• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا متقدمین فقہا کا اجتہاد قیامت تک کے لیے کافی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
میرے محترم اگر آپ کو اصطلاحات کا علم نہیں ہے تو یہ جھوٹ کی گولی کیسے ہو گئی؟ اب پہلے اس کو ثابت کیجیے پھر وضاحت کروں گا۔
ثابت آپ جو کر رھے ہیں اپنے آپ کو اور جھوٹی فقہ کو - لکن یہ ابھی تک نہیں بتا سکے کہ یہ فقہ حنفی حیاتی شریف ہے یا فقہ حنفی مماتی شریف
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ رہا آپ کا دعوی اس پر دلیل بھی پیش کریں ، مجھے لگتا ہے کہ جناب بات کرکے بہت جلد بھول جاتے ہیں،
مرجوح قول پر عمل کیا جا سکتا ہے یہ تو سب ہی مانتے ہیں غالبا۔
البتہ وجہ کیا ہے؟ تو وجہ اپنی فہم میں کسی غلطی کا شائبہ، اپنے اجتہاد پر کامل اعتماد نہ ہونا، کسی دلیل پر شبہہ اور شیوع فتنہ یا کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے کہیں بھی یہ لازم نہیں آتا کہ انہوں نےغلط کام کیا۔
آپ نے کن قیود و حدود کا ذکر کیا ہے؟
بھائی جان میرا دعوی مرجوح قول پر عمل کرنے کا تھا۔ آپ نے اسے مرجوح قول پر فتوی دینے سے تبدیل کر دیا۔
باقی جو میں نے حوالہ پیش کیا اس میں ضرورت کی وجہ سے قول مرجوح پر فتوی دینے کا بھی ذکر ہے حالاں کہ وہ مذہب کے اقوال میں مرجوح قول کی بات ہے۔ اور اپنی ذات میں مرجوح قول تو اس سے کم درجے کا ہے۔ اس میں تو بطریق اولی درست ہوگا۔
ہاں آپ یہ کہیں کہ ضرورت کہاں ہے تو میں ضرورت کو ہائی لائٹ کر رہا ہوں۔
اگر آپ کو اس بات سے انکار ہے کہ کوئی شخص اس قول پر جو اس کے نزدیک مرجوح ہے عمل نہیں کر سکتا تو حوالہ پیش کیجیے۔ جو آپ نے حوالہ دیا وہ اپنے قول کے بارے میں نہیں ہے جیسا کہ وضاحت ہو گئی۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
یہ رہا آپ کا دعوی اس پر دلیل بھی پیش کریں ، مجھے لگتا ہے کہ جناب بات کرکے بہت جلد بھول جاتے ہیں،
مرجوح قول پر عمل کیا جا سکتا ہے یہ تو سب ہی مانتے ہیں غالبا۔
البتہ وجہ کیا ہے؟ تو وجہ اپنی فہم میں کسی غلطی کا شائبہ، اپنے اجتہاد پر کامل اعتماد نہ ہونا، کسی دلیل پر شبہہ اور شیوع فتنہ یا کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے کہیں بھی یہ لازم نہیں آتا کہ انہوں نےغلط کام کیا۔
آپ نے کن قیود و حدود کا ذکر کیا ہے؟
اشماریہ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
بھائی جان میرا دعوی مرجوح قول پر عمل کرنے کا تھا۔ آپ نے اسے مرجوح قول پر فتوی دینے سے تبدیل کر دیا۔
باقی جو میں نے حوالہ پیش کیا اس میں ضرورت کی وجہ سے قول مرجوح پر فتوی دینے کا بھی ذکر ہے حالاں کہ وہ مذہب کے اقوال میں مرجوح قول کی بات ہے۔ اور اپنی ذات میں مرجوح قول تو اس سے کم درجے کا ہے۔ اس میں تو بطریق اولی درست ہوگا۔
