مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 469
- پوائنٹ
- 209
آمینعمدہ.
جزاک اللہ خیرا یا شیخ.
آپ کے بات کرنے کے انداز نے دل کو چھو لیا. آپ کے مراسلہ کے ایک ایک حرف سے صد فیصد متفق ہوں.
بارک اللہ فی علمک وجہدک
آمینعمدہ.
جزاک اللہ خیرا یا شیخ.
آپ کے بات کرنے کے انداز نے دل کو چھو لیا. آپ کے مراسلہ کے ایک ایک حرف سے صد فیصد متفق ہوں.
بارک اللہ فی علمک وجہدک
جزاک اللہ خیراًقرآن و حدیث کے متعدد نصوص سے پتہ چلتا ہےکہ محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ہے ۔ آپ ہی اللہ کی طرف سے آخری نبی ہیں ۔ جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ( الأحزاب : 40)
ترجمہ : محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی )ہیں۔
عیسی علیہ السلام کی رسالت اپنے زمانے تک تھی جوکہ ختم ہوگئی ، قرآن آتے ہی پچھلے ساری شریعتوں کو ملغی کردیا۔ خود عیسی علیہ السلام اس بات کی بشارت دے کرگئے کہ میری رسالت ختم ہونے کے بعد احمد (ﷺ) کو رسالت ملے گی۔قرآن نے اس بات کو یوں بیان کیاہے:
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ۔(الصف:6)
ترجمہ : اور جب مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے (میری قوم) بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ انکے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے ، یہ تو کھلا جادو ہے۔
نبی ﷺ کی آمد سے عیسی علیہ السلام کی رسالت ختم ہوگئی اور تاقیام قیامت محمد ﷺ کی ہی رسالت چلے گی ۔گویا جب عیسی علیہ السلام قرب قیامت میں نازل ہوں گے تو آپ شریعت محمدیہ کے پیروکار ہوں گے اور اسی کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ یہ باتیں مذکورہ بالا آیات سے بھی مترشح ہیں، نیز اس کے علاوہ بہت سے واضح اور صریح نصوص بھی ہیں۔
مزید چند دلائل دیکھیں :
(1) والذي نفسي بيدِه ، ليُوشكنَّ أن ينزلَ فيكم ابنُ مريمَ حكمًا مقسطًا ، فيكسرُ الصليبَ ، ويقتلُ الخنزيرَ ، ويضعُ الجزيةَ ، ويفيضُ المالُ حتى لا يقبلَه أحدٌ(صحيح البخاري: 2222)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھـ میں میری جان ہے، عنقریب تمہارے مابین عیسی بن مریم حاکم وعادل بن کر نزول فرمائیں گے، صلیب توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ ختم کریں گے، اور مال کی اتنی فراوانی ہوگی کہ کوئی لینے والا نہ ہوگا۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ عیسی بن مریم کا نزول بطور عادل حاکم ہوگا نہ کہ نبی و رسول کے ۔
(2) والذي نفسي بيده لو أن موسى صلى الله عليه وسلم كان حيا ما وسعه إلا أن يتبعني(رواه أحمد 3/387)
ترجمہ : نبی ﷺ کا فرمان ہے : قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر موسی بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔
٭ اس حدیث کو شیخ البانی نے حسن قرار دیا ہے ۔(ارواء الغلیل : 1589)
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ موسی ہو یا عیسی جو بھی آپ کے عہد رسالت میں رہیں گے انہیں آپ کی ہی پیروی کرنی ہوگی ۔
(3) لو كانَ بَعدي نبيٌّ لَكانَ عُمَرُ بنُ الخطَّابِ(صحيح الترمذي: 3686)
ترجمہ : نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمربن خطاب ہوتا۔
یہ حدیث نام کے ساتھ بتلاتی ہے کہ اگر کوئی محمد ﷺ کے بعد نبی ہوتا تو عیسی بن مریم نہیں بلکہ عمربن خطاب ہوتا۔
