لیکن امام خطیب نے جب اسکو امام عقیلی کی سند سے نقل کیا ہے تو اس میں سند میں تضاد واقع ہو گیا
جیسا کہ امام خطیب لکھتے ہیں :
أَخْبَرَنَا عُبَيْد الله بن عُمَر الواعظ، حدّثنا أبي، حدّثنا عبد الله بن سليمان ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أبي، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْر الأعين عن الحَسَن بن الربيع قَالَ: ضرب ابن المبارك عَلَى حديث أَبِي حنيفة قبل أن يموت بأيام يسيرة. كذا رواه لنا.
امام خطیب نے جب اس کو امام العقعیلی کہ سند سے نقل کیا تو بعینه وہی سند نقل کی جو عبد الله بن احمد نے السنة اور العلل میں نقل کر رکھی ھے۔
ملاحظه ھو:
أخبرنا العتيقي، قال: أخبرنا يوسف بن أحمد الصيدلاني، قال: حدثنا محمد بن عمرو العقيلي، قال: حدثنا محمد بن إبراهيم بن جناد، قال: حدثنا أبو بكر الأعين، قال: حدثنا إبراهيم بن شماس، قال: سعت ابن المبارك، يقول: اضربوا على حديث أبي حنيفة___
[تاریخ بغداد للخطیب]
۔
لیکن جب عبید الله، بن عمر الواعظ سے مذکورہ روایت کو نقل کیا ۔ تو اسکی سند میں ابوبکر الاعین اور عبد الله، بن أحمد بن حنبل کے درمیان عن ابیه کا اضافه ھوگیا۔
اور یہ بعد کے کسی راوی کی کارستانی ھے ۔ اور ممکن ھے یہ عبید الله بن عمر الواعظ کی طرف سے ھو۔ جو صدوق درجے کا راوی ھے۔
۔
جبکہ خود عبد الله بن احمد بن حنبل نے اصل کتاب میں اس روایت کو اس طرح اپنی کتاب میں نقل کیا ھے۔ بغیر والد کے واسطے کے۔
ملاحظه ھو:
٥١٩٤ - حدثنا أبو بكر الأعين عن الحسن بن الربيع قال ضرب بن المبارك على حديث أبي حنيفة قبل أن يموت بأيام يسيرة".
[العلل المعرفة الرجال لأحمد بن حنبل رواية أبنه عبد الله: جزء3/صفحة269]
لہذا راوی ثقة ھے (قال الخطیب ابوبکر الاعین ثقة) اور مدلس بھی نہیں۔ تو سماع قابل قبول ھے۔ جبکه دونوں معاصر بھی ہیں۔
اسکی تائید یہاں سے بھی ھوتی ھے کہ امام الحسن بن الربیع کا اپنے الشیخ ابن مبارك سے اخیر ایام میں روایت کرنا بھی ثابت ھے۔
ملاحظه ھو:
وقال عبد الله: وجدت في كتاب أبي بخط يده قال حسن بن الربيع: وسألت ابن المبارك -قبل أن يموت- فقال: أنا ابن ثلاث وستين، ومات سنة إحدى وثمانين".
۔
اس روایت میں عبد الله بن احمد اپنے والد کے واسطے سے حسن بن الربیع سے ، ابن مبارك کے اخیر ایام میں روایت کر رھے ہیں۔ یہ بھی قرینه ھے کہ حسن بن ربیع بھی اخیر ایام میں ابن مبارك کے ساتھ ہی تھے۔
۔
اس سند میں اضطراب کی وجه عبد بن احمد بن حنبل ھرگز نہیں۔ کیونکه عبد الله بن احمد بن حنبل ، ابو بکر الاعین سے براہ راست ہی روایت کرتے ہیں۔ ان کی کتب اس پر شاھد ہیں۔
مثال:
٢٨٤ - حدثني محمد بن أبي عتاب الأعين، ثنا محمد بن عبيد الطنافسي، عن سفيان الثوري، قال: «كان أبو حنيفة نبطيا استنبط الأمور برأيه".
