• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آرائش حسن کے متعلق ہمارے رویے،

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396

آرائش حسن کے متعلق ہمارے رویے،


اللہ رب العزت کا شکر واحسان ہے کہ اس نے ہمیں اسلام جیسی نعمت عطا فرمائی جو کائنات کا سب سے سچا دین ہے صراط مستقیم صرف اور صرف اسلام ہے جو بندے کو رب سے ملاتا ہے رب کریم نے بن مانگے وجود بخشا مگر ہم نے اس کی ایک نعمت کا بھی کما حقہ شکر ادا نہیں کیا ہم مسلمانوں کو اپنے دین اپنے ثقافت وکلچر کے متعلق کامل علم ہونا چاہئے اور کافروں کی نقالی سے کامل پرہیز و توبہ کرنی چاہیے ۔

عصر حاضر میں فتنوں کی بھرمار ہے اور اس زمانے میں خوبصورت بننے اور مصنوعی آرائش اختیار کرنے کا فتنہ زوروں پر ہے اوراس فتنہ کی دوڑ میں خواتین مردوں سے کئی گنا آگے ہیں ۔

جب عورت ایسے فتنوں میں پڑجائے جو فتنے میں اضافہ کرنے والے جذبات کو بھڑکانے والے ہوں تو سوچیں اس فتنہ کا کیا حال ہوگا ۔جسمانی حسن وجمال زائل ہوجانے والا ہے اگر کوئی مسلم خاتون میک اپ کو مبالغہ کی حد تک استعمال کرنے میں مگن رہتی ہے تو بلاشبہ اس نے اپنے آپ کو حقیر ترین اور گھٹیا مشغلے میں ڈال رکھا ہے جو خاتون اپنی شکل وصورت بنانے و سنوارنے کے اہتمام میں لگی رہے وہ خالی الماری کی مانند ہے جس کی ساری چمک دمک بیرونی ہوتی ہے ۔ عورتوں میں سے بہت سی خواتین خلاف حقیقت مصنوعی وسائل تزئین پر اعتماد کرتی ہیں جو کھرے کو کھوٹا اور اور حقیقت کو جھوٹ کے ذریعے چھپا دیتی ہیں ان مصنوعی اسباب تزئین میں سے اکثر کیمیاوی مواد پر مشتمل ہوتی ہیں جو انسانی بدن پہ برے اور مہلک اثرات چھوڑتے ہیں ۔

دور حاضر میں بیوٹی پالرز ایسا فتنہ ہیں کہ ان بیوٹی پالرز کو انسانیت کے دشمنوں نے عورت کی فطری خواہش بننے سنورنے کو مہنگا ترین بنا دیا ہے فضیلۃ الشیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں ' عورت کے سر کے بال اس کی خوبصورتی کا حصہ ہیں اور عورت سے مطالبہ بھی یہی ہے کہ ان کی نگہداشت کرے اور غیر محرموں کی نگاہوں سے چھپا کر رکھے انھیں بلا ضرورت کاٹ کر مردوں کے مشابہ بنانا ان کی رنگت کو بلاحاجت بدلنا یہ سب امور ناجائز ہیں البتہ سفید بالوں کو وہ بھی سیاہ رنگ سے بچتے ہوئے رنگنا جائز ہے اسی طرح بیوٹی پالرز میں مہنگے اسٹائلز بنوانا نا جائز ہے عورت کو اپنے بالوں کی اصلاح گھر میں کرنا چاہئے۔

ان پالرز میں کفار سے مشابہ ہئر کٹنگ اسٹائلز اور بال نوچنے والا عمل وتھریڈنگ جیسے امور سر انجام پاتے ہیں اور ایسا کام کرنے اور کرانے والے پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے ،اس عمل سے بلا مقصد ناجائز کاموں میں رقم کا ضائع ہونا ہے ان بیوٹی پالرز میں ماسوائے فیشنوں کی جانب متوجہ کرنے کے اور آدمی کی حلال کمائی کو ضائع کرنے کے اور کوئی کام نہیں جو بسا اوقات ہلاکت خیز اور تباہ کن ہوتے ہیں ان کی وجہ سے عورتوں کی اخلاقی تباہی اور کردار کی گراوٹ سامنے آرہی ہے ان پالرز میں استعمال ہونے والے آلات کنگھے قینچیاں کئی جلدی بیماریوں اور ہیپاٹائٹیس جیسی خطرناک بیماریوں کے پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں ۔

