• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تاریخ اہل حدیث پر چند اہم اعتراضات کے جوابات ۔۔ از حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891


(ص 178 تا 185)​

اعتراض نمبر 6: مفتی عبدالہادی دیوبندی وغیرہ نے لکھا ہے کہ " یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ غیر مقلدین (جو خود کو اہلحدیث کہتے ہیں) کا وجود انگریز کے دور سے پہلے نہ تھا۔" (نفس کے پجاری ص 1)

جواب:
دو قسم کے لوگوں کو اہلِ حدیث کہتے ہیں:

1۔ صحیح العقیدہ (ثقہ و صدوق) محدثینِ کرام جو تقلید کے قائل نہیں ہیں۔
2۔ محدثین کرام کے عوام جو صحیح العقیدہ ہیں اور بغیر تقلید کے کتاب و سنت پر عمل کرتے ہیں۔ یہ دونوں گروہ خیر القرون سے لے کر آج تک ہر دور میں موجود رہے ہیں۔

دلیل اول:
صحابہ کرام سے تقلید شخصی و تقلید غیر شخصی کا کوئی صریح ثبوت نہیں ہے بلکہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
" وامازلۃ عالم فان اھتدی فلا تقلدوہ دینکم"
رہا عالم کی غلطی کا مسئلہ تو (سنو) وہ اگر سیدھے راستے پر بھی (چل رہا) ہو تو بھی اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔(کتاب الزہد للامام وکیع ج 1 ص 300 ح 71 و سندہ حسن، دین میں تقلید کا مسئلہ ص 36)

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"لا تقلدوا دینکم الرجال"
اپنے دین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ج2 ص10، وسندہ صحیح، نیز دیکھئے دین میں تقلید کا مسئلہ ص 35)

صحابہ میں سے کوئی بھی ان کا مخالف نہیں ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہے کہ تقلید ممنوع ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام صحابہ اہلِ حدیث تھے۔ یاد رہے کہ اس اجماع کے مخالفین و منکرین جو "دلائل" پیش کرتے ہیں ، ان میں تقلید کا لفظ نہیں ہے۔

دلیل دوم:
مشہور جلیل القدر تابعی امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ لوگ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بتائیں اسے (مضبوطی سے) پکڑ لو اور جو بات وہ اپنی رائے سے (کتاب و سنت کے خلاف) کہیں اسے کوڑے کرکٹ (کے ڈھیر) پر پھینک دو۔ (مسند الدارمی ج1 ص 67 ح 206 وسندہ صحیح، دین میں تقلید کا مسئلہ ص 37)

ابراہیم نخعی کے سامنے کسی نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا قول پیش کیا تو انہوں نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں تم سعید کے قول کو کیا کرو گے؟ (الاحکام لابن حزم ج 6 ص 293 و سندہ صحیح، دین میں تقلید کا مسئلہ ص 38)

تابعین میں سے کسی ایک سے بھی تقلید کا جواز یا وجوب ثابت نہیں ہے لہٰذا ان اقوال اور دیگر اقوال سے صاف ظاہر ہے کہ تقلید کے ممنوع ہونے پر تابعین کا بھی اجماع ہے اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تمام ثقہ و صحیح العقیدہ تابعین اہلِ حدیث تھے۔

دلیل سوم:
تبع تابعی حکم بن عتیبہ نے فرمایا: آپ لوگوں میں سے ہر آدمی کی بات لے بھی سکتے ہیں اور رد بھی کر سکتے ہیں سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ (الاحکام لابن حزم 6/293 و سندہ صحیح)

تبع تابعین میں سے کسی ایک ثقہ تبع تابعی سے تقلید شخصی و تقلید غیر شخصی کا کوئی ثبوت نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی اجماع ہے کہ تمام ثقہ و صحیح العقیدہ تبع تابعین اہلِ حدیث تھے۔

دلیل چہارم:
اتباع تبع تابعین میں سے ایک جماعت نے تقلید سے منع کیا ہے، مثلاً امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے اپنی اور دوسروں کی تقلید سے منع کیا۔ دیکھئے کتاب الام (مختصر المزنی ص 1)

امام شافعی نے فرمایا:
اور میری تقلید نہ کرو۔ (آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم ص 51 و سندہ حسن)

