائیں گی لیکن جب ہم قرآن و حدیث کے دوسرے دلائل دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ overlap area (متحد علاقہ) ہمیشہ اصطلاحی بدعت پر دلالت نہیں کرتا پس ہمیں اصطلاحی یعنی شرعی بدعت کی تعریف کرنے کے لئے یہ کام کرنا ہو گا کہ کہ ان شر ائط میں سے ایک کو کسی خاص صفت سے مقید کر دیں گے تاکہ اس کی دلالت محدود ہو جائے جس کی وجہ سے انکا overlap area (مکس علاقہ) لا محالہ کم ہو جائے گا تو اس کی تعریف شریعت کے مطابق ہو جائے گی
پس آپ نے جو تعریف کی ہے اس میں بھی یہی overlap area (مکس علاقہ) ختم کرنے کی کوشش کی ہے اور میری اوپر تعریف میں بھی یہی کیا گیا ہے مگر آپ میں اور مجھ میں فرق یہ ہے کہ آپ نے دوسری شرط کو بنفسہ کی صفت سے مقید کر کے محدود کیا ہے اور میں نے بالواسطہ کا اضافہ کر کے عمل شرعی کو وسیع کیا جس سے عمل غیر شرعی محدود ہو گیا جس سے overlap area کم ہو کر مطلوبہ معیار شرعی تک آ گیا
البتہ اتنا سارا لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میرے خیال میں بنفسہ کی قید لگانے سے یہ تعریف جامع نہیں رہے گی کیونکہ کوئی بدعت ایسی بھی ہو سکتی ہے جو اس میں آنے سے رہ جائے مثلا کوئی فرض نماز کے بعد دعا کو خاص کرتا ہے اور اس میں وجہ بنفسہ فرض جماعت کو نہیں بناتا بلکہ ویسے فرض نماز کے بعد دعا مانگنے کی فضیلت کو بناتا ہے تو دعا کا عمل اسنے اسکو بنفسہ عبادت سمجھ کر نہیں کیا تو اس میں میرے خیال میں مغالطہ آ سکتا ہے
میں نے جو تعریف کی ہے اسکو پیچھے نحو و صرف اور جہاز پر چڑھنے کے حوالے سے ثابت کیا تھا کہ جس سے ہمیں کوئی مغالطہ نہیں رہتا لیکن آپ سے اور محترم خضر حیات بھائی سے گزارش ہے کہ میری اصلاح کر دیں ہو سکتا ہے میرا علم محدود ہو اور کوئی مغالطہ میرے علم میں نہ ہو جزاکم اللہ خیرا
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
الشیخ حسن الحلبی نے اپنی کتاب علم اصول البدع میں بدعت کی اس تعریف کو جامع ترین قرار دیا ہے جو امام الشاطبی نے الاعتصام میں لکھی ہے:
طريقة في الدين مخترعة تضاهي الشرعية يقصد بالسلوك عليها المبالغة في التعبد لله سبحانه
برادر عبدہ اس کی بھی تشریح کر دیں تو نافع ہو گی ان شاء اللہ۔
والسلام علیکم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
سب کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے تقریبا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اہل بدعت کی طرف سے بارباریہ بات اٹھائی جاتی ہے کہ قران میں پہلے زبرزیرنہیں تھا بعدمیں داخل کیا گیاہے، کیونکہ یہ اچھی چیز ہے اس سے ثابت ہوا کہ دین میں بدعت حسنہ کی گنجائش ہے۔
لیکن یہ سوچ غلط ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوفناک بھی ہے کہ قران میں پہلے زیرزبرنہیں تھا، سچ یہ ہے کہ قران میں زبرزیر تب سے ہے جب سے قران ہے، البتہ اسے لکھا بعدمیں گیا ہے،اوربعدمیں لکھنے کے لئے دلیل موجودہے،لکھنے کی دلیل ہم آگے پیش کریں گے پہلے اس بات کے دلائل سامنے رکھ دیں کہ قران مجید میں زیرزبرنیانہیں ہے،ملاحظہ ہو:


پہلی دلیل:
قران مجید ہم تک تلاوت ہوکرپہنچاہے،سب سے پہلے اللہ نے اس کی تلاوت کی ،اللہ کا ارشادہے:
{ تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ } [الجاثية: 6]
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم تم پرحق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں (یعنی پڑھتے ہیں)۔

اللہ کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے اس قران کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا:
{وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (192) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (194) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (195)} [الشعراء: 192 - 195]
اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے۔اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے ،آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہوجائیں ،صاف عربی زبان میں ہے۔

اس کے بعدجبرئیل علیہ السلام نے بھی قران مجید کو پڑھ کراورتلاوت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھا یا ہے، بخاری میں ہے:
وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ(صحیح البخاری (1/ 8) رقم 6)
یعنی جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہررات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اورآپ کوقران پڑھاتے تھے۔

اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قران پڑھ کر ہی صحابہ کرام کوبتلایا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بغیرزبرزیرکے قران کی تلاوت یا اسے پڑھنا ممکن ہے ؟؟؟ ہرگزنہیں !
مثال کے طورپر آپ کسی بھی شخص سے کہیں کہ سورہ فاتحہ کی آیت '' الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ '' پڑھے، پھراس سے سوال کریں کہ:
تم نے ''الحمد'' کے ''ح'' پرکیا پڑھا ؟
وہ جواب سے گا زبرپڑھا ، اب سوال کیجئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسی ''الحمد'' کو پڑھا تھا توکیا پڑھا تھا؟
یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبرہی پڑھا تھا، اوراسی طرح جبرئیل علیہ السلام نے تلاوت کی اوراس سے پہلے اللہ نے تلاوت کی۔


دوسری دلیل:
زیرزبرلکھنے سے پہلے قران کا جوتلفظ تھا وہی تلفظ اب بھی ہے، اس پرپوری امت کا جماع ہے کسی کا اختلاف نہیں ،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زیرزبرپہلے ہی سے تھا،البتہ لکھا ہوا نہیں تھابعد میں گیا ہے۔


تیسری دلیل:
زبرزیرلکھنے سے پہلے قرآنی آیات کے جومعانی تھے وہی معانی اب بھی ہیں ، اگرزبرزیرنیا ہوتاتومعانی بدل جاتے،یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ قران میں زبرزیرپہلے ہی سے موجودتھا البتہ اسے لکھا بعدمیں گیاہے۔


چوتھی دلیل:
زبرزیرلکھنے سے پہلے ہرحرف پردس نیکی کا ثواب تھا اورزبرزیرلکھنے کے بعد بھی ثواب اتنا ہی ہے،اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے،یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ زبرزیرنیانہیں ہے پہلے ہی سے ہے البتہ اس کی کتابت بعدمیں ہوئی ہے۔


پانچویں دلیل:
قران نے پوری دنیا کوچیلنج کیا ہے کہ کوئی بھی قران جیسی کوئی سورة نہیں بنا سکتا،اگرپوری دنیا قران جیسی سورة پیش کرنے سے عاجزہے،توخودمسلمانوں میں یہ طاقت کہاں سے آگئی کہ وہ قران میں قران ہی جیسی کوئی چیز داخل کریں اوروہ بھی ''الحمد'' سے لیکر ''الناس'' تک؟؟؟
اس سے بھی ثابت ہواکہ زبرزیرکوبعدمیں داخل نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ قران میں پہلے ہی سے موجودتھا۔


چھٹی دلیل:
صحابہ کرام وازواج مطہرات باقائدہ زبرزیرسے استدلال کرتے تھے، ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ: (حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟ قَالَتْ: «بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ» ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، فَقَالَتْ: «يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ» ، قُلْتُ: فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، قَالَتْ: " مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا، وَأَمَّا هَذِهِ الآيَةُ، قَالَتْ: هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، وَطَالَ عَلَيْهِمُ البَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ "صحيح البخاري (4/ 150 رقم3389)
یحیی بن بکیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ بتائے (فرمان خداوند ی) جب رسول مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہوا کہ انکی قوم انہیں جھٹلا دے گی میں کذبوا کے ذال پر تشدید ہے یا نہیں؟ یعنی کذبوا ہے یا تو انہوں نے فرمایا (کذبوا ہے) کیونکہ انکی قوم تکذیب کرتی تھی میں نے عرض کیا بخدا رسولوں کو تو اپنی قوم کی تکذیب کا یقین تھا (پھر ظنوا کیونکر صادق آئیگا) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے عریہ (تصغیر عروہ) بیشک انہیں اس بات کا یقین تھا میں نے عرض کیا تو شاید یہ کذبوا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا معاذ اللہ انبیاء اللہ کے ساتھ ایسا گمان نہیں کر سکتے (کیونکہ اس طرح معنی یہ ہوں گے کہ انہیں یہ گمان ہوا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا یعنی معاذ اللہ خدا نے فتح کا وعدہ پورا نہیں کیا لیکن مندرجہ بالا آیت میں ان رسولوں کے وہ متبعین مراد ہیں جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی پھر ان کی آزمائش ذرا طویل ہوگئی اور مدد آنے میں تاخیر ہوئی حتیٰ کہ جب پیغمبر اپنی قوم سے جھٹلانے والوں کے ایمان سے مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہونے لگا کہ ان کے متبعین بھی ان کی تکذیب کر دیں گے تو اللہ کی مدد آ گئی ۔

