حیدرآبادی
مشہور رکن
- شمولیت
- اکتوبر 27، 2012
- پیغامات
- 287
- ری ایکشن اسکور
- 500
- پوائنٹ
- 120
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی (1703-1762) دور آخر کے ہندوستان کے عظیم ترین علماء میں سے ہیں۔
ان کی شہرت صرف ہندوستان گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر ہے ۔ عالم عرب میں بھی ان کی شہرت ہے اور یوروپ و امریکہ میں بھی ان کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے ۔ وہ بلاشبہ اٹھارہویں صدی کے مجدد تھے اور تاریخ کے ایک ایسے دورا ہے پر پیدا ہوئے جب زمانہ ایک نئی کروٹ لے رہا تھا، مسلم اقتدار کی سیاسی بساط لپیٹی جا رہی تھی، عقلیت پرستی اور استدلالیت کا غلبہ ہو رہا تھا۔
اس وقت حضرت شاہ ولی ﷲ نے کار تجدید انجام دیا اور اس کاز کے لیے جدوجہد کی کہ مسلمان نئے زمانے سے کس طرح ہم آہنگ رہیں۔
آپ نے حجۃ اﷲ البالغہ جیسی شہرہ آفاق کتاب لکھی، موطا امام مالک کی شرح لکھی۔ مسلکی گروہ بندی کو کم کرنے کی طرح ڈالی اور یہ سب آج سے 250 سال قبل کیا تھا جب کوئی شخص ان اصطلاحوں میں سوچنے کیلئے تیار ہی نہیں تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ شاہ ولی اﷲ کا ایک بڑا اور غیر معمولی کارنامہ "رجوع الی القرآن" کی تحریک ہے ۔ شاہ صاحب کے نزدیک مسلمانوں کے لیے نسخہ شافی یہی تھا کہ وہ قرآن مجید کی طرف رجوع کریں اور قرآن مجید کو اپنی زندگی اور اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز و محور بنائیں۔
چانچہ انہوں نے بتایا کہ بچے کو سب سے پہلے قرآن پڑھانا چاہئے تاکہ وہ احکم الحاکمین کے پیغام کو سمجھ لے ۔ چوں کہ ہندوستان میں عربی زبان کا رواج نہیں تھا اس لئے انہوں نے قرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ دوران ترجمہ شاہ صاحب کے سامنے بہت سے علوم و معارف اور مسائل و مشکلات واشگاف ہوئے ۔ شاہ صاحب نے ان کو حل کرنے کی کوشش کی اور اس کیلے متعدد کتابیں اور رسالے لکھے ۔
ترجمہ کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے "مقدمہ در قوانین ترجمہ" کی تصنیف فرمائی۔ لیکن شاہ ولی اﷲ کا ایک بے مثال اور پائیدار کارنامہ "تفسیر قرآن کے اصول" ہے ۔
قرآن مجید کی بے شمار تفسیریں لکھی گئیں لیکن "اصول تفسیر" کسی نے نہیں لکھی۔ یہ سعادت قسام ازل نے سرزمین ہند میں دہلی کی خاک کیلئے ارزاں کی تھی کہ اس کی خاک سے وہ شخصیت اٹھے جو اس موضوع پر سب سے پہلی کتاب لکھے۔
شاہ صاحب کی اس کتاب کا نام "الفوز الکبیر فی اصول التفسیر" ہے ۔ چونکہ اپنے موضوع پر یہ ایک منفرد کتاب تھی اس لئے اناً فاناً سارے عالم اسلام میں اس کی شہرت پھیل گئی۔ اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ ہوا۔ یہ ترجمہ مصر میں ہوا تھا اور منیر الدین دمشقی نے کیا تھا۔
اس وقت عالم اسلام کے خطے میں فارسی کا چلن تھا اس لئے یہ کتاب فارسی زبان میں بھی پڑھائی جاتی رہی اور عالم عرب میں منیر الدین دمشقی کا عربی ترجمہ رائج رہا اور تقریباً تمام مدارس اسلامیہ میں یہ کتاب داخل نصاب رہی۔
دور جدید میں جب تحقیق و تحشیہ کے نئے معیارات سامنے آئے تو اس کتاب کی طرف بھی لوگوں کی توجہ دوبارہ مبذول ہوئی اور اس پر تحقیق اور اس کے مزید رواں دواں ترجمہ کی تلاش شروع ہوئی۔