امام احمد نے فرمایا:
اپنے دین میں ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کرو۔ (مسائل ابی داؤد ص 277)

ایک صحیح حدیث میں ہے کہ طائفہ منصورہ (اہلِ حق کا سچا گروہ) ہمیشہ حق پر غالب رہے گا۔
اس کی تشریح میں امام بخاری فرماتے ہیں: یعنی اس سے مراد اہل الحدیث ہیں۔ (مسالۃ الاحتجاج بالشافعی للخطیب ص 47 و سندہ صحیح)

امام قتیبہ بن سعید نے فرمایا:
اگر تو کسی آدمی کو دیکھے کہ وہ اہلِ حدیث سے محبت کرتا ہے تو یہ شخص سنت پر (عمل پیرا) ہے۔ (شرف اصحاب الحدیث للخطیب ص 134 ح 143 و سندہ صحیح)

امام احمد بن سنان الواسطی نے فرمایا:
دنیا میں کوئی بھی ایسا بدعتی نہیں جو اہلِ حدیث سے بغض نہیں رکھتا۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص 4 و سندہ صحیح)
مزید حوالوں کے لئے دیکھئے، ماہنامہ الحدیث حضرو: 29 ص 13 تا 33

معلوم ہوا کہ تمام صحیح العقیدہ اور ثقہ اتباع تبع تابعین اہلِ حدیث تھے اور تقلید نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ دوسروں کو بھی تقلید سے روکتے تھے۔

دلیل پنجم: حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ (امام ) مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابو یعلیٰ اور البزار وغیرہم اہلِ حدیث کے مذہب پر تھے، وہ علماء میں سے کسی کی تقلید معین کرنے والے مقلدین نہیں تھے اور نہ مطلق طور پر مجتہد تھے۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج 20 ص 40)

معلوم ہوا کہ تمام صحیح العقیدہ اور ثقہ محدثین کرام تقلید نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اہلِ حدیث تھے۔ آج کل بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ غیرمجتہد پر تقلید واجب ہے۔ حافظ ابن تیمیہ کے درج بالا قول سے ان کے دعوے کی تردید ہوتی ہے ، کیونکہ مذکورہ محدثینِ کرام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک مطلق طور پر مجتہد نہیں تھے اور نہ تقلید کرتے تھے۔

یاد رہے کہ ان جلیل القدر محدثین کا مجتہد نہ ہونا محلِ نظر ہے۔ دیکھئے دین میں تقلید کا مسئلہ ص 51

دلیل ششم:
تیسری صدی ہجری کے آخری دور میں فوت ہونے والے امام قاسم بن محمد القرطبی (متوفی 276ھ) نے تقلید کے رد پر ایک کتاب "الایضاح فی الرد علی المقلدین" لکھی۔ (سیر اعلام النبلاء ج 13 ص 329 ت 150)

دلیل ہفتم:
چوتھی صدی ہجری میں فوت ہونے والے سچے امام ابوبکر عبداللہ بن ابی داؤد السجستانی (متوفی 316ھ) نے فرمایا اور تو اس قوم میں سے نہ ہونا جو اپنے دین سے کھیلتے ہیں ورنہ تو اہلِ حدیث پر طعن و جرح کر بیٹھے گا۔ (کتاب الشریعۃ للآجری ص 975 و سندہ صحیح)

دلیل ہشتم:
پانچویں صدی ہجری میں حافظ ابن حزم ظاہری اندلسی نے صدا بلند کی کہ
تقلید حرام ہے۔ (النبذۃ الکافیہ فی احکام اصول الدین ص 70)

دلیل نہم:
حافظ ابن قیم الجوزیہ نے اعلان کیا:
اور (تقلید کی) یہ بدعت چوتھی صدی میں پیدا ہوئی ہے جس صدی کی مذمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی (مقدس) زبان سے بیان فرمائی ہے۔ (اعلام الموقعین ج 2 ص 208)

حافظ ابن قیم نے اپنے مشہور قصیدے "نونیہ" میں فرمایا: اے اہل ِ حدیث سے بغض رکھنے اور گالیاں دینے والے! تجھے شیطان سے دوستی قائم کرنے کی "بشارت" ہو۔ (الکافیہ الشافیہ ص 199)

