• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جس کے پاس دعوت اسلام نہ پہنچی ، کیا جنت میں جائے گا ؟

Muhammad Raza

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2016
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
کیا کوئی ایسی حدیث ہے جس میں کہا گیا ہو کہ ایسا انسان جس کے پاس کبھی بھی اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو وہ جنت میں جائے گا؟
 

Muhammad Raza

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2016
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
اس حدیث کے بارے میں میں کچھ جاننا چاہتا ہوں۔
 

Muhammad Raza

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2016
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حوض اور شفاعت کا بیان ۔ حدیث 151
قیامت کے دن شفاعت وغیرہ سے متعلق کچھ اور باتیں
راوی:
وعن أبي سعيد الخدري أن أناسا قالوا يا رسول الله هل نرى ربنا يوم القيامة ؟ قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " نعم هل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر صحوا ليس فيها سحاب ؟ " قالوا : لا يا رسول الله قال : " ما تضارون في رؤية الله يوم القيامة إلا كما تضارون في رؤية أحدهما إذا كان يوم القيامة أذن مؤذن ليتبع كل أمة ما كانت تعبد فلا يبقى أحد كان يعبد غيرالله من الأصنام والأنصاب إلا يتساقطون في النار حتى إذا لم يبق إلا من كان يعبد الله من بر وفاجر أتاهم رب العالمين قال : فماذا تنظرون ؟ يتبع كل أمة ما كانت تعبد . قالوا : ياربنا فارقنا الناس في الدنيا أفقر ما كنا إليهم ولم نصاحبهم "
(3/212)
5579 – [ 14 ] ( متفق عليه )
وفي رواية أبي هريرة " فيقولون : هذا مكاننا حتى يأتينا ربنا فإذا جاء ربنا عرفناه "وفي رواية أبي هريرة " فيقولون : هذا مكاننا حتى يأتينا ربنا فإذا جاء ربنا عرفناه "
وفي رواية أبي سعيد : " فيقول هل بينكم وبينه آية تعرفونه ؟ فيقولون : نعم فيكشف عن ساق فلا يبقى من كان يسجد لله من تلقاء نفسه إلا أذن الله له بالسجود ولا يبقى من كان يسجد اتقاء ورياء إلا جعل الله ظهره طبقة واحدة كلما أراد أن يسجد خر على قفاه ثم يضرب الجسر على جهنم وتحل الشفاعة ويقولون اللهم سلم سلم فيمر المؤمنون كطرف العين وكالبرق وكالريح وكالطير وكأجاويد الخيل والركاب فناج مسلم ومخدوش مرسل ومكدوس في نار جهنم حتى إذا خلص المؤمنون من النار فوالذي نفسي بيده ما من أحد منكم بأشد مناشدة في الحق – قد تبين لكم – من المؤمنين لله يوم القيامة لإخوانهم الذين في النار يقولون ربنا كانوا يصومون معنا ويصلون ويحجون فيقال لهم : أخرجوا من عرفتم فتحرم صورهم على النار فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقولون : ربنا ما بقى فيها أحد ممن أمرتنا به . فيقول : ارجعوا فمن وجدتم في قلبه مثقال دنيار من خير فأخرجوه فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقول : ارجعوا فمن وجدتم في قلبه مثقال نصف دينار من خير فأخرجوه فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقول : ارجعوا فمن وجدتم في قلبه مثقال ذرة من خير فأخرجوه فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقولون : ربنا لم نذر فيها خيرا فيقول الله شفعت الملائكة وشفع النبيون وشفع المؤمنون ولم يبق إلا أرحم الراحمين فيقبض قبضة من النار فيخرج منها قوما لم يعملوا خيرا قط قد عادوا حمما فيلقيهم في نهر في أفواه الجنة يقال له : نهر الحياة فيخرجون كما تخرج الحبة في حميل السيل فيخرجون كاللؤلؤ في رقابهم الخواتم فيقول أهل الجنة : هؤلاء عتقاء الرحمن أدخلهم الجنة بغير عمل ولا خير قدموه فيقال لهم لكم ما رأيتم ومثله معه " . متفق عليه
" اور حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ( ایک دن مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ) کچھ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا قیامت کے دن ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں دیکھو گے ۔ " ( پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیدار الہٰی کے ثبوت کو واضح کرنے کے لئے لوگوں سے سوال کیا کہ ) کیا تم لوگ دوپہر کے وقت جب کہ آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا بھی نہ ہو ، سورج کو دیکھنے میں کوئی رکاوٹ وتکلیف محسوس کرتے ہو ؟ " لوگوں نے عرض کیا کہ ہرگز نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فرمایا " تو پھر قیامت کے دن تم اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں بھی کوئی رکاوٹ وتکلیف محسوس نہیں کروگے ، ہاں جیسا کہ تم ان دونوں ( یعنی سورج وچاند ) میں سے کسی کو دیکھنے میں رکاوٹ وتکلیف محسوس کرتے ہو ۔ ( اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) جب قیامت کا دن برپا ہوگا ( اور تمام مخلوق میدان محشر میں جمع ہوگی ، تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ جو طبقہ ( دنیا میں ) جس چیز کی عبادت کرتا تھا وہ اسی کے پیچھے رہے ، چنانچہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے بجائے بتوں اور انصاب کو پوجتے تھے ۔ ان میں سے کوئی ایک بھی باقی نہیں بچے گا اور سب کے سب دوزخ میں جا گریں گے ۔ کیونکہ انصاب اور بت کہ جن کی پوجا ہوتی تھی ، دوزخ میں پھینکے جائیں گے ، لہٰذا ان کے ساتھ ان کی پوجا کرنے والے بھی دوزخ میں ڈالے جائیں گے ) یہاں تک کہ جب ان لوگوں کے سوا کوئی موجود نہیں رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے وہ خواہ نیک ہوں یا بد ، تو تمام جہانوں کا پروردگار ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا کہ تم کس کے منتظر ہو؟ ہر طبقہ اس چیز کے پیچھے پیچھے چلا جارہا ہے جس کی وہ عبادت کرتا تھا ( تو تم پھر یہاں کیوں کھڑے ہو ، تم بھی کیوں نہیں چلے جاتے وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہمارے پروردگار ! ہم نے دنیا میں ان لوگوں سے کہ جو دنیا میں غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے اور اب اپنے معبودوں کے پیچھے پیچھے دوزخ میں چلے جائیں گے ) پوری طرح جدائی اختیار کر رکھی تھی حالانکہ ہم ( اپنی دنیاوی ضرورتوں میں ) ان لوگوں ( کی مددواعانت ) کے ضرورت مند تھے لیکن ہم نے کبھی ان کی صحبت وہمنشینی کو گوارا نہیں کیا ( اور نہ کبھی ان کی اتباع کی بلکہ ہمیشہ ان کے مدمقابل رہے اور صرف تیری رضا کی خاطر ان سے جنگ وجدال کرتے رہے ، پس اب جب کہ ہم ان کے کسی طرح سے ضرورت مند بھی نہیں ہیں اور ان سب کی منزل بھی دوزخ ہے ، تو ہم ان کے ساتھ کیسے چلے جاتے ) اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں یہاں یوں نقل کیا گیا ہے کہ وہ لوگ ( جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے ۔ یہ کہیں گے کہ ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک ہمارا پروردگار ہمارے پاس نہیں آئے گا یعنی جب تک وہ ہم پر اس طرح سے تجلی نہ فرمائے جس کے سبب ہم اس کو پہچان لیں کہ یہی ہمارا پرودگار ہے اور جب ہمارا پروردگار ( اپنی تجلی وصفات کے اظہار کی صورت میں کہ جس کے سبب ہم اس کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں ) ہمارے پاس آئے گا تو ہم اس کو ( اچھی طرح ) پہچان لیں گے اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ کیا تمہارے پروردگار کے درمیان نشانی ہے جس کے ذریعے تم اس کو پہچان لوگے ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں نشانی ہے تب اللہ کی پنڈلی کھولی جائے گی اور اس موقع پر اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو سجدہ کی اجازت وتوفیق عطا فرمائے گا جو ( دنیا میں کسی کو دکھانے سنانے اور کسی خوف اور لالچ کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنے نفس کے تقاضے یعنی اخلاص وعقیدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا تھا اور ہر وہ شخص کہ ( جو دنیا میں ) کسی خوف سے یا لوگوں کو دکھانے سنانے کے لئے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا تھا اللہ تعالیٰ اس کی کمر کو ایک پورا تختہ بنا دے گا ( یعنی اس کو پیٹھ وکمر کی ہڈیوں کے جوڑ بالکل ختم کر دئیے جائیں گے اور اس کی پوری پیٹھ ایک تختہ بن جائے گی تاکہ وہ جھک نہ سکے اور نہ سجدہ کر سکے ) چنانچہ وہ سجدہ میں جانے کے لئے جھکنا چاہے گا تو چت گر پڑے گا پھر دوزخ کے اوپر ( اس کے بیچوں بیچ ) پل صراط کو رکھا جائے گا اور شفاعت کی اجازت عطا کی جائے گی ، چنانچہ تمام انبیاء علیہم السلام ( اپنی اپنی امتوں کے حق میں طلب استقامت وسلامتی کے لئے ) یہ دعا کریں گے کہ اے اللہ ! ان کو پل صراط کے اوپر سے ) سلامتی سے گزار دے ، ان کو دوزخ میں گرنے سے محفوظ رکھ ۔ پس مسلمان لوگ ( پل صراط کے اوپر سے اس طرح) سے گزریں گے کہ بعض تو پل جھپکتے ہی گزر جائیں گے ، بعض کو ندے کی طرح نکل جائیں گے ، بعض ہوا کے جھونکے کی مانند بعض پرندوں کی اڑان کی مانند ، گزریں گے پس ان میں سے کچھ مسلمان تو وہ ہونگے جو دوزخ کی آگ سے بالکل سلامتی اور نجات پائے ہونگے ( یعنی پل صراط کے اوپر سے گزرنے کے وقت ان کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا ) اور کچھ مسلمان وہ ہونگے جو زخم کھا کر نکلیں گے اور ( دوزخ کی آگ سے نجات پالیں گے ، تو قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی بھی شخص ظاہر ثابت شدہ حق کے حصول میں اتنی شدید جدوجہد اور سختی نہیں کرتا جتنی شدید جدوجہد مؤمن قیامت کے دن اپنے ان بھائیوں کی نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں کریں گے جو دوزخ میں ہوں گے وہ مؤمن کہیں گے کہ " ہمارے پروردگار ! یہ لوگ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ حج کرتے تھے ( یعنی ان کی نماز ہماری نمازوں کی طرح ہوتی تھی اور ان کا حج ہمارے ہی حج کی طریقہ سے ہوتا تھا پس تو ان کو بھی دوزخ سے نجات دیدے " ) ان سے کہا جائے گا کہ جاؤ اور جن لوگوں کو تم ( اپنی مذکورہ شہادت کی روشنی میں ) پہچانتے ہو انہیں ( دوزخ ) سے نکال لو ، پس دوزخ کی آگ پر ان کی صورتوں کو حرام کر دیا جائے گا ۔ چنانچہ وہ مؤمن بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لیں گے ۔ پھر کہیں گا کہ ہمارے پروردگار ! جن لوگوں کو تو نے ( دوزخ ) سے نکالنے کا حکم دیا تھا ( یعنی اہل نماز ، اہل زکوۃ اور اہل حج وغیرہ ) ان میں سے اب دوزخ میں کوئی باقی نہیں رہا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا پھر جاؤ اور ہر اس شخص کو بھی دوزخ سے نکال لو جس کے دل میں تم دینار برابر بھی نیکی پاؤ پس وہ مؤمن ( جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا ، اور اب ہر شخص کو دوزخ سے نکال لو جس کے دل میں آدھے دینار برابر بھی نیکی پاؤ ، پس وہ مؤمن جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ جاؤ اور اب اس شخص کو دوزخ سے نکال لو جس کے دل میں تم از قسم نیکی ذرہ برابر بھی کوئی چیز پاؤ پس وہ مؤمن جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے اور کہیں گے کہ پروردگار ! ہم نے دوزخ میں بھلائی کو باقی نہیں رہنے دیا ہے ( یعنی دوزخ میں اب ایسا کوئی شخص باقی نہیں بچا ہے جس کے دل میں اصل ایمان کے علاوہ ادنی سے ادنی درجہ کی اور ذرہ برابر بھی بلکہ ذرہ سے کمتر کوئی نیکی ہو خواہ اس نیکی کا تعلق اعمال سے ہو یا افعال قلب سے ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فرشتوں نے شفاعت کرلی اور پیغمبروں نے بھی شفاعت کرلی ) اور مؤمنوں نے بھی شفاعت کرلی ) اور ان سب کے شفاعت کا تعلق ان لوگوں سے تھا جن کا نامہ اعمال میں کوئی نہ کوئی نیکی ضرور تھی خواہ وہ نیکی ذرہ کے برابر یا اس سے کمتر درجہ ہی کیوں نہ ہو اور اس طرح ، اب کوئی ایسی کوئی ذات باقی نہیں رہ گئی ہے ( جو خود بھلائی پہنچانے یا بھلائی پہنچانے والے سے سفارش وشفاعت کے ذریعہ کسی کے ساتھ رحم ومروت اور عنایت وہمدردری کا معاملہ کرے لیکن ابھی ارحم الراحمین کی ذات باقی ہے ( جس کی رحمت جس کا کرم اور جس کی عنایت ہر ایک پر سایہ فگن ہے اور اس کی رحمت وعنایت کے اثرات کے مقابلہ ہر ایک کی رحمت وعنایت ہیچ ہے اور ( یہ فرما کر ) اللہ تعالیٰ دوزخ میں سے اپنی مٹھی بھر کر ( ان ) لوگوں کو نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھی کوئی ( چھوٹی یا بڑی ) نیکی کی ہی نہیں ہوگی ، یہ لوگ دوزخ میں ( جلتے رہنے کی وجہ سے ) کوئلہ بن چکے ہوں گے ، چنانچہ ان کو اس نہر میں ڈالے گا جو جنت کے دروازوں کے سامنے ہے اور جس کو " نہر حیات " کہا جائے گا ، اور پھر یہ لوگ اس نہر سے اس طرح تروتازہ نکلیں گے جیسے دانہ سیلاب کے کوڑے کچرے میں اگتا ہے ( یعنی جس طرح سیلابی کوڑے کچرے میں پڑا ہوا دانہ بہت جلد اگ آتا ہے اور خوب ہرا بھرا معلوم ہوتا ہے ، اس طرح یہ لوگ بھی اس نہر میں غوطہ دلائے جانے کے بعد نہایت تیزی کے ساتھ بہتر جسمانی حالت میں واپس آجائیں گے اور خوب تروتازہ اور توانا معلوم ہوں گے ) نیز یہ لوگ ( اس نہر سے ) موتی کی مانند پاک و شفاف باہر آئیں گے ان کی گردنوں میں مہریں لٹکی ہوئی ہوں گی چنانچہ ( جب اہل جنت ان لوگوں کو ( ان کی امتیازی علامتوں کے ساتھ ) دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ وہ ( خوش نصیب ) لوگ ہیں جو خدائے رحمان کے آزاد کئے ہوئے ہیں ، ان کو اللہ تعالیٰ نے ( اپنے خاص فضل وکرم کے تحت ، اس امر کے باوجود جنت میں داخل کیا ہے کہ انہوں نے ( دنیا میں ) کوئی نیک عمل کیا تھا اور نہ انہوں نے (کم سے کم افعال قلب ہی کی صورت میں ، کوئی نیکی کرکے آگے بھیجی تھی اور پھر ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) ان نو آزاد لوگوں سے کہا جائے گا کہ ) بلکہ جنت میں تم جو کچھ دیکھ رہے ہو ( یعنی تمہاری حد نظر تک تمہیں جو اعلی سے اعلی نعمتیں نظر آرہی ہے ) نہ صرف یہ بلکہ ان ہی جیسی اور بہت سی نعمتیں بھی ، سب تمہارے لئے ہیں ۔ " ( بخاری)۔
 

Muhammad Raza

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2016
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
اِس حدیث کے اُردو ترجمے میں کچھ الفاظ صحیح نہیں استعمال کیے گے۔ جیسے ایمان کی جگہ نیکی لکھی ہوئی ہے۔
 

Muhammad Raza

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2016
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
مرجیہ اِس حدیث کے ایک جملے سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کافروں کو بھی جھنم سے نجات دلا دے کا۔لیکن اُن کی یہ دلیل صحیح نہیں ہیں کیوں کے دوسرے بہت سی جگہوں پر ہے کہ کافر ہمیشہ جھنم میں رہیں گے ۔ اور وہ جو لوگ جھنم سے نکالے جائیں گے وہ مسلمان بھی نہیں ہو گے کیوں کہ تمام مسلمان جن کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو گا اُن کو جھنم سے نکال لیا جائے گا۔ آخر میں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر وہ لوگ مسلمان بھی نہیں ہوں گے اور کافر بھی نہیں ہو گے تو کون ہوں گے؟
 

Muhammad Raza

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2016
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
اِس حدیث کو پوسٹ کیے ہوئے دو تین دن ہو گئے ہیں۔ لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔اس فارم میں کوئی محدث ہے بھی کہ نہیں یا ویسے ہی محدث فارم نام رکھ لیا ہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
کیا کوئی ایسی حدیث ہے جس میں کہا گیا ہو کہ ایسا انسان جس کے پاس کبھی بھی اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو وہ جنت میں جائے گا؟
ایسی کوئی حدیث میرے علم میں نہیں ہے ، البتہ بعض آیات اور احادیث سے یہ مفہوم سمجھ آتا ہے کہ دعوت پہنچنے کے بغیر کسی کو سزا و جزا نہیں ملے گی ، مثلا :
فرمان الہی ہے :
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً
ہم رسول کو بھیج کر اتمام حجت کے بغیر عذاب نہیں دیتے ۔
جس کے پاس دین کی دعوت نہیں پہنچی ، گویا اس کے لیے رسول کی بعثت ہوئی ہی نہیں ۔
اللہ کے رسول فرماتے ہیں :
((والذي نفسي بيده لا يسمع بي أحد من هذه الأمة، يهودي ولا نصراني ثم يموت ولم يؤمن بالذي أُرسلت به، إلا كان من أهل النار))
اللہ کی قسم میری دعوت کو جس یہودی و نصرانی نے سنا پھر ایمان لائے بغیر مر گیا تو آگ میں داخل ہوگا ۔ ( صحیح مسلم ، کتاب الایمان 153 )
یہاں بھی دعوت پہنچنے کے ساتھ عذاب کو معلق کیا گیا ہے ، اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی کو دعوت ہی نہیں پہنچی تو وہ عذاب کا مستحق نہیں ۔
ایسے لوگوں کے بارے میں سلف صالحین کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ کہ قیامت والے دن ان کا متحان لیا جائے گا ، اگر پاس ہوگئے تو جنت میں ، فیل ہوگئے تو جہنم میں ۔ واللہ اعلم الصواب ۔ ( تفصیل یہاں ملاحظہ کریں )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر ابن کثیر کے اندر مذکورہ آیت کے تحت تفصیلی گفتگو کی ہے ، جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے :
باقی رہا یہ مسلہ کہ کافروں کے جو نابالغ چھوٹے بچے بچپن میں مر جاتے ہیں اور جو دیوانے لوگ ہیں اور نیم بہرے اور جو ایسے زمانے میں گزرے ہیں جس وقت زمین پر کوئی رسول یا دین کی صحیح تعلیم نہیں ہوتی اور انہیں دعوت اسلام نہیں پہنچتی اور جو بالکل بڈھے حواس باختہ ہوں ان کے لئے کیا حکم ہے ؟ اس بارے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے۔ ان کے بارے میں جو حدیثیں ہیں وہ میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں پھر ائمہ کا کلام بھی مختصرا ذکر کروں گا، اللہ تعالیٰ مدد کرے۔
پہلی حدیث مسند احمد میں ہے چار قسم کے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے گفتگو کریں گے ایک تو بالکل بہرا آدمی جو کچھ بھی نہیں سنتا اور دوسرا بالکل احمق پاگل آدمی جو کچھ بھی نہیں جانتا، تیسرا بالکل بڈھا پھوس آدمی جس کے حواس درست نہیں، چوتھے وہ لوگ جو ایسے زمانوں میں گزرے ہیں جن میں کوئی پیغمبر یا اس کی تعلیم موجود نہ تھی۔ بہرا تو کہے گا اسلام آیا لیکن میرے کان میں کوئی آواز نہیں پہنچی، دیوانہ کہے گا کہ اسلام آیا لیکن میری حالت تو یہ تھی کہ بچے مجھ پر مینگنیاں پھینک رہے تھے اور بالکل بڈھے بے حواس آدمی کہیں گے کہ اسلام آیا لیکن میرے ہوش حواس ہی درست نہ تھے جو میں سمجھ کرسکتا رسولوں کے زمانوں کا اور ان کی تعلیم کو موجود نہ پانے والوں کا قول ہوگا کہ نہ رسول آئے نہ میں نے حق پایا پھر میں کیسے عمل کرتا ؟ اللہ تعالیٰ ان کی طرف پیغام بھیجے گا کہ اچھا جاؤ جہنم میں کود جاؤ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر وہ فرماں برداری کرلیں اور جہنم میں کود پڑیں تو جہنم کی آگ ان پر ٹھنڈک اور سلامتی ہوجائے گی۔ اور روایت میں ہے کہ جو کود پڑیں گے ان پر تو سلامتی اور ٹھنڈک ہوجائے گی اور جو رکیں گے انہیں حکم عدولی کے باعث گھسیٹ کی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
