• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ ہے طنز و مزاح ۔ ۔ ۔

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
بات مولوی مدن کی سی

مولوی اور داڑھی لازم و ملزوم ہیں۔ ہر مولوی داڑھی والا ضرور ہوتا ہے حالانکہ ہر داڑھی والا مولوی نہیں ہوتا۔ مثلاً سکھ اور شیخ صاحب داڑھی ہونے کے باوجود مولوی نہیں ہوتے کیوں کہ :

بڑھائی شیخ نے داڑھی، گرچہ سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی​

مولوی مدن ہوں یا مولوی عبد القدوس، ہمیں تو بس ایک عدد مولوی درکار ہے، جس پر خاکہ لکھا جا سکے یا بالفاظ دیگر خاکہ اڑایا جا سکے۔ مولوی اور حلوہ دونوں ایک دوسرے کی وجہ شہرت ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک مولوی صاحب کسی کے گھر اس کے بچے کو قائدہ پڑھاتے ہوئے بولے : ح سے حلوہ۔۔ ہلوہ نہیں حلوہ۔۔ آواز حلق سے نکالو۔۔۔ حلوہ۔۔۔ اندر زنان خانے سے آواز آئی، مولبی صاب، اب بچے کے حلق سے تو حلوہ نہ نکالو۔ میں آپ کے لئے اور حلوہ بھجواتی ہوں۔

کبھی مولوی علم و فضل کی شان سمجھا جاتا تھا۔ آج کل یہ محض مولانا فضل الرحمن گردانا جاتا ہے۔ یہ پروفیشنلزم کا دور ہے۔ اس دور میں مولوی وہ واحد پروفیشنل ہے۔ جو بہت کم پیسوں میں تیار ہو جاتا ہے۔ البتہ ایک مولوی کو مارنے پر بڑا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ شنید ہے کہ ایک ایک مولوی کو مارنے کے لئے لاکھوں روپے کی سپاری دی جاتی ہے۔ مولوی جب زیر تربیت ہوتا ہے تو پیسے پیسے کو محتاج ہوتا ہے لیکن جب یہ کسی مسجد مکتب کی بنیاد رکھتا ہے تو اس پر پیسہ ہن کی طرح برسنے لگتا ہے۔اور پھر جب یہ پیسوں سے بے نیاز ہو کر اپنے اصل کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یار لوگ پیسہ خرچ کر کے اسے خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اگر ایک مولوی کو مارو تو دس مولوی اور پیدا ہو جاتے ہیں۔ مولوی کے دشمن کتنے احمق ہیں کہ ایک مولوی کو مار کر دس مولوی بھی پیدا کرتے ہیں، اپنی عاقبت بھی خراب کرتے ہیں اور مولوی کو مفت میں شہادت کی سعادت سے بھی نواز دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں کی ریت ہے کہ جب کوئی ناکارہ طالب علم کچھ نہ بن پائے تو استاد بن جاتا ہے کہ : روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر ع، اسی طرح جب کوئی اولاد کسی قابل نظر نہ آئے تو والدین اسے مولوی بنانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تاکہ یہ ازخود کچھ کھا کما سکے۔ حالانکہ تربیتی مدارس میں اسے کھانے کو برائے نام ہی ملتا ہے لیکن جب مولوی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے تو کھانا اس کی کمزوری بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولوی کی صحت کبھی کمزور نہیں ہوتی ۔ وہ کھانے کے بعد میٹھا کھانا کبھی نہیں بھولتا، نتیجہ کے طور پر خوب پھلتا پھولتا ہے۔ ایک اچھا مولوی کھانے کے ذکر سے کبھی بدمزہ نہیں ہوتا حتیٰ کہ گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتا۔