ہاں آپ یہ کہیں کہ ضرورت کہاں ہے تو میں ضرورت کو ہائی لائٹ کر رہا ہوں۔
اگر آپ کو اس بات سے انکار ہے کہ کوئی شخص اس قول پر جو اس کے نزدیک مرجوح ہے عمل نہیں کر سکتا تو حوالہ پیش کیجیے۔ جو آپ نے حوالہ دیا وہ اپنے قول کے بارے میں نہیں ہے جیسا کہ وضاحت ہو گئی۔
تو پھر بھی دلیل درکار ہے اس لیے یہ کہنا کہ مرجوح قول پر عمل کرنا سب کے نزدیک درست ہے، اس کے لیے دلیل بھی عنایت فرما دیں؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
تو پھر بھی دلیل درکار ہے اس لیے یہ کہنا کہ مرجوح قول پر عمل کرنا سب کے نزدیک درست ہے، اس کے لیے دلیل بھی عنایت فرما دیں؟
میں نے "غالبا" بھی لکھا ہے۔ اپنا غلبہ ظن بیان کیا ہے۔
اگر آپ کو اس سے اختلاف ہے تو آپ اس کے لیے کوئی حوالہ پیش فرمائیں گے نا کہ نہیں جناب آپ کا غلبہ ظن درست نہیں۔ فلاں، فلاں نے اس سے اختلاف کیا ہے۔
اگر میں یقینی طور پر کہہ رہا ہوتا تو آپ مجھ سے دلیل مانگتے تو یہ درست ہوتا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
قول مرجوح پر بوجوہ عمل کیا جا سکتا ہے۔
امام ابن تیمیہؒ اس پر ایک طویل بحث فرماتے ہیں جس کے چیدہ چیدہ نکات کا میں ترجمہ بھی کر دوں گا۔
ولذلك استحب الأئمة أحمد وغيره أن يدع الإمام ما هو عنده أفضل، إذا كان فيه تأليف المأمومين، مثل أن يكون عنده فصل الوتر أفضل، بأن يسلم في الشفع، ثم يصلي ركعة الوتر، وهو يؤم قوما لا يرون إلا وصل الوتر، فإذا لم يمكنه أن يتقدم إلى الأفضل كانت المصلحة الحاصلة بموافقته لهم بوصل الوتر أرجح من مصلحة فصله مع كراهتهم للصلاة خلفه، وكذلك لو كان ممن يرى المخافتة بالبسملة أفضل، أو الجهر بها، وكان المأمومون على خلاف رأيه، ففعل المفضول عنده لمصلحة الموافقة والتأليف التي هي راجحة على مصلحة تلك الفضيلة كان جائزا حسنا
"اور اسی وجہ سے امام احمد و دیگر نے اسے مستحب قرار دیا ہے کہ امام جو اس کے نزدیک افضل ہو اسے چھوڑ دے اگر اس میں مقتدیوں کی دل جمعی ہو۔ مثال کے طور پر اس کے نزدیک وتر ملا کر پڑھنا افضل ہے اس طرح کہ دو رکعتوں پر سلام کرے اور رکعت وتر بار دگر پڑھے، اور وہ ایسی قوم کی امامت کر رہا ہو جو صرف وتر ملانے کو ہی درست سمجھتے ہوں۔ تو جب اس کے لیے افضل کی جانب بڑھنا ممکن نہیں تو وصل وتر میں ان کی موافقت سے حاصل ہونے والی مصلحت راجح ہے اس مصلحت سے کہ فصل کرے باوجود ان کے اس کے پیچھے نماز کو ناپسند کر نے کے۔ اسی طرح۔۔۔۔۔۔ الیٰ: تو اس نے موافقت اور تالیف کی مصلحت کی وجہ سے جو اس فضیلت (عمل) پرراجح ہے اپنے نزدیک مفضول پر عمل کیا تو یہ جائز و بہتر ہے۔"

