• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آج خلیفہ کیوں اور کیسے؟

mabid.bilkhair

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2013
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
19
عابد بالخیر بھائی آپکا یہ پوسٹ بھی موجودہ دور کے حوالے سے کون اور کیسے کے سوال سے خاموش ہے ۔ نبی علیہ صلوۃ و السلام نے یہ نہیں بتایا کہ آج کے دور میں کون خلیفہ بنے گا۔ میرا اصل مدعا آج کے دور کے خلیفہ سے متعلق ہے۔ تو بھائی بتا ؤ آج خلیفہ کا انتخاب کون کریگا۔ اور کس طریقہ کار کے مطابق کریگا ؟


آج قرآن و حدیث چننے گا ہمارا خلیفہ -
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
خلیفہ کا تعین۔۔۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ہم بعد کی بات کیوں کررہے ہیًں؟؟؟
کیا ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ خلافت عثمانیہ کو کیوں ختم کیا گیا۔۔۔
امیر کی بیعت کو کیوں توڑا گیا؟؟؟۔۔۔ کیا وہ احادیث اس وقت سامنے نہیں تھیں۔۔۔
کے امیر کے بیعت توڑنے والا یا جماعت سے الگ ہونے والا۔۔۔ حدیث ملاحظہ کیجئے!۔

مسلم کی روایت ہے۔۔۔
من خلع یدا من طاعۃ لقی اللہ یوم القیامۃ لاحجۃ لہ ومن مات ولیس فی عنقہ مات مینۃ جاھلیۃ
جس نے (امیر کی) اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا وہ قیامت کے دن اللہ تعالٰی سے اس حال میں ملے گا کہ اُس پر کوئی حجت نہیں ہوگی اور جو کوئی اس حال میں مرا کہ اُس کی گرد پر خلیفہ کی بیعت کا طوق نہ ہو، تو وہ جاہلیت کے موت مرا
یہ حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے۔۔۔

اچھا جی! سوال یہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کو ختم کر اُمت کا شیرازہ کیوں بکھیرا گیا؟؟؟۔۔۔ اور اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ بادشاہت اسلام کے خلاف ہے کیونکہ بیعت لازمی ہے لیکن بادشاہت میں بیعت کا کوئی تصور نہیں۔۔۔

ہم ہمیشہ خلافت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔۔۔ ہم کیوں اس طرف توجہ نہیں دیتے کے جن کی وجہ سے خلافت کا نظام ہمارے ہاتھوں سے گیا شریعت میں اُن لوگوں کے لئے کیا حکم ہے؟؟؟۔۔۔ کیونکہ۔۔۔

انما الامام جنۃ یقاتل من وارئہ و یتقی بہ۔
بے شک امام ایک ڈھال ہے جس کے پیچھے لڑا جاتا ہے اور اپنا بچاؤ کیا جاتا ہے۔۔۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مسلم نے روایت کیا ہے۔۔۔
تم مسلمانوں کے جماعت اور اُن کے امری کے ساتھ رہنا۔۔۔

مجھے پہلے اس بارے میں شریعت کا حکم بتایا جائے کہ جس گروہ نے خلافت کو ختم کی کیا اُن کی اطاعت جائز ہے؟؟؟۔۔۔ باقی بات بعد میں
جی نہیں ان کی اعطاعت ایک مسلم پر حرام ہے، کیونکہ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور کفار کے دوست، اسلامی نظام کے دشمن اور کفریہ نظام کو قائم کرنے والے، اللہ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے۔ ایسے حالات میں ان کی اعطاعت کیسے جائز ہوسکتی ہے؟؟؟
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63


آج قرآن و حدیث چننے گا ہمارا خلیفہ -
کیسے؟ قرآن و حدیث کسی کا نام لیکر نہیں کہہ رہا کہ فلاں کو فلاں زمانے میں خلافت کا تاج پہنا دو۔ رہی بات اہلیت کی تو کوئی بھی اہل ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے اور بہت سارے خود کو اہل بھی سمجھ بیٹھے ہیں۔ آخر قرآن و حدیث پڑھ کر کون کس کو کس طریقہ کار کے مطابق خلیفہ چنے گا؟
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
اگر اس آیت کو اور اس کی شرح کو پڑھا جاے تو میرے خیال میں آپ کے اٹھاے گے سوالات کے جوابات سامنے آسکتے ہیں۔۔۔
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ”سورة الحج آیت ٤١“
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے ۔
واللہ اعلم
 
