سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
منٹویت: یعنی جنس زدہ لفظوں کی چھنالی
شعبان بیدارصفوی (بھیونڈی)
اردو ادب کی دنیا میں ’’منٹو‘‘ شہرت کی بلندیاں چھونے والا ایک زندہ نام ہے۔ اپنی ذہنی ساخت کے اعتبار سے اس نے اچھا بھی لکھا برا بھی لکھا مگر جو بھی لکھا کچھ ایسا لکھا کہ اس پر زمانے کو ادب کی مہر لگانی ہی پڑی!منٹو 11؍مئی 1912 کولدھیانہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ بٹوارے کے بعد لاہور چلے گئے ، بوجوہ انھوں نے بے حساب شراب نوشی شروع کردی، بالآخر بیمار ہوگئے اور اسی بیماری میں 1955 کو اُس دنیا سے روبرو ہوئے جس کے وہ زندگی بھر منکر رہے۔﴿ولم ادرماحسابیہ یالیتھا کانت القاضیۃ﴾
منٹو کے ادبی کارنامے بہت زیادہ ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ جس پر ہمارے نقاد اور تبصرہ نگار عہد سازی، انفرادیت ، جودت طبع، کھلا پن جیسی پر رعب ترکیبوں کا ایک پہاڑی سلسلہ لگادیتے ہیں وہ یہ ہے کہ صاحب نے چکلوں کی گھناؤنی دنیا کو منوں عطر سے نہلایا۔ ایسا کہ اچھے اچھے آہ بھر کر رہ گئے حالانکہ چکلوں کے بعض اسباب وتدراک پر ہماری بھی نظر ہے مگر منٹویت کی نگاہیں اس پر نہیں جم سکتیں۔ اس نے جنسی بے راہ روی کی اندرونی کیفیات و نفسیات کو اس شان سے نطق و صدا کی قوت بخشی کہ گدھوں کا اختلاط پیش کرنے میں بھی حضرت انسان کو کوئی ہچک نہ محسوس ہو۔
الغرض سماج کی گندی مٹی سے ایسے برہنہ پتلے تراشے مانو حسن و جمال کی دیویاں پر کھولے کھڑی ہوں ۔ٹھیک ہمارے اخباروں کی طرح کہ عصمت دری کے واقعات کچھ ایسا پیش کرتے ہیں کہ عابد ہزار شب کو بھی خواہش جرم ہونے لگے!
قارئین کرام! منٹو کے سلسلے میں یہ میری کوئی اندھی بہری رائے نہیں ہے بلکہ یہ رائے کسی قدر منٹو کو پڑھنے کے بعد دی گئی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ منٹو معروف معنی میں ادیب نہیں تھا جس طرح یہ نہیں کہہ سکتا کہ ابلیس حد درجے کی ذہین، چست اور ذی علم شخصیت نہیں ہے۔
ممتاز ناقد ممتاز علوی کا کہنا ہے کہ ’’اس نے بے شمار عقائد و مسلمات اور تصورات کو توڑا اور شعلہ حیات کو برہنہ انگلیوں سے چھوا‘‘ جبکہ میں تو کہتا ہوں کہ برہنہ دماغ سے بھی چھوا۔علوی ہی کیا بیشتر تنقید نگاروں کے نزدیک دوسرے لفظوں میں ’’حقیقت نگار‘‘ تھا ایسا کہنا ان کی مجبوریوں میں بھی شمار کرسکتے ہیں کیونکہ اسٹیشن اور بک اسٹالوں پر بے ڈھنگی تصویروں والی جنسی ننگی کتابوں کی ورق گردانی میں آنکھوں کا بچا کچھا پانی درمیان کا سمندر بن جاتا ہے۔ ایسے میں ’’منٹو لوگوں‘‘ کا نام غنیمت ہوتا ہے۔ مہذب حیوانیت کی پیاس ، بھڑکتی ہوئی پیاس رگ و ریشے میں دھواں بھر دیتی ہے! ……پیاس: پیاس کا صحرا بن جاتی ہے، دماغ میں لہو کی بوندیں ایسی جم جاتی ہیں جیسے میونسپلٹی کے سنڈاس روم کی پپڑیاں!!…… پھر موقع ملا تو بنام ادب خوشونت سنگھ کی ’’دلی‘‘ کا ذائقہ بھی اٹھا لیتے ہیں اور قوم لوط کی تہذیب سکھوں جیسی بیباکی کے پردے میں چھپادی جاتی ہے۔ پردہ بھی! بدبودار ٹاٹ کا پردہ! روح سے مزمن سیلان کی عفونت اٹھتی ہے۔ مگر ناک! کتوں کی ناک! بھلا ایسی خوشبو کس کے نصیبے میں! صاحب کی چھچھوری اور بچکانہ حقیقت نگاری میری بھی نگاہ سے گزری ہے۔ ایک بھائی اپنی ہمشیرہ کو دیکھتا ہے کہ وہ اپنے ابھار پر پھاہا لگا تی ہے کہ اس کی نگاہوں میں یہ پھوڑے ہیں (پڑھئے پھاہا)۔
منٹو اس سے جو پیغام دینا چاہتا ہے اس پر کوئی سوال نہیں، سوال اس کے ادیب ہونے پر ہے۔ اگر کوئی اپنی بات پیش کرنے کے لیے مہذب استعارہ اور پردہ دار تمثیل نہ تخلیق کرسکے تو وہ ادیب کس لیے ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ ہر موضوع کے لیے ہر صنف ادب کیونکر موزوں ہوسکتا ہے۔
جنسیات کو کوئی مولانا صاحب ہی اگر افسانہ کے رنگ میں پیش کرنے لگیں توا نھیں بھی کوڑھ مغز بننا پڑے گا۔ جسے کبھی ہاتھ سے کھانا نصیب نہیں ہوتا گندگی چمچے کے لیے مجبور کردیتی ہے۔ حقیقی بات تو یہ ہے کہ ہر کسی آدمی کی ماں اس کے باپ کی بیوی ہے، اب ہمارے ادباء کے لیے اظہار خیال کا یہ بھی ایک موضوع ہوگا؟…… ادب و فلسفہ کی مہر لگانے کی دیر ہے ورنہ سماج میں منٹوئی مکھیوں کی کمی نہیں، پذیرائی ہوکر رہے گی۔ ویسے سگمنڈ فرائڈ نے یہ موضوع بھی کہاں اچھوت رکھا ہے۔ بچے کی ماں سے وابستگی کی توجیہ اس کے یہاں جنسی معاملہ ہے۔ تعجب بالائے تعجب یہ کہ اس مردبیمار کے افکار بھی کہتے ہیں ذہین لوگوں کی غذا بنے اور مکھی مچھر کی غذا ہو بھی کیا سکتی ہے۔ بتایئے تو سہی کہ دکانوں پر بکنے والی نیلی پیلی کچھ کتابیں کم حقیقت نگاری کرتی ہیں، ان کتابوں سے زیادہ سماج کی گندگی کو کون کوڈ کرسکتا ہے۔ معاشرے کے حقائق یہ کتابیں بھی بیان کرتی ہیں ۔ ہاں ان پر ادب و فلسفہ کا ٹھپا نہیں لگا ہے۔
ہمارے ادیب حضرات پھیپھڑوں کی پوری قوت سے چیختے ہیں کہ یہ غیر ادبی ہیں، ماحول غیر ادبی ہو رہا ہے۔ بھئی کیا ادب صرف خوبصورت لفظوں کا جال ہے۔ مجاز عقلی، مجاز مرسل، تشبیہ و استعارہ کو اعلیٰ درجہ پر برتنا ہی ادب ہے۔ فکر جو بھی ہو جیسی بھی ہو اگر انداز بیان شگفتہ اور طرز تحریر دلنواز ہو، حسن تالیف اور حسن ترتیب میں ندرت تو بس! ادب ہوگیا؟
اور تھوڑی دیر کے لیے میں تسلیم کرتا ہوں کہ وہ غیر ادبی ہیں مگر غیر حقیقی کب ہیں اور حقیقت نگاری پر ہماری آپ کی لڑائی ہے! تو پھر ان کتابوں کی حقیقت نگاری جاری رہنے دیجئے۔
اگر ادب یہی ہے کہ اسالیب ادب کے تمام طریقوں کوبروئے کار لاتے ہوئے عریانیت کا رنگ مزید چوکھا کردیاجائے!
ننگے جسموں کی چمڑیاں بھی ادھیڑ دی جائیں
حسن کا جیتا جیتا لہو رسنے لگے
سماج کی ادبی مکھیاں اس لہو کو چاٹیں!
ماں کی ممتا کوچیر کر ہوس کے لال لال نکتے دکھائے جائیں!
جن پر گدھ اور بونکے اپنی تمام تر حیوانیت کے ساتھ جھپٹیں!
تو پھر ان مردار خور حیوان ادیبوں سے ان کی حقیقت نگاربے ادبی ہی بھلی! تف ہے ہمارے تبصرہ نگاروں پر کہ وہ ماں کی ممتا میں جنس زدہ لفظوں کی چھنالی پر اپنے دل کی روشنی رنگ سیاہی یوں انڈیلتے ہیں:
دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو گیلے پائخانے میں اناج کے دانے ڈھونڈتے ہیں، دھول میں بکھرے دانے انھیں نظر نہیں آتے۔کوئی کہہ سکتا ہے یہ تو ادبی عظمت کا انکار ہے۔ فی الواقع ایسا نہیں ہے یہی ادبی عظمت ہی تو ہے جس سے چالاک لوگوں کی چالاکی دھری رہ جاتی ہے اور سامنے کی ملون گندگی بھی ویری گڈ، فائن! کسی غیر ادیب نے ایسی ہی منٹو گیری کی ہوتی تو اسے چغد، وحشی، دیہاتی، بد تہذیب نہ جانے کون کون سے القاب کی نوازش ہوتی۔ منٹو صاحب کا ایک سرسری جائزہ لے لیجئے اور دیکھئے ان کے اعلیٰ افکار کس قماش کے ہیں۔’’ان الفاظ کا تعلق جنس سے ضرور ہے لیکن جس سیاق و سباق میں منٹو نے ان الفاظ کو اپنے افسانے کا حصہ بنایا ہے اس سے ذرہ برابر بھی انسان کا ذہن جنسی عوامل کی طرف نہیں جاتا……‘‘۔
ذوق جمال دیکھنا ہوتو ’’بلاؤج‘‘ پڑھئے جس میں بغل کا بال ہی نو عمر کے اندرون میں جمالیاتی ہلچل پیدا کردیتا ہے۔ ’’ممی‘‘ کی دلالہ پر جو گرم گوشت کی سرگرم ایجنٹ ہے بیچارے کو بڑا ترس آتا ہے یہ سچ ہے کہ وہ دلالہ جہاں بھی رہے گندگی ہی پھیلائے گی تو کیا اس کے لیے اسے دربدری کی سزا نہیں دی جاسکتی یا اس بنا پر وہ قابل تعریف ہے!