(4) لا تَزالُ طائِفةٌ من أُمَّتي يُقاتِلونَ على الحقِّ ظاهِرينَ إلى يومِ القيامَةِ. قال، فيَنْزِلُ عيسَى ابنُ مَريَمَ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فيقولُ أميرُهُم: تَعالَ صَلِّ لنا . فيقول : لا . إن بَعضَكُم علَى بعضٍ أُمَراءُ. تَكرِمَةَ اللهِ هذه الأُمَّةَ(صحيح مسلم: 156)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہتے ہوئے قتال کرتا رہے گا، وہ قیامت کے دن تک غالب رہیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر عیسی بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم نازل ہونگے، تو اس وقت کا امیر کہے گا:آگے بڑھیں اور ہمیں نماز پڑھائیں۔تو عیسی علیہ السلام کہیں گے: نہیں، تم خود ہی آپس میں ایک دوسرے پر امیر ہو، یہ اللہ تعالی نے اس امت کو شان بخشی ہے۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ عیسی بن مریم کی موجودگی میں بھی پہلے سے متعلق امام امامت کرائیں گے جوکہ اس امت (امت سے مراد بنواسرائیل نہیں، امت محمدیہ ہے) کے لئے اللہ کی طرف سے فضیلت ہے۔
اسی معنی کی شیخین کی تخریج کردہ ایک روایت اس طرح سے ہے۔
كيف أنتم إذا نزل ابنُ مريمَ فيكم ، وإمامُكم منكم .(صحيح البخاري:3449 ، صحيح مسلم:155)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے، اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا۔
مذکورہ تمام دلائل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عیسی علیہ السلام بطور امتی (امت محمدیہ میں سے) عادل حکمراں بن کرنازل ہوں گے اور شریعت محمدیہ کا پابند ہوکر فیصلہ کریں گے ۔ آپ کسی نومولود فرقے کی نسبت اور کسی معین امام کی تقلید سے پاک ہوں گے ۔
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہالسلام عليكم ورحمة الله وبركته
جس کی حیثیت شخص قانونی کی ہے،، سمجھا نہیں میں؟؟بہت خوشنما نعرہ ہے کہ عالم بھی قرآن و حدیث سے براہ راست احکام لے اور جاہل بھی. لیکن حقیقت کی دنیا میں ناقابل عمل ہے جب تک کہ جاہل خود عالم نہ بن جائے.
ایک مثال دیتا ہوں: ایک جاہل شخص نے ایک کمپنی بنا لی جس کی حیثیت شخص قانونی کی ہے. قرآن و حدیث میں صریح اور واضح حکم تو اسے مل نہیں سکتا کیوں کہ یہ اجتہادی مسئلہ ہے. اب وہ کیا کرے؟
باقی تقلید کے بارے میں آپ کی بعض باتیں حقیقت میں ویسی نہیں ہیں جیسی آپ نے سمجھی ہیں. اس کی بعد میں وضاحت کروں گا ان شاء اللہ.
محترم یہی تو آپ کا قیاس فاسد ہے... نہ تو کسی جاہل کو علامہ محدث بننے کا حکم کیا گیا ہے. نہ ہی کسی علامہ کو امام العرب والعجم بننے کا حکم کیا گیا ہے... سوال یہ ہے "جتنا علم حاصل کیا اس پر عمل کتنا کیا؟".بہت خوشنما نعرہ ہے کہ عالم بھی قرآن و حدیث سے براہ راست احکام لے اور جاہل بھی. لیکن حقیقت کی دنیا میں ناقابل عمل ہے جب تک کہ جاہل خود عالم نہ بن جائے.
ایک مثال دیتا ہوں: ایک جاہل شخص نے ایک کمپنی بنا لی جس کی حیثیت شخص قانونی کی ہے. قرآن و حدیث میں صریح اور واضح حکم تو اسے مل نہیں سکتا کیوں کہ یہ اجتہادی مسئلہ ہے. اب وہ کیا کرے؟
باقی تقلید کے بارے میں آپ کی بعض باتیں حقیقت میں ویسی نہیں ہیں جیسی آپ نے سمجھی ہیں. اس کی بعد میں وضاحت کروں گا ان شاء اللہ.
شخص قانونی کے بارے میں میں جو بتاؤں گا اسے آپ مان لیں گے یا شخص قانونی کا نام قرآن و حدیث سے تلاش کریں گے؟جس کی حیثیت شخص قانونی کی ہے،، سمجھا نہیں میں؟؟
Sent from my XT1058 using Tapatalk
کیوں خیریت؟ آپ نے اس پر کوئی مباحثہ کرنا ہے؟محترم یہی تو آپ کا قیاس فاسد ہے... نہ تو کسی جاہل کو علامہ محدث بننے کا حکم کیا گیا ہے. نہ ہی کسی علامہ کو امام العرب والعجم بننے کا حکم کیا گیا ہے... سوال یہ ہے "جتنا علم حاصل کیا اس پر عمل کتنا کیا؟".