دلیل دہم:
پانچویں صدی ہجری میں فوت ہونے والے ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر بن التمیمی البغدادی (متوفی 429ھ) نے اپنی کتاب میں فرمایا:
"فی ثغور الروم والجزیرۃ و ثغور الشام و ثغور آذربیجان وباب الابواب کلھم علی مذھب اھل الحدیث من اھل السنۃ"
روم، جزیرہ، شام، آذربیجان اور باب الابواب کی سرحدوں پر تمام لوگ اہلِ سنت میں سے اہلِ حدیث کے مذہب پر ہیں۔ (اصول الدین ص 317)

مذکورہ (و دیگر) دلائل سے صاف ثابت ہے کہ اہلِ حدیث اہلِ سنت ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر ہر دور میں اہلِ حدیث موجود رہے ہیں۔ والحمدللہ۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اب چند الزامی دلائل پیش خدمت ہیں:

دلیل نمبر 1:
مفتی رشید احمد لدھیانوی دیوبندی نے لکھا:
"تقریباً دوسری تیسری صدی ہجری میں اہلِ حق میں فروعی اور جزئی مسائل کے حل میں اختلافِ انظار کے پیشِ نظر پانچ مکاتبِ فکر قائم ہو گئے یعنی مذاہب اربعہ اور اہلِ حدیث۔ اس زمانے سے لے کر آج تک انہی پانچ طریقوں میں حق کو منحصر سمجھا جاتا رہا۔"
(احسن الفتاویٰ ج 1 ص 316، مودودی صاحب اور تخریب اسلام ص 20)

اس دیوبندی اعتراف سے معلوم ہوا کہ اہلِ حدیث 101 ہجری اور 201 ہجری سے روئے زمین پر موجود ہیں۔

دلیل نمبر 2:
تفسیر حقانی کے مصنف عبدالحق حقانی دہلوی نے کہا:"اور اہل سنت شافعی حنبلی مالکی حنفی ہیں اور اہل حدیث بھی ان ہی میں داخل ہیں۔" (حقانی عقائد الاسلام ص3)
یہ کتاب محمد قاسم نانوتوی کی پسند کردہ ہے۔ دیکھئے حقانی عقائد الاسلام کا آخر ص 264

دلیل نمبر 3:
درج بالا حوالے کی رو سے محمد قاسم نانوتوی دیوبندی نے بھی اہلِ حدیث کو اہلِ سنت قرار دیا ہے اور اہلِ سنت کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
"ومن اھل السنۃ والجماعۃ مذھب قدیم معروف قبل ان یخلق اللہ ابا حنیفۃ و مالکاً و الشافعی واحمد فانہ مذھب الصحابۃ۔۔"
اور ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد کی پیدائش سے پہلے اہلِ سنت والجماعت میں سے ایک قدیم مشہور مذہب ہے، بے شک یہ مذہب صحابہ کا ہے۔۔۔(منہاج السنۃ النبویہ ج 1 ص 256 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

اس حوالے سے معلوم ہوا کہ اہلِ حدیث اہلِ سنت ہیں اور مذاہبِ اربعہ کے وجود سے پہلے روئے زمین پر موجود ہیں۔ والحمدللہ۔


دلیل نمبر 4:
مفتی کفایت اللہ دہلوی دیوبندی ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ہاں اہلحدیث مسلمان ہیں اور اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔ ان سے شادی بیاہ کا معاملہ کرنا درست ہے۔ محض ترک تقلید سے اسلام میں فرق نہیں پڑتا اور نہ اہل سنت والجماعت سے تارک تقلید باہر ہوتا ہے۔" (کفایت المفتی ج 1 ص 325، جواب: 370)

دلیل نمبر 5:
اشرفعلی تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے:
"اگرچہ اس امر پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں یعنی جو مسئلہ چاروں مذہبوں کے خلاف ہو اس پر عمل جائز نہیں کہ حق دائر و منحصر ان چار میں ہے۔ مگر اس پر بھی کوئی دلیل نہیں کیونکہ اہل ظاہر ہر زمانہ میں رہے اور یہ بھی نہیں کہ سب اہلِ ہویٰ ہوں ، وہ اس اتفاق سے علیحدہ رہے دوسرے اگر اجماع ثابت بھی ہو جاوے مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔" (تذکرۃ الرشید ج 1 ص 131)

