• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آج کے خوارج: شہادت شہادت ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی! (تصویر)

شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
آج کے خوارج: سند ،سند ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی! (تصویر)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاۃ
کیا ہم کسی کو قطعی طور پر شہید کہہ سکتے ہیں ؟



یہ دور جن مراحل سے گزر رہا ہے بڑا ہی پر فتن دور ہے ھر طرف فتنے ہی فتنے ہیں سب فرقوں کا یہی دعوہ ہے کہ ہم ہی قرآن و حدیث کے اصل وارث ہیں اب یہاں ھم ایک فتنے کا ذکر کریں گے یہ وہ فتنہ ہے جو صدیوں پرانہ ہے اور مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں رونما ہوتا ہے یہ فتنہ قرآن مجید کی اس آیت کا مصداق ہے

۔وَإِنَّ مِنۡهُمۡ لَفَرِيقً۬ا يَلۡوُ ۥنَ أَلۡسِنَتَهُم بِٱلۡكِتَـٰبِ لِتَحۡسَبُوهُ مِنَ ٱلۡڪِتَـٰبِ وَمَا هُوَ مِنَ ٱلۡكِتَـٰبِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنۡ عِندِ ٱللَّهِ وَمَا هُوَ مِنۡ عِندِ ٱللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلۡكَذِبَ وَهُمۡ يَعۡلَمُونَ
ترجمہ ۔۔
اوربے شک اِن میں سے ایک جماعت ہے کہ کتاب کو زبان مروڑ کر پڑھتے ہیں تاکہ تم یہ خیال کرو کہ وہ کتاب میں سے ہے حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہے اوروہ کہتے ہیں کہ الله کے ہاں سے ہے حالانکہ وہ الله کے ہاں سے نہیں ہے اور الله پر جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں یہ وہ فرقہ ہے جو قرآن وحدیث کے مفہوم کو اپنی خواہشات کے مطابق لیتا ہے ۔ امام بخاری رحمہ الباری اپنی مایہ ناز کتاب میں باب لے کر آۓ ہیں ۔

باب لا يقول فلان شهيد قال أبو هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم الله أعلم بمن يجاهد في سبيله والله أعلم بمنيكلم في سبيله ۔

باب قطعی طور پر یہ نہ کہا جائے کہ فلاں شخص شہید ہے (کیونکہ نیت اور خاتمہ کا حال معلوم نہیں ہے)
اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں زخمی ہوتا ہے۔
تشریح>جب تک حدیث سے ثابت نہ ہوجیسے قطعی طور پر کسی کو بہشتی نہیں کہہ سکتے مگر صرف ان لوگوں کو جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بہشتی ہیں۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا جس کو حضرت امام احمد نے نکالا کہ تم اپنی جنگوں میں کہتے ہو کہ فلاں شہید ہے ہوا ایسا نہ کہو۔ یوں کہو جو خدا کی راہ میں مرے وہ شہید ہے۔
دوسری روایت میں ہے بہت لوگ ایسے ہیں کہ ان کو دشمن کا تیر لگتا ہے اور وہ مر جاتے ہین مگر وہ عنداللہ حقیقی شہید نہیں ہیں۔ جو دنیا میں ریا ونمود کے لئے لڑے اور مارے گئے، جیسا کہ دوسری روایات میں صراحت موجود ہے۔

اور ساتھ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نقل کی ہے

حدثنا قتيبة حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن عن أبي حازم عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم التقى هو والمشركون فاقتتلوا فلما مال رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عسكره ومال الآخرون إلى عسكرهم وفي أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل لا يدع لهم شاذة ولا فاذة إلا اتبعها يضربها بسيفه فقال ما أجزأ منا اليوم أحد كما - أجزأ فلان فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أما إنه من أهل النار فقال رجل من القوم أنا صاحبه قال فخرج معه كلما وقف وقف معه وإذا أسرع أسرع معه قال فجرح الرجل جرحا شديدا فاستعجل الموت فوضع نصل سيفه بالأرض وذبابه بين ثدييه ثم تحامل على سيفه فقتل نفسه فخرج الرجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أشهد أنك رسول الله قال وما ذاك قال الرجل الذي ذكرت آنفا أنه من أهل النار فأعظم الناس ذلك فقلت أنا لكم به فخرجت في طلبه ثم جرح جرحا شديدا فاستعجل الموت فوضع نصل سيفه في الأرض وذبابه بين ثدييه ثم تحامل عليه فقتل نفسه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك إن الرجل ليعمل عمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة


ترجمہ حدیث ۔۔۔۔۔۔۔ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (اپنے اصحاب کے ہمراہ احد یا خیبر کی لڑائی میں) مشرکین سے مڈ بھیڑ ہوئی اور جنگ چھڑ گئی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن لڑائی سے فارغ ہو کر) اپنے پڑاؤ کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاؤ کی طرف تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کے ساتھ ایک شخص تھا، لڑائی لڑنے میں ان کا یہ حال تھا کہ مشرکین کا کوئی آدمی بھی اگر کسی طرف نظر پڑ جاتا تو اس کا پیچھا کر کے وہ شخص اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا۔ سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق کہا کہ آج جتنی سرگرمی کے ساتھ فلاں شخص لڑا ہے، ہم میں کے کوئی بھی اس طرح نہ لڑ سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ لیکن وہ شخص دوزخی ہے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے (اپنے دل میں کہا اچھا میں اس کو پیچھا کروں گا (دیکھوں) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوزخی کیوں فرمایا ہے) بیان کیا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے دن لڑائی میں موجود رہا، جب وہ کھڑا ہوتا تو یہ بھی کھڑا ہو جاتا اور جب وہ تیز چلتا، تو یہ بھی اس کے ساتھ تیز چلتا۔ بیان کیا کہ آخر وہ شخص زخمی ہوگیا اور زخم بڑا گہرا تھا۔ اس لئے اس نے چاہا کہ موت جلدی آجائے اور اپنی تلوار کا پھل زمیں پر رکھ کر اس کی دھار کو سینے کے مقابلے میں کر لیا اور تلوار پر گِر کا اپنی جان دے دی۔ اب وہ صاحب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوئی؟ انہوں نے بیان کیا کہ وہی شخص جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر یہ آپ کا فرمان بڑا شاق گزرا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم سب لوگوں کی طرف سے میں اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں۔ چنانچہ اس کے پیچھے ہو لیا۔ اس کے بعد وہ شخص سخت زخمی ہوا اور چاہا کہ جلدی موت آجائے۔ اس لئے اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کر لیا ور اس پر گِر کر خود جان دے دی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔

لیکن اس کے خلاف چلتے ہوۓ اس فتنے نے اپنی پرانی روش اپناتے ہوۓ قرآن و حدیث کے مفہوم کو اپنی من مانی سے لیا اور لوگوں کو حقیقی شہید کہ کے جنت کا سرٹیفیکیٹ تھما دیا. اور پھر اسی پر اکتفا نہی کیا بلکہ لوگوں کے گھر والوں مبارکیں کہ آپکا بیٹا شہداء کی لسٹ میں شامل ہو کے جنت کا وارث بن چکا ہے پھر اس سے آگے بڑھ کر ورثاء کی طرف "سند شہادت" روانہ کی جاتی ہیں جن پر واضح لوگوں کے نام لکھ کے انہیں شہید لکھا ہوتا انہیں یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ یہ لوگوں کو شہادت کے سرٹیفیکیٹ دیں۔ کیا ان کے پاس کوئ وحی نازل ہوتی ھے نعوذباللہ۔ اللہ تعالی ہمیں اس فتنے کی چالوں سے محفوظ رکھے اور میں اللہ رب ذوالجلال سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں حق کو پہچاننے ،قبول کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
آج کے خوارج: شہادت شہادت ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی
ٹائٹل اچھا ہے۔۔۔۔
ویسے بھی خارجیوں کے ہاں سب چلتا ہے ۔۔۔۔چاہے جعلی ہی کیوں نہ ہو
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
یہاں پر نقطہ یہ نہیں ہے کہ ہم سند شہادت تسلیم کررہے ہیں بھی یا کہ نہیں۔۔۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہادت جیسے عظیم درجے پر فائز ہونے والوں کو سرٹیفیکٹ کس دلیل کی بنیاد پر جاری کئے جارہے ہیں۔۔۔
قبائلی اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں نہ کہ اسلام کی۔۔۔
اور بدنام طالبان کو کیا جارہا ہے۔۔۔ حال ہی میں ایک بیان جو آیا تھا حکم اللہ محسود کا کہ ہم اور افغانستان کی طالبان ایک ہی ہیں۔۔۔
اس پر ملا عمر نہ ہی تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔۔۔
عمران خان صاحب کی ایک بات بہت اچھی ہے وہ یہ کہ ہم خود کو امریکہ کی جنگ سے الگ کرلیں۔۔۔
تو جہاد کا جو غلط تاثر ان لوگوں نے پیش کیا ہوا ہے کہ خود ختم ہوجائے گا۔۔۔
اس کے بعد پاکستانی فوج اگر کاروائی کرے گی تو دہشتگردوں کے خلاف۔۔۔
میرے نزدیک یہ طریقہ قطعی طور ناقابل قبول ہے۔۔۔ جو اس طرح کے سرٹیفیکٹس تقسیم کئے جارہے ہیں۔۔۔
یہ جہاد نہیں ریاکاری ہے۔۔۔
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
السلام علیکم

