• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آئین کی تشریح اور نفاذ شریعت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پروفیسر سعود عالم قاسمی (علی گڑھ) : اسلام میں حکمراں کے انتخاب کا طریقہ
پروفیسر عارف الاسلام(علی گڑھ) : مغربی جمہوریت اور اسلام
پروفیسر عبد الخالق( علی گڑھ) : اسلام کا سیاسی نظام
پروفیسر محسن عثمانی ندوی(حیدر آباد) : حکمرانوں کا احتساب۔ ایک فریضہ
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی(دہلی) : اسلامی مملکت میں حکمرانوں کا احتساب
ڈاکٹر سمیع اختر فلاحی(علی گڑھ) : اسلامی مملکت میں جمہوریت اور شہریت: علامہ غنوشی کے افکار کا مطالعہ
ڈاکٹر سید احمد ومیض ندوی(حیدر آباد) : اسلامی مملکت میں حکمرانوں کا احتساب
ڈاکٹر سید عبد الباری شبنم سبحانی (دہلی) : کیا جمہوریت اور اسلام کے سیاسی نظام میں مطابقت ممکن ہے؟
ڈاکٹر ضیاء الدین ملک فلاحی(علی گڑھ) : شراکت اقتدار اور اسلام: بعض علماء اور دانشوران کے افکار کا مطالعہ
ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی(دہلی) : اسلامی سیاسی فکر ـ جدید اسلامی فکر کے تناظر میں
ڈاکٹر محمد حبیب الحق انصاری(علی گڑھ) : اسلام اور جمہوریت کی ہم آہنگی۔ تیونس کے انقلاب میں کار فرما خیالات کا جائزہ
ڈاکٹر مسعود عالم فلاحی(لکھنؤ) : غیر اسلامی ریاست میں حصہ داری ـ علامہ یوسف القرضاوی کی آراء کی روشنی میں
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی (کراچی ) : انتخابی نظام۔ اسلامی ہدایات کی روشنی میں
اختر امام عادل قاسمی (سمستی پور) : آزاد عوامی حکومت۔ اسلامی تصور
ضیاء الدین ندوی قاسمی (فیض آباد) : اسلامی مملکت میں آزاد عدالتیں
عمر عابدین مدنی(حیدر آباد) : انتخابی نظام ـ اسلامی ہدایات کی روشنی میں
محمد راشد قاسمی خیر آبادی (بنارس) : اسلامی مملکت میں آزاد عدالتیں
محمد شاہجہان ندوی (کیرالا) : خلافت علی منہاج النبوة ـ خصوصیات وامتیازات

اس فہرست میں صرف ابتدائی تین کتب اور آخری کتاب بطور خاص اہمیت کی حامل ہیں گو کہ باقی کتب میں تکرار محض تکرار ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہ فیس بک سے لی گئی ایک پوسٹ ہے
اسلام کا سیاسی نظام
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے زیر اہتمام سیمینار : علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی بتاریخ : ٢٨ -٢٩ اپریل ٢٠١٢ء
اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) جہاں ایک طرف امت مسلمہ ہندیہ کی دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہی ہے، وہیں مختلف تازہ موضوعات پر سمینار کر کے اور اس کے ذریعہ لوگوں تک معلومات منتقل کر کے انھیں غور وفکر کا رخ بھی بتا رہی ہے، اور انھیں ایک باشعور شہری بنانے میں مدد اور تعاون کرتی ہے، چنانچہ پوری دنیا خصوصا عرب دنیا میں آئی بیداری کے پس منظر میں اکیڈمی نے سب سے پہلے ''اسلام کا سیاسی نظام'' کے عنوان سے ایک سمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اسلامی سیاسی نظام کے تعلق سے لوگوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے سوالات کو حل کیا جا سکے اور موجودہ مسلم حکومتوں کے نظامہائے حکومت کے تعلق سے پیدا ہونے والے شبہات کو دور کیا جا سکے، اس مرکزی عنوان کے حسب ذیل ذیلی محاور مقرر کیے گئے تھے:
