• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت و مرد کا ازدواجی رشتہ

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
جنسیات کا موضوع کوئی نیا نہیں ۔ آج دنیا بھر کے ماہرین جنسیات اور نفسیات کی یہ متفقہ رائے ہے کہ عورت اور مرد کو ازدواجی زندگی شروع کرنے سے پہلے جنس کے تعلق سے نظری طورپر ضرور واقفیت حاصل کر لینی چاہئے ۔ ازدواجی زندگی میں مباشرت کی مسرت حقیقی محبت کی بنیاد ہوتی ہے۔
جہاں تک جنسیات کا تعلق ہے ہم ایک عبوری دور سے گذر رہے ہیں ۔ پرانی قدریں ترک کر دی گئی ہیں لیکن نئی قدریں ابھی تک معلوم نہیں ہوئیں ۔ ہم نے ان مضحکہ خیز تصورات سے بلاشبہ چھٹکارا پا لیا ہے کہ جنس لازماً بد اخلاقی ہے اور یہ کہ مباشرت کو ایک فن قراردینا مناسب نہیں ، لیکن ہم نے جو کچھ ترک کیا ہے اس کی جگہ نیا جنسی اخلاق معلوم کرنے میں ہم ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ۔

جنسیات کے موضوع پر اگرچہ کتابوں کی کمی نہیں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ زیادہ تر غیر تشفی بخش ہیں ۔ ان میں سے بعض کتابیں غیر ضروری اور ناشائستگی کا شکار ہیں ۔ بعض ایسی ہیجان انگیز ہیں کہ اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے اور زیادہ تر کتابوں میں سستی لذتیت کا چٹ پٹا مسالہ اس خوبی سے بھر دیا جاتا ہے کہ اصل چیز کا پتہ ہی نہیں چلتا۔

شادی یعنی عورت اور مرد کا ازدواجی رشتہ ، درحقیقت انسانی تمدن کا سنگ بنیاد ہے اور کوئی فرد خواہ و عورت ہو یا مرد قانون فطرت کے اس دائرے سے خارج نہیں ہو سکتا جو اس رشتہ کو مضبوط بنانے کیلئے بنایا گیا ہے ۔ کیونکہ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک عمر کے ہر حصے میں یہ رشتہ کسی نہ کسی صورت میں انسان کی زندگی پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے ۔ اگروہ بچہ ہے تو ماں اور باپ کے تعلقات اس کی تربیت پر اثر ڈالیں گے ۔ اگر جوان ہے تو اس کی شریک زندگی سے واسطہ پڑے گا۔ اگر سن رسیدہ ہے تو اس کی اولاد ازدواجی رشتے کے بندھنوں میں بندھ جائیں گی اور ان کے قطب و روح کا سکون اور ان کی زندگی کا چین بڑی حد تک ان تعلقات کی بہتری پر منحصر ہو گا۔

اکثر لوگ شادی کے اصل مطلب کو سمجھ نہیں پاتے ۔ درحقیقت شادی کے رشتے میں عورت اور مرد اپنی مرضی سے اپنی زندگیوں کو ایک دوسرے کیلئے وقت کر دینا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو انہیں ایک دوسرے کے بغیر زندگی ادھوری اور ناکارہ معلوم ہونے لگتی ہے ۔ اسی لئے ایک دوسرے کا ہاتھ بڑی محبت اور تپاک سے تھام کر شادی کے بندھن میں ایسے بندھ جاتے ہیں کہ صرف موت ہی انہیں جدا کر سکتی ہے ۔

