حیدرآبادی
مشہور رکن
- شمولیت
- اکتوبر 27، 2012
- پیغامات
- 287
- ری ایکشن اسکور
- 500
- پوائنٹ
- 120
جنسیات کا موضوع کوئی نیا نہیں ۔ آج دنیا بھر کے ماہرین جنسیات اور نفسیات کی یہ متفقہ رائے ہے کہ عورت اور مرد کو ازدواجی زندگی شروع کرنے سے پہلے جنس کے تعلق سے نظری طورپر ضرور واقفیت حاصل کر لینی چاہئے ۔ ازدواجی زندگی میں مباشرت کی مسرت حقیقی محبت کی بنیاد ہوتی ہے۔
جہاں تک جنسیات کا تعلق ہے ہم ایک عبوری دور سے گذر رہے ہیں ۔ پرانی قدریں ترک کر دی گئی ہیں لیکن نئی قدریں ابھی تک معلوم نہیں ہوئیں ۔ ہم نے ان مضحکہ خیز تصورات سے بلاشبہ چھٹکارا پا لیا ہے کہ جنس لازماً بد اخلاقی ہے اور یہ کہ مباشرت کو ایک فن قراردینا مناسب نہیں ، لیکن ہم نے جو کچھ ترک کیا ہے اس کی جگہ نیا جنسی اخلاق معلوم کرنے میں ہم ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ۔
جنسیات کے موضوع پر اگرچہ کتابوں کی کمی نہیں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ زیادہ تر غیر تشفی بخش ہیں ۔ ان میں سے بعض کتابیں غیر ضروری اور ناشائستگی کا شکار ہیں ۔ بعض ایسی ہیجان انگیز ہیں کہ اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے اور زیادہ تر کتابوں میں سستی لذتیت کا چٹ پٹا مسالہ اس خوبی سے بھر دیا جاتا ہے کہ اصل چیز کا پتہ ہی نہیں چلتا۔
شادی یعنی عورت اور مرد کا ازدواجی رشتہ ، درحقیقت انسانی تمدن کا سنگ بنیاد ہے اور کوئی فرد خواہ و عورت ہو یا مرد قانون فطرت کے اس دائرے سے خارج نہیں ہو سکتا جو اس رشتہ کو مضبوط بنانے کیلئے بنایا گیا ہے ۔ کیونکہ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک عمر کے ہر حصے میں یہ رشتہ کسی نہ کسی صورت میں انسان کی زندگی پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے ۔ اگروہ بچہ ہے تو ماں اور باپ کے تعلقات اس کی تربیت پر اثر ڈالیں گے ۔ اگر جوان ہے تو اس کی شریک زندگی سے واسطہ پڑے گا۔ اگر سن رسیدہ ہے تو اس کی اولاد ازدواجی رشتے کے بندھنوں میں بندھ جائیں گی اور ان کے قطب و روح کا سکون اور ان کی زندگی کا چین بڑی حد تک ان تعلقات کی بہتری پر منحصر ہو گا۔
اکثر لوگ شادی کے اصل مطلب کو سمجھ نہیں پاتے ۔ درحقیقت شادی کے رشتے میں عورت اور مرد اپنی مرضی سے اپنی زندگیوں کو ایک دوسرے کیلئے وقت کر دینا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو انہیں ایک دوسرے کے بغیر زندگی ادھوری اور ناکارہ معلوم ہونے لگتی ہے ۔ اسی لئے ایک دوسرے کا ہاتھ بڑی محبت اور تپاک سے تھام کر شادی کے بندھن میں ایسے بندھ جاتے ہیں کہ صرف موت ہی انہیں جدا کر سکتی ہے ۔
شادی نہ تو ایک ایسا قلعہ ہے جس کے قیدی باہر آناچاہتے ہیں اور نہ باہر کے آزاد لوگ اندر جانا چاہتے ہیں ۔ اور نہ ہی ایک ایسا گہرا سمندر ہے جس میں آدمی ہر دم غوطے کھانے لگتا ہے اور بلکہ اس دنیا کے بے آب و گیاہ ریگستان میں شادی ایک ایسا نخلستان ہے جہاں دو محبت بھرے دل دنیا و مافیا سے بے خبر، بے پروا، سکون کی چند گھڑیاں گذارنے میں مدد دیتے ہیں ۔ لیکن جب عورت اور مرد شادی کے مقدس بندھن میں بندھ جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان دونوں پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں ۔ کیونکہ ایک کا سکھ، دوسرے کا سکھ، ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی ہوتی ہے ۔ کچھ چھوٹی بڑی قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں ۔ تب کہیں جا کر زندگی کی اصل خوشی حاصل ہوتی ہے ۔ اگر زندگی میں اونچ نیچ، اتار چڑھاؤ نہ ہوتو زندگی کا لطب ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ ایک سپاٹ زندگی جس میں حرکت اور کشاکش نہ ہو بے جان اور بے مزہ زندگی بن جاتی ہے ۔
ادھر چند سالوں سے مغرب میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ تنہا مرد یا اکیلی عورت ہی خوشحال اور پرسکون زندگی گذار سکتے ہیں اور تماشہ تو یہ کہ ایسے جراثیم اڑتے اڑے مشرق تک بھی آپہنچے ہیں ۔ تعجب کی بات تو یہ کہ مشرق کی ساری جراثیم کش ادویات بھی اس وباء کا مقابلہ نہیں کرپا رہی ہیں ۔ اس کی ایک مسلمہ وجہ تو عورتوں کی نام نہاد آزادی ہے ۔ اصل میں عورت مرد کی جگہ لے کر الٹی گنگا بہانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے ۔ اس کے جو بھی نتائج ہو سکتے ہیں وہ آج ہماری نظروں کے سامنے ہیں لیکن اس میں مردوں کی لاپرواہی کا بھی بڑادخل ہے ۔ اگر مرد نے بار بار عورت کی عظمت کا سبق دہرا کر عورت کو اس کے اصل مقام سے نیچے نہ گرنے دیا ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ آج مرد خود اپنے کرتوتوں کی وجہہ سے شرمندہ ہے ۔ اگرچہ کہ پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے پھر اس کی سطح گھٹائی جاسکتی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل کی ازدواجی زندگی کے غیر متوازن ہونے میں عورت کی آزادی کو بڑا دخل ہے ۔ حوّا کی بیٹی نے اپنا صحیح مقام کھودیا ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ وہ اپنے صحیح مقام سے ہٹادی گئی ہے ۔ چراغ خانہ کے بجائے شمع محفل بنادی گئی ہے ۔ اس کا صحیح مقام تو گھر کی چاردیواری ہے نہ کہ عالمی حسن کے مقابلے کا اسٹیج۔
یہ خیال قطعی گمراہ کن ہے کہ اکیلا مرد یا اکیلی عورت آرام دہ اور پرسکون زندگی گذارسکتے ہیں ۔ یہ نظریہ چند غیر صحت مند ذہنوں کی پیداوار ہے ۔ یقینا عورت اور مرد کی تخلیق ایک دوسرے کیلئے ہوئی ہے ۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے بغیر ننگے ہیں ۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کی پوشاک ہیں ۔ ایک دوسرے کا لباس ہیں ۔ مردعورت کے بغیر تنہا اور عورت مرد کے بغیر بے بس، کیونکہ وہ ایک دوسرے کی ڈھال ہیں ۔ دونوں کا ملاپ ہی انسانیت کی تکمیل ہے ۔ مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی ہر قدم پر ضرورت ہوتی ہے ۔ مرد عورت کے بغیر اندھا ہے اور عورت مرد کے بغیر بے دست و پا۔ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہے ئے ہیں ۔ قدرت کی قینچی کے دو پھل ہیں جو زندگی کی گانٹھوں اور گرہوں کو کاٹتے ہیں ۔ اگر ان میں سے کوئی ایک پھل بھی علیحدہ کر دیا جائے یا ٹوٹ جائے تو قینچی ہی ناکارہ ہو جاتی ہے ۔ مختصر یہ کہ عورت اور مرد کے وجود سے عالم امکاں کا وجود ہے ۔ ان دونوں کے وجود ہی سے تصویر کائنات رنگین ہے ۔ اگر چند لمحوں کیلئے ہی سہی مرد یا عورت کو اس دنیا سے ہٹا کر سوچئے تو دنیا کا سارا حسن ہی ختم ہو جائے گا؟