اور جاہل (عامی) کا عالم (مفتی) سے قرآن حدیث کی روشنی میں مسئلہ پوچھنا ہی نص سے ثابت ہے. اور اسے پیروی باالدلیل کہا جاتا ہے. اور آپ اسی چیز کو تقلید باور کروانے پر بضد ہیں..
اگر کسی سے کچھ پوچھنے اور سیکھنے کو آپ تقلید کہتے ہیں تو ایک بار صرف ہاں لکھ دیں .....
السلام و ءعلیکم و رحمت الله -دنیا کے ہر علم میں جس کو جتنا علم ہوتا ہے اتنا وہ مجتہد ہوتا ہے اور جتنا نہیں ہوتا اس مقدار میں وہ دوسرے کی پیروی کرتا ہے۔ انجینئر ڈاکٹر کی پیروی کرتا ہے اور ڈاکٹر سائنسدان کی۔ اسی طرح ایم بی بی ایس ڈاکٹر اعلی تعلیم والے ریسرچ کی صلاحیت رکھنے والے ڈاکٹر کی دوا پر تحقیق میں پیروی کرتا ہے اور مریض کے لیے دوا کی تعیین میں مجتہد ہوتا ہے۔
علم دین میں بھی ایسے ہی ہے۔ مثال کے طور پر اگر مجھے عربی کا ترجمہ کرنا آتا ہے تو اس میں میں مجتہد ہوں۔ اور اگر مجھے علم حدیث سے شناسائی نہیں ہے تو میں اس میں کسی کی بات مانوں گا۔ اگر مجھے علم حدیث کا علم بھی ہے اور میں حدیث پر صحیح و ضعیف کا حکم بھی لگا سکتا ہوں تو میں اس میں مجتہد ہوں لیکن اگر تمام روایات کو دیکھتے ہوئے ان میں ترجیح و تطبیق خود نہیں کر سکتا تو اس میں کسی اور کی راہ پر چلوں گا۔
اگر یہ نہ ہوتا تو دنیا کا ہر شخص برابر ہوتا جو کہ نہیں ہے۔ میں، آپ اور امام احمد بن حنبل حدیث میں برابر نہیں ہیں۔
پھر آگے اجتہاد کی صلاحیت کا فرق ہوتا ہے۔ کوئی کم اجتہاد کر سکتا ہے اور کوئی زیادہ، اور کوئی بہت زیادہ۔ کوئی صرف ظاہری الفاظ سے حاصل ہونے والے مسئلے تک پہنچ رکھتا ہے۔
یہ جو پیروی ہے اسے پھر دو عنوان دیے جاتے ہیں۔ اگر دلیل کا مطالبہ کیے بغیر ہو تو تقلید کہی جاتی ہے اور اگر دلیل کا مطالبہ کر کے ہو تو اتباع کہلاتی ہے۔
میں اپنا ذاتی رجحان عرض کروں تو اتباع عالم کر سکتا ہے، غیر عالم نہیں۔
اگر میں عالم نہیں ہوں اور میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھتا ہوں، آپ وہ مسئلہ بھی مجھے بتاتے ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر ایک حدیث مبارکہ بھی اور کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ میں نہ تو حدیث کی سند کی تحقیق کا علم رکھتا ہوں اور نہ ہی اس بات کا کہ اس مسئلہ میں دیگر معانی کی احادیث کون کون سی ہیں اور ان میں کون سی ناسخ، کون سی منسوخ اور کون سی راجح، کون سی مرجوح ہے تو بھلا مجھے آپ کے حدیث بتانے سے کیا فائدہ ہوا؟ ممکن ہے آپ کی بتائی ہوئی حدیث مرجوح ہو لیکن مجھے پتا ہی نہ ہو۔ میں تو آپ کی بات مان لوں گا کہ فلاں عالم نے مجھے حدیث بتائی تھی اور اسے صحیح اور راجح کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ تو درحقیقت میں نے دلیل تو لی ہی نہیں ہے، میں نے تو دلیل میں آپ کی بات مانی ہے یعنی آپ کی تقلید کی ہے۔
تو ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک تقلید کرتا ہے۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہالسلام و ءعلیکم و رحمت الله -
ذرا سا غور فرمائیے تو کچھ ایسی مشکل بھی نہیں ہیں۔ البتہ براہ کرم توجہ سے پڑھیے گا۔محترم- آپ کی باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں -
اس بات میں تو شاید کسی کو بھی اختلاف نہ ہو کہ اتباع، تقلید اور حصول علم الگ الگ چیزیں ہیں۔ علم حاصل کرنے کو کوئی بھی تقلید نہیں کہتا۔ میں نے عرض کیا:تو کیا اس "تقلید" میں انبیاء کرام کو بھی شامل کریں گے؟؟
یہ بدیہی بات ہے کہ مجھے پیدائشی طور پر عربی کا ترجمہ نہیں آ سکتا چاہے میں عربی خاندان میں ہی پیدا کیوں نہ ہو جاؤں۔ عرب بچہ بھی عربی کو سمجھنا عمر کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد سے سیکھتا ہے۔ یہ عربی جو میں مختلف اساتذہ اور کتب سے سیکھوں گا تو یہ تحصیل علم ہے۔ میں اس میں جب ید طولی حاصل کر لوں گا تو مجھے اس سے ترجمہ کرنے کا ملکہ حاصل ہو جائے گا۔ اب میں اس ترجمے میں الفاظ کے انتخاب اور تعبیرات کی تعیین میں اجتہاد کروں گا۔مثال کے طور پر اگر مجھے عربی کا ترجمہ کرنا آتا ہے تو اس میں میں مجتہد ہوں۔
یہ حصول علم تھا۔مثال کے طور پر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا معراج کے موقع پر الله کی مختلف نشانیوں کے بارے میں فرشتوں سے استفسار کرنا کیا ان فرشتوں کی تقلید تھی ؟؟- حضرت موسی علیہ سلام کا حضرت خضر علیہ سلام سے تین عقل سے ماورا واقعات سے متعلق استفسار کرنا کیا ان کی تقلید تھی ؟؟
تقلید کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ دلیل کا مطالبہ کیے بغیر کسی کی پیروی کی جائے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ و ما ینطق عن الہوی، ان ہو الا وحی یوحی کے بموجب نبی کریم ﷺ کے تمام اقوال مبارکہ خود ہی دلیل ہیں۔ اب جب کسی صحابی رض نے نبی کریم ﷺ سے کوئی مسئلہ پوچھا اور آپ نے جواب ارشاد فرمایا تو یہ جواب بذات خود دلیل ہے چاہے اس میں مزید دلیل دی گئی ہو یا نہیں۔ اس لیے اس پر تقلید کی تعریف صادق نہیں آتی۔مزید یہ کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین پیدائشی مجتہد تو نہی تھے تو کیا رسول الله صل الله علیہ و آ له وسلم کے مقلد تصور کیے جائیں گے؟؟
یہ کون کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے؟ ایسا ہی ہے کہ جب تک کوئی بھی عالم کسی مسئلہ کا کامل علم نہیں رکھتا وہ زیادہ علم والے کی تقلید کرتا رہتا ہے۔ امام شافعیؒ بچپن سے علم میں کامل اور مجتہد تو نہیں ہو گئے تھے۔ تو اس وقت وہ مسائل میں کیا کرتے تھے؟ نمازیں کیسے پڑھتے تھے؟ دیگر مسائل میں کیا کرتے تھے؟مزید یہ کہ اگر تقلید صرف عامی کے لئے ہے- عالم کے لئے نہیں ہے تو پہلی بات یہ کہ ہر شخص پیدائشی عالم یا مجتہد نہیں ہوتا - اب چایے وہ امام ابو حنیفہ یا امام شافعی کیوں ںا ہوں- تو ان پر بھی تقلید کا واجب ہوںا ضروری ہوںا چاھیے (جب کہ ایسا ہے نہیں)
یہ بھی درست نہیں۔ ہر کوئی اپنے علم کے مطابق تقلید سے نکلتا جاتا ہے۔ پھر امام مزنیؒ کے الفاظ میں اس کی رائے امام کی رائے کے موافق ہو جاتی ہے تو وہ اس امام کے مسلک پر کہلاتا ہے۔ ورنہ وہ حقیقتاً کامل مقلد نہیں ہوتا۔دوسرے یہ کہ دنیا میں بے شمار ایسے علما ء و مشائخ پیدا ہؤے جنہوں ںے عامی سے عالم اور پھر عالم سے مجتہد ہوںے کا سفر مکمل کیا- لیکن زندگی بھر"تقلید" ان سے ساقط نہیں ہوئی - وہ مرتے دم تک کسی ںا کسی امام کے مقلد ہی رہے - جب کہ آپ کے اصول کے تحت انھیں تقلید سے مستثنی ہوںا چاھیے تھا ؟؟ کیوں کہ وہ اب عامی نہیں رہے ؟؟-ایسا کیوں -