شمولیت
مارچ 16، 2014
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
49
سب سے پہلے تو میں راجا صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ میری کچھ باتوں کی وجہ سے بعض احباب موضوع سےقدرے ہٹ کے باتیں چھیڑ رہے ہیں۔ میری ایک پوسٹ شائد اسی وجہ سے ذمہ داران حضرات نے ڈیلیٹ کردی ہے۔ خیر وجہ تو ایڈمن صاحب ہی بہتر بتا سکیں گے۔
عابد بالخیر بھائی میرا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ خلیفہ کا انتخاب کون کرے گا؟ آپ نے حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کی مثالیں پیش کی ہیں

مذکورہ صورت میں ایک خلیفہ اپنے مابعد خلیفہ کا انتخاب کرتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو کس نے اور کیسے خلیفہ مقرر فرمایا سوال یہ ہے کہ آج کے ابو بکر کو کون اور کیسے منتخب فرمائے گا۔
اس کے لئے بھی خلافت کی جدو جہد کرنے والے اہلِ عقل و علم ہی خلیفہ کا انتخاب کریں گے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
سب سے پہلے تو میں راجا صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ میری کچھ باتوں کی وجہ سے بعض احباب موضوع سےقدرے ہٹ کے باتیں چھیڑ رہے ہیں۔ میری ایک پوسٹ شائد اسی وجہ سے ذمہ داران حضرات نے ڈیلیٹ کردی ہے۔ خیر وجہ تو ایڈمن صاحب ہی بہتر بتا سکیں گے۔
عابد بالخیر بھائی میرا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ خلیفہ کا انتخاب کون کرے گا؟ آپ نے حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کی مثالیں پیش کی ہیں

مذکورہ صورت میں ایک خلیفہ اپنے مابعد خلیفہ کا انتخاب کرتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو کس نے اور کیسے خلیفہ مقرر فرمایا سوال یہ ہے کہ آج کے ابو بکر کو کون اور کیسے منتخب فرمائے گا۔
ویسے تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو عجیب و غریب صورت حال کا سامنہ ہوتا ہے خلیفہ کے چناؤ کے طریقہ کار میں
خلیفہ اول کا چناؤ
اول خلیفہ کا چناؤ ناگہانی طور سے ہوا
اور پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب جو بھی اول خلیفہ کے طرز پر خلیفہ کا چناؤ کرے گا اس کو اور اس خلیفہ کو قتل کردیا جائے گا یعنی خلیفہ کے چناؤ کا یہ طریقہ منسوخ ہوگیا اب اس طریقہ چناؤ کے منسوخ ہونے کی آیت کس پر نازل ہوئی یہ بات کسی کو معلوم نہیں !!
خلیفہ دوئم کا چناؤ
خلیفہ اول نے اپنی زندگی میں ہی خلیفہ دوئم کو اپنا جانشن مقرر فرمادیا کیونکہ خلیفہ اول کے ناگہانی چناؤ میں خلیفہ دوئم نے ہی مرکزی کردار ادا کیا تھا یوں اس احسان کا بدلہ چکا دیا
خلیفہ سوئم کا چناؤ
خلیفہ دوئم نے اپنی زندگی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اگلے خلیفہ کا چناؤ کرے اور اس کمیٹی میں بقول خلیفہ دوئم کے ان لوگوں کو شامل کیا گیا جن سے رسول اللہﷺ آخر تک راضی رہے اور یہ عجیب و غریب شرط بھی رکھ دی گئی ان کمیٹی ممبران میں سے جو اختلاف کرے اس کو قتل کردیا جائے
اس طرح خلیفہ دوئم نے خلیفہ اول کی سنت کو ترک کرتے ہوئے اپنا جانشن مقرر نہیں کیا یوں خلیفہ دوم کا طریقہ انتخاب بھی منسوخ ہوگیا اور اس کی منسوخی کی آیت کس پر نازل ہوئی یہ بھی کسی کو نہیں معلوم
خلیفہ چہارم کا چناؤ
خلیفہ سوئم کے مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کے بعد ایک اسی صورت حال کا سامنا ہوا جو کسی کے بھی کنٹرول میں نہیں آرہی تھی اس لئے باحالات مجبوری ایک ایسے بنو ہاشم کے ایک فرد کو خلیفہ چنا گیا جب کہ قریش باہمی طور سے یہ فیصلہ رسول اللہ کے عہد میں ہی کرچکے تھے کہ بنو ہاشم میں نبوت اور خلافت کو یکجاء نہیں ہونے دیں گے
خلیفہ چہارم کا چناؤ مسلمانوں کی باہمی مشاورت کے بعد کیا گیا ۔