شادی نہ تو ایک ایسا قلعہ ہے جس کے قیدی باہر آناچاہتے ہیں اور نہ باہر کے آزاد لوگ اندر جانا چاہتے ہیں ۔ اور نہ ہی ایک ایسا گہرا سمندر ہے جس میں آدمی ہر دم غوطے کھانے لگتا ہے اور بلکہ اس دنیا کے بے آب و گیاہ ریگستان میں شادی ایک ایسا نخلستان ہے جہاں دو محبت بھرے دل دنیا و مافیا سے بے خبر، بے پروا، سکون کی چند گھڑیاں گذارنے میں مدد دیتے ہیں ۔ لیکن جب عورت اور مرد شادی کے مقدس بندھن میں بندھ جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان دونوں پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں ۔ کیونکہ ایک کا سکھ، دوسرے کا سکھ، ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی ہوتی ہے ۔ کچھ چھوٹی بڑی قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں ۔ تب کہیں جا کر زندگی کی اصل خوشی حاصل ہوتی ہے ۔ اگر زندگی میں اونچ نیچ، اتار چڑھاؤ نہ ہوتو زندگی کا لطب ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ ایک سپاٹ زندگی جس میں حرکت اور کشاکش نہ ہو بے جان اور بے مزہ زندگی بن جاتی ہے ۔

ادھر چند سالوں سے مغرب میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ تنہا مرد یا اکیلی عورت ہی خوشحال اور پرسکون زندگی گذار سکتے ہیں اور تماشہ تو یہ کہ ایسے جراثیم اڑتے اڑے مشرق تک بھی آپہنچے ہیں ۔ تعجب کی بات تو یہ کہ مشرق کی ساری جراثیم کش ادویات بھی اس وباء کا مقابلہ نہیں کرپا رہی ہیں ۔ اس کی ایک مسلمہ وجہ تو عورتوں کی نام نہاد آزادی ہے ۔ اصل میں عورت مرد کی جگہ لے کر الٹی گنگا بہانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے ۔ اس کے جو بھی نتائج ہو سکتے ہیں وہ آج ہماری نظروں کے سامنے ہیں لیکن اس میں مردوں کی لاپرواہی کا بھی بڑادخل ہے ۔ اگر مرد نے بار بار عورت کی عظمت کا سبق دہرا کر عورت کو اس کے اصل مقام سے نیچے نہ گرنے دیا ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ آج مرد خود اپنے کرتوتوں کی وجہہ سے شرمندہ ہے ۔ اگرچہ کہ پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے پھر اس کی سطح گھٹائی جاسکتی ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل کی ازدواجی زندگی کے غیر متوازن ہونے میں عورت کی آزادی کو بڑا دخل ہے ۔ حوّا کی بیٹی نے اپنا صحیح مقام کھودیا ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ وہ اپنے صحیح مقام سے ہٹادی گئی ہے ۔ چراغ خانہ کے بجائے شمع محفل بنادی گئی ہے ۔ اس کا صحیح مقام تو گھر کی چاردیواری ہے نہ کہ عالمی حسن کے مقابلے کا اسٹیج۔

یہ خیال قطعی گمراہ کن ہے کہ اکیلا مرد یا اکیلی عورت آرام دہ اور پرسکون زندگی گذارسکتے ہیں ۔ یہ نظریہ چند غیر صحت مند ذہنوں کی پیداوار ہے ۔ یقینا عورت اور مرد کی تخلیق ایک دوسرے کیلئے ہوئی ہے ۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے بغیر ننگے ہیں ۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کی پوشاک ہیں ۔ ایک دوسرے کا لباس ہیں ۔ مردعورت کے بغیر تنہا اور عورت مرد کے بغیر بے بس، کیونکہ وہ ایک دوسرے کی ڈھال ہیں ۔ دونوں کا ملاپ ہی انسانیت کی تکمیل ہے ۔ مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی ہر قدم پر ضرورت ہوتی ہے ۔ مرد عورت کے بغیر اندھا ہے اور عورت مرد کے بغیر بے دست و پا۔ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہے ئے ہیں ۔ قدرت کی قینچی کے دو پھل ہیں جو زندگی کی گانٹھوں اور گرہوں کو کاٹتے ہیں ۔ اگر ان میں سے کوئی ایک پھل بھی علیحدہ کر دیا جائے یا ٹوٹ جائے تو قینچی ہی ناکارہ ہو جاتی ہے ۔ مختصر یہ کہ عورت اور مرد کے وجود سے عالم امکاں کا وجود ہے ۔ ان دونوں کے وجود ہی سے تصویر کائنات رنگین ہے ۔ اگر چند لمحوں کیلئے ہی سہی مرد یا عورت کو اس دنیا سے ہٹا کر سوچئے تو دنیا کا سارا حسن ہی ختم ہو جائے گا؟

