- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
بات مولوی مدن کی سی
مولوی اور داڑھی لازم و ملزوم ہیں۔ ہر مولوی داڑھی والا ضرور ہوتا ہے حالانکہ ہر داڑھی والا مولوی نہیں ہوتا۔ مثلاً سکھ اور شیخ صاحب داڑھی ہونے کے باوجود مولوی نہیں ہوتے کیوں کہ :
بڑھائی شیخ نے داڑھی، گرچہ سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
مولوی مدن ہوں یا مولوی عبد القدوس، ہمیں تو بس ایک عدد مولوی درکار ہے، جس پر خاکہ لکھا جا سکے یا بالفاظ دیگر خاکہ اڑایا جا سکے۔ مولوی اور حلوہ دونوں ایک دوسرے کی وجہ شہرت ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک مولوی صاحب کسی کے گھر اس کے بچے کو قائدہ پڑھاتے ہوئے بولے : ح سے حلوہ۔۔ ہلوہ نہیں حلوہ۔۔ آواز حلق سے نکالو۔۔۔ حلوہ۔۔۔ اندر زنان خانے سے آواز آئی، مولبی صاب، اب بچے کے حلق سے تو حلوہ نہ نکالو۔ میں آپ کے لئے اور حلوہ بھجواتی ہوں۔
کبھی مولوی علم و فضل کی شان سمجھا جاتا تھا۔ آج کل یہ محض مولانا فضل الرحمن گردانا جاتا ہے۔ یہ پروفیشنلزم کا دور ہے۔ اس دور میں مولوی وہ واحد پروفیشنل ہے۔ جو بہت کم پیسوں میں تیار ہو جاتا ہے۔ البتہ ایک مولوی کو مارنے پر بڑا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ شنید ہے کہ ایک ایک مولوی کو مارنے کے لئے لاکھوں روپے کی سپاری دی جاتی ہے۔ مولوی جب زیر تربیت ہوتا ہے تو پیسے پیسے کو محتاج ہوتا ہے لیکن جب یہ کسی مسجد مکتب کی بنیاد رکھتا ہے تو اس پر پیسہ ہن کی طرح برسنے لگتا ہے۔اور پھر جب یہ پیسوں سے بے نیاز ہو کر اپنے اصل کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یار لوگ پیسہ خرچ کر کے اسے خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اگر ایک مولوی کو مارو تو دس مولوی اور پیدا ہو جاتے ہیں۔ مولوی کے دشمن کتنے احمق ہیں کہ ایک مولوی کو مار کر دس مولوی بھی پیدا کرتے ہیں، اپنی عاقبت بھی خراب کرتے ہیں اور مولوی کو مفت میں شہادت کی سعادت سے بھی نواز دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں کی ریت ہے کہ جب کوئی ناکارہ طالب علم کچھ نہ بن پائے تو استاد بن جاتا ہے کہ : روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر ع، اسی طرح جب کوئی اولاد کسی قابل نظر نہ آئے تو والدین اسے مولوی بنانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تاکہ یہ ازخود کچھ کھا کما سکے۔ حالانکہ تربیتی مدارس میں اسے کھانے کو برائے نام ہی ملتا ہے لیکن جب مولوی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے تو کھانا اس کی کمزوری بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولوی کی صحت کبھی کمزور نہیں ہوتی ۔ وہ کھانے کے بعد میٹھا کھانا کبھی نہیں بھولتا، نتیجہ کے طور پر خوب پھلتا پھولتا ہے۔ ایک اچھا مولوی کھانے کے ذکر سے کبھی بدمزہ نہیں ہوتا حتیٰ کہ گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں جتنی گالی مولویوں کو دی جاتی ہے اتنی تو شاید شیطان کو بھی نہی دیجاتی۔ مولوی بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا جینا اور مرنا سب کھانے سے منسلک ہوتا ہے۔ یعنی حلوہ اور گالی کھا کر جیتے ہیں تو گولی کھا کر مرتے ہیں۔ مولوی ہمارے معاشرے کے لئے بڑی رحمت ہیں۔ ناکارہ اولاد کو کھپانا ہو تو مولوی بنا دو۔ کھانا فالتو ہو تو مولوی کی دعوت کر دو۔ جب کوئی خوف تنگ کرنے لگے تو صدقہ و خیرات کے نام پر مولوی اور اس کے اداروں کو نواز دو۔ لیکن جب یہی مولوی ہم سے دین کے راستے پر چلنے کا تقاضہ کرنے لگے تو ہم انہیں گالیاں دینے لگتے ہیں اور مولوی کا اسلام نامنظور کا نعرہ لگاتے ہیں۔ حالانکہ ان بے چاروں کے پاس اتنی صلاحیت کہاں ہوتی ہے کہ اپنا دین وضع کر سکیں۔ یہ تو بس قال اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ کے سہارے گذارہ کرتے ہیں۔ ذرا سوچیں اگر یہ مولوی نہ ہوتے تو کیا ہم نعوذ باللہ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو گالیاں دیتے۔ مولوی لاکھ برا سہی لیکن وہ بلاتا تو ہمیں شریعت ہی کی طرف ہے۔
ہم مولوی کے اتنے ہی محتاج ہیں جتنا کہ مولوی ہمارا۔ بچے کی پیدائش کی خوشخبری سنتے ہی ہم لڈو کے ساتھ ایک عدد مولوی کا بھی آرڈر دے دیتے ہیں تاکہ بچے کے کان میں اذان تو دی جا سکے، ہم تو اس کے بھی اہل نہیں۔ کسی مولوی کی مدد کے بغیر دلہا، سیج تک اور مردہ اپنی قبر تک نہیں پہنچ سکتا کہ نکاح اور جنازہ پڑھانا صرف ایک مولوی ہی کو آتا ہے۔ اور تو اور صدر مملکت کی تقریر ہو یا ناچ گانے کا ثقافتی پروگرام، افتتاحی تقریب میں تلاوت کلام پاک کے لئے کسی مولوی ہی کو ڈھونڈا جاتا ہے تاکہ فرمان خداوندی کو ادا کرنے کا ذمہ دار بھی مولوی ہی قرار پائے اور ہم اس سے مطلقاً بری الذمہ ہوں۔ یا اللہ اگر ہمارے درمیان مولوی نہ ہوتا ہمارا کیا حشر ہوتا۔ ہم کیسے پیدا ہوتے اور کیسے مرتے۔ کیا ہمارا آغاز و انجام بھی، ہماری زندگی کے بقیہ عرصہ حیات کی طرح ملحدانہ ہی ہوتا۔ شکر ہے کہ ابھی ہمارے معاشرے میں مولوی کی نعمت موجود ہے۔ شکریہ مولوی صاحب بہت بہت شکریہ۔
مولانا فضول کی سیاست
ایک وقت تھا کہ لوگ رشوت کی حرام کمائی کو طنزاً فضل ربی یعنی رب کا فضل کہا کرتے تھے۔ نہ جانے یہ حسن اتفاق ہے یا سوئے اتفاق کہ ہمارے ممدوح ’’مولانا فضول‘‘ کو بھی یار لوگ ’’ رحمان کا فضل‘‘ قرار دیتے ہیں۔ مولانا اپنے ارادے کے پکے مگر قول کے قدرے کچے ہیں۔ کرتے وہی ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ مگر جلسے جلوسوں اور سیاسی اجلاسوں میں ایسی باتیں بھی کرتے پائے جاتے ہیں جو عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہوتی ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کہ ہم عوام کی ترجمانی کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے ہیں، گو زمینی حقائق نے ہمیں ان پر عمل درآمد کا موقع نہیں دیا۔
مولانا فضول، ہل من مزید کی ایک عملی تصویر ہیں۔ نہ صرف خوش خوراک ہیں، بلکہ خوش گفتار بھی۔ ہر دو کام بے تکان کرتے ہیں اور موقع محل دیکھے بغیر کرتے چلے جاتے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اقتدار کے مزے بھی لیتے ہیں اور قائد حزب اختلاف بھی کہلوانے پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ صنف نازک کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی نہیں کا مطلب بھی ہاں ہوتا ہے۔ موصوف کا تعلق چونکہ صنف مخالف سے ہے، اس لئے موصوف اگر ہاں بھی کہہ رہے ہوں تو اس کا مطلب ناں ہی سمجھا جاتا ہے۔ اسمبلیوں سے بروقت استعفیٰ دینا ہو یا مشرف کی زیر نگرانی انتخابات کا بائیکاٹ کرنا، برسر مجلس ان کی ہر دو ہاں کا مطلب ناں ہی تھا، جو انہوں نے عملاً ثابت بھی کر دکھایا۔ آپ ایک دینی خانوادے سے تعلق رکھنے کے سبب شاعروں کے خیالات کے حامی نہیں۔ اسی لئے آپ، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ع کے قطعا قائل نہیں۔ آپ ہمیشہ ایسے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جن سے خدا بھی ملے اور وصال صنم میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ قاضی سے بھی رشتہ برقرار رہے اور بی بی بے مثال بھی اندرون خانہ خوش رہیں۔ طالبان سے بھی رابطہ برقرار رہے اور امریکہ بہادر کے لئے بھی قابل قبول نظر آئیں۔ اپوزیشن کے لیڈر بھی بنے رہیں اور مشرف حکومت کے نور نظر بھی۔
مولانا فضول پاکستان میں ایک نئی طرز سیاست کے بانی ہیں۔ ایسی سیاست جس میں چت بھی اپنی ہو اور پٹ بھی اپنی۔ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن میں شامل رہنے کا ہنر آپ ہی کی ایجاد کردہ ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے حکومت کے خلاف جلسے جلوس نکالنا ہو یا اپوزیشن لیڈر رہتے ہوئے حکومت وی وی آئی پی پروٹوکول بمع سہولیات سے استفادہ کرنا، یہ ہنر آپ سے قبل کسے آتا تھا؟ یہ آپ ہی کی سیاسی بصیرت کا کمال ہے کہ ایک طرف دینی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بھی قائم ہے تو دوسری طرف سیکولر پارٹیوں سے انڈر اسٹینڈنگ بھی جاری ہے۔ اگر دیگر سیاسی جماعتیں بھی مولانا فضول کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کر لیں تو پاکستانی سیاست سے محاذ آرائی کا یکسر خاتمہ ہو سکتا ہے۔ انتخابات جیتنے والی پارٹیاں اقتدار کے اندر اور ہارنے والی پارٹیاں اقتدار سے باہر رہتے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹ سکتی ہیں۔ نہ حکومت کو اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کرنے اور ان کے جلسے جلوسوں پر لاٹھی چارج اور گولیاں چلانے کی ذحمت ہو گی نہ اپوزیشن کو لاٹھی گولی کھانے اور جیل جانے کی مشقت برداشت کرنی پڑے گی۔ ہر دو گروپ، ہر دو صورتحال میں مل جل کر مزے میں رہیں گے۔
البتہ اس طرز سیاست میں عوام کا کوئی ذکر نہ ہو گا۔ عوام کا کام صرف انہیں ووٹ دے کر باری باری برسراقتدار اور فرینڈلی اپوزیشن بنانا ہو گا۔ وہ جلسے جلوسوں کی رونق بڑھا سکتے ہیں اور اپنے خون پسینے کی کمائی سیاست اور اہل سیاست کی نذر کر سکتے ہیں۔ عوام ہر دو انتخابات کے درمیان حسب سابق اپنی روٹی روزی کی فکر میں اپنا خون پسینہ بہاتے رہیں، تاکہ انکی نگاہ حزب اقتدار و حزب اختلاف کے رہنماؤں کی طرف نہ اٹھنے پائے۔ مولانا فضول کی فضول سیاست زندہ بات۔
کی قاضی نے سیاست، اگرچہ اصول کی سی
مگر وہ بات کہاں مولانا فضول کی سی
(طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے مجموعہ ’’یوسف کا بکاجانا‘‘ مطبوعہ ١٩٩٨ء کے مصنف یوسف ثانی کی ایک شاہکار تحریر جو طنز و مزاح دونوں کا نمونہ ہے)