• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم کس کی مانیں محدث فورم کے احادیث کے مجموعہ کی یا کفایت الله صاحب کی

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
غلام مصفطفی ظہیر صاحب کے اصول سے تو یہ روایت ایک اور وجہ سے ضعیف ہے ۔
وہ یہ کہ اس کی سندمیں حصین ہیں ۔
اور غلام مصطفی صاحب حصین کو مختلط مانتے ہیں اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ابن ادریس نے ان سے اختلاط سے قبل سنا ہے ۔

لیکن ہمارے نزدیک یہ علت صحیح نہیں کیونکہ حصین کا اصطلاحی مختلط ہونا ثابت نہیں ۔

اس لئے صحیح بات یہ کہ انقطاع کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔
ایک طرف غلام مصطفیٰ ظہیر صاحب اور ایک طرف آپ - ؟؟؟؟؟
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
اس روایت میں مرفوع حدیث صحیح ہے، جبکہ اس روایت کی سند منقطع یعنی ضعیف ہے!
file-page1.jpg
file-page528.jpg
file-page529.jpg
file-page530.jpg
file-page531.jpg



@ابن داوود بھائی اب اس میں کون سی مرفوع حدیث صحیح ہے اور کون سی ضعیف
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک طرف غلام مصطفیٰ ظہیر صاحب اور ایک طرف آپ - ؟؟؟؟؟
آپ کو انقطاع کی دلیل دی جا چکی ہے، اب ایک طرف دلیل ہے، اور ایک طرف غلام مصطفی ظہیر!
یا آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرف امام نسائی اور ایک طرف غلام مصطفی ظہیر!
یہ بات بھی بتلائی گئی کہ اگر آپ نے دلیل کو نظر انداز کرکرے کسی کی بات ہی ماننی ہے، تو امام نسائی کی مان لیں!
ویسے یہ بھی بتلا دوں کہ غلام مصطفی ظہیر کے مؤقف کو بھی مرزا جہلی جیسے رافضیت زدہ لوگ نہیں مانتے۔ یہ دیڈیوز ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رافضیوں اور نیم رافضیوں کے اشکالات کے جوابات ازشیخ غلام مصطفی ظہیر
اس ویڈیو میں 10 منٹ سے سنیں!
اس ویڈیو میں شیخ غلام مصفطیٰ ظہیر خود اسے منقطع اور ضعیف سند قرار دے رہے ہیں، اور اس کتاب کے اس حکم سے رجوع کا اعلان بھی کیا ہے!
الحمدللہ!
اس سائٹ پر اور بھی بہت دیڈیو ہیں، دیکھئےگا!
@ابن داوود بھائی اب اس میں کون سی مرفوع حدیث صحیح ہے اور کون سی ضعیف
دیکھیں وجاہت صاحب! آپ کے جاہل ہونے میں مجھے کوئی شک پہلے بھی نہیں تھا، اور یہ آپ نے ایک اور ثبوت دے دیا!
اس میں مرفوع حدیث ہر روایت میں صحیح ہے!
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
دیکھیں وجاہت صاحب! آپ کے جاہل ہونے میں مجھے کوئی شک پہلے بھی نہیں تھا، اور یہ آپ نے ایک اور ثبوت دے دیا!
اس میں مرفوع حدیث ہر روایت میں صحیح ہے!
ارے بھائی آپ کے الفاظ کا شکریہ -

اوپر زبیر علی زئی رحمہ الله کا موقف آپ نے دیکھا ہے - کیا وہ صحیح ہے -
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اوپر زبیر علی زئی رحمہ الله کا موقف آپ نے دیکھا ہے - کیا وہ صحیح ہے -
شیخ زبیر علی زئی نے ہم سے جداگانہ بات نہیں کی!
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
میں نے اپ سے فقط حوالہ مانگا تھا کہ کس حدیث کے تحت یہ تبصرہ نقل کیا ہے اپ وہ بتا دیں جلد ہی اپ کو بتا دوں گا کہ امام نسائی کا اس کو انقطا ع کہنے کی کیا وجہ ہے اور امام بخاری کا کیا مدعا ہے فلحال اپ حوالہ پیش کریں اس کو کس حدیث کے تحت لکھا ہے
اولا:
آپ شعیب ارنووط کے قول کو لیکر کیوں بیٹھ گئے کیا وہ دلیل ہے ؟

