کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
فیض اللہ ناصر
آخر گنہگار ہوں، کافر نہیں ہوں میں
جو سن سکے فسانہ مرا ایسا کوئی بشر نہیں
ہم پر گزر گئی ہے کیا، خود ہمیں خبر نہیں
ہاں جل چکے بام ودَر، میرے چمن کے
کٹ چکے ہیں طلبا دین، میرے وطن کے
کتنوں کو بھینٹ چڑھایا نشہ حکمرانی نے
کتنی اُجاڑی جھولیاں اِس کھیل ِسلطانی نے
یہ چمن اُجاڑا خوشنودئ مغرب کی خاطر
حصولِ رضائے خالق ومخلوق سے ہوئے قاصر
اپنوں کی بن جائے جو موت، وہ اَپنوں سے نہیں
دَر نظر فرمانِ نبی، وہ ہم میں سے نہیں
دشمن کے اِک فوں پہ ہوتا ہے زَرد جس کا رنگ
مسجد پر چلا دئیے اُس نے سبھی تیر وتفنگ
جاری تھا دَرسِ دین رب ومصطفوی اِدھر
صفہ کا ایک نشان تھا، برسی ہے آگ جدھر
یہ اَقدامِ مسلم بر مسلم بھی کیا خوب تھا عجب
ہے کون شہید کون ہلاک، خاموش ہیں یاں سب
احترام قانون ملک بھی واجب ہے مگر
جاگ اُٹھتی ہے غیرت بھی تب ہو نہ عدل اگر
ہاں جرم تو اُن کا بھی تھا، نہیں ہے اس سے اِنکار
کچھ کم تمہارا ظلم نہ تھا، اس کا بھی ہو اِقرار
ہوگا کیا اب کے بعد ہر مسجد کا یہی حال؟
اسلام کے قلعے پہ کیا دہشت رہے ہیں پال؟
ہر جامعہ کیا اب در نگہ پادشاہاں ہوگا؟
ہر وارثِ نبی بھی کیا اب پس ِزندگاں ہوگا؟
باغی دین و وَطن تو ناصرؔ نہیں ہوں میں
’آخر گنہگار ہوں، کافر نہیں ہوں میں‘