- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
(ص 178 تا 185)
اعتراض نمبر 6: مفتی عبدالہادی دیوبندی وغیرہ نے لکھا ہے کہ " یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ غیر مقلدین (جو خود کو اہلحدیث کہتے ہیں) کا وجود انگریز کے دور سے پہلے نہ تھا۔" (نفس کے پجاری ص 1)
جواب:
دو قسم کے لوگوں کو اہلِ حدیث کہتے ہیں:
1۔ صحیح العقیدہ (ثقہ و صدوق) محدثینِ کرام جو تقلید کے قائل نہیں ہیں۔
2۔ محدثین کرام کے عوام جو صحیح العقیدہ ہیں اور بغیر تقلید کے کتاب و سنت پر عمل کرتے ہیں۔ یہ دونوں گروہ خیر القرون سے لے کر آج تک ہر دور میں موجود رہے ہیں۔
دلیل اول:
صحابہ کرام سے تقلید شخصی و تقلید غیر شخصی کا کوئی صریح ثبوت نہیں ہے بلکہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
" وامازلۃ عالم فان اھتدی فلا تقلدوہ دینکم"
رہا عالم کی غلطی کا مسئلہ تو (سنو) وہ اگر سیدھے راستے پر بھی (چل رہا) ہو تو بھی اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔(کتاب الزہد للامام وکیع ج 1 ص 300 ح 71 و سندہ حسن، دین میں تقلید کا مسئلہ ص 36)
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"لا تقلدوا دینکم الرجال"
اپنے دین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ج2 ص10، وسندہ صحیح، نیز دیکھئے دین میں تقلید کا مسئلہ ص 35)
صحابہ میں سے کوئی بھی ان کا مخالف نہیں ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہے کہ تقلید ممنوع ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام صحابہ اہلِ حدیث تھے۔ یاد رہے کہ اس اجماع کے مخالفین و منکرین جو "دلائل" پیش کرتے ہیں ، ان میں تقلید کا لفظ نہیں ہے۔
دلیل دوم:
مشہور جلیل القدر تابعی امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ لوگ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بتائیں اسے (مضبوطی سے) پکڑ لو اور جو بات وہ اپنی رائے سے (کتاب و سنت کے خلاف) کہیں اسے کوڑے کرکٹ (کے ڈھیر) پر پھینک دو۔ (مسند الدارمی ج1 ص 67 ح 206 وسندہ صحیح، دین میں تقلید کا مسئلہ ص 37)
ابراہیم نخعی کے سامنے کسی نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا قول پیش کیا تو انہوں نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں تم سعید کے قول کو کیا کرو گے؟ (الاحکام لابن حزم ج 6 ص 293 و سندہ صحیح، دین میں تقلید کا مسئلہ ص 38)
تابعین میں سے کسی ایک سے بھی تقلید کا جواز یا وجوب ثابت نہیں ہے لہٰذا ان اقوال اور دیگر اقوال سے صاف ظاہر ہے کہ تقلید کے ممنوع ہونے پر تابعین کا بھی اجماع ہے اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تمام ثقہ و صحیح العقیدہ تابعین اہلِ حدیث تھے۔
دلیل سوم:
تبع تابعی حکم بن عتیبہ نے فرمایا: آپ لوگوں میں سے ہر آدمی کی بات لے بھی سکتے ہیں اور رد بھی کر سکتے ہیں سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ (الاحکام لابن حزم 6/293 و سندہ صحیح)
تبع تابعین میں سے کسی ایک ثقہ تبع تابعی سے تقلید شخصی و تقلید غیر شخصی کا کوئی ثبوت نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی اجماع ہے کہ تمام ثقہ و صحیح العقیدہ تبع تابعین اہلِ حدیث تھے۔
دلیل چہارم:
اتباع تبع تابعین میں سے ایک جماعت نے تقلید سے منع کیا ہے، مثلاً امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے اپنی اور دوسروں کی تقلید سے منع کیا۔ دیکھئے کتاب الام (مختصر المزنی ص 1)
امام شافعی نے فرمایا:
اور میری تقلید نہ کرو۔ (آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم ص 51 و سندہ حسن)
امام احمد نے فرمایا:
اپنے دین میں ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کرو۔ (مسائل ابی داؤد ص 277)
