• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آسان فہم انداز تعلیم:

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
آسان فہم انداز تعلیم:

قرآن فہمی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے متن کے ہر لفظ کا معنی ، مفہوم اور تقاضا معلوم ہو۔وہ صرف جاری ترجمہ سے ، یا مختلف تھیوریز سے، یا فضائل سے، یا اس کے ظاہر وباطن کے مفاہیم سے، یااس کی صرفی، نحوی تراکیب سے، یا ایک ہی فکر ، موضوع یا مذہب کو ثابت کرنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ یہ سب مددگار توہوسکتے ہیں مگر قرآن فہمی کی پیاس پھر بھی باقی رہتی ہے۔ اس قرآن فہمی کا یہ مطلب بھی نہیں کہ طالب علم کو عالم بننا پڑے گا۔ نہیں بلکہ اسے عام فہم کتاب بنا کر اور اسے سمجھا کر مطمئن کرنا مقصد ہے۔
ایک عمدہ مثال: ہمارے ہاں تفاسیر بھی ایک ہی منہج کو لئے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے مذاہب کو حق ثابت کرنے اور اسلاف کی تفاسیر کو نئی تفسیرمیںجمع وتدوین کرنے کا طریقہ کار ہے۔آج کے دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مختصر اور جامع علمی بات مسلمان کو ایسی سمجھا دی جائے کہ قرآ ن کا لفظ لفظ اس پر کھلتا جائے۔ اس کی سوچ اور فکر کے زاویے کو درست کرتا اور ایمان کو تقویت دیتا جائے۔جو مشکل نہیں مگر ضرورت غور و فکر کی ہے۔ مثلاً ان دو آیات کو دیکھئے اور انداز تعلیم کو دیکھئے ۔ کیا یہ واقعی مشکل ہے؟ کیا طالب علم کو اکتا دینے والی ہے یا اس کی دل چسپی برقرار رکھنے اور مزید کی خواہش ابھارنے والی نہیں ہے؟۔ نیز اس میں کون سی ایسی مشکل بات ہے جو گراں گذرے؟ :
{والفجر} اللہ تعالیٰ نے یہاں پانچ اشیاء کی قسمیں کھائی ہیں۔ان میں پہلی قسم فجر کی ہے۔فجر اس پھٹنے والے نور یا روشنی کو کہتے ہیںجو طلوع شمس کے قریب مشرق کے افق پر رات کے اندھیرے سے نکلتی ہے۔اس روشنی اور طلوع شمس کے درمیان ایک گھنٹہ بتیس منٹ تا ایک گھنٹہ سترہ منٹ کا فرق سال کے مختلف موسموں اور اوقات میں رہتا ہے۔فجر ، دو قسم کی ہوا کرتی ہے۔ فجر صادق اور فجر کاذب۔ اس آیت میں فجر صادق مراد ہے۔ فجر صادق اور فجر کاذب کے مابین فرق تین صورتوں میں ہے۔
۱۔ فجر کاذب آسمان میں مستطیل ہوا کرتی ہے عرضاً نہیں ہوتی بلکہ طول میں ہوتی ہے۔ رہی فجر صادق وہ عرضاً ہوتی ہے اور شمال سے جنوب کی طرف پھیلتی ہے۔
۲۔ فجر صادق کے بعد تاریکی نہیں ہوتی بلکہ روشنی ہی کا اضافہ ہوتا ہے یہاں تک کہ سورج نکل آتا ہے۔فجر کاذب میں اس ابتدائی روشنی کے بعد بھی تاریکی باقی رہتی ہے اسی لئے اسے فجر کاذب کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بتدریج مضمحل ہوتی رہتی ہے۔ تاآنکہ ختم ہوجاتی ہے۔
۳۔فجر صادق افق کے ساتھ متصل ہوتی ہے ۔رہی فجر کاذب اس کے اور افق کے درمیان اندھیرا رہتا ہے۔
یہ تین فرق آفاقی ہیں اور حسی ہیں جو لوگ کھلے آسمان تلے رہتے ہیں وہ انہیں جانتے ہیں ۔باقی شہری اس سے ناواقف رہتے ہیں اس لئے کہ یہ روشنیاں ان پر پردے میں رہتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فجر کی قسم اس لئے کھائی کہ اس سے دن کی ابتداء ہوتی ہے۔ اور یہ تاریکی سے فجرمنور کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قسم اس لئے کھائی کہ یہ عظیم کام ۔۔رات کے اندھیرے سے دن کی روشنی کو نکالنا۔۔۔سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کوئی نہیں کرسکتا۔جیسے ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَيْرُ اللہِ يَاْتِيْكُمْ بِضِيَآءٍ اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ} (القصص:۷۱) ان سے کہئے! یہ بتاؤ اگر اگر اللہ تعالیٰ قیامت تک تم پر رات کو مسلسل طاری کردے تو اللہ کے سواکون سا ایسا خدا ومعبود ہے جو تم پر دن کی روشنی لے آئے۔ کیا تم قرآن نہیں سنتے۔
