- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
کیا آسمان زمین کے بعد بنا یا آسمان پہلے تھا اور زمین بعد میں بنی ؟
ایک مشہور موضوع جو اکثر مختلف الحادی فورمز پر اٹھایا جاتا ہے ۔ ایسے ہی ایک فورم پر ایک خود ساختہ علامہ اور خود رو سائنسی محقق کی تحریر لکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے دین الحاد (کذب و ریا ) پر چلتے ہوۓ اس معاملے پر کفر (انکارحق) اورانتہائی کذب وریا کے ساتھ تحقیق کی کیونکہ اگر وہ حق پرست ہوتے یا حق ان کا مطمع نظر ہوتا تو وہ بہت سی حقیقتوں پر پردہ نہ ڈالتے جیسے خود ان کی ہی سائنس ان کے کذب کا منہ بولا ثبوت ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ سماء قرآن اور سائنس دونوں کے تناظر میں ہے کیا اور کیا خود قرآن یا اس کو ماننے والے اسے کوئی کنکریٹ یا کسی اور ٹھوس طرح کی ہی چھت مانتے ہیں یا سائینس یا اس کے ماننے والے کلی طور پر آسمان کے ہونے کے منکر ہیں ؟
آسمان کا لفظ قرآن میں متعدد معنی میں استعمال ہوا ہے۔۔ خود سائنس دان تک اجرام فلکی کے لئے
" celestial bodies"
کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، اس کے معانی اگر تلاشےجائیں تو یہ معانی بنتے ہیں
"celestial"
adjective:
positioned in or relating to the sky, or outer space as observed in astronomy.
"a celestial body"
synonyms: (in) space, heavenly, astronomical, extraterrestrial, stellar, planetary, in the sky, in the heavens; More
antonyms: terrestrial, earthly
belonging or relating to heaven.
تو جناب جب آسمان سائنس کی رو سے موجود ہی نہیں تو پھر یہ اصطلاحات کیوں استعمال کی جاتی ہیں جب کسی ایسے جسم کا زکر کرنا مقصود ہو جو ہمارے اوپر یا خلاء میں معلق یا حرکت پذیر ہیں ؟ یقینا" یہ مجبوری ہے الفاظ و اصطلاحات کی۔ کیونکہ انسان ہر چیز کو اس کی شکل اور اس کے خواص سے معلوم کر کے اس کو پہچاننے کے لئے نام رکھتا ہے اکثر سائنس میں اور عام زندگی میں بہت کچھ ایسا ہے پیش آتا ہے جس کی درست توجیح یا درست نام نہ تو اہل زبان ہی پکار سکتے ہیں نہ ہی سائینس تو وہاں ایسے علامات اور استعارات کی ضرورت پڑتی ہے جو وسیع المعانی ہوں سائنس کی رو سے تو ہم بیان کرچکے ہیں کہ وہ آسمان یا سیلسٹل باڈیز کی کیا وضاحت کرتی ہے اب ہم قرآن کی رو سے بیان کرتے ہیں :
...........۔ سَمَاۂُ ( س۔ م۔ و ) :۔ آسمان کو کہتے ہیں اور یه لفظ بلندی کے لیے بھی استعمال ھوتا ھے کیونکہ وہ زمین پر بلند اور سایہ فگن ھوتا ہے۔ نیز قرآنی اصطلاح میں اُس چیز کو بھی جو تُمہارے اُوپر چھائی ھوئی اور سایہ فگن ھو ، اُسے سَمَاۂُ کہینگے۔
چاھے گھر کی چھت ھو
چاھے بادل ھو
چاھے شھاب ثاقب ھو
جنت ھو
یا دوسرے سیارے
بارش بادل سے برستی ہے اللہ نے فرمایا ہے وانزلنا من السماء ماءا۔۔۔
اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ الذی خلق سبع سماوات ومن الارض مثلھن نیز بار بار سات آسمانوں کا ذکر کیا ہے
پھر یہ دیکھیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے، "تعرج الملائکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ"
نیز اللہ فرماتا "ثم استوی علی العرش"
مزید اس کائنات کی توسیع کی حقیقت بھی قران میں ان لفظوں میں بیان کی گئی ہے، اور اس کے لئے یہی سماء کا لفظ مستعمل ہے
وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (51:47)"
آسمان کو ہم نے (اپنے) ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں
ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا(41:11)
پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وه دھواں (سا) تھا پس اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا (21:30)
کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان وزمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جداکیا۔"