ہمارے معاشرے میں جتنی گالی مولویوں کو دی جاتی ہے اتنی تو شاید شیطان کو بھی نہی دیجاتی۔ مولوی بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا جینا اور مرنا سب کھانے سے منسلک ہوتا ہے۔ یعنی حلوہ اور گالی کھا کر جیتے ہیں تو گولی کھا کر مرتے ہیں۔ مولوی ہمارے معاشرے کے لئے بڑی رحمت ہیں۔ ناکارہ اولاد کو کھپانا ہو تو مولوی بنا دو۔ کھانا فالتو ہو تو مولوی کی دعوت کر دو۔ جب کوئی خوف تنگ کرنے لگے تو صدقہ و خیرات کے نام پر مولوی اور اس کے اداروں کو نواز دو۔ لیکن جب یہی مولوی ہم سے دین کے راستے پر چلنے کا تقاضہ کرنے لگے تو ہم انہیں گالیاں دینے لگتے ہیں اور مولوی کا اسلام نامنظور کا نعرہ لگاتے ہیں۔ حالانکہ ان بے چاروں کے پاس اتنی صلاحیت کہاں ہوتی ہے کہ اپنا دین وضع کر سکیں۔ یہ تو بس قال اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ کے سہارے گذارہ کرتے ہیں۔ ذرا سوچیں اگر یہ مولوی نہ ہوتے تو کیا ہم نعوذ باللہ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو گالیاں دیتے۔ مولوی لاکھ برا سہی لیکن وہ بلاتا تو ہمیں شریعت ہی کی طرف ہے۔

ہم مولوی کے اتنے ہی محتاج ہیں جتنا کہ مولوی ہمارا۔ بچے کی پیدائش کی خوشخبری سنتے ہی ہم لڈو کے ساتھ ایک عدد مولوی کا بھی آرڈر دے دیتے ہیں تاکہ بچے کے کان میں اذان تو دی جا سکے، ہم تو اس کے بھی اہل نہیں۔ کسی مولوی کی مدد کے بغیر دلہا، سیج تک اور مردہ اپنی قبر تک نہیں پہنچ سکتا کہ نکاح اور جنازہ پڑھانا صرف ایک مولوی ہی کو آتا ہے۔ اور تو اور صدر مملکت کی تقریر ہو یا ناچ گانے کا ثقافتی پروگرام، افتتاحی تقریب میں تلاوت کلام پاک کے لئے کسی مولوی ہی کو ڈھونڈا جاتا ہے تاکہ فرمان خداوندی کو ادا کرنے کا ذمہ دار بھی مولوی ہی قرار پائے اور ہم اس سے مطلقاً بری الذمہ ہوں۔ یا اللہ اگر ہمارے درمیان مولوی نہ ہوتا ہمارا کیا حشر ہوتا۔ ہم کیسے پیدا ہوتے اور کیسے مرتے۔ کیا ہمارا آغاز و انجام بھی، ہماری زندگی کے بقیہ عرصہ حیات کی طرح ملحدانہ ہی ہوتا۔ شکر ہے کہ ابھی ہمارے معاشرے میں مولوی کی نعمت موجود ہے۔ شکریہ مولوی صاحب بہت بہت شکریہ۔

مولانا فضول کی سیاست​

ایک وقت تھا کہ لوگ رشوت کی حرام کمائی کو طنزاً فضل ربی یعنی رب کا فضل کہا کرتے تھے۔ نہ جانے یہ حسن اتفاق ہے یا سوئے اتفاق کہ ہمارے ممدوح ’’مولانا فضول‘‘ کو بھی یار لوگ ’’ رحمان کا فضل‘‘ قرار دیتے ہیں۔ مولانا اپنے ارادے کے پکے مگر قول کے قدرے کچے ہیں۔ کرتے وہی ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ مگر جلسے جلوسوں اور سیاسی اجلاسوں میں ایسی باتیں بھی کرتے پائے جاتے ہیں جو عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہوتی ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کہ ہم عوام کی ترجمانی کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے ہیں، گو زمینی حقائق نے ہمیں ان پر عمل درآمد کا موقع نہیں دیا۔

