• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عیسی علیہ السلام کا نزول اور شریعت محمدیہ کی پاسداری

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
469
پوائنٹ
209
قرآن و حدیث کے متعدد نصوص سے پتہ چلتا ہےکہ محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ہے ۔ آپ ہی اللہ کی طرف سے آخری نبی ہیں ۔ جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ( الأحزاب : 40)
ترجمہ : محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی )ہیں۔
عیسی علیہ السلام کی رسالت اپنے زمانے تک تھی جوکہ ختم ہوگئی ، قرآن آتے ہی پچھلے ساری شریعتوں کو ملغی کردیا۔ خود عیسی علیہ السلام اس بات کی بشارت دے کرگئے کہ میری رسالت ختم ہونے کے بعد احمد (ﷺ) کو رسالت ملے گی۔قرآن نے اس بات کو یوں بیان کیاہے:
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ
ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ۔(الصف:6)
ترجمہ : اور جب مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے (میری قوم) بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ انکے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے ، یہ تو کھلا جادو ہے۔
نبی ﷺ کی آمد سے عیسی علیہ السلام کی رسالت ختم ہوگئی اور تاقیام قیامت محمد ﷺ کی ہی رسالت چلے گی ۔گویا جب عیسی علیہ السلام قرب قیامت میں نازل ہوں گے تو آپ شریعت محمدیہ کے پیروکار ہوں گے اور اسی کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ یہ باتیں مذکورہ بالا آیات سے بھی مترشح ہیں، نیز اس کے علاوہ بہت سے واضح اور صریح نصوص بھی ہیں۔
مزید چند دلائل دیکھیں :
(1) والذي نفسي بيدِه ، ليُوشكنَّ أن ينزلَ فيكم ابنُ مريمَ حكمًا مقسطًا ، فيكسرُ الصليبَ ، ويقتلُ الخنزيرَ ، ويضعُ الجزيةَ ، ويفيضُ المالُ حتى لا يقبلَه أحدٌ(صحيح البخاري: 2222)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ
ـ میں میری جان ہے، عنقریب تمہارے مابین عیسی بن مریم حاکم وعادل بن کر نزول فرما‏ئیں گے، صلیب توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ ختم کریں گے، اور مال کی اتنی فراوانی ہوگی کہ کوئی لینے والا نہ ہوگا۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ عیسی بن مریم کا نزول بطور عادل حاکم ہوگا نہ کہ نبی و رسول کے ۔
(2) والذي نفسي بيده لو أن موسى صلى الله عليه وسلم كان حيا ما وسعه إلا أن يتبعني(رواه أحمد 3/387)
ترجمہ : نبی ﷺ کا فرمان ہے : قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر موسی بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔
٭ اس حدیث کو شیخ البانی نے حسن قرار دیا ہے ۔(ارواء الغلیل : 1589)
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ موسی ہو یا عیسی جو بھی آپ کے عہد رسالت میں رہیں گے انہیں آپ کی ہی پیروی کرنی ہوگی ۔
(3) لو كانَ بَعدي نبيٌّ لَكانَ عُمَرُ بنُ الخطَّابِ(صحيح الترمذي: 3686)
ترجمہ : نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمربن خطاب ہوتا۔
یہ حدیث نام کے ساتھ بتلاتی ہے کہ اگر کوئی محمد ﷺ کے بعد نبی ہوتا تو عیسی بن مریم نہیں بلکہ عمربن خطاب ہوتا۔
(4) لا تَزالُ طائِفةٌ من أُمَّتي يُقاتِلونَ على الحقِّ ظاهِرينَ إلى يومِ القيامَةِ. قال، فيَنْزِلُ عيسَى ابنُ مَريَمَ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فيقولُ أميرُهُم: تَعالَ صَلِّ لنا . فيقول : لا . إن بَعضَكُم علَى بعضٍ أُمَراءُ. تَكرِمَةَ اللهِ هذه الأُمَّةَ(صحيح مسلم: 156)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہتے ہوئے قتال کرتا رہے گا، وہ قیامت کے دن تک غالب رہیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر عیسی بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم نازل ہونگے، تو اس وقت کا امیر کہے گا:آگے بڑھیں اور ہمیں نماز پڑھائیں۔تو عیسی علیہ السلام کہیں گے: نہیں، تم خود ہی آپس میں ایک دوسرے پر امیر ہو، یہ اللہ تعالی نے اس امت کو شان بخشی ہے۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ عیسی بن مریم کی موجودگی میں بھی پہلے سے متعلق امام امامت کرائیں گے جوکہ اس امت (امت سے مراد بنواسرائیل نہیں، امت محمدیہ ہے) کے لئے اللہ کی طرف سے فضیلت ہے۔
اسی معنی کی شیخین کی تخریج کردہ ایک روایت اس طرح سے ہے۔
كيف أنتم إذا نزل ابنُ مريمَ فيكم ، وإمامُكم منكم .(صحيح البخاري:3449 ، صحيح مسلم:155)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے، اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا۔