اللہ تعالیٰ نے فجر کی قسم اس لئے بھی کھائی ہے کیونکہ بہت سے شرعی احکام اس پر مرتب ہوتے ہیں۔ جیسے: امساک روزہ۔ یعنی سحری کا ختم کرنا کیونکہ جب فجر طلوع ہوگئی تو روزے دار پر۔۔فرضی یا نفلی روزہ جسے وہ شام تک رکھنا چاہتا ہے ۔۔ اس کھانے پینے سے رک جانا فرض ہے۔دوسرا فجر کی نماز جس کا وقت بھی داخل ہوجاتا ہے ۔ یہ دونوں شریعت کے بڑے اہم حکم ہیں۔ان دونوں میں زیادہ ہم وقت نماز کا ہونا ہے۔یعنی فجر کاوقت ہونے کی وجہ سے ہم پر یہ فرض ہوجاتا ہے کہ فجر کا امساک روزہ سے زیادہ خیال کریں۔کیونکہ اگر بالفرض سحری کے امساک میں ہم نے کوئی خطا کی تو اس کی بنیاد ی وجہ شاید یہ ہوتی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ رات ابھی باقی ہے۔ کیونکہ دونوںمیں اصل رات کا باقی ہونا اور نماز کے وقت کا شروع نہ ہونا ہے۔اس لئے اگر کوئی نماز فجر کو ایک منٹ وقت سے پہلے پڑھ لیتا ہے اس کی نماز نفل تو ہوجائے گی مگر فرض ادا نہیں ہوگا۔اس لئے یہ مسئلہ بھی ہم سب کے لئے قابل غور ہے کہ نماز فجر کا وقت شروع ہونے کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔کیونکہ بہت سے مؤذن قبل از وقت فجر کی اذان دے دیتے ہیںجو غلط ہے اذان قبل از وقت تو مشروع نہیں ہے۔اس لئے کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: إِذَا حَضَرَتِ الصَّلاۃُ فَلْیُؤَذِّنْ لَکُمْ أَحَدُکُمْ۔ جب نماز کا وقت ہوجائے تو پھر تمہارے لئے کوئی ایک اذان دے۔اس لئے وقت سے قبل جو اذان دے وہ درست نہیں ہوگی بلکہ اس کا اعادہ لازمی ہوگا۔اس لئے وقت فجر کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔
ایک قول یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس فجر سے مراد لیلۃ القدر کی فجر ہو۔کہ رات بھر عبادت کرتے کرتے فجر کی مبارک ساعتیں آگئیں جو نتیجے کے اعتبار سے بہت ہی عظیم ہے۔اور اسی عشرہ اخیرہ کی باقی راتیں بھی بڑی مبارک ہیں۔
{ولیال عشر} عموماً کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد ذو الحجۃ کے دس دن ہیں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عربی زبان بہت وسیع ہے جس کی وجہ سے رات کا لفظ دن پر اور دن کا لفظ رات پر بھی بول دیا جاتا ہے۔ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اس سے مراد رمضان کے عشرہ اخیرہ کی دس راتیں ہیں۔پہلے قول کے مطابق اگر دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کے دس دن لیتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی حدیث پاک میں دس دنوں کو بڑی فضیلت والا ارشاد فرمایا ہے۔
مَا مِنْ أَیَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْہِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللہِ مِنْ ہَذِہِ الأَیَّامِ الْعَشْرِ۔ کوئی دن ایسے نہیں جن میںعمل صالح اللہ تعالیٰ کو ان دس دونوں کے علاوہ زیادہ محبوب ہو۔ قَالُوْا: وَلَا الْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللہِ؟ قاَلَ: وَلَا الْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللہِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ فَلَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذٰلِکَ بِشَیْءٍ۔ صحابہ نے عرض کی: اور نہ ہی جہاد فی سبیل اللہ؟ فرمایا: جی ۔ نہ ہی جہاد فی سبیل اللہ سوائے اس مرد حر کے جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور ان دونوں میںکوئی شے بھی لے کر وہ واپس نہ پلٹ سکا۔ (صحیح بخاری:۹۶۹)
رہے وہ علماء جو کہتے ہیں کہ ان دس راتوں سے مراد رمضان کی عشرہ اخیرہ کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آیت میں لیالی سے مراد لیالی ہی ہے ایام نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ رمضان کی آخری دس راتیں وہ ہیں جن میں لیلۃ القدر آتی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۝۳ۭؔ}، اسی طرح: {اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ۝۳ فِيْہَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ۝۴ۙ} (الدخان: ۳،۴) ہم ہی نے اسے بڑی مبارک رات میں نازل کیا یقیناً ہم ہی ہیں تنبیہ کرنے والے۔ اس رات میں ہر پختہ امر تفریق کردیا جاتا ہے۔
ان دونوں اقوال میں آخری قول ہی راجح لگتا ہے اگرچہ پہلا قول جمہور کا ہے مگر الفاظ قول جمہور کی تائید نہیں کرتے۔اس لئے قول ثانی ہی قابل قبول ہوسکتا ہے کہ ان دس راتوں سے مراد رمضان کے عشرہ اخیرہ کی راتیں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس کے شرف اور مقام کی قسم کھائی ہے۔کیونکہ اس میں شب قدر ہوتی ہے اور یہ بھی کہ مسلمان انہی راتوں میں رمضان کا اختتام کرتے ہیں جو اسلام کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے اور ارکان اسلام میں سے ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان راتوں کی قسم کھائی ہے۔

بشکریہ محمد آصف مغل بھائی
 
Top