’’محمودہ‘‘ کی کہانی تو ٹھیک ٹھاک ہے مگر نشانہ کے لیے مولوی کی پیٹھ زیادہ فٹ بیٹھتی تھی۔ بھلا کون سا وہ مولوی ہے جو فاقہ کشی کو عین دین و ثواب جانتا ہو، گھر بار سے غافل رہتا ہو، شب و روز تسبیح ہی کرتاہو اور بیوی پیاس کے آنسو روتی ہو ۔غضب تو یہ ہے کہ مولوی کو ہی سب سے زیادہ دنیا کا حریص بھی بولا جاتا ہے۔ اسے چکلے کی بھی سیر کرالاتے ہیں۔ چچا غالب تو شراب کی بھٹی میں مولانا صاحب کو رنگے ہاتھ پکڑ لیتے ہیں ۔ع ……بس اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتے تھے کہ ہم نکلے
’’محمودہ‘‘ میں عام آدمی کو مولوی سے جس رنگ ڈھنگ میں تشبیہ دی گئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ صاحب کا معلوماتی حدود اربعہ سینٹی میٹر سے بھی تنگ تھا۔ بات تو سخت ہوجائے گی لیکن کہنا بہت ضروری ہے کہ خود منٹو کو اپنا وجود کیسے ہاتھ آگیا۔ لوگوں کے بتانے کے مطابق حضرت کے والد بھی مولوی تھے۔ مولوی غلام حسن منٹو۔ کیا معتقدین نسب نامہ کہیں اور سے لانا چاہیں گے؟…… ویسے یہ سوال میری خوش گمانی ہے ورنہ مداحین سے ایسی جرأت ممکن ہے کیونکہ ان کے یہاں یہ کوئی عیب نہیں۔ ’’ڈرپوک‘‘ کا ہیرو صرف اس لیے بھائی جان کے طنزیہ ادب کا شکار ہوا کہ وہ غلط کاری کے لیے اپنے شرمیلے ضمیر پر چھری نہ چلاسکا۔
’’خوشیا‘‘ کی کہانی قطعی بے دم ہے۔ آخر کسی کا ننگا جسم دکھانے میں کونسی فکری اڑان ہے۔ اب تو آئٹم لوگ بھی ننگے پن سے اکتا گئی ہیں۔ ان کا ایک ہیرو صرف اس لیے اول درجے کا چغد ہے کہ شرم و حیا اس کی ’’ہمت خاص‘‘ پر پانی ڈال دیتی ہے۔
’’ہمت‘‘ جس میں سرد و گرم آگ سلگ رہی ہے
دھوپ سے تیار لکڑیاں اور سوکھے پتے از خود جلنے کو تیار
امکانات کی سرحد پر دھاگا بھی رکاوٹ کے لیے موجود نہیں ہے ایسے مقام پر حددرجہ کریہہ سکھ ڈرائیو ٹپک پڑتا ہے اور لمحوں میں منٹو سے چالاکی کا تحفہ اصول کرتا ہے۔
ایک جگہ بیوہ کی مجبوریوں پر گھڑیالی آنسو بہائے بھی تو جنس کا سوکھا رنگ اتنا ڈال دیا کہ بینائی مرنے لگے۔
قاری زہریلے رنگوں میں اپنی آنکھیں ملے گا کہ بیوہ کی مجبوری دیکھے گا۔
بیوہ نظر ہی نہیں آتی
کچھ نظر بھی آتا ہے تو کھلا ہوا لاوارث گرم گوشت
اس کہانی سے یہ پیغام نہیں ملتا کہ بیوہ کو اپنایا جائے۔ یہاں تو شرابیوں کی ضرورت کا مسئلہ آجاتا ہے۔
لیکن ادباء ہیں کہ:
بھئی منٹو نے کیا بات کہی ہے۔
پلاٹ میں غضب کی فنکاری ہے۔
کلائمکس بڑا دردناک ہے۔
فکر تو ایسے ہے جیسے کوئی ننگی انگلیوں سے انگارے چن رہا ہو
الغرض آہ اور واہ!
پلاٹ میں غضب کی فنکاری ہے۔
کلائمکس بڑا دردناک ہے۔
فکر تو ایسے ہے جیسے کوئی ننگی انگلیوں سے انگارے چن رہا ہو
الغرض آہ اور واہ!
(ماخوذ ماہنامہ دی فری لانسر)