اس حدیث میں غورفرمائیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا یہاں اعراب کی پربحث کی ہے اس سے ثابت ہو اکہ اعراب اورزبرزیرقران میں پہلے ہی سے ہے۔


ساتویں دلیل:
اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی نفی کی ہے کہ وہ اس قران میں اپنی طرف سے کچھ داخل نہیں کرسکتے اوربالفرض وہ اگرایسا کرنے کو کوشش کریں گے تو ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیں گے، ارشاد ہے:
{ تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (43) وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ (44) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ (45) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (46) فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ (47)} [الحاقة: 43 - 47]
(یہ تو (رب العالمین کا) اتارا ہوا ہے۔اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا ،تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے،پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ،پھر تم سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا ۔

غورکریں کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قران میں اپنی طرف سے کچھ داخل کرسکیں ، اوربالفرض ایسا کرنے پرانہیں سخت وعید سنائی گئی ہے ،تو ایک معمولی انسان کواتنی جرأت کیسے ہوگئی کہ وہ پورے قران میں اپنی طرف سے زبرزیرداخل کردے ۔


آٹھویں دلیل:
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ قران مخلوق نہیں ہے ، اب بتائیے کہ جوچیز غیرمخلوق ہے اس میں مخلوق اضافہ کیسے کرسکتی ہے؟؟؟


نویں دلیل:
اللہ نے اس بات کی ذمہ داری لی ہے کہ وہ قران مجید کواپنی اصلی شکل میں محفوظ رکھے گا،ارشادہے:
{ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ } [الحجر: 9]
قران کو ہم نے ناز ل کیا ہے اورہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
غورکریں کہ جس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لے رکھی ہے ،اس میں کوئی چیز گھٹانے یا بڑھانے کی جرأت کسے ہوسکتی ہے؟؟؟معلوم ہوا کہ قران اب بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے اس میں کسی بھی چیز کا اضافہ نہیں ہواہے۔
لہٰذا زبرزیرلازمی طورپرقران مجید میں پہلے ہی سے موجودہے البتہ شروع میں اسے لکھا نہیں گیا تھااوربعدمیں اسے لکھ دیا گیا۔



دسویں دلیل:
اگرلکھنے سے کوئی چیز نئی نہیں ہوجاتی،تو لازم آئے گا کہ پورا قران بھی بعدمیں بنایا گیا ہے۔
اس لئے کہ جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جوقران پیش کیا وہ لکھا ہوا نہیں تھا ،پھراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوقران صحابہ کو پڑھ کرسنایا وہ بھی لکھا ہوانہیں تھا ،البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کے بعدصحابہ کرام نے اسے لکھ لیا،تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ پوراقران بھی اسلام میں منجانب اللہ پہلے ہی سے نہیں تھا اسے صحابہ کرام نے اپنی طرف سے بنایاہے؟؟؟
لہٰذا جس طرح قران کوبعدمیں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہوجاتااسی طرح زبرزیرکوبھی بعدمیں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہوجائے گا۔
تلک عشرة کاملہ۔