ابن جریر میں اس حدیث کے بیان کے بعد حضرت ابوہریرہ (رض) کا یہ فرمان بھی ہے کہ اگر تم چاہو تو اس کی تصدیق میں کلام اللہ کی آیت (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا 15؀) 17۔ الإسراء :15) پڑھ لو
دوسری حدیث ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ ہم نے حضرت انس (رض) سے سوال کیا کہ ابو حمزہ مشرکوں کے بچوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ وہ گنہگار نہیں جو دوزخ میں عذاب کئے جائیں اور نیکوکار بھی نہیں جو جنت میں بدلہ دئے جائیں۔
تیسری حدیث ابو یعلی میں ہے کہ ان چاروں کے عذر سن کر جناب باری فرمائے گا کہ اوروں کے پاس تو میں اپنے رسول بھیجتا تھا لیکن تم سے میں آپ کہتا ہوں کہ جاؤ اس جہنم میں چلے جاؤ جہنم میں سے بھی فرمان باری سے ایک گردن اونچی ہوگی اس فرمان کو سنتے ہی وہ لوگ جو نیک طبع ہیں فورا دوڑ کر اس میں کود پڑیں گے اور جو باطن ہیں وہ کہیں گے اللہ پاک ہم اسی سے بچنے کے لئے تو یہ عذر معذرت کر رہے تھے اللہ فرمائے گا جب تم خود میری نہیں مانتے تو میرے رسولوں کی کیا مانتے اب تمہارے لئے فیصلہ یہی ہے کہ تم جہنمی ہو اور ان فرمانبرداروں سے کہا جائے گا کہ تم بیشک جنتی ہو تم نے اطاعت کرلی۔
چوتھی حدیث مسند حافظ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسلمانوں کی اولاد کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہے۔ پھر مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ، تو کہا گیا یا رسول اللہ انہوں نے کوئی عمل تو نہیں کیا آپ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ انہیں بخوبی جانتا ہے۔
پانچویں حدیث حافظ ابو بکر احمد بن عمر بن عبدالخالق بزار (رح) اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اہل جاہلیت اپنے بوجھ اپنی کمروں پر لادے ہوئے آئیں گے اور اللہ کے سامنے عذر کریں گے کہ نہ ہمارے پاس تیرے رسول پہنچے نہ ہمیں تیرا کوئی حکم پہنچا اگر ایسا ہوتا تو ہم جی کھول کر مان لیتے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا اب اگر حکم کروں تو مان لو گے ؟ وہ کہیں گے ہاں ہاں بیشک بلا چون و چرا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا اچھا جاؤ جہنم کے پاس جا کر اس میں داخل ہوجاؤ یہ چلیں گے یہاں تک کہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اب جو اس کا جوش اور اس کی آواز اور اس کے عذاب دیکھیں گے تو واپس آ جائیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہمیں اس سے تو بچا لے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھو تو اقرار کرچکے ہو کہ میری فرمانبرداری کرو گے پھر یہ نافرمانی کیوں ؟ وہ کہیں گے اچھا اب اسے مان لیں گے اور کر گزریں گے چنانچہ ان سے مضبوط عہد و پیمان لئے جائیں گے، پھر یہی حکم ہوگا یہ جائیں گے اور پھر خوفزدہ ہو کر واپس لوٹیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہم تو ڈر گئے ہم سے تو اس فرمان پر کار بند نہیں ہوا جاتا۔ اب جناب باری فرمائے گا تم نافرمانی کرچکے اب جاؤ ذلت کے ساتھ جہنمی بن جاؤ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر پہلی مرتبہ ہی یہ بحکم الہٰی اس میں کود جاتے تو آتش دوزخ ان پر سرد پڑجاتی اور ان کا ایک رواں بھی نہ جلاتی۔
امام بزار (رح) فرماتے ہیں اس حدیث کا متن معروف نہیں ایوب سے صرف عباد ہی روایت کرتے ہیں اور عباد سے صرف ریحان بن سعید روایت کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں اسے ابن حبان نے ثفہ بتلایا ہے۔ یحیی بن معین اور نسائی کہتے ہیں ان میں کوئی ڈر خوف کی بات نہیں۔ ابو داؤد نے ان سے روایت نہیں کی۔ ابو حاتم کہتے ہیں یہ شیخ ہیں ان میں کوئی حرج نہیں۔ ان کی حدیثیں لکھائی جاتی ہیں اور ان سے دلیل نہیں لی جاتی۔
چھٹی حدیث۔ امام محمد بن یحیٰی ذہلی (رح) روایت لائے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے خالی زمانے والے اور مجنون اور بچے اللہ کے سامنے آئیں گے ایک کہے گا میرے پاس تیری کتاب پہنچی ہی نہیں، مجنوں کہے گا میں بھلائی برائی کی تمیز ہی نہیں رکھتا۔ بچہ کہے گا میں نے سمجھ بوجھ کا بلوغت کا زمانہ پایا ہی نہیں۔ اسی وقت ان کے سامنے آگ شعلے مارنے لگے گی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسے ہٹا دو تو جو لوگ آئندہ نیکی کرنے والے تھے وہ تو اطاعت گزار ہوجائیں گے اور جو اس عذر کے ہٹ جانے کے بعد بھی نافرمانی کرنے والے تھے وہ رک جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا جب تم میری ہی براہ راست نہیں مانتے تو میرے پیغمبروں کی کیا مانتے ؟
