اصل میں یہ سوال میں ایک رشتہ دار نے کیا تھا. اس سے بات کرکے ان کے جو نظریات مجھے سمجھ آئے وہ مندرجہ ذیل ہیں
1.ان کے نزدیک نسخ پر یقین پر رکھنے کا مطلب یہ ہے ہم اللہ کے علم کو ناقص سمجھتے ہیں. جہاں تک تعلق ہے نسخ کی آیات کا تو وہ اس کو پچھلی شریعتوں کے بارے میں سمجھتے ہیں.
2. ان کا کہنا ہے کہ جن آیات کو دوسری آیات سے منسوخ سمجھا جاتا ہے وہ اصل میں منسوخ نہی ہوتی بلکہ ایک دوسرے کی توثیق کررہی ہوتی ہیں. مثلاً وراثت میں وہ سمجھتے ہیں کہ وصیت وارثوں کو کی جاسکتی ہے کیونکہ وصیت والی آیت میں والدین اور رشتہ داروں کا ذکر ہے اور وراثت تقسیم تب ہوگی جب وصیت پوری ہوگی (وصیت کی کوئی حد نہی)
3. ان کا خیال ہے کہ رسول قرآن کے حکم کو منسوخ نہی کرسکتا کیونکہ رسول کا یہ مقام نہی پھر وہ آیات نقل کرتے ہیں جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ رسول اپنی طرف سے قرآن میں کوئی اضافہ نہی کرسکتا.
Sent from my SM-G360H using Tapatalk
اس موضوع پر درج ذیل مضمون ایک بھائی نے
فیس بک پر نشر کیا ہے ؛
قرآن اور اس کے مطالعے کے شعبے میں نسخ کا مسئلہ ابتداء ہی سے مسلم روایات میں خاصی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس پر امت کا اجماع ہے کہ نسخ ایک حقیقت ہے اور قرآن میں نسخ کے وقوع/وجود سے انکار صرف چند ایک معتزلہ نے ہی کیا ہے۔ جید علماء کی اکثریت کی بحث بنیادی طور پر نسخ کے وقوع کے خصوصی نکات سے متعلق رہی ہے۔ کچھ علماء نے مخصوص آیات کی تفہیم ضرور نسخ کا تصور بیچ میں لائے بغیر کی ہے لیکن اس بات پر بہرحال سب کا اتفاق رہا ہے کہ نسخ قرآن میں واقع ہوا ہے۔ صدیوں تک اس معاملے پر اجماع رہنے کے بعد حالیہ چند دہائیوں میں مغربی فکر سے متاثر تجددد پسندوں نے یہ نکتہ اچھالنا شروع کیا ہے کہ قرآن مجید میں نسخ ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کا خیال اس پرانے تصور پر مبنی ہے کہ نسخ کا ہونا غلطی یا کوتاہی کو ظاہر کرتا ہے۔
اس مقالے میں ہم نسخ کے معنی،قرآن سے اس کے ثبوت، وقت کے ساتھ ساتھ نسخ کے معنی کی تفہیم میں آنے والے فرق ، قرآن میں منسوخ ہونے والی آیات کی تعداد اور ملحدین و مستشرقین کے پیدا کیے گئے اشکالات اور مغالطوں کو زیر بحث لائیں گے۔ مزید برآں ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ کیسے کئی علمائے سنہ نے نسخ کے تصور کو اس خوبی سے واضح کیا ہے کہ نہ صرف اس کو ایک تسلیم شدہ حقیقت کے طور پر ثابت کر دیا ہے بلکہ ان غلط فہمیوں کی بنیاد کو بھی ختم کیا ہے جن کے زیر اثر کچھ لوگ اس تصور کے ہی انکاری ہوجاتے ہیں
نسخ کا مفہوم:
نسخ" کے لغوی معنی ہیں مٹانا،ازالہ کرنا،اوراصطلاح میں اس کی تعریف یہ ہے :
رَفْعُ الْحُکْمِ الشَّرَعِیِّ بِدَلِیْلٍ شَرَعِیٍّ ۔"کسی حکم شرعی کو کسی شرعی دلیل سے ختم کردینا"(مناہل العرفان:ماھو النسخ۲/۱۷۶)"
مطلب یہ ہے کہ بعض مرتبہ اللہ تعالی کسی زمانے کے حالات کے مناسب ایک شرعی حکم نافذ فرماتا ہے پھر کسی دوسرے زمانے میں اپنی حکمت بالغہ کے پیش نظر اس حکم کو ختم کرکے اس جگہ کوئی نیا حکم عطا فرمادیتا ہے اس عمل کو نسخ کہا جاتا ہے اور اس طرح جو پرانا حکم ختم کیا جاتا ہے اس کومنسوخ اور جو نیا حکم آتا ہے اسے ناسخ کہتے ہیں ۔
قرآن سے ثبوت:
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِها نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْها أَوْ مِثْلِها ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّه عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ القرآن الکریم، سورۃ البقرة 2: 106
﴿جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں،تو بھیج دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر، کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے﴾
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
﴿وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّه أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾
﴿اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کی جگہ دوسری آیت،اور اللہ خوب جانتا ہے،جو اتارتا ہے،تو کہتے ہیں،تو،تو بنا لاتا ہے،یہ بات نہیں،پر اکثروں کو ان میں خبر نہیں﴾ سورۃ النحل 16: 101
عقلی ونقلی ثبوت:۔
یہودیوں کا خیال یہ ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں ’’ نسخ‘‘ نہیں ہوسکتا ، کیونکہ ان کے خیال کے مطابق اگر’’ نسخ ‘‘کو تسلیم کرلیا جائے تو اس یہ لازم آتا ہے کہ(معاذ اللہ ) تعالیٰ بھی اپنی رائے میں تبدیلی کرلیتا ہے ، اُن کا یہ کہنا ہے کہ اگر احکام الہی میں ناسخ ومنسوخ کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک حکم کو مناسب سمجھا تھا بعد میں ( معاذاللہ ) اپنی غلطی واضح ہونے پر اسے واپس لے لیا جسے اصطلاح میں ’’بدا ‘‘ کہتے ہیں ۔ یہودیوں کا یہ اعتراض بہت سطحی نوعیت کا ہے، اورذر ا سابھی غورکیا جائے تواس کی غلطی واضح ہوجاتی ہے، اس لئے کہ’’نسخ ‘‘ کامطلب رائے کی تبدیل نہیں ہوتا ، بلکہ ہر زمانے میں اس دور کے مناسب احکام دینا ہوتاہے،ناسخ کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ منسوخ کو غلط قرار دے، بلکہ اس کاکام یہ ہوتاہے کہ وہ پہلے حکم کی مدت نفاذ متعین کردے ،اور یہ بتا دے کہ حکم جتنے زمانے تک نافذ رہا اس زمانے کے لحاظ سے تووہی مناسب تھا،لیکن اب حالات کی تبدیل کی بنا پر ایک نئے حکم کی ضرورت ہے۔
شریعت اسلامیہ کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء اسلام میں صحابہ کرام جب نئے نئے دین اسلام میں داخل ہورہے تھے،ان کی ذھنی وعملی تربیت کے لئے جناب رسول اکرم نے تدریجی طور پر اصلاحی کوششیں کیں،کیوں کہ ظاہر سی بات ہے کہ جن لوگوں کی سابقہ پوری زندگی زمانہ جاہلیت میں شرکیہ اعمال وافعال سے آلودہ ہوچکی تھی،اور وہ اعمال وافعال ان کے دل ودماغ میں رچ بس گئے تھے،ایسے میں ان کو اس قسم کے اعمال وافعال سے ایک دم منع کرنا،دعوت دین کی حکمت ومصلحت اور داعیانہ طریق کار کے بالکل منافی تھا،اسی وجہ سے رسول اکرم نے بھی تدریجی طور پر صحابہ کرام کو ایسے اعمال وافعال کے بارے میں مختلف اوقات میں مختلف احکامات بتلائے،شریعت اسلامیہ میں اسی قسم کی تبدیلیاں نسخ سے عبارت ہے۔جو شخص بھی سلامت فکر کے ساتھ غور کریگا وہ اس نتیجے پرپہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ تبدیلی حکمت الہیہ کے عین مطابق ہے، اور سے کسی بھی اعتبارسے کوئی عیب نہیں کہا جاسکتا ، حکیم وہ نہیں ہے جو ہر قسم کے حالات میں ایک ہی نسخہ پلاتا رہے، بلکہ حکیم وہ ہے جو مریض اورمرض کے بدلتے ہوئے حالات پربالغ نظری کے ساتھ غورکر کے نسخہ میں ان کے مطابق تبدیلیاں کرتارہے۔