مذکورہ تمام دلائل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عیسی علیہ السلام بطور امتی (امت محمدیہ میں سے) عادل حکمراں بن کرنازل ہوں گے اور شریعت محمدیہ کا پابند ہوکر فیصلہ کریں گے ۔ آپ کسی نومولود فرقے کی نسبت اور کسی معین امام کی تقلید سے پاک ہوں گے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
نبی امتوں میں سب سے زیادہ عبقری صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں. عیسی ع خود مجتہد ہوں گے. انہیں کسی کی تقلید کی ضرورت نہیں ہوگی. یہ سمجھنا کہ وہ مقلد ہوں گے درست معلوم نہیں ہوتا.
البتہ یہ سمجھنا کہ بغیر مجتہد ہوئے وہ تقلید بھی نہیں کریں گے, یہ بھی عقل سے بعید بات ہے.
مجھے امید نہیں ہے کہ عیسی ع ہر مسئلے پر علماء سے مسئلہ اور دلائل پوچھ کر تصحیح و تضعیف و ترجیح میں کسی کی پیروی کریں گے. وہ خود اس کے اہل ہوں گے.
ان شاء اللہ و اللہ اعلم
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
469
پوائنٹ
209
نبی امتوں میں سب سے زیادہ عبقری صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں. عیسی ع خود مجتہد ہوں گے. انہیں کسی کی تقلید کی ضرورت نہیں ہوگی.
واقعی ابنیاء سب سے زیادہ عبقری صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں ۔ وہی مجتہد بھی ہوں گے اور مجتہد کو تقلید کی ضرورت ہی نہیں ۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا اور صرف ائمہ اربعہ کے اجتہاد میں امت کو محصور کردینا درست نہیں ہے ۔ یہاں یہ معنی بھی ذہن میں رکھیں کہ اجتہاد نئے مسائل میں ہوتاہے اوروہی اجتہاد قابل قبول ہوگا جس کی بنیاد رائے وبے بنیاد قیاس سے ہٹ کر شریعت پہ استوارہوگا۔ ایسا اجتہاد کسی مسئلہ میں ائمہ اربعہ سے مل جائے ،ان سے پہلے یا بعد والے کسی مجتہد سے اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں اور جو مسائل شریعت کے نصوص سے واضح ہیں ان میں اجتہاد کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی کلام رسول ﷺ کےہوتے ہوئے کسی جانب بلاوجہ التفات کیا جائے گا۔
خلاصہ یہ کہ عیسی علیہ السلام نبی ﷺ کی امت بن کر بطور حاکم نازل ہوں گے اور قرآن وحدیث کی پیروی کریں گے اورکسی امام کی تقلید سے بری ہوں گے ۔

یہ سمجھنا کہ وہ مقلد ہوں گے درست معلوم نہیں ہوتا.
آپ نے درست بات کہی ۔

البتہ یہ سمجھنا کہ بغیر مجتہد ہوئے وہ تقلید بھی نہیں کریں گے, یہ بھی عقل سے بعید بات ہے.
عیسی علیہ السلام کا مجتہد نہ ہونا ، یہ تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ وہ اجتہاد کی ہرقسم پہ فائز ہوں گے ۔ اس لئے یہ کہنا کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہے جھوٹ ہے۔ یعنی ہرقسم کے اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے ۔

