یہ فیس بک سے لی گئی ایک پوسٹ ہے
اسلام کا سیاسی نظام
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے زیر اہتمام سیمینار : علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی بتاریخ : ٢٨ -٢٩ اپریل ٢٠١٢ء
اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) جہاں ایک طرف امت مسلمہ ہندیہ کی دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہی ہے، وہیں مختلف تازہ موضوعات پر سمینار کر کے اور اس کے ذریعہ لوگوں تک معلومات منتقل کر کے انھیں غور وفکر کا رخ بھی بتا رہی ہے، اور انھیں ایک باشعور شہری بنانے میں مدد اور تعاون کرتی ہے، چنانچہ پوری دنیا خصوصا عرب دنیا میں آئی بیداری کے پس منظر میں اکیڈمی نے سب سے پہلے ''اسلام کا سیاسی نظام'' کے عنوان سے ایک سمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اسلامی سیاسی نظام کے تعلق سے لوگوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے سوالات کو حل کیا جا سکے اور موجودہ مسلم حکومتوں کے نظامہائے حکومت کے تعلق سے پیدا ہونے والے شبہات کو دور کیا جا سکے، اس مرکزی عنوان کے حسب ذیل ذیلی محاور مقرر کیے گئے تھے:
١ ـ اسلامی سیاسی نظام کے اصول ومبادی
٢ـ خلافت علی منہاج النبوہ ـ خصوصیات وامتیازات
٣ـ اسلام میں شوری کی اہمیت اور دائرہ اختیار
٤ـ اسلام اور ملوکیت
٥ـ اسلامی سیاسی نظام ـ عہد بہ عہد
٦ـ اسلامی مملکت میں رعایا کے حقوق
٧ـ انتخابی نظام ـ اسلامی ہدایات کی روشنی میں
٨ـ اسلامی مملکت میں آزاد عدالتی نظام
٩ـ اسلامی مملکت میں وضع قانون اور اس کے لیے طریقہ کار
١٠ ـ اسلامی مملکت میں حکمرانوں کا احتساب
١١ـ اسلامی مملکت میں حکمرانوں کے حقوق واختیارات
١٢ ـ موجودہ جمہوری نظام اور اسلامی اصولوں پر اس کی تشکیل
١٣ ـ اسلامی سیاسی نظام اور دیگر نظامہائے سیاست کے درمیان توافق وہم آہنگی کی صورتیں
١٤. اسلامی سیاسی تصورات ـ اہل یورپ کی تحریروں میں
اظہار خیال:
شعبہ سیاسیات کے صدرپروفیسرعبدالرحیم بیجاپورنے کہا کہ ''جس جگہ اس موضوع پر سب سے زیادہ گفتگو ہونی چاہیے تھی وہاں بھی عموماً اس سے اعراض کیاجاتا رہا ہے۔''
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی (سابق صدر شعبہ عربی، ایفلو، حیدر آباد) نے اپنی گفتگومیں امامت کبری ،سیاست اورخلافت کی اہمیت سے متعلق کہا کہ اس نظام کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ نبی اکرم ۖ کی تدفین کے معاملہ کو بھی مئوخر کیاگیا۔انہوںنے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ پچاس سال میں اسلام کے سیاسی نظام پر کوئی وقیع کتاب اردومیں نہیں لکھی گئی ۔یہی حال عربی کا بھی ہے البتہ حال ہی میں عربی زبان میں فقہ الدولة اورفقہ الجہاد (یوسف القرضاوی ) کی آئی ہیں جن کا اردومیں ترجمہ کیا جانا بہت ضروری ہے۔''
اسلامی خلافت کے زوال کے پس منظرمیں پروفیسر سعود عالم قاسمی نے کہاکہ اسلامی نظام سیاست کو خراب کرنے میں ملائیت، سرمایہ داری اورملوکیت، تینوں اداروں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا ہے۔