جسے سند شہادت دکھایا جا رہا ھے کیا آپ اسے سند شہادت مانتے ہیں؟

والسلام
و علیکم سلام ورحمۃ اللہ۔
بھائی ابھی میرا برین میرے سر میں ہی ہے۔
جب یہ کہیں کھسک گیا تو ہی ایسی خرافات کو مانوں گا۔
اور باقی جواب وہی ہے جو حرب بن شداد نے دیا۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
میں نے کافی پوسٹوں میں برادر یاسر اکرم سے خوارج کی صفات کے زمرے میں ان سے خوارج جماعتوں کے نام طلب کیےتھے جوانہوں نےفراہم نہیں کیے تھے لیکن مجھے اس پوسٹ میں پتا چل گیا کہ خارجی جماعتوں میں ایک جماعت تحریک طالبان ہے یاسر اکرم کے نزدیک۔۔۔۔۔۔۔

آج کے خوارج: شہادت شہادت ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی
ٹائٹل اچھا ہے۔۔۔۔
ویسے بھی خارجیوں کے ہاں سب چلتا ہے ۔۔۔۔چاہے جعلی ہی کیوں نہ ہو
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مجاہد حافظ شیر احمد شہید ولد محمود خان سکنہ کوٹ کئی تنظیم تحریک طالبان سے وابستہ تھے آپ اعلاء کلمۃ اللہ اسلام کی عظمت اور مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر جہاد کرتے ہوئے مورخہ 16-5-2004بمقام جنڈولہ پل جنوبی وزیرستان جام شہادت نوش فرماگئے ۔اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کوقبول فرمائے اور ان کے مقدس لہو کو اسلامی انقلاب کا ذریعہ بنائے اور ورثا کو اجرعظیم نصیب فرمائے ۔
اس عبارت میں کیا غلط ہے ؟یہی تو کہا گیا ہے کہ یہ مجاہد شہید ہوگیا ہے اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو قبول فرمائے ۔ اس میں کوئی غلطی نہیں ہے۔مجھے حیرت ہے کہ آپ لوگوں نے تعصب کا ایک طومار باندھ کر رکھ دیا اس پر ۔کیا آپ لوگ اپنے لوگوں کو شہید نہیں کہتے ہو؟یا روں کچھ تو اللہ کا خوف کرو۔جماعۃ الدعوۃ جیسی تنظیمیں اپنے مقتولین کو شہداء نہیں گردانتے کیا؟ ان کو کس نے سند یا سرٹیفیکیٹ عنایت کیا ہوا ہے ان شہادتوں کا ؟ علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کو شہید اسلام نہیں کہا جاتا کیا ؟ ان کی شہادت کے بارے میں سرٹیفیکیٹ کہاں سے نازل ہوا ہے میرے بھائیوں؟؟کچھ تو اللہ کا خوف کرو خوامخواہ میں آپ لوگوں نے اس پر اعتراضات کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے ۔ آمین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاۃ
کیا ہم کسی کو قطعی طور پر شہید کہہ سکتے ہیں ؟



یہ دور جن مراحل سے گزر رہا ہے بڑا ہی پر فتن دور ہے ھر طرف فتنے ہی فتنے ہیں سب فرقوں کا یہی دعوہ ہے کہ ہم ہی قرآن و حدیث کے اصل وارث ہیں اب یہاں ھم ایک فتنے کا ذکر کریں گے یہ وہ فتنہ ہے جو صدیوں پرانہ ہے اور مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں رونما ہوتا ہے یہ فتنہ قرآن مجید کی اس آیت کا مصداق ہے