اور یہ بات صرف شرعی احکام ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے،کائنات کا سارا کا رخانہ اسی اصول پرچل رہا ہے،اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ سے موسموں میں تبدیلیاں پید اکرتا رہتا ہے ، کبھی سردی کبھی گرمی ،کبھی بہار، کبھی خزان، کبھی برسات، کبھی خشک سالی ،یہ سارے تغیرات اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے عین مطابق ہے، اور اگر معاذ االلہ خدا کی رائے میں تبدیلی لازم آتی ہے کہ اس نے ایک وقت سردی کوپسند کیاتھا،بعدمیں غلطی واضح ہوئی ، اور اس کی جگہ گرمی بھیج دی تواُسے احمق کے سوااور کہاجاسکتاہے،بعینہ یہی معاملہ شرعی احکام کے نسخ کاہے اُسے ’’بدا‘‘ قرار دیکر کوئی عیب سمجھنا انتہائی درجہ کی کوتاہ نظری اورحقائق سے بیگانگی ہے۔
پھر ’’نسخ ‘‘ صرف امت محمدؐ یہ علیٰ صاجہاالسلام کی خصوصیت نہیں ، بلکہ پیچھے انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں بھی ناسخ و منسوخ کا سلسلہ جاری رہاہے، جس کی بہت سی مثالیں موجود بائیل میں بھی ملتی ہیں، مثلاً بائبل میں ہے کہ ’’حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت میں دو بہنوں کوبیک و قت نکاح میں رکھنا جائز تھا، اور خود حضرت یعقوب علیہ السلام کی دو بیویاں ' لیا' اور 'راحیل' آپس میں بہنیں تھیں (بائبل ، کتا ب پیدائش ۲۹:۲۳تا۳۰،) لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں اسے ناجائز قرار دیاگیا(احبار۱۸: ۱۸؛)، حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت میں ہر چلتا پھرتا جاندارحلال تھا(پیدائش ۹:۳،) لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں بہت جانور حرام کردیئے گئے(احبار ۱۱:۱۷احباراا:۱۷ اور الستثناء ۱۴: ۷)، حضرت موسی علیہ السلام کی شریعت میں طلاق کی عام اجازت تھی(التشناء ۲۴:۲۰)، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں عورت کے زناکار ہونے کے سوا اسے طلاق دینے کی کسی حالت میں اجازت نہیں دی گئی(انجیل متیٰ ۱۹: ۱۵)، غرض بائبل کے عہد نامہ جدید وقایم میں ایسی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں جن میں کسی پرانے حکم کو نئے حکم کے ذریعہ منسوخ کردیاگیا۔
ہرآنے والی نبوت اور ہرنازل ہونے والی کتاب نے پچھلی نبوت اور کتاب کے بہت سے احکام منسوخ کرکے جدید احکام جاری کئے ہیں؛ نیز ایک ہی نبوت وشریعت میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ کچھ عرصہ تک ایک حکم جاری رہا؛ پھربتقاضائے حکمتِ خداوندی اس کوبدل کردوسرا حکم نافذ کردیا گیا، حدیث اس پرصراحتاً وارد ہے:"لَمْ تَكُنْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّاتَنَاسَخَتْ "کوئی نبوت نہیں، جس کے احکام منسوخ نہ ہوئے ہوں،"۔(مسلم، كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ، باب،حدیث نمبر:۵۲۶۸، شاملہ، موقع اإسلام)
جن لوگوں نے نسخ کی مشروعیت کا انکار کیا ہے انہوں نے اپنی کوتاہ نظری سے احکام خداوندی کے نسخ کودنیا میں ہونے والی تبدیلی احکام اور تغیر آراء پر قیاس کیا اس لیے وہ غلط فہمی کا شکار ہوئے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے احکام اور ان کی حکمتیں، بندے اور ان کی مصلحتیں اور نواسخ ومنسوخات سب کے سب اللہ تعالی کے علم میں پہلے سے موجود ہیں۔ یہ نسخ احکام (وقت پر) صرف اللہ تعالی کا اپنے بندوں کے سامنے اپنے علم کا اظہار کرنا ہے۔[ مناہل العرفان،2/77]