ثانیا:
آپ نےاحمد شاکر رحمہ اللہ کا فیصلہ پیش کیا تھا وہ کس حدیث کے تحت تھا؟ یہ آپ بھول گئے یہ متن میں نے نقل کیا تھا۔
اسی طرح آپ بھی شعیب ارنووط کے فیصلہ والا متن نقل کرسکتے ہیں خود نقل کرکے اپنی بات رکھیں ۔

ویسے ہمیں اندازہ ہے کہ آپ کیا گل کھلاسکتے ہیں ۔
اور اس کا جواب بھی ہم رکھتے ہیں آپ بسم اللہ توکریں ۔۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
آپ بسم اللہ توکریں

ھلال بن یساف
یہ تابعین میں سے ہیں اور انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کا دور پایا ہے مگر ان سے سماع ثابت نہیں ہے چنانچہ امام بخاری نے تار یخ الکبیر میں بالجزم نقل کی ہے کہ ان کا سماع ابی مسعود البدری سے ثابت ہے

هلال بْن يساف أَبُو الحسن أدرك عليا قال مروان (ابن معاوية عن اسمعيل ) عَنْ هلال سَمِعَ أبا مَسْعُود الْأَنْصَارِيّ، وقَالَ مروان عَنْ أَبِي مالك عَنْ هلال بْن يساف مولى أشجع، روى عَنْهُ منصور بْن المعتمر وحصين وسَمِعَ سلمة بْن قيس.

اور جامع التحصیل میں موجود ہے
هلال بن يساف كان يحيى بن سعيد ينكر أنه سمع من أبي مسعود البدري وفي التهذيب أنه روى عن أبي الدرداء رضي الله عنه وقال الحافظ الذهبي وكأنه مرسل قلت له رؤية عن علي رضي الله عنه ولم يسمع منه(ترجمہ 853)
امام ابن سعد نے بھی ان کو کوفہ کےطبقہ الثانیہ میں رکھا ہے
اور انہوںان کے اساتذہ میں "سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل القرشى" کا نام موجود ہے
چنانچہ البانی صاحب نے اسی وجہ سے ان کی ایک حدیث کو سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے صحیح قرار دیا ہے
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ فِتْنَةً، فَعَظَّمَ أَمْرَهَا، فَقُلْنَا: - أَوْ قَالُوا: - يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَئِنْ أَدْرَكَتْنَا هَذِهِ لَتُهْلِكَنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَلَّا، إِنَّ بِحَسْبِكُمُ الْقَتْلَ» ، قَالَ سَعِيدٌ: «فَرَأَيْتُ إِخْوَانِي قُتِلُوا(سنن ابو داود رقم 4277)
امام بخاری نے عبداللہ بن ظالم المازنی کے ترجمہ میں ان دو احادیث کا ذکر کیا ہے جو عبداللہ بن ظالم سے نقل ہوئی ہیں جس کو غازی صاحب رواۃ کا اختلاف نقل فرما رہے تھے
چنانچہ امام بخاری نے عشرہ مبشرہ والی حدیث نقل کی ہے جو ایک سفیان ثوری کی سند سے آئی ہے اور دوسری حصین بن عبدالرحمن کی سند سے نقل ہوئی ہے

(1) عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ظَالِمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَشَرَةٌ في الْجَنَّةِ، قَاله عُبَيْدُ بْنُ سعيد عن سفيان: عن منصورعَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ التَّمِيمِيِّ، سَمِعَ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
یہ پہلی سند ہے جس کو غازی صاحب نے امام نسائی کے مطابق انقطاع مانا ہے جبکہ امام بخاری کے نذدیک یہ سند متصل ہے کیونکہ ھلال بن یساف کو 40 ہجری میں موجود مانتے ہیں اور اور سعید بن زید سے ان کی ملاقات ثابت ہے اور دوسری حصین سے نقل کی ہے
وَقَالَ مُسَدَّدٌ عَنْ خَالِدٍ عَنْ حُصَيْنٍ مِثْله وَلَمْ يَقُلِ التَّمِيمِيُّ،
اس پر موصوف نے ڈبل انقطاع کا حکم صادر کیا ہے جبکہ اس میں صاف موجود ہے کہ "عن حصین مثلہ ولم یقل التمیمی" حصین کی سند سے بھی اسی طرح بیان ہوا ہے مگر اس میں (عبداللہ بن ظالم) کو التمیمی نہیں کہا ہے
اس سے معلوم ہوا ہے امام بخاری اسی حدیث(عشرہ مبشر) کی دوسری سند بتا رہے جس میں عبداللہ بن ظالم کو المازنی کہا گیا ہے اس کے بعد امام بخاری نے اس عبداللہ بن ظالم سے دوسری حدیث کی سند نقل کی ہے جس میں یہ بتایا ہے کہ یہ ھلال بن یسارف نے بلاواسطہ(یعنی عبداللہ بن ظالم ) کے واسطے کے بغیر سعید بن زید سے روایت کیا ہے
وَقَالَ أَبُو الأَحْوَصِ: عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلالٍ عَنْ سَعِيد عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَادَ بَعْضُهُمُ ابْنَ حَيَّانَ فيهِ وَلَمْ يَصِحَّ، وَلَيْسَ لَهُ حَدِيثٌ إِلا هَذَا وَبِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ، رَوَى عَنْهُ عَبْدُ الملك ابن مَيْسَرَةَ.