مجھے امید نہیں ہے کہ عیسی ع ہر مسئلے پر علماء سے مسئلہ اور دلائل پوچھ کر تصحیح و تضعیف و ترجیح میں کسی کی پیروی کریں گے. وہ خود اس کے اہل ہوں گے.
یقینا عیسی السلام خود مسائل کے حل کے اہل ہوں گے اور قرآن و حدیث سے رہنمائی لیں گے ۔ ہمیں یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اجتہاد کو چار ائمہ میں محصور کرنے والی بات درست نہیں ہے ، ہرقسم کی اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کھلاہوا ہےاور دین میں تقلید سراسر ظلم وزیادتی ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ہرقسم کی اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کھلاہوا ہے
میں اس بات میں آپ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔

یہاں یہ معنی بھی ذہن میں رکھیں کہ اجتہاد نئے مسائل میں ہوتاہے اوروہی اجتہاد قابل قبول ہوگا جس کی بنیاد رائے وبے بنیاد قیاس سے ہٹ کر شریعت پہ استوارہوگا۔ ایسا اجتہاد کسی مسئلہ میں ائمہ اربعہ سے مل جائے ،ان سے پہلے یا بعد والے کسی مجتہد سے اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں اور جو مسائل شریعت کے نصوص سے واضح ہیں ان میں اجتہاد کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی کلام رسول ﷺ کےہوتے ہوئے کسی جانب بلاوجہ التفات کیا جائے گا۔
متفق

دین میں تقلید سراسر ظلم وزیادتی ہے۔
غیر متفق۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
469
پوائنٹ
209

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اس کی وجہ بتا دیتے تو بات سمجھنے میں آسان ہوتی ۔
دنیا کے ہر علم میں جس کو جتنا علم ہوتا ہے اتنا وہ مجتہد ہوتا ہے اور جتنا نہیں ہوتا اس مقدار میں وہ دوسرے کی پیروی کرتا ہے۔ انجینئر ڈاکٹر کی پیروی کرتا ہے اور ڈاکٹر سائنسدان کی۔ اسی طرح ایم بی بی ایس ڈاکٹر اعلی تعلیم والے ریسرچ کی صلاحیت رکھنے والے ڈاکٹر کی دوا پر تحقیق میں پیروی کرتا ہے اور مریض کے لیے دوا کی تعیین میں مجتہد ہوتا ہے۔
علم دین میں بھی ایسے ہی ہے۔ مثال کے طور پر اگر مجھے عربی کا ترجمہ کرنا آتا ہے تو اس میں میں مجتہد ہوں۔ اور اگر مجھے علم حدیث سے شناسائی نہیں ہے تو میں اس میں کسی کی بات مانوں گا۔ اگر مجھے علم حدیث کا علم بھی ہے اور میں حدیث پر صحیح و ضعیف کا حکم بھی لگا سکتا ہوں تو میں اس میں مجتہد ہوں لیکن اگر تمام روایات کو دیکھتے ہوئے ان میں ترجیح و تطبیق خود نہیں کر سکتا تو اس میں کسی اور کی راہ پر چلوں گا۔
اگر یہ نہ ہوتا تو دنیا کا ہر شخص برابر ہوتا جو کہ نہیں ہے۔ میں، آپ اور امام احمد بن حنبل حدیث میں برابر نہیں ہیں۔

پھر آگے اجتہاد کی صلاحیت کا فرق ہوتا ہے۔ کوئی کم اجتہاد کر سکتا ہے اور کوئی زیادہ، اور کوئی بہت زیادہ۔ کوئی صرف ظاہری الفاظ سے حاصل ہونے والے مسئلے تک پہنچ رکھتا ہے۔