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ طائفہ منصورہ (اہلِ حق کا سچا گروہ) ہمیشہ حق پر غالب رہے گا۔
اس کی تشریح میں امام بخاری فرماتے ہیں: یعنی اس سے مراد اہل الحدیث ہیں۔ (مسالۃ الاحتجاج بالشافعی للخطیب ص 47 و سندہ صحیح)
امام قتیبہ بن سعید نے فرمایا:
اگر تو کسی آدمی کو دیکھے کہ وہ اہلِ حدیث سے محبت کرتا ہے تو یہ شخص سنت پر (عمل پیرا) ہے۔ (شرف اصحاب الحدیث للخطیب ص 134 ح 143 و سندہ صحیح)
امام احمد بن سنان الواسطی نے فرمایا:
دنیا میں کوئی بھی ایسا بدعتی نہیں جو اہلِ حدیث سے بغض نہیں رکھتا۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص 4 و سندہ صحیح)
مزید حوالوں کے لئے دیکھئے، ماہنامہ الحدیث حضرو: 29 ص 13 تا 33
معلوم ہوا کہ تمام صحیح العقیدہ اور ثقہ اتباع تبع تابعین اہلِ حدیث تھے اور تقلید نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ دوسروں کو بھی تقلید سے روکتے تھے۔
دلیل پنجم: حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ (امام ) مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابو یعلیٰ اور البزار وغیرہم اہلِ حدیث کے مذہب پر تھے، وہ علماء میں سے کسی کی تقلید معین کرنے والے مقلدین نہیں تھے اور نہ مطلق طور پر مجتہد تھے۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج 20 ص 40)
معلوم ہوا کہ تمام صحیح العقیدہ اور ثقہ محدثین کرام تقلید نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اہلِ حدیث تھے۔ آج کل بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ غیرمجتہد پر تقلید واجب ہے۔ حافظ ابن تیمیہ کے درج بالا قول سے ان کے دعوے کی تردید ہوتی ہے ، کیونکہ مذکورہ محدثینِ کرام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک مطلق طور پر مجتہد نہیں تھے اور نہ تقلید کرتے تھے۔
یاد رہے کہ ان جلیل القدر محدثین کا مجتہد نہ ہونا محلِ نظر ہے۔ دیکھئے دین میں تقلید کا مسئلہ ص 51
دلیل ششم:
تیسری صدی ہجری کے آخری دور میں فوت ہونے والے امام قاسم بن محمد القرطبی (متوفی 276ھ) نے تقلید کے رد پر ایک کتاب "الایضاح فی الرد علی المقلدین" لکھی۔ (سیر اعلام النبلاء ج 13 ص 329 ت 150)
دلیل ہفتم:
چوتھی صدی ہجری میں فوت ہونے والے سچے امام ابوبکر عبداللہ بن ابی داؤد السجستانی (متوفی 316ھ) نے فرمایا اور تو اس قوم میں سے نہ ہونا جو اپنے دین سے کھیلتے ہیں ورنہ تو اہلِ حدیث پر طعن و جرح کر بیٹھے گا۔ (کتاب الشریعۃ للآجری ص 975 و سندہ صحیح)
دلیل ہشتم:
پانچویں صدی ہجری میں حافظ ابن حزم ظاہری اندلسی نے صدا بلند کی کہ
تقلید حرام ہے۔ (النبذۃ الکافیہ فی احکام اصول الدین ص 70)
دلیل نہم:
حافظ ابن قیم الجوزیہ نے اعلان کیا:
اور (تقلید کی) یہ بدعت چوتھی صدی میں پیدا ہوئی ہے جس صدی کی مذمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی (مقدس) زبان سے بیان فرمائی ہے۔ (اعلام الموقعین ج 2 ص 208)
حافظ ابن قیم نے اپنے مشہور قصیدے "نونیہ" میں فرمایا: اے اہل ِ حدیث سے بغض رکھنے اور گالیاں دینے والے! تجھے شیطان سے دوستی قائم کرنے کی "بشارت" ہو۔ (الکافیہ الشافیہ ص 199)
دلیل دہم:
پانچویں صدی ہجری میں فوت ہونے والے ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر بن التمیمی البغدادی (متوفی 429ھ) نے اپنی کتاب میں فرمایا:
"فی ثغور الروم والجزیرۃ و ثغور الشام و ثغور آذربیجان وباب الابواب کلھم علی مذھب اھل الحدیث من اھل السنۃ"
روم، جزیرہ، شام، آذربیجان اور باب الابواب کی سرحدوں پر تمام لوگ اہلِ سنت میں سے اہلِ حدیث کے مذہب پر ہیں۔ (اصول الدین ص 317)
مذکورہ (و دیگر) دلائل سے صاف ثابت ہے کہ اہلِ حدیث اہلِ سنت ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر ہر دور میں اہلِ حدیث موجود رہے ہیں۔ والحمدللہ۔
جاری ہے۔۔۔۔