• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ بھی انکار حدیث ہے؟؟؟؟

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
سب سے پہلے عرض یہ ہے کہ آپ نے میری سرخ کردہ عبارات غور سے نہیں پڑھی۔۔۔
دوسری بات یہ کہ آپ بھر بھی اپنی ہی عبارتیں جن کو میں نے سرخ کیا ہے غور پڑہیں پہر میرے جوابات پڑہیں۔۔۔۔

جوابات:
۔
جوابات کے جوابات اور الزامی سوالات
(1) 1ـ یہ آیت کسی عام حکم کے لیے نہیں بلکہ خاص حکم کے لیے ہی ہو سکتی ہے (إِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه
اور وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اسی بات کی طرف ہی اشارہ ہے۔۔۔۔
2ـ تو پھر آپ کی بات تب درست ہوتی جب حدیث میں یہ الفاظ نا ہوتے(لن تضلوا بعده) (ن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب۔)3ـ کتاب کے باب کا عنوان ہے(احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث احکام کے لیے لکھی جا رہی تھی۔۔۔
تو اب آپکا اعتراض بخاری یا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر ہوتا ہر ہم پر نہیں۔۔۔
اگر یہ بات ایک خاص حکم سے متعلق ہے تو اس کا مطلب ہے وہ خاص حکم پہنچانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر لازم تھا ۔ معاذ اللہ باقی احکام پہنچا دیے تو ٹھیک اور اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ڈر کے نہ بھی پہنچائے تو بھی کوئی حرج نہیں ۔ آپ کی بات سے تو یہی مطلب نکل رہا ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لکھوانا چاہ رہے تھے اور انہوں نے اس تحریر کے متعلق لن تضلوہ بعدہ بھی فرمایا اور آپ کے موقف کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے ان کی شدت کی وجہ سے رک گئے بطور تقیہ (آپ کا موقف) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد وہ تحریر کیوں نہ لکھوائی؟؟؟
بخاری نے جو باب باندھا ہے (احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان) تو بات بھی ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی شرعی حکم کے بارے میں لکھوارہے ہوں لیکن ان کا تحریر نہ لکھوانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی امر کو بطور تاکید مکرر لکھوارہے تھے ۔ اگر وہ شرعی حکم نیا ہوتا تو وہ تحریر ضرور لکھی جاتی ۔ تبلیغ دین میں کوتاہی بارگاہ نبوت میں نا ممکن ہے ۔ اس پر تقیہ کی چادر نہیں ڈالی جاسکتی


(2)
1ـاس لیے کہ ھذیان کی فتوی آ چکی تھی تو بہانہ جو لوگ بعد میں ھر حدیث کے لیے یہی کہہ دیتے کہ یہ حدیث معاذاللہ ھذیان کے وقت کی ہے!!!!
2ـ ہمارا مدعی انکار حدیث ہے تو وہ سرزد ہوا ہے عمر سے۔۔۔۔ اگر ضروری نہیں تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ لن تضلوا بعده؟
3ـ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اولا مکے کے لیے آئے تھے پر پھر ھجرت پر مجبور کیوں ہوئے؟ کیا مکہ والوں کو تبلیغ کرنا ضروری نہیں تھی؟ فافھم جیدا
اگر اس آپ کے موقف کے مطابق معاذ اللہ ھذیان کا فتوی آچکا تھا تو آپ نے بعد میں کیوں نہ وہ تحریر لکھوائی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جانے بعد
اور جہاں تک مکہ سے ہجرت کا تعلق ہے تو وہ ایک اللہ کے حکم کے مطابق ایک حکمت عملی کے تحت تھی اور انہوں نے مکہ والوں کو دین پہنچانا ترک نہ کیا بلکہ ایسا پہنچایا کہ اس کے اثرات فتح مکہ پر دیکھے جاسکتے ہیں اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر معاذاللہ مکہ والوں کو ہمیشہ کے لئییے بھلا دیا ہوتا تو کبھی بھی فتح مکہ کا واقعہ نہ پیش آتا ۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کے تحت اس وقت تحریر نہ لکھوائي تو بعد میں کیوں نہ لکھوائي


(3)
کیونکہ حضرت عمر ایک نہیں بلکہ ایک گروپ تھا۔۔۔کہتے ہیں مان بیٹی کو مار کر بہو کو سمجھاتی ہے بر حال یہ بھی اعتراض بخاری پر ہی ہے۔۔۔
دلیل ؟ آپ کے پاس کیا دلیل ہے قوموا عنی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد حضرت عمر رصی اللہ عنہ تھی