١ ـ اسلامی سیاسی نظام کے اصول ومبادی
٢ـ خلافت علی منہاج النبوہ ـ خصوصیات وامتیازات
٣ـ اسلام میں شوری کی اہمیت اور دائرہ اختیار
٤ـ اسلام اور ملوکیت
٥ـ اسلامی سیاسی نظام ـ عہد بہ عہد
٦ـ اسلامی مملکت میں رعایا کے حقوق
٧ـ انتخابی نظام ـ اسلامی ہدایات کی روشنی میں
٨ـ اسلامی مملکت میں آزاد عدالتی نظام
٩ـ اسلامی مملکت میں وضع قانون اور اس کے لیے طریقہ کار
١٠ ـ اسلامی مملکت میں حکمرانوں کا احتساب
١١ـ اسلامی مملکت میں حکمرانوں کے حقوق واختیارات
١٢ ـ موجودہ جمہوری نظام اور اسلامی اصولوں پر اس کی تشکیل
١٣ ـ اسلامی سیاسی نظام اور دیگر نظامہائے سیاست کے درمیان توافق وہم آہنگی کی صورتیں
١٤. اسلامی سیاسی تصورات ـ اہل یورپ کی تحریروں میں
اظہار خیال:
شعبہ سیاسیات کے صدرپروفیسرعبدالرحیم بیجاپورنے کہا کہ ''جس جگہ اس موضوع پر سب سے زیادہ گفتگو ہونی چاہیے تھی وہاں بھی عموماً اس سے اعراض کیاجاتا رہا ہے۔''
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی (سابق صدر شعبہ عربی، ایفلو، حیدر آباد) نے اپنی گفتگومیں امامت کبری ،سیاست اورخلافت کی اہمیت سے متعلق کہا کہ اس نظام کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ نبی اکرم ۖ کی تدفین کے معاملہ کو بھی مئوخر کیاگیا۔انہوںنے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ پچاس سال میں اسلام کے سیاسی نظام پر کوئی وقیع کتاب اردومیں نہیں لکھی گئی ۔یہی حال عربی کا بھی ہے البتہ حال ہی میں عربی زبان میں فقہ الدولة اورفقہ الجہاد (یوسف القرضاوی ) کی آئی ہیں جن کا اردومیں ترجمہ کیا جانا بہت ضروری ہے۔''
اسلامی خلافت کے زوال کے پس منظرمیں پروفیسر سعود عالم قاسمی نے کہاکہ اسلامی نظام سیاست کو خراب کرنے میں ملائیت، سرمایہ داری اورملوکیت، تینوں اداروں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا ہے۔
ڈاکٹرعرشی خان (مشرق وسطی کے ماہر) نے اپنے خطاب میں ملیشیا میں مقیم معروف اسلامی مفکرسید نجیب العطاس (جنہوںنےIslam and Secularism کے نام سے کتاب لکھی ہے) کے حوالہ سے کہا کہ مسلمانوں کو سب سے پہلے یہ طے کرناچاہیے کہ انسان کا آخری مقصد کیا ہے اورPure knowledge کیاہے۔ موجودہ زمانہ جاہلیت اورکنفیوژن کا دورہے جس سے ہم اس وقت تک نہیں نکل سکتے جب تک اپنے paradigm میں نظام زندگی اورنظام سیاست پر گفتگونہیں کرتے ۔
پروفیسررفاقت علی خاں سابق صدرشعبہ سیاست جامعہ ملیہ اسلامیہ نے تقسیم ہند کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کے سوال پر مولانا مودودی اور محمدعلی جناح کے خیالات پر تنقید کی۔
پروفیسریٰسین مظہرصدیقی نے کہا:
- ہمارا نقطہ نظرعموماً traditional ہوتاہے ۔ دانشوراورعلماء سب اسی کو اختیارکرتے ہیں۔
- خلیفہ کا انتخاب امت کے اجتماعی شعورکی ذمہ داری ہے۔ امت کے پہلے تین خلفاء کو مدینہ کا تحفظ (protection) حاصل تھا جو کہ چوتھے خلیفہ ٔراشد حضرت علی کو حاصل نہیں ہوسکا۔
- بدلے ہوئے حالات میں پورے عالم اسلام کا ایک خلیفہ ممکن نہیں رہا، اس بات کو ہم سب نظرانداز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انتظامی چیزوں کو بھی ہم political system سے جوڑ دیتے ہیں مثال کے طور پر جزیہ کا مسئلہ ہے جو ایک administrative چیز تھی۔