عزیز بہنوں ،اللہ تعالٰی نے ہم خواتین کو ایسی عقل وشعور سے نوازا ہے جو ہمارے سامنے درست و غلط راستے کو واضح کرتی ہے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ افزائش حسن کے تمام اسباب جزو وقتی ہوتے ہیں جو کچھ دیر کے بعد زائل ہو جاتے ہیں ۔اور اگرمعاملہ ایسا ہے تو ہر وہ خاتون جو زندگی میں جسمانی حسن و جمال پہ بھروسہ کرتی ہو وہ نقصان اٹھانے والی ہے باقی رہنے والی تو روح کی شگفتگی ہے طبیعت کا نکھار ہے اخلاق و کردار کا حسن و جمال ہے جو عمر رسیدہ ہونے یا بیماری سے بھی متاثر نہیں ہوتی بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ اس میں نکھار پیدا ہوتا ہے،

عزیز بہنوں ہمارے دین دار گھروں کی خواتین و طالبات کو بھی درندوں کی طرح ناخن بڑھانے کا شوق ہے اس فضول شوق سے کئی کمپنیاں فائدہ اٹھارہی ہیں مخلف رنگوں کے مصنوعی ناخن تیار کر کہ فروخت کر رہی ہیں جو اصلی ناخنوں پہ فٹ ہوجاتے ہیں اس طرح ہماری دین دار بہنیں بھی اپنا جاہلانہ شوق پورا کر رہی ہیں

حالانکہ ایک مسلمان خاتون کو یہ زیب نہیں دیتا کیونکہ رسول اللہ ﷺنے ناخن کاٹنے کو فطرت کی دس چیزوں میں شمار کرتے ہوئے کاٹنے کا حکم دیا ہے اس لئے کسی مسلمان کا یہ شوق نہیں ہو سکتا ۔

اسی طرح مختلف قسم کے آرائش کے پاؤڈر لپ اسٹک آئی شیڈوز کلر لینسز بالوں کو ڈائی کرنا مصنوعی پلکیں لگانا بال اکھیڑنا جسم کو گودنا دانتوں کو تیز کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب حسن و جمال میں نہیں آتا بلکہ یہ تو اللہ کی خلقت کو بدلنے کے زمرے میں ہے کیونکہ بنی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے بال اکھیڑنے والی اور اکھڑ وانے والی پہ لعنت فرمائی ہے اھل علم نے یہ وضاحت بھی فرمادی ہے کہ ابرو کے بال اکھیڑنا بھی اسی میں داخل ہے اگرچہ اس کا خاوند اس پہ راضی ہی کیوں نہ ہو،ہمیں ایسا میک اپ کرنے سے منع کیا گیا ہے جو کچھ دیر کے لئے چہرے کو خوبصورت بناکہ بڑے بڑے نقصان پیدا کرنے والا ہو زینت کی ہر وہ چیز جس سے اللہ اور اس کے رسول نے روکا ہو وہ حرام ہے خواہ اس کا نقصان ظاہر ہو یا نہ ہو ۔
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
فورم پہ موجود دوسری بہنوں کی آرا آرائش حسن کے متعلق،

دعا سسٹر کے خیلات،

بسم اللہ الرحمن الرحیم
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ۔۔۔سورۃ التین
ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔بلاشبہ اللہ تعالی نے انسان کی بہترین تخلیق کی ہے۔ہر انسان کا حسن خوبصورتی ، ایک دوسرے سے منفرد ہے۔مگر خواتین میں فطری طور پر خوبصورت لگنے کی حس موجود ہوتی ہے۔
نیز مردوں کی نسبت خواتین کو ہی زیب و زینت اور آرائش و زیبائش میں احکامات دیئے گئے ہیں۔عموما سمجھا جاتا
ہے کہ اسلام خواتین کو فطری جذبات کے اظہار سے روکتا ہے۔جبکہ حقیقت میں خواتین اسلام شرعی حدود وقیود میں رہتے ہوئے اپنی طبعی خواہشات پوری کر سکتی ہیں۔
زمانہ جاہلیت میں عورتیں اپنا حسن ، آرائش کی نمائش کرتیں ، اسلام کی بعثت کے بعد عورت کو نا محرم سے حسن و آرائش کے اظہار سے منع فرمایا گیا اور اس میں خواتین کے لیے بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
اللہ تعالی نے فرمایا :
وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى۔۔۔الخ ، سورۃ الاحزاب
اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔۔
پھر فرمایا :
وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا
نماز قائم کرو ، زکوٰۃ دو ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیت ِ نبی ﷺ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے۔(33)