یہ ہے تاریخ اسلام میں خلیفہ منتخب کرنے کے چار مختلف طریقے اب ان میں سے کس طریقے کو اپناتے ہوئے آج کے دور میں خلیفہ کا چناؤ کیا جائے ؟؟؟
 
شمولیت
مارچ 16، 2014
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
49
کیسے؟ قرآن و حدیث کسی کا نام لیکر نہیں کہہ رہا کہ فلاں کو فلاں زمانے میں خلافت کا تاج پہنا دو۔ رہی بات اہلیت کی تو کوئی بھی اہل ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے اور بہت سارے خود کو اہل بھی سمجھ بیٹھے ہیں۔ آخر قرآن و حدیث پڑھ کر کون کس کو کس طریقہ کار کے مطابق خلیفہ چنے گا؟

تحریر :عاطف بیگ
بھلا یہ بات بھی سمجھنی کیا مشکل تھی ! اور کچھ نہیں تو جمہور پسندوں نے اپنے سسٹم پر ہی غور کرلیا ھوتا!
مسئلہ زھن میں یہ الجھا ھوا ھے کہ "خلیفہ" کا انتخاب آخر "جمہوریت" کے بغیر ھوکیسے سکتا ھے !!یعنی ان گنت لوگوں کا ایک ھجوم ھے اور ان میں سے ایک خلیفہ منتخب کرنا ھے یہ ووٹنگ کے بغیر آخر ھوکیسے سکتا ھے !!اب ھر کوشش ھورھی ھے کہ کسی نہ کسی طرح چناو کے اس طریقے کو "اسلامی جمہوریت" ثابت کردیا جائے اور کثرت کو اس کی دلیل بنا دیا جائے !کچھ ظریف تو یہاں تک پہنچے ھیں کہ "جمہوریت اور اسلام " کے فرق کو صرف "اصطلاحات" کا فرق مان بیٹھے ھیں اور کیونکہ یہ دونوں ہی "نظام حکمرانی" ھیں اس لیے ان کی واقعاتی مشابہت سے دھوکا کھا کر یہ تصور کرلیا گیا ھے کہ ان کی بنیاد میں بھی کوئی فرق نہیں ھے !
بہرحال اس مضمون کا مقصد ابھی اس فرق کو اجاگر کرنا نہیں ھے بلکہ "جمہوریوں" کو انہی کے نظام سے یہ سمجھانا ھے کہ لیڈر کیسے جنم لیتا ھے !اور آپ خود اپنے نظام کے زیر اثر کسی کو کب لیڈر مانتے ھیں !
تو پیدا ھونے والے سوالات کچھ یوں ھیں
1) خلیفہ کا انتخاب کیسے ھوگا
2) خلیفہ پر لوگ جمع کیسے ھوں گئیں
3)!! کیا خلیفہ کا انتخاب ووٹنگ کے علاوہ بھی ھوسکتا ھے
4)اگر خلیفہ کو شوری منتخب کرے گی تو شوری کو کون لوگ منتخب کریں گئیں !
5) اہل حل و عقد کا فیصلہ کیسے ھوگا
شومئی قسمت سے امت کا ایک طویل دور جس میں اس بدنصیب کے سامنے جمہوریت
کے مظہر کے علاوہ فیصلہ کرنے کا کوئی اور مظہر نہیں ھے اور حقیت حال یوں ھے کہ مقابلہ بھی جمہوریت سے نہیں بلکہ "سیکولرازم" کہ اس گھناونے زہر سے ھے جو کہ "خدائی سلیکشن کے مقابلے میں عوامی سیلکیشن" کو امت کی رگوں میں اتارنا چاھتا ھے ۔ اس طویل دور نے ان سوالات کا جواب بھی مشکل بنادیا ھے جو کہ کبھی سرے سے سوالات ہی نہ تھے !
جمہوریت کے ھاں بھی لیڈر بننے کی واقعاتی ترتیب یوں نہیں ھے کہ کوئی شخص پہلے الیکشن جیتتا ھے تو پھر وہ لیڈر کہلاتا ھے ، بلکہ ترتیب یونہی ھے کہ ایک شخص "ملک و قوم" کی خدمت کا جزبہ لے کر اٹھتا ھے ، اس کے کارھائے نمایاں نظر آنے شروع ھوتے ھیں ، آھستہ آھستہ ایک گروپ کی صورت اختیار کرتا ھے ، یہ گروپ ایک طویل سیاسی جدوجہد سے گزرتا ھے ، جو کسی ایک شخص کی قیادت میں ھوتی ھے اور یہ شخص عام طور پر دعوت کنندہ ہی ھوتا ھے ،جو کہ اپنی سوچ و فکر کو پیش کرتا ھے ، اگر بالفرض محال وہ کنگ کی بجائے کنگ میکر بننے کو ترجیح دے ، جیسا کہ برصیغیر پاک و ھند میں بھی اس کی مثالیں گاندھی ، الطاف حسین یا کچھ اور لوگوں کی صورت میں مل جاتیں ھیں تو یہ سمجھنا پھر بھی محال ھے کہ کوئی بھی فیصلہ اس کی منظوری کے بغیر ھوتا ھوگا!
سیکولر یا بے دین سیاسی جماعتیں جو کہ اپنی جماعتوں کے اندر بھی الیکشن کی حامی ھیں ، وہ بھی اپنی جماعت کے ھربندے کو جماعتی قیادت کا حق نہیں دیتے ، بلکہ کارھائے نمایاں یا طویل خدمات سرانجام دینے والے بندے کو جس کی جماعت اور اس کے عقیدے کے ساتھ شک و شبہ سے بالاتر وابستگی ھو اسی کو جماعتی سطح پر الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ھیں اور یہ بندے کوئی نامعلوم کارکنان نہیں ھوتے !
ان جماعتوں کی دعوت ، ان کا طریق کار ،ان کا نکتہ ہائے نظر ان کی بنیاد اسی ایک شخص کی مرھون منت ھوتی ھے ،"اکثر معاملات میں لوگ کسی جماعت پر جمع نہیں ھوتے بلکہ جماعت کسی فرد واحد پر جمع ھوتی ھے !
یاد رھے کہ یہاں موضوع زیربحث ایک لیڈر کی تشکیل ھے ، نہ کہ اس لیڈر کے سیاسی جانشینوں کا تزکرہ ،جو کہ بعد میں اسی سوچ و فکر کو لے کر آگے بڑھتے ھیں اور بعض اوقات ایک "لیڈر" کا روپ بھی دھار جاتے ھیں مگر یہ امر واقعہ ھے کہ ان کے لیڈر بننے کے پیچھے ایک ازم کارفرما نہیں ھوتا بلکہ پہلے سے موجود ایک ازم کی پاسداری ھوتی ھے !
تشکیل کے اس ابتدائی مرحلے میں ہی اس فرد ،جماعت یا گروہ کے نظریات و عقائد،بالکل واضح ھوتے ھیں ایک واضح و متعین مقصد کے لیے جدوجہد کرنے کا اعلان کیا جاتا ھے اور اس کے مخالفین و حمایتی بالکل کھل کا آمنے سامنے آجاتے ھیں ، یہ پارٹی سیکولر ھوگی یا وطن پرستوں اعتدال پسندوں پر مشتمل ،اس کا جھکاو لیفٹ ونگ کی طرف ھوگا کہ رائٹ ونگ کی طرف! یہ کس طرز معاشرت ،نظام معشیت کی طرف دعوت دیتی ھے ،مختلف پیش آمدہ مسائل سے نبٹنے کے لیے یہ کیا حل تجویز کرتی ھے ،اور پھر اس دعوت کو لے کر یہ میدان عمل میں کود جاتی ھے اور ایک طویل مدت کے بعد معاشرے میں ایک اثر پزیر قوت بن جاتی ھے یا دم توڑ دیتی ھے
اس فرد کو جماعت کو یا گروہ کو اگر حکمرانی بھی مل جائے تو یہ سارے فیصلے کم و بیش پہلے سے فیصل ھوچکے ھوتے ھیں کہ پرائم منسٹر کون ھوگا ،ایڈوائزری کونسل کن اراکین پر مشتمل ھوگی ،،وزرا کون ھوں گئیں ،مشیران کون ھوں گئیں !! کیا ان سب فیصلوں کے لیے بھی کبھی کوئی "عوامی رائے سازی" کروائی جاتی ھے !؟؟