- علماء کا کہنا ہے کہ غیرمسلموں کو اسلامی نظام میں برابرکے حقوق نہیں دیے جائیں گے بلکہ ان کو دوسرے درجہ کا شہری قراردیاجائے گا، دوسرے لوگ بھی مسلمانوں کو عملًا یہی درجہ دیے ہوئے ہیں، علماء اس تصور پر اٹکے بیٹھے ہیں حالانکہ یہ تصور بالکل غلط ہے۔
ناظم شعبہ سنی دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ڈاکٹرمفتی زاہدعلی خاں نے کہا کہ انڈیا کے دستورمیں پہلے سیکولرازم کا لفظ نہیں تھا بعد میں بڑھایا گیا، لہٰذا دستورکے ارتقاء پر بھی ہماری نظر ہونی چاہیے۔
پروفیسر عبد الباری (سابق صدر شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے کہا کہ دین سے شعوری وابستگی بہت اہم ہے اور ہمارے ہاں اس کی کمی ہے، اور دوسری بڑی کمی سیاسی بصیرت کی ہے۔
پروفیسراقبال علی خاں (سابق چیئرمین شعبہ قانون علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے کہاکہ غیراسلامی ریاست میں ہمارا کیا رول ہونا چاہیے یہ پہلو بہت زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے یہ رائے بھی دی ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے۔
ڈاکٹرمحب الحق (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے کہا کہ علماء کو وقت کی صورت حال کو سمجھنا چاہیے، کیونکہ out of context فتووں سے مسلمانوں کی بے عزتی ہوتی ہے۔
پروفیسرسعودعالم قاسمی (ڈائریکٹر سر سید اکیڈمی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے مسلم دنیا کے حالات کے ضمن میں کہا کہ سعودی عرب میں ٢٥ یونیورسٹیاں ہیں اورکسی یونیورسٹی میں بھی سیاسیات کا شعبہ نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہی نہیں کہ سیاست پرکوئی بات ہو یا کوئی مثبت تنقید ہو۔ مزید کہا کہ نئے سیاسی نظریات اوراسلام کا تقابلی مطالعہ کرنا چاہیے ۔
اسلامک فقہ اکیڈمی کے سکریٹری مولانا مفتی عتیق احمد بستوی نے فرمایا کہ موضوع بڑااہم ہے اورا س پر ایک سمینارسے کام نہیں چلے گا، ایسے مذاکرے باربار ہونے چاہئیں اورتیاری کے ساتھ ہونے چاہئیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زندہ قومیں کسی ایک ادارہ و تنظیم پر تکیہ نہیں کرتیں مختلف ادارے ڈیولپ کرتی ہیں۔ شیخ عزالدین عبدالسلام نے لکھا ہے کہ: 'اگردوشخصوں کے پاس حکومت جانے کا خطرہ ہو، اور دونوں نقصان دہ ہوں، مثلاایک قاتل ہے دوسراغاصب، اب اگر ہم دونوں کو چھوڑ کر کنارہ کھڑے ہوجائیں اوراخف الضررین کو اختیار نہ کریں تو ہم بھی مجرم ہوں گے۔' مولانا نے یہ بھی کہا کہ موجود حالات میں یہی موقف زیادہ درست ہے کہ سیاست میں حصہ لیاجائے۔
پروفیسر یٰسین مظہرصدیقی نے کہا کہ 'ہم ماضی کے اسیرہیں، کسی میدان میں نئی بات سوچنے اورکہنے کی ہمت نہیں رکھتے، اس چیز کا ازالہ ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ اسلام کے سیاسی نظام پر علماء اورعصری علوم کے ماہرین کے اشتراک سے ہی اس کام کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی (سابق صدر شعبہ عربی، ایفلو، حیدر آباد) نے کہا کہ دین وسیاست کی صحیح تعبیرکرنا بہت اہم بھی ہے بہت نازک بھی۔ انہوں نے کئی دینی تنظیموں کے ا فکار و نظریات کی مثال دیتے ہوئے اپنی بات واضح کی اوران پر صحت مندانہ تنقید بھی کی اوراس حوالہ سے لوگوں کو مزید مطالعہ کی رہنمائی بھی کی۔