بشکریہ :
تعمیر نیوز : جنس کا جغرافیہ
جہاں تک جنسیات کا تعلق ہے ہم ایک عبوری دور سے گذر رہے ہیں ۔ پرانی قدریں ترک کر دی گئی ہیں لیکن نئی قدریں ابھی تک معلوم نہیں ہوئیں ۔ ہم نے ان مضحکہ خیز تصورات سے بلاشبہ چھٹکارا پا لیا ہے کہ جنس لازماً بد اخلاقی ہے اور یہ کہ مباشرت کو ایک فن قراردینا مناسب نہیں ، لیکن ہم نے جو کچھ ترک کیا ہے اس کی جگہ نیا جنسی اخلاق معلوم کرنے میں ہم ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ۔
جنسیات کے موضوع پر اگرچہ کتابوں کی کمی نہیں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ زیادہ تر غیر تشفی بخش ہیں ۔ ان میں سے بعض کتابیں غیر ضروری اور ناشائستگی کا شکار ہیں ۔ بعض ایسی ہیجان انگیز ہیں کہ اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے اور زیادہ تر کتابوں میں سستی لذتیت کا چٹ پٹا مسالہ اس خوبی سے بھر دیا جاتا ہے کہ اصل چیز کا پتہ ہی نہیں چلتا۔
شادی یعنی عورت اور مرد کا ازدواجی رشتہ ، درحقیقت انسانی تمدن کا سنگ بنیاد ہے اور کوئی فرد خواہ و عورت ہو یا مرد قانون فطرت کے اس دائرے سے خارج نہیں ہو سکتا جو اس رشتہ کو مضبوط بنانے کیلئے بنایا گیا ہے ۔ کیونکہ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک عمر کے ہر حصے میں یہ رشتہ کسی نہ کسی صورت میں انسان کی زندگی پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے ۔ اگروہ بچہ ہے تو ماں اور باپ کے تعلقات اس کی تربیت پر اثر ڈالیں گے ۔ اگر جوان ہے تو اس کی شریک زندگی سے واسطہ پڑے گا۔ اگر سن رسیدہ ہے تو اس کی اولاد ازدواجی رشتے کے بندھنوں میں بندھ جائیں گی اور ان کے قطب و روح کا سکون اور ان کی زندگی کا چین بڑی حد تک ان تعلقات کی بہتری پر منحصر ہو گا۔
اکثر لوگ شادی کے اصل مطلب کو سمجھ نہیں پاتے ۔ درحقیقت شادی کے رشتے میں عورت اور مرد اپنی مرضی سے اپنی زندگیوں کو ایک دوسرے کیلئے وقت کر دینا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو انہیں ایک دوسرے کے بغیر زندگی ادھوری اور ناکارہ معلوم ہونے لگتی ہے ۔ اسی لئے ایک دوسرے کا ہاتھ بڑی محبت اور تپاک سے تھام کر شادی کے بندھن میں ایسے بندھ جاتے ہیں کہ صرف موت ہی انہیں جدا کر سکتی ہے ۔
شادی نہ تو ایک ایسا قلعہ ہے جس کے قیدی باہر آناچاہتے ہیں اور نہ باہر کے آزاد لوگ اندر جانا چاہتے ہیں ۔ اور نہ ہی ایک ایسا گہرا سمندر ہے جس میں آدمی ہر دم غوطے کھانے لگتا ہے اور بلکہ اس دنیا کے بے آب و گیاہ ریگستان میں شادی ایک ایسا نخلستان ہے جہاں دو محبت بھرے دل دنیا و مافیا سے بے خبر، بے پروا، سکون کی چند گھڑیاں گذارنے میں مدد دیتے ہیں ۔ لیکن جب عورت اور مرد شادی کے مقدس بندھن میں بندھ جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان دونوں پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں ۔ کیونکہ ایک کا سکھ، دوسرے کا سکھ، ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی ہوتی ہے ۔ کچھ چھوٹی بڑی قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں ۔ تب کہیں جا کر زندگی کی اصل خوشی حاصل ہوتی ہے ۔ اگر زندگی میں اونچ نیچ، اتار چڑھاؤ نہ ہوتو زندگی کا لطب ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ ایک سپاٹ زندگی جس میں حرکت اور کشاکش نہ ہو بے جان اور بے مزہ زندگی بن جاتی ہے ۔