اسلامی سیاسی جماعتیں جو کہ "امیر" کا فیصلہ مجلس شوری کے زریعے کرتی ھیں ، وہ بھی شوری کے اندر اپنی جماعت کے ھربندے کو "امارت کا ایک امیدوار" تصور نہیں کرتیں ، بلکہ چند کارھائے نمایاں والے اشخاص ہی ان شرائط پر پورا اترتے ھیں اور انہی کو زیربحث لایا جاتا ھے اور یہ "مجلس شوری" بھی ایسے لوگوں پر مشتمل ھوتی ھے جن کی جماعتی عقائد کے ساتھ وفاداری شک و شبہ سے بالاتر ھو اور ایک طویل جدوجہد و قربانی کی تاریخ اس پر گواہ ھو !
کیا آپ کوئی ایسی سیاسی جماعت بتا سکتے ھیں جو کہ اپنے ہر سیاسی قدم کا فیصلہ اپنے ھر سیاسی کارکن کی رائے جان کر کرتی ھو؟ اور تقریبا ہر معاملے میں الیکشن کرواتی ھو؟ یا کوئی ایسی سیاسی جماعت جس کی "مجلس مشاورت" اس جماعت کے خالص ترین اراکین پر مشتمل نہ ھوتی ھو؟ چاھے ان اراکین کا انتخاب کسی ووٹنگ سے ھوا ھو مگر ان کے خلوص کی گواھی یہ ووٹنگ نہیں ھوتی بلکہ وہ "طویل سیاسی جدوجہد و قربانی ھوتی ھے جو کہ ان کو اپنے حلقے میں معروف بنادیتی ھے اور ان کی وفاداری کو ہر قسم کے شک و شبے سے بالاتر" یہ ووٹ اس خلوص اور سیاسی جدوجہد کو پڑتے ھیں نہ کہ ان کی شخصیت کو!!
ابھی ھم معاملے کی آئیڈیل صورت لے رھے ھیں اس صورت کو ابھی زیربحث نہیں لارھے جسمیں مفاد پرست عناصر ،پیسہ ، دھونس و دھاندلی ، جبر ، دھوکا وغیرہ استعمال کرکہ کسی پارٹی کو ہائی جیک کرلیتے ھیں اور اس کو اس کی اساس سے بدل دیتے ھیں !
آپ چاھے کسی بھی پارٹی سے منسلک ھوں مگر لیڈر کے یہ خدو خال آپ کی نظروں سے اوجھل نہ ھوں گئیں ،
عمران کا جادو اگر آج کام کررھا ھے تو اس کے پیچھے ورلڈ کپ کی فتح ، شوکت خانم میموریل ھسپتال ، ایک مسمراتی شخصیت ،سترہ سال کی طویل سیاسی جدوجہد شامل ھے !کیا ان کے بغیر عمران کو کوئی لیڈر بھی کہہ سکتا ھے !
یاد رھے کہ تحریک انصاف نے عمران کو جنم نہیں دیا بلکہ عمران نے تحریک انصاف کو جنم دیا ھے !
الطاف حسین کے نام کی مالا اگر آج مہاجر جپ رھے ھیں تو اس کےپیچھے ایک خونیں تاریخ ھے جس میں الطاف پر ھوا بدترین تشدد، اس کی جرآت ،شعلہ بیانی اپنی کیمونٹی کے لیے بے انتہا قربانی کی ایک تاریخ موجود ھے !پھر یاد دلواتا چلوں
کہ ایم کیوایم نے الطاف کو جنم نہیں دیا بلکہ الطاف سے ایم کیوایم معرض وجود میں آئی ھے "
بھٹو وزیر خارجہ سے ایکدم عوام کی آنکھوں کا تارا نہ بن گیا تھا ، اس کی جرآت و شعلہ بیانی کی ادا پاکستانی عوام کے دل میں گھر کر گئی تھی ،
بھٹو پیپلز پارٹی سے نہ نکلا تھا بلکہ اس نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی !
بعینہ اسی طرح گاندھی کانگرس سے نہ نکلا تھا بلکہ کانگرس اس کی وجہ سے مشہور ھے !
سید مودودی جماعت اسلامی سے نہ نکلے تھے بلکہ جماعت اسلامی سید مودودی سے معرض وجود میں آئی تھی !
جرمنی کی نازی پارٹی کسی کونے میں پڑی گل سڑ رھی تھی کہ ھٹلر جیسے شعلہ بیان مقرر نے اس کے تن مردہ میں جان ڈال دی !
ھزارھا مثالیں ھیں ، ایک سے بڑھ کر ایک عقلیں دنگ رہ جاتی ھیں ، ایک انسان اٹھا اور اس نے اپنی قوم کی فکر ، تاریخ وہ تمدن پر عہد ساز نقوش مرتب کردیئے ،انہی سے آپ کی جماعتیں بنیں یا پارٹیوں کے تن مردہ میں جان پھونکی گئی !