[السنة لعبد الله: صفحة197]
.
٢٨٥ - حدثني محمد بن أبي عتاب الأعين، حدثني الفريابي، قال: سمعت سفيان يقول «ما سألت أبا حنيفة عن شيء، قط، ولقد سألني وما سألته»
[السنة لعبد الله: صفحة197]
.
- حدثني محمد بن أبي عتاب الأعين، حدثني أبو نعيم، قال: سمعت شريكا ⦗٢١٠⦘، يقول: «ما شبهت أصحاب أبي حنيفة إلا بمنزلة الدفافين لو أن رجلا كشف استه في المسجد ما بالى من رآه منهم»
[السنة لعبد الله: صفحة209]
.
اور مذکورہ روایت بھی عبد الله بن احمد نے العلل میں براہ راست ابوبکر الاعین سے بواسطه حسن بن ربیع لکھ رکھی ھے۔
٥١٩٤ - حدثنا أبو بكر الأعين عن الحسن بن الربيع قال ضرب بن المبارك على حديث أبي حنيفة قبل أن يموت بأيام يسيرة
[العلل المعرفة الرجال لأحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله: جزء3/صفحة269]
.
جب اصل کتاب میں تحدیث ثابت ھے۔ تو ھم اصل کتاب کے مصنف کو مطعون نہیں کرسکتے۔
جبکه عبد الله بن احمد بن حنبل ثقة حجة ہیں۔ اور ان کے مخالف عبید الله بن عمر الواعظ صدوق درجے کے راوی ہیں۔ لہذا خطاء کا احتمال انہی کی طرف سے ہے۔
.
امام خطیب نے کہا:
وأظنه عن عَبْد الله بن أَحْمَد عن أَبِي بَكْر الأعين نفسه، والله اعلم
یعنی: میرے خیال میں یہ روایت عبد الله بن أحمد بن حنبل عن ابوبکر الاعین کے طریق سے ھے۔ (یعنی اس میں عن ابیه کا اضافه غلط ھے، جو کسی دوسرے راوی کی کارستانی ھے)
۔
جیسا کہ سند میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کہ یہاں امام عبداللہ مذکورہ روایت اپنے والد کے طریق سے ابو بکر الاعین سے روایت کر رہے ہیں یعنی امام عبداللہ سے اس سند میں اضطراب واقع ہوگیا ہے کبھی وہ ڈریکٹ ابو بکر سے روایت کرتے ہیں کبھی اپنے والد کے طریق سے ابو بکر سے روایت کرتے ہیں
لہذا اسد المداری کا عبد الله بن احمد بن حنبل کو اسکا ذمه دار قرار دینا نری جہالت ھے.
.
بحرحال یہ کوئی تنہا روایت نہیں۔ اس روایت کی متابعت بھی موجود ہے۔
ملاحظه ھو۔
(1) امام عبد الله بن احمد نے کہا:
٣٥١ - حدثني محمد بن أبي عتاب الأعين، نا إبراهيم بن شماس، قال: صحبت ابن المبارك في السفينة، فقال: «اضربوا على حديث أبي حنيفة قال قبل أن يموت ابن المبارك ببضعة عشر يوما»
[السنة لعبد الله بن أحمد: صفحة214]- إسناده صحيح
.
