• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گنبد خضراء پر ایک کھڑکی نما ، اور ایک روایت کی تحقیق

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حجرۂ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بناوٹ میں کچھ چیزوں کے ثبوت کی ضرورت نہیں کہ وہ کسی بھی کمرے کا لازمی حصہ ہے مثلاً دروازہ اور چھت کا ہونا۔
آپ کی باقی پوسٹ کی تو مجھے سمجھ نہیں آئی ، البتہ بالا سطر سے یہ واضح ہورہا ہے کہ آپ ’ حجرہ ‘ اور ’ غرفہ ‘ کے مابین فرق سے نابلد ہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
گنبد خضراء میں ایک جانب ایک ابھار سا ہے. کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سوراخ ہے. اور بارش کا یہ قصہ مدینہ کے کسی گورنر کے حوالے سے سنایا جاتا ہے.
اس میں کس حد تک صداقت ہے؟
اس تھریڈ کی پوسٹ نمبر 9 ملاحظہ کیجیے ۔
مذکورہ تھریڈ کو میں نے اچھی طرح پڑھا ۔ اس میں دو تین باتوں میں کو آپس میں خلط ملط کیا جارہا ہے۔
دونوں تھریڈ ایک ہی جگہ کردیے گئے ہیں ، امید ہے تکرار سے اجتناب کیا جائے گا ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس تھریڈ کی پوسٹ نمبر 9 ملاحظہ کیجیے ۔

دونوں تھریڈ ایک ہی جگہ کردیے گئے ہیں ، امید ہے تکرار سے اجتناب کیا جائے گا ۔
مزید الجھ گیا بھائی.
حقیقت کیا ہے؟
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
عائشہ رضی اللہ عنھا کا حجرہ ، جِس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قبر تھی ، اُس وقت کچھ کھلے اور کچھ بند حصے پر مشتمل ایک کمرے کی صُورت میں تھا، جس میں سے قبر مُبارک تک سُورج کی روشنی بھی آتی تھی ، یعنی قبر مُبارک ، اور آسمان کے درمیان کوئی روکاٹ ، کوئی آڑ نہ تھی ، تو ایسے میں اُس کی چھت میں براہ راست ایک ایسی کھلی جگہ بنانے کا کہنا کہ جو قبر مبارک اور آسمان کے درمیان کسی آڑ کو باقی نہ رہنے دے ، ایسے مشورے کی گنجائش ہی کہاں ہے؟؟؟
محترم اس کا حوالہ درکار ہے کہ یہ بات آپ نے کہاں سے حاصل کی؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
محترم بھائی، عبدالرحمن بھٹی صاحب، جب دو مسلمان اپنی ملاقات کا یا گفت و شنید کا آغاز کریں تو انہیں تحیۃ الاسلام سے آغاز کرنا چاہیے،
آپ کے مقتبوسہ بالا سوال کا جواب میرے اُسی مضمون میں موجود ہے :::
وقد قال شيخ الإسلام ابن تيمية في"الرد على البكري ص 68-74": "وما روي عن عائشة رضي الله عنها من فتح الكوة من قبره إلى السماء، لينزل المطر فليس بصحيح، ولا يثبت إسناده، ومما يبين كذب هذا أنه في مدة حياة عائشة لم يكن للبيت كوة، بل كان باقياً كما كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، بعضه مسقوف وبعضه مكشوف، وكانت الشمس تنزل فيه، كما ثبت في "الصحيحين" عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها، لم يظهر الفيء بعد، ولم تزل الحجرة النبوية كذلك في مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم.. ومن حينئذ دخلت الحجرة النبوية في المسجد، ثم إنه يُبنى حول حجرة عائشة التي فيها القبر جدار عال، وبعد ذلك جعلت الكوة لينزل منها من ينزل إذا احتيج إلى ذلك لأجل كنس أو تنظيف.
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
قبر مُبارک اور آسمان کے درمیان کی چھت میں ایسی کھلی جگہ بنانے جس کی وجہ سے قبر مبارک اور آسمان کے درمیان کوئی آڑ نہ ہو ، کا مطلب یہ ہوا کہ جب بارش ہو گی تو براہ راست قبر مبارک پر بھی پڑے گی، حاشاء للہ،کہ ، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا کوئی کام کرنے کو کہا ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قبر مُبارک پر کسی قِسم کے نقصان کا سبب ہو سکتا ہو،
محترم جنت البقیع اور دیگر قبرستانوں کے بارے میں بھی فرمائیے کہ ان کی حفاظ کے لئے کیا اقدامات کیئے جائیں؟ کیا ان کو پختہ کیا جائے یا ان پر بھی عمارتیں بنائی جائیں؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ، بھائی ، عبدالرحمن بھٹی صاحب، مسلمانوں کی قبروں کی تعظیم کی حُدود مقرر ہیں، اُنہیں تدفین کے وقت طبعی طور پر بننے والی صورت میں چھوڑ دیا جائے گا،
مزید تفصیل کے لیے میری کتاب """ایصال ثواب اور اُس کی حقیقت """کے آخر میں ،""" ملحق رقم 1، مُسلمانوں کی قبروں کی تعظیم کی حُدود """ کا مطالعہ فرمایے،
یہ کتاب درج ذیل ربط پر مطالعہ کے میسر ہے و للہ الحمد:
http://bit.ly/1TgHVID
۔۔۔۔۔۔۔۔
والسلام علیکم۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
یہ ؒوسیلہ" کیا ہے؟ اور کن سے مانگنا جائز ہے؟ اس پر ایک میرے خیال سے جامع تھریڈ ہونا چاہئے۔ نیز اسی طرح دعا مانگنے کے لئے "واسطہ" کی شرعی حیثیت کا بھی ایک تھریڈ ہونا چاہئے، جس میں عام فہم کی اردو زبان میں جو بات آسانی سے سمجھ میں آجائے، تمام دعا مانگنے اور اسکے مسائل کا حل ہو۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
معذرت خواہ ہوں بھائی، کہ آپ کے نام کا پہلا لفظ سمجھ نہیں پایا،
شیخ خضر حیات صاحب نے آپ کے اِس سوال کا ایک جواب عنایت فرما دیا ہے،مزید کے طور پر میں وسیلہ کے بارے میں اردو میں بنیادی معلومات پر مشتمل ایک مختصر کتاب کا ربط پیش کر رہا ہوں، امید ہے کہ اس کا مطالعہ اِن شاء اللہ فائدہ مند ہو گا،
قرآن کریم اور صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کے مطابق وسیلہ کیا ہے؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
وقد قال شيخ الإسلام ابن تيمية في"الرد على البكري ص 68-74": "وما روي عن عائشة رضي الله عنها من فتح الكوة من قبره إلى السماء، لينزل المطر فليس بصحيح، ولا يثبت إسناده، ومما يبين كذب هذا أنه في مدة حياة عائشة لم يكن للبيت كوة، بل كان باقياً كما كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، بعضه مسقوف وبعضه مكشوف، وكانت الشمس تنزل فيه، كما ثبت في "الصحيحين" عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها، لم يظهر الفيء بعد، ولم تزل الحجرة النبوية كذلك في مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم..
آپ کی مراد شائد ابن تیمیہ کی تحریر کے ملون حصوں سے ہے؟ ٍصحیحین کی دونوں روایتیں کچھ یوں ہیں؛
صحيح البخاري - (ج 2 / ص 344)
491 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ فَأَخْبَرَهُ أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا وَهُوَ بِالْعِرَاقِ فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ
فَقَالَ مَا هَذَا يَا مُغِيرَةُ أَلَيْسَ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ جِبْرِيلَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ فَصَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ بِهَذَا أُمِرْتُ
فَقَالَ عُمَرُ لِعُرْوَةَ اعْلَمْ مَا تُحَدِّثُ أَوَأَنَّ جِبْرِيلَ هُوَ أَقَامَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقْتَ الصَّلَاةِ قَالَ عُرْوَةُ كَذَلِكَ كَانَ بَشِيرُ بْنُ أَبِي مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ عُرْوَةُ وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ

