جوابات کے جوابات اور الزامی سوالاتسب سے پہلے عرض یہ ہے کہ آپ نے میری سرخ کردہ عبارات غور سے نہیں پڑھی۔۔۔
دوسری بات یہ کہ آپ بھر بھی اپنی ہی عبارتیں جن کو میں نے سرخ کیا ہے غور پڑہیں پہر میرے جوابات پڑہیں۔۔۔۔
جوابات:
۔
اگر یہ بات ایک خاص حکم سے متعلق ہے تو اس کا مطلب ہے وہ خاص حکم پہنچانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر لازم تھا ۔ معاذ اللہ باقی احکام پہنچا دیے تو ٹھیک اور اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ڈر کے نہ بھی پہنچائے تو بھی کوئی حرج نہیں ۔ آپ کی بات سے تو یہی مطلب نکل رہا ہے ۔(1) 1ـ یہ آیت کسی عام حکم کے لیے نہیں بلکہ خاص حکم کے لیے ہی ہو سکتی ہے (إِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه
اور وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اسی بات کی طرف ہی اشارہ ہے۔۔۔۔
2ـ تو پھر آپ کی بات تب درست ہوتی جب حدیث میں یہ الفاظ نا ہوتے(لن تضلوا بعده) (ن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب۔)3ـ کتاب کے باب کا عنوان ہے(احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث احکام کے لیے لکھی جا رہی تھی۔۔۔
تو اب آپکا اعتراض بخاری یا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر ہوتا ہر ہم پر نہیں۔۔۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لکھوانا چاہ رہے تھے اور انہوں نے اس تحریر کے متعلق لن تضلوہ بعدہ بھی فرمایا اور آپ کے موقف کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے ان کی شدت کی وجہ سے رک گئے بطور تقیہ (آپ کا موقف) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد وہ تحریر کیوں نہ لکھوائی؟؟؟
بخاری نے جو باب باندھا ہے (احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان) تو بات بھی ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی شرعی حکم کے بارے میں لکھوارہے ہوں لیکن ان کا تحریر نہ لکھوانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی امر کو بطور تاکید مکرر لکھوارہے تھے ۔ اگر وہ شرعی حکم نیا ہوتا تو وہ تحریر ضرور لکھی جاتی ۔ تبلیغ دین میں کوتاہی بارگاہ نبوت میں نا ممکن ہے ۔ اس پر تقیہ کی چادر نہیں ڈالی جاسکتی
اگر اس آپ کے موقف کے مطابق معاذ اللہ ھذیان کا فتوی آچکا تھا تو آپ نے بعد میں کیوں نہ وہ تحریر لکھوائی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جانے بعد(2)
1ـاس لیے کہ ھذیان کی فتوی آ چکی تھی تو بہانہ جو لوگ بعد میں ھر حدیث کے لیے یہی کہہ دیتے کہ یہ حدیث معاذاللہ ھذیان کے وقت کی ہے!!!!
2ـ ہمارا مدعی انکار حدیث ہے تو وہ سرزد ہوا ہے عمر سے۔۔۔۔ اگر ضروری نہیں تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ لن تضلوا بعده؟
3ـ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اولا مکے کے لیے آئے تھے پر پھر ھجرت پر مجبور کیوں ہوئے؟ کیا مکہ والوں کو تبلیغ کرنا ضروری نہیں تھی؟ فافھم جیدا
اور جہاں تک مکہ سے ہجرت کا تعلق ہے تو وہ ایک اللہ کے حکم کے مطابق ایک حکمت عملی کے تحت تھی اور انہوں نے مکہ والوں کو دین پہنچانا ترک نہ کیا بلکہ ایسا پہنچایا کہ اس کے اثرات فتح مکہ پر دیکھے جاسکتے ہیں اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر معاذاللہ مکہ والوں کو ہمیشہ کے لئییے بھلا دیا ہوتا تو کبھی بھی فتح مکہ کا واقعہ نہ پیش آتا ۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کے تحت اس وقت تحریر نہ لکھوائي تو بعد میں کیوں نہ لکھوائي
دلیل ؟ آپ کے پاس کیا دلیل ہے قوموا عنی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد حضرت عمر رصی اللہ عنہ تھی(3)
کیونکہ حضرت عمر ایک نہیں بلکہ ایک گروپ تھا۔۔۔کہتے ہیں مان بیٹی کو مار کر بہو کو سمجھاتی ہے بر حال یہ بھی اعتراض بخاری پر ہی ہے۔۔۔
یہ بات نا ممکن ہے کسی حکم شرعی کی تبلیغ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کسی کی ترغیب یا ترہیب کی وجہ سے ترک کردیں ۔ آپ کے مسلک میں تو تقیہ ہے لیکن ہمارے مسللک میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ جو حکم پہنچانے کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ملا وہ انہوں نے پہنچایا اور جس بات سے اللہ تبارک و تعالی نے روک دیا تو وہ رک گئے ۔ صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے رکنا محال ہے اور اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے سے رکے تو وہ بھی اللہ کے حکم کے ماتحت رکے تھے(4)
1ـ یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لن تضلوا فرما چکے ہیں تو کیا اتنی بڑی بات ایسے ہی کہہ ڈالی ؟!!! پھر اسکے بعد حضرت عمر سے متفق ہونا ایک سید الانبیاء نبی کے لیے بہت ہی عجیب ہے۔۔۔
2ـ کیا احکام شرع میں بھی آپ غلط بیانی کردیتے تھے پھر ھضرت عمر نے جو کہہ دیا اسی پر چل پڑے؟! نبی ایسے ہوتے ہیں؟!
إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
دلیل ؟؟؟(5)
اس کا جواب لن تضلوا ہے۔۔۔۔
بات اس تھریڈ کی حدیث سے متعلق نہیں اس لئیے فی الحال کوئی جواب نہیں دے رہا ۔ یہ الگ حدیث ہے(6)
1ـ یہی تو تقیہ ہے۔
2ـیہ نئی بات نہیں ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔۔۔۔( انْظُرُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ فَافْعَلُوا " . فَرَدُّوا عَلَيْهِ الْقَوْلَ ، فَغَضِبَ ، ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ غَضْبَانَ ، فَرَأَتْ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ ، فَقَالَتْ : مَنْ أَغْضَبَكَ أَغْضَبَهُ اللَّهُ ؟ قَالَ : " وَمَا لِي لَا أَغْضَبُ وَأَنَا آمُرُ بِالْأَمْرِ فَلَا أُتَّبَعُ " .)
آپ کا موقف کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تنبیہ نہ کرنا شدت عمر کی وجہ سے تھا تو حضرت علی کرم اللہ وجھہ آپ کے موقف مطابق مشکل کشا ہیں تو وہ اس وقت کہاں تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مشکل (آپ کا موقف کے مطابق ) میں تھے تو حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے اس مشکل کو کیوں نہ حل کیا ؟؟؟؟(7)
لشدۃ عمر
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي(8)
1ـ آپ تو خود بخاری کو جھٹلا رہیں ہیں جس نے باب کا عنوان ہی احکام شرع رکھا ہے۔۔۔!
2ـ وفات سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم وصیت
اپنی وفات سے پانج دن قبل:
سَمِعْتُ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِخَمْسٍ وَهُوَ يَقُولُ « 0000 أَلاَ وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ أَلاَ فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّى أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ . مسلم:532 المساجد، الطبراني الكبير:1686، بروايت جندب بن عبدالله البجلي.
حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پانچ دن قبل میں نے سنا آپ فرما رہے تھے۰۰۰۰۰
بیماری کے بالکل آخری ایام اور آخری لحظات میں:
لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ فَإِذَا اغْتَمَّ بِهَا كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ فَقَالَ وَهُوَ كَذَلِكَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا. صحيح البخاري :435 الصلاة، صحيح مسلم: 531 المساجد، مسند احمد1/218و6/275، سنن النسائي 2/40.
حضرت عاٗشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر مرض موت کی کیفیت طاری تھی تو۔۔۔۔۔۔اس حدیث کو تو آیہ اکمال کے ذریعے جھٹلاو۔۔۔!
جب یہ آيت اتری تو اس پہلے یہ حکم نازل ہوچکا تھا
وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا
اس کا مطلب ہے اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحہ تک نبی اکرم صلی اللہ عیلہ وسلم نے جو ارشادات فرمائے وہ ہمارے لئیے حجت ہیں
میں نے پہلے کہا تھا کہ کیسے ممکن ہو ایک تحریر جس کا دین سے تعلق ہے وہ تحریر بھی لکھنے سے رہ گئی اور دین کی تکمیل کا اعلان بھی ہوگيا ۔اور تحریر تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک نہ لکھی ۔ اگر وہ تحریر دین کا حصہ تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں نہ وہ تحریر لکھوائی ۔ آپ کے نظریہ کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ اللہ دین کے پہنچانے میں کوتاہی کی جو نا ممکن ہے
یہاں یہ بتانا مقصود تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضي اللہ عنہ کی رائے سے متفق ہوگئے تھے ۔ آپ کے نذدیک تو یہ بھی تقیہ ہوگآ(9) اس روایت میں سرخ عبارت کا بھ ترجمہ کریں ذرا۔۔۔۔۔۔۔البتہ مسلم بن کر ترجمہ کرنا ہے۔۔۔
جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لکھنے سے منع کرنے کا تعلق ہے تو ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ ، ثَنَا أَبُو يَعْلَى ، ثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، ثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ وَاسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ : كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ ، وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا ، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا ، وَفَزِعْنَا وَقُمْنَا ، وَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ ، فَخَرَجْتُ أَتْبَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ ، وَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ الْحَائِطِ مِنْ بِئْرِ خَارِجَةَ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَرَفْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ " ، قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، " مَا شَأْنُكَ ؟ " ، قُلْتُ : كُنْتَ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَرْتُ كَمَا يَحْتَفِرُ الثَّعْلَبُ وَهَؤُلاءِ النَّاسُ وَرَائِي ، قَالَ : " يَا أَبَا هُرَيْرَةَ " ، وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ ، وَقَالَ : " اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا مِنْ قَلْبِهِ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ " ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرَ ، فَقَالَ : مَا هَاتَانِ النَّعْلانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ ، فَقُلْتُ : هَاتَيْنِ نَعْلَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا فَمَنْ لَقِيتُ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهِ قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةَ ، قَالَ : فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لاسْتِي ، وَقَالَ : ارْجَعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، فَرَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَجْهَشْتُ بِالْبُكَاءِ ، وَرَكِبَنِي عُمَرُ ، وَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ " ، فَقُلْتُ : لَقِيتُ عُمَرَ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لاسْتِي ، فَقَالَ : ارْجَعْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (لعمر): " مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ؟ " ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي بَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ تُبَشِّرُهُ بِالْجَنَّةِ ، قَالَ : " نَعَمْ " ، قَالَ : فَلا تَفْعَلْ ، فَأَنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَلِّهِمْ " ، رَوَاهُ مُسْلِمُ ، عَنْ أَبِي خَيْثَمَةَ .
1ـاس میں ابوہریرہ کا قصور کیا تھا؟ کیا حضرت عمر کے پاس کوئی دلیل شرعی تھی ابوہریرہ کو مارنے پر؟!!!
2ـ کم از کم عمر کلمہ تو پڑھ لیتا!!!
3ـ یہ آپ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلہ وسَلَّمَ کے سامنے فَلا تَفْعَلْ کا معنی کیا ہے؟
بس کس کس بات پر روئے ہم؟!!!
یہ ویسے ہی منع فرمایا تھا جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کو منع کیا تھا(10) یہ آپ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلہ وسَلَّمَ کے لیے حضرت عمر کا فرمانا فرمانا فرمانا اس سے آپ کے عقیدہ کو پرکھیں یا آپ صلعم کی توہیں سمجھیں؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حسبنا کتاب اللہ کہنا بھی انکار حدیث نہیں ہے ۔ میں پہلے کہ چکا ہوں جو قرآن کو حجت مانے گا وہ حدیث کو ضرور حجت مانے گا اور حجیت حدیث قرآن سے ثابت ہے ۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں حدیث حجت نہ ہوتی تو وہ احادیث کی روایات کیوں کرتے(11) یہ استدلال کہاں سے کیا؟ جبکہ حضرت عمر نے ہی آپ کے استدلال کو رد کردیا کہ حسبنا کتاب اللہ اور پھر اھل حدیث کے بجائے اھل کتاب کہلوایا کریں نا۔۔۔
یاد رہے کہ کہ بخاری خود نے ہی کتاب اور سنۃ کر نام سے اس کتاب کو موسوم کیا ہے۔۔۔۔ فقط کتاب اکاعتصام بالکتاب ہی کہہ دیتے۔۔۔۔
جو نماز پڑہے گا وہ روزے بھی رکھے گا لھذا آپ کے مطابق روزے کا حکم عبث ہے و قس علی ھذا۔۔۔۔
اگر جس نے بھی حسبنا کتاب اللہ کہا اور وہ آپ کے نذدیک انکار حدیث میں آتا ہے تو یہ عبارت دیکھیئے
اس عبارت کا بھی وہی مطلب ہے جو حسبنا کتاب اللہ کا مطلب ہے ۔ یعنی ہماری ہر حاجت قرآن میں ہے ۔اللہ تبارک و تعالی کی کتاب میں اللہ نے ہر چیز کو کھول دیا ہے ۔ کوئی چیز ایسی نہیں جس کی طرف کوئی محتاج ہو مگر اس کو اللہ نے قرآن میں اتارا نہ ہو
جس طرح آپ حسبنا کتاب اللہ کا مطلب یہ لے رہیں ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں تو اوپر بیان کردہ اقتباس سے بھی یہ مطلب نکلے گا ہماری ہر ضرورت قرآن میں ہے اور ہمیں قرآن کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں اور حدیث کی بھی ضرورت نہیں
اگر آپ کی سوچ کے مطابق چلا جائے تو دونوں باتوں کا ایک مطلب نکلتا ہے ۔ حسبنا کتاب اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور جو عبارت پیش کی وہ ایک ہستی کا قول ہے اس کا نام بعد میں بتائوں گا
کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حسبنا کتاب اللہ کا مطلب وہی ہے اوپر پیش ہوا اور اگر اختلاف ہے تو وجہ اختلاف بھی بتائیے گا