ابوبکر الاعین کی متابعت (أبو الفضل الخراسانی) حاتم بن اللیث (ثقة) نے کر رکھی ھے۔ اور حاتم بن اللیث نے اس مسئلے میں اکیلے ہی مفسر روایت بیان کرکے ابوبکر الاعین کی تمام مجمل روایات کا احاطه کر لیا ھے۔
ملاحظه ھو:
(2) امام عبد الله بن احمد بن حنبل نے کہا:
٣٤٨ - حدثني أبو الفضل الخراساني، ثنا إبراهيم بن شماس السمرقندي، ثنا عبد الله بن المبارك، بالثغر عن أبي حنيفة، قال: فقام إليه رجل يكنى أبا خداش، فقال: يا أبا عبد الرحمن لا ترو لنا عن أبي حنيفة، فإنه كان مرجئا فلم ينكر ذلك عليه ابن المبارك، وكان بعد إذا جاء الحديث عن أبي حنيفة ورأيه ضرب عليه ابن المبارك من كتبه وترك الرواية عنه، وذلك آخر ما قرأ على الناس بالثغر، ثم انصرف ومات، قال: وكنت في السفينة معه لما انصرف من الثغر، وكان يحدثنا فمر على شيء من حديث أبي حنيفة، فقال لنا: اضربوا على حديث أبي حنيفة فإني قد خرجت على حديثه ورأيه، قال: ومات ابن المبارك في منصرفه من ذلك الثغر، قال: وقال رجل لابن المبارك ونحن عنده: إن أبا حنيفة كان مرجئا يرى السيف فلم ينكر ذلك عليه ابن المبارك".
۔
ترجمه:
ابراھیم بن شماس رحمه الله کہتے ہیں۔ عبد الله بن مبارك نے ثغر کے مقام پر ابوحنیفه سے روایت بیان کی۔ تو ایک شخص کھڑے ہوئے جنہیں ابو خداش کہا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا : اے ابو عبد الرحمن (یعنی ابن مبارک) آپ ھم سے ابو حنیفه کے واسطے سے روایت بیان نہ کریں۔ وہ تو مرجئ تھے۔ تو ابن مبارك نے اس کا انکار نہیں کیا۔ پھر اسکے بعد جب بھی ابن مبارك کے سامنے ابوحنیفه کی حدیث یا رائے آتی، تو ابن مبارك اپنی کتابوں میں اُس پر نشان لگا دیتے۔ اور ابوحنیفه سے روایت ترک کردی۔ اور یہ آخری بار ابن مبارك نے ثغر کے مقام پر لوگوں پر قراءت کیا۔ پھر آپ چلے گئے، اور آپ کا انتقال ہوگیا
[السنة لعبد الله بن أحمد بن حنبل: صفحة348] - إسناده صحيح
ابو خداش یہ مخلد بن یزید الحراني المتوفیٰ 193ھ (ثقة) ہیں۔
.
ابوبکر الاعین کی تیسری متابعت:
(3) امام ابن حبان نے کہا:
سمعت عمرو بن محمد البجيري يقول سمعت محمد بن سهل بن عسكر يقول سمعت إبراهيم بن شماس يقول رأيت بن المبارك يقرأ كتابا على الناس في الثغر وكلما مر على ذكر أبي حنيفة قال اضربوا عليه وهو آخر كتب قرأ على الناس ثم مات".
[الثقات لابن حبان: جزء8/صفحة69]- إسناده صحيح۔
۔
یہ تمام اسناد چوبیس کریٹ کے سونے کی طرح صاف وشفاف ہیں۔ المداری کا ایک روایت کو مضطرب کہہ کر ان سے جان چھڑانا ایسا ھی ھے جیسا دیوانہ شخص اپنا ھوش وحواس کھو بیٹھتا ھے۔۔۔
۔
پھر اسد المداری نے زرنجری کی کتاب کا حواله دیا۔
اول تو زرنجری کی توثیق کہیں بھی منقعل نہیں۔ عالم فاضل ہونا توثیق نہیں۔ اور بلفرض توثیق مان بھی لی جائے۔ تو یہ زرنجری نام کا بندہ حنفیه کا الشیخ تھا تمام مسلمانوں کا الشیخ نہیں۔
امام الذھبي نے کہا یہ اپنے مذھب میں متشدد تھا یہاں تک کے اسکو ابوحنیفه اصغر کہا جانے لگا۔
ملاحظه ھو:
قال الذهبي:
ولقبه الناس لشدة علمه بالمذهب الحنفي بـأبو حنيفة الأصغر نسبة إلى مؤسس المذهب الإمام أبو حنيفة النعمان_____
.