تجاویز
١ـاسلام ایک جامع او رمکمل نظام حیات ہے، اس نے حیات انسانی کے تمام پہلوؤں اور زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں جامع ہدایات دی ہیں، چنانچہ اس نے حکومت وسیاست مدن کے بارے میں بھی بڑی عادلانہ اور حکیمانہ تعلیمات دی ہیں، جن پر عمل کرنے سے دنیا میں امن وامان قائم ہوگا اور عدل وانصاف کا فروغ ہوگا او رملک کے تمام باشندوں کو ان کے حقوق حاصل ہوںگے۔
٢ـ شرکاء سمینار کا مشترکہ احساس ہے کہ موجودہ عالمی حالات میں اسلام کے سیاسی نظام اور اس سے وابستہ موضوعات پر زیادہ گہرائی او رجامعیت کے ساتھ تحقیق وبحث کی ضرورت ہے، اس موضوع پر کتاب وسنت کی تصریحات واشارات، فقہاء اسلام کے اجتہادات اور موجودہ عالمی حالات کے تقاضوں کی بنیاد پر اسلام کے سیاسی نظام کو زیادہ منقح اور روشن کرنے کی ضرورت ہے۔
٣ـ یہ سمینار اسلامک فقہ اکیڈمی کے ذمہ داروں سے اپیل کرتا ہے کہ ''اسلام کے سیاسی نظام'' سے متعلق اہم سوالات کو مرتب کرکے ان پر سنجیدہ علمی تحقیق کرائے اور علماء اور ماہرین سیاسیات کی ایسی کمیٹی تشکیل دے جو موجودہ دور میں اسلام کے سیاسی نظام کا قابل عمل خاکہ تیار کرے اور اسے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے کسی سمینار میں زیر بحث لائے۔
٤ـ یہ سمینار اس بات پر مسرت کا اظہار کرتا ہے کہ عالم اسلام کے مختلف ممالک میں استبداد کی زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں، اور عامة المسلمین کو حکومت قائم کرنے کے مواقع حاصل ہورہے ہیں، اور یہ امید کرتا ہے کہ عالم اسلام میں حالیہ تبدیلیاں تمام انسانوں خصوصاً مسلمانوں کے لیے بہتر اور نفع بخش ثابت ہوںگی۔
٥ـ یہ سمینار ملک کی یونیورسٹیوں خصوصاً مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ علوم سیاسیات اور شعبہ اسلامک اسٹڈیز سے یہ اپیل کرتا ہے کہ اسلام کے سیاسی نظام کو تحقیق اور تدریس کا موضوع بنائیں اور موضوع کے مختلف پہلوؤں پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں کی ہمت افزائی کریں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے کسی ایک نظام حکومت کو اپنانے کا حکم نہیں دیا کیونکہ مختلف حالات میں مختلف نظام حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم قرآن میں ایک بنیادی اصول بیان کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان جو بھی نظام حکومت اپنائیں، اس کی بنیاد "مشورے" پر ہونی چاہیے اور حکومت کے تمام امور لوگوں کو مل جل کر باہمی مشورے سے چلانے چاہییں۔
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ.

وہ لوگ جو اپنے رب کی بات کا جواب دیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ان کے معاملات باہمی مشورے سے چلتے ہیں اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے، وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ (الشوری 42:38)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اگرچہ کسی سے مشورہ کرنے کے محتاج نہ تھے، مگر آپ کو بھی یہی حکم دیا گیا تھا:
فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ.

