• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’خارجیت، سبائیت اورشیعیت‘‘ بجواب ’’رافضیت ، ناصبیت اوریزیدیت‘‘ (نقد وتبصرے)۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شادان

رکن
شمولیت
دسمبر 01، 2012
پیغامات
118
ری ایکشن اسکور
131
پوائنٹ
56
ﮨﻤﻴﮟ ﺑﮭﯽ ﺣﺼﮧ ﺩﻭﻡ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮨﮯ...
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
اس کے دوسرے حصہ میں ہم نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع کیا تھا کیونکہ اس پوسٹر میں امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی ضعیف احادیث پیش کرکے انہیں صحیح کہا گیا ہے اور بعض صحیح روایات کا غلط مفہوم پیش کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ صحابہ کا معاملہ تھا اورصحابہ کے احترام پر سب کا اتفاق ہے اس لئے میں نے اس حصہ کو ترجیح نہیں دی ۔بلکہ صرف ان باتوں کی وضاحت کی جن کا تعلق یزید سے تھا۔
ان شاء اللہ اس دوسرے حصہ کی تفصیل ہماری کتاب ’’حادثہ کربلا ویزید، صرف صحیح روایات کی روشنی ‘‘ ملی گے ۔
جب یہ کتاب آئے گی تو اس کے ساتھ یہ دوسرا حصہ بھی نشر کردیا جائے گا۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
کفایت اللہ صاحب نے فرمایا کہ
" ان میں سے بعض کا مقصود صرف یہ تھا کہ عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کو گرفتارکیاجائے ، اورمنجنیق کا استعمال عبداللہ بن زیبررضی اللہ عنہ ہی کی خاطرہوا تھا نہ کی خانہ کعبہ کی خاطر، "
یعنی یہ بات پایا ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ یزیدی افواج نے حرمت والے شہر مکہ میں منجنیق کا استعمال کیا میں نے جو منجنیق کے بارے میں پڑھا ہوا ہے اس کے مطابق منجنیق ایک ایسی مشین ہوتی ہے جس سے بڑے بڑے سنگی گولے اور آگ کے گولے پھینکے جاتے ہیں منجنیق سے پھینکے جانے والوں سنگی گولوں سے جنگ کے دوران عمارات کو مسمار کیا جاتا اور منجنیق سے پھینکے جانے والے آگ کے گولوں سے جنگ کے دوران آگ لگائی جاتی
لیکن آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یزیدی افواج نے منجنیق کا استعمال نہ ہی کعبہ کو ڈھانے کے لئے کیا اور نہ ہی آگ لگانے کے لئے بلکہ یزیدی فوج نے منجنیق کا استعمال صرف عبداللہ بن زبیر کو گرفتار کرنے کے لئے کیا میرے لئے منجنیق کا یہ استعمال بلکل نیا ہے اس طرح سے منجنیق کے استعمال پر کوئی صحیح سند روایت بیان فرمادیں اور میری معلومات میں اضافہ فرمائیں شکریہ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
۳۲۹۲۔ اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، مجاہد، طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن مکہ فتح ہوا تو فرمایا کہ ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت ہے اور جب تمہیں (جہاد کے لئے) بلایا جائے تو جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا کہ اس شہر کو اللہ نے آسمان وزمین کی پیدائش کے دن حرم قرار دیا تھا تو یہ اللہ کے حرم قرار دینے کی وجہ سے قیامت تک حرم رہے گا اور اس حرم میں میرے لئے بھی ایک دن میں تھوڑی دیر کے لئے قتال حلال ہوا تھا، تو اب یہ اللہ کے حرم قرار دینے کی وجہ سے قیامت تک حرم رہے گا، نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں اور نہ ہی اس کے شکار کو بھگایا جائے اور کوئی بھی یہاں گری پڑی چیز کو نہ اٹھائے، سوائے اس کے کہ اسے اس کے مالک کو پہنچائی جائے اور نہ اس کی گھاس کاٹی جائے، تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! سوائے گھاس کے یعنی گھاس کو مستثنی قرار دے دیں ،کیونکہ یہ گھاس لوہاروں اور زرگروں (سنار) کے کام آتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سوائے گھاس کے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھاس کو مستثنی فرما دیا کیونکہ یہ جلانے کے کام آتی ہے

صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۳۲۹۳/ حدیث مرفوع
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
کفایت اللہ صاحب نے فرمایا کہ
" ان میں سے بعض کا مقصود صرف یہ تھا کہ عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کو گرفتارکیاجائے ، اورمنجنیق کا استعمال عبداللہ بن زیبررضی اللہ عنہ ہی کی خاطرہوا تھا نہ کی خانہ کعبہ کی خاطر، "
یعنی یہ بات پایا ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ یزیدی افواج نے حرمت والے شہر مکہ میں منجنیق کا استعمال کیا میں نے جو منجنیق کے بارے میں پڑھا ہوا ہے اس کے مطابق منجنیق ایک ایسی مشین ہوتی ہے جس سے بڑے بڑے سنگی گولے اور آگ کے گولے پھینکے جاتے ہیں منجنیق سے پھینکے جانے والوں سنگی گولوں سے جنگ کے دوران عمارات کو مسمار کیا جاتا اور منجنیق سے پھینکے جانے والے آگ کے گولوں سے جنگ کے دوران آگ لگائی جاتی
لیکن آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یزیدی افواج نے منجنیق کا استعمال نہ ہی کعبہ کو ڈھانے کے لئے کیا اور نہ ہی آگ لگانے کے لئے بلکہ یزیدی فوج نے منجنیق کا استعمال صرف عبداللہ بن زبیر کو گرفتار کرنے کے لئے کیا میرے لئے منجنیق کا یہ استعمال بلکل نیا ہے اس طرح سے منجنیق کے استعمال پر کوئی صحیح سند روایت بیان فرمادیں اور میری معلومات میں اضافہ فرمائیں شکریہ
سب سے پہلے تو یہ واضح کردوں کی درج بالابات میری نہیں بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی پوری بات ملاحظہ ہو:

شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) آگے فرماتے ہیں:
وأما ملوك المسلمين من بني أمية وبني العباس ونوابهم فلا ريب أن أحدا منهم لم يقصد أهانة الكعبة لا نائب يزيد ولا نائب عبد الملك الحجاج بن يوسف ولا غيرهما بل كان المسلمين كانوا معظمين للكعبة وإنما كان مقصودهم حصار ابن الزبير والضرب بالمنجنيق كان له لا للكعبة ويزيد لم يهدم الكعبة ولم يقصد إحراقها لا وهو ولا نوبه باتفاق المسلمين[منهاج السنة النبوية 4/ 577]۔
جہاں تک مسلم بادشاہوں بنوامیہ ، بنوعباس اوران کے نائبین کی بات ہے تو بلاشبہہ ان میں سے کسی ایک نے بھی خانہ کعبہ کی اہانت کبھی نہ کی ، نہ تو یزید کے نائب نے نہ عبدالملک الحجاج بن یوسف کے نائب نے ، اورنہ ہی ان کے علاوہ کسی نے ، بلکہ مسلمان تو ہمیشہ سے کعبہ کی تعظیم ہی کرتے آئے ہیں ، ان میں سے بعض کا مقصود صرف یہ تھا کہ عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کو گرفتارکیاجائے ، اورمنجنیق کا استعمال عبداللہ بن زیبررضی اللہ عنہ ہی کی خاطرہوا تھا نہ کی خانہ کعبہ کی خاطر، اوریزید(رحمہ اللہ )نے ہرگز بیت اللہ کو منہدم (شہید) نہیں کیا اورنہ ہی اسے جلانے کا ارادہ کیا ، یقینا نہ تو ایسا اقدام یزید نے کیا اورنہ ہی اس کے نائبین نے کیا اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق واجماع ہے۔
اوردوسری بات یہ ہے کہ ہم نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس اقتباس میں محل شاہد ان الفاظ کو بنایا تھا جنہیں ہم نے بولڈ اورنمایاں کردیا تھا۔اس حصہ میں منجنیق والی بات نہیں ہے۔ بلکہ اجماع والی بات ہے اور وہ یہ کہ:
اوریزید(رحمہ اللہ )نے ہرگز بیت اللہ کو منہدم (شہید) نہیں کیا اورنہ ہی اسے جلانے کا ارادہ کیا ، یقینا نہ تو ایسا اقدام یزید نے کیا اورنہ ہی اس کے نائبین نے کیا اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق واجماع ہے۔
جہاں تک ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام میں منجنیق کی بات ہے تو اہل شام کے مقابلہ میں عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ تنہا نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ پورا ایک گروہ تھا اور ان لوگوں نے حرم کو اپنا ٹھکانہ بنارکھاتھا۔ جب تک اس پورے گروہ پر قابو نہیں پایاجاتا،تب تک عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی گرفتاری بھی ممکن نہیں ہے۔اس لئے ایک پورے گروہ کے لئے منجنیق کے استعمال میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
یعنی مقصدکعبہ کو منجنیق کانشانہ بنانا نہیں تھا بلکہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے گروہ پرقابو پاکر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو گرفتارکرنا تھا،شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام کا یہی مفہوم ہے۔