یہ جو پیروی ہے اسے پھر دو عنوان دیے جاتے ہیں۔ اگر دلیل کا مطالبہ کیے بغیر ہو تو تقلید کہی جاتی ہے اور اگر دلیل کا مطالبہ کر کے ہو تو اتباع کہلاتی ہے۔
میں اپنا ذاتی رجحان عرض کروں تو اتباع عالم کر سکتا ہے، غیر عالم نہیں۔
اگر میں عالم نہیں ہوں اور میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھتا ہوں، آپ وہ مسئلہ بھی مجھے بتاتے ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر ایک حدیث مبارکہ بھی اور کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ میں نہ تو حدیث کی سند کی تحقیق کا علم رکھتا ہوں اور نہ ہی اس بات کا کہ اس مسئلہ میں دیگر معانی کی احادیث کون کون سی ہیں اور ان میں کون سی ناسخ، کون سی منسوخ اور کون سی راجح، کون سی مرجوح ہے تو بھلا مجھے آپ کے حدیث بتانے سے کیا فائدہ ہوا؟ ممکن ہے آپ کی بتائی ہوئی حدیث مرجوح ہو لیکن مجھے پتا ہی نہ ہو۔ میں تو آپ کی بات مان لوں گا کہ فلاں عالم نے مجھے حدیث بتائی تھی اور اسے صحیح اور راجح کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ تو درحقیقت میں نے دلیل تو لی ہی نہیں ہے، میں نے تو دلیل میں آپ کی بات مانی ہے یعنی آپ کی تقلید کی ہے۔
تو ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک تقلید کرتا ہے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
469
پوائنٹ
209
دنیا کے ہر علم میں جس کو جتنا علم ہوتا ہے اتنا وہ مجتہد ہوتا ہے اور جتنا نہیں ہوتا اس مقدار میں وہ دوسرے کی پیروی کرتا ہے۔ انجینئر ڈاکٹر کی پیروی کرتا ہے اور ڈاکٹر سائنسدان کی۔ اسی طرح ایم بی بی ایس ڈاکٹر اعلی تعلیم والے ریسرچ کی صلاحیت رکھنے والے ڈاکٹر کی دوا پر تحقیق میں پیروی کرتا ہے اور مریض کے لیے دوا کی تعیین میں مجتہد ہوتا ہے۔
علم دین میں بھی ایسے ہی ہے۔ مثال کے طور پر اگر مجھے عربی کا ترجمہ کرنا آتا ہے تو اس میں میں مجتہد ہوں۔ اور اگر مجھے علم حدیث سے شناسائی نہیں ہے تو میں اس میں کسی کی بات مانوں گا۔ اگر مجھے علم حدیث کا علم بھی ہے اور میں حدیث پر صحیح و ضعیف کا حکم بھی لگا سکتا ہوں تو میں اس میں مجتہد ہوں لیکن اگر تمام روایات کو دیکھتے ہوئے ان میں ترجیح و تطبیق خود نہیں کر سکتا تو اس میں کسی اور کی راہ پر چلوں گا۔
اگر یہ نہ ہوتا تو دنیا کا ہر شخص برابر ہوتا جو کہ نہیں ہے۔ میں، آپ اور امام احمد بن حنبل حدیث میں برابر نہیں ہیں۔

پھر آگے اجتہاد کی صلاحیت کا فرق ہوتا ہے۔ کوئی کم اجتہاد کر سکتا ہے اور کوئی زیادہ، اور کوئی بہت زیادہ۔ کوئی صرف ظاہری الفاظ سے حاصل ہونے والے مسئلے تک پہنچ رکھتا ہے۔

یہ جو پیروی ہے اسے پھر دو عنوان دیے جاتے ہیں۔ اگر دلیل کا مطالبہ کیے بغیر ہو تو تقلید کہی جاتی ہے اور اگر دلیل کا مطالبہ کر کے ہو تو اتباع کہلاتی ہے۔
میں اپنا ذاتی رجحان عرض کروں تو اتباع عالم کر سکتا ہے، غیر عالم نہیں۔
اگر میں عالم نہیں ہوں اور میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھتا ہوں، آپ وہ مسئلہ بھی مجھے بتاتے ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر ایک حدیث مبارکہ بھی اور کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ میں نہ تو حدیث کی سند کی تحقیق کا علم رکھتا ہوں اور نہ ہی اس بات کا کہ اس مسئلہ میں دیگر معانی کی احادیث کون کون سی ہیں اور ان میں کون سی ناسخ، کون سی منسوخ اور کون سی راجح، کون سی مرجوح ہے تو بھلا مجھے آپ کے حدیث بتانے سے کیا فائدہ ہوا؟ ممکن ہے آپ کی بتائی ہوئی حدیث مرجوح ہو لیکن مجھے پتا ہی نہ ہو۔ میں تو آپ کی بات مان لوں گا کہ فلاں عالم نے مجھے حدیث بتائی تھی اور اسے صحیح اور راجح کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ تو درحقیقت میں نے دلیل تو لی ہی نہیں ہے، میں نے تو دلیل میں آپ کی بات مانی ہے یعنی آپ کی تقلید کی ہے۔
تو ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک تقلید کرتا ہے۔