ان سے درگزر کیجیے، ان کے لیے مغفرت کی دعا کیجیے، معاملات میں ان سے مشورہ کیجیے۔ پھر جب آپ فیصلہ کر لیں تو اللہ پر توکل کیجیے، یقیناً اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (آل عمران 3:159)
ان آیات سے واضح ہے کہ مسلمانوں کا کوئی بھی اجتماعی نظام مشورے سے چلنا چاہیے۔ حکمران کسے بنایا جائے؟ حکومتی فیصلے کیسے کیے جائیں؟ حکمران کو معزول کیسے کیا جائے؟ ان سب کا فیصلہ مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہو گا۔ ایسا نہیں کہ حکمران مشورے تو سب کے سن لے اور پھر اپنی من مانی کرے بلکہ معاملات کا فیصلہ لوگوں کے مشورے ہی سے ہو گا۔ جو مشورہ لوگوں کی اکثریت دے ، حکمران کو اسے قبول کرنا ہو گا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ہمارے ایک ساتھی مبشر نذیر صاحب لکھتے ہیں :
خلفائے راشدین نے اپنے دور کے لحاظ سے جو نظام حکومت اختیار کیا، اسے ہم قبائلی وفاق کا نظام کہہ سکتے ہیں۔ اس نظام میں مشورے کی روح پوری طرح کار فرما تھی۔ عرب میں دور جاہلیت سے بہت سے قبائل آباد تھے۔ ان قبائل کو اپنی خود مختاری بہت عزیز تھی اور یہی وجہ تھی کہ یہ صدیوں سے کسی ایک حکومت پر متفق نہ ہو سکے تھے اور آپس میں جنگیں کرتے رہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اپنی حکومت قائم فرمائی تو معاہدوں کے ذریعے ان قبائل کو اسلامی مملکت کا حصہ بنا لیا۔ ان معاہدوں میں یہ شرط ہوتی تھی کہ اپنے اندرونی معاملات میں قبیلہ خود مختار رہے گا اور ان پر ان کی مرضی کے خلا ف کسی کو حکمران مقرر نہ کیا جائے گا۔ بین القبائلی معاملات میں فیصلہ کن حیثیت مدینہ کی مرکزی حکومت کو حاصل ہو گی۔ خلفائے راشدین نے بھی یہی نظام حکومت جاری رکھا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ہر قبیلے سے متعلق معاملات اس قبیلے کے ساتھ مشورے ہی سے طے پاتے۔ مرکزی حکومت کے لیے طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا کہ تمام قبائل نے متفقہ طور پر یہ تسلیم کر لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قبیلہ قریش کی حکومت کو تسلیم کریں گے۔ چنانچہ خلیفہ کے انتخاب کا معاملہ قبیلہ قریش کے سپرد کیا گیا کہ وہ اپنے میں سے کسی شخص کو خلیفہ منتخب کر لیں۔ اب کس شخص کو خلیفہ منتخب کیا جائے؟ اس کے لیے مدینہ کے سبھی باشندوں سے رائے لی جاتی۔ ان میں خاص کر ان صحابہ کی رائے کو اہمیت دی جاتی جنہوں نے نہایت تکالیف کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا۔ اس میں وہ صحابہ شامل تھے جو جنگ بدر سے پہلے ایمان لائے۔ ان کے بعد صلح حدیبیہ میں شامل بقیہ صحابہ کا درجہ تھا اور ان کے بعد باقی سب صحابہ کا۔ اعلی حکومتی عہدوں پر وہ دس صحابہ فائز تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن میں بالکل ابتدائی سالوں میں شریک ہوئے تھے اور انہوں نے دین کی خاطر بڑی قربانیاں دی تھیں۔ انہیں "عشرہ مبشرہ" کہا جاتا ہے۔ ان کے نام یہ ہیں:
1. ابوبکر صدیق (573-634CE/13H): آپ پہلے خلیفہ تھے اور آپ کو دور حکومت 11-13/632-634 تھا۔
2. عمر فاروق (586-645/23H): آپ دوسرے خلیفہ تھے اور آپ نے 13-23/634-644کے دوران حکومت کی۔ پہلے خلیفہ کے دور میں آپ ان کے دست راست رہے اور محکمہ قضاء کی ذمہ داری آپ ہی کے سپرد تھی۔