مولانا فضول، ہل من مزید کی ایک عملی تصویر ہیں۔ نہ صرف خوش خوراک ہیں، بلکہ خوش گفتار بھی۔ ہر دو کام بے تکان کرتے ہیں اور موقع محل دیکھے بغیر کرتے چلے جاتے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اقتدار کے مزے بھی لیتے ہیں اور قائد حزب اختلاف بھی کہلوانے پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ صنف نازک کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی نہیں کا مطلب بھی ہاں ہوتا ہے۔ موصوف کا تعلق چونکہ صنف مخالف سے ہے، اس لئے موصوف اگر ہاں بھی کہہ رہے ہوں تو اس کا مطلب ناں ہی سمجھا جاتا ہے۔ اسمبلیوں سے بروقت استعفیٰ دینا ہو یا مشرف کی زیر نگرانی انتخابات کا بائیکاٹ کرنا، برسر مجلس ان کی ہر دو ہاں کا مطلب ناں ہی تھا، جو انہوں نے عملاً ثابت بھی کر دکھایا۔ آپ ایک دینی خانوادے سے تعلق رکھنے کے سبب شاعروں کے خیالات کے حامی نہیں۔ اسی لئے آپ، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ع کے قطعا قائل نہیں۔ آپ ہمیشہ ایسے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جن سے خدا بھی ملے اور وصال صنم میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ قاضی سے بھی رشتہ برقرار رہے اور بی بی بے مثال بھی اندرون خانہ خوش رہیں۔ طالبان سے بھی رابطہ برقرار رہے اور امریکہ بہادر کے لئے بھی قابل قبول نظر آئیں۔ اپوزیشن کے لیڈر بھی بنے رہیں اور مشرف حکومت کے نور نظر بھی۔

مولانا فضول پاکستان میں ایک نئی طرز سیاست کے بانی ہیں۔ ایسی سیاست جس میں چت بھی اپنی ہو اور پٹ بھی اپنی۔ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن میں شامل رہنے کا ہنر آپ ہی کی ایجاد کردہ ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے حکومت کے خلاف جلسے جلوس نکالنا ہو یا اپوزیشن لیڈر رہتے ہوئے حکومت وی وی آئی پی پروٹوکول بمع سہولیات سے استفادہ کرنا، یہ ہنر آپ سے قبل کسے آتا تھا؟ یہ آپ ہی کی سیاسی بصیرت کا کمال ہے کہ ایک طرف دینی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بھی قائم ہے تو دوسری طرف سیکولر پارٹیوں سے انڈر اسٹینڈنگ بھی جاری ہے۔ اگر دیگر سیاسی جماعتیں بھی مولانا فضول کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کر لیں تو پاکستانی سیاست سے محاذ آرائی کا یکسر خاتمہ ہو سکتا ہے۔ انتخابات جیتنے والی پارٹیاں اقتدار کے اندر اور ہارنے والی پارٹیاں اقتدار سے باہر رہتے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹ سکتی ہیں۔ نہ حکومت کو اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کرنے اور ان کے جلسے جلوسوں پر لاٹھی چارج اور گولیاں چلانے کی ذحمت ہو گی نہ اپوزیشن کو لاٹھی گولی کھانے اور جیل جانے کی مشقت برداشت کرنی پڑے گی۔ ہر دو گروپ، ہر دو صورتحال میں مل جل کر مزے میں رہیں گے۔

البتہ اس طرز سیاست میں عوام کا کوئی ذکر نہ ہو گا۔ عوام کا کام صرف انہیں ووٹ دے کر باری باری برسراقتدار اور فرینڈلی اپوزیشن بنانا ہو گا۔ وہ جلسے جلوسوں کی رونق بڑھا سکتے ہیں اور اپنے خون پسینے کی کمائی سیاست اور اہل سیاست کی نذر کر سکتے ہیں۔ عوام ہر دو انتخابات کے درمیان حسب سابق اپنی روٹی روزی کی فکر میں اپنا خون پسینہ بہاتے رہیں، تاکہ انکی نگاہ حزب اقتدار و حزب اختلاف کے رہنماؤں کی طرف نہ اٹھنے پائے۔ مولانا فضول کی فضول سیاست زندہ بات۔

