• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہندوستان میں مذہب اور سیکولرازم کی کشمکش

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

بھارت میں نامور بالی وڈ سٹار عامر خان کی فلم' پی کے'ریلیز ہونے کے بعد خوب ہنگامہ بپا ہے۔ ہندوانتہاپسند تنظیموں کی جانب سے ملک بھر میں ہنگاموں کے ساتھ ساتھ فلم کے ہیرو اور پروڈیوسر پر مقدمات بھی درج کرائے گئے ہیں ۔آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشدجیسی تنظیموں کا خیال ہے کہ اس فلم میں دیوتاؤں کی توہین کی گئی ہے جبکہ ہندو مذہب کے بنیادی نظریات کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

جہاں ایک طرف انتہاپسندوں کی جانب سے تنقید اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ فلم مقبولیت کے نئے ریکارڈز بنا رہی ہے ۔ 18؍دسمبر 2014ء کو ریلیز ہونے والی اس فلم نے کمائی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور یہ بھارت کی اب تک سب سے زیادہ پیسہ کمانے والی فلم بن چکی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اس فلم پر پابندی کی اپیل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے کہ "جسے فلم دیکھنا ہے، اسے روکا نہیں جا سکتا اور جس کے نظریات مجروح ہوتے ہیں، وہ نہ دیکھے۔"اس واقعے نے بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور سیکولرازم کے درمیان تفریق اور کشمکش کو مزید واضح کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اسی سے ملتا جلتا واقعہ بھارت میں فلم ' میسنجر آف گاڈ ' کی ریلیز کے حوالے سے پیش آیا ۔ یہ فلم ایک سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ گرومیت رام رحیم سنگھ نے بنائی ہے ۔ گروجی نے اس فلم میں بطورِ ہیروخود اداکاری کے جوہر بھی دکھائے ہیں ۔آپ ان گرو صاحب کے نام سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کیسی شخصیت ہوں گے یعنی رام (ہندو دیوتا ) ، رحیم ( اللہ تعالیٰ کے نام کا استعمال) اور سنگھ یعنی سکھ مذہب سے تعلق۔ یہ گرو جی فلم کے ساتھ ساتھ عام زندگی میں بھی خود کو ایک سپر ہیرو کے طور پرپیش کرتے ہیں ۔ مسئلہ یہ ہوا کہ ان کی فلم کو سنسر بورڈ نے نمائش کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔ سنسر بورڈ کے تمام ارکان کا فیصلہ تھا کہ یہ فلم معاشرے میں توہّم پرستی اور مافوق الفطرت نظریات کو فروغ دے گی ۔اس میں گرو جی کو معجزے کرتے دکھایا گیا ہے ۔

سنسر بورڈ کی جانب سے انکار کے بعد گرو جی نے عدالت سے رجوع کیا جس نے فلم کی نمائش کی اجازت دے دی۔ اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھارتی مرکزی سنسر بورڈ کی سربراہ لیلیٰ سیمسن اور کئی ارکان نے استعفیٰ دے دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ فرسودہ مذہبی توہمات پر مشتمل اس فلم کو سینماؤں میں دکھانے کے فیصلے کے بعد اپنے عہدے پر نہیں رہنا چاہتیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس واقعے کا ذکر کرنے کا واحد مقصد بھارتی معاشرے میں جاری ایک کشمکش کی تصویر دکھانا ہے کہ کس طرح وہاں سیکولر اور کٹّر مذہبی نظریات آپس میں پوری شدت سے ٹکرا رہے ہیں ۔ ایک طرف ملٹی نیشنل کمپنیاں ، مغرب سے پڑھے نوجوان ،مشنری اور انگلش میڈیم تعلیمی اداروں سے نکلے افراد ، صنعت کار و تاجر ، کاسمیٹکس انڈسٹری ، بالی وڈ کی فلم نگری ہے جبکہ دوسری جانب گرو، سادھو ، مذہبی رہنما اور اُن کے حواری۔ان کے پاس دلیل نہیں ، مذہبی کتب کے حوالے ہیں ، فرسودہ روایات اور مذہبی تہواروں کی بندش ہے ۔ اس تحریر کا مقصد بھی بھارتی معاشرے میں سیکولر ازم کے اظہار ، مذہب پر تنقید ، الحاد کی لہر اور معاشرتی روایات کی تبدیلی کی روش کو زیر بحث لانا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زبان یکساں ہونے کی وجہ سے اس کے پاکستانی اور دنیا بھر میں اُردو سمجھنے والے طبقے پر اثرات کا جائزہ لینا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
بھارتی فلموں اور معاشرے میں مذہب بیزاری کے اظہار اور مذہبی روایات کا مذاق اُڑانے کے اثرات غیر شعوری طور پر ہمارے معاشرے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا دینی طبقہ اس پہلو پر غور ہی نہیں کر رہا ۔ اگر ہم تاریخی حوالے سے جائزہ لیں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی بھی معاشرے کو من پسند طریقے سے ماڈرن بنانے اور مذہبی روایات سے دور کرنے کا عمل ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے ۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد ایسا لٹریچر ، فلم ، ڈرامے ، اسٹیج ، ناول ، کتب حتیٰ کہ روزمرہ کے محاورے اور لطائف سامنے آئے جن کا مقصد معاشرے کو ماڈرن طرزِ زندگی اپنانے کی طرف مائل کرنا تھا ۔ سامراجی قوتیں اس سے بے پناہ مقاصد استعمال کرتی ہیں ، کمپنیاں اشیا بیچ کر منافع کماتی ہیں ۔ کارپوریٹ کلچر اور سرمایہ دار معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ مذہبی اور معاشرتی روایات کو کمزور کیا جائے ۔ اس کی بڑی مثال مغرب میں عیسائیت کی شکست ہے ۔ ایسا صرف اور صرف اس لئے ممکن ہوا کہ عیسائیت کے پاس کوئی ٹھوس عقائد و نظریات نہیں تھے جو کہ سائنس کی دلیلوں کے سامنے ٹھہر سکتے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب میں مذہب کو دیوار سے لگا کر کارپوریٹ کلچر اور ماڈرن طرزِ زندگی کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی والے ہندوستان جسے مغربی سرمایہ کار ایک 'منافع بخش مارکیٹ'سمجھتے ہیں، وہاں شاید اب یہی ہونےوالا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی اس کشمکش کے بارے میں اپنا مخصوص تجزیہ کرتا ہے کہ