بشکریہ :
تعمیر نیوز : جنس کا جغرافیہ
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
عورت شعلہ بھی ہے اور شبنم بھی! پھول کی پتی بھی اور تلوار کی دھار بھی! صاف گو بھی اور کینہ ساز بھی! پیکر رحمت و شفقت بھی مجسم انتقام و حسد بھی! ڈرپوک بھی اور بہادر بھی! اس کے دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ ہوتا ہے ۔ بھولی بھالی بھی اور چالاک بھی! اس لئے مردوں کی اکثریت نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ عورت ایک ناقابل فہم پہیلی ہے ۔ بس اپنے کام سے کام رکھنا ہی درست ہے ۔ چکر میں پڑنا حماقت ہے ۔
مردوں کی اس حماقت کا یہ نتیجہ ہوا کہ دونوں صنفوں کے درمیان دوری بڑھتی گئی۔ نہ مرد عورت کی فطرت کو سمجھتا ہے اور نہ عورت مرد کی فطرت کو ۔ اس سے اختلافات اور غلط فہمیوں میں اضافہ ہوا۔ نت نئی ذہنی بیماریوں نے جنم لیا۔ گھٹن بڑھتی گئی۔ کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ مرد نے کوشش کی کہ عورت کو بہلا پھسلا کر کام چلاتا رہے اور عورت نے مرد سے انتقام لینے کیلئے جنسی سرد مہری (ٹھنڈے پن) کا لبادہ اوڑھ لیا۔ اس خطرناک مسابقت یا رسہ کشی نے دونوں کو ذہنی سکون اور اطمینان قلب سے محروم کر دیا۔ اس تباہی اور بربادی کی ذمہ داری نہ صرف مرد پر ہے اور نہ صرف عورت پر۔
قصور دونوں کا ہے ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مرد کی ذمہ داری زیادہ ہے ۔ اگر عورت محبت کا جواب گرم جوشی سے نہیں دیتی تو اس کی تمام تر ذمہ داری صرف عورت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ عورت تو یہ چاہتی ہے کہ اس کی شخصیت کا احترام کیا جائے ۔ اس سے بہ حیثیت ایک فرد محبت کی جائے ۔

عورت نہ تو آقا سے محبت کر سکتی ہے ، نہ غلام سے ، وہ تو ایک ہم سفر سے محبت کر سکتی ہے ۔ جو محبت کی راہ پر اس کے شانہ بشانہ چل سکے اور جو اس کی نسوانیت کا زیادہ سے زیادہ تحفظ کر سکے ۔ مرد جب تک آقا یا غلام رہیں گے وہ عورت کی محبت سے محروم رہیں گے ۔ البتہ جب وہ اپنے اپنے مقام سے ہٹ کر دوست کے مقام پر آ جائیں گے تو عورت اپنی محبت سے ضرور نوازے گی۔
اگر کوئی مرد یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی، ماں کی طرح اس سے پیار کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ کسی ماہر نفسیات سے صلاح و مشورہ کرے ، بصورت دیگر وہ خود بھی پریشان اور ناکام ہو گا اور بیوی کے ارمانوں کا بھی خون کرے گا۔

جنس کا جغرافیہ - قسط:7
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
جنس کا جغرافیہ - قسط:10

محبت مرد بھی کرتا ہے اور عورت بھی، لیکن محبت کے بارے میں دونوں کے نظریات میں نمایاں فرق ہے۔ مرد محبت کرنا چاہتا ہے اور عورت کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس سے محبت کی جائے۔ مرد چاہتا ہے کہ اس کے کارناموں کی عزت کی جائے ، انہیں سراہا جائے۔ لیکن عورت چاہتی ہے کہ خود اس کی عزت کی جائے، اس کی تعریف کی جائے۔
مرد محبوب کی خدمت میں اپنے کارنامے پیش کرنا چاہتا ہے لیکن عورت خود اپنی ذات پیش کرتی ہے۔ مرد کی محبت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے یعنی وہ اپنی آئیڈیل سے اور بیوی دونوں سے محبت کرتا ہے لیکن عورت صرف شوہر سے محبت کرتی ہے۔
مرد محبوبہ کی خوشی کیلئے زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہتا ہے لیکن عورت شوہر کے کام کو اپنا رقیب سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کامیاب مفکروں، ادیبوں، شاعروں، ڈاکٹروں، لیڈروں، تاجروں، وکیلوں وغیرہ کی بیویاں اپنے شوہروں کی محبت پر اعتبار نہیں کرتیں اور ان کے پیشوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔
مرد کار نمایاں انجام دینا چاہتا ہے لیکن عورت ذاتی برتری کو ترجیح دیتی ہے۔ مرد کی شخصیت خود پسند ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خود غرض ہوتا ہے۔ وہ دنیا پر اپنی خودی کا ایسا نقش جمانا چاہتا ہے جو ہمیشہ قائم رہے۔ اس کی محبت کا مرکزخودی ہوتا ہے لیکن عورت کی محبت کا مرکز مرد ہوتا ہے۔ وہ اپنے من مندر میں شوہر کے بت کو بٹھاتی ہے۔ وہ شوہر اور بچوں کی خدمت میں اپنے آپ کو بھول سکتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی محبت ہمیشہ بے لوث اور بے غرض بھی ہوتی ہے۔

مرد آئیڈیل پسند ہوتا ہے۔ وہ شادی کے ابتدائی ایام میں بیوی کی خامیوں کو نہیں دیکھتا بلکہ یہ سوچنا ہے کہ اس کی رفیقہ حیات بے عیب ہے، لیکن عورت بہت جلد اپنے شوہر کی خامیوں کو دیکھ لیتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ شوہر کی خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود اس سے محبت کر سکتی ہے۔ اسے یہ یقین ہوتاہے کہ وہ اپنی محبت کے ذریعہ شوہر کی خامیوں کو دور کرے گی لیکن جب اسے شوہر کی شخصیت کو بدلنے میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتی ہے۔
مرد اپنی محبت کی خاطر خطرات مول لے سکتا ہے لیکن عورت اس معاملے میں محتاط ہوتی ہے۔ عورت کے گریز سے مرد کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اس محبت سے لطف اندوز نہیں ہوتا جو آسانی سے ہاتھ آجائے۔ وہ محبوبہ کیلئے جدوجہد کرنا چاہتا ہے لیکن عورت مرد کے گریز یا بے نیازی کو بہت کم برداشت کر سکتی ہے۔

ہم ایک زمانے سے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ذہانت صرف مردوں کے حصے میں آئی ہے اور عورت ناقص العقل ہے۔ آئیے ذرا دیکھیں کہ حقیقت کیا ہے؟
مرد تسخیر کائنات کے معاملے میں ذہین ہے اور عورت شخصی معاملات میں، مثلاً خدمت، مامتا، آرائش و زیبائش وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس اور فلسفہ میں عورت کا حصہ بہت کم ہے۔ اگر عورت نے سائنس اور فلسفہ میں کار نمایاں انجام نہیں دئیے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لینا کہ وہ ناقص العقل ہے درست نہیں۔
ذہین دونوں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دونوں کی ذہانت کا میدان الگ الگ ہے۔ عورت کی ذہانت، عقلی کم اور وجدانی زیادہ ہے۔ وہ کسی واقعے کی تفصیلات کا تجزیہ کئے بغیر اپنی جذباتی قوت، احساس اور وجدان کی مدد سے ایک نتیجہ اخذ کر لیتی ہے۔
کوئی کام کیوں ضروری ہے؟ اس سوال کے جواب میں وہ دلائل نہیں دے سکتی، لیکن اس کے باوجود اس کی رائے شحصی یا خاندانی معاملات کے بارے میں درست ہو سکتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اسے بُری نگاہ سے دیکھتا ہے تو فوراً بھانپ جائے گی اور محتاط ہوجائے گی۔ عورت اپنے احساس اور وجدان سے زیادہ کام لیتی ہے لیکن مرد غور و فکراور منطق پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے۔
عورت جذباتیت کی وجہ سے زیادہ جانبدار اور متعصب ہو سکتی ہے۔ کسی بات کا ردعمل عورت پر جلد اور مرد پر دیر میں ہوتا ہے۔ مرد کچھ کہنے یا کرنے سے قبل غور و فکر کرے گا لیکن عورت کو جو کچھ کرنا ہے وہ فوراً کر گزرے گی۔
مرد تجریدی ہوتا ہے اسی لئے وہ کسی مسئلہ کو مختلف حصوں میں بانٹ کر ایک ایک حصے کا تجزیہ کرتا ہے۔ وہ مسئلے کو ہر زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اپنے غور وفکر ، چھان پھٹک، بحث و تمحیص، منطق وغیرہ کی وجہ سے سائنسی، قومی اور بین الاقوامی مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکتا ہے۔
لیکن عورت ذاتی اور شخصی مسائل میں فطری طورپر زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ کیونکہ اس کا کام تسخیر کائنات نہیں بلکہ خاندان کی خدمت ہے۔ وہ گھر سے باہر کے خطرات مول لینے سے گریز کرتی ہے۔ وہ اسکول میں پڑھائے یا اسپتال میں تیمار داری کرے، ہر جگہ گھریلو ماحول پیدا کر لے گی۔ مرد تسخیر کائنات کیلئے مستقبل کی جانب زیادہ متوجہ رہتا ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ اگر یہ تبدیلی کر دی جائے تو کیا ہوگا؟ لیکن عورت، جو کچھ سامنے ہے موجود ہے اسی کو باقی رکھنا چاہتی ہے۔

عورت مرد کی طرح انقلاب پسند نہیں بلکہ قدامت پرست ہوتی ہے۔ وہ نت نئے راستوں کی تلاش کرنے کے بجائے گھسے پھٹے راستوں پر چلنا زیادہ پسند کرتی ہے خواہ اسے تکلیف ہی کیوں نہ ہو۔ اپنی فطری کمزوریوں کی بناء پر وہ تحفظ چاہتی ہے۔ عورت اپنے آپ کو ماحول سے جلد ہم آہنگ کر لیتی ہے۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے اپنے آپ کو جھٹلا سکتی ہے۔ وہ فطری طور پر موقع پرست ہے۔
عورت عام مسائل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے بارے میں جلد باز ہوتی ہے۔ اس کے مشورے، فیصلے، اخذ کردہ نتائج، غور و فکر کے بجائے کیفیات پر مبنی ہوتے ہیں، اسی لئے وہ زیادہ غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا شکار ہو سکتی ہے۔
مرد خاندان ضروریات کی تکمیل کرتا ہے، لیکن کوئی غیر متوقع حادثہ رونما ہونے کی صورت میں وہ شش و پنچ میں مبتلا ہو سکتا ہے، لیکن عورت ایسی صورتحال سے بخوبی نمٹ لیتی ہے۔
عورت اپنی جزئیات پسندی کی وجہ سے بچوں کی تعلیم و تربیت، مریضوں کی خدمت وغیرہ عمدہ طریقے سے کر سکتی ہے۔ عورت اپنی جزئیات پسندی کے سبب سماجی حالات میں انتہا پسند ہو سکتی ہے۔
مرد اور عورت دونوں ہی منطق سے کام لیتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ مرد کی منطق نظریات اور اصولوں پر مبنی ہوتی ہے، لیکن عورت کی منطق واقعات اور حادثات پر منحصر ہوتی ہے، اسی لئے مرد کے اخذ کردہ نتائج زیادہ غیر جانبدارانہ اور درست ہوتے ہیں اور عورت کے نتائج شخصی اور ذاتی ہوتے ہیں۔