کی قاضی نے سیاست، اگرچہ اصول کی سی
مگر وہ بات کہاں مولانا فضول کی سی​

(طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے مجموعہ ’’یوسف کا بکاجانا‘‘ مطبوعہ ١٩٩٨ء کے مصنف یوسف ثانی کی ایک شاہکار تحریر جو طنز و مزاح دونوں کا نمونہ ہے)​
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اہل باطل کے رد میں لکھی جانے والی تحریروں سے یوسف ثانی بھائی کو فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں فرقہ پرست مسلمانوں کے دل نہ ٹوٹ جائیں انہیں دکھ نہ ہو۔ دیکھئے: دیوبندیوں کی منافقت
لیکن طنز ومزاح کے نام پر اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں زرا احساس نہیں ہوتا کہ کتنے مسلمانوں کے دل ٹوٹیں گے۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اہل باطل کے رد میں لکھی جانے والی تحریروں سے یوسف ثانی بھائی کو فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں فرقہ پرست مسلمانوں کے دل نہ ٹوٹ جائیں انہیں دکھ نہ ہو۔ دیکھئے: دیوبندیوں کی منافقت
لیکن طنز ومزاح کے نام پر اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں زرا احساس نہیں ہوتا کہ کتنے مسلمانوں کے دل ٹوٹیں گے۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
اللہ معاف کرے، آپ نے یہ سوچا بھی کیسے کہ یہ خاکسار ایسا سوچ بھی سکتا ہے؟
یہ ایک ادبی تحریر ہے، جس میں معاشرے کے ایک اہم مذہبی کردار کی کمزوریوں کو مستند حوالوں کے ذریعہ فکاہیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں جس موصوف کے منفی کردار کو اجاگر کیا گیا ہے، اس میں کوئی بات خلاف واقعہ نہیں ہے۔ اگر کسی کو ایسا نظر آئے تو وضاحت کرے۔
مولونا فضل الرحمان کو خلق خدا جس نام (مولانا ڈیزل)سے پکارتی ہے، اس کا تو تذکرہ بھی اس میں نہیں ہے۔ موصوف بینظیر کے عاشق بھی رہ چکے ہیں، جس پر انہیں ان کے والد محترم مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ نے زبردست جھاڑ پلائی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں آپ احرام میں عمرے پر جارہے تھے تو کراچی ائر پورٹ سے انہیں واپس کردیا گیا تھا کہ ان کا نام ای سی ایل میں تھا، دیگر سیاستدانوں کے ساتھ۔ چنانچہ وہ اسی احرام میں حکومت کی ’’شکایت‘‘ کرنے ٧٠ کلفٹن میں محترمہ بینظیر کے ’دربار‘میں حاضر ہوئے۔ تب محترمہ غیر شادی شدہ تھیں۔ پھر موصوف ایک دینی جماعت سے تعلق رکھنے کے باوجود بینظیر کی کابینہ میں کشمیر کمیٹی کے چیئر میں بنے۔ واضح رہے کہ بینطیر اپنی ماں کے توسط سے شیعہ بن چکی تھیں۔ اب ان کے شوہر بھی شیعہ ہیں۔ پھر مولانا صاحب ایک قادیانی جنرل مشرف کی حکومت میں آخر وقت تک ان کے ساتھ رہے۔ کیا کوئی مسلمان عالم دین پاکستان کی سیاست میں رہتے ہوئے، ایک دینی جماعت کا سربراہ ہوتے ہوئے ایک شیعہ اور ایک قادیانی حکومت کی عملا" حمایت کر کے ساتھ اس طرح کا تعلق قائم رکھ سکتا ہے۔۔۔ ایسے ہی (نام نہاد) مولوی اور مولانا ’’اسلامی شعائر‘‘ کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں نہ کہ مجھ جیسےقلمکار جو اپنی تحریروں کے ذریعہ ایسی کالی بھیڑوں کو ایکسپوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

