2- اس بات کا تعین کیسے کیا جائے گا کہ آمدنی کا کتنا حصہ اللہ کی راہ میں (فقراء ، مساکین، مستحقین) وغیر ہ پر خرچ کرنا چاہیے۔(فیصد کے حساب بتادیں تو آسانی ہوگی) ۔نوٹ زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے نقلی صدقات یا خیرات
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
مندرجہ ذیل روایات بغور دیکھئے :
(۱)
سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں یونس نے، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہترین خیرات وہ ہے جس کے دینے کے بعد آدمی مالدار رہے۔ پھر صدقہ پہلے انہیں دو جو تمہاری زیر پرورش ہیں۔
(۲)
وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ , قَالَ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ "، قُلْتُ: فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ.
کعب بن مالک نے (جو جنگ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے) عرض کی یا رسول اللہ! میں اپنی توبہ کو اس طرح پورا کرتا ہوں کہ اپنا سارا مال اللہ اور رسول پر تصدق کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں کچھ تھوڑا مال رہنے بھی دے وہ تیرے حق میں بہتر ہے۔ کعب نے کہا بہت خوب میں اپنا خیبر کا حصہ رہنے دیتا ہوں۔
(۳)
عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، وَخَيْرُ الصَّدَقَةِ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ ".
جناب حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے انہیں دو جو تمہارے بال بچے اور عزیز ہیں اور
بہترین صدقہ وہ ہے جسے دے کر آدمی مالدار رہے اور جو کوئی سوال سے بچنا چاہے گا اسے اللہ تعالیٰ بھی محفوظ رکھتا ہے اور جو دوسروں (کے مال) سے بےنیاز رہتا ہے ‘ اسے اللہ تعالیٰ بےنیاز ہی بنا دیتا ہے۔
یہ تینوں روایات صحیح بخاری سے نقل کیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
اور صحیح مسلم ،کتاب اللقطہ ،میں حدیث مبارکہ ہے :
(۴)
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى رَاحِلَةٍ لَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ يَصْرِفُ بَصَرَهُ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ، وَمَنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا زَادَ لَهُ "، قَالَ: فَذَكَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَكَرَ حَتَّى رَأَيْنَا أَنَّهُ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي فَضْلٍ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ہم سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اتنے میں ایک شخص اونٹنی پر سوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس فاضل سواری ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس فاضل توشہ ہو وہ اس کو دیدے جس کے پاس توشہ نہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی قسم کے مال بیان کیے یہاں تک کہ ہم یہ سمجھے کہ ہم میں سے کسی کا حق نہیں ہے اس مال میں جو اس کی حاجت سے فاضل ہو۔
اور علامہ عبدالرحمن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر تیسیر القرآن میں لکھتے ہیں :
اور صدقہ کی کم ازکم حد فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ہے۔ جو کفر اور اسلام کی سرحد پر واقع ہے بالفاظ دیگر زکوٰۃ ادا نہ کرنے والا کافر ہے مسلمان نہیں جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے ایسے لوگوں سے جہاد کیا تھا اور ان دونوں حدوں کے درمیان وسیع میدان ہے اور اہل خیر جتنی چاہیں نیکیاں کما سکتے ہیں۔
اشتراکی ذہن رکھنے والے حضرات نے '' العفو '' کے مفہوم کو سخت غلط معنی پہنائے ہیں۔ حالانکہ آیت سے صاف واضح ہے کہ سوال کرنے والے خود اپنے اموال کے مالک تھے اور اپنی مرضی سے ہی ان اموال میں تصرف کی قدرت رکھتے تھے۔ لہذا جو نظریہ اس آیت سے کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ آیت اس کی قطعاً متحمل نہیں۔ اشتراکی نظریہ کے مطابق ہر چیز کی مالک حکومت ہوتی ہے اور اشتراکی حکومت میں انفرادی ملکیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی کی ذاتی ملکیت ہی نہ ہو تو وہ پس انداز کیا کرے گا اور خرچ کیا کرے گا اور انفاق کے متعلق سوال کیا پوچھے گا ؟ گویا جس آیت سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہی آیت اس نظریہ کی تردید پر بڑی واضح دلیل ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق سائلین نے سوال اس وقت کیا تھا۔ جب جہاد کے لیے مصارف کی شدید ضرورت تھی، جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے حکومت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ لوگوں سے ان کے سب زائد اموال چھین لیے جائیں بلکہ مسلمانوں کی تربیت ہی اس انداز سے کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ اگر سارے کا سارا زائد مال دے دیں تو یہ سب سے بہتر اور مسلمانوں کے اللہ پر توکل کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ لیکن جو مسلمان اپنا سارا زائد مال نہیں دے سکتے یا نہیں دینا چاہتے ان پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی اور اشتراکی نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ جو حالات جنگ تو درکنار عام حالات میں بھی لوگوں کو حق ملکیت سے محروم کردیتا ہے۔
ایسے انفاق فی سبیل اللہ کی واضح مثال جنگ تبوک کے موقعہ پر سامنے آتی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے زیادہ سے زیادہ مال دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت مالدار تھے۔ دل میں خیال آیا کہ آج اپنے تمام تر اثاثہ کا نصف حصہ خرچ کر کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جائیں گے۔ چناچہ جب اپنا مال لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا عمر ! کیا کچھ لائے ؟ عرض کیا کہ اپنے تمام اموال کا نصف حصہ بانٹ کرلے آیا ہوں۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھوڑا سا مال لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے بھی وہی سوال کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ! کیا کچھ لائے ؟
عرض کیا سب کچھ ہی لے آیا ہوں۔ گھر میں بس اللہ اور اس کے رسول کا نام ہی باقی ہے۔ یہ جواب سن کر عمر رضی اللہ عنہ کو یقین ہوگیا کہ کثرت مال کے باوجود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سبقت نہیں لے جاسکتے۔
(ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ۔ باب الرجل یخرج من مالہ)
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سارے کا سارا مال قبول فرما لیا۔ حالانکہ آپ کا ارشاد ہے کہ '' صدقہ وہ بہتر ہے جس کے بعد آدمی خود محتاج نہ بن جائے۔ ''
(بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب لاَصَدَقَۃَ الاَّ عَنْ ظَھْرِ غِنًی) تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اللہ پر توکل بےمثال تھا جسے آپ پوری طرح سمجھتے تھے۔
اب اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ اسی موقع پر ایک شخص ایک انڈا بھر سونا لایا اور کہنے لگا، مجھے یہ کان سے ملا ہے اور یہ صدقہ ہے اور اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں، آپ نے اس سے اعراض کیا تو اس شخص نے دائیں ہو کر یہی بات دہرائی تو بھی آپ نے اعراض کیا، پھر بائیں طرف، پھر پیچھے ہو کر یہی بات دہراتا رہا۔ آخر آپ نے وہ سونا پکڑا پھر اسے ہی دے دیا اور فرمایا۔ '' یہ تمہارے لیے ہے ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ '' جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا : تم میں سے ایک شخض آ کر کہتا ہے کہ یہ صدقہ ہے پھر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے لگتا ہے اس موقعہ پر بھی آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ '' بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی محتاج نہ ہوجائے۔ ''
(ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب الرجل یخرج من مالہ)
اس شخص کا صدقہ قبول نہ کرنے کی وجہ بھی اس حدیث میں مذکور ہے۔
ان ھدایات کو سامنے رکھ کر آپ خود اپنی آمدن اور بیلنس میں سے نفلی صدقہ کی جو مقدار مقرر کریں گے ان شاء اللہ وہی ٹھیک ہوگی ۔
فی صد کے لحاظ سے فرضی زکاۃ ( اور فطرانہ ) شریعت نے متعین کردیا ہوا ہے ، اس کے بعد دیگر نفلی انفاق کی صورتوں میں حسب حالت و توفیق
کھلے دل سے اور نہایت محبت و عقیدت سے فی سبیل اللہ خرچ کرنا چاہیئے ،
بقیہ سوالوں کے جواب بھی ان شاء اللہ وقت ملتے ہی لکھنے کی کوشش کرتا ہوں ،