مولانا سلمان ندوی نے اس کا دوبارہ عربی ترجمہ کیا ہے ۔ یہ ترجمہ عربی زبان کے اسلوب شناسوں کے نزدیک کافی شستہ اور رواں ہے لیکن اہل علم اور بالخصوص مطالعات قرآنی سے شغفت رکھنے والوں نے اس سلسلے کو روکا نہیں اور اسی ضمن میں دارالعلوم دیوبند کے مشہور استاد حدیث مفتی محمد سعید پالن پوری نے اصل فارسی متن سے اس کا عربی میں ترجمہ کیا، اور اردو و عربی میں شرح بھی لکھی۔
الفوز الکبیر کا ایک اردو ترجمہ علی گڑھ میں مولانا سعید انصاری نے بھی کیا تھا۔ وہ ترجمہ اگرچہ خاصا لفظی ہے لیکن کافی مقبول رہا ہے ۔ ان تراجم مے علاوہ بھی الفوز الکبیر اور ترجمہ و تفسیر سے متعلق شاہ ولی اﷲ کی کتابوں پر کام ہوتے رہے ہیں ۔ بعض پر سمینار ہوئے ۔ پروفیسر سعود عالم قاسمی نے شاہ ولی اﷲ کی قرآنی فکر پر مستقل کتاب لکھی۔ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے بھی بعض پہلوؤں پر کام کیا جن میں الفوز الکبیر کے ضمیمہ الخیر الکثیر کے تعارف پر ان کا گراں قدر مقالہ علمی حلقوں میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔ اس ضمن میں اسلام اور عصر جدید کا خصوصی شمارہ "شاہ ولی اﷲ: افکار و آثار" بھی قابل ذکر ہے ۔ یہ رسالہ جنوری ۔ اکتوبر 2010ء میں شائع ہوا۔ اس میں بھی دیگر موضوعات کے علاوہ شاہ ولی اﷲ کی قرآنی خدمات کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے ۔ پروفیسر عبدالقادر جعفری صاحب نے مستقل اسی عنوان پر مقالہ لکھا ہے اور ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی نے ترجمہ و تفسیر سے متعلق شاہ صاحب کے رسالوں کا اصل فارسی سے بڑا عالمانہ اردو ترجمہ کیا ہے ۔ اس میں الفوز الکبیر، مقدمہ در قوانین ترجمہ اور دیبا چہ فتح الرحمن شامل ہیں ۔ آخر کے دونوں رسالوں کے اصل فارسی متن بھی شائع کئے ہیں ۔ یہ رسالہ خاصہ مقبول ہوا اور اب کتابی شکل میں بھی شائع ہو گیا ہے ۔ ہمارے عہد کے ایک صاحب قلم اور صاحب علم و تحقیق مولانا ے ٰسین اختر مصباحی نے بھی اس کار خیر میں شرکت کی اور حال ہی میں الفوز الکبیر فی اصول التفیسر کا اردو ترجمہ سامنے آیا۔ یہ ترجمہ جیسا کہ سرورق پر لکھی ہوئی عبارت سے واضح ہوتا ہے اصل فارسی متن سے کیا گیا ہے ۔ اس لئے امید ہے کہ مراد صنف کے قریب ترین ہے ۔ مولاناے ٰسین مصباحی کا قلم بڑا سیال اور رواں دواں ہے ۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر بہترین تحقیقی مقالات اور کتابیں لکھی ہیں ۔ معاصر علماء کے درمیان ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں اور قلم پر اپنی بہترین قدرت کی وجہہ سے "رئیس القلم" کہلاتے ہیں ۔ اس کتاب میں آپ کی قدرت نمایاں طورپر محسوس کی جاسکتی ہے ۔ شروع میں انہوں نے تہدیہ بخدمت مشاہیر علماء و مشائخ اہل سنت کیا ہے ۔ اس میں 25!علماء کے نام اور تاریخ وفات ہے ۔ اگلے صفحے پر اپنے ادارہ کے نام انتساب جس میں قلم پر قدرت کا ایک خصوبصورت نمونہ ہے ۔ اس کے بعد اصل کتاب شروع ہوتی ہے ۔ باب اور فصل کی رعایت کے ساتھ ترجمہ کیا ہے اور اس میں دیباچہ فتح الرحمن کا بھی ترجمہ کیا ہے اور کتاب کے آخر میں منیر الدین دمشقی کا عربی ترجمہ شائع کر دیا ہے ۔ مولانا ے ٰسین اختر مصباحی نے حسب روایت بہترین ترجمہ کیا ہے ۔ الفوزالکبیر کی ابواب بندی اور فصل بندی اچھے انداز میں کی ہے ۔ ترجمہ میں بڑی سلاست اور روانی ہے اور مراد مصنف کے قریب تر ہے ۔ شاہ ولی اﷲ کی گراں قدر تصنیف کو گراں قدر اور خوبصورت انداز میں اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔ مولانا اس کام کیلئے قابل مبارکباد ہیں ۔ الفوز الکبیر کے فارسی قلمی نسخے کم و بیش 25 کی تعداد میں دستیاب ہیں ۔ اگر مولانا اس کتاب کا ایک محقق ایڈیشن شائع کر دیتے تو یہ بڑی بڑی گراں قدر خدمت ہوتی۔ امید ہے کہ اشاعت ثانی کے وقت مولانا متبحر عالم یہ علمی خدمت بھی انجام دے کر ہم جیسے طالب علموں کو مشکور فرمائیں گے ۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی نے رجوع الی القرآن کی تحریک شروع کی تھی، وقت کے ساتھ اس میں برگ و بار آئے اور رفتہ رفتہ یہ تحریک پھیلتی چلی گئی۔ آج اصول تفیسر اور مطالعہ قرآن پر مزید بہت سے کام ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔ شاہ صاحب کی یہ تحریک عالمگیریت اختیار کرگئی اور مستقبل میں اس پر مزید کام ہوں گے اور یہ سب دراصل شاہ صاحب کی اس روایت کا فروغ اور ارتقاء ہے لیکن یہاں ایک سچائی کی طرف اور توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ شاہ صاحب نے یہ تمام علمی و فکر عملی کام قرآن فہمی کے باب میں محض اہل علم کیلئے نہیں کئے تھے بلکہ دراصل وہ اس کو ہر قرآن پڑھنے والے کیلئے عام کر دینا چاہتے تھے ۔ کیا وہ وقت نہیں آ گیا ہے کہ آسان زبان میں شاہ صاحب کے ان کاموں کو گھر گھر پہنچاکر عام کیا جائے ؟
(مضمون نگار ذا کر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹیڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سربراہ ہیں )
بشکریہ :
تعمیر نیوز : شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ایک شاہکار تصنیف
ان کی شہرت صرف ہندوستان گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر ہے ۔ عالم عرب میں بھی ان کی شہرت ہے اور یوروپ و امریکہ میں بھی ان کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے ۔ وہ بلاشبہ اٹھارہویں صدی کے مجدد تھے اور تاریخ کے ایک ایسے دورا ہے پر پیدا ہوئے جب زمانہ ایک نئی کروٹ لے رہا تھا، مسلم اقتدار کی سیاسی بساط لپیٹی جا رہی تھی، عقلیت پرستی اور استدلالیت کا غلبہ ہو رہا تھا۔
اس وقت حضرت شاہ ولی ﷲ نے کار تجدید انجام دیا اور اس کاز کے لیے جدوجہد کی کہ مسلمان نئے زمانے سے کس طرح ہم آہنگ رہیں۔
آپ نے حجۃ اﷲ البالغہ جیسی شہرہ آفاق کتاب لکھی، موطا امام مالک کی شرح لکھی۔ مسلکی گروہ بندی کو کم کرنے کی طرح ڈالی اور یہ سب آج سے 250 سال قبل کیا تھا جب کوئی شخص ان اصطلاحوں میں سوچنے کیلئے تیار ہی نہیں تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ شاہ ولی اﷲ کا ایک بڑا اور غیر معمولی کارنامہ "رجوع الی القرآن" کی تحریک ہے ۔ شاہ صاحب کے نزدیک مسلمانوں کے لیے نسخہ شافی یہی تھا کہ وہ قرآن مجید کی طرف رجوع کریں اور قرآن مجید کو اپنی زندگی اور اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز و محور بنائیں۔
چانچہ انہوں نے بتایا کہ بچے کو سب سے پہلے قرآن پڑھانا چاہئے تاکہ وہ احکم الحاکمین کے پیغام کو سمجھ لے ۔ چوں کہ ہندوستان میں عربی زبان کا رواج نہیں تھا اس لئے انہوں نے قرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ دوران ترجمہ شاہ صاحب کے سامنے بہت سے علوم و معارف اور مسائل و مشکلات واشگاف ہوئے ۔ شاہ صاحب نے ان کو حل کرنے کی کوشش کی اور اس کیلے متعدد کتابیں اور رسالے لکھے ۔