خلاصۃ التحقیق:

مفتی عبدالہادی وغیرہ جیسے کذابین کا یہ کہنا کہ " اہلِ حدیث کا وجود انگریز کے دور سے پہلے نہ تھا" بالکل جھوٹ اور باطل ہے۔ علمائے حق کے حوالوں اور تقلیدیوں کے اعترافات و بیانات سے ثابت کر دیا گیا ہے کہ تقلید نہ کرنے والے اہلِ حدیث کا وجودِ مسعود پہلی صدی ہجری سے لے کر ہر دور میں رہا ہے ۔ دوسری طرف دیوبندی و تقلیدی فرقوں کا وجود خیر القرون کا مبارک دور گزر جانے کے بعد مختلف ادوار میں پیدا ہوا ہے۔ مثلاً دیوبندی مذہب کی بنیاد 1867ء میں انگریزوں کے دور میں رکھی گئی۔

اشرفعلی تھانوی دیوبندی سے پوچھا گیا کہ اگر تمہاری حکومت ہو جائے تو انگریزوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرو (گے)؟ انہوں نے جواب دیا:
"محکوم بنا کر رکھیں کیونکہ جب خدا نے حکومت دی تو محکوم ہی بنا کر رکھیں گے مگر ساتھ ہی اس کے نہایت راحت اور آرام سے رکھا جائے گا اس لئے کہ انہوں نے ہمیں آرام پہونچایا ہے اسلام کی بھی تعلیم ہے اور اسلام جیسی تعلیم تو دنیا کے کسی مذہب میں نہیں مل سکتی"
(ملفوظات حکیم الامت ج 6 ص 55 ملفوظ:107)

معلوم ہوا کہ انگریزوں نے دیوبندیوں کو بہت آرام پہنچایا تھا۔ ایک انگریز نے جب مدرسہ دیوبندی کا معائنہ کیا تو اس مدرسے کے بارے میں نہایت اچھے خیالات کا اظہار کر کے لکھا:
"یہ مدرسہ خلاف سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار ممد معاون سرکار ہے۔" (محمد احسن نانوتوی از محمد ایوب قادری ص 217، فخرالعلماء ص 60) انگریز سرکار کے اس موافق (حمایت و موافقت کرنے والے) ممد (مدد کرنے والے) اور معاون (تعاون کرنے والے) مدرسے کے بارے میں یہ ایک اہم حوالہ ہے جسے دیوبندیوں نے بذاتِ خود لکھا ہے اور کوئی تردید نہیں کی۔

جاری ہے۔۔۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اعتراض نمبر 7: مفتی عبدالہادی دیوبندی وغیرہ کہتے ہیں کہ محدثین سب کے سب مقلد رہے ہیں۔
جواب:
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے انگریزوں کے دور میں بننے والے مدرسہ دیوبند کے بانی محمد قاسم نانوتوی کی پیدائش سے صدیوں پہلے محدثین (مسلم، ترمذی، نسائی وغیرہم) کے بارے میں لکھا ہے:
"فھم علیٰ مذھب اھل الحدیث لیسوا مقلدین لواحد بعینہ من العلماء ولاھم من الائمۃ المجتھدین علی الاطلاق"
پس وہ اہل حدیث کے مذہب پر تھے، علماء میں سے کسی کی تقلید معین کرنے والے مقلدین نہیں تھے اور نہ مجتہد مطلق تھے۔ (مجموع الفتاویٰ ج 20 ص40)

صرف اس ایک حوالے سے بھی عبدالہادی (اور اس کے ہر حامی) کا کذاب ہونا ثابت ہے۔ یاد رہے کہ ثقہ و صحیح العقیدہ محدثین میں سے کسی ایک کا بھی مقلد ہونا ثابت نہیں ہے۔ طبقاتِ حنفیہ وغیرہ کتب کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کتابوں میں مذکور سارے لوگ مقلد تھے۔

عینی حنفی(!) نے کہا: مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے۔اور ہر چیز کی آفت تقلید کی وجہ سے ہے۔ (البنایہ فی شرح الہدایہ ج 1 ص 317)
زیلعی حنفی (!) نے کہا: پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے۔ (نصب الرایہ ج 1 ص 219) نیز دیکھئے دین میں تقلید کا مسئلہ ص 39، 46