جناب محترم یوسف ثانی بھائی مجھے ہر گز اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ کے مضمون میں ایک حلوہ خور مولوی جو کہ عام طور پر بریلوی ہوتا ہے اور ایک دیوبندی مولوی فضل الرحمنٰ پر تنقید کی گئی ہے مجھے اصل اعتراض اس بات پر ہے کہ آپ نے ان دو شخصیات پر تنقید کے لئے دو اسلامی شعار کا سہارا لیا ہے یعنی داڑھی اور مولوی۔ آپ یقین کریں کہ آپ کی پوری تحریر کا تاثر یہ ہے کہ اکثر داڑھی والے اور مولوی حضرات برے ہوتے ہیں۔ اگرچہ تمام مولوی حضرات کی بات نہیں کی گئی لیکن جب ایسی تحریریں پڑھکر کوئی شخص اسلامی معاشرے کے ایک اہم کردار مولوی سے پرگشتہ ہوجاتا ہے تو وہ عام طور پر ایک ہی لاٹھی سے تمام مولویوں کو ہانکنے لگتا ہے جس سے نہ صرف ایک صحیح مولوی کا وہ جائز مقام معاشرے میں گھٹ جاتا ہے جو کہ اسے دین اسلام نے دیا ہے تو دوسری طرف عام مسلمان بھی دینی طور پر اس کا نقصان اٹھاتے ہیں کہ اس مولوی کی جائز عزت اور مقام اپنے دل میں نہ پاکر اس کی صحیح بات کو بھی قبول نہیں کرتے۔ اس میں ان لوگوں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے جنھوں نے لطیفوں میں مولوی کے کردار کو ڈال کر معاشرے میں اس کی عزت گھٹانے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے آپ میرا نقطہ نظر سمجھ گئے ہونگے۔ان شاء اللہ
یہی وجہ ہے کہ میں اس طرح کے ادب اور شاعری کو پسند نہیں کرتا جس میں اسلام یا اسلامی شعار کو تختہ مشق بنایا گیا ہو۔آخر اسلام کے علاوہ بھی تو بہت کچھ ہے جس سے ادبی جذبات کی تسکین کی جاسکتی ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

جناب محترم یوسف ثانی بھائی مجھے ہر گز اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ کے مضمون میں ایک حلوہ خور مولوی جو کہ عام طور پر بریلوی ہوتا ہے اور ایک دیوبندی مولوی فضل الرحمنٰ پر تنقید کی گئی ہے مجھے اصل اعتراض اس بات پر ہے کہ آپ نے ان دو شخصیات پر تنقید کے لئے دو اسلامی شعار کا سہارا لیا ہے یعنی داڑھی اور مولوی۔ آپ یقین کریں کہ آپ کی پوری تحریر کا تاثر یہ ہے کہ اکثر داڑھی والے اور مولوی حضرات برے ہوتے ہیں۔ اگرچہ تمام مولوی حضرات کی بات نہیں کی گئی لیکن جب ایسی تحریریں پڑھکر کوئی شخص اسلامی معاشرے کے ایک اہم کردار مولوی سے پرگشتہ ہوجاتا ہے تو وہ عام طور پر ایک ہی لاٹھی سے تمام مولویوں کو ہانکنے لگتا ہے جس سے نہ صرف ایک صحیح مولوی کا وہ جائز مقام معاشرے میں گھٹ جاتا ہے جو کہ اسے دین اسلام نے دیا ہے تو دوسری طرف عام مسلمان بھی دینی طور پر اس کا نقصان اٹھاتے ہیں کہ اس مولوی کی جائز عزت اور مقام اپنے دل میں نہ پاکر اس کی صحیح بات کو بھی قبول نہیں کرتے۔ اس میں ان لوگوں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے جنھوں نے لطیفوں میں مولوی کے کردار کو ڈال کر معاشرے میں اس کی عزت گھٹانے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے آپ میرا نقطہ نظر سمجھ گئے ہونگے۔ان شاء اللہ
یہی وجہ ہے کہ میں اس طرح کے ادب اور شاعری کو پسند نہیں کرتا جس میں اسلام یا اسلامی شعار کو تختہ مشق بنایا گیا ہو۔آخر اسلام کے علاوہ بھی تو بہت کچھ ہے جس سے ادبی جذبات کی تسکین کی جاسکتی ہے۔
جزاک اللہ خیرا
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