ان کے ھوتے ھوئے کسی اور لیڈر ، کسی اور رھبر کا تصور کرنا بھی ان جماعتوں کے لیے محال ھے ! یہ لیڈران کسی الیکشن کے زریعے معرض وجود میں نہیں آئے ! بلکہ کسی الیکشن میں ھارنے کہ باوجود ان میں سے کسی کی عظمت اس کی جماعت میں گہنا نہیں سکی اسی کو شائد قدرتی طریقہ انتخاب کہتے ھیں !
اب اگلا مرحلے پر جانے سے پہلے اس بات کو آپ ہی کے اصولوں کے مطابق سمجھ لیا جائے
1) لیڈر کسی پارٹی یا انتخاب کی وجہ سے معرض وجود میں نہیں آتے بلکہ پارٹیاں ان کی وجہ سے معرض وجود میں آتی ھیں یا دوبارہ سے زندہ ھوتی ھیں
2)
لیڈران کا چناو کسی قسم کا الیکشن یا کوئی طے کردہ طریق کار نہیں کرتا بلکہ اس کے کارھائے نمایاں کرتے ھیں ، الیکشن صرف اس پر ایک مہر ثبت کرتا ھے
3)
لیڈران کسی قسم کی اکثریت کے محتاج نہیں ھوتے ، بلکہ یہ کسی ایک یونٹ کی کل کہ مختار ھوتے ھیں
4)
جن لیڈران کا انتخاب کیا جاتا ھے ، وہ بھی کارھائے نمایاں سر انجام دینے والے لوگ ھوتے ھیں جن کی اپنے مخصوص یا جماعتی حلقہ میں خوب پہچان ھوتی ھے
5)
وہ مجلس مشاورت یا شوری جو کہ ان لیڈران کو منتخب کرتی ھے اس جماعت کے ان لوگوں پر مشتمل ھوتی ھے جن کی وفاداری ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ھوتی ھے
"الغرض، خلافت ہو یا جمہوریت، یہ لیڈران ہوتے ہیں جو سب سے پہلے کسی قوم میں ابھرتے ہیں اور جو اپنے کارہائے نمایاں کے ذریعے ایک کثیر خلقت کے دلوں پہ راج کرتے ہیں۔ اپنے اسی ابتدائی اور پہلے سے قائم شدہ لیڈرانہ تشخص کی بنیاد پر یہ اس بات کے اہل قرار پاتے ہیں کے نظامِ حکومت کی زمام ان کے ہاتھوں میں دی جائے۔ طریقہِ انتخاب کی باری تو بعد میں آتی ہے، سب سے پہلے لیڈرانہ تشخص اور اس کے نتیجہ میں ایک زیرِ اثر وسیع حلقہ پائے جانے کی یہ ابتدائی شرط پوری ہوئی ہونا ضروری ہوتی ہے۔ طریقہِ انتخاب جمہوری ہو تو یہ لیڈرانہ تشخص کے حامل افراد اپنی اپنی پارٹیوں یا حامیوں کے ہمراہ انتخابی معرکہ لڑتے ہیں، اور پھر اپنی اپنی مقبولیت و حمایت کے بقدر انتخابی فتح اور اس کے بعد جمہوری حکومت کے قیام میں اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ جبکہ ایک خالص اسلامی طرزِ معاشرت میں جب امتِ مسلمہ کے مقبول سرکردہ افراد و کبار علما [نہ کہ کسی خاص مقامی جماعت یا تنظیم کے اپنے افراد!] امت کے اندرکسی ایسے ہی لیڈرانہ تشخص کے حامل شخص کے اوپر امت کے امور و معاملات کی نگرانی کے لیے مجتمع و متفق ہوجاتے ہیں تو خلیفۃ المسلین کا منصب ظہور پذیر ہوتا ہے۔"