صحيح البخاري - (ج 2 / ص 377)
512 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا لَمْ يَظْهَرْ الْفَيْءُ مِنْ حُجْرَتِهَا

ان دونوں احادیث سے چھت کا کچھ حصہ کھلا ہونا اور کچھ ڈھکا ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟ وضاحت فرما دیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
قبر مُبارک اور آسمان کے درمیان کی چھت میں ایسی کھلی جگہ بنانے جس کی وجہ سے قبر مبارک اور آسمان کے درمیان کوئی آڑ نہ ہو ، کا مطلب یہ ہوا کہ جب بارش ہو گی تو براہ راست قبر مبارک پر بھی پڑے گی، حاشاء للہ،کہ ، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا کوئی کام کرنے کو کہا ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قبر مُبارک پر کسی قِسم کے نقصان کا سبب ہو سکتا ہو،
عائشہ رضی اللہ عنھا کا حجرہ ، جِس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قبر تھی ، اُس وقت کچھ کھلے اور کچھ بند حصے پر مشتمل ایک کمرے کی صُورت میں تھا، جس میں سے قبر مُبارک تک سُورج کی روشنی بھی آتی تھی ، یعنی قبر مُبارک ، اور آسمان کے درمیان کوئی روکاٹ ، کوئی آڑ نہ تھی ، تو ایسے میں اُس کی چھت میں براہ راست ایک ایسی کھلی جگہ بنانے کا کہنا کہ جو قبر مبارک اور آسمان کے درمیان کسی آڑ کو باقی نہ رہنے دے ، ایسے مشورے کی گنجائش ہی کہاں ہے؟؟؟
ایک طرف چھت میں کھڑکی کو قبر مبارک کے لئے نقصان کا باعث ہونے کے سبب اس کے امکان کو رد کر رہے ہو اور دوسری طرف چھت کے کچھ حصہ کے موجود ہی نہ ہونے کا ذکر کر رہے ہو! کیا وہ کھلا حصہ قبر مبارک کے نقصان کا باعث نہ تھا؟
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
بھائی عبدالرحمن بھٹی صاحب،
آپ کے سابقہ دو مراسلات ، یعنی، مراسلہ رقم 27 اور 28 میں کیے گئے سوالات کا جواب، آپ ہی کے مراسلہ رقم 27 میں آپ ہی طرف سے نقل کردہ آخری روایت کے اس حصے میں ہے :
"""
وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا لَمْ يَظْهَرْ الْفَيْءُ مِنْ حُجْرَتِهَا"""۔
والسلام علیکم۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
عَنْ عَائِشَةَ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى العَصْرَ، وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا لَمْ يَظْهَرِ الفَيْءُ مِنْ حُجْرَتِهَا»
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی تو دھوپ ان کے حجرہ ہی میں تھی۔ سایہ وہاں نہیں پھیلا تھا۔
وجہ استدلال : حجرے کے اندر دھوپ کا آنا ، اس کے اوپر سےکھلے ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔
 
Top