جناب محترم یوسف ثانی بھائی مجھے ہر گز اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ کے مضمون میں ایک حلوہ خور مولوی جو کہ عام طور پر بریلوی ہوتا ہے اور ایک دیوبندی مولوی فضل الرحمنٰ پر تنقید کی گئی ہے مجھے اصل اعتراض اس بات پر ہے کہ آپ نے ان دو شخصیات پر تنقید کے لئے دو اسلامی شعار کا سہارا لیا ہے یعنی داڑھی اور مولوی۔ آپ یقین کریں کہ آپ کی پوری تحریر کا تاثر یہ ہے کہ اکثر داڑھی والے اور مولوی حضرات برے ہوتے ہیں۔ اگرچہ تمام مولوی حضرات کی بات نہیں کی گئی لیکن جب ایسی تحریریں پڑھکر کوئی شخص اسلامی معاشرے کے ایک اہم کردار مولوی سے پرگشتہ ہوجاتا ہے تو وہ عام طور پر ایک ہی لاٹھی سے تمام مولویوں کو ہانکنے لگتا ہے جس سے نہ صرف ایک صحیح مولوی کا وہ جائز مقام معاشرے میں گھٹ جاتا ہے جو کہ اسے دین اسلام نے دیا ہے تو دوسری طرف عام مسلمان بھی دینی طور پر اس کا نقصان اٹھاتے ہیں کہ اس مولوی کی جائز عزت اور مقام اپنے دل میں نہ پاکر اس کی صحیح بات کو بھی قبول نہیں کرتے۔ اس میں ان لوگوں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے جنھوں نے لطیفوں میں مولوی کے کردار کو ڈال کر معاشرے میں اس کی عزت گھٹانے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے آپ میرا نقطہ نظر سمجھ گئے ہونگے۔ان شاء اللہ
یہی وجہ ہے کہ میں اس طرح کے ادب اور شاعری کو پسند نہیں کرتا جس میں اسلام یا اسلامی شعار کو تختہ مشق بنایا گیا ہو۔آخر اسلام کے علاوہ بھی تو بہت کچھ ہے جس سے ادبی جذبات کی تسکین کی جاسکتی ہے۔
مجھے آپ کا نکتہ نظر جان کر خوشی ہوئی۔ مجھے آپ کے اس نکتہ سے صد فیصد اتفاق ہے۔
مگر سخن گسترانہ بات یہ ہےکہ آپ دیو بندی، بریلوی اور دیگر مکتبہ ہائے فکر کا نام لے کر ان سے وابستہ جملہ مولویوں کو براہ راست نہ صرف تنقید کا نشانہ بنانے اور انہیں برا بھلا کہنے کو تو دیگر احباب کی طرح جائز بلکہ ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر یہی بات ایک لطیف ادبی پیرائے میں کسی فرد یا گروپ کا نام لئے بغیر اشارے اور کنایے میں خاکہ نویسی یا فکاہیہ انداز میں کی جائے تو آپ کو بُرا لگتا ہے۔ کیا یہ (ادبی انداز تحریر سے سے عدم واقفیت کے علاوہ) کھلا تضاد نہیں۔ :)
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
مگر سخن گسترانہ بات یہ ہےکہ آپ دیو بندی، بریلوی اور دیگر مکتبہ ہائے فکر کا نام لے کر ان سے وابستہ جملہ مولویوں کو براہ راست نہ صرف تنقید کا نشانہ بنانے اور انہیں برا بھلا کہنے کو تو دیگر احباب کی طرح جائز بلکہ ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر یہی بات ایک لطیف ادبی پیرائے میں کسی فرد یا گروپ کا نام لئے بغیر اشارے اور کنایے میں خاکہ نویسی یا فکاہیہ انداز میں کی جائے تو آپ کو بُرا لگتا ہے۔ کیا یہ (ادبی انداز تحریر سے سے عدم واقفیت کے علاوہ) کھلا تضاد نہیں۔
آپ نے بہت بہترین بات کہی میں اس کے لئے تیار تھا۔
برادر جب میں براہ راست کسی فرقے یا فرقہ پرست مولوی کا نام لیتا ہوں تو میری تردید صرف اسی تک محدود رہتی ہے جو کہ عام طور پر لوگوں کو اس مولوی یا فرقے سے بچانے کی غرض سے کی جاتی ہے۔
اس کے برعکس اگر مطلقا کسی اصطلاح یا ایسے لفظ کے ساتھ رد پیش کیا جائے جس کا اطلاق تمام یا اکثر پر ہوتا ہو تو وہ رد غلط فہمی کا باعث بنتا ہے۔خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو ادب اور شاعری سے ناواقف ہوں بشمول راقم الحروف۔ واللہ اعلم
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
آپ نے بہت بہترین بات کہی میں اس کے لئے تیار تھا۔
برادر جب میں براہ راست کسی فرقے یا فرقہ پرست مولوی کا نام لیتا ہوں تو میری تردید صرف اسی تک محدود رہتی ہے جو کہ عام طور پر لوگوں کو اس مولوی یا فرقے سے بچانے کی غرض سے کی جاتی ہے۔