ساتویں حدیث۔ انہی تین شخصوں کے بارے میں اوپر والی احادیث کی طرح اس میں یہ بھی ہے کہ جب یہ جہنم کے پاس پہنچیں گے تو اس میں سے ایسے شعلے بلند ہوں گے کہ یہ سمجھ لیں گے کہ یہ تو ساری دنیا کو جلا کر بھسم کردیں گے دوڑتے ہوئے واپس لوٹ آئیں گے پھر دوبارہ یہی ہوگا اللہ عز و جل فرمائے گا۔ تمہاری پیدائش سے پہلے ہی تمہارے اعمال کی خبر تھی میں نے علم ہوتے ہوئے تمہیں پیدا کیا تھا اسی علم کے مطابق تم ہو۔ اے جہنم انہیں دبوچ لے چنانچہ اسی وقت آگ انہیں لقمہ بنا لے گی۔
آٹھویں حدیث حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ان کے اپنے قول سمیت پہلے بیان ہوچکی ہے۔ بخاری و مسلم میں آپ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " ہر بچہ دین اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں "۔ جیسے کہ بکری کے صحیح سالم بچے کے کان کاٹ دیا کرتے ہیں۔ لوگوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر وہ بچپن میں ہی مر جائے تو؟ آپ نے فرمایا اللہ کو ان کے اعمال کی صحیح اور پوری خبر تھی۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ مسلمان بچوں کی کفالت جنت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سپرد ہے۔
صحیح مسلم میں حدیث قدسی ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد یکسو مخلص بنایا ہے۔ ایک روایت میں اس کے ساتھ ہی مسلمان کا لفظ بھی ہے۔
نویں حدیث حافظ ابو بکر یرقانی اپنی کتاب المستخرج علی البخاری میں روایت لائے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے لوگوں نے باآواز بلند دریافت کیا کہ مشرکوں کے بچے بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں مشرکوں کے بچے بھی۔ طبرانی کی حدیث میں ہے کہ مشرکوں کے بچے اہل جنت کے خادم بنائے جائیں گے۔
دسویں حدیث مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت میں کون کون جائیں گے۔ آپ نے فرمایا نبی اور شہید بچے اور زندہ درگور کئے ہوئے بچے۔
علماء میں سے بعض کا مسلک تو یہ ہے کہ ان کے بارے میں ہم توقف کرتے ہیں، خاموش ہیں ۔۔۔
بعض کہتے ہیں یہ جنتی ہیں ان کی دلیل معراج والی وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری شریف میں حضرت سمرہ بن جندب (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے اس خواب میں ایک شیخ کو ایک جنتی درخت تلے دیکھا، جن کے پاس بہت سے بچے تھے۔ سوال پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں اور ان کے پاس یہ بچے مسلمانوں کی اور مشرکوں کی اولاد ہیں، لوگوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کی اولاد بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں مشرکین کی اولاد بھی۔
بعض علماء فرماتے ہیں یہ دوزخی ہیں کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہیں۔ بعض علماء کہتے ہیں ان کا امتحان قیامت کے میدانوں میں ہوجائے گا۔ اطاعت گزار جنت میں جائیں گے، اللہ اپنے سابق علم کا اظہار کر کے پھر انہیں جنت میں پہنچائے گا اور بعض بوجہ اپنی نافرمانی کے جو اس امتحان کے وقت ان سے سرزد ہوگی اور اللہ تعالیٰ اپنے پہلا علم آشکارا کر دے گا۔ اس وقت انہیں جہنم کا حکم ہوگا۔
اس مذہب سے تمام احادیث اور مختلف دلیلوں میں جمع ہوجاتی ہے اور پہلے کی حدیثیں جو ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں اس معنی کی کئی ایک ہیں۔ شیخ ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری (رح) نے یہی مذہب اہل سنت والجماعت کا نقل فرمایا ہے۔
اور اسی کی تائید امام بیہقی (رح) نے کتاب الاعتقاد میں کی ہے۔ اور بھی بہت سے محققین علماء اور پرکھ والے حافظوں نے یہی فرمایا ہے۔
شیخ ابو عمر بن عبد البر (رح) عزی نے امتحان کی بعض روایتیں بیان کر کے لکھا ہے اس بارے کی حدیثیں قوی نہیں ہیں اور ان سے جحت ثابت نہیں ہوتی اور اہل علم ان کا انکار کرتے ہیں اس لئے کہ آخرت دار جزا ہے، دار عمل نہیں ہے اور نہ دار امتحان ہے۔ اور جہنم میں جانے کا حکم بھی تو انسانی طاقت سے باہر کا حکم ہے اور اللہ کی یہ عادت نہیں۔
امام صاحب (رح) کے اس قول کا جواب بھی سن لیجئے : اس بارے جو حدیثیں ہیں، ان میں سے بعض تو بالکل صحیح ہیں۔ جیسے کہ ائمہ علماء نے تصریح کی ہے۔ بعض حسن ہیں اور بعض ضعیف بھی ہیں لیکن وہ بوجہ صحیح اور حسن احادیث کے قوی ہوجاتی ہیں۔ اور جب یہ ہے تو ظاہر ہے کہ یہ حدیثیں حجت و دلیل کے قابل ہوگئیں ۔