ڈاکٹرعرشی خان (مشرق وسطی کے ماہر) نے اپنے خطاب میں ملیشیا میں مقیم معروف اسلامی مفکرسید نجیب العطاس (جنہوںنےIslam and Secularism کے نام سے کتاب لکھی ہے) کے حوالہ سے کہا کہ مسلمانوں کو سب سے پہلے یہ طے کرناچاہیے کہ انسان کا آخری مقصد کیا ہے اورPure knowledge کیاہے۔ موجودہ زمانہ جاہلیت اورکنفیوژن کا دورہے جس سے ہم اس وقت تک نہیں نکل سکتے جب تک اپنے paradigm میں نظام زندگی اورنظام سیاست پر گفتگونہیں کرتے ۔
پروفیسررفاقت علی خاں سابق صدرشعبہ سیاست جامعہ ملیہ اسلامیہ نے تقسیم ہند کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کے سوال پر مولانا مودودی اور محمدعلی جناح کے خیالات پر تنقید کی۔
پروفیسریٰسین مظہرصدیقی نے کہا:
- ہمارا نقطہ نظرعموماً traditional ہوتاہے ۔ دانشوراورعلماء سب اسی کو اختیارکرتے ہیں۔
- خلیفہ کا انتخاب امت کے اجتماعی شعورکی ذمہ داری ہے۔ امت کے پہلے تین خلفاء کو مدینہ کا تحفظ (protection) حاصل تھا جو کہ چوتھے خلیفہ ٔراشد حضرت علی کو حاصل نہیں ہوسکا۔
- بدلے ہوئے حالات میں پورے عالم اسلام کا ایک خلیفہ ممکن نہیں رہا، اس بات کو ہم سب نظرانداز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انتظامی چیزوں کو بھی ہم political system سے جوڑ دیتے ہیں مثال کے طور پر جزیہ کا مسئلہ ہے جو ایک administrative چیز تھی۔
- علماء کا کہنا ہے کہ غیرمسلموں کو اسلامی نظام میں برابرکے حقوق نہیں دیے جائیں گے بلکہ ان کو دوسرے درجہ کا شہری قراردیاجائے گا، دوسرے لوگ بھی مسلمانوں کو عملًا یہی درجہ دیے ہوئے ہیں، علماء اس تصور پر اٹکے بیٹھے ہیں حالانکہ یہ تصور بالکل غلط ہے۔
ناظم شعبہ سنی دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ڈاکٹرمفتی زاہدعلی خاں نے کہا کہ انڈیا کے دستورمیں پہلے سیکولرازم کا لفظ نہیں تھا بعد میں بڑھایا گیا، لہٰذا دستورکے ارتقاء پر بھی ہماری نظر ہونی چاہیے۔
پروفیسر عبد الباری (سابق صدر شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے کہا کہ دین سے شعوری وابستگی بہت اہم ہے اور ہمارے ہاں اس کی کمی ہے، اور دوسری بڑی کمی سیاسی بصیرت کی ہے۔
پروفیسراقبال علی خاں (سابق چیئرمین شعبہ قانون علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے کہاکہ غیراسلامی ریاست میں ہمارا کیا رول ہونا چاہیے یہ پہلو بہت زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے یہ رائے بھی دی ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے۔
ڈاکٹرمحب الحق (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے کہا کہ علماء کو وقت کی صورت حال کو سمجھنا چاہیے، کیونکہ out of context فتووں سے مسلمانوں کی بے عزتی ہوتی ہے۔
پروفیسرسعودعالم قاسمی (ڈائریکٹر سر سید اکیڈمی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے مسلم دنیا کے حالات کے ضمن میں کہا کہ سعودی عرب میں ٢٥ یونیورسٹیاں ہیں اورکسی یونیورسٹی میں بھی سیاسیات کا شعبہ نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہی نہیں کہ سیاست پرکوئی بات ہو یا کوئی مثبت تنقید ہو۔ مزید کہا کہ نئے سیاسی نظریات اوراسلام کا تقابلی مطالعہ کرنا چاہیے ۔