ڈاکٹر اور انجینئروالی دنیا کی مثال آپ نے اچھی دی ہے ، میرے خیال سے تقلید کرنے والے عام طور سےیہی مثال پیش کرتے ہیں اور تقلید کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں حالانکہ شرعی اعتبار سے نص کے مقابلے میں اس قسم کی مثال اور قیاس کرنا درست نہیں ہے۔
دین اسلام میں صحیح حدیث کی روشنی میں ہر مسلمان کے لئے علم کا حصول فرض ہے ، یہ حدیث ہمیں واضح طور پر بتلاتی ہے کہ کسی بھی ادنی یا اعلی ، عالم یا جاہل خواہ کوئی بھی ہو، کسی کو کسی متعین شخص کی تقلید نہیں کرنی ہے بلکہ براہ راست شریعت کا علم حاصل کرنا ہے ۔ حصول علم کے متعدد طریقے ہوسکتے ہیں یہ الگ بحث ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن نے ہرجگہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و اتباع کا حکم دیا ہے ۔ جو لوگ نہیں جانتے انہیں جاننے والوں سے پوچھنے کا حکم دیا ہے نہ ان کی تقلید کا۔ اسی طرح قرآن میں اہل کتاب کے متعلق وارد ہے انہوں نے اپنے علماء کو رب بنالیا۔ یہ رب بنانا اس وجہ سے ہے کہ وہ لوگ اپنے عالم کی بات بغیر دلیل پوچھے حلال وحرام مان لیتے ۔ گویا ہمیں اہل کتاب کی طرح اپنے کسی بھی عالم کی بات بغیر دلیل جانے نہیں ماننا چاہئے ۔ دلیل کے ساتھ کسی عالم کی بات قبول کرنی چاہئے اسی کا نام طلب علم ہے جس کا ہرمسلمان کو حکم ہوا۔اسے تقلید نہیں اتباع واطاعت کہا جاتاہے۔
جیساکہ اوپر ڈاکٹر کی مثال کے ذریعہ لاعلم کو عالم کی تقلیدکرنا ثابت کیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ دین میں ایک جاہل آدمی کتنے عالم کی تقلید کرسکتا ہے ، علم نحو کے لئے نحوی ، علم تفسیر کے لئے مفسر، علم الحدیث کے محدث، علم فقہ کے لئے فقیہ و مجتہد وغیرہ ؟ اس سوال سے یہ شوشہ نکلتا ہے کہ تقلید میں صرف ایک امام کی تقلید پہ مجبور کیا جاتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حق صرف ایک امام میں محصور ہے تو لازما دوسرے اماموں کی تقلید سے روکنا ہوگا جبکہ یہاں تو چار ائمہ کو برحق کہا جاتا ہے ۔تو اس سوال کا جواب تشنہ رہ جاتا ہے کہ دین میں ایک ہی امام کی تقلید کرے یا متعدد علماء کی ؟
اگر ایک ہی امام کی تقلید کرنی ہے تو ڈاکٹر انجینئر کی مثال دینا لغو ہے کیونکہ مریض مسلک دیکھ کر کسی ڈاکٹر سے علاج نہیں کراتا بلکہ اگر ایک ڈاکٹر سے شفا نہیں ملی تو دوسرے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور جہاں جہاں شفا کی امید ہوتی ہے وہاں وہاں سے علاج کراتا ہے جبکہ یہاں تو امام سے خطا بھی ہوئی ہو بہرصورت تقلید اسی ایک امام کی کرنی ہے ۔
دوسری بات یہ کہ اگر امام کی ہی تقلید کرنی ہے ، ان کی فقہ کا علم حاصل کرنا ہے تو ایک جاہل کے لئے بجائے اس کے کہ وہ مخصوص و متعین امام کی مخصوص فقہ کا علم لے اور فقہ کے لاکھوں مسائل حفظ وازبرکرے،اسے شریعت کا علم لینا چاہئے جس کا شریعت سے حکم ملا ہے ۔