3. عثمان غنی (579-656/35H): آپ تیسرے خلیفہ تھے اور آپ کا دور حکومت 23-35/644-656 پر محیط ہے۔ آپ پہلے دو خلفاء کے دور میں مرکزی کابینہ کے رکن تھے اور متعدد ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔
4. علی المرتضی (598-661/40H): چوتھے خلیفہ۔ آپ کا دور حکومت 35-40/656-661 ہے۔ پہلے تین خلفاء کے دور میں آپ وفاقی کابینہ میں شامل رہے اور عدلیہ کے سربراہ بھی رہے۔
5. طلحہ بن عبیداللہ (595-656/36H): سب سے پہلے ایمان لانے والے دس افراد میں شامل ہیں۔ دین کی خاطر زبردست قربانیاں دیں، جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر برسنے والی تلواروں کو اپنے ہاتھ پر روکا۔ آپ پہلے تین خلفاء کے دور میں مرکزی کابینہ میں شامل تھے۔
6. زبیر بن عوام (594-656/36H) جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے "حواری " کا خطاب دیا۔ آپ بھی پہلے تین خلفاء کے دور میں مرکزی کابینہ میں شامل تھے۔
7. ابو عبیدہ بن الجراح (580-652/31H) جو "امین الامت" کے لقب سے مشہور ہیں اور شام کو فتح کرنے والی فوج کے سپریم کمانڈر تھے۔ اس کے علاوہ آپ محکمہ مالیات کے سربراہ بھی رہے۔
8. سعد بن ابی وقاص(595-664/43H): آپ ایران کو فتح کرنے والی فوج کے سربراہ تھے۔ عراق کے گورنر بھی رہے اور مرکزی کابینہ کے رکن بھی تھے۔
9. عبدالرحمن بن عوف (580-652/32H): آپ بھی مرکزی کابینہ کے رکن رہے۔ آپ کو مالی امور پر غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔
10. سعید بن زید (593-673/51H): آپ حکومتی اور سیاسی معاملات میں زیادہ شریک نہیں رہے۔ رضی اللہ عنہم
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عام حکومتی معاملات کو ان ہی دس صحابہ کی ایک کابینہ مل کر چلایا کرتی تھی جس کا سربراہ خلیفہ وقت ہوتا تھا۔ بڑے اور اہم مسائل کے حل کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب فیصلہ کرنا مقصود ہوتا تو "صلوۃ الجامعہ" کا اعلان کر دیا جاتا جس سے دار الحکومت کے تمام افراد مسجد نبوی میں جمع ہو جاتے جن میں خواتین بھی شامل ہوا کرتی تھیں۔ مسئلے کو ان کے سامنے رکھا جاتا اور ہر شخص کو اپنی رائے بیان کرنے کی مکمل آزادی ہوتی۔ اس کے بعد اجتماعی طور پر لوگ جس رائے پر متفق ہوتے ، اسے اختیار کر لیا جاتا۔ بہت بڑے مسائل کی صورت میں قبائل اور صوبوں کے نمائندوں کو بھی طلب کیا جاتا اور ان کے ساتھ مل کر فیصلے کیے جاتے۔ ایران پر بڑے حملے کا فیصلہ اسی طرح ہوا تھا۔ ان میں آفیشل نمائندوں کے علاوہ کسی بھی عام شخص کو مشورے میں شریک ہونے کا حق حاصل ہوتا تھا اور وہ جب چاہے ، دربار خلافت میں آ کر اپنا مشورہ پیش کر سکتے تھے۔ دربار خلافت کسی عالی شان محل میں نہیں بلکہ مسجد کے فرش پر لگتا تھا جس میں کوئی کسی کو داخل ہونے سے نہ روک سکتا تھا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اگر خلیفہ وقت کی رائے ، عام لوگوں کی رائے سے مختلف ہوتی تو وہ اس وقت تک اپنی رائے کو نافذ نہ کر سکتے تھے جب تک کہ وہ انہیں قائل نہ کر لیتے۔ مشہور واقعہ ہے کہ جب عراق کی زمینوں کے انتظام کا مسئلہ درپیش ہوا تو اکثر صحابہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں فاتحین میں تقسیم کر دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں حکومتی ملکیت میں رکھا جائے اور کسانوں کے ساتھ پارٹنر شپ پر معاملہ کر لیا جائے۔ اس مسئلے پر کئی دن بحث ہوئی اور بالآخر جب صحابہ حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوئے تو اسے نافذ کیا گیا۔ ہاں اگر کسی معاملے میں قرآن و سنت کا کوئی واضح حکم موجود ہوتا، تو پھر اسے بلا تامل نافذ کر دیا جاتا۔
حکومتی معاملات سے لوگوں کو آگاہ رکھا جاتا اور اس کے لیے جمعہ کی نماز کے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا۔ جمعہ کی نماز کے لیے نہ صرف اہل مدینہ بلکہ گرد و نواح کے دیہات سے بھی لوگ آیا کرتے تھے۔ خلیفہ وقت جمعہ کا خطبہ دیتے اور اس میں اہم حکومتی امور بھی زیر بحث لاتے اور حکومت کی پالیسی کو بیان کرتے۔ اگر کسی کو اختلاف ہوتا تو اسے اجازت تھی کہ وہ بر سر منبر ہی خلیفہ کو ٹوک کر اپنی رائے بیان کرے۔ مالی معاملات میں شفافیت (Transparency) کا یہ عالم تھا کہ مال کی تقسیم کھلے عام مسجد میں ہوتی تھی اور ہر شخص کو اعتراض کرنے اور اپنی رائے بیان کرنے کا حق حاصل تھا۔ سال میں ایک مرتبہ بیت المال کے اکاؤنٹس کلوز کیے جاتے اور اس میں موجود تمام مال لوگوں میں ان کی خدمات کے مطابق تقسیم کیا جاتا۔ بیت المال کو صاف کر کے اس میں جھاڑو دے دی جاتی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جب خلافت راشدہ کے صوبے قائم ہونا شروع ہوئے تو وہاں بھی یہی ماڈل اختیار کیا گیا۔ ہر شہر کے گورنر کا تعین اس شہر کے لوگوں کی رائے کے مطابق ہوتا۔ مشہور ہے کہ اہل کوفہ اور اہل بصرہ نے حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کے ادوار میں کئی مرتبہ اپنے گورنر کو ہٹا کر کسی دوسرے کو گورنر بنانے کا مطالبہ کیا تو اسے مان لیا گیا۔ گورنروں کو حکم تھا کہ وہ اپنے تمام فیصلے اہل شہر کے مشورے سے ہی انجام دیں۔ اگر کسی بھی شخص کو گورنر کے خلاف کوئی شکایت ہوتی تو اسے براہ راست خلیفہ تک رسائی حاصل تھی۔ حج کے موقع پر خلفاء راشدین ایسی مجالس لگایا کرتے تھے جن میں کوئی بھی شخص گورنروں کے خلاف اپنی درخواست پیش کر سکتا تھا اور اسے کسی قسم کا کوئی خطرہ درپیش نہ ہوتا تھا۔
اس طرح سے خلفائے راشدین نے ایک ایسا شورائی (Participative) نظام حکومت قائم کیا جس کی مثال دور جدید کی امریکی اور یورپی جمہوریتوں میں بھی ملنا مشکل ہے۔ ان جدید جمہوری ریاستوں میں بھی بہت سے امور عوام سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں اور عام آدمی حکومتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتا ہے۔ لیکن خلافت راشدہ میں ایک عام آدمی کو بھی حق حاصل تھا کہ وہ خلیفہ کا احتساب کر سکے اور یہ احتساب بھی کسی منفی جذبے سے نہیں بلکہ خلیفہ اور عام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی کے جذبے کے تحت ہوا کرتا تھا۔
 

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
اسلام کے نظامِ حکومت کی تفصیلات کے لیے یہ کتاب معلوماتی اور جامع ہے۔
اچھی چیز یہ ہے کہ شرعی دلائل سے مزین ہے
 

اٹیچمنٹس

Top