اب اگرکوئی کہے کہ ٹھیک ہے کہ زبرزیرپہلے سے موجودتھا اوراس کے لکھنے سے قران میں اضافہ بھی نہیں ہوتا لیکن فی نفسہ یہ لکھنا توایک نیا عمل ہے ، لہٰذا بدعت ہوا۔
توعرض ہے کہ زبرزیرلکھنا بدعت ہرگزنہیں ہے کیونکہ اس کے لکھنے کی دلیل موجودہے ملاحظہ ہو:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا: أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ، وَالرِّضَا، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ، فَقَالَ: «اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ» سنن أبي داود (3/ 318 رقم3646)
صحابی رسول عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لیے۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ سے نکلی ہوئی ہرچیز کو لکھنے کی اجازت دی ہے اورقران بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے تلاوت ہوکرامت کو ملاہے،اورپہلے واضح کیا جاچکا ہے کہ تلاوت زبرزیرکے ساتھ ہی ہوتی ہے،گویا کہ زبرزیربھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے ہی نکلا ہے،لہٰذامذکورہ حدیث میں اس کے لکھنے کا بھی جواز موجودہے۔
لہٰذا قران مجید میں زبرلکھنے پراس حدیث سے دلیل موجودہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں زبرزیرنہیں لکھا گیا کیونکہ اس وقت کسی نے اس کی ضرورت محسوس نہ کی گرچہ اس کا جواز موجود تھا، لیکن ہمیں اس کی ضرورت ہے اس لئے اس جواز پرعمل کرتے ہوئے ہمارے لئے زبرزیرلکھ دیاگیا۔
خلاصہ کلام یہ کہ زبرزیرلکھنے پردلیل موجودہے لہٰذا یہ بدعت نہیں۔
آیت وضو میں پاوں کے مسح پر شیعہ کا جو استدلال ہے وہ اسی طرح رد کیا گیا ہے اور یہ واضح رہے کہ اعراب لگنے پر کسی عالم کی طرف سے یہ بات سامنے نہیں آئی کہ یہ قرآن میں اضافہ ہے ورنہ حفاظت قرآن کا ذمہ اللہ تعالی نے لیا ہوا ہے وہ بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے نعوذباللہ من ھذہ الخرافات
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
السلام علیکم،
الشیخ حسن الحلبی نے اپنی کتاب علم اصول البدع میں بدعت کی اس تعریف کو جامع ترین قرار دیا ہے جو امام الشاطبی نے الاعتصام میں لکھی ہے:
طريقة في الدين مخترعة تضاهي الشرعية يقصد بالسلوك عليها المبالغة في التعبد لله سبحانه
برادر عبدہ اس کی بھی تشریح کر دیں تو نافع ہو گی ان شاء اللہ۔
والسلام علیکم
محترم بھائی ہر لفظ کی تعریف میں کوشش یہ کی جاتی ہے کہ جو افراد اس میں شامل ہیں انکی صفات بیان کی جائیں اور جو اس میں نہیں آنے چاہئے انکو کسی متضاد وصف کی قید لگا کر خارج کر دیا جائے
اب اس میں ایک مسئلہ یہ آتا ہے کہ شامل افراد یا قابل از اخراج افراد کی تو بہت سی خصوصیات ہو سکتی ہیں تو ہم نے تعریف کرتے ہوئے کون سی خصوصیت کو مدنظر رکھنا ہے اس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ جن کے لئے تعریف بنائی جا رہی ہے وہ کس وجہ سے اس میں اشکال میں پھنسے ہوئے ہیں
مثلا کوئی آدمی کسی کو رش میں تلاش کر رہا ہے تو موبائل پر اسکو اسکی نشانی بتائی جاتی ہے تاکہ وہ اسکو پہچان سکے اب اگر وہاں باقی سارے انگریز ہیں اور مطلوب آدمی شکل سے دیہاتی لگتا ہے تو موبائل پر اسکی وہ صفت بتائی جائے گی تاکہ ڈھونڈنے میں آسانی ہو اسی طرح اگر معاملہ الٹ ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ جو سوٹڈ بوٹڈ نظر آ رہا ہے وہ آدمی ہے-
پس پہچان کا تعلق ان خصوصیات سے ہوتا ہے جو ماحول کے لحاظ سے امتیازی ہوتی ہیں اسی وجہ سے مختلف زمانوں میں اور مختلف معاشرتی رجحانوں میں علماء نے بدعت کی تعریف میں مختلف چیزوں سے قید لگائی ہے جو محترم اشماریہ بھائی کی بات کی طرح تقریبا ایک جیسی ہوتی ہیں البتہ کبھی کبھی نظریات کے تھوڑے سے فرق کی وجہ سے نکالے جانے والے افراد کے کم یا زیادہ ہونے سے تعریف بھی بدل جاتی ہے اسی طرح کبھی ماحول کے بدل جانے سے بھی معاملہ بدل جات ہے مثلا رش میں تلاش کرنے والے کو پہلے پتا نہ ہو مگر بعد میں علم ہو کہ دہاتی تو کوئی اور بھی ہے تو وہ صفت کو بدل دے گا اسی طرح مجھے پہلے کچھ علاے کے لوگوں کی بدعات کا علم نہیں تھا تو تعریف میں اور صفت سے مقید کیا تھا بعد میں علم ہونے پر نئی صفت بتانا پڑے گی
اسی طرح اوپر والی امام شاطبی کی تعریف میں کسی جگہ پڑھا ہے کہ مقصد کو المبالغۃ فی التعبد للہ سے مقید کیا گیا ہے تو اسکی وجہ شاہد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات کی پیروی کو بدعت سے نکالنا ہو سکتا ہے کہ وہاں خیر میں مبالغہ مقصد نہیں ہوتا اسکے برعکس دوسرے عادت کو بدعت میں داخل کرنے والے بھی ہیں جو خطبہ میں عصا کو پکڑنے کو بھی شاہد بدعت کہتے ہیں وہ اوپر تعریف میں آخر میں مبالغہ والی قید کی بجائے مقصد یہ بتاتے ہیں کہ جو شریعت پر چلنے کا مقصد ہوتا ہے واللہ اعلم
پس میرے سامنے جو اشکالات تھے یا جو معلوم تھے میں نے انکے لحاظ سے ایک کوشش کی تھی کوئی تعریف نہیں کی تھی اللہ آپ کو جزا دے امین
 
Top