اب بتایئے آپ کیا سمجھتے ھیں کہ امت کا دامن کسی بھی قسم کے ایسے شخص سے خالی ھے جس کہ کچھ کارھائے نمایاں صرف اور صرف اللہ کے دین کی سرفرازی کے لیے ھوں ؟ یا کہیں بھی ایسے اشخاص کا وجود نہیں ھے جن کی اسلام کے ساتھ وفاداری ھرقسم کے شک و شبہ سے بالا تر ھو؟ کیا آپ کے گمان میں امت میں اس وقت کوئی لیڈر ہی نہیں ھے !! اگر آپ کا یہ گمان ھے اور اسمیں کوئی حیرت بھی نہیں ھونی چاھیے کیونکہ لیڈر ھونے کا مطلب آپ کے ھاں "جمہوری" ھونے سے مشروط ھے تو پھر یقین کرلیجیے کہ مسلمان لیڈر نہ تو ایسے جنم لیتا ھے اور نہ ہی ایسے پہچانا جاتا ھے !
بلکہ خود جمہوری لیڈر اس طرح جنم نہیں لیتا، بلکہ اس کے لیڈر بننے میں پہلے پہل وہی فطری طریقہِ انتخاب کار فرما ہوتا ہے جس پر اوپر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔"
ایک جمہوری لیڈر اپنی دانست میں اپنی جماعت ،گروہ یا عوام کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے اٹھتا ھے اور ہر اس امر کا خیال رکھتا ھے جو کہ اسے اپنی جماعت ،گروہ یا عوام میں مقبول بنادے چاھے اس کے لیے اس کو رب العزت کی ناراضگی ہی کیوں نہ مول لینا پڑے ، اور ایک اسلامی لیڈر اللہ کے دین کے لیے اٹھتا ھے اور انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے ، وہ ہر اس امر کا خیال رکھتا ھے جو کہ اللہ کی نظروں میں غیر مقبول ٹہرے چاھے اس کے لیے انسانوں کہ ایک گروہ میں وہ ملامت زدہ ہی کیوں نہ ٹہرے اور بدلے میں اللہ مسلمانوں کے دلوں میں اس کا پیار ڈال دیتے ھیں !
غور کیجیے یہ چھوٹا سا فرق جو کہ واقعے میں آپ کو بالکل ایک سا لگتا ھے اصل میں کتنا عظیم الشان ھے ! ایک لیڈر کی ہر جدوجہد "عوامی مقبولیت و انقلاب" کے لیے ھے اور ایک لیڈر کی ہر کوشش "الہی انقلاب" کے لیے ھے
یہ خود ، اس کی جماعت ، اس کا گروہ ، اس کے مشیران ،اپنی مسلسل جدوجہد و قربانیوں کی وجہ سے ھرقسم کے شک وشبے سے بالاتر ھوجاتے
ھیں ،
ان کی دعوت ، ان کا منشور ، ان کے دوست و دشمن ،مختلف مسائل سے نبٹنے کا جو حل یہ رکھتے ھیں وہ امت میں معروف ھوتے ھیں ،یہ مجہول الحال اشخاص کا ایک گروہ نہیں ھوتا ، ان کا عقیدہ عین اسلامی عقیدہ ھوتا ھے اور اسی سے ان کا منہج و طریق کار تشکیل پاتا ھے ، یہ اس کولے کر میدان عمل میں کود جاتے ھیں اور یہ میدان عمل صرف جمہوریت ہی نہیں ھوتا بلکہ اللہ کے دین کی سرفرازی ھوتی ھے
ان کا فیصلہ امت میں قبول عام کی سند حاصل کرجاتا ھے ان کی شوری ہی "اسلامی شوری" ھوتی ھے اس کے کارکنان ہی "اسلامی کارکنان" ھوتے ھیں اسی کی جمہوریت ہی "اسلامی جمہوریت" ھوتی ھے اور اسی کا مقررکردہ خلیفہ ہی "اسلامی خلیفہ" ھوتا ھے خلافت علی منہاج النبوہ کا دعوے دار!
یہ اسی نیچرل پروسیس سے نکلتا ھے جہاں سے آپ کے لیڈران جنم لیتے ھیں مگر اس کے مقاصد میں اس کی بنیاد میں فرق ھوتا ھے ، اس لیے ایک"جمہوری لیڈر" لاکھوں دلوں کی دھڑکن ھونے کے باوجود اسلام کی نظر میں "نفس کے پجاری" سے زیادہ اھمیت نہیں رکھتا اور ایک اللہ کے دین کی تابعداری کی وجہ سے امت کا سرخیل بن سکتا ھے !