جاری ہے۔۔۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اعتراض نمبر 8: ہندوستان میں اہلِ حدیث کا وجود انگریزوں کے دور سے پہلے نہیں ملتا۔

جواب:
چوتھی صدی ہجری کے مؤرخ محمد بن احمد بن ابی بکر البشاری المقدسی (متوفی 375ھ) نے منصورہ (سندھ) کے لوگوں کے بارے میں کہا:
"مذاھبھم اکثر اصحاب حدیث ورایت القاضی ابا محمد المنصوری داودیاً اماماً فی مذھبہ ولہ تدریس و تصانیف، قد صنف کتباً عدۃ حسنۃً"
ان کے مذاہب یہ ہیں کہ وہ اکثر اصحاب حدیث ہیں اور میں نے قاضی ابومحمد منصوری کو دیکھا جو داؤدی تھے اور اپنے مذہب کے امام تھے۔ وہ تدریس و تصنیف پر کاربند تھے۔ انہوں نے کئی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔(احسن التقاسیم فی معرفۃ الاقالیم ص 481)

داؤد بن علی الظاہری کے منہج پر عمل کرنے والے ظاہری کہلاتے تھے اور تقلید سے دور تھے۔

احمد شاہ درانی کو شکست دینے والے مغل بادشاہ احمد شاہ بن ناصر الدین محمد شاہ (دورِ حکومت 1161ھ بمطابق 1748ء تا 1167ھ بمطابق 1753ء) کے دور میں فوت ہو جانے والے شیخ محمد فاخر الہ آبادی رحمہ اللہ (متوفی 1164ھ بمطابق 1751ء) فرماتے ہیں کہ

"جمہور کے نزدیک کسی خاص مذہب کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے بلکہ اجتہاد واجب ہے۔ تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی ہے۔" (رسالہ نجاتیہ اردو مترجم ص 41، 42)
شیخ محمد فاخر مزید فرماتے ہیں: "لکن احق مذاھب اھل حدیث ست"
مگر اہل حدیث کا مذہب دیگر مذاہب سے زیادہ حق پر ثابت ہے۔(رسالہ نجاتیہ ص 41)

معلوم ہوا کہ مدرسہ دیوبند و مدرسہ بریلی کی پیدائش سے بہت پہلے ہندوستان میں اہلِ حدیث موجود تھے لہٰذا یہ کہنا کہ "انگریزوں کے دور سے پہلے اہل حدیث کے وجود کا ثبوت نہیں ملتا" بالکل جھوٹ اور باطل ہے۔ نیز دیکھئے جواب اعتراض نمبر 6
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
محمد شاکر صاحب : ماشاء اللہ بہت اہم حوالے آپ نے جمع کئے ہیں معلومات میں اضافہ ہوا ، بھائی مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے جو اہل حدیث کے ساتھ تعامل وسلوک اور ان کے عقیدہ کے بارے میں جو اظہار خیال کیاہے وہ بالکل بجا اورانصف ہے بندہ آپ سب مسلمان تو کیا اپنے بھائیوں جیسا سمجھتا ہے اگر چہ ہمارے مابین کسی رائے میں اتفاق نہ ہو میں بذات خود کبھی اہل حدیث کی مسجد میں جاکر نماز پڑھتا ہوں وہ الگ بات ہے کہ ان کے لیے یہ ایک اچنبے کی بات لگتی ہے کہ میں کیوں ان کے صف اول میں کھڑا ہوں ، یہ بھائی مجھے تجسسانہ کم اور مغاضبانہ نظروں سے زیادہ دیکھتے ہیں ، میں نے کبھی ان کے بڑوں کے بارے میں درشت کلامی نہیں کی ، نہ یوں ان کے اسماء گرامی ایسے انداز میں زبان زد کیے ، کہ سامع سیخ پا ہو، لیکن آپ کے سائڈ پر سے ایسی آوازیں بہت کم سنائی دیتی ہیں ۔خیر چھوڑیں ، اس تھریڈ کی جانب آتے ہیں ،
لیکن ایک طالب علمانہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے ، کہ کیا آج کل کے اہل حدیث اور قرن اول کے اہل حدیث تمام مسائل میں ایک ہی طرح کے صحیح حدیث پر عامل تھے ؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
میں بذات خود کبھی اہل حدیث کی مسجد میں جاکر نماز پڑھتا ہوں وہ الگ بات ہے کہ ان کے لیے یہ ایک اچنبے کی بات لگتی ہے کہ میں کیوں ان کے صف اول میں کھڑا ہوں ، یہ بھائی مجھے تجسسانہ کم اور مغاضبانہ نظروں سے زیادہ دیکھتے ہیں ،
میرے علاقہ کی اہلحدیث مسجد بالکل چوک پر واقع ہے۔ اور سامنے ہی مین روڈ ہے۔ وہاں اکثر اوقات حنفی بھائی تشریف لے آتے ہیں۔ میں نے گزشتہ نو سال کے عرصے میں کبھی کسی اہلحدیث کو نہیں دیکھا کہ کوئ انہیں مغاضبانہ نظروں سے گھورتا ہو۔ آپ کا اپنا خیال بھی ہو سکتا ہے۔ اور اچھے برے، عالم جاہل ہر معاشرے، قوم، مسلک، گروہ میں ہو سکتے ہیں، چند ایک افراد کی وجہ سے سب سے بدظن ہو جانا درست نہیں۔