تو ظاھر ھے یہ حنفیوں کے گھر کا بندہ ہے۔ ابو العلاء الفرضی جس نے اس زرنجری کو امام کہا ھے۔ وہ بھی حنفی تھا۔ عبد القاد حنفی نے اِن دونوں کو طبقات الحنفیه میں درج کیا ھے۔
شمس ائمہ امام علامہ حنیفہ کےشیخ بخارہ کے مفتی ابو فضل بکر بن محمد زرنجری یہ حنفی مذہب (اسکے دلائل ) حفظ کرنے میں بے مثل تھے، اور مجھے امام ابو علاء فرضی نے کہا یہ علی اطلاق امامت کے درجے پر فائض تھے
[سیر اعلام النبلاء ، برقم:۴۶۶۳]
انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ ؓ کے مناقب میں کتاب لکھی جسکی سند درج ذیل ہے :
کس محدث نے کہا کہ زرنجری نے ابوحنیفه کے مناقب میں کتاب لکھی؟؟؟؟؟؟؟ جبکه امام السمعاني اور الذھبی نے نہایت تفصیل سے اسکا ترجمه لکھا ھے، پھر بھی اس کتاب کا نام کہیں موجود نہیں؟؟؟؟؟
۔
انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ ؓ کے مناقب میں کتاب لکھی جسکی سند درج ذیل ہے :
أخبرنا والِدي الشيخ الإمام أبو الفضل يوسف بن محمد بن أحمد الحنَفي سنة سبع وخمسين
وخمسمائة، قال: حدثنا الشيخ الإمام الستاذ الزاهد بن برهان الد ّ ين أبو الحسن علي بن محمد بن
الحسن البلخي بالمدرسة الصادرية بدمشق سنة ست َ وأربعين وخمسمائة، قال:حد ثنا القاضي الإمام
أبو الفضل بكر بن محمد بن علي َّ الزنجري، قال: اعلم أن َمنَاقب أبي حنيفة ُ تشتمل على فصول۔۔۔الخ
[مناقب ابی حنیفہ للزنجری ، ص۱]
اس کتاب کے سارے رجال اعلی ثقہ اور اپنےوقت کے جید حنفی ائمہ میں سے ہیں
یہ رجال اعلیٰ ثقة ہیں۔ کس کتاب میں کس محدث نے بیان کیا؟؟؟؟؟
زرنجری کے والد کی توثیق کس نے کی؟؟؟؟؟؟؟
زرنجری کی کتاب کے ان سب رواہ کی محدثین سے توثیق مطلوب ھے۔
اور یہ سب کے سب حنفی ہیں۔یہ بلکل اپنے منه سے اپنی تعریف بیان کرنے والی بات ہے۔
اس کتاب کے سارے رجال اعلی ثقہ اور اپنےوقت کے جید حنفی ائمہ میں سے ہیں ۔۔۔۔
اس کتاب میں امام زرنجری کا امام ابن ابی حفص کی کتاب سے مروایات کو نقل کرنے کی تصریح کا ثبوت :
امام ابن ابي حفص نے ابوحنیفه کے مناقب پر کوئی کتاب لکھی تھی؟ اس کی دلیل درکار ھے متقدمین محدثین سے
امام زرنجری حضرت عطاء بن ابی ربا ع سے امام ابو حنیفہ کی روایت کے تحت نقل کرتے ہیں:
فقد ذكر أبو عبدالله بن أبي حْفص في كتابه المؤلف في َمنِاقب أبي حنيفةّٰ وقرئ هذا الكتاب على الشيخ الفقيه الحافظ أبي محمد عبدالله بن منصور البخاري ر حَم الله سنة إحدى وخمسين َ /وأ ْر َبعمائة فقال أخبرنا أبو إسحاق إبراهيم بن أحمد السرخسي قال حدثنا الشيخ الإمام أبو بكر أحمد بن سعد قال أخبرنا أبو سهل محمد بن عبدالله بن سهل بن حفص العجلي قال أخبرنا أبو عبدالله محمد بن أبي حْفص العجلي قال۔۔۔الخ