" بھارت کی سیاست، معاشرہ اور اقتصادی نظام اس وقت ایک ایسے مرحلے سے گزر رہے ہیں جس کے مستقبل کے بارے میں کوئی واضح پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔موجودہ دور میں ہر تبدیلی اقتصادی پہلوؤں پر مرکوز ہوتی ہے اور کوئی بھی پہلو جو اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل ہوگا ،وہ ماضی کا حصّہ بن جائے گا۔اقتصادی ترقی اور انفرادی آزادی تنگ نظری کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ دنیا کے درجنوں ممالک اپنی تنگ نظری اور غیر جمہوری نظام کے سبب اس وقت انتشار اور افراتفری کا شکار ہیں۔اس لیے وہ تمام عناصر، نظریے اور تصورات جو جمہوری اُصولوں اور انفرادی حقوق سے متصادم ہوں گے، اُن کی شکست لازمی ہے۔ "
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
بھارتی معاشرے میں تبدیلی کا اہم ترین ہتھیار بالی وڈ ہی ہے کیونکہ اس کے ذریعے ہی معاشرے میں ایسی بحثیں شروع کرائی جا رہی ہیں جن میں مذہبی رسوم و رواج اور فرسودہ روایات کو موضوعِ بحث بنایا جا رہا ہے ۔ اس سے قبل ایک بھارتی فلم 'او مائی گاڈ ' کا موضوع بھی ایسا ہی تھا جس میں دیوتاؤں اور خصوصا گرو اور سادھووں کے کردار کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مذہبی رہنماؤں کے کردار کو لےکر مذہب کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔

ہمارے ہاں بہت سے حلقے خوش دکھائی دیتے ہیں کہ انڈین فلمیں اپنے ہی مذہبی نظریات کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کر رہی ہیں ۔ ان فلموں کا ظاہری تاثر تو ہندو مت کے حوالے سے ہی ہوتا ہے لیکن دراصل ان میں تمام مذاہب کو ہی کسی انسان کے لئے بے فائدہ اور انسانیت کو درپیش مسائل کی جڑ قراردیا جاتا ہے ۔ان کا مقصد ناظرین کو مذہب سے دور کرنا ہے تاکہ ایسا ماحول پیدا کیا جا سکے جس میں صرف اور صرف سیکولر نظریات اور کارپوریٹ کلچر کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا جا سکے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس صورتِ حال میں قابل غور امر یہ ہے کہ ان فلموں ، ڈراموں ، ناولوں وغیرہ میں ہندومت اور دیگر مذاہب کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی اسی کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے ۔ ہندو دیوتا ، سکھوں کے بابا گرونانک ، عیسائیوں کے تصورِ خدا اور مسلمانوں کے اللہ تعالیٰ پر ایمان کو ایک ہی طرز کی عقیدت کا اظہار قرار دیا جاتا ہے۔ ہندو گرو اور سادھوں کے کردار کو زیر بحث لاتے ہوئے مسلمانوں کے علماے کرام اور مذہبی رہنماؤں کو بھی اسی طرز پر پیش کیا جاتا ہے۔ دراصل یہی وہ صورتحال ہے کہ جس کا ٹھیک سے ادراک کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان فلموں میں مذہبی رہنماؤں کو ' مینیجرز' کہا گیا یعنی جو خدا کے نام پر اپنا ' بزنس ' چمکاتے ہیں ۔ گرو یا سادھووں کی بے پناہ دولت کا تذکرہ کرتے کرتے مساجد ومدارس کو دیے جانےوالے چندے کو بھی اسی طرح کی ایک روایت قرار دیا جاتا ہے۔ معاشرے میں اسلامی روایات کی تعلیم کو بھی سادھووں اور ہندو پیشواؤں کی فرسودہ روایات کی پاس داری کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
پاکستانی دینی حلقوں اور دنیا بھر میں اُردو دان طبقے میں پختہ اسلامی عقائد رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اس صورتحال کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیں کیونکہ بہت جلد اُن کو بھی نوجوان نسل کی جانب سے ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ جو اِن فلموں میں اُٹھائے جاتے ہیں ۔ بھارت میں مذہب کو بے توقیر کرنے کی مہم بہت جلد مسلم معاشروں سے بھی ٹکرائے گی بلکہ کسی حد تک اسلامی مقدس الفاظ اور عقائد اس کا نشانہ بن بھی چکے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
بھارت میں سیکولرازم کے اُبھرنے کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایسا بالکل نہیں کہ مذہبی حلقے کچھ کم اہمیت کے حامل ہیں ۔ نریندر مودی کی سرکار آنے کے بعد کٹر مذہبی نظریات رکھنے والے حلقوں کی بے پناہ حوصلہ افزائی ہوئی ہے ۔ لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت میں کارپوریٹ کلچر کے فروغ اور اسے ایک مکمل آزاد مارکیٹ بنانے کے لئے بھی بھرپور سرمایہ کاری کی جا رہی ہے ۔ انتہائی غیر محسوس انداز میں بھارت کا پڑھا لکھا طبقہ مذہب بیزار اور جدید طرزِ معاشرت کے نام پر سیکولرنظریات کا پیروکار بنتا جا رہا ہے۔ عالمی سرمایہ داربھارت کو ایک منافع بخش خطہ بنانا چاہتے ہیں ۔ معاشرے میں ملٹی نیشنل کے کاروبار کو پھلنے پھولنے کے لئے ایک خاص ماحول درکار ہوتا ہے جس کے لئے مذہبی روایات اور رسوم ورواج کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ کاسمیٹکس انڈسٹری ، نت نئے برانڈز ، فیشن انڈسٹری ، فوڈ چینز اور ٹیکنالوجی کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ ایسا ماحول بھی موجود ہو کہ جس میں یہ سب فروخت ہو سکے۔اسی مقصد کے لئے فلم اور ٹی وی پر ماڈرن طرزِ زندگی کو دکھایا جاتا ہے اور سیکولر نظریات کے فروغ کے لئے ہونے والی فلم سازی کے بھی یہی مقاصد ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
بھارتی فلموں اور ڈراموں میں خاندانی نظام کو بھیانک روپ میں دکھایا جاتا ہے جبکہ بغیر شادی کے جوڑوں کے رہنے کو جدّت کی علامت اور قابل قبول بنانے کی کوشش جاری ہے۔ آج ہم بھارتی معاشرے کے مناظر جگہ جگہ دیکھ سکتے ہیں ۔ وہ بھارت کہ جہاں سرکاری سطح پر بھی صرف مقامی تیار ہونے والی گاڑیاں استعمال ہوتی تھیں، اب ایسا نہیں ہے ۔ وہاں کھیلوں میں اربوں کی سرمایہ کاری اس طرح ہو رہی ہے کہ فلمی اداکار ٹیموں کے مالک ہیں ۔ بظاہر کھیلوں کے یہ میلے معاشرے کو آزادانہ بنانے کی ہی ایک کوشش ہیں ۔ آئی پی ایل کرکٹ مقابلوں کو دنیا کے بڑے سپورٹس ایونٹس کا درجہ مل چکا ہے جس میں کھلاڑیوں کی بولی لگا کر نہ صرف ان کو کھلایا جاتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ جوئے ، تشہیری مہم اوررقص و سرود کے مظاہرے بھی ہوتے ہیں ۔بھارتی کرکٹ کھلاڑیوں کی مقبولیت کو بھی ایک خاص مقصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ یہ شاید پہلا موقع ہو گا کہ بھارتی کے معروف ترین کرکٹر ویرت کوہلی آسٹریلیا میں سیریز کھیلنے اپنی گرل فرینڈ اداکارہ انوشکا شرما کے ساتھ گئے ۔ میڈیا نے اس واقعے کو اس قدر مشہور کیا کہ یہ زبان زد عام ہو گیا ۔ مغرب میں تو یہ بات معمول کا حصہ ہے لیکن بھارت کے روایتی معاشرے میں یہ واقعہ حقیقتاً معنی خیز حیثیت رکھتا ہے ۔
 
Top