خواتین اسلام کے لیے زیب و زینت کا اظہار کا بہترین اور جائز اختیار شوہر ہے۔نیز عورت کے لیے مباح ہے کہ وہ شوہر کے لیے آرائش و زیبائش کا اہتمام کرے۔بشرطیکہ اس سے کسی شرعی امر سے تجاوز نہ ہوتا ہو۔فطری طور پر مرد کی طبیعت میں خوبصورتی اور حسن کی طرف رجحان پایا جاتا ہے۔بیوی کا چاہیئے کہ وہ ”سیرت “ کی خوبصورتی کے ساتھ ” صورت “ کی خوبصورتی پر بھی توجہ دے۔جس کا محور صرف شوہر سے محبت اور اس کی رضا کا حصول ہو۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( عورت کے ساتھ چار وجہ سے شادی کی جاتی ہے ، اس کے مال کی بنا پر ، اس کے حسب ونسب کی بنا پر ، اس کے جمال وخوبصورتی کی بنا پر ، اوراس کے دین کی وجہ سے ، تیرے ہاتھ خاک میں ملیں دین والی کو اختیار کر )

صحیح بخاری ( 3 / 242 ) صحیح مسلم ( 2 / 1086 ) ۔

شعور کی کمی یا لاپرواہی:

آج کے اس پرفتن دور میں خواتین اپنی حدود پھلانگ کر نام نہاد ترقی اور آزادی کی دوڑ میں بھاگ رہیں ہیں۔
اس بات سے قطعی بے خبر کہ یہ بے راہ روی کا راستہ ہے۔جہاں منزلیں نہیں ملتیں۔پردے اور حجاب اتار دیئے گئے ہیں اور میک اپ ، آرائش اور اداؤں کی نمائش سے از خود فتنہ کا باعث بن رہیں ہیں۔ہمارے موجودہ معاشرے کی یہ بڑی افسوسناک حقیقت ہے کہ خواتین بیرونی حسن و خوبصورتی کے لیے حد سے زیادہ پیسے اور وقت کا ضیاع کرتیں ہیں۔نیز اتنی محنت کا مقصد بھی محض دوسروں سے الگ ، اونچا ، اور خود کو ”ماڈرن “ ثابت کرنا ہوتا ہے۔

مشاہدات:
٭اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ خواتین بازاروں کا رخ کرتے وقت خصوصی طور پر میک اپ ، پر کشش لباس کا زیب تن کرتی ہیں۔حالانکہ بازار اللہ تعالی نا پسندیدہ جگہ ہیں۔اس طرح کھلے عام دعوت دیتی عورتیں اللہ کی رحمت سے بھی دور رہتی ہیں۔
٭دوسری طرف جمعہ یا دیگر ایام رمضان کی تراویح ، دروس کے موقعہ پر خواتین تمام تر زور آرائش میں لگا دیتی ہیں۔ہاتھوں میں انگوٹھیاں ، باریک دوپٹے ، میچنگ میک اپ ،پرفیومز کا استعمال اور اسی کے متعلق تبصرے۔غرض اس غفلت کے سبب اجتماع کا مقصد ہی فوت ہونے لگتا ہے۔

ایک لمحہ فکریہ :
”ایڈوارٹیزمنٹ “ موجودہ وقت میں ایک نفع بخش شعبہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔اس شعبہ کا 70 فیصد منافع خواتین کی مصنوعات اور ان کی تشہیر پر مشتمل ہے۔جس میں کچن ، گھریلو اشیاء ، لباس ، میک اپ ، کاسمیٹیکس ،
ان اشیاء کی حفاظت ، استعمال ، نقصان سے بچاؤ کے لیے بنائی گئی مصنوعات تمام شامل ہیں۔اس تشہیری مہم سے خواتین بے جا اصراف کرتی ہیں ، پیسوں کی رہی سہی کسر ”برانڈز “ پوری کر دیتے ہیں۔آج خواتین کے لیے دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے ہر گھنٹے کی الگ الگ کریم ، لوشن ہے ، نتیجتا پھلوں اور سبزیوں جیسی نعمتوں سے ناشکری اور تصنع بناوٹ کے عادی ہورہے ہیں۔مینی کیور پیڈی کیور ، اندھا دھند فیشن اور “حسن نزاکت “ کے شوق کو برقرار رکھنے کی جدوجہد نے نوجوان لڑکیوں کو گھریلو امور میں ناکارہ بنا دیا ہے، اس شوق کو ہوا دینے کے لیے بیوٹی پارلرز کسی طور پیچھے نہیں۔لہذا
بیرونی سجاوٹ میں اعتدال کے ساتھ ضروری ہے کہ عملی طور پر بھی خواتین اپنے فرائض اور ذمہ داریاں نبھائیں۔

اسلام کا نقطہ فکر :
آرائش و زیبائش کی طرف رجحان عورت میں فطری طور پر پایا جاتا ہے۔واقعہ افک میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہو جانا ، اور اس کی تلاش میں ان کا قافلے سے جدا ہو جانا ، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کی شادی کے موقع پر ان کی والدہ کا سجانا ، طبعی طور پر خواتین کی آرائش کی طرف رغبت کو ظاہر کرتا ہے۔عورت کی زیب وزینت اور مرد کی رغبت و پسندیدگی کے اظہار کی بہترین صورت” میاں بیوی“ کا رشتہ ہے۔
ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۔۔۔الخ ، سورۃ البقرہ
وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔
پس عورت کو شوہر کی اطاعت اور رضامندی کے لیے خوبصورت لگنا آرائش اختیار کرنا اور سجاوٹ کرنی چاہیئے۔شوہر کی خوشنودی اور رضا جنت میں لے جانے کا سبب ہے۔احکامات بجا لانے والی عورت پسندیدہ ہے۔

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

وہ عورت جو زيادہ محبت كرنے والى اور زيادہ اولاد پيدا كرنے والى ہو جب ناراض ہو جائے يا اس سے برا سلوك كيا جائے يا پھر اس كا خاوند ناراض ہو جائے تو وہ عورت كہے يہ ميرا ہاتھ تيرے ہاتھ ميں ہے، ميں تو اس وقت تك آرام نہيں كرونگى جب تك تم راضى نہيں ہو جاتے "

اسے امام طبرانى نے المعجم الاوسط ( 2 / 206 ) ميں روايت كيا ہے


لیکن شوہر کے ایسے مطالبے جن پر شرعیت سے منع کا حکم موجود ہے ، ان پر شوہر کی اصلاح کرنی چاہیئے۔
مثال کے طور پر ابروؤں کے بال نکالنا ، اونچا جوڑا بنانا ، ظاہری شکل وصورت کی ساخت ہی تبدیل کروا دینا ،
ایسے امور کو اختیار کرنا جائز نہیں۔واللہ اعلم!

خواتین اسلام کے لیے بہترین حل:
خواتین پیسے کے اصراف سے بچتے ہوئے صدقات کی طرف قدم بڑھائیں۔
میک اپ اور ظاہری بناوٹ میں کئی گھنٹے صرف کرنے کے بجائے تسبیح اور ذکر سے اسی وقت میں ہزاروں گنا اجر و ثواب کمایا جا سکتا ہے۔وقت کو مینیج کریں ، اور ایسے اعمال کی طرف توجہ دیں ، جو آخرت کے لیے نیکیوں کا ذخیرہ بن جائیں !!

اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا 35؀۔۔۔سورۃ الاحزاب
بالیقین ! جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں ، مومن ہیں ، مطیع فرمان ہیں ، راست باز ہیں ، صابر ہیں ، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں ، صدقہ دینے والے ہیں ، روزہ رکھنے والے ہیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں ، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیاّکر رکھا ہے۔(35)
 
Last edited:

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
محترمہ ماریہ انعام سسٹر ،
اپنے الفاظوں کی روشنی میں ،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عورت کی زیب و زینت کے حوالے سے ہمارے ہاں عموما دوقسم کے طرزِ عمل پائے جاتے ہیں۔۔۔ایک طبقہ جو اس نام پر ہر جائز ناجائز حدود کو پھلانگنا اپنا فطری حق سمجھتا ہے جسے ہم عرفِ عام میں ماڈرن طبقہ کہتے ہیں ۔۔۔جبکہ دوسرا گروہ وہ ہے جو زیب و زینت کو طوعا وکرہا برداشت تو کرتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ اضافہ کرنا ضروری سمجھتا ہےکہ اگر ایسا نہ ہو تو بہتر ہے ۔۔۔اور اگر ہو بھی تو شوہر کے لیے ہو۔۔۔بالفاظِ دیگر کنواری لڑکیوں کا زیب وزینت اختیار کرنا پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا۔۔۔۔

آئیے اس حوالے سے شریعت سے رہنمائی لیتے ہیں
اسلام ایک میانہ رو اور فطری دین ہے۔۔۔افراط وتفریط سے گریزاں ہو کر یہ خیر الامور اوسطھاکے تحت ہر معاملے میں درمیانے راستے کو پسند کرتا ہے۔۔اور فطری اس قدر ہے کہ عورت کے اندر مامتا کا شدید جذبہ رکھنے کے باعث ماں کی اولاد کے لیے فطری کشش اور اس کے نتیجے میں ماں کی قربانیوں پر جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی ہے ۔۔۔شریعت کے تمام احکام کا جائزہ لیں تو ایک حکم بھی ایسا نظر نہیں آتا جو انسان کی فطرت پر قدغن کا سبب ہو ۔۔۔۔زیرِ بحث معاملے میں بھی شریعت کا یہی مزاج ہے
اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿٣١﴾قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٣٢
اے اوﻻد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔ اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بےشک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا (31)آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیا اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہوں گی اہل ایمان کے لئے، دنیوی زندگی میں مومنوں کے لئے بھی ہیں۔ ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں

زینت کے حوالے سے یہ آیات تمام مسلمانوں کے لیےعام ہیں۔۔۔۔عورتوں کے بارے میں فرمایا

أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ ﴿١٨
کیا (اللہ کی اوﻻد لڑکیاں ہیں) جو زیورات میں پلیں اور جھگڑے میں (اپنی بات) واضح نہ کرسکیں؟

اس آیت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے یہاں ان لڑکیوں کی بات ہو رہی ہے جو زیرِ پرورش ہیں۔۔۔اور لڑکیوں کا یہ مرحلہ ان کے ماں باپ کے گھر میں ہی آتا ہے۔۔۔گویا یہ کہنا کہ عورتوں کی زیب وزینب دراصل اس کے شوہر کی خاطر ہے یا اس پر اس کے شوہر کا ہی حق ہےاتنا درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ یہ آیت کنواری لڑکیوں کی زیب وزینت کی اباحت ثابت کر رہی ہے
باقی رہا یہ سوال کہ آیا عورت کا زیب و زینت اختیار کرنا کیاکسی مرحلے میں اباحت سے آگے استحباب کے درجے میں بھی داخل ہو سکتا ہے ۔۔؟؟؟تو اس حوالے سے شادی شدہ عورتوں کا معاملہ تو بالکل واضح ہے کہ ان کا اپنے شوہر کے لیے ایسا اہتمام کرنا مستحب ہے بلکہ اگرشوہر حکم دے تو استحباب سے آگے فرضیت کا حکم اس پر لاگو ہو گا ۔۔۔۔البتہ کنواری لڑکیوں کے معاملے میں یہ بات ذرا غور وفکر کی متقاضی ہے۔۔۔
یہ امر تو واضح ہے کہ لڑکیوں میں سجنے سنورنے کا شوق بچپن سے ہی پایا جاتا ہے ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ شریعت نے کنواری لڑکیوں کے لیے یہ معاملہ جائز رکھا ہے۔۔۔ہاں ایک صورت ہے جس کے تحت غیر شادی شدہ لڑکیوں کے لیے بھی زیب و زینت مستحب بن سکتی ہے
اللہ تعالی فرماتے ہیں

وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ﴿١١
اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا ره (11)

حدیثِ مبارکہ ہے
أنه أتى النبيَّ صلى الله عليه وسلَّم في ثوبٍ دونٍ فقال له النبيُّ صلى الله عليه وسلَّم: ألك مالٌ؟ قال: نعم من كلِّ المالِ. قال: من أيِّ المالِ. قال قد آتاني اللهُ من الإبلِ والغنمِ والخيلِ والرقيقِ. قال: فإذا أتاك اللهُ مالاً فليُرَ عليك أثرُ نعمةَ اللهِ وكرامتِه.
الراوي: مالك بن نضلة الجشمي المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 5239
خلاصة حكم المحدث: صحيح
- إذا آتاك اللهُ مالًا فلْيُرَ أثَرَ نعمةِ اللهِ عليك و كرامتِه
الراوي: والد أبي الأحوص المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 254
خلاصة حكم المحدث: صحيح

درج بالا دونوں احادیث کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی اس بات کی پسند کرتے ہیں کہ بندہ اس کا دیا ہوا مال اپنی ذات پر استعمال کرے اور اس کی نعمتوں کے آثار انسان پر ظاہر ہوں ۔۔۔چنانچہ آپﷺ نے کشادگی کے باوجود صحابی کا بوسیدہ لباس پہننا ناپسند فرمایا
لہذا آیت اور حدیث پر عمل کرتے ہوئے اگر کوئی کنواری لڑکی حدود میں رہ کر تحدیثِ نعمت کی نیت سے زیب و زینت اختیار کرتی ہے تو ایسا کرنا اس کے لیے مستحب ہو گا

اب یہ بات تو واضح ہو گئی کہ زیب و زینت اختیار کرنا ہر قسم کی عورت کے لیے مستحب ہے۔۔۔۔لیکن اس شرط کے ساتھ کہ شریعت نے اس حوالے سے جو پابندیاں لگائی ہیں ان پر پوری طرح عمل پیرا ہوا جائے
قرآن وحدیث کے مطالعے سے جو شرائط ہمارے سامنے آتی ہیں انھیں مختصراً بیان کرتی ہوں

سب سے پہلی اور اہم شرط یہ ہے کہ زیب و زینت گھر کی حدود میں رہ کر اختیار کی جائے۔۔حجاب کے جو جو احکام شریعت نے دیے ہیں زینت کرنے کے بعد ان کی اور زیادہ پابندی کی جائے
اللہ تعالی فرماتےہیں
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖوَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ﻇاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ﻇاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ﻇاہر نہ کریں،