ترجمہ کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے "مقدمہ در قوانین ترجمہ" کی تصنیف فرمائی۔ لیکن شاہ ولی اﷲ کا ایک بے مثال اور پائیدار کارنامہ "تفسیر قرآن کے اصول" ہے ۔
قرآن مجید کی بے شمار تفسیریں لکھی گئیں لیکن "اصول تفسیر" کسی نے نہیں لکھی۔ یہ سعادت قسام ازل نے سرزمین ہند میں دہلی کی خاک کیلئے ارزاں کی تھی کہ اس کی خاک سے وہ شخصیت اٹھے جو اس موضوع پر سب سے پہلی کتاب لکھے۔
شاہ صاحب کی اس کتاب کا نام "الفوز الکبیر فی اصول التفسیر" ہے ۔ چونکہ اپنے موضوع پر یہ ایک منفرد کتاب تھی اس لئے اناً فاناً سارے عالم اسلام میں اس کی شہرت پھیل گئی۔ اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ ہوا۔ یہ ترجمہ مصر میں ہوا تھا اور منیر الدین دمشقی نے کیا تھا۔
اس وقت عالم اسلام کے خطے میں فارسی کا چلن تھا اس لئے یہ کتاب فارسی زبان میں بھی پڑھائی جاتی رہی اور عالم عرب میں منیر الدین دمشقی کا عربی ترجمہ رائج رہا اور تقریباً تمام مدارس اسلامیہ میں یہ کتاب داخل نصاب رہی۔
دور جدید میں جب تحقیق و تحشیہ کے نئے معیارات سامنے آئے تو اس کتاب کی طرف بھی لوگوں کی توجہ دوبارہ مبذول ہوئی اور اس پر تحقیق اور اس کے مزید رواں دواں ترجمہ کی تلاش شروع ہوئی۔
مولانا سلمان ندوی نے اس کا دوبارہ عربی ترجمہ کیا ہے ۔ یہ ترجمہ عربی زبان کے اسلوب شناسوں کے نزدیک کافی شستہ اور رواں ہے لیکن اہل علم اور بالخصوص مطالعات قرآنی سے شغفت رکھنے والوں نے اس سلسلے کو روکا نہیں اور اسی ضمن میں دارالعلوم دیوبند کے مشہور استاد حدیث مفتی محمد سعید پالن پوری نے اصل فارسی متن سے اس کا عربی میں ترجمہ کیا، اور اردو و عربی میں شرح بھی لکھی۔
الفوز الکبیر کا ایک اردو ترجمہ علی گڑھ میں مولانا سعید انصاری نے بھی کیا تھا۔ وہ ترجمہ اگرچہ خاصا لفظی ہے لیکن کافی مقبول رہا ہے ۔ ان تراجم مے علاوہ بھی الفوز الکبیر اور ترجمہ و تفسیر سے متعلق شاہ ولی اﷲ کی کتابوں پر کام ہوتے رہے ہیں ۔ بعض پر سمینار ہوئے ۔ پروفیسر سعود عالم قاسمی نے شاہ ولی اﷲ کی قرآنی فکر پر مستقل کتاب لکھی۔ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے بھی بعض پہلوؤں پر کام کیا جن میں الفوز الکبیر کے ضمیمہ الخیر الکثیر کے تعارف پر ان کا گراں قدر مقالہ علمی حلقوں میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔ اس ضمن میں اسلام اور عصر جدید کا خصوصی شمارہ "شاہ ولی اﷲ: افکار و آثار" بھی قابل ذکر ہے ۔ یہ رسالہ جنوری ۔ اکتوبر 2010ء میں شائع ہوا۔ اس میں بھی دیگر موضوعات کے علاوہ شاہ ولی اﷲ کی قرآنی خدمات کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے ۔ پروفیسر عبدالقادر جعفری صاحب نے مستقل اسی عنوان پر مقالہ لکھا ہے اور ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی نے ترجمہ و تفسیر سے متعلق شاہ صاحب کے رسالوں کا اصل فارسی سے بڑا عالمانہ اردو ترجمہ کیا ہے ۔ اس میں الفوز الکبیر، مقدمہ در قوانین ترجمہ اور دیبا چہ فتح الرحمن شامل ہیں ۔ آخر کے دونوں رسالوں کے اصل فارسی متن بھی شائع کئے ہیں ۔ یہ رسالہ خاصہ مقبول ہوا اور اب کتابی شکل میں بھی شائع ہو گیا ہے ۔ ہمارے عہد کے ایک صاحب قلم اور صاحب علم و تحقیق مولانا ے ٰسین اختر مصباحی نے بھی اس کار خیر میں شرکت کی اور حال ہی میں الفوز الکبیر فی اصول التفیسر کا اردو ترجمہ سامنے آیا۔ یہ ترجمہ جیسا کہ سرورق پر لکھی ہوئی عبارت سے واضح ہوتا ہے اصل فارسی متن سے کیا گیا ہے ۔ اس لئے امید ہے کہ مراد صنف کے قریب ترین ہے ۔ مولاناے ٰسین مصباحی کا قلم بڑا سیال اور رواں دواں ہے ۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر بہترین تحقیقی مقالات اور کتابیں لکھی ہیں ۔ معاصر علماء کے درمیان ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں اور قلم پر اپنی بہترین قدرت کی وجہہ سے "رئیس القلم" کہلاتے ہیں ۔ اس کتاب میں آپ کی قدرت نمایاں طورپر محسوس کی جاسکتی ہے ۔ شروع میں انہوں نے تہدیہ بخدمت مشاہیر علماء و مشائخ اہل سنت کیا ہے ۔ اس میں 25!علماء کے نام اور تاریخ وفات ہے ۔ اگلے صفحے پر اپنے ادارہ کے نام انتساب جس میں قلم پر قدرت کا ایک خصوبصورت نمونہ ہے ۔ اس کے بعد اصل کتاب شروع ہوتی ہے ۔ باب اور فصل کی رعایت کے ساتھ ترجمہ کیا ہے اور اس میں دیباچہ فتح الرحمن کا بھی ترجمہ کیا ہے اور کتاب کے آخر میں منیر الدین دمشقی کا عربی ترجمہ شائع کر دیا ہے ۔ مولانا ے ٰسین اختر مصباحی نے حسب روایت بہترین ترجمہ کیا ہے ۔ الفوزالکبیر کی ابواب بندی اور فصل بندی اچھے انداز میں کی ہے ۔ ترجمہ میں بڑی سلاست اور روانی ہے اور مراد مصنف کے قریب تر ہے ۔ شاہ ولی اﷲ کی گراں قدر تصنیف کو گراں قدر اور خوبصورت انداز میں اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔ مولانا اس کام کیلئے قابل مبارکباد ہیں ۔ الفوز الکبیر کے فارسی قلمی نسخے کم و بیش 25 کی تعداد میں دستیاب ہیں ۔ اگر مولانا اس کتاب کا ایک محقق ایڈیشن شائع کر دیتے تو یہ بڑی بڑی گراں قدر خدمت ہوتی۔ امید ہے کہ اشاعت ثانی کے وقت مولانا متبحر عالم یہ علمی خدمت بھی انجام دے کر ہم جیسے طالب علموں کو مشکور فرمائیں گے ۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی نے رجوع الی القرآن کی تحریک شروع کی تھی، وقت کے ساتھ اس میں برگ و بار آئے اور رفتہ رفتہ یہ تحریک پھیلتی چلی گئی۔ آج اصول تفیسر اور مطالعہ قرآن پر مزید بہت سے کام ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔ شاہ صاحب کی یہ تحریک عالمگیریت اختیار کرگئی اور مستقبل میں اس پر مزید کام ہوں گے اور یہ سب دراصل شاہ صاحب کی اس روایت کا فروغ اور ارتقاء ہے لیکن یہاں ایک سچائی کی طرف اور توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ شاہ صاحب نے یہ تمام علمی و فکر عملی کام قرآن فہمی کے باب میں محض اہل علم کیلئے نہیں کئے تھے بلکہ دراصل وہ اس کو ہر قرآن پڑھنے والے کیلئے عام کر دینا چاہتے تھے ۔ کیا وہ وقت نہیں آ گیا ہے کہ آسان زبان میں شاہ صاحب کے ان کاموں کو گھر گھر پہنچاکر عام کیا جائے ؟
(مضمون نگار ذا کر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹیڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سربراہ ہیں )
بشکریہ :
تعمیر نیوز : شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ایک شاہکار تصنیف