(4)
1ـ یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لن تضلوا فرما چکے ہیں تو کیا اتنی بڑی بات ایسے ہی کہہ ڈالی ؟!!! پھر اسکے بعد حضرت عمر سے متفق ہونا ایک سید الانبیاء نبی کے لیے بہت ہی عجیب ہے۔۔۔
2ـ کیا احکام شرع میں بھی آپ غلط بیانی کردیتے تھے پھر ھضرت عمر نے جو کہہ دیا اسی پر چل پڑے؟! نبی ایسے ہوتے ہیں؟!
یہ بات نا ممکن ہے کسی حکم شرعی کی تبلیغ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کسی کی ترغیب یا ترہیب کی وجہ سے ترک کردیں ۔ آپ کے مسلک میں تو تقیہ ہے لیکن ہمارے مسللک میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ جو حکم پہنچانے کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ملا وہ انہوں نے پہنچایا اور جس بات سے اللہ تبارک و تعالی نے روک دیا تو وہ رک گئے ۔ صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے رکنا محال ہے اور اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے سے رکے تو وہ بھی اللہ کے حکم کے ماتحت رکے تھے
إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

(5)
اس کا جواب لن تضلوا ہے۔۔۔۔
دلیل ؟؟؟

(6)
1ـ یہی تو تقیہ ہے۔
2ـیہ نئی بات نہیں ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔۔۔۔( انْظُرُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ فَافْعَلُوا " . فَرَدُّوا عَلَيْهِ الْقَوْلَ ، فَغَضِبَ ، ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ غَضْبَانَ ، فَرَأَتْ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ ، فَقَالَتْ : مَنْ أَغْضَبَكَ أَغْضَبَهُ اللَّهُ ؟ قَالَ : " وَمَا لِي لَا أَغْضَبُ وَأَنَا آمُرُ بِالْأَمْرِ فَلَا أُتَّبَعُ " .)
بات اس تھریڈ کی حدیث سے متعلق نہیں اس لئیے فی الحال کوئی جواب نہیں دے رہا ۔ یہ الگ حدیث ہے

(7)
لشدۃ عمر
آپ کا موقف کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تنبیہ نہ کرنا شدت عمر کی وجہ سے تھا تو حضرت علی کرم اللہ وجھہ آپ کے موقف مطابق مشکل کشا ہیں تو وہ اس وقت کہاں تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مشکل (آپ کا موقف کے مطابق ) میں تھے تو حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے اس مشکل کو کیوں نہ حل کیا ؟؟؟؟

(8)
1ـ آپ تو خود بخاری کو جھٹلا رہیں ہیں جس نے باب کا عنوان ہی احکام شرع رکھا ہے۔۔۔!
2ـ وفات سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم وصیت
اپنی وفات سے پانج دن قبل:
سَمِعْتُ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِخَمْسٍ وَهُوَ يَقُولُ « 0000 أَلاَ وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ أَلاَ فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّى أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ . مسلم:532 المساجد، الطبراني الكبير:1686، بروايت جندب بن عبدالله البجلي.
حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پانچ دن قبل میں نے سنا آپ فرما رہے تھے۰۰۰۰۰
بیماری کے بالکل آخری ایام اور آخری لحظات میں:
لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ فَإِذَا اغْتَمَّ بِهَا كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ فَقَالَ وَهُوَ كَذَلِكَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا. صحيح البخاري :435 الصلاة، صحيح مسلم: 531 المساجد، مسند احمد1/218و6/275، سنن النسائي 2/40.
حضرت عاٗشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر مرض موت کی کیفیت طاری تھی تو۔۔۔۔۔۔اس حدیث کو تو آیہ اکمال کے ذریعے جھٹلاو۔۔۔!
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
جب یہ آيت اتری تو اس پہلے یہ حکم نازل ہوچکا تھا
وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا

اس کا مطلب ہے اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحہ تک نبی اکرم صلی اللہ عیلہ وسلم نے جو ارشادات فرمائے وہ ہمارے لئیے حجت ہیں
میں نے پہلے کہا تھا کہ کیسے ممکن ہو ایک تحریر جس کا دین سے تعلق ہے وہ تحریر بھی لکھنے سے رہ گئی اور دین کی تکمیل کا اعلان بھی ہوگيا ۔اور تحریر تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک نہ لکھی ۔ اگر وہ تحریر دین کا حصہ تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں نہ وہ تحریر لکھوائی ۔ آپ کے نظریہ کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ اللہ دین کے پہنچانے میں کوتاہی کی جو نا ممکن ہے


(9) اس روایت میں سرخ عبارت کا بھ ترجمہ کریں ذرا۔۔۔۔۔۔۔البتہ مسلم بن کر ترجمہ کرنا ہے۔۔۔
جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لکھنے سے منع کرنے کا تعلق ہے تو ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ ، ثَنَا أَبُو يَعْلَى ، ثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، ثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ وَاسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ : كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ ، وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا ، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا ، وَفَزِعْنَا وَقُمْنَا ، وَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ ، فَخَرَجْتُ أَتْبَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ ، وَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ الْحَائِطِ مِنْ بِئْرِ خَارِجَةَ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَرَفْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ " ، قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، " مَا شَأْنُكَ ؟ " ، قُلْتُ : كُنْتَ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَرْتُ كَمَا يَحْتَفِرُ الثَّعْلَبُ وَهَؤُلاءِ النَّاسُ وَرَائِي ، قَالَ : " يَا أَبَا هُرَيْرَةَ " ، وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ ، وَقَالَ : " اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا مِنْ قَلْبِهِ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ " ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرَ ، فَقَالَ : مَا هَاتَانِ النَّعْلانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ ، فَقُلْتُ : هَاتَيْنِ نَعْلَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا فَمَنْ لَقِيتُ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهِ قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةَ ، قَالَ : فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لاسْتِي ، وَقَالَ : ارْجَعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، فَرَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَجْهَشْتُ بِالْبُكَاءِ ، وَرَكِبَنِي عُمَرُ ، وَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ " ، فَقُلْتُ : لَقِيتُ عُمَرَ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لاسْتِي ، فَقَالَ : ارْجَعْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (لعمر): " مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ؟ " ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي بَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ تُبَشِّرُهُ بِالْجَنَّةِ ، قَالَ : " نَعَمْ " ، قَالَ : فَلا تَفْعَلْ ، فَأَنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَلِّهِمْ " ، رَوَاهُ مُسْلِمُ ، عَنْ أَبِي خَيْثَمَةَ .


1ـاس میں ابوہریرہ کا قصور کیا تھا؟ کیا حضرت عمر کے پاس کوئی دلیل شرعی تھی ابوہریرہ کو مارنے پر؟!!!
2ـ کم از کم عمر کلمہ تو پڑھ لیتا!!!
3ـ یہ آپ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلہ وسَلَّمَ کے سامنے فَلا تَفْعَلْ کا معنی کیا ہے؟
بس کس کس بات پر روئے ہم؟!!!
یہاں یہ بتانا مقصود تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضي اللہ عنہ کی رائے سے متفق ہوگئے تھے ۔ آپ کے نذدیک تو یہ بھی تقیہ ہوگآ

(10) یہ آپ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلہ وسَلَّمَ کے لیے حضرت عمر کا فرمانا فرمانا فرمانا اس سے آپ کے عقیدہ کو پرکھیں یا آپ صلعم کی توہیں سمجھیں؟
یہ ویسے ہی منع فرمایا تھا جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کو منع کیا تھا