لیکن ایک طالب علمانہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے ، کہ کیا آج کل کے اہل حدیث اور قرن اول کے اہل حدیث تمام مسائل میں ایک ہی طرح کے صحیح حدیث پر عامل تھے ؟
آپ اہلحدیث کو بھی ایک جامد مسلک نہ سمجھئے۔ ہمارے نزدیک اصل چیز منہج ہے۔ جس کے بارے میں ہم بالیقین کہہ سکتے ہیں کہ قرن اول کے اہل حدیث اور آج کے اہلحدیث کا منہج کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ ہاں، تحقیق میں نتیجہ تک پہنچنے کے اعتبار سے بات کیجئے تو قرن اول کجا، دور حاضر ہی میں اہلحدیث علماء کی تحقیق میں بعض اوقات اختلاف ہو جاتا ہے۔ جب تک عقیدہ و منہج ایک جیسا ہے تب تک اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مثلاً ایک کے نزدیک رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنا راجح، اور دوسرے کے نزدیک چھوڑنا راجح۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
عینی حنفی(!) نے کہا: مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے۔اور ہر چیز کی آفت تقلید کی وجہ سے ہے۔ (البنایہ فی شرح الہدایہ ج 1 ص 317)
زیلعی حنفی (!) نے کہا: پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے۔ (نصب الرایہ ج 1 ص 219) نیز دیکھئے دین میں تقلید کا مسئلہ ص 39، 46

