مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 470
- پوائنٹ
- 209
آپ کی بات اور جو تھریڈ کا عنوان ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے مختصرا جواب دیتا ہوں ۔السلام عليكم و رحمت الله و بركاته
اميد كرتا ھو شيخ ء محترم خيريت سے ہوگے
اللہ ہم سب پر اسکی رحمتے برکتے نازل کرے آمین!
مے اجازت چاہوگا کے کچھ کہو۔
==================
آپکا کہنا ہے
یہاں تو آپ نے خود ہی اقرار کیا کہ نماز نفل تھی پھر بھی آپ دلیل مانگ رہے ہیں ۔
===================
شیخ ء محترم اس بات کا انکار ہی نہی کیا گیا۔ بس سوال یہ ھے کے آپ محترم نے اسے نفل کے لیے خاس کیو کر لیا؟
اگر آپکا کہنا ہے کے یہ حدیث نفل نماز کی ہے اور فرض مے ایسا مذکور نہی۔
تو شیخ اور بہی ایسے اعمال ہے جو نفل کے مسائل ھے اور فرض مے مذکور نہی تو کیا ان مسائل کو بھی چھوڈ دیا جائے ؟
اصل بات یے ہے شیخ کے جب تک تخصیص کی دلیل نہ آئے تب تک وہ حکم عام ہی ھوتا ہے-
فرض اور نفل کے ایسے ہی ایک مسالہ پر گفتگو کرتے ہوے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہے:
"اصول یہ ہے کہ فرض اور نفل ادا کرنے والو کے احکام ایک جیسے ہے الا یہ کہ دلیل سے کسی بات کی تخصیص ہو گئی ھو"
فتاوی اسلامیہ ج1 ص363
آپ یہ نہی پائےگے شیخ کہ کسی محدث یا مصنف نے اس ترح باب باندہے ہو تکبیر تحریمہ فرض مے/ تکبیر تحریمہ نفل مے یا رفع الیدین فرض مے/ رفع الیدین نفل مے۔ بلکہ ایک مسالہ ثابت ہو جائے تو اسے عام ھی شمار کیا جاتا ہے جب تک تخصیص نہ ہو۔ بھرحال کھنے کا مقصد یہ ہے کے دلیل سے جب تخصیص ثابت ہو تب اسے خاص کیا جائے ورنہ یہ بھی دیگر مسائل کی ترح ایک جیسے ہے۔
===============
آپکا کہنا ہے:
نماز میں آمین کہنے کی دلیل بصراحت مختلف الفاظ میں موجود ہے بلکہ آمین کی کیفیت کا بھی مختلف انداز میں ذکر ہے ۔کہیں پر مد بھا صوتہ،کہیں پر فجھر بآمین،کہیں پر رفع بھا صوتہ یہاں تک کہ ابوداؤد، ابن ماجہ وغیرہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں "فیرتج بھا المسجد" یعنی آمین کی آواز سے مسجد گونچ اٹھتی ۔
اگر آمین کے علاوہ کسی اور قرآنی آیت کا جواب فرض نماز میں امام یا مقتدی کے لئے حکم ہوتا تو ضرور آمین کی طرح اس کی کیفیت ان آیات کا ذکر اور خصوصا جوابی الفاظ کیا تھے بطور خاص ان کا صحیح احادیث سے ثبوت ملتاجبکہ ایسا نہیں ہے ۔
==============
جی معذرت شیخ بلکہ ایسا ہے۔ قرآنی آیات کا جواب دینا بہمد اللہ فرض نماز مے بھی ثابت ہے۔ جیسا کہ آپنے کہد سبح اسم ربک الآعلی کی حدیث ذکر کی ہے اور بہی بحمد اللہ دلائل ہے۔
پر ایک بات درست نہی لگی شیخ معذرت کے ساتھ ۔
آپکا کہنا ہے۔
==================
نفل نماز میں امام کے ساتھ مقتدی کا جواب دینا مانع نہیں ہے ۔دلیل مسلم شریف کی روایت کے علاوہ آمین والی روایت بھی بن سکتی ہے
===================
مسلم شریف والی روایات مے بہی مقتدی کا ذکر نہی ہے بس امام کی دلیل ہے پر آپ اس سے مقتدی پر استدلال کر رہے ہے کہ مقتدی کو نفل مے مانع نہی۔
پر یہی بات جب فرض نماز مے آتی ہے تو آپ کہتے ہے:
==============
"اس حدیث سے بھی امام / منفرد کا جواب دینا ثابت ہوتا ہے"
==============
ایسی تفریق کیو شیخ؟ نفل مے امام کی دلیل مقتدی کو مانع نہی تو فرض مے مانع کیو؟
اور رہی بات آمین سے استدلال کرنے کی تو آمین مقتدی کے لیے فرض نماز مے ہوتی ہے تو ایسا کیوکر کے آمین دلیل بنے نفل کے لیے پر فرض مے نہی؟؟؟
براہے مہربانی۔ ھماری اصلاح فرمائے