ادھر چند سالوں سے مغرب میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ تنہا مرد یا اکیلی عورت ہی خوشحال اور پرسکون زندگی گذار سکتے ہیں اور تماشہ تو یہ کہ ایسے جراثیم اڑتے اڑے مشرق تک بھی آپہنچے ہیں ۔ تعجب کی بات تو یہ کہ مشرق کی ساری جراثیم کش ادویات بھی اس وباء کا مقابلہ نہیں کرپا رہی ہیں ۔ اس کی ایک مسلمہ وجہ تو عورتوں کی نام نہاد آزادی ہے ۔ اصل میں عورت مرد کی جگہ لے کر الٹی گنگا بہانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے ۔ اس کے جو بھی نتائج ہو سکتے ہیں وہ آج ہماری نظروں کے سامنے ہیں لیکن اس میں مردوں کی لاپرواہی کا بھی بڑادخل ہے ۔ اگر مرد نے بار بار عورت کی عظمت کا سبق دہرا کر عورت کو اس کے اصل مقام سے نیچے نہ گرنے دیا ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ آج مرد خود اپنے کرتوتوں کی وجہہ سے شرمندہ ہے ۔ اگرچہ کہ پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے پھر اس کی سطح گھٹائی جاسکتی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل کی ازدواجی زندگی کے غیر متوازن ہونے میں عورت کی آزادی کو بڑا دخل ہے ۔ حوّا کی بیٹی نے اپنا صحیح مقام کھودیا ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ وہ اپنے صحیح مقام سے ہٹادی گئی ہے ۔ چراغ خانہ کے بجائے شمع محفل بنادی گئی ہے ۔ اس کا صحیح مقام تو گھر کی چاردیواری ہے نہ کہ عالمی حسن کے مقابلے کا اسٹیج۔
یہ خیال قطعی گمراہ کن ہے کہ اکیلا مرد یا اکیلی عورت آرام دہ اور پرسکون زندگی گذارسکتے ہیں ۔ یہ نظریہ چند غیر صحت مند ذہنوں کی پیداوار ہے ۔ یقینا عورت اور مرد کی تخلیق ایک دوسرے کیلئے ہوئی ہے ۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے بغیر ننگے ہیں ۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کی پوشاک ہیں ۔ ایک دوسرے کا لباس ہیں ۔ مردعورت کے بغیر تنہا اور عورت مرد کے بغیر بے بس، کیونکہ وہ ایک دوسرے کی ڈھال ہیں ۔ دونوں کا ملاپ ہی انسانیت کی تکمیل ہے ۔ مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی ہر قدم پر ضرورت ہوتی ہے ۔ مرد عورت کے بغیر اندھا ہے اور عورت مرد کے بغیر بے دست و پا۔ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہے ئے ہیں ۔ قدرت کی قینچی کے دو پھل ہیں جو زندگی کی گانٹھوں اور گرہوں کو کاٹتے ہیں ۔ اگر ان میں سے کوئی ایک پھل بھی علیحدہ کر دیا جائے یا ٹوٹ جائے تو قینچی ہی ناکارہ ہو جاتی ہے ۔ مختصر یہ کہ عورت اور مرد کے وجود سے عالم امکاں کا وجود ہے ۔ ان دونوں کے وجود ہی سے تصویر کائنات رنگین ہے ۔ اگر چند لمحوں کیلئے ہی سہی مرد یا عورت کو اس دنیا سے ہٹا کر سوچئے تو دنیا کا سارا حسن ہی ختم ہو جائے گا؟
بشکریہ :
تعمیر نیوز : جنس کا جغرافیہ