اس کے برعکس اگر مطلقا کسی اصطلاح یا ایسے لفظ کے ساتھ رد پیش کیا جائے جس کا اطلاق تمام یا اکثر پر ہوتا ہو تو وہ رد غلط فہمی کا باعث بنتا ہے۔خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو ادب اور شاعری سے ناواقف ہوں بشمول راقم الحروف۔ واللہ اعلم
آپ کی اس ’’معقول بات‘‘ سے متفق ہوں۔ بس آپ میری یہ دو معروضات بھی سن لیں
١۔ ادبی تخلیقات، ادب کے طالب علموں کے لئے لکھی جاتی ہیں۔ اگر کسی کی سمجھ سے ادبی تخلیقات بالا تر ہوں تو اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ اسے ضرور پڑھے اور اگر بغیر سمجھے پڑھ بھی لے تو لازم نہیں کہ اس پر تبصرہ بھی کرے بلکہ تبصرہ سے آگے بڑھ کر صاحب تحریر پر فتویٰ بھی جاری کرے۔ اگر کسی عامی یا مولوی کو علامہ اقبال کی نظم شکوہ یا جواب شکوہ کی سمجھ نہ آئے تو وہ علامہ پر فتویٰ جاری نہ کرے کہ ’’اللہ سے شکوہ کرنے والا کافر ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ
٢۔ مذکورہ بالا تحریر میں اول تو تمثیلی نام ’’مولانا فضول‘‘ سے اصل مولوی کی طرف ایک’’اوپن اشارہ‘‘ ہے، لہٰذا آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تحریر سارے ’’مولویوں‘‘ کے بارے میں ہیں۔ ’’حلوہ خور مولوی‘‘ کے کنایہ سے تو آپ جیسے ادب نا آشنا بھی سمجھ گئے کہ اشارہ بریلوی مولوی کی طرف ہے، ادب شناس تو اور بھی ا چھی طرح سمجھ جائیں گے۔ لیکن مکتبہ فکر کا نام لئے بغیر ان کی ’’خامی‘‘ کا ذکر کا ایک ’’فائدہ‘‘ یہ بھی ہے کہ اگر اس تحریر کو کوئی ’’حلوہ خور مولوی‘‘ یا ان کا حامی پڑھے گا تو وہ بھی بات کو سمجھ ضرور جائے گا کہ ’’ہم میں‘‘ خامی کیا ہے۔ نام لے کر اسے برا بھلا کہا جائے تو اول تو وہ پڑھے گا نہیں۔ اور اگر پڑھ بھی لے تو صاحب تحریر پر جوابی الزامات عائد کرے گا ۔ ایک ادبی تحریر اور ایک سادہ مضمون کے اسلوب میں بنیادی فرق ہوتا ہے۔ بات کہنے کا انداز الگ ہوتا ہےَ خواہ بات ایک ہی کیوں نہ ہو۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
آپ کی اس ’’معقول بات‘‘ سے متفق ہوں۔ بس آپ میری یہ دو معروضات بھی سن لیں
١۔ ادبی تخلیقات، ادب کے طالب علموں کے لئے لکھی جاتی ہیں۔ اگر کسی کی سمجھ سے ادبی تخلیقات بالا تر ہوں تو اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ اسے ضرور پڑھے اور اگر بغیر سمجھے پڑھ بھی لے تو لازم نہیں کہ اس پر تبصرہ بھی کرے بلکہ تبصرہ سے آگے بڑھ کر صاحب تحریر پر فتویٰ بھی جاری کرے۔ اگر کسی عامی یا مولوی کو علامہ اقبال کی نظم شکوہ یا جواب شکوہ کی سمجھ نہ آئے تو وہ علامہ پر فتویٰ جاری نہ کرے کہ ’’اللہ سے شکوہ کرنے والا کافر ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ
٢۔ مذکورہ بالا تحریر میں اول تو تمثیلی نام ’’مولانا فضول‘‘ سے اصل مولوی کی طرف ایک’’اوپن اشارہ‘‘ ہے، لہٰذا آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تحریر سارے ’’مولویوں‘‘ کے بارے میں ہیں۔ ’’حلوہ خور مولوی‘‘ کے کنایہ سے تو آپ جیسے ادب نا آشنا بھی سمجھ گئے کہ اشارہ بریلوی مولوی کی طرف ہے، ادب شناس تو اور بھی ا چھی طرح سمجھ جائیں گے۔ لیکن مکتبہ فکر کا نام لئے بغیر ان کی ’’خامی‘‘ کا ذکر کا ایک ’’فائدہ‘‘ یہ بھی ہے کہ اگر اس تحریر کو کوئی ’’حلوہ خور مولوی‘‘ یا ان کا حامی پڑھے گا تو وہ بھی بات کو سمجھ ضرور جائے گا کہ ’’ہم میں‘‘ خامی کیا ہے۔ نام لے کر اسے برا بھلا کہا جائے تو اول تو وہ پڑھے گا نہیں۔ اور اگر پڑھ بھی لے تو صاحب تحریر پر جوابی الزامات عائد کرے گا ۔ ایک ادبی تحریر اور ایک سادہ مضمون کے اسلوب میں بنیادی فرق ہوتا ہے۔ بات کہنے کا انداز الگ ہوتا ہےَ خواہ بات ایک ہی کیوں نہ ہو۔
یوسف ثانی بھائی کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اور اسے مزید آگے بڑھاتے ہوئے عرض کرنا چاہوں گا کہ ۔۔۔