دوسری شرط یہ ہے کہ ایسی زیب و زینت نہ اختیار کی جائے جو خلقت میں تبدیلی کے زمرے میں آئے
- لعَن اللَّهُ الواشِمةُ والموتَشِمةُ ، والواصلةُ والمستوصلة . يعني : لعنَ النَّبيُّ صلَّىاللَّهُ عليهِ وسلَّمَ .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5942
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

]ايسی زیب وزینت جو دھوکہ دہی کے زمرے میں آئے وہ بھی غلط ہے
[/وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا حَبَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: «إِنِّي زَوَّجْتُ ابْنَتِي فَتَمَرَّقَ شَعَرُ رَأْسِهَا وَزَوْجُهَا يَسْتَحْسِنُهَا، أَفَأَصِلُ يَا رَسُولَ اللهِ فَنَهَاهَا»
جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ: «زَجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَصِلَ الْمَرْأَةُ بِرَأْسِهَا شَيْئًا»__________
مثلا وگ غیرہ لگانا

جس سے آپﷺ نے واضح طور پر منع فرمایا ہو مثلا ناخن لمبے کرنا
[الفطرةُ خمسٌ ، أو خمسٌ من الفطرةِ : الختانُ ، والاستحدادُ ، ونتفُ الإبطِ ، وتقليمُ الأظفارِ ، وقصُّ الشاربِ
الراوي]: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5889

ایسی زیب و زینت جو غیر اقوام سے مشابہہ ہو
- من تشبَّه بقومٍ فهو منهم ، وفي لفظٍ : ليس منا من تشبَّه بغيرِنا
الراوي: - المحدث: ابن تيمية - المصدر: مجموع الفتاوى - الصفحة أو الرقم: 25/331
خلاصة حكم المحدث: جيد

زيب و زينت اسراف كي حدود سے متجاوز نہ ہو
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿٣١

ایسی زیب و زینت بھی مکروہ ہے جس کے نتیجے میں خواتین میں مقابلہ بازی شروع ہو جائے کیونکہ اہلِ ایمان کی مسابقت حسنات میں ہوتی ہے
نیز ایسی زینت بھی غلط ہے جس کا محرک تکبر ہو۔
قال رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إنَّ اللَّهَ جميلٌ يحبُّ الجمالَ إنَّ الكبرَ مَن بطِرَ الحقِّ وغمَصَ النَّاسَ
الراوي: عبدالله بن مسعود المحدث: ابن خزيمة - المصدر: التوحيد - الصفحة أو الرقم: 898/2
خلاصة حكم المحدث: [أشار في المقدمة أنه صح وثبت بالإسناد الثابت الصحيح]
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
محترمہ ماریہ انعام سسٹر ،
زیب و زینت کے حوالے سے ایک معاملہ جو بہت سنگین صورت اختیار کر چکا ہے وہ خوشبویات کا بے دریغ استعمال ہے۔۔۔اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ بہت سی دین کا شعور رکھنے والی خواتین بھی اس میں مبتلا ہوتی ہیں ۔۔۔جیسا کہ دعا بہن نے اشارہ کیا ہے کہ مساجد اور دینی تقریبات میں بھی خواتین اس کا اہتمام کرتی ہیں اور ثواب کمانے کی بجائے گناہ لاد کر گھر لے جاتی ہیں۔۔احادیث میں ایسی خواتین کے لیے اس قدر سخت وعید آئی ہے کہ کہ اگر ہم اس پر غور کریں تو خود بخود ہماری یہ عادت بد ختم ہو سکتی ہے

كل عينٍ زانِيةٍ ، والمرأةُ إذا استعطرتْ فمرتْ بالمجلسِ ، فهي كذا وكذا . يعني :زانيةٌ
الراوي: أبو موسى الأشعري عبدالله بن قيس المحدث: الترمذي - المصدر: سنن الترمذي -الصفحة أو الرقم: 2786
خلاصة حكم المحدث: حسن صحيح

آپﷺ نے خوشبو لگانے والی عورت کو زانیۃ کہا ہے
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
ایک اور سینئر سسٹر رقم طراز ہیں ،