شاکر بھائی کیا یہ سب شیخ زبیر کی لکھی ہوئی تحریر ہے؟ اگر ایسے ہے تو زیلعی رح کے الفاظ کا مکمل کوٹ اور ترجمہ میں پہلے ایک جگہ کرچکا ہوں فورم پر ہی۔ اس طرح تو ہمیں شیخ صاحب کے تمام حوالہ جات کی تحقیق کرنی پڑ جائے گی۔
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
حضر حیات صاحب : اہل حدیث کے منہج پر کوئی مختص کتاب ہو تو رہنمائی فرمائیں ، جس سے معلوم ہو کہ منہج کہاں تک متفق ہےیا منہج کی آپ وضاحت فرمائیں ۔۔۔۔۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
کیا آج کل کے اہل حدیث اور قرن اول کے اہل حدیث تمام مسائل میں ایک ہی طرح کے صحیح حدیث پر عامل تھے ؟
شاکر بھائی نے بہت ہی خوب صورت بات کی ہے کہ اصل چیز منہج یا طرز فکر ہے اور وہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کی غیر مشروط پیروی کی جائے اور کسی خاص شخصیت یا فرقے کی پابندی ضروری نہ سمجھی جائے،اس طور پر کہ دلائل سے قطع نظرہمیں بہ ہر حال انھی کے پیچھے چلنا ہے؛صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے آج تک اہل حدیث کا یہی طریقہ ہے؛مسائل میں فہم اور استنباط کا اختلاف بھی ہر دور میں رہا ہے؛یہ زیادہ اہم نہیں ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
دلیل دہم:
پانچویں صدی ہجری میں فوت ہونے والے ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر بن التمیمی البغدادی (متوفی 429ھ) نے اپنی کتاب میں فرمایا:​
"فی ثغور الروم والجزیرۃ و ثغور الشام و ثغور آذربیجان وباب الابواب کلھم علی مذھب اھل الحدیث من اھل السنۃ"
روم، جزیرہ، شام، آذربیجان اور باب الابواب کی سرحدوں پر تمام لوگ اہلِ سنت میں سے اہلِ حدیث کے مذہب پر ہیں۔ (اصول الدین ص 317)​
مجھے اس سے تو غرض نہیں کہ اہل حدیث کب سے تھے اور کب سے نہیں لیکن ایک علمی بات کے تحت لکھتا ہوں کیوں کہ اس بات کا حوالہ کافی جگہ دیکھا ہے میں نے۔
یہ کتاب اصول الدین یعنی علم الکلام اور عقائد کے بارے میں ہے۔ علم الکلام میں اہل سنت ولجماعت کے تین فریق تھے۔ اشاعرہ، ماتریدیہ اور محدثین۔ اشاعرہ کو شوافع اور ماتریدیہ کو احناف بھی کہا جاتا تھا کیوں کہ امام ابو منصور ماتریدی رح حنفی تھے اور ان کے متبعین بھی اکثر حنفی تھے اور امام اشعری رح کے متبعین اکثر شوافع تھے۔ لیکن یہ اکثر کی بنا پر تھا۔
ان دو فریقوں کو بسا اوقات اہل الرائ بھی کہا جاتا تھا کیوں کہ یہ محدثین کرام کے برعکس ہر بات کی عقلی تشریح اور عقلی دلائل کے بھی قائل تھے اور علم فلسفہ اس کام کے لیے استعمال کرتے تھے۔
اس کتاب میں مصنف رح نے ان ہی تین فریقوں کا ذکر کیا ہے اور ان کے مخالفین مثلا معتزلہ وغیرہ کو باطل قرار دیا ہے۔
کتاب کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:۔
فہذہ جملۃ اصول الدین علی قواعد فریقی الرأی والحدیث دون من یشتری لہو الحدیث
ص3 مطبعۃ الدولۃ
اور ص317 پر مندرجہ بالا جملہ کے بعد باقی دونوں فریقوں کا ذکر فرماتے ہیں:۔
واما ثغور اہل ماوراء النہر فی وجوہ الترک والصین فہم فریقان: اما شافعیۃ و اما من اصحاب ابی حنیفۃ و کلہم یلعنون۔۔۔۔۔
تو یہاں کل تین فریقوں کا ذکر ہے: اہل حدیث، شوافع اور احناف۔ اگر یہاں فقہ کے فریق مراد ہوتے تو پانچ کا ذکر ہوتا کیوں کہ قدریہ اور اہل الہوی کو حنابلہ اور مالکیہ بھی تسلیم نہیں کرتے۔
اہل الہوی میں معتزلہ بھی شامل ہیں اور معتزلہ سمیت دیگر فرقوں کے افراد بھی فروع میں کسی نہ کسی مسلک سے متعلق تھے عموما۔ تو شوافع اور حنفیہ کی ان پر لعنت کا مطلب نہیں بنتا اگر یہاں مراد فرق فقہ لیے جائیں۔
چوں کہ یہ کتاب عقائد میں ہے اور عقائد میں یہ تینوں نام مستعمل ہیں اس لیے یہاں مراد مسالک فقہ نہیں بلکہ مسالک اہل السنۃ فی العقائد ہیں۔ ان میں محدثین میں ہر فقہ کے لوگ شامل رہے ہیں۔
اس سے یہ دلیل لینا کہ اہل حدیث معروف تمام جگہوں اور وقتوں میں رہے ہیں درست نہیں اور علم الکلام سے ادنی مناسبت رکھنے والے کسی بھی عالم سے اس کی امید نہیں ہے۔
خضر حیات بھائی
ہکذا ظہر لی واللہ اعلم
 
Top