ہم کو ادیبوں یا شاعروں سے یہ مطالبہ نہیں کرنا چاہئے کہ آسان زبان میں ادب تخلیق کرو۔ یا لکھو تو ایسا صاف صاف لکھو کہ ہر کسی کی سمجھ میں آ جائے۔ ایسا مطالبہ وہاں زیادہ مناسب لگے گا جہاں کسی معاملے میں شریعت سے رہنمائی درکار ہو۔

دراصل ادب کے ہزار ہا پہلو ہوتے ہیں۔ کئی ایسے ادیب و شاعر بھی ہوتے ہیں جو آسان زبان میں ادب تخلیق کرتے ہیں اور کئی ایسے ہوتے ہیں جو مشکل پسند ہوتے ہیں۔ اور اس عمل سے زبان کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا بلکہ زبان ہر اعتبار سے مالا مال ہوتی جاتی ہے۔
آج سے سو ، دیڑھ سو سال پہلے جب متحدہ ہندوستان میں اُردو کا طوطی بول رہا تھا ، غالب جیسا شاعر پیدا ہوا ، جو مشکل پسندی میں ثانی نہیں رکھتا تھا۔
زبان کی ترویج و تشکیل کا ادب کی تحریکوں سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ اسے کسی بھی عہد میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ عوامی زبان کی شاعری نظیر اکبر آبادی نے کی تو دوسری طرف پریم چند نے عوامی زبان میں افسانے / ناول لکھے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔

مشکل پسندی کا مسئلہ زبان کا نہیں "ادب" کا ہے۔ اگر کسی کو ادب سے دلچسپی نہیں تو یہ کوئی خراب بات نہیں نہ ہی یہ کسی کمتری کی نشانی ہے۔ ویسے بھی خالص ادب کا سمجھنا ہر کسی کے لیے ضروری نہیں۔
ہاں موجودہ دور میں یہ مطالبہ کسی حد تک جائز نظر آتا ہے کہ کسی زبان میں کچھ لکھنا ہو یا کسی بات یا فکر و نظر کی ترسیل کا ارادہ ہو تو اس زبان کے شعر و ادب سے معقول واقفیت ہونی چاہیے۔ کیونکہ اس سے بات کی پراثر ترسیل میں مدد ملتی ہے۔
شاید یہی سبب ہو کہ علمائے دین کی تحریروں یا مقالات میں بھی ہمیں برجستہ اشعار ، لطیف قسم کے طنزیہ اشارے و کنایے یا ادبی محاوروں کی چاشنی وغیرہ نظر آتی ہے۔
 
Top