اس وجہ سے مراد ما قبل فساد کا ذکر ہے۔

پھر کچھ مثالیں بیان کرتے ہیں:۔
وكذلك لو فعل خلاف الأفضل لأجل بيان السنة وتعليمها لمن لم يعلمها كان حسنا، مثل أن يجهر بالاستفتاح أو التعوذ أو البسملة ليعرف الناس أن فعل ذلك حسن مشروع في الصلاة، كما ثبت في الصحيح أن عمر بن الخطاب جهر بالاستفتاح، فكان يكبر ويقول: " سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا إله غيرك ". قال الأسود بن يزيد: صليت خلف عمر أكثر من سبعين صلاة، فكان يكبر؛ ثم يقول ذلك، رواه مسلم في صحيحه. ولهذا شاع هذا الاستفتاح حتى عمل به أكثر الناس.
وكذلك كان ابن عمر وابن عباس يجهران بالاستعاذة، وكان غير واحد من الصحابة يجهر بالبسملة. وهذا عند الأئمة الجمهور الذين لا يرون الجهر بها سنة راتبة كان يعلم الناس أن قراءتها في الصلاة سنة، كما ثبت في الصحيح أن ابن عباس صلى على جنازة فقرأ بأم القرآن جهرا، وذكر أنه فعل ذلك ليعلم الناس أنها سنة. وذلك أن الناس في صلاة الجنازة على قولين: منهم من لا يرى فيها قراءة بحال، كما قاله كثير من السلف، وهو مذهب أبي حنيفة ومالك.
ومنهم من يرى القراءة فيها سنة، كقول الشافعي، وأحمد لحديث ابن عباس هذا وغيره.
ثم من هؤلاء من يقول: القراءة فيها واجبة كالصلاة.
ومنهم من يقول: بل هي سنة مستحبة، ليست واجبة. وهذا أعدل الأقوال الثلاثة؛ فإن السلف فعلوا هذا وهذا، وكان كلا الفعلين مشهورا بينهم، كانوا يصلون على الجنازة بقراءة وغير قراءة، كما كانوا يصلون تارة بالجهر بالبسملة، وتارة بغير جهر بها، وتارة باستفتاح وتارة بغير استفتاح، وتارة برفع اليدين في المواطن الثلاثة، وتارة بغير رفع اليدين، وتارة يسلمون تسليمتين، وتارة تسليمة واحدة، وتارة يقرءون خلف الإمام بالسر، وتارة لا يقرءون، وتارة يكبرون على الجنازة أربعا، وتارة خمسا، وتارة سبعا كان فيهم من يفعل هذا، وفيهم من يفعل هذا. كل هذا ثابت عن الصحابة.
كما ثبت عنهم أن منهم من كان يرجع في الأذان؛ ومنهم من لم يرجع فيه.
ومنهم من كان يوتر الإقامة، ومنهم من كان يشفعها، وكلاهما ثابت عن النبي - صلى الله عليه وسلم -.


پھر فرماتے ہیں:۔
فهذه الأمور وإن كان أحدها أرجح من الآخر، فمن فعل المرجوح فقد فعل جائزا. وقد يكون فعل المرجوح أرجح للمصلحة الراجحة، كما يكون ترك الراجح أرجح أحيانا لمصلحة راجحة. وهذا واقع في عامة الأعمال، فإن العمل الذي هو في جنسه أفضل، قد يكون في مواطن غيره أفضل منه، كما أن جنس الصلاة أفضل من جنس القراءة، وجنس القراءة أفضل من جنس الذكر، وجنس الذكر أفضل من جنس الدعاء. ثم الصلاة بعد الفجر والعصر منهي عنها، والقراءة والذكر والدعاء أفضل منها في تلك الأوقات وكذلك القراءة في الركوع والسجود منهي عنها، والذكر هناك أفضل منها، والدعاء في آخر الصلاة بعد التشهد أفضل من الذكر، وقد يكون العمل المفضول أفضل بحسب حال الشخص المعين؛ لكونه عاجزا عن الأفضل، أو لكون محبته ورغبته واهتمامه وانتفاعه بالمفضول أكثر، فيكون أفضل في حقه لما يقترن به من مزيد عمله وحبه وإرادته وانتفاعه كما أن المريض ينتفع بالدواء الذي يشتهيه ما لا ينتفع بما لا يشتهيه، وإن كان جنس ذلك أفضل.
الفتاوی الکبری 2۔358 دار الکتب العلمیۃ

" یہ امور اگرچہ ان میں سے ایک دوسرے سے افضل ہے تو جس نے مرجوح کیا تو اس نے جائز کام کیا۔ اور کبھی فعل مرجوح مصلحت راجح کی وجہ سے راجح ہو جاتا ہے جیسا کہ کبھی راجح کو چھوڑنا مصلحت راجحہ کی وجہ سے راجح ہو جاتا ہے۔"
"اور کبھی عمل مفضول (غیر راجح) کسی خاص شخص کے حال کے اعتبار سے افضل ہو جاتا ہے، اس کے افضل پر عمل سے عاجز ہونے کی وجہ سے، یا اس کے مفضول سے محبت اور رغبت اور اہمیت اور نفع کے زیادہ ہونے کی وجہ سے تو یہ اس کے حق میں اس کے عمل کی زیادتی اور محبت اور ارادہ اور نفع کی وجہ سے افضل ہو جاتا ہے۔"