ہم ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہتے ہیں۔۔ایک گروہ وہ ہے جو شادی شدہ خواتین کو بھی بننے سورنے نہیں دیتا تو ایک وہ جو کنواری لڑکیوں کے لیےبھی ہر طرح کی زیبائش جائز بلکہ متحسن سمجھتا ہے۔
بہرحال علماء کا متفہ فیصلہ ہے کہ شادی شدہ خواتین اپنے گھر میں خاوند کے لیے ہر طرح کی آرائش و زیبائش کر سکتی ہیں ما سوائے
1)کفار سے مشابہت
2)حرام،ممنوع زیبائش(پلکنگ،مصنوعی تل بنوانا،دانت گھسوانا،جوڑا بنانا)
علماء کا اس متعلق اختلاف ہے کہ خواتین اپنے بال کٹوا سکتی ہیں کہ نہیں؟؟کچھ کے بقول خاوند کی اجازت و مرضی سے کٹوا سکتی ہے،کچھ کے نزدیک سراسر ممنوع اور کچھ علماء نے کنواری لڑکیوں کے لیے بھی اسے جائز کہا ہے۔(یہ تمام آراء صحیح العقیدہ،چوٹی کے علماء کی ہیں)
بہرحال کوشش کریں کہ بلاوجہ بال نہ کٹوائیں،کچھ عرصہ قبل تک لڑکیوں کو"بال کٹی" کا طعنہ دیا جاتا تھا۔
اب رہی یہ بات کہ کنواری لڑکی کس قدر زیبائش کر سکتی ہے؟؟
ایک عرب عالم کے نزدیک کنواری لڑکی اپنی ہم عمر لڑکیوں میں خوبصورت نظر آنے کے لیے ممنوع کاموں کے سوا بن سنور سکتی ہے
وہ اچھا اوڑھ پہن سکتی ہے،تیار ہو سکتی ہے۔۔لیکن کنواری بچیوں کا زورو شور سے میک اپ کرنا اور زیورات سے لدھا پندھا رہنا معاشرے میں ناگواری سے دیکھا جاتا ہے۔بہرحال یہ ممنوع یا حرام نہیں۔مگر بچیوں کو اس سے احتیاط برتنا لازم ہے۔
اب رہی بات آرائشی سامان کی(یاد رکھیے ذاتی پسند،ناپسند کو حلال حرام ٹھہرانا مسلمان کا شیوہ نہیں):
1)خوشبو گھر میں استعمال کریں۔کنواری ہو یا شادی شدہ۔۔نامحارم کے سامنے جانے سے قبل لباس تبدیل کر کے،نہا کر خوشبو زائل کریں۔خوشبودار کریم ،لوشن ہو تو باہر(مثلاکسی تقریب،دعوت میں۔۔بازار جاتے ہوئے تیار ہونا ممنوع ہے) جانے سے کچھ دیر پہلے لگائیں تا کہ خوشبو ختم ہو جائے۔جبکہ ہمارے ہاں خواتین باہر جاتے ہوئے خصوصی طور پر خوشبو استعمال کرتی ہیں اور کتنا سخت گناہ کماتی ہیں۔
2)حلال اجزاء پر مشتمل میک اپ جائز ہے۔الکوحل پر مشتمل اشیاء سے پرہیز کریں۔نیل پالش لگا سکتی ہیں لیکن نماز سے قبل اسے ریمور سے صاف کر لیں تا کہ ناخنوں تک پانی جائے۔اسی طرح حلال اشیاء پر مشتمل لپ اسٹک،لائینر،کاجل،فاؤنڈیشن وغیرہ۔لیکن میک اپ کی وجہ سے نماز موخر کرنا جائز نہیں۔ ہزاروں رپے اور گھنٹے برباد کرنا اسراف ہے،اس سے بالخصوص بچیں۔
3)مہندی،عرق استعمال کیا جا سکتا ہے۔
4)ہئیر سٹائل بنوائے جا سکتے ہیں۔
5)ساتر،باپردہ ہو تو ہر طرح کا لباس پہنا جا سکتا ہے۔ہمارے ہاں یہ بات حرام ٹھہرائی جاتی ہے کہ لیس لگی ہے،فراک نہیں پہننا،کھلا پاجامہ،لہنگا اور ساڑھی ممنوع ہیں۔ساتر ہو،باپردہ اور موٹا لباس ہو تو ہر لباس پہنا جا سکتا ہے۔
6)جیولری پہنی جا سکتی ہے لیکن اس پر بھی ہزاروں رپے اور وقت برباد کرنا اسراف کے زمرے میں آتا ہے۔۔نیز میچنگ کی خاطر جمعہ یا عیدچھوڑ دینا کہ میری تو میچنگ نہیں ہوئی،میں نہیں جاؤں گی،بالکل غلط ہے۔کم قیمت،اچھی چیز پہنی جا سکتی ہے۔
7)بالوں کی افزائش و خوبصورتی کے لیے تیل،شیمپو استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
8)جلد کی خوبصورتی و رنگت نکھارنے کے لیے کریم،لوشن،پیڈی کیور،مینی کیور اور ٹوٹکے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔روایات میں صحابیات رضوان اللہ علیہن اجمعین کا رنگت سرخ کرنے کے لیے غالبا"اذخر" نامی بوٹی استعمال کرنا ملتا ہے۔۔اسی طرح بعد کے دور میں بھی کجھور اور مختلف اشیاء کا استعمال ملتا ہے۔
گرد و آلودگی اور خوراک کے عجیب و غریب معیار کے اس دور میں ہماری جلد بہت متاثر ہوتی ہے۔جلد کا جھلسنا،دانے نکلنا،داغ دھبے،چھائیاں،بلیک ہیڈز،بے رونقی۔۔ان مسائل سے بچنے اور انہیں دور کرنے کے لیےان کا استعمال کر سکتے ہیں
نیز یہ بات کہ اس دوران عبادت نہیں ہو سکتی تو مساج و مینی پیڈی کیور وغیرہ کے دوران ذکر اللہ کیا جاسکتا ہے۔۔اگر آپ اپنے خاوند کے لیے بن سنور رہی ہیں تو اس میں بذات خودثواب ہے۔
مگر یاد رکھیے ان کاموں کے لیے ہزاروں رپے اور گھنٹے برباد کرنا انتہائی غیر مناسب ہے۔۔اسراف سے بچیں۔۔دن بھر میں 25،30 منٹ نکالنا معیوب نہیں!!
)ایڑی والی جوتی کی ٹکا ٹک نامحارم تک نہ جائے تو استعمال کرسکتے ہیں (اگر اس سے قد لمبا کرنا مقصود ہے تو اس سے بچیں)۔۔نامحارم کے سامنےجاتے ہوئے سادہ اور فلیٹ جوتے استعمال کریں۔جس میں چمک دھمک کم سے کم ہو
10)چھوڑیوں کی کھنک نامحارم تک نہ پہنچے تو پہن سکتے ہیں۔
11)گھر سے باہر جاتے ہوئے اگر معمول سے ہٹ کر انگوٹھی ،بریسلیٹ پہن رکھی ہےیا مہندی استعال کی ہوئی ہے تو ہاتھ ڈھک کر جائیں۔کسی دعوت ،تقریب میں جانا ہے تو سہولت کے لیے ساتھ رکھ لیں،وہاں جا کر پہن لیں۔
یہ تمام کنواری،غیر شادی شدہ کر سکتی ہیں ۔۔اسلام میں ممانعت نہیں کہ کنواری یہ کرے اور یہ نہ کرے۔۔اس کیلیے اپنا ارد گرد،معاشرت اور معاملات دیکھیے اور جائز امور سے زیبائش اختیار کیجیے۔
 

