السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
کیا لڑکی والے شادی سے پہلے کچھ شرط رکھ سکتے ھیں؟؟؟
ایک لڑکی ھے جسکے ولی (بھائ) نے لڑکے کے سامنے دو شرطیں رکھیں ھیں:
- لڑکا دوسری شادی نہیں کرےگا لڑکی کے ھوتے ھوۓ (بہن کے ھوتے ھوۓ)
- لڑکی کو طلاق دیگا تو 50000 درہم ادا کریگا (اسلام میں طلاق دینے کے بعد اچھے سے رخصت دینے کا حکم ھے. تو کیا وہ حسب استطاعت ھے؟؟؟ واضح رھے کہ یہ معاملہ اسلامی ملک کا ھے اور وہاں اسلامی شریعت ھے. اور مزید کہ یہ 50000 درہم بطور سیفٹی کہ رھے ھیں)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ :
لڑکی والے شادی سے پہلے کچھ شرط رکھ سکتے ھیں،لیکن ایسی شرائط رکھ سکتے ہیں جو خلاف شرع نہ ہوں ،
یہ حدیث دیکھئے :
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الجُهَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ يُوفَى بِهَا مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الفُرُوجَ»
سیدناعقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ پوری کیے جانے کی مستحق وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعے تم نے شرمگاہیں حلال کی ہوں“۔
تخریج : صحیح البخاری/الشروط ۶ (۲۷۲۱)، والنکاح ۵۳ (۵۱۵۱)، صحیح مسلم/النکاح ۸ (۱۴۱۸)، سنن ابی داود/ النکاح ۴۰ (۲۱۳۹)، سنن النسائی/النکاح ۴۲ (۳۲۸۱)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۱ (۱۹۵۴)، (تحفة الأشراف : ۹۹۵۳)، مسند احمد (۴/۱۴۴، ۱۵۰، ۱۵۲)، سنن الدارمی/النکاح ۲۱ (۲۲۴۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام ترمذی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ: عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ قَالَ: «إِذَا تَزَوَّجَ رَجُلٌ امْرَأَةً وَشَرَطَ لَهَا أَنْ لَا يُخْرِجَهَا مِنْ مِصْرِهَا فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُخْرِجَهَا»، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ، وَرُوِي عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّهُ قَالَ: «شَرْطُ اللَّهِ قَبْلَ شَرْطِهَا كَأَنَّهُ رَأَى لِلزَّوْجِ أَنْ يُخْرِجَهَا وَإِنْ كَانَتْ اشْتَرَطَتْ عَلَى زَوْجِهَا أَنْ لَا يُخْرِجَهَا»، وَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ إِلَى هَذَا، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَبَعْضِ أَهْلِ الكُوفَةِ
امام ترمذی کہتے ہیں: - صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ انہیں میں جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب کسی شخص نے کسی عورت سے شادی کی اور یہ شرط لگائی کہ وہ اسے اس کے شہر سے باہر نہیں لے جائے گا تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے باہر لے جائے، یہی بعض اہل علم کا قول ہے۔
اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،
۳- البتہ علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کی شرط یعنی اللہ کا حکم عورت کی شرط پر مقدم ہے، گویا ان کی نظر میں شوہر کے لیے اسے اس کے شہر سے باہر لے جانا درست ہے اگرچہ اس نے اپنے شوہر سے اسے باہر نہ لے جانے کی شرط لگا رکھی ہو، اور بعض اہل علم اس جانب گئے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور بعض اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔
امام عبد الرحمن مبارکپوری اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