اب رہا امام صاحب کا یہ فرمان کہ آخرت دار عمل اور دار امتحان نہیں وہ دار جزا ہے۔ یہ بیشک صحیح ہے لیکن اس سے اس کی نفی کیسے ہوگئی کہ قیامت کے مختلف میدانوں کی پیشیوں میں جنت دوزخ میں داخلے سے پہلے کوئی حکم احکام نہ دئے جائیں گے۔ شیخ ابو الحسن اشعری (رح) نے تو مذہب اہلسنت والجماعت کے عقائد میں بچوں کے امتحان کو داخل کیا ہے۔ مزید براں آیت قرآنی آیت ( يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ 42؀ۙ) 68۔ القلم :42) اس کی کھلی دلیل ہے کہ منافق و مومن کی تمیز کے لئے پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کا حکم ہوگا۔ صحاح کی احادیث میں ہے کہ مومن تو سجدہ کرلیں گے اور منافق الٹے منہ پیٹھ کے بل گر پڑیں گے۔ بخاری و مسلم میں اس شخص کا قصہ بھی ہے جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا کہ وہ اللہ سے وعدے وعید کرے گا سوا اس سوال کے اور کوئی سوال نہ کرے گا اس کے پورا ہونے کے بعد وہ اپنے قول قرار سے پھرجائے گا اور ایک اور سوال کر بیٹھے گا وغیرہ۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ابن آدم تو بڑا ہی عہد شکن ہے اچھا جا، جنت میں چلا جا۔ پھر امام صاحب کا یہ فرمانا کہ انہیں ان کی طاقت سے خارج بات کا یعنی جہنم میں کود پڑنے کا حکم کیسے ہوگیا ؟ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ یہ بھی صحت حدیث میں کوئی روک پیدا نہیں کرسکتا۔
خود امام صاحب اور تمام مسلمان مانتے ہیں کہ پل صراط پر سے گزرنے کا حکم سب کو ہوگا جو جہنم کی پیٹھ پر ہوگا اور تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہوگا۔ مومن اس پر سے اپنی نیکیوں کے اندازے سے گزر جائیں گے۔ بعض مثل بجلی کے، بعض مثل ہوا کے، بعض مثل گھوڑوں کے بعض مثل اونٹوں کے، بعض مثل بھاگنے والوں کے، بعض مثل پیدل جانے والوں کے، بعض گھٹنوں کے بل سرک سرک کر، بعض کٹ کٹ کر، جہنم میں پڑیں گے۔ پس جب یہ چیز وہاں ہے تو انہیں جہنم میں کود پڑنے کا حکم تو اس سے کوئی نہیں بلکہ یہ اس سے بڑا اور بہت بھاری ہے۔ اور سنئے حدیث میں ہے کہ دجال کے ساتھ آگ اور باغ ہوگا۔ شارع (علیہ السلام) نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جسے آگ دیکھ رہے ہیں اس میں سے پیئیں وہ ان کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کی چیز ہے۔ پس یہ اس واقعہ کی صاف نظیر ہے۔ اور لیجئے بنو اسرائیل نے جب گو سالہ پرستی کی اس کی سزا میں اللہ نے حکم دیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں ایک ابر نے آ کر انہیں ڈھانپ لیا اب جو تلوار چلی تو صبح ہی صبح ابر پھٹنے سے پہلے ان میں سے ستر ہزار آدمی قتل ہوچکے تھے۔ بیٹے نے باپ کو اور باپ نے بیٹے کو قتل کیا کیا یہ حکم اس حکم سے کم تھا ؟ کیا اس کا عمل نفس پر گراں نہیں ؟ پھر تو اس کی نسبت بھی کہہ دینا چاہیے تھے کہ اللہ کسی نفس کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
ان تمام بحثوں کے صاف ہونے کے بعد اب سنئے۔ مشرکین کے بچپن میں مرے ہوئے بچوں کی بابت بھی بہت سے اقوال ہیں :
ایک یہ کہ یہ سب جنتی ہیں، ان کی دلیل وہی معراج میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس مشرکوں اور مسلمانوں کے بچوں کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دیکھنا ہے اور دلیل ان کی مسند کی وہ روایت ہے جو پہلے گزر چکی کہ آپ نے فرمایا بچے جنت میں ہیں۔ ہاں امتحان ہونے کی جو حدیثیں گزریں وہ ان میں سے خصوص ہیں۔ پس جن کی نسبت رب العالمین کو معلوم ہے کہ وہ مطیع اور فرمانبردار ہیں ان کی روحیں عالم برزخ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ہیں اور مسلمانوں کے بچوں کی روحیں بھی۔ اور جن کی نسبت اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ قبول کرنے والی نہیں، ان کا امر اللہ کے سپرد ہے وہ قیامت کے دن جہنمی ہوں گے۔ جیسے کہ احادیث امتحان سے ظاہر ہے۔ امام اشعری نے اسے اہل سنت سے نقل کیا ہے اب کوئی تو کہتا ہے کہ یہ مستقل طور پر جنتی ہیں کوئی کہتا ہے یہ اہل جنت کے خادم ہیں۔ گو ایسی حدیث ابو داؤد طیالسی میں ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے واللہ اعلم۔
دوسرا قول یہ ہے کہ مشرکوں کے بچے بھی اپنے باپ دادوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے جیسے کہ مسند وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ وہ اپنے باپ دادوں کے تابعدار ہیں۔ یہ سن کر حضرت عائشہ (رض) نے پوچھا بھی کہ باوجود بے عمل ہونے کے ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا عمل کرنے والے تھے، اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے۔ ابو داؤد میں ہے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ " میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسلمانوں کی اولاد کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں۔ میں نے کہا مشرکوں کی اولاد ؟ آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں۔ میں کہا بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی عمل کیا ہو ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا کرتے یہ اللہ کے علم میں ہے۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو میں ان کا رونا پیٹنا اور چیخنا چلانا بھی تجھے سنا دوں۔ امام احمد (رح) کے صاحبزادے روایت لائے ہیں کہ حضرت خدیجہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے ان دو بچوں کی نسبت سوال کیا جو جاہلیت کم زمانے میں فوت ہوئے تھے آپ نے فرمایا وہ دونوں دوزخ میں ہیں جب آپ نے دیکھا کہ بات انہیں بھاری پڑی ہے تو آپ نے فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تم خود ان سے بیزار ہوجاتیں۔ حضرت خدیجہ (رض) نے پوچھا اچھا جو بچہ آپ سے ہوا تھا ؟ آپ نے فرمایا سنو مومن اور ان کی اولاد جنتی ہے اور مشرک اور ان کی اولاد جہنمی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (والذین امنوا واتبعہم ذریتہم بایمان الحقنابہم ذریتہم) جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ان کی اتباع کی ایمان کے ساتھ کی۔ ہم ان کی اولاد انہی کے ساتھ ملا دیں گے یہ حدیث غریب ہے اس کی اسناد میں محمد بن عثمان راوی مجہول الحال ہیں اور ان کے شیخ زاذان نے حضرت علی (رض) کو نہیں پایا واللہ اعلم۔
ابو داؤد میں حدیث ہے زندہ درگور کرنے والی اور زندہ درگور کردہ شدہ دوزخی ہیں۔ ابو داؤد میں یہ سند حسن مروی ہے حضرت سلمہ بن قیس اشجعی رشی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں اپنے بھائی کو لئے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری ماں جاہلیت کے زمانے میں مر گئی ہیں، وہ صلہ رحمی کرنے والی اور مہمان نواز تھیں، ہماری ایک نابالغ بہن انہوں نے زندہ دفن کردی تھی۔ آپ نے فرمایا ایسا کرنے والی اور جس کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے دونوں دوزخی ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو پالے اور اسے قبول کرلے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے بارے میں توقف کرنا چاہیے کوئی فیصلہ کن بات یکطرفہ نہ کہنی چاہئے۔ ان کا اعتماد آپ کے اس فرمان پر ہے کہ ان کے اعمال کا صحیح اور پورا علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ بخاری میں ہے کہ مشرکوں کی اولاد کے بارے میں جب آپ سے سوال ہوا تو آب نے انہی لفظوں میں جواب دیا تھا۔ بعض بزرگ کہتے ہیں کہ یہ اعراف میں رکھے جائیں گے۔ اس قول کا نتیجہ یہی ہے کہ یہ جنتی ہیں اس لئے کہ اعراف کوئی رہنے سہنے کی جگہ نہیں یہاں والے بالآخر جنت میں ہی جائیں گے۔ جیسے کہ سورۃ اعراف کی تفسیر میں ہم اس کی تفسیر کر آئے ہیں، واللہ اعلم۔ یہ تو تھا اختلاف مشرکوں کی اولاد کے بارے میں لیکن مومنوں کی نابالغ اولاد کے بارے میں تو علما کا بلا اختلاف یہی قول ہے کہ وہ جنتی ہیں۔ جیسے کہ حضرت امام احمد کا قول ہے اور یہی لوگوں میں مشہور بھی ہے اور انشاء اللہ عز و جل ہمیں بھی یہی امید ہے۔ لیکن بعض علماء سے منقول ہے کہ وہ ان کے بارے میں توقف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سب بچے اللہ کی مرضی اور اس کی چاہت کے ماتحت ہیں۔ اہل فقہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت اس طرف بھی گئی ہے۔ موطا امام مالک کی ابو اب القدر کی احادیث میں بھی کچھ اسی جیسا ہے گو امام مالک کا کوئی فیصلہ اس میں نہیں۔ لیکن بعض متاخرین کا قول ہے کہ مسلمان بچے تو جنتی ہیں اور مشرکوں کے بچے مشیت الہٰی کے ماتحت ہیں۔ ابن عبد البر نے اس بات کو اسی وضاحت سے بیان کیا ہے لیکن یہ قول غریب ہے۔ کتاب التذکرہ میں امام قرطبی (رح) نے بھی یہی فرمایا ہے واللہ اعلم۔
اس بارے میں ان بزرگوں نے ایک حدیث یہ بھی وارد کی ہے کہ انصاریوں کے ایک بچے کے جنازے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلایا گیا تو ماں عائشہ (رض) نے فرمایا اس بچے کو مرحبا ہو یہ تو جنت کی چڑیا ہے نہ برائی کا کوئی کام کیا نہ اس زمانے کو پہنچا تو آپ نے فرمایا اس کے سوا کچھ اور بھی اے عائشہ ؟ سنو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ اپنے باپ کی پیٹھ میں تھے۔ اسی طرح اس نے جہنم کو پیدا کیا ہے اور اس میں جلنے والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ ابھی اپنے باپ کی پیٹھ میں ہیں۔ مسلم اور سنن کی یہ حدیث ہے چونکہ یہ مسئلہ صحیح دلیل بغیر ثابت نہیں ہوسکتا اور لوگ اپنی بے علمی کے باعث بغیر ثبوت شارع کے اس میں کلام کرنے لگے ہیں۔ اس لئے علماء کی ایک جماعت نے اس میں کلام کرنا ہی ناپسند رکھا ہے۔ ابن عباس، قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق اور محمد بن حنفیہ وغیرہ کا مذہب یہی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے تو منبر پر خطبے میں فرمایا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اس امت کا کام ٹھیک ٹھاک رہے گا جب تک کہ یہ بچوں کے بارے میں اور تقدیر کے بارے میں کچھ کلام نہ کریں گے (ابن حبان) امام ابن حبان کہتے ہیں مراد اس سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں کلام نہ کرنا ہے۔ اور کتابوں میں یہ روایت حضرت عبداللہ (رض) کے اپنے قول سے موقوفاً مروی ہے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
کیا کوئی ایسی حدیث ہے جس میں کہا گیا ہو کہ ایسا انسان جس کے پاس کبھی بھی اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو وہ جنت میں جائے گا؟
بسم الله الرحمن الرحيم