یہ فتوی ہے ابن تیمیہؒ کا کہ مفضول پر عمل بوجوہ جائز ہے۔ اور ان وجوہ میں ایک اس عمل کا محبوب ہونا بھی ہے۔
اب اگر محمود الحسنؒ نے مفضول پر عمل کیا تو اس سے کیا حرج لازم آیا؟
لیکن ذرا آگے بڑھیں تو میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ ابو حنیفہؒ کے قول پر عمل کی صورت میں کسی کے نزدیک اس مسئلہ میں خرابی پیدا نہیں ہوتی جب کہ شافعیؒ کے قول کی صورت میں ابو حنیفہؒ کے نزدیک معاملہ درست نہیں رہتا۔ اور احوط یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ابو حنیفہؒ کے قول پر عمل کیا جائے۔ جب ان کے قول پر عمل ہوگا تو شافعیؒ کے نزدیک بھی درست ہوگا۔
اگر شیخ الہندؒ نے مرجوح لیکن محتاط قول پر عمل کیا تو کیا حرج لازم آتا ہے؟
لیکن مجھے قوی امید ہے کہ میں اس کے بعد بھی مختلف جگہوں پر یہ اشکال ہوتا ہوا پاؤں گا۔ اللہم اہدنا الی سواء الصراط و احفظنا من التعصب۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
’’ لڑی ‘‘ اتنی طویل ہوگئی ہے ۔ موضوع تھا کہ :
کیا متقدمین فقہاء کا اجتہاد قیامت تک کے لیے کافی ہے ؟
حافظ عمران الٰہی صاحب کی ابتدائی چند شراکتوں کے بعد مجھے تو کہیں نظر نہیں آیا کہ اس موضوع پر بھی کچھ بات ہوئی ہے ۔
خاص طور پر حنفی مکتبہ فکر کے کسی ساتھی نے اس حوالے سے اپنے مکتبہ فکر کا موقف بیان نہیں فرمایا ۔ گزارش ہےکہ اس طرف توجہ فرمائیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
’’ لڑی ‘‘ اتنی طویل ہوگئی ہے ۔ موضوع تھا کہ :
کیا متقدمین فقہاء کا اجتہاد قیامت تک کے لیے کافی ہے ؟
حافظ عمران الٰہی صاحب کی ابتدائی چند شراکتوں کے بعد مجھے تو کہیں نظر نہیں آیا کہ اس موضوع پر بھی کچھ بات ہوئی ہے ۔
خاص طور پر حنفی مکتبہ فکر کے کسی ساتھی نے اس حوالے سے اپنے مکتبہ فکر کا موقف بیان نہیں فرمایا ۔ گزارش ہےکہ اس طرف توجہ فرمائیں ۔
اس سلسلے میں نص نہیں ہو سکتی۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ متقدمین فقہاء کا اجتہاد قیامت تک کے لیے کافی ہے۔
اگرچہ مسائل نئے پیش آتے رہتے ہیں لیکن متقدمین فقہاء کے وضع کردہ اصولوں پر ان کا حل بآسانی نکل سکتا ہے۔ ان چار فقہ سے ہٹ کر نئے اصول منضبط کرنا انتہائی کٹھن کام ہے۔ ہر اصول پہلے سے کسی میں پایا جائے گا۔

یہاں ایک اور بات یہ ہے کہ کیا متقدمین فقہاء سے ہٹ کر کسی مسئلہ کا حل نکالنا درست ہے؟
اس بارے میں علامہ شوکانی ارشاد الفحول میں نقل فرماتے ہیں:۔
البحث الرابع عشر: إذا اختلف أهل العصر في مسألة على قولين
فهل يجوز لمن بعدهم إحداث قول ثالث
اختلفوا في ذلك على أقوال:
الأول:
المنع مطلقا؛ لأنه كاتفاقهم على أنه لا قول سوى هذين القولين، قال الأستاذ أبو منصور، وهو قول الجمهور، قال الكيا: إنه صحيح وبه الفتوى، وجزم به القفال الشاشي والقاضي أبو الطيب الطبري والروياني، والصيرفي ولم يحكيا خلافه إلا عن بعض المتكلمين، وحكى ابن القطان الخلاف في ذلك عن داود.
القول الثاني:
الجواز مطلقا حكاه ابن برهان وابن السمعاني عن بعض الحنفية والظاهرية، ونسبه جماعة منهم القاضي عياض إلى داود وأنكر ابن حزم على من نسبه إلى داود.
القول الثالث:
أن ذلك القول الحادث بعد القولين إن لزم منه رفعهما لم يجز إحداثه وإلا جاز، وروي هذا التفصيل عن الشافعي واختاره المتأخرون من أصحابه، ورجحه جماعة من الأصوليين منهم ابن الحاجب، واستدلوا له بأن القول الحادث الرافع للقولين مخالف لما وقع الإجماع عليه، والقول الحادث الذي لم يرفع القولين غير مخالف لهما، بل موافق لكل واحد منهما من بعض الوجوه.

