- شمولیت
- فروری 21، 2012
- پیغامات
- 1,280
- ری ایکشن اسکور
- 3,232
- پوائنٹ
- 396
آرائش حسن کے متعلق ہمارے رویے،
اللہ رب العزت کا شکر واحسان ہے کہ اس نے ہمیں اسلام جیسی نعمت عطا فرمائی جو کائنات کا سب سے سچا دین ہے صراط مستقیم صرف اور صرف اسلام ہے جو بندے کو رب سے ملاتا ہے رب کریم نے بن مانگے وجود بخشا مگر ہم نے اس کی ایک نعمت کا بھی کما حقہ شکر ادا نہیں کیا ہم مسلمانوں کو اپنے دین اپنے ثقافت وکلچر کے متعلق کامل علم ہونا چاہئے اور کافروں کی نقالی سے کامل پرہیز و توبہ کرنی چاہیے ۔
عصر حاضر میں فتنوں کی بھرمار ہے اور اس زمانے میں خوبصورت بننے اور مصنوعی آرائش اختیار کرنے کا فتنہ زوروں پر ہے اوراس فتنہ کی دوڑ میں خواتین مردوں سے کئی گنا آگے ہیں ۔
جب عورت ایسے فتنوں میں پڑجائے جو فتنے میں اضافہ کرنے والے جذبات کو بھڑکانے والے ہوں تو سوچیں اس فتنہ کا کیا حال ہوگا ۔جسمانی حسن وجمال زائل ہوجانے والا ہے اگر کوئی مسلم خاتون میک اپ کو مبالغہ کی حد تک استعمال کرنے میں مگن رہتی ہے تو بلاشبہ اس نے اپنے آپ کو حقیر ترین اور گھٹیا مشغلے میں ڈال رکھا ہے جو خاتون اپنی شکل وصورت بنانے و سنوارنے کے اہتمام میں لگی رہے وہ خالی الماری کی مانند ہے جس کی ساری چمک دمک بیرونی ہوتی ہے ۔ عورتوں میں سے بہت سی خواتین خلاف حقیقت مصنوعی وسائل تزئین پر اعتماد کرتی ہیں جو کھرے کو کھوٹا اور اور حقیقت کو جھوٹ کے ذریعے چھپا دیتی ہیں ان مصنوعی اسباب تزئین میں سے اکثر کیمیاوی مواد پر مشتمل ہوتی ہیں جو انسانی بدن پہ برے اور مہلک اثرات چھوڑتے ہیں ۔
دور حاضر میں بیوٹی پالرز ایسا فتنہ ہیں کہ ان بیوٹی پالرز کو انسانیت کے دشمنوں نے عورت کی فطری خواہش بننے سنورنے کو مہنگا ترین بنا دیا ہے فضیلۃ الشیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں ' عورت کے سر کے بال اس کی خوبصورتی کا حصہ ہیں اور عورت سے مطالبہ بھی یہی ہے کہ ان کی نگہداشت کرے اور غیر محرموں کی نگاہوں سے چھپا کر رکھے انھیں بلا ضرورت کاٹ کر مردوں کے مشابہ بنانا ان کی رنگت کو بلاحاجت بدلنا یہ سب امور ناجائز ہیں البتہ سفید بالوں کو وہ بھی سیاہ رنگ سے بچتے ہوئے رنگنا جائز ہے اسی طرح بیوٹی پالرز میں مہنگے اسٹائلز بنوانا نا جائز ہے عورت کو اپنے بالوں کی اصلاح گھر میں کرنا چاہئے۔
ان پالرز میں کفار سے مشابہ ہئر کٹنگ اسٹائلز اور بال نوچنے والا عمل وتھریڈنگ جیسے امور سر انجام پاتے ہیں اور ایسا کام کرنے اور کرانے والے پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے ،اس عمل سے بلا مقصد ناجائز کاموں میں رقم کا ضائع ہونا ہے ان بیوٹی پالرز میں ماسوائے فیشنوں کی جانب متوجہ کرنے کے اور آدمی کی حلال کمائی کو ضائع کرنے کے اور کوئی کام نہیں جو بسا اوقات ہلاکت خیز اور تباہ کن ہوتے ہیں ان کی وجہ سے عورتوں کی اخلاقی تباہی اور کردار کی گراوٹ سامنے آرہی ہے ان پالرز میں استعمال ہونے والے آلات کنگھے قینچیاں کئی جلدی بیماریوں اور ہیپاٹائٹیس جیسی خطرناک بیماریوں کے پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں ۔
عزیز بہنوں ،اللہ تعالٰی نے ہم خواتین کو ایسی عقل وشعور سے نوازا ہے جو ہمارے سامنے درست و غلط راستے کو واضح کرتی ہے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ افزائش حسن کے تمام اسباب جزو وقتی ہوتے ہیں جو کچھ دیر کے بعد زائل ہو جاتے ہیں ۔اور اگرمعاملہ ایسا ہے تو ہر وہ خاتون جو زندگی میں جسمانی حسن و جمال پہ بھروسہ کرتی ہو وہ نقصان اٹھانے والی ہے باقی رہنے والی تو روح کی شگفتگی ہے طبیعت کا نکھار ہے اخلاق و کردار کا حسن و جمال ہے جو عمر رسیدہ ہونے یا بیماری سے بھی متاثر نہیں ہوتی بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ اس میں نکھار پیدا ہوتا ہے،
عزیز بہنوں ہمارے دین دار گھروں کی خواتین و طالبات کو بھی درندوں کی طرح ناخن بڑھانے کا شوق ہے اس فضول شوق سے کئی کمپنیاں فائدہ اٹھارہی ہیں مخلف رنگوں کے مصنوعی ناخن تیار کر کہ فروخت کر رہی ہیں جو اصلی ناخنوں پہ فٹ ہوجاتے ہیں اس طرح ہماری دین دار بہنیں بھی اپنا جاہلانہ شوق پورا کر رہی ہیں
حالانکہ ایک مسلمان خاتون کو یہ زیب نہیں دیتا کیونکہ رسول اللہ ﷺنے ناخن کاٹنے کو فطرت کی دس چیزوں میں شمار کرتے ہوئے کاٹنے کا حکم دیا ہے اس لئے کسی مسلمان کا یہ شوق نہیں ہو سکتا ۔
اسی طرح مختلف قسم کے آرائش کے پاؤڈر لپ اسٹک آئی شیڈوز کلر لینسز بالوں کو ڈائی کرنا مصنوعی پلکیں لگانا بال اکھیڑنا جسم کو گودنا دانتوں کو تیز کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب حسن و جمال میں نہیں آتا بلکہ یہ تو اللہ کی خلقت کو بدلنے کے زمرے میں ہے کیونکہ بنی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے بال اکھیڑنے والی اور اکھڑ وانے والی پہ لعنت فرمائی ہے اھل علم نے یہ وضاحت بھی فرمادی ہے کہ ابرو کے بال اکھیڑنا بھی اسی میں داخل ہے اگرچہ اس کا خاوند اس پہ راضی ہی کیوں نہ ہو،ہمیں ایسا میک اپ کرنے سے منع کیا گیا ہے جو کچھ دیر کے لئے چہرے کو خوبصورت بناکہ بڑے بڑے نقصان پیدا کرنے والا ہو زینت کی ہر وہ چیز جس سے اللہ اور اس کے رسول نے روکا ہو وہ حرام ہے خواہ اس کا نقصان ظاہر ہو یا نہ ہو ۔