عورت اور مرد کے تخیل میں بھی بین فرق ہوتا ہے۔ عورت کا تخیل جاندار اور مسرت انگیز ہوتا ہے۔ وہ مرد کے مقابلے میں خیالی پلاؤ زیادہ پکاتی ہے۔ اسی تخیل کی وجہ سے وہ بے بنیاد اندیشوں سے خائف اور پریشان رہتی ہے اور قیاس آرائیوں اور بدگمانیوں کی وجہ سے اپنی خوشی کا گلہ گھونٹی ہے۔ اس کے برعکس مرد کا تخیل اعتدال پسند اور تخلیقی ہوتا ہے۔ مرد پیچیدہ مسائل کو آسانی سے سلجھا سکتا ہے اور مادی قوتوں کو مغلوب کر سکتا ہے۔

عورت اپنی زندگی شوہر، بچوں رشتے داروں اور سہیلیوں کیلے وقف کر دیتی ہے اور اگر اس کے خلوص، محبت، ایثار اور قربانی کی قدر نہ کی جائے تو اس کا شیشۂ دل چور چور ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی وہ زندگی سے مایوس ہوجاتی ہے، لیکن خلوص پر مبنی تحسین و ستائش کا ایک لفظ اس کی تمام تکان اور افسردگی کو کافور کر دیتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مرد بھی اپنے خاندان سے محبت کرتا ہے لیکن اس کی محبت جذباتی کم اور عقلی زیادہ ہوتی ہے اور پھر اس کی محبت کا دائرہ زیادہ وسیع ہوتا ہے۔
تعمیر نیوز : جنس کا جغرافیہ - قسط:10
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

فارمز میں ہر قسم کی کیٹگری موجود ھے جب کوئی تحریر فارم میں پیش کر دی جاتی ھے تو اس فارم میں اور اس سے باہر، ہر عمر اور ہر شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والا اپنی فیورٹ چیز گوگل میں تلاش کرے گا تو اسے کسی نہ کسی جگہ آسانی سے مل جائے گی۔ اس لئے جس کا جس شعبہ سے تعلق ھے اسے وہی سمجھ آئے گا دوسرا نہیں، اور جس میں آگے بڑھنے کا شوق ہو وہ ہر ان ریلیٹڈ کتابوں کا بھی مطالعہ کرتا ھے۔ کلرک، مینیجر کی غیر موجودگی میں اس کی پوسٹ پر کام نہیں کر سکتا مگر مینیجر کلرک کی غیر موجودگی میں اس کا کام سرانجام دے سکتا ھے۔

والسلام
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
محدث فورم پر ان مضامین کی کیا ضرورت ہے ؟
بھائی جان! کیا آپ کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے جو دین کو لوٹا بستر اور چالیس دن کے چھلے تک محدود سمجھتی ہے؟
 
شمولیت
مارچ 25، 2013
پیغامات
94
ری ایکشن اسکور
232
پوائنٹ
32
بھائی جان! کیا آپ کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے جو دین کو لوٹا بستر اور چالیس دن کے چھلے تک محدود سمجھتی ہے؟
نہیں لیکن میرا تعلق مستشرقین کی اس جماعت سے بھی نہیں ہے جو انسانی نفسیات کو فرائڈ اور برٹینڈرسل کی نگاہ سے دیکھتی ہے
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
نہیں لیکن میرا تعلق مستشرقین کی اس جماعت سے بھی نہیں ہے جو انسانی نفسیات کو فرائڈ اور برٹینڈرسل کی نگاہ سے دیکھتی ہے
گڈ!! اور یہی تردیدی نقطہ نظر ان مضامین میں بھی بیان ہوا ہے۔
 
شمولیت
مئی 23، 2013
پیغامات
213
ری ایکشن اسکور
381
پوائنٹ
90
بھائی جان! کیا آپ کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے جو دین کو لوٹا بستر اور چالیس دن کے چھلے تک محدود سمجھتی ہے؟
حیدرآبادی بھائی میرے خیال سے آپکو تبلیغی جماعت کے بارے میں ایسا نہیں کہنا چاہیئے- مزاح صرف اپنے حد تک رہے تو بہترین ہے- امید ہے آپ میری بات کو مثبت لیں گے- اگر میرے الفاظ آپکی طبیعت پر گراں گزرے تو معذرت چاہتا ہوں-
 
Top