اس میں تین موقف بیان کیے گئے ہیں:۔
  1. تیسرا قول نکالنا درست نہیں۔ اسے جمہور کا قول کہا گیا ہے۔
  2. تیسرا قول نکالنا درست ہے۔ یہ بعض حنفیہ اور ظاہریہ کی طرف منسوب ہے۔
  3. اگر تیسرا قول پہلے اقوال کے مخالف ہے تو نکالنا درست نہیں۔ اور اگر ان کے موافق ہے کہ ان کو جمع کرتا ہے مختلف اعتبارات سے تو درست ہے۔
اس تفصیل سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ متقدمین فقہاء کے اجتہاد کو کافی سمجھا گیا ہے اور ان سے زائد کسی کے اجتہاد کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی ہے۔

مناسب یہ ہے کہ اس سلسلے میں تھوڑی تفصیل میں جایا جائے اور مجتہد مطلق اور مجتہد فی المذہب کے درمیان فرق سمجھا جائے۔
مجتہد مطلق آسان الفاظ میں اسے کہتے ہیں جو اپنے مذہب کے اصول و فروع اخذ کرے۔ اصول کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مجتہد ایک چیز کو ایک خاص انداز سے سمجھتا ہے، جیسے ایك ایسا لفظ جس كے ایك سے زائد معنی ہوں اس کا ایک معنی مراد لیا جاتا ہے کسی قرینے کے ذریعے۔ لیکن اگر قرینہ موجود نہ ہو تو ابو حنیفہؒ اس لفظ کی مراد میں توقف کرتے ہیں جب تک کہ قرینہ نہ مل جائے۔ اور امام شافعی اور مالک رحمہما اللہ ایک ہی وقت میں تمام معنی مراد لینے کو درست سمجھتے ہیں۔ (الوجیز فی اصول الفقہ ص 193)
اب جب بھی کوئی لفظ مشترک آئے گا اور کوئی قرینہ نہیں ہوگا تو احناف اس میں توقف کریں گے اور شوافع اور مالکیہ تمام معنی مراد لے لیں گے۔
مجتہد مطلق فروع یعنی مسائل بھی اخذ کرتا ہے۔

مجتہد فی المذہب اسے کہتے ہیں جو اصولوں میں اپنے امام کی پیروی کرے اور فروع اخذ کرے۔ فروع میں جہاں یہ مناسب جانیں وہاں امام سے اختلاف بھی کرتے ہیں لیکن بنیادی اصولوں میں مخالفت نہیں کرتے۔ (شرح عقود رسم المفتی ص10 ط بشری)
یعنی جس طرح امام سوچتا ہے اور قرآن و حدیث کو سمجھتا ہے اسی طرح یہ بھی سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ فروع یا مسائل میں اختلاف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ امام ایک اصول پر تفریع کر رہا ہوتا ہے اور یہ دوسرے پر۔ یا امام کے سامنے ایک چیز واضح نہیں ہوتی اور ان کے سامنے ہوتی ہے یا اس کے برعکس۔ جیسے مسائل قضا میں ابو یوسفؒ کا قول زیادہ معتبر ہوتا ہے کیوں کہ وہ خود قاضی رہے ہیں۔ یا ایک ہی اصول پر تفریع کر رہے ہوتے ہیں لیکن ایک روایت کو اس اصول کے مطابق ایک ترجیح دیتا ہے اور دوسرا دوسری روایت کو اس اصول کے زیادہ قریب سمجھتا ہے وغیرہ۔
ان سے نیچے مزید درجات ہوتے ہیں۔

مجتہد مطلق کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اب نہیں آ سکتا۔ یہ بات منصوص نہیں بلکہ عمومی حالت دیکھ کر کہی جاتی ہے۔
علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں:۔

منذ دهر طويل طوي بساط المفتي المستقل المطلق والمجتهد المستقل وأفضى أمر الفتوى إلى الفقهاء المنتسبين إلى أئمة المذاهب المتبوعة
ادب المفتی و المستفتی ص 29 ط عالم الکتب

"ایک طویل عرصہ گزرا کہ مفتی مستقل مطلق اور مجتہد مستقل کی بساط لپیٹ دی گئی ہے اور فتوی کا معاملہ ان فقہاء کی طرف آ گیا ہے جن کی نسبت مذاہب متبوعہ کی طرف کی جاتی ہے۔" ابن صلاح کی وفات 643 ھ میں ہے اور وہ اس میں یہ فرما رہے ہیں۔
اسی بات کو علامہ نووی کہتے ہیں:۔

