جب قران کی آیت اپنے مفہوم کے لحاظ سے واضح ہو تو اس کی من معنی تاویل نہیں کی جا سکتی - قادیانی بھی قرآن کی آیت کی غلط تاویل کی وجہ سے کافر قرار پاے -الله قرآن میں اپنی ذات کے حوالے سے فرماتا ہے -
الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ سوره طہٰ ٥
رحمان جو عرش پر جلوہ گر ہے -
اس آیت اور دوسری بہت سی آیات میں الله کا اپنی ذات کے حوالے سے واضح طور پر فرمان ہے کہ وہ عرش پر مستوی ہے - (یعنی ہر جگہ اپنی ذات کے ساتھ موجود نہیں) - لہذا اس عقیدے کا انکار کفر ہے -جیسا کہ امام ابو حنیفہ رہمللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے -
افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس کفریہ عقیدے کے حامل زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اپنے حنفی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں -ان کے اکابرین دین جدید " تصوف" کے دلدادہ تھے اور اب بھی ہیں - اور تصوف کی بنیاد ہی اس کفریہ عقیدے پر ہے کہ الله اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے -
جزاكم اللہ خیرا۔ اور یہ عقیدہ تمام سلف صالحین کا تھا کہ اللہ عرش پر مستوی ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے لیکن اس کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہیں۔
اس آیت کریمہ میں وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ کی تشریح میں قدیم مفسرقرآن ، امام محمد بن جریربن یزید الطبری رحمہ اللہ (متوفی 310 ھجری )فرماتے ہیں کہ :وھوشاھد علیکم ایھاالناس اینما کنتم یعلمکم و یعلم اعمالکم و متقلبکم و مثواکم وھو علی عرشہ فوق سمٰواتہ السبع اور ائے لوگو ! وہ (اللہ ) تم پر گواہ ہے ، تم جہاں بھی ہو وہ تمہیں جانتا ہے ،، وہ تمہارے اعمال ، پھرنا اور ٹھکانا جانتاہے اور وہ اپنے سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہے (تفسیر طبری۔ جلد 22۔ ص 387)
راوی کہتا ہے کہ میں نے اوزاعی کو یہ کہتے سنا: ہمارا عقیدہ اور سب تابعین کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے، ہم اللہ تعالیٰ کی جملہ صفات کو مانتے ہیں جو احادیث میں آئی ہیں۔ (الاسماٰء والصفات للبیھقی۔ ص 291)
اِمام صدر الدین محمد بن علاء الدین (تاریخ وفات 792ہجری)رحمہ ُ اللہ، جو ابن أبی العز الحنفی کے نام سے مشہور ہیں ،"شرح عقیدہ طحاویہ"میں لکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے شہادت دی کہ رب آسمانوں میں ہے اور اس پر ایمان رکھنا چاہیے: فرعون نے (بھی)موسیٰ علیہ السلام کی اِس بات کو نہیں مانا تھا کہ اُن کا رب آسمانوں پر ہے اور اِس بات کا مذاق اور اِنکار کرتے ہوئے کہا اے ھامان میرے لیے بلند عمارت بناؤ تاکہ میں راستوں تک پہنچ سکوں۔ آسمان کے راستوں تک، (اور ان کے ذریعے اوپر جا کر) موسیٰ کے معبود کو جھانک سکوں اور بے شک میں اسے (موسی) کو جھوٹا سمجھتا ہوں۔ (سورہ غافر آیت 36،37)
لہذا جو اللہ تعالیٰ کے (اپنی مخلوق سے الگ اور )بُلند ہو نے کا اِنکار کرتا ہے وہ فرعونی اور جہمی ہے اور جواِقرار کرتا ہے وہ موسوی اور محمدی ہے (شرح عقیدہ طحاویہ از ابن أبی العز الحنفی۔ صفحہ 287)
راوی کہتا ہے کہ امام ضحاک نے یہ آیت پڑھی: (کسی جگہ) تین (شخصوں) کا (مجمع اور) کانوں میں صلاح ومشورہ نہیں ہوتا مگر وہ ان میں چوتھا ہوتا ہے (سورۃ المجادلہ 7) اور پھر انہوں نے فرمایا کہ وہ (اللہ) عرش پر ہے اور اس کا علم ہمارے ساتھ ہے راوی کہتا ہےامام مالک نے کہا: اللہ عرش پہ ہے اور اس کا علم پوری کائنات میں ہے کوئی بھی جگہ اس کے علم سے خالی نہیں۔ (مسائل الامام احمد از ابو داؤد۔ باب فی الجھمیہ۔ صفحہ 353)
راوی کہتا ہے کہ شقیق نے عبداللہ بن مبارک سے کہا: ہم اپنے رب کو کیسے پہچانیں؟ (عبداللہ بن مبارک نے) کہا: اس طرح کہ وہ ساتوں آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہے اور وہ اپنی مخلوقات سے جداء ہے۔ (الرد علی الجھمیہ از عثمان بن سعید دارمی۔صفحہ 39،40)۔