تیسری بات یہ کہ ایک متعین امام کی تقلید سے ائمہ ثلاثہ کے علاوہ ہزاروں ، لاکھوں علماء کے علم وحکمت ، فقہ وبصیرت ، فہم وتدبر ، معرفت و اجتہاد سے بے نیازی ہے اور اللہ تعالی جب جسے چاہتا ہے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ نبی ﷺ کے بعد صرف ایک ہی امام نے دین کو مکمل طور پر سمجھا ہو اور باقی نے کچھ سمجھا ہی نہیں ۔ جس مسئلے میں اللہ چاہتا ہے جس کو رہنمائی کردیتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کسی مسئلہ میں امام ابوحنیفہ صحیح ہوں اور ائمہ ثلاثہ خطاپہ ، کس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ خطاپہ ہو اور دیگر امام صحیح پر۔
ان باتوں کے پس منظر میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں صرف اور صرف قرآن وحدیث کی اتباع کرنی ہے ، یہ اتباع جہاں ایک عالم کے لئے ہے وہیں ایک جاہل کے لئے بھی ہے ۔ اور دین میں تقلید کا کہیں نام ونشان نہیں ہے ، مجھے تو ایک شازش لگتی ہے جس سے مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ کیا گیاہے ۔
جو بھی عالم دین ، فقیہ ومحدث اور بزرگان دین گذرے ہیں اور قیامت تک آتے رہیں گے ، ان کا احترام اپنی جگہ مسلم ہے ، کسی کی شان میں نازیبا کلمات کہنا میں ان کی توہین اور گستاخی سمجھتاہوں لیکن جہاں تک ان کی بات ماننے اور نہ ماننے کا سوال ہے اس مسئلے میں قرآن وحدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن وحدیث کے نصوص ہوتے ہوئے اس کے خلاف ہرگز کسی کی بات قبول نہیں کی جائے گی چاہے وہ کتنے بڑے عالم کیوں نہ ہواور جس مسئلے میں قرآن وحدیث میں واضح نص نہیں ہے وہاں صحابہ کرام ، تابعین عظام اور تبع تابعین کی طرف رجوع کریں جن کی بات دلائل کی رو سے قوی ہو ان کی بات قبول کی جائے گی ۔ اس سے نہ صرف ایک عالم کی بلکہ تمام علماء کی شان بھی قائم رہتی ہے اور قرآن وحدیث کی اتباع بھی ہوتی ہے ۔

 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
عمدہ.
جزاک اللہ خیرا یا شیخ.
آپ کے بات کرنے کے انداز نے دل کو چھو لیا. آپ کے مراسلہ کے ایک ایک حرف سے صد فیصد متفق ہوں.
بارک اللہ فی علمک وجہدک
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بہت خوشنما نعرہ ہے کہ عالم بھی قرآن و حدیث سے براہ راست احکام لے اور جاہل بھی. لیکن حقیقت کی دنیا میں ناقابل عمل ہے جب تک کہ جاہل خود عالم نہ بن جائے.
ایک مثال دیتا ہوں: ایک جاہل شخص نے ایک کمپنی بنا لی جس کی حیثیت شخص قانونی کی ہے. قرآن و حدیث میں صریح اور واضح حکم تو اسے مل نہیں سکتا کیوں کہ یہ اجتہادی مسئلہ ہے. اب وہ کیا کرے؟

باقی تقلید کے بارے میں آپ کی بعض باتیں حقیقت میں ویسی نہیں ہیں جیسی آپ نے سمجھی ہیں. اس کی بعد میں وضاحت کروں گا ان شاء اللہ.
 
Top