ان تمام جگہ سماء کا لفظ ہے، غور طلب ہے کہ اسے ارض کے مقابلے میں استعمال کیا گیا ہے، ہمارے لئے مرکز زمین ہے، سو باقی جو کچھ بھی ہے اس پر آسمان ہی کا اطلاق کرتے ہیں خواہ وہ گریٹر سپیس ہے یا ہمارا ایٹمیسفئیر (ارد گرد کا ہوائی ماحول)۔اب اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اوپر جو کچھ ہے اسے سماء کہا جاتا ہےچنانچہ گھر کی ہر چھت بھی سَمَاۂُ کہلاتی ہے۔ راغب نے کہا ہے کہ ہر چیز اپنے سے نچلی چیز کی نسبت سے سَمَاۂُ کہلاتی ہے اور اپنے سے اُوپر کی چیز کی نسبت سے اَرضُ ۔ اسی مادہ سے اِسم کے معنی ہیں کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے۔ پھر نام کو بھی اِسم کہتے ہیں، اس کی جمع اَسمَاۂُ ہے۔ راغب نے وضاحت کی ہے کہ جب تک مسمٰی کا علم نہ ھو اس کے اسماۂ کا تعارف کُچھ فائدہ نہیں دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدم کو علمِ اشیاۂ کی ایسی صلاحیت سے نوازا گیا ہے کہ وہ ہر چیز کو اس کی شکل اور اس کے خواص سے معلوم کر کے اس کو پہچاننے کے لئے نام رکھتا ہے۔
قرآن کریم میں ہے کہ ( ٢:٣١ ) " آ دم کو تمام اشیاۂ کے نام سکھا دئے گئے۔"
آدم کو جو علمُ الاسماۂ دیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان میں اشیائے کائنات کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی استعداد رکھ دی گئی ہے یہاں ایک تنبیہ کرنا چاہوں گا کہ اسم کے بارے میں اختلاف ہے، راجح بات یہ ہے کہ یہ سما یسمو سے نہیں وسم یسم سے مشتق ہے (اگر مشتق ہے تو) سمۃ کا مطلب علامت، اور اسم علامت ہی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔۔
تو ایسے میں ہم انگلش لفظ سیسٹل باڈی کی طرح عربی لفظ سما کو بھی ایک استعارہ یا علامت کے طور پر ہی لیتے ہیں نہ کہ کسی ٹھوس چھت کے مزید ایک بات یاد رکھیں کہ جس چیز تک سائنس داں پہنچ نہ سکیں، اس سے لازما اس چیز کا نہ ہونا لازم نہیں آتا ہے۔۔
اب ہم اس ڈاکیومینٹری کی رو سے دیکھ رہے ہیں کہ بیگ بینگ کے بعد ڈسٹ اور پتھر باہمی ٹکراؤ اورکشش سے یکجا ہوکر نئے ستارے اور سیارے وجود میں آرہے تھے انہی میں سے ایک ہماری زمین بھی ہے اب چونکہ ملحدین کا دعوی ہے کہ آسمان کا تو حقیقت میں کچھ وجود ہی نہیں ہے بلکہ یہ جو نیلا آسمان اوپر نظر آرہا ہے دراصل ہمارے زمینی ایٹمس فئیر کی وجہ سے نیلا نظر آتا ہے تو ایسے میں جب یہ زمین گرم لاوہ تھی یا اپنے تشکیلی مراحل سے گزر رہی تھی اس وقت وہ ایٹمس فیئر جس کی وجہ سے نیلا آسمان نظر آتا ہے وہ موجود ہی نہ تھا تو پھر قرآن پاک کی ان آیات پر
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٩﴾ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿١٠﴾ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ﴿١١﴾ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿١٢﴾
ترجمہ:کہو کیا تم اس سے انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ اور (بتوں کو) اس کا مدمقابل بناتے ہو۔ وہی تو سارے جہان کا مالک ہے اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور اس میں سب سامان معیشت مقرر کیا (سب) چار دن میں۔ (اور تمام) طلبگاروں کے لئے یکساں ۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس . نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ (خواہ) خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں پھر دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس (کے کام) کا حکم بھیجا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (یعنی ستاروں) سے مزین کیا اور (شیطانوں سے) محفوظ رکھا۔ یہ زبردست (اور) خبردار کے (مقرر کئے ہوئے) اندازے ہیں ۔
اعتراض چہ معنی کیونکہ اسی ایٹمیس فئیر کی وجہ سے تو ہمارا زمینی آسمان نیلا نظر آتا ہے؟ پھر جراعت تحقیق کے علامہ صاحب نے جو آیات پیش کی ہیں انہیں زرا اوپر دیۓ گۓ لنک میں موجود ویڈیو سے موازنہ کر کے دیکھیں خاص کر اس وقت زمین پر وقت کی کیا رفتار تھی یا پھر زمین کا ایٹمیسفئیر کیسے اور کب بنا جو کہ ابتداء میں نہیں تھا پھر وہ دھواں مطلب لفظ دخان کا کیا مطلب ہے عربی میں زرا وہ دیکھا جاۓ پھر اسی آیت میں موجود آسمان مطلب وہ کالا آسمان یا وہ گریٹر سپیس جو ہر سیلسٹل باڈی سے اوپر ہے اور اسی وجہ سے اسے بھی آسمان ہی کہ کر مخاطب کیا جاتا ہے یہ خلا کون سی خصوصیات کا حامل ہے جیسے زمین کے ساتھ کسی کام کو کرنے کا کہا گیا پھر دیکھنے والا کھلی آنکھوں سے دیکھے کہ آیت کہ رہی ہے کہ ہم نے آسمان اور زمین دونوں کو کہا کہ آجاؤ اور پھر ہم نے سات آسمان بناۓ تو اے عقل کے اندھو کیا اب بھی نہیں سمجھتے کہ پہلے سے موجود آسمان کو ہی کہا جارہا ہے ایک اور سات آسمانوں کی تخلیق کے لیے زمین کے ساتھ مل کر کام کرو مطلب وہ اثرات جو زمین اپنی ابتداء میں رکھتی تھی وہ اور گریٹر سپیس دونوں کے باہمی اثرات نے ہمارا ایٹمسفئیر بنا یا جو یقینا" زمین کے بعد بنا زمین آسمان کی طرف کچھ اثرات بھجتی ہے ایک اور آیت سے واضع ہوتا ہے
يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۚ وَهُوَ الرَّحِيمُ الْغَفُورُ (34:2)
جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے جو آسمان سے اترے اور جو چڑھ کر اس میں جائے وه سب سے باخبر ہے۔ اور وه مہربان نہایت بخشش والا ہے
اب کوئی بتانے والا یہ ہی بتاۓ کہ یہ آیت جو کہتی ہے کہ زمین کی طرف سے جو کچھ آسمان پر چڑھتا ہے تو سائینس کا موارنہ اگر قرآن سے کرنا ہے تو بتاؤ وہ کیا چیز ہے جس کا زکر قرآن نے اس وقت کیا تھا جو آسمان کی طرف چڑھتی ہے ؟؟؟ یقینا" یہاں وہ بخارات جو بادل بناتے ہیں اور وہ گیسیس مذکور ہیں جو زمین اوپر آسمان کی طرف بھیجتی ہے اور اوپر پیش آیات میں انہی گرم گیسیس اور مادی عوامل یا دخان کا زکر ہو رہا ہے جو ابتدائی زمین سے اس وقت خارج ہو رہی تھیں جن کے اور اوپری خلا کی وجہ سے ہمارا ایٹمیسفئیر بنا جو محفوظ بے شگاف نیلی چھت کے جیسا دیکھتا ہے
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ(2:29)
وه اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا، پھر آسمان کی طرف قصد کیا اور ان کو ٹھیک ٹھاک سات آسمان بنایا اور وه ہر چیز کو جانتا ہے
الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ(67:3)
جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ (تو اے دیکھنے والے) اللہ رحمٰن کی پیدائش میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھے گا، دوباره (نظریں ڈال کر) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آرہا ہے
ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ(67:4)
پھر دوہرا کر دو دو بار دیکھ لے تیری نگاه تیری طرف ذلیل (و عاجز) ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گی
اور پھر وہ آیات جو ملحدین پیش کرتے ہیں وہاں مزید ذکر ہو رہا ہے کہ ان آسمانوں کو ہم نے تمہاری حفاظت کے لیے تشکیل دیا جو آفات سے تمہیں محفوظ رکھتے ہیں اب کیا ہمارا ایٹمس فئیر ہماری حفاظت نہیں کرتا ؟
اگر سائنس اور قرآن کی رو سے ہم غیر جانبدارانہ تحقیق کریں نہ کہ کذب و ریا کا کھیل کھیلیں تو ہوسکتا ہے کہ قرآن کی اوپر پیش کردہ آیت جس آسمان کے زمین کے بعد بننے کا زکر ہے سے مراد یہی ایٹمسفئیر ہی ہوں کیونکہ قرآن خالق کی کتاب ہے اور یہ اصول زبان دانی مطلب لنگوسٹک کے رولز کے تحت اپنا مدعا بیان کرتی ہے سائینس کے اصولوں کے تحت نہیں اور اور اہل علم کا قول ہے کہ "ایک اچھی اور علمی کتاب کا یہ خاصا ہوتا ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے پر ایکدم اپنا سارا علم نہیں کھولتی بلکہ جب جب اسے پڑھو وہ نۓ نۓ انکشافات اور علم انسان پر وا کرتی ہے " اور جہاں تک رہی ہمارے مقدمے کی بات تو بقول خود سائنس بھی جب کسی جگہ ایٹمس فئیر نہیں ہوتا تو نیلا آسمان نظر نہیں آتا بلکہ صرف خلا (اندھیرے بھرا کالا)آسمان ہی دیکھتا ہے یا پھر جیسا ایٹمسفئیر ہو ویسا ہی آسمان دکھے گا جیسے مریخ یا دیگر سیارے جو زمین سے پتلا موٹا یا مختلف ایٹمس فئیر رکھتے ہیں تو وہاں آسمان یا فضا کا رنگ مختلف ہوتا ہے جیسے یہ پکچر
http://en.wikipedia.org/wiki/Extraterrestrial_skies
اور ایٹمسفئیر سے متعلق ایک سائنٹفک اقتباس
The Moon has no atmosphere, so its sky is always black. However, the Sun is so bright that it is impossible to see stars during the daytime, unless the observer is well shielded from sunlight (direct or reflected from the ground).
