یہ روایت پوری اس طرح ہے:۔
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا محمد بن خالد، ثنا أحمد بن خالد الوهبي، ثنا إسرائيل، عن أبي حصين، عن يحيى بن وثاب، عن مسروق، عن عبد الله يعني ابن مسعود، أنه قال: " لا تقلدوا دينكم الرجال فإن أبيتم فبالأموات لا بالأحياء "
اپنے دین میں لوگوں کی پیروی مت کرو اور اگر تم نہ مانو تو مردوں کی کرو زندوں کی نہیں۔
اس قول سے تو مردہ ائمہ کی تقلید ثابت ہو رہی ہے۔ شاید شیخ سے تسامح ہو گیا یا پھر وہ جان کر اس حصے کو حذف کر گئے۔
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے نہ تو تسامح ہوا ہے اور نہ ہی انہوں نے جان بوجھ کر اس حصے کو حذف کیا ہے۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایک ہی بات کو بیان کرتی روایت انہوں نے کہیں مختصر پیش کی ہے اور کہیں پوری لیکن پوری عبارت کا مفہوم ایک ہی ہے۔ اور اس روایت سے خود ساختہ ائمہ کی تقلید ثابت نہیں ہوتی۔
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’دین میں تقلید کا مسئلہ‘‘ میں یہ روایت مکمل پیش کی ہے۔ کتاب میں مکمل عربی عبارت لکھنے کے بعد لکھتے ہیں:
مفہوم: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو، پس اگر تم (میری بات کا) انکار کرتے (یعنی منکر) ہو تو مردوں کی (اقتداء) کرلو، زندوں کی نہ کرو۔(السنن الکبریٰ،ج2،ص10)
تنبیہ: اس ترجمہ میں اقتداء کا لفظ طبرانی کی روایت کے پیش نظر لکھا گیا ہے۔(المعجم الکبیر،ج9،ص166)
(دین میں تقلید کا مسئلہ، صفحہ 35)
کتاب کا لنک
چونکہ کسی بات کا فیصلہ ایک ہی مفہوم کی تمام روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے اس لئے ثابت ہوا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لوگوں کو تقلید سے منع فرمارہے ہیں اور اقتداء و اتباع کی اجازت دے رہے ہیں اور وہ بھی زندوں کی نہیں بلکہ ان لوگوں کی جو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
تنبیہ: یاد رہے کہ تقلید اور اتباع میں واضح فرق ہے اس لئے اس سے تقلید کی اجازت نکالنا درست نہیں۔
اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ اس سے تقلید ثابت ہورہی ہے تو بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت مقلدین کو مفید مطلب نہیں ہوگی۔ کیونکہ وہ زندوں کی تقلید سے اس لئے روک رہے ہیں کہ زندہ شخص کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کل اسکا دین کیا ہوگا اس لئے زندہ شخص کی تقلید میں گمراہی کا بہت زیادہ امکان ہے۔ وہ ان صحابہ کی طرف اشارہ فرما کر ان کی تقلید کی اجازت دے رہے ہیں جو دنیا سے رخصت ہوگئے اور انکی زندگی اور اختتام لوگوں کے سامنے ہے اس لئے انکی تقلید میں گمراہی کا امکان نہیں۔ اور حنفی مقلدین تو صحابہ کی تقلید کے قائل ہی نہیں اور بہانہ یہ ہے کہ انکی فقہ مدون نہیں۔تو پھر ان صحابی کا فتویٰ ان مقلدین کی دلیل کیسے بن سکتا ہے؟
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جب عبداللہ بن مسعود اپنے دور کے زندہ لوگوں کی تقلید کی اجازت نہیں دے رہے تو آئندہ پیدا ہونے والوں کی تقلید کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں جبکہ ان کا حال بھی کسی کو معلوم نہیں۔
تنبیہ: چونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو خلفائے راشدین کی اقتداء کا حکم دیا ہے اس لئے میرے نزدیک عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مرے ہوؤں کی اقتداء کی طرف اشارہ خلفائے راشدین کی اقتداء و اتباع سے ہے۔