اوپر جو مسلم شریف کی حدیث ہے اس حدیث میں ایک نماز کا ذکر ہے اس نماز کی ایک رکعت میں قرآن کی بڑی بڑی تین سورتیں سورہ بقرہ، سورہ نساء اور سورہ آل عمران پڑھنے کا ذکر ہے ۔ ان تینوں سورتوں کی کل آیات 662 ہوتی ہیں۔ یہاں ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ کون سی نماز ہے کیایہ رات کی فرض نماز یعنی عشاء ہے یا نفل نماز ہے ۔ لازما ان دونوں نمازوں میں سے کوئی ایک نماز ہوگی کیونکہ حدیث میں رات کا لفظ آیا ہے ۔ دوسری احادیث کو سامنے رکھنے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عشاء کی نماز نہیں ہوگی کیونکہ عشاء کی نماز میں نبی ﷺ کی قرات متوسط ہوا کرتی تھی ۔اس کی دلیل نسائی میں موجود ہے جسے البانی صاحب نے صحیح قرار دیا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
ما صلَّيتُ وراءَ أحدٍ أشبَهَ صلاةً برسولِ اللَّهِ من فلانٍ ، فصلَّينا وراءَ ذلِكَ الإنسانِ وَكانَ يطيلُ الأوليينِ منَ الظُّهرِ ، ويخفِّفُ في الأخريينِ ، ويخفِّفُ في العصرِ ، ويقرأُ في المغربِ بقصارِ المفصَّلِ ، ويقرأُ في العشاءِ ب الشَّمسِ وضحاها وأشباهِها . ويقرأُ في الصُّبحِ ، بسورتينِ طويلتين(صحيح النسائي:982)
ترجمہ: میں نے کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو فلاں شخص (عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ) سے بڑھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھاتا ہو۔ ہم نے اس شخص کے پیچھے نماز پڑھی۔ وہ ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتا تھا اور آخری وہ ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ عصر کی نماز بھی ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ مغرب کی نماز میں چھوٹی مفصل سورتیں پڑھتا تھا اورعشاء کی نماز میں (والشمس وضحھا) اور اس جیسی سورتیں پڑھتا تھا۔ اور بح کی نماز میں لمبی سورتیں پڑھتا تھا۔
ما صلَّيتُ وراءَ أحدٍ أشبَهَ صلاةً برسولِ اللَّهِ من فلانٍ ، فصلَّينا وراءَ ذلِكَ الإنسانِ وَكانَ يطيلُ الأوليينِ منَ الظُّهرِ ، ويخفِّفُ في الأخريينِ ، ويخفِّفُ في العصرِ ، ويقرأُ في المغربِ بقصارِ المفصَّلِ ، ويقرأُ في العشاءِ ب الشَّمسِ وضحاها وأشباهِها . ويقرأُ في الصُّبحِ ، بسورتينِ طويلتين(صحيح النسائي:982)
ترجمہ: میں نے کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو فلاں شخص (عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ) سے بڑھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھاتا ہو۔ ہم نے اس شخص کے پیچھے نماز پڑھی۔ وہ ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتا تھا اور آخری وہ ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ عصر کی نماز بھی ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ مغرب کی نماز میں چھوٹی مفصل سورتیں پڑھتا تھا اورعشاء کی نماز میں (والشمس وضحھا) اور اس جیسی سورتیں پڑھتا تھا۔ اور بح کی نماز میں لمبی سورتیں پڑھتا تھا۔
ابن بطال رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی ﷺ کی نماز کی سب سے لمبی قرات فجر کی نماز میں ہواکرتی تھی اور فجر کی نماز میں حدیث سے سوآیات کی قرات کا ذکر ہے جبکہ یہاں مسلم شریف والی حدیث میں 662 آیات بنتی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ یقینا نفلی نماز(قیام اللیل) ہے ۔
اس سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ قرآنی آیت کے جواب میں یہ حدیث فرض نماز پر نہیں نفل نماز پر محمول ہوگی ۔
اب رہا معاملہ کے مقتدی بھی امام کی طرح نفل نماز میں تعوذ اور تسبیح پڑھ سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نفل نماز میں ایسا کرنا ثابت ہےفرض نماز میں یہ ثابت نہیں۔
Last edited: