باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
شیخ البانی علیہ الرحمۃ کا عربی بیان ، آڈیو لنک :
حكم خروج المرأة لممارسة نشاط إسلامي
علامہ البانی علیہ الرحمۃ کی تقریر کا متعلقہ حصہ (عورت کی طرف سے دعوتِ دین) ٹکسٹ صورت میں یہاں دیکھئے :
حكم خروج المرأة لممارسة نشاط إسلامي
اردو ترجمہ طارق علی بروہی بھائی ، پی ڈی ایف فائل :
خواتین کا دعوتی سرگرمیوں میں غلو کرنا
حكم خروج المرأة لممارسة نشاط إسلامي
علامہ البانی علیہ الرحمۃ کی تقریر کا متعلقہ حصہ (عورت کی طرف سے دعوتِ دین) ٹکسٹ صورت میں یہاں دیکھئے :
حكم خروج المرأة لممارسة نشاط إسلامي
اردو ترجمہ طارق علی بروہی بھائی ، پی ڈی ایف فائل :
خواتین کا دعوتی سرگرمیوں میں غلو کرنا
شیخ البانی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا :
کیا عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ مخصوص و معین اسلامی دعوتی سرگرمیوں میں ملوث و متحرک ہو؟
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا جواب تھا :
میں ایک ناصح اور خیر خواہ کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ عالم اسلام کی مصیبت و بدقسمتی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورتیں یہاں تک کہ مسلمان عورتیں بلکہ پردہ دار خواتین بھی اور اس سے بڑھ کر بعض سلفی (بہنیں) بھی نکل پڑتی ہیں اس چیز کی طرف جو ان کے وظائف میں سے نہیں !
حالانکہ عورتوں کے لئے اسلامی (دعوتی) سرگرمی کا کوئی وجود نہیں !!
اس کی سرگرمیاں اس کے گھر میں ، گھر کی دہلیز کے اندر اندر ہیں۔ عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ مردوں کی مشابہت اختیار کرے اور اسی طرح مسلمان عورت کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ مسلمان مرد کی مشابہت اختیار کرے۔
مسلمان عورتیں اگر اسلام کی کماحقہ خدمت کرنا چاہتی ہیں تو وہ اپنے گھر میں کریں۔ عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ نکلے ، اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر پر یہ شرط عائد کرے کہ وہ (بیوی) شادی کے بعد بھی لازماَ اسلامی دعوتی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہے گی۔
(جیسا کہ اخوان المسلمون کی مشہور لیڈر زینب نے اپنے شوہر پر یہ شرط عائد کی تھی [الاخوانیۃ و دعوۃ السلفیۃ] :: مترجم)
اس کی سابقہ دعوتی سرگرمیاں اگر بالفرض مطلقاً جائز بھی ہوتیں تو پھر بھی وہ کنواری باکرہ لڑکیوں کی حالت سے مناسبت رکھتی ہیں کہ جن پر کوئی مسئولیت و ذمہ داریاں نہیں ہوتیں۔ اب جبکہ وہ گھر والی ہو گئی ہے جس پر اپنے شوہر کی جانب سے واجبات ہیں اور جو اس کی اولاد ہوگی ، ان کی طرف سے بھی ، لہذا یہ بالکل ایک بدیہی امر ہے کہ اس کی زندگی میں (ذمہ داریوں کا) اضافہ ہو گیا ہے۔ اور یہ سب بھی اس وقت جب ہم یہ مفروضہ بنائیں کہ سابقہ شرط جائز تھی حالانکہ درحقیقت ہم اس کے مطلق جواز کے قائل ہی نہیں۔
صحابی عورتیں (رضی اللہ عنہن) جو علمی اور ثقافتی وغیرہ اعتبار سے ایک نمونہ تھیں ، لیکن ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کسی عورت نے اسلامی (دعوتی) سرگرمی وغیرہ کی قیادت مردوں کے مابین شروع کر دی ہو۔ لیکن جب آپ یہ سنتے ہیں کہ ام المومنین سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) گھر سے باہر نکلی تھیں۔ (اس کی کیا توجیہ ہے؟)
(جواب یہ ہیکہ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایسے مسئلے اور فتنے میں باہر نکلی تھیں جو وقوع پذیر ہوا اور جس میں نکلنا ان کے خیال میں مسلمانوں کے لیے خیر کا باعث تھا ، مگر درحقیقت ایسا نہ تھا۔