امام زرنجری فرماتے ہیں اور تحقیق سےذکر کیا ہے امام ابو عبداللہ ابن ابی حٖفص نے اپنی کتاب میں جو انہوں نے امام ابو حنیفہ کے مناقب میں تصنیف کی ، اور میں نے اس کتاب کو اپنے شیخ الفقیہ ابو محمد عبداللہ بن منصور بخاری پر قرات کیا ہے ، ۴۴۱ھ میں وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی امام ابو اسحاق ابراہیم سرخسی شمس ائمہ نے وہ کہتے ہیں مجھے خبر تھی شیخ امام ابو بکر احمد بن سعد نے وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی امام ابو سھل محمد بن عبداللہ عجلی نے وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی امام ابو عبداللہ ابن ابی حفص البخاری نے ۔۔۔
[مناقب ابی حنیفہ للزنجری،ص ۱۰۷]
۔
(1) الحافظ أبي محمد عبدالله بن منصور البخاري۔ نامعلوم توثیق۔
(2) أبو إسحاق إبراهيم بن أحمد السرخسي- نامعلوم توثیق۔
(3) الشيخ الإمام أبو بكر أحمد بن سعد (مجھول)
(4) أبو سهل محمد بن عبدالله بن سهل بن حفص العجلي (مجھول)
۔
یعنی ابن ابی حفص کی یہ کتاب بھی ابن ابی حفص تک باسند صحیح ثابت نہیں۔ لہذا اسد المداری کا ثقة حجة الحافظ متقن ، متقدمین محدثین کے خلاف اپنے گھر کے مجھولین رواہ سے مجھول کتاب کے زریعے اُن کا رد کرنا ، لعنت کو اپنے لئے واجب کرنا ھے۔
اور مزے کی بات نہ تو زرنجری کی کتاب عند المحدثین مقبول ھے۔ نہ ہی ابن ابی حفص کی کتاب مقبول ھے۔ بلکه محدثین نے تو ان کتابوں کا زکر تک نہیں کیا
حالانکه ابوحنیفه کے مناقب میں کئی ائمه نے کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن کسی نے بھی ابن ابی حفص کی کتاب کا زکر نہیں کیا۔ یہ بھی واضح قرینه ہے کہ یہ بعد کے کسی حنفی کی کارستانی ھے۔
چونکہ یہ کتاب امام زرنجری کے پاس تھی تو وہ ڈریکٹ اسی کتاب سے امام ابو عبداللہ بخاری سے روایت کرتے تھے
اسی طرح جب وہ امام عبداللہ بن مبارک کے ترجمہ بیان کیا تو لکھتے ہیں :
قال الشيخ أبو عبدالله بن أبي حفص : وبعض الطاعنين ّ والحاسدين يقول: إن ّٰ عبدالله بن المبارك ترك أقاويل أبي حنيفة وترك مسائله وترك الرواية عنه، فقال أبو عبد الله: سمعت
رجلا بمكة يذكر هذا الكلام، فأخبرت الحسن بن الربيع وكان من أصحاب عبدالله بن المبارك- فقلت هذا الكلام فقال: هولاء كذبوا على عبدالله، فإني سمعته قبل موته بثلاثة أيام يروي عن أبي حنيفة ويذكر مسائل أبي حنيفة، فمن أخبرك غير هذا فلا تصدقه فإنه كذاب