واضح رہے کہ یہ بات کہ اہل شام نے کعبہ پر سنگ باری کی ضعیف ومردود سندوں سے منقول ہے ، کسی بھی صحیح روایت سے یہ بات ثابت نہیں ہے۔
اگر آپ کی نظر میں ایسی کوئی روایت ہے تو پیش فرمائیں ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
چلیں اس طرح کہہ لیتے ہیں کہ ابن تیمیہ کے کلام میں اس بات کا اعتراف ہے کہ یزیدی افواج نے حرمت والے شہر کعبہ میں صحابی رسول عبداللہ بن زبیر اور ان افواج سے جنگ کی جس کے نتیجے میں کئی صحابی شہید ہوئے
جب کہ میں شہر مکہ کی حرمت کے حوالے سے صحیح مسلم کی ایک حدیث پیش کرچکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
اس شہر(یعنی مکہ ) کو اللہ نے آسمان وزمین کی پیدائش کے دن حرم قرار دیا تھا تو یہ اللہ کے حرم قرار دینے کی وجہ سے قیامت تک حرم رہے گا اور اس حرم میں میرے لئے بھی ایک دن میں تھوڑی دیر کے لئے قتال حلال ہوا تھا، تو اب یہ اللہ کے حرم قرار دینے کی وجہ سے قیامت تک حرم رہے گا،
اب سوال یہ ہے کہ اب یہ حرمت والا شہر یزید کے لئے کیوں حلال ہوگیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کا اس حرمت والے شہر میں قتل عام کرے ؟


اور اس جنگ میں منجنیق کا بھی استعمال کیا اور منجنیق کا استعمال ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا تھا غزوہ طائف میں رسول اللہﷺ نے اہل طائف پر منجنیق نصب کی ، اور متعدد گولے پھینکے ، جس سے قلعہ کی دیوار میں شگاف پڑگیا۔
اب مکہ شہر میں وہ کون سا قلعہ یا مضبوط عمارت تھی سوائے کعبہ اللہ کے جس کو مسمار کرنے کے لئے یزید نے اپنی افواج کو منجنیق دی تھی ؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
سب سے پہلے تو یہ بات نوٹ کرلیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ہرلکھی یا کہی ہوئی بات ہمارے نزدیک حجت نہیں بلکہ صرف وہ بات حجت ہے جس پردلیل موجود ہو۔
اس لئے آپ ہمارے سامنے صرف وہ چیز پیش کریں جوہماری نظر میں دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔

چلیں اس طرح کہہ لیتے ہیں کہ ابن تیمیہ کے کلام میں اس بات کا اعتراف ہے کہ یزیدی افواج نے حرمت والے شہر کعبہ میں صحابی رسول عبداللہ بن زبیر اور ان افواج سے جنگ کی جس کے نتیجے میں کئی صحابی شہید ہوئے
کئی صحابی تو دور کی بات اس موقع سے کسی ایک بھی صحابی کی شہادت صحیح سند سے ہمارے مطالعہ کی حد تک ثابت نہیں ۔
اگر آپ کی نظر میں اس موقع سے کسی ایک بھی صحابی کی شہادت پر صحیح سندسے کوئی روایت موجود ہو تو پیش کریں تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہو۔
یادرہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے درج بالا اقتباس میں بھی ایسی کوئی بات نہیں اور بالفرض ہو بھی تو اس کی دلیل درکار ہے بغیر دلیل کے ہم یہ بات نہیں مان سکتے ۔

جب کہ میں شہر مکہ کی حرمت کے حوالے سے صحیح مسلم کی ایک حدیث پیش کرچکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
اس شہر(یعنی مکہ ) کو اللہ نے آسمان وزمین کی پیدائش کے دن حرم قرار دیا تھا تو یہ اللہ کے حرم قرار دینے کی وجہ سے قیامت تک حرم رہے گا اور اس حرم میں میرے لئے بھی ایک دن میں تھوڑی دیر کے لئے قتال حلال ہوا تھا، تو اب یہ اللہ کے حرم قرار دینے کی وجہ سے قیامت تک حرم رہے گا،
جس طرح مکہ کی حرمت ہے ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کی جانوں کی بھی حرمت ہے۔
بلکہ ایک حدیث دونوں کی حرمت کا ایک ساتھ ذکر ہے۔
، قَالَ: «فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، إِلَى يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بس تمہارا خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس مہینہ اور اس شہر میں ہے، تاآنکہ تم اپنے رب سے جا ملو۔[صحيح البخاري 2/ 176 رقم 1741]

اس حدیث مسلمان کی جانوں کی بھی قیامت تک کے لئے حرام قراردیا گیا ہے ۔
پھر کیا آپ یہ بتلا نا پسند کریں گے علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں مسلمانوں سے قتال کیوں کیا ؟

اب سوال یہ ہے کہ اب یہ حرمت والا شہر یزید کے لئے کیوں حلال ہوگیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کا اس حرمت والے شہر میں قتل عام کرے ؟
حرمت کے بارے میں عرض کرچکا ہوں۔
لیکن یہاں جو آپ نے یہ بہتان تراشی کی ہے کہ یزید نے حرمت والے شہر میں قتل عام کیا ۔
توعرض ہے کہ قتل عام تو بہت دورکی بات ہے آپ اس موقع پر یعنی حصار مکہ کے موقع پر اہل شام کے ہاتھوں کسی ایک مسلمان کے قتل کی دلیل صحیح سند سے پیش کردیں۔

ہمارا دعوی ہے کہ اہل شام نے مکہ کامحاصرہ تو کیا تھا لیکن ان کی طرف سے کسی ایک بھی مسلمان کے قتل کی روایت صحیح سند سے نہیں ملتی۔آپ کی نظر میں کوئی صحیح روایت ہو تو پیش کریں میں اپنے دعوی سے رجوع کرلوں گا۔
دراصل حصار مکہ کے وقت لڑائی ہوئی ہی نہیں اس لئے طرفین میں سے کسی طرف سے بھی کسی کے قتل کی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔

اگرضعیف ومردود اور من گھڑت باتوں کی بنیاد پرفیصلہ کریں تو حصار مکہ کے وقت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے گروہ سے صرف ساتھ یا آٹھ لوگوں کے قتل کی بات ملتی ہے۔جبکہ اہل شام کے گروہ سے ایک بڑی اوربھاری تعداد کے قتل کی بات ملتی ۔اور ان روایات پر اعتبار کیا جائے تو یہی روایات بتلاتی ہیں کہ قتل عام تو اہل شام کا ہوا ۔کیونکہ وہ بے چارے مکہ کے احترام کے پیش نظر احتیاط میں مارے گئے اور اہل مکہ بے خوف وخطر ان پر حملے کرتے رہے اور ان کی بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔اس کی پوری تفصیل ہم نے اپنی کتاب : یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ میں پیش کی ہے۔لیکن چونکہ ہماری نظر میں یہ سب صحیح سند سے ثابت نہیں ہے اس لئے ہم اس سے حجت نہیں پکڑتے۔

اور اس جنگ میں منجنیق کا بھی استعمال کیا اور منجنیق کا استعمال ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا تھا غزوہ طائف میں رسول اللہﷺ نے اہل طائف پر منجنیق نصب کی ، اور متعدد گولے پھینکے ، جس سے قلعہ کی دیوار میں شگاف پڑگیا۔
اب مکہ شہر میں وہ کون سا قلعہ یا مضبوط عمارت تھی سوائے کعبہ اللہ کے جس کو مسمار کرنے کے لئے یزید نے اپنی افواج کو منجنیق دی تھی ؟
یہ سوال بعد میں کریں ۔
پہلے صحیح سند وہ روایت تو پیش کریں جس میں منجیق سے حملہ کا ذکر ہے
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
اس کے دوسرے حصہ میں ہم نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع کیا تھا کیونکہ اس پوسٹر میں امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی ضعیف احادیث پیش کرکے انہیں صحیح کہا گیا ہے اور بعض صحیح روایات کا غلط مفہوم پیش کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ صحابہ کا معاملہ تھا اورصحابہ کے احترام پر سب کا اتفاق ہے اس لئے میں نے اس حصہ کو ترجیح نہیں دی ۔بلکہ صرف ان باتوں کی وضاحت کی جن کا تعلق یزید سے تھا۔
ان شاء اللہ اس دوسرے حصہ کی تفصیل ہماری کتاب ’’حادثہ کربلا ویزید، صرف صحیح روایات کی روشنی ‘‘ ملی گے ۔
جب یہ کتاب آئے گی تو اس کے ساتھ یہ دوسرا حصہ بھی نشر کردیا جائے گا۔
شاء اللہ اس دوسرے حصہ کی تفصیل ہماری کتاب ’’حادثہ کربلا ویزید، صرف صحیح روایات کی روشنی ‘‘ ملی گے

شیخ اس حصہ کا انتظا ر ہے یہ کہاں ملے گا
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
محترم حضرات مضمون کے شروع میں امام ابن تیمیہ کے حوالے سے یہ نقل کیا گیا کہ انہوں نے اجماع لکھا ہے کہ کعبہ کی شان میں گستاخی نہیں کی گئی ہے تو جناب انہیں ابن تیمیہ نے یزید کی حکومت کو ملوکیت اور اس کے فاسق ہونے پر اجماع نقل کیا ہے فتوٰی ابن تیمیہ جلد 4 ص 484 فصل یزید) تو ایک ایسا اجماعی مسئلہ جس پر امت متفق ہے اس میں تحقیق کے نام پر نقیب نہ ڈالیں۔ اللہ ہدایت دے۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
@
[SIZE=6][COLOR=rgb(109, 63, 3)]کفایت اللہ[/COLOR][/SIZE]
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے 6 باتوں سے پہلے موت کی تمنا جائز ہے ان میں سب سے پھلی امارۃ السفھاء ہے اور یزید 60 ہجری میں ہی حکومت آیا اور اس سے پہلے ہی ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ وفات پا چکے تھے اور یہ تو سب مانتے ہیں کہ ابو ھریرہ امارۃ سفھاء سے پناہ مانگتے تھے جیسا امام بخاری نے اپنی الادب المفرد میں صحیح سند سے روایت کیا ہے تو یہ ظالم ،جابر اور غاصب تھااور دین کو برباد کرنے والا تھا اور ہم اس کا دفاع کرتے پھر رہے ہیں اللہ عقل عطا کرے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top