(11) یہ استدلال کہاں سے کیا؟ جبکہ حضرت عمر نے ہی آپ کے استدلال کو رد کردیا کہ حسبنا کتاب اللہ اور پھر اھل حدیث کے بجائے اھل کتاب کہلوایا کریں نا۔۔۔
یاد رہے کہ کہ بخاری خود نے ہی کتاب اور سنۃ کر نام سے اس کتاب کو موسوم کیا ہے۔۔۔۔ فقط کتاب اکاعتصام بالکتاب ہی کہہ دیتے۔۔۔۔
جو نماز پڑہے گا وہ روزے بھی رکھے گا لھذا آپ کے مطابق روزے کا حکم عبث ہے و قس علی ھذا۔۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حسبنا کتاب اللہ کہنا بھی انکار حدیث نہیں ہے ۔ میں پہلے کہ چکا ہوں جو قرآن کو حجت مانے گا وہ حدیث کو ضرور حجت مانے گا اور حجیت حدیث قرآن سے ثابت ہے ۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں حدیث حجت نہ ہوتی تو وہ احادیث کی روایات کیوں کرتے
اگر جس نے بھی حسبنا کتاب اللہ کہا اور وہ آپ کے نذدیک انکار حدیث میں آتا ہے تو یہ عبارت دیکھیئے
اللہ تبارک و تعالی کی کتاب میں اللہ نے ہر چیز کو کھول دیا ہے ۔ کوئی چیز ایسی نہیں جس کی طرف کوئی محتاج ہو مگر اس کو اللہ نے قرآن میں اتارا نہ ہو
اس عبارت کا بھی وہی مطلب ہے جو حسبنا کتاب اللہ کا مطلب ہے ۔ یعنی ہماری ہر حاجت قرآن میں ہے ۔
جس طرح آپ حسبنا کتاب اللہ کا مطلب یہ لے رہیں ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں تو اوپر بیان کردہ اقتباس سے بھی یہ مطلب نکلے گا ہماری ہر ضرورت قرآن میں ہے اور ہمیں قرآن کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں اور حدیث کی بھی ضرورت نہیں
اگر آپ کی سوچ کے مطابق چلا جائے تو دونوں باتوں کا ایک مطلب نکلتا ہے ۔ حسبنا کتاب اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور جو عبارت پیش کی وہ ایک ہستی کا قول ہے اس کا نام بعد میں بتائوں گا
کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حسبنا کتاب اللہ کا مطلب وہی ہے اوپر پیش ہوا اور اگر اختلاف ہے تو وجہ اختلاف بھی بتائیے گا
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
بہرام صاحب
میرا یہ سوال رہ گيا تھا ۔ اس کا جواب دے دیں تو آپ کی باقی پوسٹ کا جواب دیتا ہوں ان شاء اللہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حسبنا کتاب اللہ کہنا بھی انکار حدیث نہیں ہے ۔ میں پہلے کہ چکا ہوں جو قرآن کو حجت مانے گا وہ حدیث کو ضرور حجت مانے گا اور حجیت حدیث قرآن سے ثابت ہے ۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں حدیث حجت نہ ہوتی تو وہ احادیث کی روایات کیوں کرتے
اگر جس نے بھی حسبنا کتاب اللہ کہا اور وہ آپ کے نذدیک انکار حدیث میں آتا ہے تو یہ عبارت دیکھیئے

اللہ تبارک و تعالی کی کتاب میں اللہ نے ہر چیز کو کھول دیا ہے ۔ کوئی چیز ایسی نہیں جس کی طرف کوئی محتاج ہو مگر اس کو اللہ نے قرآن میں اتارا نہ ہو
اس عبارت کا بھی وہی مطلب ہے جو حسبنا کتاب اللہ کا مطلب ہے ۔ یعنی ہماری ہر حاجت قرآن میں ہے ۔
جس طرح آپ حسبنا کتاب اللہ کا مطلب یہ لے رہیں ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں تو اوپر بیان کردہ اقتباس سے بھی یہ مطلب نکلے گا ہماری ہر ضرورت قرآن میں ہے اور ہمیں قرآن کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں اور حدیث کی بھی ضرورت نہیں
اگر آپ کی سوچ کے مطابق چلا جائے تو دونوں باتوں کا ایک مطلب نکلتا ہے ۔ حسبنا کتاب اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور جو عبارت پیش کی وہ ایک ہستی کا قول ہے اس کا نام بعد میں بتائوں گا
کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حسبنا کتاب اللہ کا مطلب وہی ہے اوپر پیش ہوا اور اگر اختلاف ہے تو وجہ اختلاف بھی بتائیے گا
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
جب یہ آيت اتری تو اس پہلے یہ حکم نازل ہوچکا تھا
وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا

اس کا مطلب ہے اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحہ تک نبی اکرم صلی اللہ عیلہ وسلم نے جو ارشادات فرمائے وہ ہمارے لئیے حجت ہیں
میں نے پہلے کہا تھا کہ کیسے ممکن ہو ایک تحریر جس کا دین سے تعلق ہے وہ تحریر بھی لکھنے سے رہ گئی اور دین کی تکمیل کا اعلان بھی ہوگيا ۔ اگر وہ تحریر دین کا حصہ تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں نہ وہ تحریر لکھوائی ۔ آپ کے نظریہ کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ اللہ دین کے پہنچانے میں کوتاہی کی جو نا ممکن ہے
امام بخاری کی فقہ ان کے ترجمہ ابواب میں


فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم​
"‏ هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ‏"‏‏.‏

امام بخاری کی فقہ​

کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ

باب: احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان


اللہ کے رسول محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس مکتوب کے بارےمیں یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ اس کی موجودگی میں تم کبھی گمراہ نہ ہوگے آپ کی منطق کے مطابق اس کا تعلق دینی امر سے نہیں پھر اللہ اپنے رسول کو کیوں مبعث فرماتا ہے کیا صرف اس لیئے نہیں کہ اللہ کا رسول اللہ کی مخلوق کو گمراہی سے بچائے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کار رسالت کو انجام دینا چاہتے ہیں تو آپ ایسے دینی امر ہی نہیں مان رہے
اناللہ وانا الیہ راجعون
آپ اس بات پر غور ہی نہیں فرمارہے کہ اس حدیث کو امام بخاری نے کہا ں درج کیا ہے ۔غور کریں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
امام بخاری کی فقہ ان کے ترجمہ ابواب میں


فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم​
"‏ هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ‏"‏‏.‏

امام بخاری کی فقہ​

کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ

باب: احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان


اللہ کے رسول محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس مکتوب کے بارےمیں یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ اس کی موجودگی میں تم کبھی گمراہ نہ ہوگے آپ کی منطق کے مطابق اس کا تعلق دینی امر سے نہیں پھر اللہ اپنے رسول کو کیوں مبعث فرماتا ہے کیا صرف اس لیئے نہیں کہ اللہ کا رسول اللہ کی مخلوق کو گمراہی سے بچائے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کار رسالت کو انجام دینا چاہتے ہیں تو آپ ایسے دینی امر ہی نہیں مان رہے
اناللہ وانا الیہ راجعون
آپ اس بات پر غور ہی نہیں فرمارہے کہ اس حدیث کو امام بخاری نے کہا ں درج کیا ہے ۔غور کریں
یہ بات بھی بالکل ممکن ہے کہ اس تحریر کا تعلق احکام شرع سے ہو لیکن وہ حکم نیا نہیں ہو سکتا وہ بطور تاکید مکرر ہوگا ۔ کیوں کہ یہ ناممکن ہے اللہ تبارک و تعا لی کا کوئی نیا حکم لوگوں کی ھدایت کی لئیے جاری ہو اور معاذ اللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کو اس امت تک نہ پہنچائیں

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک وہ تحریر نہ لکھوائی تو آپ کی سوچ کے مطابق معاذ اللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک ناقص دین پنچایا کہ اللہ نے ایک تحریری حکم لوگوں تک پہنچانے کا کہا اور وہ انہوں نے نہ پہنچایا
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبْلِكَ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍO

سُورة فُصِّلَت / حٰم السَّجْدَة 43

اس آیت قرآنی پر غور کرنے سے نئے اور پرانے حکم کا جو اشکال آپ کے گمان میں ہے وہ دور ہوجائے گا
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ہمارا کام یہ ہے کہ حق بیان کردیں ھدایت دینا اللہ کا کام ہے اللہ ہم سب کو اہلبیت سے محبت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین
شوشے چھوڑنے کی عادت گئی نہیں۔۔۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہ رافضیوں کی پرانی ریت ہے -اہل فارس کے فاتح کو گلیاں دینا ان کے دین میں فرض کی حثیت رکھتا ہے -ان بیوقوفوں کو یہ نہیں پتا کہ آپ صل الله علیہ وسلم کے تمام صحابہ رضی الله عنہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے کیا یہ ممکن ہے کہ ٢٠ ٢٥ سال آپ صل اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں رہنے والے آپ صل الله علیہ وسلم کی وفات کے وقت مرتد ہو گئے ( نعوزباللہ ) -کیا نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی تربیت کا اثر صرف ٢٠ ٢٥ سال رہا اور کیا صرف اہل بیت ہی ہدایت یافتہ رہے باقی سارے گمراہ ہو گئے ؟؟؟
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57

قولی ِعملی اور تحریری حدیث کا انکار

قولی حدیث


فقالَ يا أبا هريرة وأعطاني نعليهِ قالَ اذهب بنعليَّ هاتينِ فمن لقيتَ من وراءِ هذا الحائطَ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُ مستيقِنًا بها قلبُهُ فبشِّرْهُ بالجنَّة