ومن دهر طويل عدم المفتي المستقل وصارت الفتوى إلى المنتسبين إلى أئمة المذاهب المتبوعة
المجموع شرح المہذب 1۔43 ط دار الفکر

اور شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں:۔

وأن المطلق كما قرره هو في كتابه آداب الفتيا والنووي في شرح المهذب نوعان مستقل وقد فقد من رأس الأربعمائة فلم يمكن وجوده
الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف 1۔74 ط دار النفائس

شاہ صاحب ذکر کرتے ہیں کہ ابن صلاح اور نووی کے قول کے مطابق مجتہد مطلق مستقل چوتھی صدی کی ابتدا سے ختم ہو چکے ہیں لہذا ان کا پایا جانا ممکن نہیں۔
صاحب در المختار علامہ حصکفی فرماتے ہیں:۔
وقد ذكروا أن المجتهد المطلق قد فقد۔۔۔۔الخ
"فقہاء نے ذکر کیا ہے کہ مجتہد مطلق مفقود ہو چکے ہیں۔"

ان حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ مجتہد مطلق اب نہیں آتے تو ظاہر ہے متقدمین فقہاء کا اجتہاد ہی آئیندہ قابل عمل رہے گا۔
البتہ یہ بات استقرائی ہے اس لیے میں کہتا ہوں کہ آسکتے تو ہیں لیکن واقع میں یعنی دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ بہر حال اگر کوئی اجتہاد مطلق کا دعوی کرے تو اس سے اصول و فروع مانگے جائیں۔ اگر لے آئے تو علماء کے سامنے پیش کیے جائیں۔ اگر تسلیم کر لیں تو ٹھیک ہے ورنہ رد کر دیا جائے گا۔

خلاصہ کلام یہ کہ ہمیں استقراء اور تتبع و تلاش سے یہی علم ہوتا کہ کم از کم آج تک کے تمام مسائل متقدمین فقہاء کے اجتہادات اور اصول کے مطابق حل ہوتے رہے ہیں اور آئیندہ بھی حل ہوتے رہیں گے۔

مجتہد مذہب یا مجتہد منتسب کا وجود ان مسائل کے لیے کافی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
قول مرجوح پر بوجوہ عمل کیا جا سکتا ہے۔
امام ابن تیمیہؒ اس پر ایک طویل بحث فرماتے ہیں جس کے چیدہ چیدہ نکات کا میں ترجمہ بھی کر دوں گا۔
ولذلك استحب الأئمة أحمد وغيره أن يدع الإمام ما هو عنده أفضل، إذا كان فيه تأليف المأمومين، مثل أن يكون عنده فصل الوتر أفضل، بأن يسلم في الشفع، ثم يصلي ركعة الوتر، وهو يؤم قوما لا يرون إلا وصل الوتر، فإذا لم يمكنه أن يتقدم إلى الأفضل كانت المصلحة الحاصلة بموافقته لهم بوصل الوتر أرجح من مصلحة فصله مع كراهتهم للصلاة خلفه، وكذلك لو كان ممن يرى المخافتة بالبسملة أفضل، أو الجهر بها، وكان المأمومون على خلاف رأيه، ففعل المفضول عنده لمصلحة الموافقة والتأليف التي هي راجحة على مصلحة تلك الفضيلة كان جائزا حسنا
"اور اسی وجہ سے امام احمد و دیگر نے اسے مستحب قرار دیا ہے کہ امام جو اس کے نزدیک افضل ہو اسے چھوڑ دے اگر اس میں مقتدیوں کی دل جمعی ہو۔ مثال کے طور پر اس کے نزدیک وتر ملا کر پڑھنا افضل ہے اس طرح کہ دو رکعتوں پر سلام کرے اور رکعت وتر بار دگر پڑھے، اور وہ ایسی قوم کی امامت کر رہا ہو جو صرف وتر ملانے کو ہی درست سمجھتے ہوں۔ تو جب اس کے لیے افضل کی جانب بڑھنا ممکن نہیں تو وصل وتر میں ان کی موافقت سے حاصل ہونے والی مصلحت راجح ہے اس مصلحت سے کہ فصل کرے باوجود ان کے اس کے پیچھے نماز کو ناپسند کر نے کے۔ اسی طرح۔۔۔۔۔۔ الیٰ: تو اس نے موافقت اور تالیف کی مصلحت کی وجہ سے جو اس فضیلت (عمل) پرراجح ہے اپنے نزدیک مفضول پر عمل کیا تو یہ جائز و بہتر ہے۔"