یٰسۤ

قرآن حکیم کی قسم

آپ مرسلین میں سے ہیں

بالکل سیدھے راستے پر ہیں

یہ قرآن خدائے عزیز و مہربان کا نازل کیا ہوا ہے

تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس کے باپ دادا کو کسی پیغمبر کے ذریعہ نہیں ڈرایا گیا تو سب غافل ہی رہ گئے

یقینا ان کی اکثریت پر ہمارا عذاب ثابت ہو گیا تو وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں

ہم نے ان کی گردن میں طوق ڈال دیئے ہیں جو ان کی ٹھڈیوں تک پہنچے ہوئے ہیں اور وہ سر اٹھائے ہوئے ہیں

اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے اور پھر انہیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں

اور ان کے لئے سب برابر ہے آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں

آپ صرف ان لوگوں کو ڈراسکتے ہیں جو نصیحت کا اتباع کریں اور بغیر دیکھے ازغیب خدا سے ڈرتے رہیں ان ہی لوگوں کو آپ مغفرت اور باعزت اجر کی بشارت دے دیں

بیشک ہم ہی مفِدوں کو زندہ کرتے ہیں اور ان کے گزشتہ اعمال اور ان کے آثار کو لکھتے جاتے ہیں اور ہم نے ہر شے کو ایک روشن امام میں جمع کر دیا ہے

اور پیغمبر آپ ان سے بطور مثال اس قریہ والوں کا تذکرہ کریں جن کے پاس ہمارے رسول آئے

سورة يس36: 1 تا 13

ترجمہ، علامہ جوادی
 
Top