اور بلاشبہ علماء اسلام کی رائے کے مطابق آپ (رضی اللہ عنہا) کا یہ خروج غلطی پر مبنی تھا۔ اور ان (رضی اللہ عنہا) کا واقعۂ جمل وغیرہ میں خطبہ خطا پر مبنی تھا ، لیکن اس خطا کے باوجود اپنی دیگر حسنات کی وجہ سے وہ مغفور ہیں۔ البتہ کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ آپ رضی اللہ عنہا کی اس غلطی میں پیروی کرے جبکہ آپ (رضی اللہ عنہا) نے خود اس سے توبہ کر لی تھی اور مزید یہ کہ ہم ان کی باقی حیات میں (دوبارہ) ایسا نکلنا اور ایسا کوئی خروج بالکل نہیں جانتے۔ چنانچہ وہ خاص ماحول تھا جس میں ان کی جانب سے خاص اجتہاد تھا لیکن اس کے باوجود یہ اجتہادی غلطی ہی تھی۔
البتہ آپ دیکھتے ہیں عورت کو کہ کسی (دعوتی طور پر) سرگرم مرد کی مانند آنا جانا لگایا ہوا ہے اور بسا اوقات تو بعض ان میں سے اکیلے سفر تک کر جاتی ہیں جو کہ اسلام میں حرام سفر ہے۔
لا يجوز لامرأة أن تسافر سفراً إلا ومعها زوجها أو محرم لها
(عورت کے لیے سفر جائز نہیں الا یہ کہ اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی محرم ہو)
تو آپ ان عورتوں کو پائیں گے کہ دعوت الی اللہ کے نام پر گھر سے باہر اکیلے سفر کر رہی ہیں۔ لیکن فی الواقع اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مرد اس چیز کو ادا نہیں کر رہے جو ان پر واجب ہے۔ اسی لئے یہ جگہ خالی رہ گئی تو بعض عورتوں پر یہ خیال گزرا کہ ہم پر یہ ضروری ہے کہ اس خلا کو پُر کریں۔
پس ہم مردوں کو چاہئے کہ فریضہء دعوت کو فہماَ ، عملاَ ، تطبیقاَ اور دعوتاَ ادا کریں اور عورتوں کو ان کے گھروں میں ٹکنے کا مکلف بنائیں اور وہ اس واجب کو ادا کریں جو ان کے رشتہ داروں ، اولاد ، بھائیوں اور بہنوں کی تربیت کے تعلق سے ان پر ہے۔
البتہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ان عورتوں میں سے کچھ پڑوسنیں ایسی جگہ پر جو عورتوں کے لیے خاص ہو ، جمع ہوں اور ایسی مناسب اور دھیمی آواز سے جو اس مکان کے مناسب حال ہو (جہاں وہ بیٹھی ہوئی ہیں) ، دعوت دیں۔
{یعنی مردوں تک ان کی آواز کیسٹ ، ریڈیو ، سی ڈیز ، ویڈیوز ، ویب سائیٹ ، دروس ، پال ٹاک وغیرہ کے ذریعہ نہ پہنچے۔ جس کی عمدہ مثال موجودہ دور میں محدث دیار یمن علامہ مقبل بن ہادی الوداعی رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی جو خود بھی ایک بہترین عالمہ سلفیہ ہیں اور ان کے دروس بھی ہوتے ہیں اور وہ کتابیں بھی تصنیف کرتی ہیں مگر کسی مرد نے ٹیپ ، ریڈیو ، پال ٹاک ، سی ڈیز ، انٹرنیٹ وغیرہ پر آج تک ان کی آواز نہیں سنی۔ یہاں تک کہ ان کا اصل نام بھی سوائے ام عبداللہ کے کسی کو معلوم نہیں :: [مترجم] }
جبکہ جو کچھ ہم آج کل مشاہدہ کر رہے ہیں تو میرا اعتقاد ہے کہ اس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ، اگرجہ بعض اسلامی جماعتیں ، خواتین کی ایسی تحریکوں (سرگرمیوں ، جماعتوں ، تنظیموں ، مراکز وغیرہ) کا انتظام اسلام کے نام پر کریں۔
میرا یہ اعتقاد ہے کہ یہ دین میں نئے کاموں (بدعات) میں سے ہے۔
اور آپ لوگوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان یاد ہوگا اور میں زور دوں گا کہ آپ اسے حفظ کر لیں :
وإياكم ومحدثات الأمور، فإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار
(اور دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچو ، کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے)
اور ہم اتنی ہی بات پر کفایت کرتے ہیں۔
سبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إله إلا أنت، أستغفرك وأتوب إليك.
طارق علی بروہی بھائی کی پی۔ڈی۔ایف فائل سے یونیکوڈ کمپوزنگ : باذوق