اس وجہ سے مراد ما قبل فساد کا ذکر ہے۔

پھر کچھ مثالیں بیان کرتے ہیں:۔
وكذلك لو فعل خلاف الأفضل لأجل بيان السنة وتعليمها لمن لم يعلمها كان حسنا، مثل أن يجهر بالاستفتاح أو التعوذ أو البسملة ليعرف الناس أن فعل ذلك حسن مشروع في الصلاة، كما ثبت في الصحيح أن عمر بن الخطاب جهر بالاستفتاح، فكان يكبر ويقول: " سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا إله غيرك ". قال الأسود بن يزيد: صليت خلف عمر أكثر من سبعين صلاة، فكان يكبر؛ ثم يقول ذلك، رواه مسلم في صحيحه. ولهذا شاع هذا الاستفتاح حتى عمل به أكثر الناس.
وكذلك كان ابن عمر وابن عباس يجهران بالاستعاذة، وكان غير واحد من الصحابة يجهر بالبسملة. وهذا عند الأئمة الجمهور الذين لا يرون الجهر بها سنة راتبة كان يعلم الناس أن قراءتها في الصلاة سنة، كما ثبت في الصحيح أن ابن عباس صلى على جنازة فقرأ بأم القرآن جهرا، وذكر أنه فعل ذلك ليعلم الناس أنها سنة. وذلك أن الناس في صلاة الجنازة على قولين: منهم من لا يرى فيها قراءة بحال، كما قاله كثير من السلف، وهو مذهب أبي حنيفة ومالك.
ومنهم من يرى القراءة فيها سنة، كقول الشافعي، وأحمد لحديث ابن عباس هذا وغيره.
ثم من هؤلاء من يقول: القراءة فيها واجبة كالصلاة.
ومنهم من يقول: بل هي سنة مستحبة، ليست واجبة. وهذا أعدل الأقوال الثلاثة؛ فإن السلف فعلوا هذا وهذا، وكان كلا الفعلين مشهورا بينهم، كانوا يصلون على الجنازة بقراءة وغير قراءة، كما كانوا يصلون تارة بالجهر بالبسملة، وتارة بغير جهر بها، وتارة باستفتاح وتارة بغير استفتاح، وتارة برفع اليدين في المواطن الثلاثة، وتارة بغير رفع اليدين، وتارة يسلمون تسليمتين، وتارة تسليمة واحدة، وتارة يقرءون خلف الإمام بالسر، وتارة لا يقرءون، وتارة يكبرون على الجنازة أربعا، وتارة خمسا، وتارة سبعا كان فيهم من يفعل هذا، وفيهم من يفعل هذا. كل هذا ثابت عن الصحابة.
كما ثبت عنهم أن منهم من كان يرجع في الأذان؛ ومنهم من لم يرجع فيه.
ومنهم من كان يوتر الإقامة، ومنهم من كان يشفعها، وكلاهما ثابت عن النبي - صلى الله عليه وسلم -.


پھر فرماتے ہیں:۔
فهذه الأمور وإن كان أحدها أرجح من الآخر، فمن فعل المرجوح فقد فعل جائزا. وقد يكون فعل المرجوح أرجح للمصلحة الراجحة، كما يكون ترك الراجح أرجح أحيانا لمصلحة راجحة. وهذا واقع في عامة الأعمال، فإن العمل الذي هو في جنسه أفضل، قد يكون في مواطن غيره أفضل منه، كما أن جنس الصلاة أفضل من جنس القراءة، وجنس القراءة أفضل من جنس الذكر، وجنس الذكر أفضل من جنس الدعاء. ثم الصلاة بعد الفجر والعصر منهي عنها، والقراءة والذكر والدعاء أفضل منها في تلك الأوقات وكذلك القراءة في الركوع والسجود منهي عنها، والذكر هناك أفضل منها، والدعاء في آخر الصلاة بعد التشهد أفضل من الذكر، وقد يكون العمل المفضول أفضل بحسب حال الشخص المعين؛ لكونه عاجزا عن الأفضل، أو لكون محبته ورغبته واهتمامه وانتفاعه بالمفضول أكثر، فيكون أفضل في حقه لما يقترن به من مزيد عمله وحبه وإرادته وانتفاعه كما أن المريض ينتفع بالدواء الذي يشتهيه ما لا ينتفع بما لا يشتهيه، وإن كان جنس ذلك أفضل.
الفتاوی الکبری 2۔358 دار الکتب العلمیۃ