یہ وہ سند ہے "ابو الاحوص عن منصور عن ھلال عن سعید" اس کے بعد امام بخاری نے یہ بتایا کہ اس دونوں احادیث کی اسناد میں بعض ابن حیان کے واسطے کا اضافہ کرتے ہیں جو صحیح نہیں ہےچنانچہ یہی نقل کیا ہے"
وَزَادَ بَعْضُهُمُ ابْنَ حَيَّانَ فيهِ وَلَمْ يَصِحَّ، "
امام بخاری نے اس کا رد کیا ہے کہ جو ھلال بن یساف اور عبداللہ ظالم کے درمیان ابن حیان کے واسطے کے قائل ہیں کیونکہ ھلال بن یساف نے 40 ہجری میں موجود تھے اور ان کو یہ عبداللہ بن ظالم سے روایت کرنے کے لئے کسی واسطے کی حاجت نہیں کیونکہ وہ خود موجود تھے یہاں تک کے سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے بھی ان کا روایت کرنا ثابت ہے
اور پھر امام بخاری نے یہ لکھا کہ" وَلَيْسَ لَهُ حَدِيثٌ إِلا هَذَا وَبِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ، رَوَى عَنْهُ عَبْدُ الملك ابن مَيْسَرَةَ.
"اس (عبداللہ بن ظالم) سے صرف یہ ایک حدیث ثابت ہے اوروہ یہ ہے" وَبِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ،"اس کو عبدالملک بن میسرۃ نے عبداللہ بن ظالم سے روایت کیا ہے
اب ہم وہ اسناد بھی پیش کردیتے ہیں تاکہ بات اور واضح ہو جائے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَسُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، ذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ(سنن ابوداود رقم 4648)
اور امام نسائی
نے اپنی الکبری میں اس کی دونوں اسناد الگ نقل کی ہیں اور ابن حیان کا اضافہ بھی کیا ہے جس کو امام بخاری نے رد کیا ہے کہ یہ اضافہ صحیح نہیں ہےأَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنِ ابْنِ حَيَّانَ، عَنْ
عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ
(
(سنن نسائی الکبری رقم 8136

أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ حَصِينٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ
عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ
(سنن نسائی الکبری رقم 8134)

دوسری حدیث "بحسب اصحابی القتل" والی کی سند یہ ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ فِتْنَةً، فَعَظَّمَ أَمْرَهَا، فَقُلْنَا: - أَوْ قَالُوا: - يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَئِنْ أَدْرَكَتْنَا هَذِهِ لَتُهْلِكَنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَلَّا، إِنَّ بِحَسْبِكُمُ الْقَتْلَ» ، قَالَ سَعِيدٌ: «فَرَأَيْتُ إِخْوَانِي قُتِلُوا»(سنن ابو داود رقم4277)
اسی سند کو شیخ البانی نے ابوداود کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے اور احمد شاکر نے بھی مسند احمد رقم 1630 کے تحت یہ نقل کیا ہے "ھلال بن یساف:تابعی ثقۃ،سبق الکلام علیہ فی610،وقد جزم البخاری فی الکبیربانہ ادرک علیا وسمع ابا مسعود البدری الانصاری، وابو مسعودمات 40 فان یکون سمع سعید بن زید اولی(مسند احمد رقم 1630)

اس سے ثابت ہے کہ ھلال بن یساف کا سعید بن زید رضی اللہ سے سماع ثابت ہے اور ان کی استاذ شاگردی کو بھی امام مزی نے تھذیب الکمال میں نقل کیا ہے
اور اس کی ایک سند اور ہے جس میں ھلال بن یساف نے عبداللہ ظالم سے اسی حدیث کو روایت کیا ہے

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، قَالَ: نَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: نَا مِسْعَرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْل(مسند البزار رقم1262)
امام بخاری کا ان دونوں میں سے ایک حدیث (بحسب اصحابی القتل)کو ماننا اور دوسرے کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ عشرہ مبشرہ والی روایت ان کو صرف ھلال بن یساف عن عبداللہ بن ظالم کی سند سے ملی ہے اور امام بخاری عبداللہ بن ظالم کے ضعف کے قائل تھے چنانچہ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب میں نقل کرتے ہیں کہ "صدوق لينه البخارى(تقریب التھذیب) اور دوسری روایت چونکہ ھلال بن یساف عن سعید بن زید رضی اللہ بھی ثابت ہے جیسا ہم نے دونوں اسناد نقل کی ہے اس بنا پر امام بخاری نے دوسری حدیث"بحسب اصحابی القتل" کو صحیح کہا ہے ان تمام دلائل سے ثابت ہے کہ ھلال بن یساف کا سماع عبداللہ بن ظالم سے بھی ثابت ہے اور سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے چنانچہ اگر اب بھی غازی صاحب یہ مانتے ہیں کہ ھلاف بن یساف کا عبداللہ بن ظالم سے سماع ثابت نہیں اور وہ امام نسائی کے قول پر اعتماد رکھتے ہیں تو پھر موصوف کو یہ ماننا ہو گا کہ سنابلی صاحب نے جو اپنی کتاب "یزید پر الزامات کا جائزہ" میں نقل کیا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کو امیر المومنین کہا ہے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی درخواست کی تھی وہ روایت بھی ضیعف ہو جائے گی پڑھ لیں
yazeed ko ameer.JPG


اس میں ھلال بن یساف واقعہ کربلا بتا رہے ہیں اگر ان کا سماع عبداللہ بن ظالم سے ثابت نہیں ہے اور درمیان میں ایک واسطہ موجود ہے جو ابن حیان ہے اس ابن حیان کو صغار تابعین کے دور کا بتایا گیا ہے اور صغائر تابعین نے واقع حرہ کا دور نہیں پایا چنانچہ سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے

ظالم سے ثابت نہیں ہے اور درمیان میں ایک واسطہ موجود ہے جو ابن حیان ہے اس ابن حیان کو صغار تابعین کے دور کا بتایا گیا ہے اور صغائر تابعین نے واقع حرہ کا دور نہیں پایا چنانچہ سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے
ظالم سے ثابت نہیں ہے اور درمیان میں ایک واسطہ موجود ہے جو ابن حیان ہے اس ابن حیان کو صغار تابعین کے دور کا بتایا گیا ہے اور صغائر تابعین نے واقع حرہ کا دور نہیں پایا چنانچہ سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے

hasam bn hasan.JPG



جس طرح ہشام بن حسان نے واقعہ حرہ نہیں پایا اسی طرح پھر ھلال بن یساف نے کس طرح واقعہ کربلا پالیا کیونکہ ان کے شیخ تو صغائر تابعین کے دور کے ہیں
اللہ ہم کو ہدایت دےکہ ہم اس قیمتی علم(علم حدیث) کو بدنام نہ کریں

 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
آخر میں جو سند میں نے نقل کی تھی وہ یہ ہے جس کو غازی صاحب نے کچھ اور بتادیا تھا
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَحَجَّاجٌ، حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ صَيَّاحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَخْنَسِ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ خَطَبَ، فَنَالَ مِنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " رَسُولُ اللهِ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ "، ثُمَّ قَالَ: إِنْ شِئْتُمِ أخْبَرْتُكُمْ بِالْعَاشِرِ، ثُمَّ ذَكَرَ نَفْسَه(مسند احمد1637)
اور غازی صاحب نے یہ سند دیکھائی تھی
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ يِسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، قَالَ: خَطَبَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَنَالَ مِنْ عَلِيٍّ، فَخَرَجَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَلا تَعْجَبُ مِنْ هَذَا يَسُبُّ عَلِيًّا؟ . أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّا كُنَّا عَلَى حِرَاءٍ - أَوْ أُحُدٍ -، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اثْبُتْ حِرَاءُ - أَوْ أُحُدُ - فَإِنَّمَا عَلَيْكَ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ "، فَسَمَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَةَ فَسَمَّى: " أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَعَلِيًّا، وَطَلْحَةَ، وَالزُّبَيْرَ، وَسَعْدًا، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، وَسَمَّى نَفْسَهُ سَعِيدًا(رقم 1638)
اللہ سب کو مسلمان سے بدگمانی کرنے سے بچائے آمین
 
Top