سب سے پہلے تو یہ بات نوٹ کرلیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ہرلکھی یا کہی ہوئی بات ہمارے نزدیک حجت نہیں بلکہ صرف وہ بات حجت ہے جس پردلیل موجود ہو۔
اس لئے آپ ہمارے سامنے صرف وہ چیز پیش کریں جوہماری نظر میں دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔
چلیں اس طرح کہہ لیتے ہیں کہ ابن تیمیہ کے کلام میں اس بات کا اعتراف ہے کہ یزیدی افواج نے حرمت والے شہر کعبہ میں صحابی رسول عبداللہ بن زبیر اور ان افواج سے جنگ کی جس کے نتیجے میں کئی صحابی شہید ہوئے
کئی صحابی تو دور کی بات اس موقع سے کسی ایک بھی صحابی کی شہادت صحیح سند سے ہمارے مطالعہ کی حد تک ثابت نہیں ۔
اگر آپ کی نظر میں اس موقع سے کسی ایک بھی صحابی کی شہادت پر صحیح سندسے کوئی روایت موجود ہو تو پیش کریں تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہو۔
یادرہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے درج بالا اقتباس میں بھی ایسی کوئی بات نہیں اور بالفرض ہو بھی تو اس کی دلیل درکار ہے بغیر دلیل کے ہم یہ بات نہیں مان سکتے ۔
جب کہ میں شہر مکہ کی حرمت کے حوالے سے صحیح مسلم کی ایک حدیث پیش کرچکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
اس شہر(یعنی مکہ ) کو اللہ نے آسمان وزمین کی پیدائش کے دن حرم قرار دیا تھا تو یہ اللہ کے حرم قرار دینے کی وجہ سے قیامت تک حرم رہے گا اور اس حرم میں میرے لئے بھی ایک دن میں تھوڑی دیر کے لئے قتال حلال ہوا تھا، تو اب یہ اللہ کے حرم قرار دینے کی وجہ سے قیامت تک حرم رہے گا،
جس طرح مکہ کی حرمت ہے ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کی جانوں کی بھی حرمت ہے۔
بلکہ ایک حدیث دونوں کی حرمت کا ایک ساتھ ذکر ہے۔
، قَالَ: «فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، إِلَى يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بس
تمہارا خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس مہینہ اور اس شہر میں ہے،
تاآنکہ تم اپنے رب سے جا ملو۔[صحيح البخاري 2/ 176 رقم 1741]
اس حدیث مسلمان کی جانوں کی بھی قیامت تک کے لئے حرام قراردیا گیا ہے ۔
پھر کیا آپ یہ بتلا نا پسند کریں گے علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں مسلمانوں سے قتال کیوں کیا ؟
اب سوال یہ ہے کہ اب یہ حرمت والا شہر یزید کے لئے کیوں حلال ہوگیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کا اس حرمت والے شہر میں قتل عام کرے ؟
حرمت کے بارے میں عرض کرچکا ہوں۔
لیکن یہاں جو آپ نے یہ بہتان تراشی کی ہے کہ یزید نے حرمت والے شہر میں قتل عام کیا ۔
توعرض ہے کہ قتل عام تو بہت دورکی بات ہے آپ اس موقع پر یعنی حصار مکہ کے موقع پر اہل شام کے ہاتھوں کسی ایک مسلمان کے قتل کی دلیل صحیح سند سے پیش کردیں۔
ہمارا دعوی ہے کہ اہل شام نے مکہ کامحاصرہ تو کیا تھا لیکن ان کی طرف سے کسی ایک بھی مسلمان کے قتل کی روایت صحیح سند سے نہیں ملتی۔آپ کی نظر میں کوئی صحیح روایت ہو تو پیش کریں میں اپنے دعوی سے رجوع کرلوں گا۔
دراصل حصار مکہ کے وقت لڑائی ہوئی ہی نہیں اس لئے طرفین میں سے کسی طرف سے بھی کسی کے قتل کی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔
اگرضعیف ومردود اور من گھڑت باتوں کی بنیاد پرفیصلہ کریں تو حصار مکہ کے وقت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے گروہ سے صرف ساتھ یا آٹھ لوگوں کے قتل کی بات ملتی ہے۔جبکہ اہل شام کے گروہ سے ایک بڑی اوربھاری تعداد کے قتل کی بات ملتی ۔اور ان روایات پر اعتبار کیا جائے تو یہی روایات بتلاتی ہیں کہ قتل عام تو اہل شام کا ہوا ۔کیونکہ وہ بے چارے مکہ کے احترام کے پیش نظر احتیاط میں مارے گئے اور اہل مکہ بے خوف وخطر ان پر حملے کرتے رہے اور ان کی بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔اس کی پوری تفصیل ہم نے اپنی کتاب : یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ میں پیش کی ہے۔لیکن چونکہ ہماری نظر میں یہ سب صحیح سند سے ثابت نہیں ہے اس لئے ہم اس سے حجت نہیں پکڑتے۔
اور اس جنگ میں منجنیق کا بھی استعمال کیا اور منجنیق کا استعمال ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا تھا غزوہ طائف میں رسول اللہﷺ نے اہل طائف پر منجنیق نصب کی ، اور متعدد گولے پھینکے ، جس سے قلعہ کی دیوار میں شگاف پڑگیا۔
اب مکہ شہر میں وہ کون سا قلعہ یا مضبوط عمارت تھی سوائے کعبہ اللہ کے جس کو مسمار کرنے کے لئے یزید نے اپنی افواج کو منجنیق دی تھی ؟
یہ سوال بعد میں کریں ۔
پہلے صحیح سند وہ روایت تو پیش کریں جس میں منجیق سے حملہ کا ذکر ہے