• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواتین کا دعوتی سرگرمیوں میں غلو

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
شیخ البانی علیہ الرحمۃ کا عربی بیان ، آڈیو لنک :
حكم خروج المرأة لممارسة نشاط إسلامي

علامہ البانی علیہ الرحمۃ کی تقریر کا متعلقہ حصہ (عورت کی طرف سے دعوتِ دین) ٹکسٹ صورت میں یہاں دیکھئے :
حكم خروج المرأة لممارسة نشاط إسلامي

اردو ترجمہ طارق علی بروہی بھائی ، پی ڈی ایف فائل :
خواتین کا دعوتی سرگرمیوں میں غلو کرنا

شیخ البانی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا :
کیا عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ مخصوص و معین اسلامی دعوتی سرگرمیوں میں ملوث و متحرک ہو؟
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا جواب تھا :
میں ایک ناصح اور خیر خواہ کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ عالم اسلام کی مصیبت و بدقسمتی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورتیں یہاں تک کہ مسلمان عورتیں بلکہ پردہ دار خواتین بھی اور اس سے بڑھ کر بعض سلفی (بہنیں) بھی نکل پڑتی ہیں اس چیز کی طرف جو ان کے وظائف میں سے نہیں !
حالانکہ عورتوں کے لئے اسلامی (دعوتی) سرگرمی کا کوئی وجود نہیں !!
اس کی سرگرمیاں اس کے گھر میں ، گھر کی دہلیز کے اندر اندر ہیں۔ عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ مردوں کی مشابہت اختیار کرے اور اسی طرح مسلمان عورت کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ مسلمان مرد کی مشابہت اختیار کرے۔

مسلمان عورتیں اگر اسلام کی کماحقہ خدمت کرنا چاہتی ہیں تو وہ اپنے گھر میں کریں۔ عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ نکلے ، اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر پر یہ شرط عائد کرے کہ وہ (بیوی) شادی کے بعد بھی لازماَ اسلامی دعوتی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہے گی۔
(جیسا کہ اخوان المسلمون کی مشہور لیڈر زینب نے اپنے شوہر پر یہ شرط عائد کی تھی [الاخوانیۃ و دعوۃ السلفیۃ] :: مترجم)
اس کی سابقہ دعوتی سرگرمیاں اگر بالفرض مطلقاً جائز بھی ہوتیں تو پھر بھی وہ کنواری باکرہ لڑکیوں کی حالت سے مناسبت رکھتی ہیں کہ جن پر کوئی مسئولیت و ذمہ داریاں نہیں ہوتیں۔ اب جبکہ وہ گھر والی ہو گئی ہے جس پر اپنے شوہر کی جانب سے واجبات ہیں اور جو اس کی اولاد ہوگی ، ان کی طرف سے بھی ، لہذا یہ بالکل ایک بدیہی امر ہے کہ اس کی زندگی میں (ذمہ داریوں کا) اضافہ ہو گیا ہے۔ اور یہ سب بھی اس وقت جب ہم یہ مفروضہ بنائیں کہ سابقہ شرط جائز تھی حالانکہ درحقیقت ہم اس کے مطلق جواز کے قائل ہی نہیں۔

صحابی عورتیں (رضی اللہ عنہن) جو علمی اور ثقافتی وغیرہ اعتبار سے ایک نمونہ تھیں ، لیکن ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کسی عورت نے اسلامی (دعوتی) سرگرمی وغیرہ کی قیادت مردوں کے مابین شروع کر دی ہو۔ لیکن جب آپ یہ سنتے ہیں کہ ام المومنین سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) گھر سے باہر نکلی تھیں۔ (اس کی کیا توجیہ ہے؟)
(جواب یہ ہیکہ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایسے مسئلے اور فتنے میں باہر نکلی تھیں جو وقوع پذیر ہوا اور جس میں نکلنا ان کے خیال میں مسلمانوں کے لیے خیر کا باعث تھا ، مگر درحقیقت ایسا نہ تھا۔
اور بلاشبہ علماء اسلام کی رائے کے مطابق آپ (رضی اللہ عنہا) کا یہ خروج غلطی پر مبنی تھا۔ اور ان (رضی اللہ عنہا) کا واقعۂ جمل وغیرہ میں خطبہ خطا پر مبنی تھا ، لیکن اس خطا کے باوجود اپنی دیگر حسنات کی وجہ سے وہ مغفور ہیں۔ البتہ کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ آپ رضی اللہ عنہا کی اس غلطی میں پیروی کرے جبکہ آپ (رضی اللہ عنہا) نے خود اس سے توبہ کر لی تھی اور مزید یہ کہ ہم ان کی باقی حیات میں (دوبارہ) ایسا نکلنا اور ایسا کوئی خروج بالکل نہیں جانتے۔ چنانچہ وہ خاص ماحول تھا جس میں ان کی جانب سے خاص اجتہاد تھا لیکن اس کے باوجود یہ اجتہادی غلطی ہی تھی۔

البتہ آپ دیکھتے ہیں عورت کو کہ کسی (دعوتی طور پر) سرگرم مرد کی مانند آنا جانا لگایا ہوا ہے اور بسا اوقات تو بعض ان میں سے اکیلے سفر تک کر جاتی ہیں جو کہ اسلام میں حرام سفر ہے۔
لا يجوز لامرأة أن تسافر سفراً إلا ومعها زوجها أو محرم لها
(عورت کے لیے سفر جائز نہیں الا یہ کہ اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی محرم ہو)
تو آپ ان عورتوں کو پائیں گے کہ دعوت الی اللہ کے نام پر گھر سے باہر اکیلے سفر کر رہی ہیں۔ لیکن فی الواقع اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مرد اس چیز کو ادا نہیں کر رہے جو ان پر واجب ہے۔ اسی لئے یہ جگہ خالی رہ گئی تو بعض عورتوں پر یہ خیال گزرا کہ ہم پر یہ ضروری ہے کہ اس خلا کو پُر کریں۔
پس ہم مردوں کو چاہئے کہ فریضہء دعوت کو فہماَ ، عملاَ ، تطبیقاَ اور دعوتاَ ادا کریں اور عورتوں کو ان کے گھروں میں ٹکنے کا مکلف بنائیں اور وہ اس واجب کو ادا کریں جو ان کے رشتہ داروں ، اولاد ، بھائیوں اور بہنوں کی تربیت کے تعلق سے ان پر ہے۔

البتہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ان عورتوں میں سے کچھ پڑوسنیں ایسی جگہ پر جو عورتوں کے لیے خاص ہو ، جمع ہوں اور ایسی مناسب اور دھیمی آواز سے جو اس مکان کے مناسب حال ہو (جہاں وہ بیٹھی ہوئی ہیں) ، دعوت دیں۔
{یعنی مردوں تک ان کی آواز کیسٹ ، ریڈیو ، سی ڈیز ، ویڈیوز ، ویب سائیٹ ، دروس ، پال ٹاک وغیرہ کے ذریعہ نہ پہنچے۔ جس کی عمدہ مثال موجودہ دور میں محدث دیار یمن علامہ مقبل بن ہادی الوداعی رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی جو خود بھی ایک بہترین عالمہ سلفیہ ہیں اور ان کے دروس بھی ہوتے ہیں اور وہ کتابیں بھی تصنیف کرتی ہیں مگر کسی مرد نے ٹیپ ، ریڈیو ، پال ٹاک ، سی ڈیز ، انٹرنیٹ وغیرہ پر آج تک ان کی آواز نہیں سنی۔ یہاں تک کہ ان کا اصل نام بھی سوائے ام عبداللہ کے کسی کو معلوم نہیں :: [مترجم] }
جبکہ جو کچھ ہم آج کل مشاہدہ کر رہے ہیں تو میرا اعتقاد ہے کہ اس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ، اگرجہ بعض اسلامی جماعتیں ، خواتین کی ایسی تحریکوں (سرگرمیوں ، جماعتوں ، تنظیموں ، مراکز وغیرہ) کا انتظام اسلام کے نام پر کریں۔
میرا یہ اعتقاد ہے کہ یہ دین میں نئے کاموں (بدعات) میں سے ہے۔
اور آپ لوگوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان یاد ہوگا اور میں زور دوں گا کہ آپ اسے حفظ کر لیں :
وإياكم ومحدثات الأمور، فإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار
(اور دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچو ، کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے)

اور ہم اتنی ہی بات پر کفایت کرتے ہیں۔
سبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إله إلا أنت، أستغفرك وأتوب إليك.


طارق علی بروہی بھائی کی پی۔ڈی۔ایف فائل سے یونیکوڈ کمپوزنگ : باذوق
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
شیخ ابن جبرین علیہ الرحمۃ کی سائیٹ پر سوال ہوا :
بحوالہ فتویٰ رقم:3370
السؤال: هل المرأة مثل الرجل في الدعوة إلى الله ؟
الاجابـــة :
لا شك أن الدعوة إلى الله واجبة على كل من قدر على ذلك بأي وسيلة؛ فالمرأة تقدر على الدعوة إلى الله في المجالات التي تستطيعها إذا كانت بين النساء، كما في المدارس النسائية والنوادي والمُجتمعات الخاصة بالنساء، وهكذا أيضًا في الأسواق التي يُوجد فيها بعض النساء، وفي المستشفيات وما أشبهها فتدعو المرأة إلى الله تعالى أخواتها ونساءها فيما تقدر عليه، فتُحذرهم من الفتن والتبرج والسفور ولبس القصير ولبس الفاتن من الثياب، ومن الأعمال البدنية التي جاء الشرع بتحريمها كالنمص للحاجبين بنتف الشعر أو قصِّه وتشقير شعر الحاجبين وعمل الوشم في البدن والوشر والتفلج في الأسنان وعمل العدسات اللاصقة لمجرد الزينة وتغيير خلق الله، ووصل الشعر وقصِّه ولبس ما يُسمى بالباروكة وعمل المكياج ولبس الضيِّق من الثياب أو الثياب الشفافة وما فيه تشبه بالرجال أو بالكافرات والعاهرات، والعكوف على الأغاني والملاهي والنظر في الصور والأفلام الخليعة وما تبثه القنوات الفضائية وما أشبه ذلك من المنكرات.

ففي إمكان المرأة أن تنصح أخواتها عن هذه المنكرات عند المقابلة والاجتماع في حفلات زواج أو ما أشبهها، وكذلك أيضًا يمكنها أن تتصل بهن هاتفيا وتنصحهن عن مثل هذه الأعمال وما أشبهها وتحث على الخير والذكر وتعلم العلم النافع والعمل الصالح، فإذا اهتدت بها إحدى أخواتها كان لها أجر ودخل ذلك في قوله صلى الله عليه وسلم: لأن يهدي الله بك رجلا واحدًا خير لك من حُمر النعم وليست كالرجل في الدعوة في المساجد التي فيها رجال ولو كان فيها نساء إلا أن يكون ذلك في مُصلى النساء فيما بينهن، وليس كالرجال في الخُطب على المنابر ولا في إلقاء المحاضرات العامة ولا في السفر بدون محرم لأجل الدعوة خارج البلاد أو داخلها وما أشبه ذلك.
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
یمن کے مشہور سلفی محدث مقبل بن هادي الوادعي سے سوال کیا گیا :

سوال : ماحكم خروج المرأة للدعوة ؟
جواب :
هذا أمر تشكر عليه بشرط أن تكون دعوتها للنساء ، وألا تسافر بدون محرم ، وننصحها بالجد والاجتهاد في هذا الأمر لان أعداء الإسلام يحرصون كل الحرص على المرأة وتضييعها وإبعادها عن دينها ، فقد اتخذوها وسيلة لإبعاد المسلمين عن دين الله ،فننصحها أن تجد وتجتهد وان تدعو أخواتها للقيام بهذا ، ولو طلب منها أن تلقي محاضرة للرجال فلا تفعل ، فإن المرأة عورة كما يقول النبي صلى الله عليه وسلم كما في جامع الترمذي من حديث ابن مسعود : ( المرأة عورة ، فإذا خرجت استشرفها الشيطان ) . ويقول الله عز وجل : ( وإذا سألتموهن متاعا فاسألوهن من وراء حجاب ، ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن ) . ويقول : ( ولا تخضعن بالقول فيطمع الذي في قلبه مرض ) . ويقول أيضا : (ولا يضربن بأرجلهن ليعلم مايخفين من زينتهن )
فالمرأة عورة وفتنة أيضا ، يقول النبي صلى الله عليه وسلم : ( ماتركت فتنة بعدي أضر على الرجال من النساء)
ويقول ؟ أيضا : ( مارأيت من ناقصات عقل ودين أذهب للب الرجل الحازم من إحداكن ) . ثم هي نفسها وان كانت داعية فهي ليست بمعصومة، فقد دخل البلاء على القساوسة وعلى الرهبان والراهبات بسبب الاختلاط.
فينبغي ألا تكون المرأة سببا لفتنة الرجال، ولا تفتن نفسها.

فجزاها الله خيرا ، وواجب على كل عامل خير أن يساعدها على هذا الأمر ، وننصحها أن تحذرهن من الشيوعية والعبثية والناصرية ومن الحزبية ، وان تعلمهن دين الله .

بحوالہ : قمع المعاند وزجر الحاقد الحاسد : ( 2 / 580 )
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
شیخ بن باز علیہ الرحمۃ کی سائیٹ پر سوال ہوا :
بحوالہ فتویٰ رقم:211
ما رأيكم في المرأة والدعوة إلى الله عز وجل؟
الجواب :
المرأة كالرجل عليها واجبها في الدعوة إلى الله والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، والأدلة من القرآن والسنة تعم الجميع إلا ما خصه الدليل، وكلام أهل العلم واضح في ذلك، ومن أدلة القرآن في ذلك قوله تعالى: وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ[1]، وقوله عز وجل: كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ[2].

فعليها أن تدعو إلى الله بالآداب الشرعية التي تطلب من الرجل، وعليها مع ذلك الصبر والاحتساب لقول الله سبحانه: وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ[3]، وقوله تعالى عن لقمان الحكيم أنه قال لابنه: يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ[4] ثم عليها أيضا أن تراعي أمرا آخر وهو: أن تكون مثالا في العفة والحجاب والعمل الصالح، وأن تبتعد عن التبرج والاختلاط بالرجال المنهي عنه - حتى تكون دعوتها بالقول والعمل عن كل ما حرم الله عليها.

[1] سورة التوبة الآية 71.
[2] سورة آل عمران الآية 110.
[3] سورة الأنفال الآية 46.
[4] سورة لقمان الآية 17.
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
خواتین کا دعوتی سرگرمیوں میں غلو کرنا
جزاکم اللہ باذوق بھائی!
لیکن میرا خیال یہ ہے کہ
ایسی ہی سرگرمیوں کی وجہ سے کہ جنہیں غلو کہا جاتا ہے اور ان کے خلاف فتاوی شائع کیے جاتے ہیں، بلاشبہ ہزاروں نہیں لاکھوں خواتین کو راہ ہدایت ملی اور انہوں نے کتاب وسنت کے منہج کو اختیار کیا ہے جس کی ایک زندہ مثال ڈاکٹر فرحت ہاشمی کی تحریک ’الہدی انٹرنیشنل‘ہے جس نے اسلام آباد جیسے شہر میں ایلیٹ کلاس کی خواتین کی ہزاروں کی تعداد میں اصلاح کی ہے ، اس کے علاوہ مثالیں بھی بہت ہیں۔ ایسے فتاوی نقل کرنے کے بعد دین، درس قر آن، تراویح، جمعہ، نماز باجماعت وغیرہ کے لیے عورت کا گھر سے باہر نکلنا تو غلو کی وجہ سے ناجائز ہو جاتا ہے لیکن بازاروں، رشتہ داروں، پارکوں اور محلوں وغیرہ میں جاری رہتا ہے اور وہ کسی فتوی سے کنٹرول میں آنے والا بھی نہیں ہے۔ پس ایسے فتاوی سے دینی کام اور تحریک اسلامی کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔ آج ہر لڑکی اسکول، کالج، یونیورسٹی جاتی ہے۔ جب وہاں جانا جائز ہے تو دین کے لیے نکلنا جائز کیوں نہیں ہے؟؟؟
اور وہاں یعنی اسکول، کالج، یونیورسٹی میں جانے کی اجازت دینے کے بعد وہاں تک لے جانے والے اور واپس لانے والے محرم کہاں سے پورے ہوں گے؟؟؟اصل مسئلہ مردوزن کے اختلاط کا ہے ، وہ نہیں ہونا چاہیے لیکن ستر وحجاب کی پابندی کے ساتھ عورت کا گھر سے باہر نکلنا کوئی مسئلہ نہیں ہے اوراس بارے بیسیوں روایات شاہد ہیں علاوہ ازیں امام ابن حجر اور کئی دوسرے ائمہ نے اس کے جواز اور مباح ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔
عورت بغیر محرم سفر کے بارے بھی ایک تحریر مرتب کی تھی ۔ ان شاء اللہ موقع ملتے ہی کسی جگہ پوسٹ کرتا ہے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
شمولیت
اپریل 03، 2011
پیغامات
101
ری ایکشن اسکور
661
پوائنٹ
0
جزاکم اللہ باذوق بھائی!
لیکن میرا خیال یہ ہے کہ
ایسی ہی سرگرمیوں کی وجہ سے کہ جنہیں غلو کہا جاتا ہے اور ان کے خلاف فتاوی شائع کیے جاتے ہیں، بلاشبہ ہزاروں نہیں لاکھوں خواتین کو راہ ہدایت ملی
جزاک اللہ بھائی آپکی بات سے میں 100% اتفاق کرتی ہوں اور خود میری اپنی مثال میرے سامنے ہے
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
لیکن میرا خیال یہ ہے کہ
ایسی ہی سرگرمیوں کی وجہ سے کہ جنہیں غلو کہا جاتا ہے اور ان کے خلاف فتاوی شائع کیے جاتے ہیں، بلاشبہ ہزاروں نہیں لاکھوں خواتین کو راہ ہدایت ملی اور
میں نے علامہ البانی علیہ الرحمۃ کے علاوہ تین فتاویٰ نقل کئے ہیں حالانکہ اگر اسی موضوع پر سرچ کریں تو مزید آٹھ دس فتاویٰ ضرور ملیں گے۔ (جو میرے علم میں بھی ہیں مگر ابھی میں نے یہاں شئر نہیں کئے)۔
اگر ان فتاویٰ پر غور کیا جائے اور سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کسی نے بھی "عورت کی جانب سے دعوتی سرگرمی" کا یکسر ردّ نہیں کیا ہے۔ بلکہ کچھ پابندیوں اور قید کے ساتھ اسے روا رکھا ہے۔ اور وہ پابندیاں وہی ہیں جن کی طرف خود آپ نے بھی یوں اشارہ کیا ہے :
اصل مسئلہ مردوزن کے اختلاط کا ہے ، وہ نہیں ہونا چاہیے لیکن ستر وحجاب کی پابندی کے ساتھ عورت کا گھر سے باہر نکلنا کوئی مسئلہ نہیں ہے
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
بلکہ پردہ دار خواتین بھی اور اس سے بڑھ کر بعض سلفی (بہنیں) بھی نکل پڑتی ہیں اس چیز کی طرف جو ان کے وظائف میں سے نہیں !
حالانکہ عورتوں کے لئے اسلامی (دعوتی) سرگرمی کا کوئی وجود نہیں !!
اس کی سرگرمیاں اس کے گھر میں ، گھر کی دہلیز کے اندر اندر ہیں۔
مسلمان عورتیں اگر اسلام کی کماحقہ خدمت کرنا چاہتی ہیں تو وہ اپنے گھر میں کریں۔
عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ نکلے ،
اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر پر یہ شرط عائد کرے کہ وہ (بیوی) شادی کے بعد بھی لازماَ اسلامی دعوتی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہے گی۔
البتہ آپ دیکھتے ہیں عورت کو کہ کسی (دعوتی طور پر) سرگرم مرد کی مانند آنا جانا لگایا ہوا ہے اور بسا اوقات تو بعض ان میں سے اکیلے سفر تک کر جاتی ہیں جو کہ اسلام میں حرام سفر ہے۔
تو آپ ان عورتوں کو پائیں گے کہ دعوت الی اللہ کے نام پر گھر سے باہر اکیلے سفر کر رہی ہیں۔
پس ہم مردوں کو چاہئے کہ فریضہء دعوت کو فہماَ ، عملاَ ، تطبیقاَ اور دعوتاَ ادا کریں اور عورتوں کو ان کے گھروں میں ٹکنے کا مکلف بنائیں اور وہ اس واجب کو ادا کریں جو ان کے رشتہ داروں ، اولاد ، بھائیوں اور بہنوں کی تربیت کے تعلق سے ان پر ہے۔
جبکہ جو کچھ ہم آج کل مشاہدہ کر رہے ہیں تو میرا اعتقاد ہے کہ اس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ، اگرجہ بعض اسلامی جماعتیں ، خواتین کی ایسی تحریکوں (سرگرمیوں ، جماعتوں ، تنظیموں ، مراکز وغیرہ) کا انتظام اسلام کے نام پر کریں۔
میرا یہ اعتقاد ہے کہ یہ دین میں نئے کاموں (بدعات) میں سے ہے۔
یہ کچھ جملے تھے کہ جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ عورت کے عورتوں ہی کے سیٹ اپ میں دعوت دین کے سلسلہ میں گھر سے باہر نکلنے کے قائل نہیں ہیں سوائے اپنی ہی گلی یا محلے کی حد تک۔ واللہ اعلم بالصواب
جزاکم اللہ خیرا۔
آپ کا نقطہ نظر یقینا معتدل ہو گا لیکن میرے خیال میں پہلا فتوی آپ کے نقطہ نظر کو سپورٹ نہیں کر رہا ہے۔میں ایسے لوگوں کو ذاتی طور جانتا ہوں جو اس قسم کے فتاوی کو بنیاد بنا کر عورت کے دعوت کے لیے گھر سے مطلقا نکلنے کو ناجائز اور غیر شرعی قراردیتے ہیں۔ کہنے سے مقصود یہ ہے کہ اس فتوی میں وضاحت سے نہ سہی لیکن اشارہ کنایہ میں تو یہ بات موجود ہی ہے کہ علامہ رحمہ اللہ عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک مسئلہ ستر وحجاب کا نہیں ہے بلکہ گھر میں عورتوں کا بیٹھنے رہنا ایک مستقل حکم ہے۔ چونکہ راقم نے ستر وحجاب کے موضوع پر ایک مستقل کتاب بھی تصنیف کی ہے تو اس لیے اس قسم کے فتاوی کی اصل تک رسائی ہے کہ ستر وحجاب تو ایک حکم ہے، اس کے علاوہ اہل علم کی ایک جماعت کے لیے عورت کا گھرسے باہر نکلنا بھی شرعا جائز نہیں ہے الا یہ کہ کوئی ایسی ضرورت ہو جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔
 
شمولیت
مئی 08، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
156
پوائنٹ
31
جزاکم اللہ باذوق بھائی!
لیکن میرا خیال یہ ہے کہ
ایسی ہی سرگرمیوں کی وجہ سے کہ جنہیں غلو کہا جاتا ہے اور ان کے خلاف فتاوی شائع کیے جاتے ہیں، بلاشبہ ہزاروں نہیں لاکھوں خواتین کو راہ ہدایت ملی اور انہوں نے کتاب وسنت کے منہج کو اختیار کیا ہے جس کی ایک زندہ مثال ڈاکٹر فرحت ہاشمی کی تحریک ’الہدی انٹرنیشنل‘ہے جس نے اسلام آباد جیسے شہر میں ایلیٹ کلاس کی خواتین کی ہزاروں کی تعداد میں اصلاح کی ہے ، اس کے علاوہ مثالیں بھی بہت ہیں۔ ایسے فتاوی نقل کرنے کے بعد دین، درس قر آن، تراویح، جمعہ، نماز باجماعت وغیرہ کے لیے عورت کا گھر سے باہر نکلنا تو غلو کی وجہ سے ناجائز ہو جاتا ہے لیکن بازاروں، رشتہ داروں، پارکوں اور محلوں وغیرہ میں جاری رہتا ہے اور وہ کسی فتوی سے کنٹرول میں آنے والا بھی نہیں ہے۔ پس ایسے فتاوی سے دینی کام اور تحریک اسلامی کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔ آج ہر لڑکی اسکول، کالج، یونیورسٹی جاتی ہے۔ جب وہاں جانا جائز ہے تو دین کے لیے نکلنا جائز کیوں نہیں ہے؟؟؟
اور وہاں یعنی اسکول، کالج، یونیورسٹی میں جانے کی اجازت دینے کے بعد وہاں تک لے جانے والے اور واپس لانے والے محرم کہاں سے پورے ہوں گے؟؟؟اصل مسئلہ مردوزن کے اختلاط کا ہے ، وہ نہیں ہونا چاہیے لیکن ستر وحجاب کی پابندی کے ساتھ عورت کا گھر سے باہر نکلنا کوئی مسئلہ نہیں ہے اوراس بارے بیسیوں روایات شاہد ہیں علاوہ ازیں امام ابن حجر اور کئی دوسرے ائمہ نے اس کے جواز اور مباح ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔
عورت بغیر محرم سفر کے بارے بھی ایک تحریر مرتب کی تھی ۔ ان شاء اللہ موقع ملتے ہی کسی جگہ پوسٹ کرتا ہے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
السلام علیکم! میں محترم علوی بھائی کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ اور البانی رح کے فتوای سے اختلاف کرتا ہوں۔
واللہ اعلم
 
شمولیت
مئی 08، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
156
پوائنٹ
31
یہ کچھ جملے تھے کہ جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ عورت کے عورتوں ہی کے سیٹ اپ میں دعوت دین کے سلسلہ میں گھر سے باہر نکلنے کے قائل نہیں ہیں سوائے اپنی ہی گلی یا محلے کی حد تک۔ واللہ اعلم بالصواب
جزاکم اللہ خیرا۔
آپ کا نقطہ نظر یقینا معتدل ہو گا لیکن میرے خیال میں پہلا فتوی آپ کے نقطہ نظر کو سپورٹ نہیں کر رہا ہے۔میں ایسے لوگوں کو ذاتی طور جانتا ہوں جو اس قسم کے فتاوی کو بنیاد بنا کر عورت کے دعوت کے لیے گھر سے مطلقا نکلنے کو ناجائز اور غیر شرعی قراردیتے ہیں۔ کہنے سے مقصود یہ ہے کہ اس فتوی میں وضاحت سے نہ سہی لیکن اشارہ کنایہ میں تو یہ بات موجود ہی ہے کہ علامہ رحمہ اللہ عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک مسئلہ ستر وحجاب کا نہیں ہے بلکہ گھر میں عورتوں کا بیٹھنے رہنا ایک مستقل حکم ہے۔ چونکہ راقم نے ستر وحجاب کے موضوع پر ایک مستقل کتاب بھی تصنیف کی ہے تو اس لیے اس قسم کے فتاوی کی اصل تک رسائی ہے کہ ستر وحجاب تو ایک حکم ہے، اس کے علاوہ اہل علم کی ایک جماعت کے لیے عورت کا گھرسے باہر نکلنا بھی شرعا جائز نہیں ہے الا یہ کہ کوئی ایسی ضرورت ہو جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔
بالکل صحیح کہا ہے آپ نے بھائی!
عورت مکمل پردہ کے ساتھ دعوتی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے۔ ان شاءاللہ
والسلام علیکم
 
Top