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
ماشاء اللہ موضوع بالکل نکھر کر سامنے آیا ہے اور اس نکھار کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس ذمہ داری کو سرانجام دینے والے وہ افراد ہیں جو اس سے متاثر ہیں۔اس لیے موقف بہت اعتدال سے پیش کیے گئے ہیں اور اگر ان شرعی حدود قیود کو مدنظر رکھا جائے تو زیب و زینت بھی عبادت کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔
 

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447
ماشاءاللہ بہت عمدہ تھریڈ ہے.
اللہ سبحانہ وتعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے.
جزاک اللہ خیرا
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
محترمہ ماریہ انعام سسٹر ،
اپنے الفاظوں کی روشنی میں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بہن! الفاظ جمع مکسر کے وزن افعال پر پہلے ہی جمع ہے۔۔۔لہذا اس کو الفاظوں لکھنا درست نہیں ہو گا
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بہن! الفاظ جمع مکسر کے وزن افعال پر پہلے ہی جمع ہے۔۔۔لہذا اس کو الفاظوں لکھنا درست نہیں ہو گا
جزاک اللہ خیرا بہنا نشان دہی کا ۔ہم کبھی کبھی غور کے بغیر ہی لکھتے چلے جاتے ہیں ،
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
ماریہ انعام سسٹر نے اپنے مشاہدات بیان کئے


کنواری لڑکیوں کا بہت زیادہ میک اپ کرنا ہمارے معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا لہذا اس سے پرہیز لازم ہے۔۔۔دوسری طرف ہماری نانیوں دادیوں کی عمر کی بوڑھی خواتین(خصوصا گاؤں کی) کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ شادی شدہ خواتین کا بہت سا میک اپ لادنا اور بھاری جیولری پہننا اس بات کی علامت ہے کہ وہ شوہر کی من چاہی بیوی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو اس کو لڑائی جھگڑے پر محمول کیا جاتا ہے۔۔۔اگر کسی خاتون کے آس پاس ایسے خیالات کی حامل نانی یا دادی پائی جاتی ہیں تو اسے اپنے عرف کا خیال رکھتے ہوئے خود کو اپنے شوہر کی من چاہی بیوی لازما ثابت کرنا چاہیے
 
Top