امام شیخ ابو عبداللہ ابن ابی حفص کہتے ہیں بعض متعصبین و حاسدین نے کہا کہ امام عبداللہ بن مبارک نے امام ابو حنیفہؓ کے اقوال کو ترک کر دیا اور ان (ابو حنیفہ) کے مسائل اور ان سے روایت کرنا ترک کردیا ۔ تو امام ابو عبداللہ ابن ابی حفص فرماتے ہیں میں نے ایک شخص کو ایسا کہتے مکہ میں سنا ،تو میں نے اسکی خبر امام حسن بن ربیع کو دی جو کہ امام عبداللہ بن مبارک کے اصحاب میں سے ایک تھے ۔ تو میں نے انکو یہ سارا کلام بیان کیا تو انہوں نے کہا یہ امام عبداللہ بن مبارک پر صریح جھوٹ ہے ۔ میں نے خودامام عبداللہ بن مبارک کی وفات کے تین دن پہلے ان سے سماع کیا ۔ انہوں نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا اور ان(ابو حنیفہ) کے بیان کردہ مسائل کا تذکرہ کیا ، جو اس احوال کے برعکس بیان کرتا ہے اسکی تصدیق نہ کرو وہ جھوٹا ہے
[مناقب للزرنجری ، ص ۱۳۱]
عرض ھے کہ سب سے پہلے تو ابن ابی حفص سے یہ کتاب ثابت کرے کوئی حنفی۔ یعنی یہ کتاب جس کا دعویٰ خود زرنجری سے بھی ثابت نہیں کہ زرنجری نے کہا ہو میرے پاس ابن ابی حفص کی کتاب تھی۔ کیونکه زرنجری کی اپنی کتاب ھی زرنجری سے ثابت نہیں۔
یعنی لطیفه در لطیفه______
پھر بھی اگر کوئی متعصب مبغض ھٹ دھرم ضدی حنفی اپنی اس بات قائم رہے۔ تو اُس کے لئے عرض ھے کہ
زرنجری کی پیش کردہ روایت مجھولین سے بھری پڑی ہے۔ اور اس کا متن ثقة ثبت ائمه کے بیان کے سراسر خلاف ہے۔ لہذا زرنجری والی روایت اصول محدثین کے تحت منکر ہے۔
جبکه زرنجری سے اوثق ثبت، کم از کم تین سے چار ائمه نے زرنجری کے مخالف بیان کیا ہے۔ جیساکہ میں اوپر ثابت کرچکا ہوں۔
بلفرض محال۔ جیساکہ کہ ممکن بھی نہیں۔ لیکن پھر بھی ھم زرنجری والی روایت کو ھم سنداً صحیح مان بھی لیں۔ تب بھی زرنجری کی روایت کا متن منکر کہلائے گا۔
کیونکه زرنجری سے اوثق ثبت حجة، امام عبد الله بن احمد نے حسن بن ربیع ہی کے طریق سے اس کے بلکل مخالف بیان کیا ہے۔
تو اسد المداری پر لازم ہے کہ۔ امام عبد الله بن احمد کے متن کو منکر قرار دینے کے لئے کم از کم اسُی درجے کے اوثق رواہ سے روایت پیش کرے۔
۔
سب سے اہم بات۔ حسن بن ربیع اس کو بیان کرنے میں تنہاء بھی نہیں ہیں۔ حسن بن ربیع کی متابعت ابراھیم بن شماس، اور محمد بن سھل بن عسکر نے کر رکھی ھے۔
اور ابو بکر الاعین کی متابعت ابو الفضل الخراسانی حاتم بن اللیث نے کر رکھی ھے۔
لہذا جب تین اوثق راوی ایک واقعے کے وقوع پذیر ہونے کی خبر دینے پر متفق ہوں۔ اور ایک مجھول سند سے اُس کے خلافِ واقعہ بیان کیا جائے۔ تو ثقة جماعت کو رد نہیں کرتے۔ بلکه اُس مجھول رواہ کی جماعت کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔
۔
اس میں اس مذکورہ روایت کا بھی رد آجاتا ہے جو ابراہیم بن شماس سے روایت ہوتی
اس میں کسی ایک روایت کا بھی رد موجود نہیں۔ ھاں البته محض حنفی طفل تڑنگیاں ضرور ہیں اس میں۔