- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,765
- پوائنٹ
- 1,207
قابل ِ غور بات یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی فقط امریکہ تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ آسٹریلیا، چائنہ، برطانیہ سمیت پوری دنیا میں ہزارہا لیبارٹریز ہیں جہاں جینٹک انجنئرنگ پر دن رات تیزی سے کام ہورہا ہے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ میں یہ بحث زور پکڑ گئی تھی کہ ’’ہیومین اینمل کائمیرا ‘‘ یا ’’ہیومن اینمل ہائی برڈ‘‘ پیدا کرنا اخلاقی طور پر کس حد تک درست یا غلط ہے۔ دراصل برطانوی حکومت نے اس بحث کو عوام کے سامنے جان بوجھ کر رکھا۔ برطانیہ کے سائنس دان یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کے عوام انہیں اس تحقیق میں کس تک آگے جانے دینا چاہتے ہیں۔ کئی مباحث اور سیمینار منعقد کیے گئے۔ اسی طرح کے ایک بڑے سیمینار میں ویٹیکن کے دو بڑے بسشپس بھی شریک ہوئے۔ انہوں نے اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ فرض کریں ایک عورت ٹرانس جینک پروڈکشن میں حصہ لیتی ہے اور اس کے انڈے سے ایک ایسا بچہ پیدا کیا جاتاہے جو کچھ انسان اور اس کا باقی حصہ کوئی اور جانور ہے اورپھر وہ عورت بعد میں اپنے فیصلے پر پچھتاتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کا بچہ ختم کردیا جائے کیونکہ وہ اپنے بچے کو اس حال میں نہیں دیکھنا چاہتی تو پھر اسے اس کے بچے کو ختم کردینے کا اختیار دینا بھی اخلاقی طور پر فرض ہوجائیگا۔ایسے مباحث میں ایک بات کھل کر سامنے آگئی کہ ہیومین اینمل کائمیرا میں یہ طے کرنا ایک مستقل سوالیہ نشان ہے کہ ’’کتنا انسان اور کتنا حیوان؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی بھی کائمیرا جو بظاہر دیکھنے میں محض ایک سؤر ہے ، آخر کس حد تک انسان ہے۔ اس کے جسم میں کون کون سے اعضأ انسانی ہیں اور اسے کتنے فیصد انسان مانتے ہوئے اس پر انسانی حقوق لاگو کیے جاسکتے ہیں ؟ ایک بات جس سے دنیا کے عوام ابھی تک بے خبر ہیں وہ یہ ہے کہ انسان اور حیوان کے درمیان کی جانے والی یہ اینٹیگریشن ۔۔۔۔۔۔۔ فیصدی۔۔۔۔۔۔۔۔میں کیا ہے؟ یعنی کیا واقعی ایسا ہے کہ دل گردے یا پھیپھڑوں کی حد تک انسان اور باقی ماندہ جانور ملا کر نئی انواع پیدا کی جارہی ہیں یا انسان اس مقدار سے زیادہ ان میں شامل ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سائنسدان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ففٹی پرسینٹ اینٹیگریشن کررہے ہیں۔ یعنی پچاس فیصد انسان اور پچاس فیصد دوسرے حیوانات کو ملایا جارہا ہے اور یہ ایک نہایت توجہ کھینچنے والا امر ہے۔