قَالَ النَّوَوِيُّ قَالَ الشَّافِعِيُّ أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّ هَذَا مَحْمُولٌ عَلَى شَرْطٍ لَا يُنَافِي مُقْتَضَى النِّكَاحِ وَيَكُونُ مِنْ مَقَاصِدِهِ كَاشْتِرَاطِ الْعِشْرَةِ بِالْمَعْرُوفِ وَالْإِنْفَاقِ عَلَيْهَا وَكِسْوَتِهَا وَسُكْنَاهَا وَمِنْ جَانِبِ الْمَرْأَةِ أَنْ لَا تَخْرُجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ وَلَا تَتَصَرَّفُ فِي متاعه إلا برضاه ونحو ذلك
وأما شرط يُخَالِفُ مُقْتَضَاهُ كَشَرْطِ أَنْ لَا يَقْسِمَ لَهَا وَلَا يَتَسَرَّى عَلَيْهَا وَلَا يُنْفِقَ وَلَا يُسَافِرَ بها ونحو ذلك
فلا يجيب الْوَفَاءُ بِهِ بَلْ يَكُونُ لَغْوًا وَيَصِحُّ النِّكَاحُ بِمَهْرِ الْمِثْلِ
وقَالَ أَحْمَدُ يَجِبُ الْوَفَاءُ بِكُلِّ شَرْطٍ
یعنی امام شافعی فرماتے ہیں : کہ اکثر علماء اس حدیث میں وارد ایفائے شروط کے حکم کو ایسی شروط پر محمول کرتے ہیں جو نکاح کے تقاضوں کے منافی نہ ہوں ،بلکہ نکاح کے مقاصد سے متعلق ہوں ،جیسے حسن معاشرت ،اور حسب ضرورت خرچہ دینا ، ہر ممکن مناسب لباس اور رہائش کی فراہمی ،
اور عورت کی جانب سے خاون کی شروط کی ادائیگی مثلاً اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلنا ، خاون کی ملکیت چیزوں میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف نہ کرنا ،وغیر ذالک ۔
لیکن نکاح کے مقتضی کے خلاف شرط پوری نہ کی جائے گی بلکہ لغو ہوگی ،اور ایسی شرط پر کیا گیا نکاح صحیح ہوگا، لیکن امام احمد فرماتے ہیں ہر شرط پوری کرنا ضروری ہوگا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جہاں تک حق مہر علاوہ مال کی ادائیگی کی بات ہے ، تو اگر شادی کرنے والے نے اپنے اختیار سے دینا قبول کیا ہے تو دینا لازم ہوگا ،
اس ضمن میں درج ذیل فتوی دیکھئے :
سؤال :
زوج أب ابنته واشترط على زوجها أنه في حالة طلاقها يدفع مبلغ سبعين ألف ريال غير المهر المدفوع حال الزواج، فما حكم صحة هذا الشرط؟ أفيدونا أفادكم الله "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ج:3 اشتراط المرأة أو وليها عند عقد الزواج مبلغا من المال يدفع في حالة تطليق زوجته شرط صحيح؛
لأنه جزء من الصداق اتفق على تأخيره، فإذا وافق الطرفان عليه وجب الوفاء به في حالة حصول موجبه وهو الطلاق، ويدل لذلك ما رواه عقبة بن عامر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أحق الشروط أن توفوا بها ما استحللتم به الفروج (1) »
__________
(1) أحمد 4 / 144، 150، 152، والبخاري 3 / 175، 6 / 138، ومسلم 2 / 1036 برقم (1418) ، وأبو داود 2 / 604 برقم (2139، والترمذي 3 / 434 برقم (1127) ، والنسائي 6 / 93 برقم (3281، 3282) ، وابن ماجه 1 / 628 برقم (1954) ، والدارمي 2 / 143، وأبو يعلى 3 / 292 برقم (1754، والطبراني 17 / 274، 275 برقم (752- 757) ، والبيهقي 7 / 248 )
سوال : لڑکی کے والد نے عقد نکاح کے وقت یہ شرط رکھی کہ اگر خاوند اسے طلاق دے گا تو اس ستر ہزار ریال ،حق مہر کے علاوہ دینا ہونگے م کیا شرعا یہ شرط صحیح ہے ؟
(فتاوى اللجنة الدائمة -
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :
عقد نکاح کے وقت شادی کرنے والی عورت یا اس کے ولی کی جانب طلاق کی صورت میں مال دینے کی شرط رکھنا صحیح ہے ،
یہ بھی مہر کا ایک حصہ ہے جسے مؤخر کرنے پر فریقین کا اتفاق ہوا ہے ،
تو طرفین کا اس شرط پر اتفاق ہے تو جب اس کا موجب پایا جائے گا تو اس پورا کرنا واجب ہوگا ۔
اور اس پر وہ حدیث دلیل ہے جو :
عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”سب سے زیادہ پوری کیے جانے کی مستحق وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعے تم نے شرمگاہیں حلال کی ہوں“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب رہا دوسری شادی نہ کرنے کی شرط اس پر اگلی نشست میں ان شاء اللہ عرض کرتا ہوں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