.
اب ملحدین کے کذب و ریا کا جواب دینے کے لیۓ ہم نے جوابی تحقیق پیش تو کی ہے حالانکہ ہمارا قطعا" یہ ارادہ نہیں تھا کہ ہم قرآن و سائنس کا موازنہ کرتے مگر بہت ممکن ہے کہ جس سات آسمانوں کے بعد میں بننے کا زکر یہ آیات کررہی ہیں ان سے مراد یہ ایٹمسفئیرز ہی ہوں مگر سلام ہے دین کذب کے پیروں کاروں کی تحقیق پر کہ انہیں نہ تو سائنس کی ہی یہ تحقیق نظر آتی ہے کہ ساتوں ایٹمسفئیر زمین بننے کے بعد بنے اور نہ ہی قرآن پاک کی یہ آیات جو کہتی ہے کہ زمین کے اوپری خلاء میں پہلے مادی زرات کا گرم دھواں تھا اور اس کے بعد زمین جب ٹھنڈی ہوئی تو پانی، گرم گیسیس، آکسیجن ،ہائڈروجن و دیگر عوامل نے سات لئیر پر مشتمل ایٹمیسفئر تشکیل دیا بلکہ اگر انہیں یہ سب نظر آ بھی جاتا ہے تو ریا سے کام لیتے ہوۓ بات کا رخ موڑتے ہیں اور پھر علامے کہلواتے ہیں ، ہاں ہم بالتعیین کبھی نہیں کہہ سکتے کہ ان سات آسمان سے مراد فلاں فلاں لیئر ہے، یہ تو کہہ سکتے ہیں ہوسکتا ہے مراد یہ ہو، لیکن یہ کوئی یقینی بات نہیں ہوگی۔۔ پھر ہمارے مسلمان علماء قران وسنت کی جو تشریعی کرتے ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ سات آسمانوں سے مراد کچھ اور ہی ہے، صرف زمین کے ارد گرد کی چند لیئرز وغیرہ نہیں ہیں بلکہ کائنات میں جو کچھ بھی ہے، اس کے گرد یہ آسمان ہیں مگر یہاں ہم یہ بھی تو جانتے ہیں کہ علماء اسلام جب قرآن یا سنت کی تشریعی کرتے ہیں تو وہ قرآن سنت کا موازنہ سائنس سے نہیں کررہے ہوتے کیونکہ وہ سائنس دان نہیں ہوتے جب کہ اکثر ملحد کاذب یہ کرتے ہیں کہ مسلمان علماء دین کی تشریعات کو سائنس دانوں کی تحقیقات سے ملاتے ہیں اب اس سے بڑی حماقت کیا ہوگی کہ لنگوسٹک کے پروفیسر کا موازنہ سائنس کے پروفیسیر سے کیا جاۓ نہ تو دونوں کا علم ہی ایک ہے نہ وہ قواعد ہی ایک ہیں جن کے تحت وہ پروفیسر حضرات پرھتے پڑھاتے ہیں تو اگر کسی نے موازنہ کرنا ہی ہے تو پھر خلوص نیت سے کرے نہ کہ کذب اور ریا سے اور پھر بڑی بڑی ڈینگیں بھی مارے کہ قرآن غلط اور قابل افسوس ہے ۔۔۔
بشکریہ :
مرزا وسیم بیگ
جانی اعوان
صدف ناز
اے آر سالم فریادی
انجان مسافر
دانیال اطلس