ابو ہریرہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو ہریرہ میری یہ نعلین لےکر جاؤ اور باغ کے باہر جو شخص تم کو کلمہ طیبہ کی دلی یقین سے شہادت دیتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو
انکار حدیث

فكانَ أوَّلَ من لقيتُ عمرُ فقالَ ما هاتانِ النَّعلانِ يا أبا هريرةَ فقلتُ هاتانِ نعلا رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بعثني بهما من لقيتُ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُ مستيقِنًا بها قلبهُ بشَّرتُهُ بالجنَّةِ فضربَ عمرُ بيدِهِ بينَ ثدييَّ فخررتُ لِاستي فقالَ ارجِع يا أبا هريرةَ

ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ باغ کے باہر سب سے پہلے میری ملاقات عمر سے ہوئی انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ نعلیں کیسی ہیں میں نے کہا یہ رسول اللہ کی نعلیں ہیں جو حضور نے مجھے اس لئے عنایت فرمائی ہیں کہ جو شخص بھی یقین کے ساتھ کلمہ طیبہ کی گواہی دیتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دوں یہ حدیث سن کر عمر نے میرے سینے پر اتنی زور کا تھپٹر مارا کہ میں پیٹھ کے بل گر پڑا اور کہا واپس جاؤ
حوالہ : الراوي: أبو هريرة المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 31
خلاصة حكم المحدث: صحيح


عملی حدیث کا انکار


عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن عبد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ الله بن أبى لما توفي جاء ابنه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله أعطني قميصك أكفنه فيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وصل عليه واستغفر له،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأعطاه النبي صلى الله عليه وسلم قميصه فقال ‏"‏ آذني أصلي عليه ‏"‏‏.‏ فآذنه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما أراد أن يصلي عليه
ترجمہ از داؤد راز
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) کی موت ہوئی تو اس کا بیٹا (عبداللہ صحابی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! والد کے کفن کے لیے آپ اپنی قمیص عنایت فرمائیے اور ان پر نماز پڑھئے اور مغفرت کی دعا کیجئے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص (غایت مروت کی وجہ سے) عنایت کی اور فرمایا کہ مجھے بتانا میں نماز جنازہ پڑھوں گا۔ عبداللہ نے اطلاع بھجوائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا نے کے لیے آگے بڑھے تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔


انکار حدیث

جذبه عمر ـ رضى الله عنه ـ فقال أليس الله نهاك أن تصلي على المنافقين فقال ‏"‏ أنا بين خيرتين
ترجمہ از داؤد راز
عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو پیچھے سے پکڑ لیا اور عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے

حوالہ : الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1269
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

یعنی قرآن کی غلط تاویل کرکے انکار حدیث


تحریری حدیث


صلح حدیبیہ

سن ٦ ھجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین مکہ کے درمیان ہونے والےتحریری معاہدے کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے ، اس تحریری معاہدے یعنی تحریری حدیث پر حضرت عمر کو بہت غصہ آیا اور اسی غصہ کی حالات میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اس تحریری حدیث پر اعتراض کیا اور کہا
فجاء عمر فقال ألسنا على الحق وهم على الباطل أليس قتلانا في الجنة وقتلاهم في النار قال ‏"‏ بلى ‏"‏‏.‏ قال ففيم أعطي الدنية في ديننا،‏‏‏‏ ونرجع ولما يحكم الله بيننا‏.‏ فقال ‏"‏ يا ابن الخطاب إني رسول الله ولن يضيعني الله أبدا ‏"‏‏.‏ فرجع متغيظا،‏‏‏‏ فلم يصبر حتى جاء أبا بكر فقال يا أبا بكر ألسنا على الحق وهم على الباطل قال يا ابن الخطاب إنه رسول الله صلى الله عليه وسلم ولن يضيعه الله أبدا‏.‏ فنزلت سورة الفتح‏.‏

ترجمہ از داؤد راز
عمر رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتولین جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں جائیں گے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا مظاہرہ کیوں کریں (یعنی دب کر صلح کیوں کریں) اور کیوں واپس جائیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آ گئے ان کو غصہ آ رہا تھا، صبر نہیں آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا، اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ ابوبکرنے بھی وہی جواب دیا کہ اے ابن خطاب! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
حوالے:
الراوي: سهل بن حنيف المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4844
لراوي: شقيق بن سلمة المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1785
الراوي: سهل بن حنيف و علي بن أبي طالب المحدث:الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 6/240
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح


یعنی تحریری حدیث کا صرف انکار ہی نہیں بلکہ غصہ بھی !!!!!