اسلامک فقہ اکیڈمی کے سکریٹری مولانا مفتی عتیق احمد بستوی نے فرمایا کہ موضوع بڑااہم ہے اورا س پر ایک سمینارسے کام نہیں چلے گا، ایسے مذاکرے باربار ہونے چاہئیں اورتیاری کے ساتھ ہونے چاہئیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زندہ قومیں کسی ایک ادارہ و تنظیم پر تکیہ نہیں کرتیں مختلف ادارے ڈیولپ کرتی ہیں۔ شیخ عزالدین عبدالسلام نے لکھا ہے کہ: 'اگردوشخصوں کے پاس حکومت جانے کا خطرہ ہو، اور دونوں نقصان دہ ہوں، مثلاایک قاتل ہے دوسراغاصب، اب اگر ہم دونوں کو چھوڑ کر کنارہ کھڑے ہوجائیں اوراخف الضررین کو اختیار نہ کریں تو ہم بھی مجرم ہوں گے۔' مولانا نے یہ بھی کہا کہ موجود حالات میں یہی موقف زیادہ درست ہے کہ سیاست میں حصہ لیاجائے۔
پروفیسر یٰسین مظہرصدیقی نے کہا کہ 'ہم ماضی کے اسیرہیں، کسی میدان میں نئی بات سوچنے اورکہنے کی ہمت نہیں رکھتے، اس چیز کا ازالہ ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ اسلام کے سیاسی نظام پر علماء اورعصری علوم کے ماہرین کے اشتراک سے ہی اس کام کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی (سابق صدر شعبہ عربی، ایفلو، حیدر آباد) نے کہا کہ دین وسیاست کی صحیح تعبیرکرنا بہت اہم بھی ہے بہت نازک بھی۔ انہوں نے کئی دینی تنظیموں کے ا فکار و نظریات کی مثال دیتے ہوئے اپنی بات واضح کی اوران پر صحت مندانہ تنقید بھی کی اوراس حوالہ سے لوگوں کو مزید مطالعہ کی رہنمائی بھی کی۔
تجاویز
١ـاسلام ایک جامع او رمکمل نظام حیات ہے، اس نے حیات انسانی کے تمام پہلوؤں اور زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں جامع ہدایات دی ہیں، چنانچہ اس نے حکومت وسیاست مدن کے بارے میں بھی بڑی عادلانہ اور حکیمانہ تعلیمات دی ہیں، جن پر عمل کرنے سے دنیا میں امن وامان قائم ہوگا اور عدل وانصاف کا فروغ ہوگا او رملک کے تمام باشندوں کو ان کے حقوق حاصل ہوںگے۔
٢ـ شرکاء سمینار کا مشترکہ احساس ہے کہ موجودہ عالمی حالات میں اسلام کے سیاسی نظام اور اس سے وابستہ موضوعات پر زیادہ گہرائی او رجامعیت کے ساتھ تحقیق وبحث کی ضرورت ہے، اس موضوع پر کتاب وسنت کی تصریحات واشارات، فقہاء اسلام کے اجتہادات اور موجودہ عالمی حالات کے تقاضوں کی بنیاد پر اسلام کے سیاسی نظام کو زیادہ منقح اور روشن کرنے کی ضرورت ہے۔
٣ـ یہ سمینار اسلامک فقہ اکیڈمی کے ذمہ داروں سے اپیل کرتا ہے کہ ''اسلام کے سیاسی نظام'' سے متعلق اہم سوالات کو مرتب کرکے ان پر سنجیدہ علمی تحقیق کرائے اور علماء اور ماہرین سیاسیات کی ایسی کمیٹی تشکیل دے جو موجودہ دور میں اسلام کے سیاسی نظام کا قابل عمل خاکہ تیار کرے اور اسے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے کسی سمینار میں زیر بحث لائے۔
٤ـ یہ سمینار اس بات پر مسرت کا اظہار کرتا ہے کہ عالم اسلام کے مختلف ممالک میں استبداد کی زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں، اور عامة المسلمین کو حکومت قائم کرنے کے مواقع حاصل ہورہے ہیں، اور یہ امید کرتا ہے کہ عالم اسلام میں حالیہ تبدیلیاں تمام انسانوں خصوصاً مسلمانوں کے لیے بہتر اور نفع بخش ثابت ہوںگی۔
٥ـ یہ سمینار ملک کی یونیورسٹیوں خصوصاً مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ علوم سیاسیات اور شعبہ اسلامک اسٹڈیز سے یہ اپیل کرتا ہے کہ اسلام کے سیاسی نظام کو تحقیق اور تدریس کا موضوع بنائیں اور موضوع کے مختلف پہلوؤں پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں کی ہمت افزائی کریں۔