" یہ امور اگرچہ ان میں سے ایک دوسرے سے افضل ہے تو جس نے مرجوح کیا تو اس نے جائز کام کیا۔ اور کبھی فعل مرجوح مصلحت راجح کی وجہ سے راجح ہو جاتا ہے جیسا کہ کبھی راجح کو چھوڑنا مصلحت راجحہ کی وجہ سے راجح ہو جاتا ہے۔"
"اور کبھی عمل مفضول (غیر راجح) کسی خاص شخص کے حال کے اعتبار سے افضل ہو جاتا ہے، اس کے افضل پر عمل سے عاجز ہونے کی وجہ سے، یا اس کے مفضول سے محبت اور رغبت اور اہمیت اور نفع کے زیادہ ہونے کی وجہ سے تو یہ اس کے حق میں اس کے عمل کی زیادتی اور محبت اور ارادہ اور نفع کی وجہ سے افضل ہو جاتا ہے۔"

یہ فتوی ہے ابن تیمیہؒ کا کہ مفضول پر عمل بوجوہ جائز ہے۔ اور ان وجوہ میں ایک اس عمل کا محبوب ہونا بھی ہے۔
اب اگر محمود الحسنؒ نے مفضول پر عمل کیا تو اس سے کیا حرج لازم آیا؟
لیکن ذرا آگے بڑھیں تو میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ ابو حنیفہؒ کے قول پر عمل کی صورت میں کسی کے نزدیک اس مسئلہ میں خرابی پیدا نہیں ہوتی جب کہ شافعیؒ کے قول کی صورت میں ابو حنیفہؒ کے نزدیک معاملہ درست نہیں رہتا۔ اور احوط یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ابو حنیفہؒ کے قول پر عمل کیا جائے۔ جب ان کے قول پر عمل ہوگا تو شافعیؒ کے نزدیک بھی درست ہوگا۔
اگر شیخ الہندؒ نے مرجوح لیکن محتاط قول پر عمل کیا تو کیا حرج لازم آتا ہے؟
لیکن مجھے قوی امید ہے کہ میں اس کے بعد بھی مختلف جگہوں پر یہ اشکال ہوتا ہوا پاؤں گا۔ اللہم اہدنا الی سواء الصراط و احفظنا من التعصب۔
کہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا
بات کیا ہے اور اس کو کہاں لاگو کیا جا رہا ہے ؟ امام ابن تیمیہ نے کہاں لکھا ہے کہ ایک واضح نص کو رد کرو اور اپنے امام کی بات کو بالا رکھو امام ابن تیمیہ تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب دونوں طرف دلائل موجود ہیں تو اس وقت مرجوح پر عمل کیا جا سکتا ہے جیسے پانی بیٹھ کر اور کھڑے ہو بھی پیا جا سکتا ہے لیکن راجح یہ ہے کہ بیٹھ کر ہی پیا جاے
اگر آپ کی بات کو مراد لیا جاے تو یہ شریعت تو مزاق بن جاے گی اور کافی حد تک تم نے اس کو مذاق بنایا بھی تمہارے درجن امام ہیں، اور تم تو ان کے راجح اور مرجوح کی گتھیا ں نہیں سلجھا سکے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا
بات کیا ہے اور اس کو کہاں لاگو کیا جا رہا ہے ؟ امام ابن تیمیہ نے کہاں لکھا ہے کہ ایک واضح نص کو رد کرو اور اپنے امام کی بات کو بالا رکھو امام ابن تیمیہ تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب دونوں طرف دلائل موجود ہیں تو اس وقت مرجوح پر عمل کیا جا سکتا ہے جیسے پانی بیٹھ کر اور کھڑے ہو بھی پیا جا سکتا ہے لیکن راجح یہ ہے کہ بیٹھ کر ہی پیا جاے
اگر آپ کی بات کو مراد لیا جاے تو یہ شریعت تو مزاق بن جاے گی اور کافی حد تک تم نے اس کو مذاق بنایا بھی تمہارے درجن امام ہیں، اور تم تو ان کے راجح اور مرجوح کی گتھیا ں نہیں سلجھا سکے
آپ ذرا یہ تو ثابت کر دیں کہ اس مسئلہ میں احناف کے پاس دلائل نہیں ہیں۔
دلائل تو دونوں طرف موجود ہیں۔
 
Top