یہ وہ احادیث ہیں جن کا انکار حضرت عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور کیا اس کے علاوہ جن احادیث سے صحابہ کے سامنے انکار کیا وہ بھی کئی ہیں
اللہ و رسولہ اعلم
اولاً: اگر احادیث مبارکہ کو آپ مانتے ہیں تو پھر دیگر صحیح احادیث کو بھی آپ مانتے ہوں گے، جن میں سیدنا عمررضی اللہ عنہ متعدد فضائل بیان کیے گئے ہیں اور انہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ (مانتے ہیں تو مزید بحث کی ضرورت نہیں) اور اگر نہیں مانتے تو یہودیوں كا كردار كيوں اپنا رہے ہیں: أفتؤمنون ببعض الكتاب وتكفرون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم إلا خزي في الحياة الدنيا ويوم القيامة يردون إلى أشد العذاب وما الله بغافل عما تعلمون

ثانیا: آپ نے احادیث میں سے صرف اپنے مطلب کی باتیں کیوں بیان کی ہیں، پورا قصہ کیوں ذکر نہیں کیا؟؟؟ کیونکہ اس سے آپ کا موقف کی چھت بنیادوں سے ہی گر پڑے گی؟؟؟
مثلاً پہلی باغ والی حدیث میں آپ نے صرف وہ حصہ بیان کیا، جس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو دھکا دیا اور اس سے آپ نے سیدنا عمر سے اپنا بغض ظاہر کرتے ہوئے انہیں منکر حدیث ثابت کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ اسی حدیث مبارکہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ (آپ اس کے منکر ہیں تو در اصل رسول کریمﷺ کی باتوں کو نہ ماننے والے آپ ہوئے نہ کہ سیدنا عمر) اور پھر جب سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے واپس آکر نبی کریمﷺ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو نبی کریمﷺ نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کی، اس کا بھی آپ نے ذکر نہیں کیا۔ کیوں؟؟؟ کیا نعوذ باللہ نبی کریمﷺ بھی اپنی ہی احادیث کا انکار کرنے والے تھے؟؟؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا صاحب قصہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس حدیث کی بناء پر آپ کی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منکر حدیث سمجھتے تھے۔ بہرام صاحب تقیہ کیوں کرتے ہو، تمہارے نزدیک تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی کافر ومنافق ہیں (نعوذ باللہ) تو اپنا مطلب نکالنے کیلئے انہیں کی احادیث کیوں پیش کر رہے ہو؟
قد مكر الذين من قبلهم فأتى الله بنيانهم من القواعد فخر عليهم السقف من فوقهم وأتاهم العذاب من حيث لا يشعرون
ان سے پہلے بھی لوگوں مکر ودھوکا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی عمارت کی بنیادیں ہی اکھاڑ دیں اور ان کے اوپر چھٹ دھڑام سے گر پڑی اور پھر انہیں وہاں سے عذاب آیا جہاں سے وہ شعور بھی نہ رکھتے تھے۔

ثالثا: آپ نے صلح حدیبیہ کا قصہ بیان کیا ہے آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ اس قصے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم ﷺ کے حکم سے صریح خلاف ورزی کی، نبی کریمﷺ نے انہیں رسول اللہ مٹانے کا حکم دیا تو انہوں نے نہیں مانا! کیا آپ اسے بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا انکار حدیث کہیں گے؟؟!!

اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے اور نبی کریمﷺ کے صحابہ سے محبت کرنے والا بنا دے!
والذين جاءوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذين ءامنوا ربنا إنك رؤوف رحيم
اس آیت کریمہ سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ اور کون لوگ ہو سکتے ہیں؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
جواب عرض کرچکا ایک بار پھر عرض کیئے دیتا ہوں
قرآن کی اتنی سمجھ کے باوجود مولا علی علیہ السلام نے یہ کبھی نہیں کہا قرآن ہمارے لئے کافی ہے یہ تو انہی لوگوں کا دعویٰ ہے جو قرآن کے واضع احکامات کا بھی علم نہیں رکھتے ۔
اللہ اعلم و رسولہ اعلم
ابتسامۃ
 
Top