محمد عاصم
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 10، 2011
- پیغامات
- 236
- ری ایکشن اسکور
- 1,027
- پوائنٹ
- 104
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج خلیفہ کیوں اور کیسے؟
آج خلیفہ کیوں اور کیسے؟
ہر طرح کی تعریفیں اللہ رب العالمین کو ہی سزاوار ہیں جس نےیہ سب کائناتیں صرف چھ۶دن میں بنائیں اوراس عظیم ذات کوزرہ سی بھی تھکن نہ ہوئی،تیری حمد ہو اتنی جتنے درختوں کے پتے ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے دن اور راتیں ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے سب کائناتوں میں موجود ذرات ہیں،
اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پرآپ کی آل رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر۔
اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پرآپ کی آل رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 55
وعدہ فرمایا ہے اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے تم میں سے اور عمل صالح کرتے رہے کہ ضرور عطا فرمائے گا انہیں زمین میں خلافت جس طرح عطا فرمائی تھی ان لوگوں کو جو تم سے پہلے تھے اور ضرور قائم کر دے گا مضبوط بنیادوں پر ان کے لئے اس دین کو جو پسند کر لیا ہے اللہ نے ان کے لئے اور ضرور بدل دے گا ان کی حالت ِ خوف کو امن سے ، بس وہ میری عبادت کرتے رہیں اور نہ شریک بنائیں میرے ساتھ کسی کو تو جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں
( سورۃ النور۔ ۵۵وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 55
وعدہ فرمایا ہے اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے تم میں سے اور عمل صالح کرتے رہے کہ ضرور عطا فرمائے گا انہیں زمین میں خلافت جس طرح عطا فرمائی تھی ان لوگوں کو جو تم سے پہلے تھے اور ضرور قائم کر دے گا مضبوط بنیادوں پر ان کے لئے اس دین کو جو پسند کر لیا ہے اللہ نے ان کے لئے اور ضرور بدل دے گا ان کی حالت ِ خوف کو امن سے ، بس وہ میری عبادت کرتے رہیں اور نہ شریک بنائیں میرے ساتھ کسی کو تو جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں
)
آیت میں اللہ کی طرف سے اہل ِ ایمان کو زمین میں خلافت (اقتدار) دینے ، ان کے لئے پسند کئے گئے دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دینے اور ان کی حالت ِ خوف کو امن میں بدل دینے کے لئے شرک سے اجتناب کے ساتھ اعمال ِ صالح کی ادائیگی کو شرط قرار دیا ہے۔قرآن وسنت سے سامنے آنے والے اعمال ِ صالح میں سے صرف قرآن وسنت کی اتباع، اقامت ِ صلوٰۃ، ایتائے زکواۃ، امام کی بیعت ،اطاعت اور نصرت، ہجرت، جہاد فی سبیل اللہ اور حج وغیرہ اہل ِایمان کی وحدت اور ان کے غلبے کی جدوجہد کی کامیابی کے لئے بنیادی کردارادا کرتے ہیں مگر یہ اعمال اہل ایمان کی وحدت اور ان کے غلبے کے لئے تب ہی مؤثر ہوتے ہیں جب یہ صرف ’’ شرعی (قرآن وسنت کی دلیلوں کے حامل)اورایک امام‘‘ کی امامت میں ادا کئے جائیں، لیکن اگر یہ اعمال غیر شرعی اور بے شماراماموں کی امامت میں بٹ کر ادا کئے جائیں توایک تو اللہ کی ناراضگی کا باعث بنتے ہیں ، دوسرے وہ اہل ِایمان میں تفرقے کا باعث بنتے ہیں یوں ان کے غلبے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں، چنانچہ اللہ کی رضا اورزمین میں غلبے کے حصول کے لئے ’’ اعمال ِ صالح کی ادائیگی ‘‘ اوران امامت کے لئے ’’ شرعی امام کی موجودگی ‘‘لازم وملزوم ہیں۔
اعمال ِ صالح بغیراقتدارکی اور خوف کی حالت سے ’’اقتدار و امن‘‘ میں لانے کا باعث بنتے ہیں مگر چونکہ یہ’’ ایک امام ِ شرعی ‘‘کی امامت سے مشروط ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ اعمال ِ صالح کی امامت کے لئے امام ِ شرعی کی موجودگی بغیر اقتدارکی اورخوف کی حالت میں بھی ضروری ہے کہ بغیراقتدار کی اور خوف کی حالت میں امام ِ شرعی کی امامت میں اعمال ِ صالح ادا کئے جائیں گے تو وہ اقتدار وامن کی حالت میں لے جانے کا باعث بنیں گے ان شاء اللہ ۔
اپنی موجودگی میں نبی ﷺ خود اُمت کے شرعی امام تھے ، مزید بات سے پہلے دیکھا جانا چاہیے کہ نبیﷺکے بعداہل ِ ایمان کاشرعی قائد کون ہوتا ہے؟ اس حوالے سے نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ
کَانَتْ بَنُو اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَ نْبِیَاء کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبَیٌّ وَ اَنَّہٗ
لَا نَبِیَ بَعْدِی وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاء فَیَکْثُرُوْن فَمَا تَاْمُرُنَا قَالَ فُوْا بِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ
بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے جب بھی کوئی نبی فوت ہوتا اُس کے پیچھے نبی ہی آتا تھا میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا البتہ خلفاء ہوں گیاور بہت سے ہوں گے ، عرض کی، پھر آپ کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا پہلی بیعت (کے حامل)کے ساتھ وفاداری کرو․․․
(بخاری: کتاب احادیث الانبیاء۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کے بعداہل ِ ایمان کا شرعی امام ’’خلیفہ‘‘ہوتا ہے ، دیگر آیات و احادیث سے اولی الامر، امیر، امام اور سلطان ’’ خلیفہ ‘‘ ہی کے دیگر نام ِ عہدہ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
ذیل کی آیات واحادیث سے واضح ہوتا ہے کہ شرک سے اجتناب اور اعمال ِ صالح کی امامت کے لئے شرعی اولی الامر، امیر، امام اور سلطان یعنی ’’خلیفہ‘‘ کی موجودگی ، حالت ِ اقتدار اور حالت ِ خوف کا فرق کئے بغیر، ہر حال میں لازم ہے ۔
٭
اپنی موجودگی میں نبی ﷺ خود اُمت کے شرعی امام تھے ، مزید بات سے پہلے دیکھا جانا چاہیے کہ نبیﷺکے بعداہل ِ ایمان کاشرعی قائد کون ہوتا ہے؟ اس حوالے سے نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ
کَانَتْ بَنُو اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَ نْبِیَاء کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبَیٌّ وَ اَنَّہٗ
لَا نَبِیَ بَعْدِی وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاء فَیَکْثُرُوْن فَمَا تَاْمُرُنَا قَالَ فُوْا بِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ
بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے جب بھی کوئی نبی فوت ہوتا اُس کے پیچھے نبی ہی آتا تھا میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا البتہ خلفاء ہوں گیاور بہت سے ہوں گے ، عرض کی، پھر آپ کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا پہلی بیعت (کے حامل)کے ساتھ وفاداری کرو․․․
(بخاری: کتاب احادیث الانبیاء۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کے بعداہل ِ ایمان کا شرعی امام ’’خلیفہ‘‘ہوتا ہے ، دیگر آیات و احادیث سے اولی الامر، امیر، امام اور سلطان ’’ خلیفہ ‘‘ ہی کے دیگر نام ِ عہدہ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
ذیل کی آیات واحادیث سے واضح ہوتا ہے کہ شرک سے اجتناب اور اعمال ِ صالح کی امامت کے لئے شرعی اولی الامر، امیر، امام اور سلطان یعنی ’’خلیفہ‘‘ کی موجودگی ، حالت ِ اقتدار اور حالت ِ خوف کا فرق کئے بغیر، ہر حال میں لازم ہے ۔
٭
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59ۧ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59ۧ
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖ ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا 60
اے ایمان والو ! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولۗۗۗۗ کی اوراولی الامر کی جو تم (اہل ایمان) میں سے ہوں۔ اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اسے لوٹا دو فیصلے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو تو ۔ یہی چیز اچھی ہے اور انجام کے اعتبار سے بہترین بھی یہی ہے ۔تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو تم پر نازل ہوا ہے اور اس پر جوتم سے پہلے نازل ہوا ہے مگرفیصلہ کروانے کے لیے طاغوت کے پاس جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں اس سے کفر کا حکم دیاگیا ہے۔ شیطان انہیں راہ راست سے بھٹکا کر دور کی گمراہی (شرک)میں لے جانا چاہتا ہے۔
سورۃ النساء۵۹،۶۰
آیات میں اہل ایمان کے لئے کتاب وسنت کے ساتھ فیصلوں کے لئے صرف اپنے اولی الامر یعنی خلیفہ کے پاس جانے اور طاغوت کے پاس قطعی نہ جانے کا حکم سامنے آتا ہے اور طاغوت کے پاس جانا شرک قرارپاتا ہے۔ اللہ کے حکم کی اطاعت میں فیصلوں کے لئے طاغوت کے پاس جانے (شرک کرنے )سے رُکنا اگر بغیر اقتدارکی حالت میں بھی لازم قرار پاتا ہے تو اسی حالت میں فیصلوں کے لئے اُس کے پاس جانا بھی لازم قرار پاتا ہے جس کے پاس جانے کا حکم دیا گیا ہے یعنی اپنا اولی الامر’’خلیفہ‘‘! اس سے بغیر اقتدارکی حالت میں بھی خلیفہ کی موجودگی لازم قرار پاتی ہے تاکہ فیصلوں کے لئے طاغوت کی بجائے خلیفہ کے پاس جایا جا سکے ۔
آیات میں اہل ایمان کے لئے کتاب وسنت کے ساتھ فیصلوں کے لئے صرف اپنے اولی الامر یعنی خلیفہ کے پاس جانے اور طاغوت کے پاس قطعی نہ جانے کا حکم سامنے آتا ہے اور طاغوت کے پاس جانا شرک قرارپاتا ہے۔ اللہ کے حکم کی اطاعت میں فیصلوں کے لئے طاغوت کے پاس جانے (شرک کرنے )سے رُکنا اگر بغیر اقتدارکی حالت میں بھی لازم قرار پاتا ہے تو اسی حالت میں فیصلوں کے لئے اُس کے پاس جانا بھی لازم قرار پاتا ہے جس کے پاس جانے کا حکم دیا گیا ہے یعنی اپنا اولی الامر’’خلیفہ‘‘! اس سے بغیر اقتدارکی حالت میں بھی خلیفہ کی موجودگی لازم قرار پاتی ہے تاکہ فیصلوں کے لئے طاغوت کی بجائے خلیفہ کے پاس جایا جا سکے ۔