۔وَإِنَّ مِنۡهُمۡ لَفَرِيقً۬ا يَلۡوُ ۥنَ أَلۡسِنَتَهُم بِٱلۡكِتَـٰبِ لِتَحۡسَبُوهُ مِنَ ٱلۡڪِتَـٰبِ وَمَا هُوَ مِنَ ٱلۡكِتَـٰبِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنۡ عِندِ ٱللَّهِ وَمَا هُوَ مِنۡ عِندِ ٱللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلۡكَذِبَ وَهُمۡ يَعۡلَمُونَ
ترجمہ ۔۔
اوربے شک اِن میں سے ایک جماعت ہے کہ کتاب کو زبان مروڑ کر پڑھتے ہیں تاکہ تم یہ خیال کرو کہ وہ کتاب میں سے ہے حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہے اوروہ کہتے ہیں کہ الله کے ہاں سے ہے حالانکہ وہ الله کے ہاں سے نہیں ہے اور الله پر جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں یہ وہ فرقہ ہے جو قرآن وحدیث کے مفہوم کو اپنی خواہشات کے مطابق لیتا ہے ۔ امام بخاری رحمہ الباری اپنی مایہ ناز کتاب میں باب لے کر آۓ ہیں ۔

باب لا يقول فلان شهيد قال أبو هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم الله أعلم بمن يجاهد في سبيله والله أعلم بمنيكلم في سبيله ۔

باب قطعی طور پر یہ نہ کہا جائے کہ فلاں شخص شہید ہے (کیونکہ نیت اور خاتمہ کا حال معلوم نہیں ہے)
اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں زخمی ہوتا ہے۔
تشریح>جب تک حدیث سے ثابت نہ ہوجیسے قطعی طور پر کسی کو بہشتی نہیں کہہ سکتے مگر صرف ان لوگوں کو جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بہشتی ہیں۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا جس کو حضرت امام احمد نے نکالا کہ تم اپنی جنگوں میں کہتے ہو کہ فلاں شہید ہے ہوا ایسا نہ کہو۔ یوں کہو جو خدا کی راہ میں مرے وہ شہید ہے۔
دوسری روایت میں ہے بہت لوگ ایسے ہیں کہ ان کو دشمن کا تیر لگتا ہے اور وہ مر جاتے ہین مگر وہ عنداللہ حقیقی شہید نہیں ہیں۔ جو دنیا میں ریا ونمود کے لئے لڑے اور مارے گئے، جیسا کہ دوسری روایات میں صراحت موجود ہے۔

اور ساتھ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نقل کی ہے

حدثنا قتيبة حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن عن أبي حازم عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم التقى هو والمشركون فاقتتلوا فلما مال رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عسكره ومال الآخرون إلى عسكرهم وفي أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل لا يدع لهم شاذة ولا فاذة إلا اتبعها يضربها بسيفه فقال ما أجزأ منا اليوم أحد كما - أجزأ فلان فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أما إنه من أهل النار فقال رجل من القوم أنا صاحبه قال فخرج معه كلما وقف وقف معه وإذا أسرع أسرع معه قال فجرح الرجل جرحا شديدا فاستعجل الموت فوضع نصل سيفه بالأرض وذبابه بين ثدييه ثم تحامل على سيفه فقتل نفسه فخرج الرجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أشهد أنك رسول الله قال وما ذاك قال الرجل الذي ذكرت آنفا أنه من أهل النار فأعظم الناس ذلك فقلت أنا لكم به فخرجت في طلبه ثم جرح جرحا شديدا فاستعجل الموت فوضع نصل سيفه في الأرض وذبابه بين ثدييه ثم تحامل عليه فقتل نفسه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك إن الرجل ليعمل عمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة


ترجمہ حدیث ۔۔۔۔۔۔۔ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (اپنے اصحاب کے ہمراہ احد یا خیبر کی لڑائی میں) مشرکین سے مڈ بھیڑ ہوئی اور جنگ چھڑ گئی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن لڑائی سے فارغ ہو کر) اپنے پڑاؤ کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاؤ کی طرف تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کے ساتھ ایک شخص تھا، لڑائی لڑنے میں ان کا یہ حال تھا کہ مشرکین کا کوئی آدمی بھی اگر کسی طرف نظر پڑ جاتا تو اس کا پیچھا کر کے وہ شخص اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا۔ سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق کہا کہ آج جتنی سرگرمی کے ساتھ فلاں شخص لڑا ہے، ہم میں کے کوئی بھی اس طرح نہ لڑ سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ لیکن وہ شخص دوزخی ہے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے (اپنے دل میں کہا اچھا میں اس کو پیچھا کروں گا (دیکھوں) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوزخی کیوں فرمایا ہے) بیان کیا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے دن لڑائی میں موجود رہا، جب وہ کھڑا ہوتا تو یہ بھی کھڑا ہو جاتا اور جب وہ تیز چلتا، تو یہ بھی اس کے ساتھ تیز چلتا۔ بیان کیا کہ آخر وہ شخص زخمی ہوگیا اور زخم بڑا گہرا تھا۔ اس لئے اس نے چاہا کہ موت جلدی آجائے اور اپنی تلوار کا پھل زمیں پر رکھ کر اس کی دھار کو سینے کے مقابلے میں کر لیا اور تلوار پر گِر کا اپنی جان دے دی۔ اب وہ صاحب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوئی؟ انہوں نے بیان کیا کہ وہی شخص جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر یہ آپ کا فرمان بڑا شاق گزرا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم سب لوگوں کی طرف سے میں اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں۔ چنانچہ اس کے پیچھے ہو لیا۔ اس کے بعد وہ شخص سخت زخمی ہوا اور چاہا کہ جلدی موت آجائے۔ اس لئے اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کر لیا ور اس پر گِر کر خود جان دے دی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔

لیکن اس کے خلاف چلتے ہوۓ اس فتنے نے اپنی پرانی روش اپناتے ہوۓ قرآن و حدیث کے مفہوم کو اپنی من مانی سے لیا اور لوگوں کو حقیقی شہید کہ کے جنت کا سرٹیفیکیٹ تھما دیا. اور پھر اسی پر اکتفا نہی کیا بلکہ لوگوں کے گھر والوں مبارکیں کہ آپکا بیٹا شہداء کی لسٹ میں شامل ہو کے جنت کا وارث بن چکا ہے پھر اس سے آگے بڑھ کر ورثاء کی طرف "سند شہادت" روانہ کی جاتی ہیں جن پر واضح لوگوں کے نام لکھ کے انہیں شہید لکھا ہوتا انہیں یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ یہ لوگوں کو شہادت کے سرٹیفیکیٹ دیں۔ کیا ان کے پاس کوئ وحی نازل ہوتی ھے نعوذباللہ۔ اللہ تعالی ہمیں اس فتنے کی چالوں سے محفوظ رکھے اور میں اللہ رب ذوالجلال سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں حق کو پہچاننے ،قبول کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
بات اتنی سی ہے کہ شہید جسے بھی کہا جائے ساتھ میں ان شاء اللہ کہا جائے ، یقین کے ساتھ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ مقبول شہید کون ہے۔

اور ہمارے ہاں اکثر لووگں کے علم میں یہ بات نہیں ہوتی ہے ۔ عربی میں اس کے ساتھ ایک اور بڑا ہی جامع جملہ لکھتے ہیں
"" نحسبہ حسیبہ ولا نزکی علی اللہ احد""
جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ہمارا گمان ایسا ہی ہے اور ہم اللہ کے سامنے کسی کی صفائی دینے کے قابل نہیں ہیں ۔

اب اس سند شہادت کو دیکھیں تو یہ الفاط ملتے ہیں "" اللہ ان کی شہادت کو قبول فرمائے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اتنا ہی یقین ہوتا جیسا کہ اوپر بات کا بتنگڑ بنایا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ تو یہ دعا کی جاتی !!!

سو بات درست ہے ، طریقہ کار حسب سابق غلط ہے۔

لیکن اس طریقہ کار کی غلطی کے بغیر ہمارے اکثر تنظیموں کے "کٹر متعلقین" کو سکون بھی نسیب نہیں ہوتا!! (ابتسامہ)

اگر حافظ سعید صاحب کی کوئی غلطی نکالے گا تو وہ بھی اس سے زیادہ ہی کرے گا کم نہیں ، اور جہاں تک " تکفیری" ہیں تو وہ تو ویسے ہی قابل نفرین ہیں نا جی ۔ کیوں جی ؟ ہیں جی !

کافی جگہ پر انہی دنوں یہ جملہ لکھ چکا ہوں یہاں بھی پھر سے لکھ دیتا ہوں کہ
"" عقیدہ کے ساتھ ساتھ سلوک بھی سیکھنا چاہیے"۔


ویسے تو یہ ایک وسیع باب ہے لیکن ایسے مخلص جذباتی لوگ اگر منہاج السنہ پڑھ لیں تو امام اشعری رحمہ اللہ کا نام تک ابن تیمیہ رحمہ اللہ جن القاب و آداب کے ساتھ لیتے ہیں( باوجود شدید اختلاف کے)،اسی میں ان کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں کہ اہل سنت کا سلوک موقع بموقع کیسا ہوتا ہے۔

والسلام
 
Top