اگر آپ کو اس نظام کے لیے جدوجہد کرتے لوگ نظر نہیں آرھے تو یہ ان کا نہیں بلکہ آپ کی نظروں کا قصور ھے جن کے مطابق ہر لیڈر کا کم از کم "جمہوری" ھونا لازمی ھے اور یہ جمہوری ھونا بھی "آپ کے پیمانوں پر" نہ کہ خدائی تشکیل کے اس پیمانے پر جس کی وجہ سے کوئی بندہ قبولیت عامہ کا درجہ حاصل کرتا ھے ۔
پھر بھی نظریں کھولیے ،زرا افغانستان کے پہاڑوں پر نظر دواڑیئے ، عراق کے ریگستانوں کو دیکھیے ، افریقہ کے تپتے میدانوں پر نگاہ کیجیے ،ڈرونز کے شکار مظلوم لوگوں پر نظر کرم ڈالیے ،شام کے میدانوں پر نظر ڈالیے ،مصر کہ جلوسوں کو دیکھیے ، جیل خانوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں ،گواتناموبے کی بیرکز میں ،کچھ مظلوموں کی آہ پکار سنیے کیا ان جگہوں پر آپ کو کوئی ایک بھی لیڈر نظر نہیں آرھا!! کہ ہر لیڈر کے لیے "آپ کے فراھم کردہ ایک جمہوری میعار پر اترنا ضروری ھے ؟"کیا ان میں کوئی بھی صاحب اہل حل و عقد نہیں ھے ؟ کوئی بھی اصحاب شوری بننے کا اھل نہیں ھے ؟ کسی بھی اسلام سے وابستگی ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر نہیں ھے ؟ کسی کی محبت بھی امت کے دلوں میں پھولوں کی خوشبو کی طرح بسی ھوئی نہیں ھے ؟ کسی کے پیچھے قربانیوں اور جدوجہد کی ایک عظیم داستان نہیں ھے ؟! اس کا انکار امر واقعہ کا انکار ھے
مشرق تا مغرب جو ایک عظیم دعوتی ،اصلاحی و جہادی کام چل رھا ھے اس سے کس کو انکار ھوسکتا ھے ! ھاں یہ ضرور کہا جاسکتا ھے کہ یہ ابھی طاقت نہ ھونے کی وجہ سے ایک نظام کی صورت میں بپا نہیں ھوپارھا مگر یہ ضروری نہیں ھے کہ "طاقت آپ کے وضع کردہ جمہوری نظام کے زریعے ہی ان لوگوں کے ہاتھوں میں آئے "
ان کے روشن کرداروں کے آگے امت کے ھزاروں مفتیوں ، لیڈروں ،مدرسوں کی مسیحائی ھیچ تھی ، امت کا بچہ بچہ ان کے نام سے ان کے کردار سے ان کے کارناموں سے واقف ھے ، ان میں وہ رجال بھی موجود ھیں جو کہ اگر اپنی بیعت کی طرف دعوت دیں تو شائد ہی کسی کو اعتراض ھو ،مگر یہ عوامی سلیکشن کے اس پروسیس سے بہتر خدائی سیلکشن کو جانتے ھیں جو کہ ان کو کسی عہدے کے لیے کھڑا ھونا نہیں بلکہ "اللہ کے لیے کھڑا ھونا" سکھلاتی ھے اور اسی دعوتی و جہادی عمل کے دوران وہ مرحلہ بھی آجاتا جب خلافت اپنی طاقت کے ساتھ بپا ھوجاتی ھے
یاد رھے کہ "خلافت اقامت دین کے راستے کی ایک منزل ھے نہ کہ اصل مراد"کوشش و جدوجہد اقامت دین کے لیے ھے اور اسی راستے پر وہ منزل بھی آتی ھے جس کو خلافت ارضی کہتے ھیں اور یہ خدائی انتخاب ھوتا ھے نہ کہ عوامی !
اور اس خلیفہ کو نہ کسی ووٹنگ کی ضرورت ھوگی اور نہ کسی اور مصنوعی عمل کی ! وہ خلیفہ ھوگا جس کے کارھائے نمایاں پوری امت پر کھلے ھوں گئیں نہ کہ کوئی مجہول الحال شخص جس کو اپنی لیڈری کے لیے بھی چند ٹکے کے ووٹوں کی ضرورت ھو جس کہ لیے وہ کفرکو کفر کہنے سے بھی دستبردار ھونےکو تیار ھو
 
Top